Al Arbaeen Lin Noori
اَلاَرْبَعِیْنَ لِلنُّوْرِی
چالیس حدیثیں:
حدیث پاک میں ہے کہ جس نے میری چالیس احادیث میری امت کو پہنچائیں وہ قیامت والے دن علماء کے گروہ میں اٹھایا جائے گا۔ کئی بزرگوں نے اس حدیث پر عمل کیا اور اس پر کتابیں تحریر کیں۔ ان میں سے الاربعین للغزالی اور للنووی بہت مشہور ہیں۔ جس نے بھی اس کام کا بیڑا اٹھا، کسی نہ کسی چیز کو مد نظر رکھا۔ کسی نے فقہ کو، کسی نے عقیدے کو، کسی نے درود پاک کو، کسی نے ذکر خدا کو، کسی نے قرآن کے تعلم کو۔ وہ سب اپنی جگہ پر بہت اعلی ہیں۔
حدیث پاک میں ہے کہ مجھے جامع کلمات دئیے گئے ہیں۔ یعنی الفاظ مختصر ہوتے ہیں لیکن مفہوم سارے زمانے کو حاوی ہوتا ہے۔ پس میں نے یہ چاہا کہ غربت وقت کے اس دور میں چالیس احادیث کا ایک گلدستہ میں بھی تیار کروں جس کی خوشبو سے آپ محظوظ ہوتے رہیں اور ان پھولوں کو اختصار کے باعث آسانی سے اپنے دل میں اتار سکیں۔ یہ جامع کلمات ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ نہ صرف انہیں پڑھیں بلکہ انہیں یاد کر لیں۔ ہمارے وقت کا یہ ایک بہترین مصرف ہوگا اور ہمارے آقا سے اظہار محبت کا ایک ذریعہ بھی۔
احادیث مبارکہ:
1. اتَّقوا الله واعدِلُوا فِي أولادِكُمْ
اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل کرو۔
مراد یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنی اولادوں میں لڑکا اور لڑکے کی تفریق کرتے ہیں۔ لڑکے کو ہر کام میں فوقیت دیتے ہیں اور لڑکی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکا ہمارے لئے زیادہ کام کا ہے، بیٹی تو آخر کسی دوسرے کا گھر آباد کرے گی۔ اس لئے ہر کام میں بیٹی کو چھوڑ کر بیٹے کو اہمیت دیتے ہیں۔
یہ ایک بہت غلط بات ہے۔ بیٹی ہو یا بیٹا، سب آپ کی اولاد ہیں۔ بنیادی انسانی اور اولادی حقوق میں سب برابر ہیں۔ بلکہ ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے کہ گھر میں کوئی چیز لاؤ تو بیٹی سے ابتداء کرو۔ یعنی بیٹیوں کو فوقیت دو۔ سبحان اللہ! کیا تعلیمات ہیں میرے آقا کی۔ خود قرآن پاک میں فرمایا گیا کہ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔
بیٹیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے، اور وہ حساس بھی بہت ہوتی ہیں۔ اور جوان بیٹیاں تو گھر میں مہمان ہوتی ہیں۔ سمجھدار کیلئے یہ چند باتیں بہت ہیں۔
2. الْيَهُودُ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ وَالنَّصَارَى ضُلاَّلٌ
جن لوگوں پر اللہ کا غضب ہوا، وہ یہودی ہیں اور جو گمراہ ہوگئے وہ نصاری ہیں۔
قرآن پاک میں بہت سی باتیں ہیں جن کی تفصیل ضروری ہوتی ہے۔ یہ غیر واضح کلام الہی نبی کی زبان پر واضح ہوتا ہے۔ آپ جو فرمادیں وہ سب کلام الہی کی تشریح بلکہ وحئ الہی ہے۔
3. المَكْرُ وَالخَدِيَعةُ وَالخِيَانَةُ فِي النَّارِ
مکاری، دھوکے بازی اور خیانت آگ میں یعنی جہنم میں ہیں۔
ایک دوسری حدیث پاک میں فرمایا کہ مؤمن سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جھوٹا اور خائن نہیں ہوسکتا۔ مکاری، دھوکے بازی اور خیانت سب کا تعلق دوسرے لوگوں یا ان کے مال اور سمجھ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس ایک حدیث پر عمل ہوجائے تو پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا ناسور یعنی کرپشن کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوجائے۔
شاید اب آپ کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ ہماری صرف ایک ہی برائی ہے، یعنی دین سے دوری۔
4. المقيم على الزنا كعابد وثن
زنا کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ بتوں کی عبادت کرنے والا۔
یہاں مقیم سے مراد ہے زنا کے گناہ پر قائم رہنے والا، ہزار سمجھانے کے باوجود بھی جو باز نہ آئے اس کا عمل ایسا ہی تو ہے جیسے مشرک کا کہ اسے لاکھ سمجھایا جائے کہ 33 کروڑ خدا نہیں، صرف ایک خدا ہے، لیکن اس کی گمراہی کا نشہ اسے بتوں کی عبادت میں الجھائے رکھتا ہے۔ جو بوڑھا ہوجائے اور پھر بھی اس پر قائم رہے، یہ اللہ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے۔
5. إِذا دَخَلَ البَصرُ فَلَا إِذْنَ
جب نظر داخل ہوگئی تو پھر کیسی اجازت طلبی؟
مراد یہ ہے کہ بہت سے گھروں پر پردہ ڈلا ہوتا ہے۔ اگرچہ آج کل تو دروازے کھلتے ہی نہیں، لیکن امن و امان اور بیخوفی کا ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب گھروں کے دروازوں پر پردے آویزاں رہتے تھے۔ اس وقت لوگوں سے یہ سمجھداری کا فرمان ہوا کہ نظر کا ہی تو پردہ ہوتا ہے، جب نظر ہی گھر میں داخل ہوگئی تو اب اندر آنے کی اجازت طلب کرنے کے کیا معنی؟
6. إتق الله فِي عسرك ويسرك
اپنی تنگی اور خوشحالی ہر دو حالتوں میں اللہ سے ڈرو۔
بہت سے لوگ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ہم فراغت کے زمانے میں دیندار ہوجائیں گے، ابھی تو ہمیں دال روٹی سے ہی فرصت نہیں۔ کس کو پتا ہے کہ ہمیں وہ زمانہ ملے گا بھی کہ نہیں۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ ہر حال میں اللہ کا خوف دل میں موجزن رہے۔
دکھ میں ہر کو ہر بھجے سکھ میں بھجے نہ کوئے
جو کوئی سکھ میں ہر بھجے تو دکھ کا ہے کو ہوئے
7. إتيانُ النِّساءِ فِي أدْبارِهِنَّ حَرامٌ
عورتوں کے پیچھے سے ان کے پاس آنا حرام ہے۔
یہ حدیث مبارکہ تشریح طلب ہے، اور اس کے مخاطب شوہر حضرات ہیں۔ بہتر ہے کہ کسی عالم دین یا مفتی سے اس کی تشریح معلوم کرلی جائے۔
8. إسْتَعِدَّ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِ المَوْتِ
موت سے پہلے مرنے کی تیاری کرلے۔
ابھی کاہے کی جلدی ہے، ابھی تو میرے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ ابھی کس بات کی جلدی ہے، ابھی میری تعلیم تو مکمل ہوجانے دو، ارے اتنی جلدی بھی کیا، میری نوکری تو لگی نہیں، اسی کا فکر لگا ہے، اب نوکری تو ہے، لیکن شادی کہاں ہوئی ہے میری۔ شادی کے بعد اللہ اللہ کرلوں گا۔ یہی سوچتے سوچتے ساری زندگی گزر جاتی ہے اور آدمی مسجد کا منہ نہیں دیکھتا۔
اتنا مصروف ہوجانا کہ اپنے خالق کیلئے بھی آپ کے پاس وقت نہ ہو، یہ نہایت غفلت اور شرم کی بات ہے۔ خالق کی عبادت کیلئے اپنے آپ کو فارغ کریں، موت سے پہلے اپنی آخرت کی تیاری کرلیں ورنہ یہ جہان تو پچاس سال کا ہے، وہ جہان تو وہ ہے کہ اس کا صرف ایک دن ہی پچاس ہزار سال کا ہے۔ یہاں غافل رہے تو وہاں کیسے گزارہ ہوگا۔
شیخ جی کو فکر تھی اک اک کے دس دس کیجئے
موت آپہنچی کہ حضرت جان واپس کیجئے
9. إنّ السّيِّدَ لَا يَكُونُ بَخيلاً
سید کبھی بخیل نہیں ہوتا۔
سید نبی کریم کی اولاد کو کہا جاتا ہے۔ اولاد نبی ہو اور بخل دل میں ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میرے نبی نے کبھی کسی سائل کو نہ نہیں فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں بھی سخاوت ہوتی ہے۔ ایسے ہی تو نہیں کہا جاتا کہ سید بادشاہ۔ یعنی سید بڑے دل والا ہوتا ہے۔
سید قوم کے سردار کو بھی کہا جاتا ہے۔جو سردار ہو، اس پر بخل بالکل نہیں سجتا۔ سردار تو جیتا ہی دوسروں کیلئے ہے تو اس میں بخل اور کنجوسی کیسے رہ سکتے ہیں۔
10. أَبْشِرِي يَا فاطِمَةُ! المَهْدِيُّ مِنْكِ
اے فاطمہ تجھے مبارک ہو کہ مہدی تیری اولاد سے ہوگا۔
امام مہدی تو جب آئیں گے، تب آئیں گے، بیٹی کا دل آج خوش کیا جارہا ہے۔ یہ ہیں امام الانبیاء اور ان کی پیاری بیٹی۔اس حدیث سے وسعت نظر نبی کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کہاں تک دیکھتا ہے۔ کبھی آدم کی خبر دیتے ہیں، کبھی اپنے سے پہلے حضرت عیسی کی اور کبھی قرب قیامت سے پہلے نزول عیسی کی اور کبھی حضرت عیسی کی امامت کرانے والے مہدی کی۔ اور کبھی اس کی کہ ہزاروں سال بعد آنے والے امام مہدی کے خون کی کہ وہ اولاد فاطمہ سے ہونگے۔
سرِ عرش پر ہے تِری گزر،، دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
11. أبْغَضُ الحَلالِ إِلَى الله: الطَّلاقُ
اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال عمل طلاق ہے۔
یہ آسان سے مفہوم کی حدیث ہے۔ ہر کوئی اسے کچھ نہ کچھ سمجھ سکتا ہے۔
12. أحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ
لوگوں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔
یہ حدیث سمجھنے میں جتنی آسان ہے، عمل میں اتنی ہی مشکل ہے۔ اللہ ہمیں اپنے بھائیوں کیلئے وہی پسند کرنے کی توفیق دے جو ہم خود اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔
13. أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى
مونچھوں کو ترشواؤ اور داڑھیوں کو معاف رکھو (یعنی بڑھنے دو)۔
مولوی صاحب، مجھے آپ کی ساری باتیں سننا گوارا ہے، لیکن بس داڑھی رکھنے کا مت فرمائیے گا۔ آپ کی باقی باتیں تو بہت عمدہ ہیں لیکن یہ داڑھی والی بات اس دور میں کافی مشکل ہے۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے جملے آج کل سننے کو مل ہی جاتے ہیں، شاید آپ نے بھی سنے ہوں۔
قاری ریاض احمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا کہ مجھے گلشن کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھانے کا کہا گیا۔ میں بطور خطیب جمعہ پڑھانے گیا تو دیکھا کہ پہلی صف میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جس کے چہرے پر داڑھی کا نور موجود ہو۔ میں نے ایک بیان داڑھی پر کردیا۔ اگلے جمعے کو جب وہاں پہنچا تو ساری مسجد خالی پڑی تھی۔ لوگ اس وقت آنا شروع ہوئے جب عربی خطبے کا وقت ہوا۔ یعنی لوگوں نے خاموش احتجاج کرکے بتا دیا کہ اگر آپ نے اس موضوع پر کوئی بات کی تو ایک بھی سننے والا نہیں ملے گا۔ اللہ اکبر! ہم کہاں کھڑے ہیں؟ خود ہی اپنے گریبان میں جھانک لیں تو اچھا ہے۔
14. أصْدَقُ الحَدِيثِ مَا عُطِسَ عِنْدَهُ
سب سے سچی بات وہ ہے جس کے پاس (کسی کو) چھینک آجائے۔
چھینک گواہ عادل ہے۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر بات کے دوران محفل میں کسی کو چھینک آجائے تو یہ بات کے سچا ہونے کی دلیل ہے۔ یہ حدیث بھی کثیر مفہوم رکھتی ہے، بہتر ہے کہ کسی عالم سے رہنمائی ضرور لیں۔
15. أفْضَلُ السَّاعاتِ جَوْفُ اللَّيْلِ الأَخِيرِ
سب سے بہترین ساعت رات کا اخیر پہر ہے۔
رات کا پچھلا پہر جو صبح صادق سے ملا ہوتا ہے، دن رات کی سب سے بہترین ساعت ہوتی ہے۔ لوگ محو استراحت ہوتے ہیں۔ زندگی کے دیگر کارخانے بند ہوتے ہیں، ساری مشینیں بھی خاموش ہوتی ہیں، اور بندہ بھی آرام کے بعد تازہ دم ہوتا ہے، تو یہ وقت تو صرف نصیب والوں کو ملا کرتا ہے۔ مانگ لو جو مانگنا ہے، رحمت خداوندی کی ندا عام ہے۔
عجبا للمحب كيف ينام
قم قم يا حبيبي كم تنام
16. لِكُلِّ نَبِيَ حَرَمٌ وَحَرَمِي الْمَدِينَةُ
ہر نبی کا حرم ہوتا ہے اور میرا حرم مدینہ طیبہ ہے۔
مدینہ مدینہ ہے، عاشقوں کی آرزوؤں اور امنگوں کا مرکز، سرکار دوعالم کی آرامگاہ، خالق کائنات کی توجہ کا قبلہ۔اور ہم جیسے گنہگاروں کی امیدوں کا اور نجات کا ایک وسیلہ۔
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا؟
ارے سر کا موقع ہے اور جانے والے
17. لِلصَّائِمِ عِنْدَ إِفْطَارِهِ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ
روزہ دار کیلئے افطار کے وقت ایک مقبول دعا ہے۔
روزہ دار اللہ کو محبوب ہوتا ہے، محبوب کو کب خالی لوٹایا جاتا ہے۔ صائم ہر روز اللہ کیلئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ بھی تو اپنے صائم کیلئے اپنی عطا کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ ہر روز اس کیلئے ایک ایسی دعا ہے جو اللہ قبول فرماتا ہے۔ ایسی ہی ایک دعا ختم قرآن کرنے والے کیلئے بھی ہے۔ اور حضرت مظہر صاحب نے فرمایا کہ تجرید البخاری کا جو ختم کرلے، اس کیلئے بھی اور جو عرس پر آئے اس کیلئے بھی ایک مقبول دعا ہے، جو چاہے مانگ لے۔
ہیں آج وہ مائل بہ عطا، اور بھی کچھ مانگ
دیتا ہے کرم ان کا صدا اور بھی کچھ مانگ
18. لِلصَّفِّ الأَوَّلِ فَضْلٌ عَلَى الصُّفُوفِ
صف اول تمام صفوں سے افضل ہے۔
یہ نمازوں کے بارے میں میں ہے کہ جو صف اول میں ہوتا ہے عموما اسے تکبیر اولی کی سعادت مل ہی جاتی ہے۔ اور اس حدیث کو تمام نیکیوں کے بارے میں بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا کیا مقام ہوگا کیونکہ وہ سب اولین سابقین تھے۔ اللہ ہمیں ان کی برکت سے نمازوں میں، نیکیوں میں، اور ہر اچھے کام میں صف اول نصیب فرمائے اور برائیوں میں ہمیں سب سے پیچھے رہنا عطا فرمائے۔ آمین!
19. لاَ تَجْمَعُوا بَيْنَ اسْمِي وَكُنْيَتِي
میرے نام اور کنیت کو ایک ساتھ جمع نہ کرو۔
یہ نومولود کا نام رکھنے کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک محمد اور کنیت ابو القاسم ہے۔ تو کسی نومولود کا نام محمد رکھا جاسکتا ہے، ابو القاسم رکھا جا سکتا ہے، لیکن محمد ابو القاسم نہ رکھا جائے۔
20. لاَ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ وَلاَ بِالطَّوَاغِيتِ
نہ تو اپنے باپ داداؤں کی قسم کھاؤ اور نہ ہی بتوں کی قسمیں۔
جن سے محبت ہوتی ہے، ان کی قسم کھائی جاتی ہے۔ لیکن جو مسلمان ہوجائے، اسے بتوں سے محبت نہیں رہتی بلکہ اسے نفرت ہوجاتی ہے۔ اس لئے بتوں کی قسمیں کھانے سے روک دیا گیا۔ اور مسلمانوں کو باپ دادوں سے زیادہ اللہ سے محبت ہوتی ہے اس لئے کسی اور کی قسم کیوں کھائی جائے۔ یاد رہے کہ عربوں کو بات بات پر قسم کھاکر اپنی بات کی توکید کی عادت تھی، اسی عادت کی غلط چیزوں کی یہاں اصلاح فرمائی جا رہی ہے اور آئندہ کیلئے قانون بھی وضع فرمایا جا رہا ہے۔
21. لاَ تَذْكُرُوا هَلْكَاكُمْ إِلاَّ بِخَيْرٍ
اپنے مردوں کا صرف خیر سے ذکر کیا کرو۔
جو دنیا سے گزر گیا، آپ سے اس کا کیسا ہی تعلق تھا، اب تو وہ دوسری دنیا میں پہنچ گیا، اب اسے صرف اچھے القاب اور خیر کے ساتھ یاد کیا جائے۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے اور یہی اکرام المسلمین ہے۔
22. لاَ تَشْغَلُوا قُلُوبَكُمْ بِذِكْرِ الدُّنْيَا
اپنے دلوں کو دنیا کے ذکر سے مت مشغول کیا کرو۔
اپنے دلوں کو دنیا کے ذکر میں مشغول نہ کریں، یہ فضول لوگوں کا کام ہے۔ کام ختم ہوگیا، سر دست کوئی کام نہیں، تو ذکر خدا سے بڑھ کر فراغت کا بہترین مصروف اور کیا ہوگا۔ جو اپنے قلب کو ذکر خدا میں مشغول نہیں رکھتا، وہ فضول باتوں میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اپنے دلوں کو اللہ کی یاد دلاتے رہو۔
23. لاَ تَصُومُوا يَوْمَ الجُمُعَةِ مُفْرَداً
صرف تنہا جمعہ کے دن کا روزہ مت رکھا کرو۔
جمعہ غریبوں اور مساکین کا حج ہے، جمعہ مسلمانوں کی عید ہے، عید کے دن سوائے شیطان کے اور کون بھوکا رہنا پسند کرے گا؟ صرف جمعے کا روزہ مت رکھیں، رکھنا ہی ہے تو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی رکھ لیا کریں تاکہ روزہ بھی ہوجائے اور اس حدیث پر عمل کا ثواب بھی مل جائے۔
24. لاَ تُؤَخِّرُوا الجَنَازَةَ إِذَا حَضَرَتْ
جنازہ آجائے تو تدفین میں تاخیر مت کیا کرو۔
ہر ایک کو اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے، جو دنیا سے گزر گیا اب وہ لوگوں کا محتاج ہوگیا کہ اسے جلدی اس کی منزل پر پہنچادیں۔ اس جلدی میں بہت حکمتیں ہیں۔ لیکن اس جلدی سے مراد مشین کی طرح نہیں، انسان کی طرح جلدی کرنا مراد ہے۔ میں نے مسجد نبوی میں ایک دن عصر کی نماز میں دو جنازے دیکھے، دو نمازیں ہوئیں، پہلا جنازہ پڑھا گیا تو لوگ اسے اٹھانے بلکہ پھینک آنے کیلئے دوڑے، دوسرا جنازہ بھی بنا کسی تاخیر کے اٹھایا گیا، لیکن اس کے اٹھانے والے متانت اور وقار سے اسے اٹھا کر جنت البقیع کی طرف لے گئے۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم میرے دل میں گونجا کہ نماز کیلئے بھی دوڑ کر نہ آؤ بلکہ سکون اور وقار کے ساتھ نماز کو آؤ، جو مل جائے اس میں شامل ہوجاؤ، جو رہ جائے اسے پورا کرلو۔ دوسرا جنازہ اسی کا مظہر تھا۔
25. لاَ تُؤْذُوا مُسْلِماً بِشتْمِ كَافِرٍ
کسی کافر کو سب و شتم کرکے (گالی دے کر) کسی مسلمان کو ایذا مت دو۔
لوگوں کے ایک دوسرے سے رشتے ہوتے ہیں۔ اسلام آیا تو شروع میں ایک گھر سے ایک فرد یا دو افراد اسلام لاتے تھے، بعد کو تو سارا عرب ہی مسلمان ہوگیا تھا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ کسی مسلمان کے سامنے اس کے کافر رشتہ دار کو گالی دو گے تو اسے تکلیف تو ہوگی۔ اس لئے منع فرما دیا گیا اور ایک عام قانون بھی دے دیا۔
26. لاَ خَيْرَ فِيمَنْ لاَ يُضِيفُ
جس میں مہمان نوازی نہیں، اس میں کوئی بھلائی نہیں۔
مہمان نوازی میں خرچ کرنا اسراف میں نہیں آتا۔ لیکن اب وہ دور لد گئے۔ اب آپ اپنی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ مہمان نوازی تو دور کی بات ہے، اب ہمارے شیڈول میں مہمانوں کیلئے کوئی وقت نہیں بچا۔ مہینے بھر کا شیڈول دیکھ لیں اور پھر خود ہی اندازہ لگالیں۔ اللہ ہمیں مہمانوں کی قدر کرنا نصیب کرے۔
27. لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ
ہمارا (انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔
یہ دنیاوی مال و دولت کی بات ہے جو ترکہ بنتا ہے۔ انبیاء کا ترکہ اول تو اتنا ہوتا نہیں، اور ہو بھی تو وہ رشتہ داروں کے بجائے پوری امت کیلئے وقف ہوتا ہے۔ ہاں ان کا ترکہ علم ہوتا ہے جس کے وارث علماء ہوتے ہیں۔
28. لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيَ وَشَاهِدَيْنِ
ولی اور گواہان کے بنا کوئی نکاح نہیں ہوتا۔
کتنا سادہ سا فرمان ہے میرے آقا کا۔ لیکن نہایت پر مغز اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ اس مختصر سی پوسٹ میں اس سے زیادہ اور کیا بیان کروں کہ اس کی تعریف کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں۔
29. لاَ يَدْخُلُ الجَنَّةَ إِلاَّ رَحِيمٌ
سوائے رحم دل کے اور کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔
30. لاَ يَدْخُلُ المَدِينَةَ المَسِيحُ وَالطَّاعُونُ
دجال اور طاعون کبھی مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔
مدینہ مدینہ ہے۔ شفاعت کے لحاظ سے بھی، اطاعت کے لحاظ سے بھی اور تا قیامت حفاظت کے اعتبار سے بھی۔ دجال تو کجا، دجال کا رعب تک مدینے میں داخل نہیں ہو سکتا۔ صرف شاہی سیکیوریٹی گارڈ ہی نہیں، بلکہ اللہ کے معصوم اور طاقتور گارڈ بھی اس کی حفاظت پر معمور ہیں۔ اور ستر ستر ہزار تو صرف اس آقا کی بارگاہ میں سلام کیلئے صبح و شام حاضری دیتے ہیں۔ وہ سب باب البقیع سے سلام کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔ میں نے اعلی حضرت اور مفتی احمد یار خان نعیمی کو اسی دروازے سے داخل ہوتے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
31. لاَ يَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُصَلِّيَ
تم میں سے کوئی عید کی نماز سے پہلے قربانی نہ کرے۔
عید کی نماز نبی پڑھاتا ہے۔ نبی نماز میں مصروف تھے، کسی نے قربانی کرلی، یعنی نبی کی قربانی سے پہلے۔ اللہ کو یہ کب گوارہ ہو سکتا تھا کہ کوئی میرے حبیب کے ہوتے، ان کی قربانی سے پہلےاپنا جانور قربان کرڈالے۔ اس لئے فورا ہی آسمانی تنبیہ اور ڈانٹ نازل ہوگئی کہ اے ایمان والو، اللہ اور اس کے نبی سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔ اور اس حدیث میں پیار سے سمجھا دیا گیا کہ تم میں سے کوئی عید کی نماز سے پہلے قربانی نہ کرے۔
32. لاَ يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلاَّ طَاهِرٌ
قرآن کو طاہر (غسل و وضو والا) کے سوا کوئی نہ چھوئے۔
اسلام اور دیگر مذاہب میں فرق ہے۔ دیگ مذاہب صرف حصول علم کی بات کرتے ہیں، اسلام پاکیزگی والے علم کی بات کرتا ہے۔ جتنی پاکیزگی زیادہ ہوگی، اتنی ہی اعلی باتیں آپ پر روشن ہونگی۔ اسی لئے قرآن کو وہی چصوئے جو پاک و پاکیزہ ہو، ورنہ جو کچھ حاصل ہوگا، اس کا فائدہ غیر یقینی ہے۔
ایک بار میں نے اپنے آفس میں کہہ دیا کہ قرآن کو بے وضو چھونا حرام ہے۔ باقی لوگ تو شاید یہ بات جانتے تھے، لیکن ایک صاحب بدک کر کہنے لگے کہ کیا 14 سو سال بعد نیا اسلام لا رہے ہو؟ مجھے سمجھ آگیا کہ کیا ہوا ہوگا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا تھا کہ کسی فقیہ سے رجوع کریں۔
33. مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ
زمزم اسی لئے ہے جس کیلئے پیا جائے۔
یعنی پیاس ہے تو پانی کا کام کرے گا، بھوک ہے تو دودھ کا، بیماری ہے تو شفاء کا، محبت ہے تو جام محبت کا۔ یہ اپنا اپنا نصیب ہے، کسی کو آب زمزم ملتا ہے اور کسی کو گدلا پانی۔ جو آب زمزم محبت سے پیتا ہے اس کے دل میں معرفت کے چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔ یہ بات ابھی تک کتابوں میں درج نہیں۔ یا میرے علم میں نہیں۔
34. مَنِ ارْتَدَّ عَنْ دِينِهِ فَاقْتُلُوهُ
جو مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔
یہ آسان سی بات ہے سمجھنے کیلئے، لیکن بطور قانون اس کا نفاذ نہ صرف مشکل بلکہ بہت تشریح طلب ہے۔ بہتر ہے کہ علم والوں سے رجوع کیا جائے۔
35. مَنْ آذَى عَلِيّاً فَقَدْ آذَانِي
جس نے علی کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی۔
علی عرب کے سردار ہیں، اللہ کے شیر ہیں، نبی کا بازو اور آپ کے خصوصی دستے کے کمانڈو ہیں۔ وہ مشکل مرحلہ جہاں دوسرے کامیاب نہ ہوں، علی جیسے جوان کو وہاں بھیجا جاتا ہے، اور وہ کامیاب لوٹتے ہیں۔ ایسے میں جو آپ کو ایذاء پہنچائے تو بیشک اس نے نبی کو ایذا پہنچائی۔ اللہ ہمیں آپ کی بے انتہا محبت عطا فرمائے اور جن کو آپ نے اپنا شیخ اور امیر سمجھا، ہمیں بھی ان کی تعظیم کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
36. مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
جو کسی قوم سے مشابہت کرے، وہ انہیں میں سے ہے۔
آدمی اسی کے ساتھ ہوتا ہے جس سے محبت کرتا ہے۔ اسی کے طور طریقے اختیار کرتا ہے جسے عظیم اور اعلی سمجھتا ہے۔ چاہے فرد سے مشابہت ہو یا کسی قوم سے۔ قلبی تعلق ضرور ہوتا ہے۔ تو جس کے ساتھ قلبی تعلق ہے، بندہ انہی میں سے کہلایا جاتا ہے۔
37. مَنْ تَوَاضَعَ لله رَفَعَهُ الله
جو اللہ کیلئے عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔
اللہ کیلئے عاجزی کا لازمی نتیجہ رفعت ہے۔ اگر عاجزی سے مزید ذلت میں اضافہ ہو تو اپنے آپ کو اور اپنے ارادوں اور نیتوں کو ایک بار ضرور چیک کریں۔ اللہ کی خاطر عاجزی ہوگی تو رفعت لازمی نصیب ہوگی۔ یہ صرف قول نہیں، بلکہ قانون فطرت ہے۔ ورنہ عاجزی تو ہر دکاندار اور ماتحت کرتا ہے۔ لیکن وہ عاجزی صرف وقتی نفع کیلئے ہوتی ہے۔ یہی اللہ کی خاطر ہو تو دونوں جہانوں میں سرخروئی کا باعث ہو۔ اللہ ہمیں سچی عاجزی کی توفیق عطا کرے۔ آمین!
38. مَنْ حَلَفَ فَلْيَحْلِفْ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ
جو قسم کھائے وہ صرف رب کعبہ(اللہ) کی قسم کھائے۔
مسلمان سب سے بڑھ کر پیار اور سب سے بڑھ کر محبت اللہ سے کرتے ہیں۔ جسے سے ایسی سچی محبت ہو، قسم اسی کی کھائی جاتی ہے۔ دوسروں کی قسم کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ اور عربوں کے برعکس ہمارے معاشرے میں قسم کی عادت نہیں تو کیا ضرورت ہے اللہ کی بھی قسم کھانے کی۔ صرف انتہائی ضرورت کے مواقع پر یہ قسم کھائی جائے۔ اور اپنے کلام کو قسم سے پاک کر لیا جائے۔
39. مَنْ صَلَّى الْبَرْدَيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ
جس نے دو ٹھنڈی نمازیں پڑھیں وہ جنت میں داخل ہوگیا۔
فجر اور عصر دو ٹھنڈی نمازیں ہیں۔ ان دونوں کا تذکرہ قرآن پاک میں قسم کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ دو دوسری نمازوں کے برعکس کچھ اور خصوصیات بھی رکھتی ہیں۔ تاہم اب نماز پنجگانہ کا حکم ہے۔ نماز پنجگانہ ادا کرو گے تو دونوں ٹھنڈی نمازیں اس میں آپ ہی آپ آجائیں گی۔
40. مَنْ لاَ يَرْحَمُ لاَ يُرْحَمُ
جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
سب مجھے پیار کریں، میں کسی کو پیار نہ کروں، سب میرا خیال رکھیں، میں کسی کا خیال نہ رکھوں، سب میری عزت کریں، میں کسی کی عزت نہ کروں۔۔۔ سچ بتائیں کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ نہیں ناں، تو اسی طرح اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ دنیا و آخرت میں کرم اور رحم کا معاملہ ہو تو آپ بھی لوگوں کے ساتھ، بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی رحم کا برتاؤ کریں۔
پچھلی امتوں میں ایک فاحشہ تھی۔ کوئی عیب نہ تھا کہ اس میں نہ ہو۔ ایک بار ایک کتے کو دیکھا کہ پیاس سے بے حال ہے، کنویں کے پاس پڑا ہانپ رہا ہے۔ اسے رحم آیا، اپنے دوپٹے کو پھاڑا اور اپنے (چمڑے کے) موزوں میں دوپٹے کی مدد سے کنویں سے نکال کر اسے پانی پلایا۔اللہ کو اس فاحشہ کی یہ ادا بڑی پسند آئی، حدیث پاک میں فرمایا کہ اسے اسی ایک بات اور ایک عمل پر بخش دیا گیا۔
کرو مہربانی ،،تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
اس گیارہویں شریف پر میرے 4065 الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ
ایک رسالے کا اوسط حجم 3 سے 5 ہزار الفاظ تک ہوتا ہے۔ مظہر الایمان میں ساڑھے چھے ہزار الفاظ ہیں۔ یہ پوسٹ اپنی طوالت کے اعتبار سے دعوت اسلامی کے رسالے "تذکرۂ امام احمد رضا" کے تقریبا برابر ہے۔ اسے اور کسی بھی تین ہزار سے زائد الفاظ والی پوسٹ کو ایک رسالہ ہی سمجھیں۔ شکریہ
جواب دیںحذف کریںاتنےخوبصورت تحفے کا شکریہ۔ آپ نوریوں کی تربیت کا ایسی خیال رکھتے ہیں جیسے کوئی ماں اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ پیاری، ایسی باتیں لکھنے والے کا ڈھیروں خون بڑھا دیتی ہیں۔
حذف کریںبہت خوب شیخ صاحب۔ کچھ حدیث میرے لئے نئی ہیں پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ ﷻ
حذف کریں