Cards, Chess & Chaucer

پہلا سوال: (از فیروز پورہ ربیع الاول۱۳۱۰ھ)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ گنجفہ، چوسر شطرنج کھیلنا کیسا ہے اور ان میں کچھ فرق ہے یاسب ایک سے ہیں ،اور گناہ صغیرہ ہیں یا کبیرہ؟ یا عبث؟ اور فعل عبث کا کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرمائیے اور اجر پائیے۔)

الجواب:
یہ سب کھیل ممنوع اور ناجائز ہیں اور ان میں چوسر اور گنجفہ بدتر ہیں ،گنجفہ میں تصاویر ہیں اور انہیں عظمت کے ساتھ رکھتے اور وقعت و عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ امر اس کے سخت گناہ کا موجب ہے۔
اس کے بعد امام احمد رضا فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک شطرنج کھیلنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور ان کو مباح قرار دینے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شیطان کو امداد فراہم کرنا ہے۔
اوراسی طرح جبکہ دورانِ کھیل زیادہ قسمیں نہ کھائی جائیں، اور بغیر ان چیزوں کے آدمی کی عدالت ساقط نہیں ہوتی کیونکہ اس کی حرمت میں اہلِ علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
عالمگیری میں ہے: شطرنج اور چوسر اور تیرہ اور چودہ کا کھیل مکروہ ہے اور شطرنج کے علاوہ ہر کھیل بالاتفاق حرام ہے اور شطرنج کھیلنا بھی ہمارے نزدیک حرام ہے۔ اور وہ شخص جوکھیے اگر جوئے کی بازی لگائے توا کی عدالت ساقط ہوجائے گی لہذا اس کی گواہی قبول نہ ہوگی۔
درمختارمیں ہے:
وکرہ کل لھو لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلثۃ: ملاعبتہ باھلہ،  وتادیبہ للفرسہ، ومناضلتہ بقوسہ
یعنی یوں تو ہر کھیل مکروہ ہے اس لئے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا مسلمان کا ہر کھیل حرام ہے سوائے تین کے، خاوند کا اپنی اہلیہ سے کھیلنا ،اپنے گھوڑے کو شائستگی سکھاتے ہوئے اس سے کھیلنا، اپنی کمان کے ساتھ تیر اندازی کرنا۔

دوسرا سوال:
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تاش و شطرنج کھیلنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :
دونوں (تاش و شطرنج) ناجائز ہیں اور تاش زیادہ گناہ و حرام کہ اس میں تصاویر بھی ہیں۔
ومسألۃ الشطرنج مبسوطۃ فی الدر وغیرہا من الحظر والشہادات، والصواب اطلاق المنع کما اوضحہ فی رد المحتار واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
یعنی شطرنج کا مسئلہ بڑی تفصیل کے ساتھ در مختار وغیرہ میں موجود ہے اور صواب (درست اور حقیقت) یہ ہے کہ اس کی مطلقاً ممانعت ہے جیسا کہ فتاوٰی شامی میں اس کی وضاحت فرمائی گئی۔ اور اﷲ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے اور اس کا علم نہایت درجہ تام اور پختہ ہے۔

تیسرا سوال:
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ گنجفہ، شطرنج، تاش، بھگو کھیلنے والے کے واسطے کیا حکم ہے؟ 
جواب:
گنجفہ تاش حرام مطلق ہیں کہ ان میں علاوہ لہوولعب کے تصویروں کی تعظیم ہے اور بگھور یا جیون کمینوں کا کھیل ہے اور منع اور صحیح یہ ہے کہ شطرنج بھی جائز نہیں مگر چھ شرطوں سے:
 اَوّلاً بد کر نہ ہو۔ ثانیاً اس پر قسم نہ کھائی جائے۔ ثلاثا فحش نہ بکا جائے۔ رابعاً اس کے سبب نماز یا جماعت میں تاخیر نہ کی جائے۔ خامساً سراہ نہ ہو گوشے میں ہو۔ سادساً نادراً کبھی کبھی ہو۔
پہلی تین شرطیں تو آسان ہیں مگر پچھلی تین پر عمل نادر ہے بلکہ ششم پر عمل سخت دشوار ہے شوق کے بعد نادراً ہونا کوئی معنی ہی نہیں لہٰذا راہ سلامت یہ ہے کہ مطلقاً منع ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
نتیجہ:
 اعلی حضرت کے ان فتاوی سے یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ تاش یا پتے کھیلنا در حقیقت شطرنج سے بھی زیادہ سخت حکم رکھتا ہے۔ اور لوگ اس کی طرف سے بہت غافل ہیں۔ رات رات بھر گزر جاتی ہے، لمبے سفر میں اس کا کھیلنا ناگزیر ہوتا تھا۔ یہ تاش شطرنج سے کہیں زیادہ قبیح ہے۔ اور اعلی حضرت نے چند شرائط کے ساتھ اس کا کھیلنا جائز پر رکھا ہے۔ جیسا کہ آپ نے اس فتاوی کے آخر میں فرمایا ہے۔
یہ تمام مسائل فتاوی رضویہ میں موجود ہیں، جو چاہے تلاش کرسکتا ہے۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع