Indistinct Personalities (Part 2 of 5)

مبہم کلمات سے انبیائے کرام کا تذکرہ
سب سے پہلا گروہ جسے بوجوہ مبہم کلمات سے ذکر کیا گیا وہ انبیائے کرام کا مقدس گروہ ہے۔ وہ  مبہم کلمات جن سے مراد انبیائے کرام ہیں، علامہ سیوطی نے ان کو اپنی مشہور عالم کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں جمع فرمایا ہے، یہاں کچھ تفصیل کے ساتھ درج کئے جاتے ہیں۔

 إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً : اس سے مراد حضرت آدم ہیں۔ یہاں پروردگار نے آدم علیہ السلام کیلئے خلیفہ کا لفظ استعمال کیا جو اسم ہے۔
 وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ : اس سے مراد النَّبِيّ  صَلَّى اللَّه  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہیں۔ یہاں اللہ جل جلالہ نے رسول کا لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے استعمال کیا جو اسم ہے۔
 إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ : یہ حضرت شَمْوِيل ہیں۔ اور حضرت شَمْعُونَ اور حضرت  يُوشَع   کا نام بھی اس بارے میں لیا گیا ہے۔ یہاں اللہ عزوجل نے حضرت شموئیل یا حضرت یوشع کیلئے نبی کا کلمہ استعمال کیا جو کہ ایک اسم ہے۔
 مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ : حضرت مُجَاهِد فرماتے ہیں کہ یہ حضرت مُوسَى ہیں۔ یہاں اللہ نے "جس سے اللہ نے کلام فرمایا" کے پورے جملے سے حضرت موسی علیہ السلام مراد ہیں۔
 وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ : یہ ہمارے پیارے آقا حضرت مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہاں اللہ نے "بعض کے درجات بلند فرمائے" کے جملے سے اپنے حبیب کا ذکر فرمایا۔
 أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ : حضرت عُزَيْرٌ ہیں اور حضرت أَرْمِيَاء  اور حضرت حِزْقِيل  کا نام بھی لیا گیا ہے۔
 مُنَادِياً يُنَادِي لِلإِيمَانِ : یہ منادی جو ایمان کیلئے ندا کرتے ہیں، یہ  حضرت مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّه  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہیں۔
 أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ : یہ حضرت مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّه  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہیں۔ یہاں وصف کامل کے ذریعے آپ کی تعظیم کی گئی ہے۔
 فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ : برادران یوسف نے "اس کے بھائی نے پہلے بھی چوری کی ہے" کہہ کر اس سے یوسف علیہ السلام کی مراد کی تھی۔
 أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي : یہاں حضرت ابراہیم کے فرمان "میری اولاد" سے مراد حضرت اسماعیل ہیں۔ انہی کو آپ نے مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں اللہ کے حکم سے چھوڑا تھا۔
 قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ : یہاں فتاہ سے مراد حضرت مُوسَىٰ کے جواں سالہ ساتھی اور خدم حضرت يُوشَع  بْن  نُونٍ ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد اس کا بھائی یثرب تھا۔
 فَوَجَدَا عَبْداً : یہ بندے (عبد) حضرت ْخَضِر  تھے جن کا نام بَلْيَا تھا۔
 فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا : حضرت مریم یا کھجور کے درخت کے تحت سے یہ پکارنے والے حضرت عِيسَى یا حضرت جِبْرِيل تھے۔
 وَحَمَلَهَا الأِنْسَانُ : حضرت ابْن  عَبَّاس فرماتے ہیں کہ یہاں امانت اٹھانے والے انسان سے مراد حضرت آدَم  علیہ السلام ہیں۔
 فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلامٍ : یہاں "ہم نے انہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دی" میں بیٹے سے مراد حضرت إِسْمَاعِيل یا حضرت إِسْحَاق تھے۔ علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول مشہور ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ترجمے میں ہے کہ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔  یہ سورت صافات کی آیت کا جزو ہے۔
 وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ : سچ لانے والے حضرت مُحَمّد یا حضرت جِبْرِيل علیہ السلام ہیں۔
 وَصَدَّقَ بِهِ : "اور جس نے اس کی تصدیق کی" سے مراد حضرت مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّه  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یا حضرت أَبُو بكر صدیق ہیں۔
 وَبَشَّرُوهُ بِغُلامٍ عَلِيمٍ : كِرْمَانِي کہتے ہیں کہ مفسرین کا اجماع ہے کہ "ہم نے انہیں علم والے لڑکے کی خوشخبری دی" میں بیٹے سے مراد حضرت إِسْحَاق  ہیں سوائے مُجَاهِد کے جو فرماتے ہیں کہ یہ حضرت إِسْمَاعِيل تھے۔ اور عرفان القرآن میں بھی یہی ترجمہ اختیار کیا گیا ہے۔یہ آیت سورت ذاریات کی ہے۔
 هَلْ أَتَىٰ عَلَىٰ الأِنْسَانِ : یہ انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے۔
 لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ : یہاں حضرت جِبْرِيل یا حضرت مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّه  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو رسول کہا گیا ہے۔
 وَوَالِدٍ : یہاں والد سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
 فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ : یہاں رسول اللہ سے مراد حضرت صالح علیہ السلام ہیں۔
 الَّذِي يَنْهَى عَبْداً : "جو ہمارے بندے کو روکتا ہے" میں منع کرنے والا أَبُو جَهْل اور ہمارے بندے سے مراد رسول اللہ صَلَّى الله عليه وسلم ہیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع