Koh-e-Qaaf

ذکر کوہ قاف کا
پہاڑ جبل قاف کے ریشے
زلزلے کیوں آتے ہیں؟
اصلی باعث آدمیوں کے گناہ ہیں ، اور پیدا يوں ہوتا ہے کہ ایک پہاڑ تمام زمین کو محیط ہے اور اس کے ریشے زمین کے اندر اندر سب جگہ پھیلے ہوئے ہیں جیسے بڑے درخت کی جڑیں دور تک اندر اندر پھیلتی ہیں، جس زمین پر معاذ اللہ زلزلہ کا حکم ہوتا ہے وہ پہاڑ اپنے اس جگہ کے ریشے کو جنبش دیتا ہے  زمیں ہلنے لگتی ہے۔
المستدرك على الصحيحين للحاكم:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " إِنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ خَلْقَهُ اللَّهُ الْقَلَمُ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ، فَقَالَ: وَمَا أَكْتُبُ؟ فَقَالَ: الْقَدَرُ، فَجَرَى مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، قَالَ: وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ فَارْتَفَعَ بُخَارُ الْمَاءِ فَفُتِقَتْ مِنْهُ السَّمَاوَاتُ، ثُمَّ خَلَقَ النُّونَ فَبُسِطَتِ الْأَرْضُ عَلَيْهِ، وَالْأَرْضُ عَلَى ظَهْرِ النُّونِ فَاضْطَرَبَ النُّونُ فَمَادَتِ الْأَرْضُ، فَأُثْبِتَتْ بِالْجِبَالِ، فَإِنَّ الْجِبَالَ تَفْخَرُ عَلَى الْأَرْضِ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
اللہ عزوجل نے ان مخلوقات میں سب سے پہلے قلم پیدا کیا اور اس سے قیامت تک کے تمام مقادیر لکھوائے اور عرش ِ الہی پانی پر تھا۔ پانی کے بخارات اٹھے ان سے آسمان جدا جدا بنائے گئے  پھر مولیٰ عزوجل نے مچھلی پیدا کی اس پر زمین بچھائی ، زمین پشت ِ ماہی پر ہے، مچھلی تڑپی ، زمین جھونکے لینے لگی۔ اس پر پہاڑ جما کر بوجھل کردی گئی۔
اور زلزلوں کی وجہ وقوع کوہ قاف کے ریشہ کی حرکت ہے۔ حق  سبٰحنہ و تعالٰی نے تمام زمین کو محیط ایک پہاڑ پیدا کیا ہے جس کا نام قاف ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اس کے ریشے زمین میں نہ پھیلے ہوں ۔جس طرح پیڑ کی جڑ بالائے زمین تھوڑی سی جگہ میں ہوتی ہے اس کے ریشے زمین کے اندر اندر بہت دور تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں کہ اس کے لیے وجہ قرار ہوں اور آندھیوں میں گرنے سے روکیں۔ پھر پیڑ جس قدر بڑا ہوگا اتنی ہی زیادہ دور تک اس کے ریشے گھیریں گے۔ جبل قاف جس کا دور تمام کرہ زمین کو اپنے پیٹ میں لیے ہے اس کے ریشے ساری زمین میں اپنا جال بچھائے ہیں۔ کہیں اوپر ظاہر ہو کر پہاڑیاں ہوگئے کہیں سطح تک آکر تھم رہے جسے زمین سنگلاخ کہتے ہیں۔ کہیں زمین کے اندر ہے قریب یا بعید ایسے کہ پانی کی چوان سے بھی بہت نیچے ان مقامات میں زمین کا بالائی حصہ دور تک نرم مٹی رہتا ہے۔ جسے عربی میں سھل کہتے ہیں۔ ہمارے قرب کے عام بلاد ایسے ہی ہیں مگر اندر اندر قاف کے رگ و ریشہ سے کوئی جگہ خالی نہیں۔
یا (دوسری وجہ یہ ہے کہ) عنف حرکت سے مادہ کبریتی مشتعل ہو کر شعلے نکلتے ہیں چیخوں کی آواز پیدا ہوتی ہے۔   زمین کے نیچے رطوبتوں میں حرارت شمس کے عمل سے بخارات سب جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور بہت جگہ دخانی مادہ ہے، جنبش کے سبب منافذِ زمین متسع ہو کر وہ بخار و دخان نکلتے ہیں، طبعیات میں پاؤں تلے کی دیکھنے والے انہیں کے ارادہ خروج کو سبب  زلزلہ سمجھنے لگے حالانکہ اُن کا خروج بھی سبب زلزلہ کا مسبب ہے۔
جس جگہ زلزلہ کے لیے ارادہ الہی عزوجل ہوتا ہے۔  والعیاذ برحمتہ ثمہ برحمۃ رسولہ جل وعلا وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ( اللہ تعالی جل جلالہ کی پناہ اس کی رحمت کے ساتھ اور اس کے رسول اللہ  َؐ کی رحمت کے ساتھ) قاف کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے وہاں کے ریشے کو جنبش دیتا ہے۔ صرف وہیں زلزلہ آئے گا جہاں کے ریشے کو حرکت دی گئی۔ پھر جہاں خفیف کا حکم ہے اس کے محاذی ریشہ کو آہستہ ہلاتا ہے اور جہاں شدید کا امر ہے وہاں بقوت، یہاں تک کہ بعض جگہ صرف ایک د ھکا سا لگ کر ختم ہو جاتا ہے۔ اور اسی وقت دوسرے قریب مقام کے درو دیوار جھونکے لیتے اور تیسری جگہ زمین پھٹ کر پانی نکل آتا ہے۔
العقوبات لابن أبي الدنيا (ص: 32)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ جَبَلًا يُقَالُ لَهُ قَافٌ، مُحِيطٌ بِالْعَالَمِ، وَعُرُوقُهُ إِلَى الصَّخْرَةِ الَّتِي عَلَيْهَا الْأَرْضُ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُزَلْزِلَ قَرْيَةً أَمَرَ ذَلِكَ الْجَبَلَ يُحَرِّكُ الْعِرْقَ الَّذِي يَلِي تِلْكَ الْقَرْيَةِ، فَيَتَزَلْزَلُهَا وَيُحَرِّكُهَا، فَمِنْ ثَمَّ يُحَرِّكُ الْقَرْيَةَ دُونَ الْقَرْيَةِ»
اﷲ عزوجل نے ایک پہاڑ پیدا کیا جس کا نام ق ہے، وہ تمام زمین کو محیط ہے اور اس کے ریشے اس چٹان تک پھیلے ہیں جس پر زمین ہے جب اللہ عزوجل کسی جگہ زلزلہ لانا چاہتا ہے اس پہاڑ کو حکم دیتا ہے وہ اپنے اس جگہ کے متصل ریشے کو لرزش و جنبش دیتا ہے۔ یہی باعث ہے کہ زلزلہ ایک بستی میں آتا ہے۔ دوسری میں نہیں۔
ذوالقرنین اور کوہ قاف
حضرت مولوی معنوی قدس سرہ الشریف مثنوی شریف میں فرماتے ہیں:
 حضرت ذوالقرنین کوہ قاف کی طرف تشریف لے گئے، انہوں نے ایک پہاڑ دیکھا جو زمرد سے زیادہ صاف تھا۔ اس احاطہ کرنے والے نے تمام جہاں کے گرد حلقہ کیا ہوا تھا۔ اس وسیع مخلوق کو دیکھ کر آپ حیران رہ گئے۔ آپ نے فرمایا تو پہاڑ ہے دوسرے کیا ہیں کہ تیری بڑائی کے سامنے کھڑے ہوں۔
 اس نے کہا کہ وہ دوسرے پہاڑ میری رگیں ہیں جو حسن اور قیمت میں میری مثل نہیں ہیں۔  ہر شہر میں میری رگ چھپی ہوئی ہے۔ دنیا کے کنارے میری رگوں پر بندھے ہوئے ہیں۔  جب اللہ تعالٰی کسی شہر میں زلزلہ لانا چاہتا ہے تو مجھے حکم دیتا ہے کہ رگ کو ہلا دے۔  میں زور سے اس رگ کو ہلا دیتا ہوں جس رگ سے وہ شہر ملا ہوا ہوتا ہے۔
 جب وہ فرماتا ہے کہ بس، تو میری رگ ساکن ہو جاتی ہے، میں بظاہر ساکن ہوں مگر حقیقت میں متحرک ہوں۔  جیسے کہ مرہم ساکن اور بہت کام کرنے والی ہے۔ جیسے عقل ساکن ہے اور اس کی وجہ سے بات متحرک ہے۔  جس کی عقل اس کو نہیں سمجھتی اس کے نزدیک زلزلہ زمین کے بخارات کی وجہ سے۔ سمجھ لے کہ یہ زمین کے بخارات نہیں ہیں، اللہ تعالٰی کے حکم اور اس بھاری پہاڑ کی وجہ سے ہے۔
 ایک چھوٹی سی چیونٹی نے کاغذ پر قلم کو دیکھا۔ تو اس نے دوسری چیونٹی سے بھی یہ راز کہہ دیا۔  کہ اس قلم نے عجیب نقشے کھینچے ہیں، جیسے نازبو، سوسن کا کھیت اور گلاب کا پھول ۔ اس چیونٹی نے کہا اصل میں یہ سارا کام کرنے والی انگلی ہے۔ یہ قلم تو عمل میں اس انگلی کے تابع ہے اور اس کا اثر ہے۔  تیسری چیونٹی نے کہا کہ وہ بازو کی وجہ سے ہے کیونکہ کمزور انگلی نے اپنی طاقت سے یہ نقش و نگار نہیں کیا ہے۔  بات اسی طرح اوپر چلتی گئی۔ یہاں تک کہ چیونٹیوں کی ایک سردار جو کچھ سمجھدار تھی۔  اس نے کہا اس کو جسم کا ہنر مت سمجھو کیونکہ وہ تو نیند اور موت میں بے خبر ہو جاتا ہے۔  جسم تو لباس اور لاٹھی کی طرح ہے۔ عقل اور جان کے بغیر یہ نقش نہیں بن سکتے ہیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع