Respecting The Sheikh

الشيخ في قومه كالنبي في أمته
لفظ شیخ
قرآن پاک میں لفظ شیخ:
تیرہویں سیپارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں :
قَالُوا يَٰأَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَىٰكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
وہ بولے: اے عزیزِ مصر! اس کے والد بڑے معمر بزرگ ہیں، آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیں، بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں پاتے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں شیخ کبیر کا لفظ اپنے ظاہری اور باطنی معنوں میں حضرت یعقوب علیہ السلام کیلئے استعمال ہوا ہے۔ عزیز مصر سے مراد حضرت یوسف ہیں۔ { لَهُ } کی ضمیر متصل حضرت بنیامین کی طرف لوٹتی ہے۔ اور { أَحَدَنَا } کی ضمیر دس بھائیوں کی طرف لوٹتی ہے۔
پورے قرآن پاک میں روٹ ش ی خ سے بننے والے یہ تین مشتقات چار بار وارد ہوئے ہیں
شَيْخًا شَيْخٌ شُيُوخًا
لفظ شیخ کے معنی :
لفظ شیخ کے دو معنی ہیں۔ شیخ اسے کہتے ہیں جس کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر گئی ہو۔ یعنی معمر۔ اور بزرگی کی اعتبار سے شیخ اسے کہتے ہیں جو اپنی ٹھوکر سے مردوں کو زندہ کردے۔ کئی بزرگوں سے یہ کرامت منقول ہے۔ اور جس کے پاس یہ کرامت نہ ہو، تو یہ لفظ مردہ دلوں کو زندگی دینے والے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور بلا شبہ شیخ اپنے مریدین میں حیات باطنی کی روح پھونک دیتا ہے اور حیات ثانی کا باعث ہے ۔ جو یہ نہ کر سکے اور نہ ہی ساٹھ سال سے عمر میں متجاوز ہو، اس پر شیخ کا لفظ صادق نہیں آتا۔
توقیر شیخ
بزرگوں کی قدر :
چین کے بدھسٹ شاؤلن اپنے معمر ٹیچر کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ ان کے کہنے پر شادی بھی نہیں کرتے، اور اپنی ساری زندگی پہاڑوں اور جنگلوں میں گزار دیتے ہیں۔ شاؤلن ٹیچر کی بات حرف آخر سمجھی جاتی ہے جس سے کوئی رو گردانی نہیں کرتا۔ اگرچہ آج بھی ان کی تعلیمات شرک اور زندگی کے بارے میں شدت پسندی پر مبنی ہوتی ہیں لیکن معمر ٹیچر کی قدر جس طرح وہ کرتے ہیں، کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
توقیر شیخ ہماری اقدار سے ہے :
بڑے بوڑھوں کی قدر کرنا شاؤلن کی نہیں، بلکہ ہماری تعلیمات ہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں۔ کتنا واضح فرمان ہے ہمارے پیارے آقا کا کہ برکت تمہارے بڑوں میں رکھی گئی ہے۔ اس فرمان کے ہوتے ہوئے بھی اولڈ ہاؤسز کا قیام قیامت نہیں تو اور کیا ہے؟ جہاں بوڑھے والدین کی نظر ہر وقت دروازے کی طرف لگی رہتی ہے کہ اب ان کا بیٹا آئے گا اور اولڈ ہاؤس کی جیل سے انہیں رہائی دلائے گا۔
خطیب نے اپنی جامع میں حضرت انس سے روایت کی کہ
{مِنَ الْإِجْلَالِ تَوْقِيرُ الشَّيْخِ مِنْ أُمَّتِي}
 یعنی میری امت کے شیخ کی توقیر کرنا اجلال (خداوندی کی وجہ) سے ہے۔
مقام شیخ :
حدیث پاک میں ہے کہ اتقوا أذى المجاهدين فى سبيل الله فان الله تعالى يغضب لهم كما يغضب للرسل یعنی راہ خدا کے مجاہدین کو ایذا پہنچانے سے باز رہو، کیونکہ اللہ پاک ان کیلئے اسی طرح غضب فرماتا ہے، جیسے رسولوں کیلئے غضب فرماتا ہے۔ اور یہ مقام شیخ ہے کہ وہ اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ اور مریدین کے نفسوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ شیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے کہ نبی اپنی امت میں ہوتا ہے۔ شیخ سے بات کرنے میں اس کی عظمت کریں، اور ان کی خدمت کرتے رہنے کے ادب کی حفاظت کریں اور ان کی ہیبت اور توقیر کی رعایت میں ان کی اطاعت کو خود پر لازم کر لیں۔
مولا روم فرماتے ہیں
گفت پيغمبر كه شيخى رفته پيش
چون نبى باشد، ميان قوم خويش
تفسیر نیشاپوری (غرائب القرآن و رغائب الفرقان) میں سورۂ نور کی تفسیر(آیت 51 تا 64) میں لکھا ہے کہ مرید صادق کو چاہیئے کہ شیخ کے حکم کے بغیر سانس بھی نہ لے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے اس کے مال، مرتبے، قبولیت خلق، نکاح یا سفر میں کوئی فتنہ پہنچے۔ کیونکہ شیخ اس کیلئے بمنزلۂ نبی کے ہوتا ہے۔ اور شیخ کی ولایت کے نور کا عکس مرید کے دل کے آئینے پر پڑتا ہے اور وہ ان مراتب کو پا لیتا ہے جو صرف اعمال کے بجا لانے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔
شیخ کون ہوتا ہے؟
کتاب شرح نخبة الفكر للقاري میں ہے کہ شیخ وہ ہے جو اپنے فن میں کامل ہو، خواہ وہ جوان ہی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ بعضوں نے کہا ہے کہ شیخ وہ ہے جس کی عمر 50 سے 80 سال کے درمیان ہو۔ اس سے مراد شیخ الاسلام ہے جو مرجع الاحکام ہوتا ہے۔ اور اس پر دلیل یہ حدیث ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ پس شیخ وہ ہے جو عمر اور رتبے میں بڑا ہو۔ اور اس ضمن میں حضرت عباس (عم رسول اللہ) کا قول کیا ہی حسین اور پیارا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہیں یا حضور تو آپ نے فرمایا کہ بڑے تو حضور ہی ہیں، میری تو صرف (ظاہری) عمر ہی زیادہ ہے۔
میں اکتوبر 2017 میں اس لفظ {شیخ} اور حدیث کی کافی تشریح بیان کر چکا ہوں۔ جو چاہے وہ اس لنک سے اس لفظ کی تشریح پڑھ سکتا ہے۔ اہل حال کیلئے بہت مفید ہے۔

حدیث مبارکہ
اَلشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ :
یعنی شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ یہ حدیث شریف مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے، جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
1. اَلشَّيْخُ فِي بيته كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ
2. اَلشَّيْخُ فِي اہلہ كَالنَّبِيِّ في قومه.
4. اَلشَّيْخُ فِي جماعته كَالنَّبِيِّ في قومه
اسے ابن تیمیہ نے موضوع کہا ہے۔ باقیوں کے نزدیک یہ قابل قبول ہے۔
شیخ فرشتے انسانوں سے افضل ہیں؟
کتاب الحبائك في أخبار الملائك میں فرشتوں کے افضل ہونے/نہ ہونے پر بحث کی گئی ہے۔ اس میں فرمایا کہ جو ان کے افضل ہونے کا گمان کرتے ہیں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ فرشتوں کی عبادت دائمی ہے۔ اور دائمی عبادت مشکل ہے اس لئے وہ انسان سے افضل ہیں۔ دوم یہ کہ ان کی عمریں طویل ہیں اور حدیث میں ہے کہ افضل عبادت یہ ہے کہ عمر طویل ہو اور اعمال نیک ہوں۔ اور تیسرے یہ کہ حدیث میں فرمایا کہ شیخ (عمر رسیدہ) اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ نبی اپنی امت میں۔ اور وہ طویل عمروں کے باعث شیخ ہیں۔ اس لئے وہ انسان سے افضل ہیں۔ لیکن یہ قول درست نہیں (کہ فرشتے افضل ہیں) کیونکہ حضرت نوح کی عمر طویل تھی لیکن ہمارے نبی ان سے افضل ہیں۔
ضعیف و موضوع :
بعض حضرات نے اس حدیث شریف کو ضعیف یا موضوع کہا ہے۔ وہ یہ ہیں: ابن تیمیہ، امام ابن حجر، امام سخاوی، ، ابن حبان وغیرہ۔ تاہم جنہوں نے اسے کسی وجہ سے ضعیف یا موضوع کہا ہے وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ علمائے اسلام کا قول ہے اور العلماء ورثۃ الانبیاء (حدیث) سے اس حدیث کی تائید بھی ہوتی ہے۔
اپنے ذخیرۂ کتب میں مجھے اس حدیث کے 43 حوالے ملے جن میں سے 9 جگہ اسے ضعیف یا موضوع بھی کہا گیا ہے۔ تاہم جنہوں نے اس پر صحیح ہونے کا اعتبار کیا ہے ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور وہ نام اتنے بڑے (جیسے امام غزالی وغیرہ) ہیں کہ آپ نہایت اطمینان سے اس حدیث کا حوالہ دے سکتے ہیں۔
روحانیت اور شیخ
روحانی پیدائش:
روح البیان میں زیر آیت
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ
 فرمایا کہ ان آیات میں پیروں کیلئے اشارہ یہ ہے کہ شیخ اپنے مریدین کیلئے ایسا ہوتا ہے جیسے کہ والد۔ ان میں روحانی وراثت جاری ہوتی ہے۔ اور یہ کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ اور اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انا لكم كالوالد لولده یعنی میں تمہارے لئے اس طرح ہوں جیسے کہ باپ اپنی اولاد کیلئے ہوتا ہے۔ اور ان آیات میں اللہ پاک نے شیخ اور مریدین کی دینی قرابت اور وراثت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ جیسا کہ اس نے فرمایا کہ
أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ
یعنی یہ لوگ (آپس میں ایک دوسرے کے اور جنت کے ) وارث ہیں۔
روحانی وراثت:
جس طرح دنیا میں وراثت جاری ہوتی ہے اسی طرح دینی امور میں بھی جاری ہوتی ہے۔ دنیاوی وراثت سبب اور نسب سے ہوتی ہے۔ اور اسی طرح دینی وراثت بھی۔ پس سبب تو
فهو الارادة ولبس خرقتهم والتبرك بزيهم والتشبه بهم
اور وہ ان کی مریدی اختیار کرنا اور ان کا خرقہ پہنانا اور ان کی اشیاء اور طور طریقوں سے برکت حاصل کرنا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ اور نسب، تو وہ ان کی صحبت ہے کہ صدق نیت سے ظاہر و باطن میں ان کی ولایت کے تصرفات کو دل و جان سے مانے۔ جسمانی ولادت میں انسان شکم مادر سے عالم شہادت میں آتا ہے اور اس دوسری اور روحانی ولادت سے انسان رحم قلب سے عالم غیب (عالم ملکوت ) میں آتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ نے فرمایا کہ
لن يلج ملكوت السموات والأرض من لم يولد مرتين
یعنی جو دو بار پیدا نہ ہو تو وہ آسمان و زمین کی بادشاہت میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ پس شیخ روحانی باپ ہوتا ہے اور مرید اس کی صلب ولایت کی روحانی اولاد ہوتے ہیں۔ اور اسی لئے سرکار علیہ السلام نے فرمایا کہ سب حسب نسب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے۔ کیونکہ آپ کا نسب دین سے ہے۔ اسی لئے جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ کی آل کون ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہر مؤمن متقی میری آل ہے۔ اور اسی لئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں تمہارے لئے اس طرح ہوں جیسے کہ باپ اپنی اولاد کیلئے ہوتا ہے۔
روحانی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ :
روح البیان میں ہے
ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اس آیت میں بعض سالکین و قاصدین اور مریدین کی روحانی رکاوٹ کی طرف اشارہ ہے کہ جو اپنے حجاب اور حرمان کی وجہ سے مقصود تک نہ پہنچ سکے کیونکہ یہ حجاب و حرمان اپنے شیخ (یا کسی دوسرے شیخ) پر اعتراض کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور قلب کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یہ ایسا اعتراض ہے جس کا تدارک توبہ و انابت سے نہ کیا گیا ہو اور توبہ سے یہ بھی دور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ شیوخ مریدین کیلئے انبیاء کی مانند ہیں، جیسا کہ خبر میں آیا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ کیونکہ اللہ پاک اپنے اولیاء (دوستوں) کے دشمنوں سے شدید انتقام لیتا ہے۔ اور وہ اس میں انتقام لینے میں قوی ہے۔
 وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً:
روح البیان میں ہے کہ نبی اور شیخ دونوں ہی دوسری ولادت کا سبب ہیں کہ نبوت و ولایت کے نطفے کا امت اور مریدین اور زیر تربیت شاگرد کے قلوب میں القاء فرماتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ روح اللہ فرماتے ہیں کہ جو دوبارہ پیدا نہ ہو وہ آسمان کی بادشاہت میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔ والدین اسفل سافلین کے مقام بعد میں اور نبی و شیخ اعلی علیین کے مقام قرب میں اس کی ولادت کا سبب ہیں۔ اسی راز کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک میں تمہارے لئے ایسا ہوں جیسا کہ بچے کہ لئے اس کا والد(بڑا بھائی سمجھنے والے غور فرمائیں) اور فرمایا کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔
امت پر واجب ہے کہ ہر حال میں نبی کی تعظیم و توقیر کو واجب جانے، آپ کی حیات ظاہری میں اور اس کے بعد بھی۔ بے شک تعظیم و توقیر کی زیادتی دل میں نور ایمان کی زیادتی کا باعث ہے۔ اور مریدین اپنے شیخ کی تعظیم و توقیر کریں کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ نبی اپنی امت میں۔
اپنے مشائخ کی تعظیم کیوں ضروری ہے؟
رسول کی پکار :
لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے بیشک اللہ جانتا ہے جو تم میں چپکے نکل جاتے ہیں کسی چیز کی آڑ لے کر تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا ان پر درد ناک عذاب پڑے۔
ندائے رسول کے دو معنی کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم رسول کو پکاریں تو اس پکارنے کو عام سا نہ سمجھیں۔ ان کے در پر کھڑے ہوکر باہر سے یا محمد اور اے ابن عبد اللہ اور اے ابن ابی کبشہ کہہ کر نہ پکاریں۔ نہایت ادب و احترام سے دھیمی آواز میں یا رسول اللہ، یا نبی اللہ ، یا حبیب اللہ اور اے اللہ کے محبوب کہہ کر پکاریں۔ جیسا کہ خود پروردگار نے پیار سے يا أَيُّهَا النَّبِيُّ، يا أَيُّهَا الرَّسُولُ کے پیارے القابات سے پکارا ہے۔
يا آدمست با پدر انبیا خطاب
يا ايها النبي خطاب محمد است
یعنی جب انبیاء کے باپ کو پروردگار نے پکارا تو فرمایا کہ اے آدم! اور جب اپنے محبوب کو پکارا تو فرمایا کہ اے بڑی شان والے پیارے نبی۔
اور ندائے رسول کے ایک معنی یہ کئے گئے ہیں کہ جب وہ رسول تمہیں پکارے تو ان کی پکار اور دعوت کو ایک دوسرے کی پکار کی طرح معمولی مت سمجھنا۔ فورا دوڑ کر حاضر خدمت ہونا اور جو حکم وہ فرمائیں، فی الفور بجا لانا۔
معلم الخیر:
حضرت فقیہ ابو اللیث سمر قندی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم معلم الخیر ہیں اس لئے ان کی تعظیم و توقیر کا حکم فرمایا۔ اور اسی سے استاد کا حق اور اہل معرفت کا حق سمجھ میں آ سکتا ہے۔ کہ احترام رسول در حقیقت احترام خدا ہے۔ اور معرفت رسول، معرفت خدا ہے۔ اور آپ کا ادب اللہ کے ادب کی وجہ سے ہے۔
روح البیان میں ہے کہ
 وفى التأويلات النجمية يشير الى تعظيم المشايخ فان الشيخ فى قومه كالنبى فى أمته اى عظموا حرمة الشيوخ فى الخطاب واحفظوا فى خدمتهم الأدب وعلقوا طاعتهم على مراعاة الهيبة والتوقير
یہ شیخ کی تعظیم کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ شیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں ہوتا ہے۔ یعنی شیخ سے بات کرنے میں اس کی عظمت کریں، اور ان کی خدمت کرتے رہنے کے ادب کی حفاظت کریں اور ان کی ہیبت اور توقیر کی رعایت میں ان کی اطاعت کو خود پر لازم کر لیں۔
عقل پیر :
دیکھا گیا ہے کہ عربی اور ترکی لوگ اپنے بزرگوں کی بہت تعظیم و توقیر کرتے ہیں۔ آثار میں وارد ہوا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ یہ اس کے جسمانی حسن و جمال اور جسمانی قوت و شوکت و ثروت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ قوت علم و عقل کی وجہ سے ہے۔
تفسیر نیشا پوری (غرائب القرآن و رغائب الفرقان) میں سورۂ نور کی تفسیر(آیت 51 تا 64) میں لکھا ہے کہ مرید صادق کو چاہیئے کہ شیخ کے حکم کے بغیر سانس بھی نہ لے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے اس کے مال، مرتبے، قبولیت خلق، نکاح یا سفر میں کوئی فتنہ پہنچے۔ کیونکہ شیخ اس کیلئے بمنزلۂ نبی کے ہوتا ہے۔ اور شیخ کی ولایت کے نور کا عکس مرید کے دل کے آئینے پر پڑتا ہے اور وہ ان مراتب کو پا لیتا ہے جو صرف اعمال کے بجا لانے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔
زمین کے تارے اور پہاڑ :
تفسیر القشیری (لطائف الاشارات) میں ہے کہ
وَأَلْقى فِي الْأَرْضِ رَواسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهاراً وَسُبُلاً لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
یعنی اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے کہ کہیں تمہیں لے کر نہ کانپے اور ندیاں اور رستے کہ تم راہ پاؤ۔
اور فرمایا کہ ظاہری لنگر تو پہاڑ ہیں اور باطنی لنگر شیوخ ہیں کہ اس میں اشارہ اولیاء اللہ کی طرف ہے کہ وہ خلق خدا کی مدد اور داد رسی فرماتے ہیں، انہی کی وجہ سے ان پر رحم کیا جاتا ہے، انہی کی وجہ سے بارشیں نازل ہوتی ہیں، انہی میں ابدال و اوتاد اور قطب ہوتے ہیں۔ اور خبر میں ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ نبی اپنی امت میں۔ اور پھر فرمایا کہ
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ
یعنی اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب! تم ان میں تشریف فرما ہو۔
اور فرمایا کہ وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ اور علامتیں اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں۔ یعنی کواکب نجوم آسمانی ہیں کہ ان کے ذریعے شیطان کو مارا جاتا ہے اور اولیاء (بزرگان دین اور شیوخ)زمین کے تارے ہیں، جن کے ذریعے کفار اور ملحدین کو مارا جاتا ہے۔
چار اشخاص کی تعظیم کرنا سنت سے ہے:
شرح السنہ میں طاؤس فرماتے ہیں کہ چار اشخاص کی تعظیم کرنا سنت سے ہے، عالم کی، شیخ (بزرگ عمر رسیدہ) کی، سلطان کی اور والد (اور والدہ) کی۔ اور اگر والد بوڑھے بھی ہوں، عالم اور حامل قرآن بھی اور سلطان بھی ہوں تو ان کی تعظیم و توقیر میں اضافہ ہوگا کہ اب کئی وجوہ جمع ہو گئیں۔
خطیب نے اپنی جامع میں حضرت انس سے روایت کی کہ
مِنَ الْإِجْلَالِ تَوْقِيرُ الشَّيْخِ مِنْ أُمَّتِي، میری امت کے شیخ کی توقیر کرنا اجلال (خداوندی کی وجہ) سے ہے۔
اور بلاشبہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات میں سے ہے۔ کیونکہ لفظ شیخ مطلق ہے اور کسی بھی عمر رسیدہ، شیخ، عالم اور رئیس یا سلطان، سب کیلئے بولا جا سکتا ہے۔ اور انہی جامع کلمات میں سے آپ کا یہ کلمہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ الشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ
تعظیم بزرگان :
مقاصد الحسنہ میں یہ احادیث ہیں جو بزرگوں کی تعظیم پر قرب معنی سے دلالت کرتی ہیں۔
الشيخ في قومه كالنبي في أمته، یعنی شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔
البركة مع أكابركم، یعنی برکت تمہارے بڑوں میں رکھی گئی ہے۔
ليس منا من لم يوقر كبيرنا، یعنی جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
ما أكرم شاب شيخا إلا قيض اللَّه له عند سنه من يكرمه، یعنی کوئی جوان کسی بوڑھے شیخ کی تعظیم نہیں کرتا مگر اللہ اسے وہ (لمبی) عمر عطا فرماتا ہے جس میں اس کی عزت و تعظیم کی جائے۔
لمبی عمر کے حصول کیلئے کتنا بہترین اور سستا نسخہ عطا فرما دیا میرے نبی نے۔ ان پہ لاکھوں کروڑوں درود و سلام
کشف الخفاء میں ہے کہ
وروى الديلمي عن أنس مرفوعا بجلوا المشايخ فإن تبجيل المشايخ من إجلال الله عز وجل فمن لم يبجلهم فليس منا.
دیلمی نے حضرت انس سے روایت کی کہ مشائخ کی تعظیم بجا لاؤ۔ کیونکہ ان مشائخ کی تعظیم اجلال خداوندی سے ہے۔ جس نے مشائخ کی تعظیم نہ کی وہ ہم میں سے نہیں۔
اسی میں ہے کہ ابی زید نے آئینہ دیکھا تو فرمایا
ظهر الشيب، ولم يذهب العيب، ولا أدري ما في الغيب
یعنی بڑھاپا آگیا لیکن عیب (برائیاں اور گناہ) نہیں گئے اور میں نہیں جانتا کہ آگے کیا ہے۔
اس کے بعد کشف الخفاء میں یہ حدیث نقل فرمائی کہ الشيخ في قومه كالنبي في أمته
تاریخ الخميس في أحوال أنفس النفيس میں ہے کہ مرشد کامل کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر آن خلق کی ہدایت میں مصروف رہے۔ اور اسے ہر وقت تائید الہی حاصل ہو تاکہ وہ مریدوں اور فائدہ حاصل کرنے والوں کو فائدہ پہنچا سکے۔ اور وہ عالم اور ولی اور شیخ ہوتا ہے، اسی طرف سرکار نے اشارہ فرمایا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ شیخ کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کا ولی (اس کا دوست اور قریب) ہو۔ اور ولی کیلئے لازمی ہے کہ وہ عالم ہو، کیونکہ اللہ کسی جاہل کو اپنا دوست نہیں بناتا۔
بیعت خواتین
عورتوں سے بیعت لینا:
تفسیر بحر المدید میں ہے کہ حضرت امیمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ہم سے مصافحہ فرمائیں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ
ما مست يدُ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم يدَ امرأةٍ قط، إنما بايعهن كلامًا
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی عورتوں کے ہاتھوں سے مس نہیں ہوا۔ ان کی بیعت صرف کلام سے تھی۔ اور کہا گیا ہے کہ ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانی کے برتن میں ہاتھ ڈال کر تھی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خواتین۔
پھر فرمایا کہ اشارہ ہے کیونکہ شیخ اپنی قوم میں یوں ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ (یعنی نبی کی پیروی کرے اور یونہی بیعت کیا کرے۔ بیعت کیلئے خواتین سے مصافحہ نہ کیا کرے۔ یاد رکھیں کہ پردہ کے باب میں پیرو غیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے۔ راقم)
صدر الشریعہ، بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَـیْہ فرماتے ہیں :''اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کو دیکھنا اگرچہ جائز ہے مگر چھونا جائز نہیں ، اگرچہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ نظر کے جواز کی وجہ ضرورت اور بلوائے عام ہے چھونے کی ضرورت نہیں ، لہٰذا چھونا حرام ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان سے مصافحہ جائز نہیں اسی لیے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم بوقت بیعت بھی عورتوں سے مصافحہ نہ فرماتے صرف زبان سے بیعت لیتے۔ ہاں اگر وہ بہت زیادہ بوڑھی ہو کہ محل شہوت نہ ہو تو اس سے مصافحہ میں حرج نہیں۔ یونہی اگر مرد بہت زیادہ بوڑھا ہو کہ فتنہ کا اندیشہ ہی نہ ہو تو مصافحہ کر سکتا ہے۔''
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا نے عورتوں کی بیعت کے متعلق فرمایا کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام یٰاَۤ یُّھَا ا لنَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الْمُؤمِنَاتُ سے عورتوں کا امتحان فرماتے تھے جو عورت اس آیت کا اقرار کر لیتی تھی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اس سے فرماتے تھے کہ میں نے تجھ سے یہ بیعت لے لی۔ یہ بیعت بذریعہ کلام ہوتی تھی۔ خدا کی قسم کبھی بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے بیعت کے وقت نہیں لگا۔
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں عورت کے لئے اجازتِ شوہر کی حاجت نہیں۔
شاندار عورت :
 روایت ہے حضرت سعد سے فرماتے ہیں کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت لی تو ایک شاندار عورت شاید وہ مضر کی عورتوں سے تھی اٹھی اور بولی یا نبی اﷲ ہم تو اپنے باپ، دادوں، اولاد اور خاوندوں پر بوجھ ہیں ہمیں ان کے مالوں سے کس قدر درست ہے فرمایا تر کھانا جسے تم کھالو اور ہدیہ دے سکو (ابو داؤد)
اولیائے کرام کا اجماع ہے کہ داعی الی اللہ کا مرد ہونا ضرور ہے لہذا سلف صالحین سے آج تک کوئی عورت نہ پیر بنی نہ بیعت کیا۔ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ
یعنی ہر گز وہ قوم فلاں نہ پائے گی جنھوں نے کسی عورت کو والی بنایا۔ اس کو ائمہ کرام احمد و بخاری و ترمذی اور نسائی نے ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
اولیائے کرام فرماتے ہیں ایک شخص کے دو باپ نہیں ہو سکتے، ایک عورت کے دو شوہر نہیں ہو سکتے، ایک مرید کے دو شیخ نہیں ہو سکتے۔
ریاکاری :
کتاب بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية میں ہے کہ ریاکاری کی ایک وجہ تکبر ہے کہ آدمی نیک اعمال کا اظہار اس لئے بھی چاہتا ہے کہ لوگ اسے اپنے سے افضل سمجھیں۔
اللہ پاک ہر ایک کو ریاکاری سے بچائے۔ تاہم دینی معظم ہستیوں کیلئے کافی چیزوں کے اظہار کی رعایت ہے۔ تاکہ حلق خدا ان سے نفع اٹھا سکے۔ اسی لئے امام اعظم فرماتے ہیں اپنے عماموں کو خوبصورت اور آستینوں کو وسیع رکھو۔ اور اسی لئے خطیب جمعہ کیلئے جائز ہے کہ وہ جسم و لباس کی زینت میں اضافہ کرے۔ یہ اظہار اس کیلئے ہے جس کے نیک عمل کی اقتداء کی جاتی ہو۔ پھر صاحب کتاب نے یہ نقل کیا کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے، جیسے نبی اپنی امت میں۔(یعنی ایسا شخص اگر اپنی نیکیوں کا اظہار اس غرض سے کرے کہ اس کی اقتدا کی جاتی ہے تو لوگوں کو نفع ہوگا۔ راقم)
نزہت المجالس میں ہے کہ اللہ پاک صبح شام شیخ کے چہرے کو دیکھتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ تیری عمر زیادہ ہو گئی، تیری ہڈیاں کمزور ہو گئیں، تیری کھال نرم پڑ گئی، اور تیری موت قریب آگئی۔ پس اب تو مجھ سے حیا کر اور میں تجھ سے۔
امام غزالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے، جس طرح اپنی امت میں نبی ہوتا ہے۔ اور یہ اس لئے نہیں کہ وہ مال اور بڑائی اور قوت میں زیادہ ہوتا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ تجربے میں زیادہ ہوتا ہے جو کہ عقل کا ثمرہ ہے۔
میرے 4200 الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع