State & Place

حال اور مقام
اہل اللہ کی دو بڑی اقسام ہیں، ایک اہل تلوین اور ایک اہل تمکین کہلاتے ہیں۔ اہل تلوین اہل حال ہوتے ہیں، ان کا حال کبھی کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ۔ یہ کبھی ایک حال پر نظر نہیں آتے اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
اہل تمکین ان سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ اہل حال نہیں، اہل مقام ہوتے ہیں۔ یہ دونوں ہی اہل اللہ کے گروہ میں شامل ہیں۔ صوفیائے کرام میں اہل تمکین کو فضیلت حاصل ہے۔ اور اہل تمکین اہل حال کو ابن الوقت کہتے ہیں۔ یہ ابن الوقت اردو کے ابن الوقت سے مختلف ہے۔ اردو میں فائدہ حاصل کرنے کی خاطر اپنا قول و فعل بدل لینے والے کو ابن الوقت کہتے ہیں۔ 
فیس بک 
میں نے جب بلاگ اور فیس بک کا بغور موازنہ کیا تو کافی باتیں مجھ پر کھلیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ فیس بک اہل حال کے زیادہ قریب ہے اور بلاگ اہل تمکین سے قریب ہے۔ آئیے آپ کی خدمت میں بھی اس کا موازنہ پیش کرتا ہوں۔ 

یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں فیس بک کو پاپولر کرنے میں موبائل کمپنیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان کو یہ درکار تھا کہ لوگ کسی بھی طرح موبائل کو ہاتھ میں رکھیں اور بار بار اس کی طرف رجوع کریں جو ہر ایک کو موبائل کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کرنے کا باعث ہو۔ اس کیلئے انہیں کوئی نہ کوئی ایسی چیز درکار تھی جو صارف کو مصروف رکھ سکے۔ اس لئے موبائل پر فیس بک کی پہلے تو صرف ایپ اور پھر فیس بک یوز کو ہی فری کردیا گیا۔ جو صارف کو مصروف رکھنے کا ایک بہترین طریقہ تھا۔ 
لیکن ایسا نہیں کہ سارا کریڈٹ موبائل ہی کو جاتا ہے۔ فیس بک کی اپنی بھی بہت کاوش ہے اسے پاپولر کرنے میں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ صارف یا یوزر کے حال سے بہت قریب ہے۔ فیس بک کی جو چیزیں اسے پبلک کے حال  سے قریب کرتی ہیں وہ یہ ہیں:
  1. ہر لمحے کی نوٹیفکیشن ہر اس شخص کے پاس جاتی ہے جو آپ کی فرینڈ لسٹ میں موجود ہے۔
  2. نہ صرف نوٹیفکیشن بلکہ ہوم فیڈ پر آپ کی پوسٹ بھی آپ کے دوستوں تک جاتی ہے۔ اکثر لوگ دونوں میں سے کوئی نہ کوئی ایک چیز ضرور دیکھتے ہیں۔
  3. لوگوں تک آپ کی شیئر کردہ پوسٹ فوری طور پر پہنچتی ہے۔ 
  4. جذبات کے فوری اظہار  کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔ 
  5. سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنی خوشی یا غم کا اظہار کرسکتے ہیں اور دوسروں کے غم اور ان کی خوشی میں شریک ہو کر انہیں اپنائیت کا احساس دلا سکتے ہیں۔
چونکہ فیس بک کا تعلق حال سے ہے اس لئے آپ جو بھی پوسٹ کرتے ہیں، وہ لازمی حال کا رنگ لئے دکھائی دیتی ہے۔ اور اس قسم کی پکچر پوسٹ کثرت سے دکھائی دیتی ہیں
اس  کے ذریعے آپ یا تو اپنے حال کا اظہار کرتے ہیں یا آپ کی پوسٹ آپ کے کسی قریبی ساتھی کے دگرگوں حال میں اس کی مدد کرتی دکھائی دیتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ آفس والے اکثر خواتین و حضرات بھی مصروفیت کے باوجود کثرت سے اس کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ فیس بک پر موجود ہمارے بزم نوری  گروپ کو بدستور فنکشنل رکھا گیا ہے تاکہ آپ ایک دوسرے کی خوشیوں میں دوری کے باوجود شریک رہ سکیں۔
آخری بات جو میں عرض کرنا چاہوں گا، یہ ہے کہ فیس بک پر کی گئی پوسٹ لازمی طور پر یا تو  آپ کے اپنے حال سے مطابقت رکھتی ہے  یا آپ کے کسی چاہنے والے دوست یا عزیز کے حال سے میچ کرتی ہے۔ 
بلاگ اور فیس بک
فیس بک کی خصوصیات اپنی جگہ پر، لیکن بہت سی چیزیں وہ ہیں جو فیس بک پر موجود ہی نہیں۔ ہر بات حال کی طرح بدل جانے والی نہیں ہوتی۔ کچھ باتوں کے متعلق آدمی چاہتا ہے کہ یہ حال نہ ہوں، مستقل باتیں اور پیغامات ہوں اور خوبصورت انداز میں اپنی مرضی سے لکھنے کی پوری آزادی کے ساتھ لکھے جائیں، جو موجودہ حال کے علاوہ بھی عام زندگی میں کارآمد ہوں اور عرصۂ دراز تک انہیں یاد رکھا جائے یا پڑھا جاتا رہے۔ 

جو باتیں اور خصوصیات فیس بک پر نہیں، ان کی تلاش میں بلاگ پر آیا، بہت اچھا لگا۔ لیکن سب سے زیادہ ایک چیز نے مجھے پریشان کیا کہ لوگوں تک اپنی بات کیسے پہنچاؤں، مضمون تو بہت اچھا ہے، لیکن پڑھنے والے کہاں سے لاؤں؟ پھر جب مزید غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ یہی چیز تو بلاگ کو فیس بک کے برخلاف حال ڈیپینڈینٹ  ہونے سے ممتاز کرتی ہے۔ 
آپ جب کوئی کام کی چیز لکھتے ہیں تو متن کی طوالت اور اسے خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کی وجہ سے لکھتے لکھتے آپ کا حال ہی بدل جاتا ہے۔ بعض اوقات ایک ایک پوسٹ کئی کئی دن میں تیار ہوتی ہے۔  تو پوسٹ شروع کرتے وقت آپ جس حال میں ہوتے ہیں، پوسٹ پبلش کرتے وقت اس سے دوسرے کی طرف منتقل ہو چکے ہوتے ہیں۔ 
یہی بات دوستوں کے احوال کیلئے بھی درست ہے۔ اگر آپ دوستوں کیلئے ان کے حال سے متعلق کوئی پوسٹ کرنا چاہتے ہیں تو جب تک وہ اسے پڑھے گا، اس کا حال تبدیل ہوچکا ہوگا اور  اس کیلئے اب آپ کی پوسٹ میں کوئی چارم نہیں رہے گا۔ 
ان دونوں وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلاگر کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے موضوع کے مطابق وہ پوسٹیں تیار کرے جن کا فائدہ کثیر المدتی ہو۔ 
اگرچہ بلاگ پوسٹیں فیس بک پر بھی شیئر کی جاسکتی ہیں لیکن صرف اطلاع کے طور پر۔ اس پوسٹ میں کیا ہے، یہ جاننے کیلئے قاری کو لازمی ایک کلک اور کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح آپ کو بھی بلاگ شیئر کرنے کیلئے ایک اضافی کلک کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے یہ پوسٹ حال سے زیادہ مقام کو ظاہر کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اور آپ خود بھی آخر کار یہی چاہنے لگتے ہیں کہ صرف وہ چیز ہی شیئر کی جائے جس کا قاری کو واقعی فائدہ حاصل ہو۔ 


آستانۂ نوری نے اسی لئے  فیس بک کے بجائے بلاگ ہی کو اپنے آفیشیل پیج  کیلئے چنا ہے۔ تاکہ آپ کو یہاں  وہ تمام باتیں آسانی کے ساتھ مل سکیں جن کی آپ کو ضرورت پڑتی رہے گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو جس موضوع پر مواد درکار ہو، اسی موضوع کے لیبل میں  مل جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ بلاگ کی اہمیت کو سمجھ گئے ہوں گے۔ آزادی، خوبصورتی، آسانی، پائیداری بلاگ کا طرۂ امتیاز ہے۔ اور اسی لئے اب علمی اور زیادہ کام کی پوسٹیں اب یہاں ہوں گی۔ امید ہے کہ آپ کا رد عمل ہمیشہ کی طرح بہترین ہوگا۔ 
Aastana-e-Noori

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع