Belief in One God.

شرک سے بچنے کا طریقہ
أ‌.               لَا تُشْرِكْ بِاللَّه :
شرک کے بارے میں قرآن پاک میں آیا ہے
لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
 اللہ کا کسی کو شریک نہ کرنا، بیشک شرک بڑا ظلم ہے
شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ اِس گناہ کو کبھی بھی نہ بخشے گا۔ باقی شرک کے سوا دوسرے تمام گناہوں کو جس کیلئے وہ چاہے گا بخش دے گا اور مشرک ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ضرور جہنم میں جائے گا۔ مشرک کی کوئی عبادت مقبول نہیں۔ بلکہ عمر بھر کی عبادت شرک کرنے سے غارت و برباد ہو جاتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ
لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ
 اے سننے والے اگر تو نے اللہ کا شریک کیا تو ضرور تیرا سب کیا دھرا اکارت جائے گا
حدیث: حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے رسول ا للہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کون سا گناہ ا للہ عزوجل کے نزدیک سب سے زیادہ بڑا ہے؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ ہے کہ تم اللہ عزّوجل کیلئے کوئی شریک ٹہراؤ حالانکہ ا سی نے تم کو پیدا کیا ہے۔
شرک کے لغوی معنی ہیں حصہ یا ساجھا ۔ لہٰذا شریک کے معنی ہیں حصہ دار یا ساجھی۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے : اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ یعنی کیا ان بتوں کا ان آسمانوں میں حصہ ہے؟
یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا شرک ہے۔ کفر عام ہے اور شرک خاص۔ یعنی ہر شرک کفر بھی ہے، لیکن ہر کفر شرک نہیں۔ شرک کی حقیقت رب تعالیٰ سے مساوات پر ہے یعنی جب تک کسی کو رب کے برابر نہ جانا جائے تب تک شرک نہ ہوگا۔ شرک اللہ تعالٰی کی الوہیت میں کسی کو شریک سمجھنا ہے یعنی وجوب وجود میں شریک ماننا جیسے مجوس یا عبادت کے استحقاق میں شریک بنانا جیسے بتوں کے پجاری۔ اس برابر جاننے کی چند صورتیں ہیں
 ایک یہ کہ کسی کو خدا کا ہم جنس مانا جائے جیسے عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کو اور یہودی عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے چونکہ اولاد باپ کی ملک نہیں ہوتی بلکہ باپ کی ہم جنس اور مساوی ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ ماننے والا مشرک ہوگا ۔
ب‌.         کفار عرب کا عقیدہ :
 دوسرے یہ کہ کسی کو رب تعالیٰ کی طر ح خالق مانا جائے جیسے کہ بعض کفار عرب کا عقیدہ تھا کہ خیر کا خالق اللہ ہے اور شر کا خالق دوسرا رب ،اب بھی پارسی یہی مانتے ہیں، خالق خیر کو ''یزداں'' اور خالق شر کو ''اہرمن'' کہتے ہیں ۔ یہ وہی پرانا مشرکانہ عقیدہ ہے۔ یا بعض کفار کہتے تھے کہ ہم اپنے برے اعمال کے خود خالق ہیں کیونکہ ان کے نزدیک بری چیزوں کا پیدا کرنا برا ہے لہٰذا اس کا خالق کوئی اور چاہیے۔
ت‌.        بعض مشرکین عرب کا عقیدہ :
 تیسرے یہ کہ خود زمانہ کو مؤثر مانا جائے اور خدا کی ہستی کا انکار کیا جائے جیسا کہ بعض مشرکین عرب کا عقیدہ تھا ۔ موجودہ دہریہ انہی کی یاد گار ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ
 وہ بولے وہ تو نہیں مگر یہ ہی ہماری دنیا کی زندگی مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ اور انہیں اس کا علم نہیں ۔
 اس قسم کے دہریوں کی تردید کے لئے تمام وہ آیات ہیں جن میں حکم دیا گیا ہے کہ عالم کی عجائبات میں غور کرو کہ ایسی حکمت والی چیزیں بغیر خالق کے نہیں ہو سکتیں۔
 چوتھے یہ عقیدہ کہ خالق ہر چیز کا تو رب ہی ہے مگر وہ ایک بار پیدا کر کے تھک گیا، اب کسی کام کا نہیں رہا، اب اس کی خدائی کی چلانے والے یہ ہمارے معبودین باطلہ ہیں۔ اس قسم کے مشرکین کہتے تھے کہ چھ دن میں آسمان زمین پیدا ہوئے اور ساتواں دن اللہ نے آرام کا رکھا تھکن دور کرنے کو۔ اب بھی وہ آرام ہی کر رہا ہے۔
 اس قسم کے مشرکوں کی تردید کیلئے کئی آیات ہیں جن میں فرمایا گیا کہ ہم کو عالم کے بنانے میں کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ نہیں پہنچتی ۔ اس قسم کے مشرک قیامت کے منکر اس لئے بھی تھے کہ وہ سمجھتے تھے ایک دفعہ دنیا پیدا فرما کر حق تعالیٰ کافی تھک چکا ہے اب دو بارہ کیسے بنا سکتا ہے۔ معاذ اللہ !
 شرک کی پانچویں قسم یہ عقیدہ ہے کہ ہر ذرہ کا خالق و مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر وہ اتنے بڑے عالم کو اکیلا سنبھالنے پر قادر نہیں اس لئے اس نے مجبور اً اپنے بندوں میں سے بعض بندے عالم کے انتظام کے لئے چن لئے ہیں۔ اب یہ بندے جنہیں عالم کے انتظام میں دخیل بنایا گیا ہے وہ بندے ہونے کے باوجود رب تعالیٰ پردھونس رکھتے ہیں کہ اگر ہماری شفاعت کریں تو رب کو مرعوب ہوکر ماننی پڑے اگر چاہیں تو ہماری بگڑی بنا دیں، ہماری مشکل کشائی کر دیں، جو وہ کہیں رب تعالیٰ کو ان کی ماننی پڑے ورنہ اس کا عالم بگڑ جاوے۔
 یہ وہ شرک ہے جس میں عرب کے بہت سے مشرکین گرفتار تھے اور اپنے بت ودّ ، یغوث، لات و منات و عزی وغیرہ کو رب کا بندہ مان کر اور سارے عالم کا رب تعالیٰ کو خالق مان کر مشرک تھے۔ اس عقیدے سے کسی کو پکارنا شرک ، اس کی شفاعت ماننا شرک، اسے حاجت روا مشکل کشا ماننا شرک ، اس کے سامنے جھکنا شر ک، اس کی تعظیم کرنا شرک ، غرضیکہ یہ برابری کا عقیدہ رکھ کر اس کے ساتھ جو تعظیم و توقیر کا معاملہ کیا جاوے وہ شرک ہے۔
 یہ پانچویں قسم کے مشرک اللہ تعالیٰ کو سب کا خالق ،مالک ، زندہ کرنے والا ، مارنے والا ، پناہ دینے والا, عالم کا مدبر مانتے تھے مگر پھر مشرک تھے یعنی ذات، صفات کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک رہے، کیوں ؟ وہ دو سبب سے مشرک تھے ایک یہ کہ وہ صرف خدا کو عالم کا مالک نہیں مانتے تھے بلکہ اللہ کو بھی اور دوسرے اپنے معبودوں کو بھی۔ وہ یہ نہ کہتے تھے کہ ملکیت و قبضہ صرف اللہ کا ہے، اوروں کا نہیں بلکہ وہ کہتے تھے اللہ کا بھی ہے اور دوسروں کا بھی، دو سرے اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ اکیلا یہ کام نہیں کرتا بلکہ ہمارے بتوں کی مدد سے کرتا ہے۔
ث‌.        شرک کو پہچاننے کا یونیورسل کلّیہ:
دوستو! ہمیشہ ہر قسم کے شرک سے بچیں اور توبہ استغفار کریں۔ اس ضمن میں ایک یونیورسل کلّیہ اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لیں۔ وہ یہ کہ "جو چیز مخلوق میں کسی ایک فرد (جیسے زید) میں ماننا شرک ہے، وہ کائنات میں کسی بھی دوسری مخلوق (جیسے بکر) میں ماننا شرک ہے۔"
یعنی جو بات شرک ہے اس کے حکم میں احیاء و اموات وانس وجن و ملائک وغیرہم تمام مخلوق الٰہی یکساں ہیں۔
جیسے اگر کسی نے ما کان وما یکون کے علم کو مخلوق میں ماننے کو شرک کہا، اسے چاہیئے کہ وہ اپنے اس شرک سے توبہ کرے کیونکہ یہ لوح محفوظ کا علم ہے اور محدود ہے۔ کائنات کی کوئی مخلوق خدا کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اور لوح محفوظ بھی ایک مخلوق ہے۔ اتنا علم اگر کسی مخلوق کیلئے مانا جائے تو کم سے کم اس پر شرک کا حکم نہیں لگ سکتا۔ علامہ بوصیری نے تو قصہ ہی تمام کردیا۔ قصیدۂ بردہ شریف میں آپ فرماتے ہیں؛
فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
دنیا اور آخرت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا ایک ذرّہ ہیں اور لوح و قلم کا سارا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم میں سے صرف ایک قطرہ ہے۔


ج‌.           ما فوق الاسباب قوتیں:
بہت سے لوگوں نے اپنے ذہن سے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ اگر کسی انسان میں ماورائے اسباب ظاہری اور ما فوق الاسباب قوتیں مان لی جائیں تو یہ شرک ہو جاتا ہے۔ یہ عقیدہ نہ صرف قرآن و حدیث اور اسلاف کے خلاف ہے بلکہ ہم سب کے روزمرہ کے مشاہدات کے بھی خلاف ہے۔
1.   عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں باذن الٰہی مردوں کو زندہ ، اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کر سکتا ہوں۔
2.    اور میں باذن الٰہی ہی مٹی کی شکل میں پھونک مار کر پرندہ بنا سکتا ہوں۔
3.   اور جو کچھ تم گھر میں کھاؤ یا بچاؤ بتا سکتا ہوں۔
4.   یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میری قمیص میرے والد کی آنکھوں پر لگا دو ۔ انہیں آرام ہوگا۔
5.   جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ میں تمہیں بیٹا دوں گا۔
6.   حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا آپ کے ہاتھ کی بر کت سے دم میں لاٹھی اور دم میں زندہ سانپ بن جاتا تھا ۔
7.   حضرت آصف آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس یمن سے شام میں لے آئے۔
8.   حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کے فاصلے سے چیونٹی کی آواز سن لی۔
9.   حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان بیٹھے ہوئے یوسف علیہ السلام کو سات قفلوں سے بند مقفّل کوٹھڑی میں برے ارادے سے بچایا۔
10.         حضرت ابراہیم علیہ السلام نے روحوں کو حج کیلئے پکارا اور تا قیامت آنے والی روحوں نے سن لیا۔
11.         جو فرشتے قبر میں سوال و جواب کرتے ہیں، اور جو فرشتہ ماں کے پیٹ میں بچہ بناتا ہے، وہ سب جہان پر نظر رکھتے ہیں کیونکہ بغیر اس قوت کے وہ اتنا بڑا انتظام کر سکتے ہی نہیں اور یہ تمام کام مافوق الاسباب ہیں۔
12.         ملک الموت اور ان کے عملے کے فرشتے سارے عالم کو بیک وقت دیکھتے ہیں اور ہر جگہ بیک وقت تصرف کرتے ہیں۔
13.         سرکار دوعالم نے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کرکے دوبارہ جوڑ دیا۔ یہ اور آپ کے سب معجزات ما فوق الاسباب کام ہیں۔
14.         اور تو اور، ابلیس ملعون کو یہ قوت دی گئی ہے کہ وہ گمراہ کرنے کیلئے تمام انسانوں کو بیک وقت دیکھتا ہے، وہ بھی اور اس کی ذریت بھی۔
اوپر کی ان باتوں میں سے کوئی بات بھی شرک نہیں کیونکہ یہ مخلوقات میں سے کسی نہ کسی فرد کیلئے ثابت ہیں۔ یاد رکھیں کہ جو بات مخلوق میں کسی ایک کیلئے بھی جائز اور ثابت شدہ ہو، وہ کچھ بھی ہو، لیکن شرک ہرگز نہیں ہو سکتی۔ یہ یونیورسل کلیہ ہے۔ اگر کسی نے غلطی سے ان کو شرک کہہ دیا ہو تو اسے چاہیئے کہ ابھی اپنے شرک سے فورا توبہ کرے۔ کیونکہ ان کو شرک کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کسی ایک کے لئے اسے شرک سمجھ کر انکار کیا تو دوسری جگہ اسے مانا۔ تو گویا وہ اپنے نزدیک ہی مشرک ہوگیا۔ کیونکہ جو ایک کیلئے شرک ہے، وہ کسی کیلئے بھی شرک ہے۔
بے شک اللہ پاک نے اپنے بندوں کو بڑے اسرار عطا فرمائے ہیں، اور خود ارشاد فرمایا ہے کہ انسان میرا راز ہے اور میں اس کا راز ہوں۔ اور میرے سرکار تو نور علی نور ہیں۔ تمام انبیاء معجزات لیکر آئے اور میرے سرکار سراپا معجزہ بن کر آئے۔ سب انبیاء مظہر صفات تھے اور محبوب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جلّ جلالہ کی ذات پاک کے مظہر ہیں۔ اللہ پاک کو اپنے محبوب سے اتنی محبت ہے کہ دیگر مافوق الاسباب قوتیں تو کجا، اگر خدائی بھی تحت مشیت ایزدی ہوتی (یعنی کسی کو دی جا سکتی ہوتی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی لیکر دنیا میں تشریف لاتے۔
کیا خوب شعر کہا ہے کسی کہنے والے نے؛
جو ہوتی خدائی بھی تحت مشیت
خدا بن کے آتا ، وہ بندہ خدا کا
شاید کسی کو اس شعر پر اعتراض اور سنگین وہم لاحق ہو۔ ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ یہ ایک ناممکن پر ایک دوسری ناممکن بات کو فرض کیا گیا ہے۔ جب پہلی نہیں ہو سکتی تو دوسری بھی نہیں ہو سکتی۔ جیسے اس آیت مبارکہ میں ہے؛
قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ
یعنی آپ ارشاد فرما دیں کہ خدائے رحمان کی (بالفرض محال) اگر کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں ہی اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔
)اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ گویا کہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ اگر اس کی کوئی اولاد ہوتی تو مجھے ضرور اس کا علم ہوتا کیونکہ اللہ پاک نے سب سے پہلے میرے ہی نور کو تو پیدا فرمایا ہے۔ چونکہ اس کی اولاد ہے ہی نہیں تو میں کسی کو اس کی اولاد کیسے تصور کرسکتا ہوں اور کیسے اس کی عبادت کرسکتا ہوں۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا ہے۔ راقم(
ح‌.           کون کون سی چیزیں شرک نہیں ہیں:
بہت سی باتیں وہ بھی ہیں جو فی الحقیقت شرک نہیں بلکہ عین ایمان ہیں، لیکن اکثر شکی مزاج قسم کے لوگ انہیں بھی شرک ہی گردانتے ہیں اور نہیں جانتے کہ نا دانستگی میں وہ کس قدر حماقت کا ثبوت دے رہے ہیں۔
15.         انبیاء علیہم السلام ،اولیاء رحمہم اللہ تعالیٰ کو محبت سے پکارنا یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ، یا غوث رضی ا ﷲعنہ کہنا۔
16.         بزرگوں سے مدد طلب کرنا ۔
17.          بزرگوں کے مزاروں پر چادر پھول ڈالنا۔
18.          فاتحہ پڑھنا ۔
19.          بزرگوں کو خدا عزوجل کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا۔
20.          بزرگوں کے مزاروں کے سامنے مراقبہ کرنا ۔
21.          بزرگوں کے مزاروں کا ادب کرنا۔
22.         بزرگوں کے فاتحہ کے کھانوں اور مٹھائیوں کو تبرک سمجھ کر کھانا۔
یہ باتیں ہرگز ہرگز شرک نہیں، کیوں کہ کوئی مسلمان بھی انبیاء ،اولیاء اور دوسرے بزرگوں یعنی پیروں اور اماموں اور شہیدوں کو واجب الوجود یا لائق عبادت نہیں مانتا ہے، بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمان اِن بزرگوں کو اللہ عزوجل کا بندہ مان کر اِن کی تعظیم کرتے ہیں۔
خ‌.           ایک درد مندانہ التجا:
کبھی بھول کر بھی کسی غیر خدا اور قبروں اور مقبروں کو سجدہ نہ کریں۔ ہمارے سجدے صرف ہمارے خدا کیلئے ہیں۔ جو جاہل لوگ قبروں کو سجدہ کرتے ہیں اگر وہ لوگ اِن بزرگوں کو قابلِ عبادت سمجھ کر سجدہ کریں تو یہ کھلا ہوا شرک ہو گا۔ اور اگر اِن بزرگوں کی تعظیم کیلئے سجدہ کریں تو یہ اگرچہ شرک نہیں ہو گا مگر ناجائز و حرام اور بہت سخت گناہ ہوگا۔
لہٰذا مسلمان کو قبروں کے سجدہ سے خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے۔
خانقاہوں کے سجادہ نشین اور مزاروں کے مجاورین حضرات کا فرض ہے کہ وہ قبروں پر سجدہ کرنے والے جاہل زائرین کو قبروں کو سجدہ کرنے سے روکیں اور خلاف شرع حرکت کرنے والے زائرین کو خانقاہوں اور مزاروں سے باہر کر دیں۔ ورنہ وہ بھی ان زائرین کے گناہوں میں شریک ٹھہریں گے اور قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو کر عذاب نار کے حقدار ٹھہریں گے۔
مگر افسوس کہ سجادہ نشین و مجاورین حضرات چند پیسوں اور چند بتاشوں کے لالچ میں گنوار قسم کے زائرین اور اجڈ عورتوں کو خانقاہوں اور مزاروں میں جانوروں کی طرح گھس پڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور یہ گنوار قبروں پر سر پٹک پٹک کر علانیہ سجدہ کرتے ہیں اور سجادہ نشین و مجاورین اپنی آنکھوں سے ان حرکتوں کو دیکھتے ہیں مگر دم نہیں مار سکتے اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ لوگ سنیوں کو طعنہ دیتے ہیں بلکہ بہت سے مسلمان ان قبیح حرکتوں کو دیکھ کر سنّیت سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ (نعوذ باللہ منہ)
د‌.                شکّی مزاج لوگوں سے اپیل :
کچھ وہمی قسم کے لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہی مسلمان ہیں اور جو عقیدہ میں ان کے خلاف ہو وہ مشرک ہے۔ معاملات انبیاء واولیاء واموات واحیأ کے متعلق صدہا باتوں میں ادنٰی سے ادنٰی بات (جیسے ممنوع یا مکروہ بلکہ مباحات ومستحبات) پر جا بجا حکم شرک لگا دینا ان کا خاص اصل الاصول ہے۔
یاد رکھیں کہ ساری دنیا کے سارے لوگ مل کر بھی اگر عبادت کریں تو اس کی شان میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔ اور اگر سب موجودات شرک کرنے لگیں تو بھی اس کی شان میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
خدا کا شریک ناممکن ہے۔ اگر کسی ایک فرد میں وہ تمام قوتیں اور صلاحیتیں مان لی جائیں جو آج تک کسی بھی مخلوق کو دی گئی ہیں یا قیامت تک کسی کو دی جائیں گی تب بھی ایسا شخص خدا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ساری کائنات (یعنی چاند، سورج، ستارے، کہکشائیں، بلیک اور وورم ہولز، پلسارز، کلسٹرز اور قواسرز، سارے جابر، سب بادشاہ، ساری حکومتیں، الغرض کل کائنات) مل کر بھی ایک خدا نہیں بن سکتی۔ کیونکہ خدا کل نہیں، خالق کل ہے۔ یہ میں ان کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں جن کو ذرا ذرا سی قوت و صلاحیت کسی انسان میں مان لینے پر شرک کا گمان ہونے لگتا ہے۔ یاد رکھو کہ خدا خدا ہے۔ بات بات پر اگر کسی کے شرک کا ماتھا ٹھنکنے لگے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ابھی اس نے خدا کی عظمت کو سمجھا ہی نہیں ہے۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور انہوں نے اللہ کی قدر و تعظیم نہیں کی جیسے اُس کی قدر و تعظیم کا حق تھا اور ساری کی ساری زمین قیامت کے دن اُس کی مُٹھی میں ہوگی اور سارے آسمانی کرّے اُس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک ہے اور ہر اس چیز سے بلند و برتر ہے جسے یہ لوگ شریک ٹھہراتے ہیں۔
جو زمینوں کو اپنی مٹھی میں لے لے اور آسمانوں کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ لے، کون اس کے جیسا ہوسکتا ہے؟
 لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ یعنی اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں، بلکہ کوئی ہوسکتا ہی نہیں۔
اس لئے اپنے آپ پر مہربانی فرمائیں اور شرک کے وہم اور اپنی تصوراتی دنیا سے باہر نکل آئیں۔ کنارے پر زیادہ عبادت کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رہ کر کم عبادت ہی کرلی جائے۔ کیونکہ "خیر الامور اوساطہا" کا فرمان ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------
سات صفحات کی اس پوسٹ میں 3002 الفاظ، 14103 کیریکٹرز اور 214 سطور ہیں۔ آپ کے قیمتی وقت کا بہت شکریہ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع