قربانی کے چند ضروری مسائل

قربانی کے چالیس مسائل:
احادیث مبارکہ:
نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے :''یومِ فطر، یومِ نحر اور ايامِ تشریق ہم مسلمانوں کی عیدیں ہیں اور يہ کھانے پینے کے دن ہیں۔''
          صحیحین میں علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، کہتے ہیں مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کے جانوروں پر مامور فرمایا اور مجھے حکم فرمایا: کہ ''گوشت اور کھالیں اور جھول تصدق کردوں اور قصاب کو اس میں سے کچھ نہ دوں۔ فرمایا کہ ہم اُسے اپنے پاس سے دیں گے۔''
ابو داود، ترمذی و ابن ماجہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی کہ حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ''یوم النحر"(دسویں ذی الحجہ)میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ پیارا نہیں۔ اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو۔ "
         طبرانی ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی کہ حضور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے ارشاد فرمایا: 'جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں۔'
        طبرانی عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ حضور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے فرمایا: ''قربانی میں گائے سات کی طرف سے اور اونٹ سات کی طرف سے ہے۔ ''
        امام مسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے حکم فرمایا کہ'' سینگ والا مینڈھا لایا جائے جو سیاہی میں چلتا ہو اور سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں نظر کرتا ہو یعنی اوس کے پاؤں سیاہ ہوں اور پیٹ سیاہ ہو اور آنکھیں سیاہ ہوں وہ قربانی کے لیے حاضر کیا گیا حضور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے فرمایا: ''عائشہ چھری لاؤ پھر فرمایا اسے پتھر پر تیز کر لو پھر حضور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے چھری لی اور مینڈھے کو لٹایا اور اسے ذبح کیا پھر فرمایا: ''بِسْمِ اللہِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ.وَاٰلِ مُحَمَّدٍ.وَمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ.'' الٰہی تو اس کو محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی طرف سے اور ان کی آل اور امت کی طرف سے قبول فرما۔
         ابو داود و نسائی و دارمی انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مشرکین سے جہاد کرو، اپنے مال اور جان اور زبان سے یعنی دِین حق کی اشاعت میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو جاؤ۔''
          ترمذی و ابو داود و نسائی و دارمی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ'' ہم جانوروں کے کان اور آنکھیں غور سے دیکھ لیں اور اوس کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا اگلا حصہ کٹا ہو اور نہ اوس کی جس کے کان کا پچھلا حصہ کٹا ہو نہ اوس کی جس کا کان پھٹا ہو یا کان میں سوراخ ہو۔''
        امام احمد وغیرہ حضرت علی سے راوی کہ حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:''چار قسم کے جانور قربانی کے لیے درست نہیں۔
       کانا ؔ جس کا کانا پن ظاہر ہے اور
 بیمارؔ جس کی بیماری ظاہر ہو اور
  لنگڑا ؔجس کا لنگ ظاہر ہے اور
  ایسا لاغر ؔ جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو''
    قربانی کی تعریف:
    مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب(ثواب کی نیت سے) ذبح کرنا قربانی ہے ۔
    اور کبھی اس جانور کو بھی اضحیہ اور قربانی کہتے ہیں جو ذبح کیا جاتا ہے۔


   وجوب قربانی کی شرائط:
     قربانی واجب ہونے کے شرائط یہ ہیں۔
       اسلا ؔ م یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں،
 اقامت یعنی مقیم ہونا، مسافر پر واجب نہیں،
 تونگریؔ یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔
 حریت یعنی آزاد ہونا جو آزاد نہ ہو اوس پر قربانی واجب نہیں کہ غلام کے پاس مال ہی نہیں لہٰذا عبادت مالیہ اوس پر واجب نہیں۔
     مرد ہونا اس کے لیے شرط نہیں۔ عورتوں پر واجب ہوتی ہے جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے۔
    اس کے لیے بلوغ شرط ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے اور نابالغ پر واجب ہے تو آیا خود اوس کے مال سے قربانی کی جائے گی یا اوس کا باپ اپنے مال سے قربانی کریگا۔ ظاہرالروایۃ یہ ہے کہ نہ خود نابالغ پر واجب ہے اور نہ اوس کی طرف سے اوس کے باپ پر واجب ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔
     قربانی واجب ہونے کا سبب وقت ہے جب وہ وقت آیا اور شرائط وجوب پائے گئے قربانی واجب ہوگئی اور اس کا رکن ان مخصوص جانوروں میں کسی کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا ہے۔
    جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو (تقریبا چالیس ہزار روپے) یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ غنی ہے اوس پر قربانی واجب ہے۔
     حاجت سے مراد
      رہنے کا مکان
اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو
اور سواری کا جانور
اور خادم
اور پہننے کے کپڑے
 ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں۔
    قربانی کا نصاب مقدار کے اعتبار سے زکوٰۃ کے نصاب جتنا ہی ہے۔ بس اس پر سال گزرنا شرط نہیں، صرف مالک ہونا کافی ہے۔ یہ صدقۂ قطر کا نصاب ہے۔
     بالغ لڑکوں یا بیوی کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو ان سے اجازت حاصل کرے۔
      بغیر ان کے کہے اگر کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہ ہوا ۔
اور نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں ہے مگر کر دینا بہتر ہے۔
 اقسام قربانی:
     قربانی کئی قسم کی ہے۔
     غنیؔ اور فقیر دونوں پر واجب: اوس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کی منت مانی یہ کہا کہ اﷲ(عزوجل)کے لیے مجھ پر بکری یا گائے کی قربانی کرنا ہے یا اس بکری یا اس گائے کو قربانی کرنا ہے۔
فقیر ؔپر واجب ہو غنی پر واجب نہ ہو، اس کی صورت یہ ہے کہ فقیر نے قربانی کے لیے جانور خریدا اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہے اور غنی اگر خریدتا تو اس خریدنے سے قربانی اوس پر واجب نہ ہوتی۔
غنی ؔپر واجب ہو فقیر پر واجب نہ ہو: اس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کا وجوب نہ خریدنے سے ہو نہ منت ماننے سے بلکہ خدا نے جو اسے زندہ رکھا ہے اس کے شکریہ میں اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ  والسلام کی سنت کے احیا میں۔
جو قربانی واجب ہے وہ صرف غنی پر ہے۔
    قربانی کے حصے اور شراکت:
    شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضرور ہے کہ گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ ہو۔
     جب قربانی کے شرائط پائے جائیں تو بکری کا ذبح کرنا یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے۔ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہو سکتا ۔
     اونٹ یا گائے کے شرکاء میں اگر کسی شریک کا ساتویں حصہ سے کم ہے تو کسی کی قربانی نہیں ہوئی یعنی جس کا ساتواں حصہ یا اس سے زیادہ ہے اوس کی بھی قربانی نہیں ہوئی۔
گائے یا اونٹ میں ساتویں حصہ سے زیادہ کی قربانی ہو سکتی ہے۔
مثلاً گائے کو چھ یا پانچ یا چار شخصوں کی طرف سے قربانی کریں ہو سکتا ہے ۔
اور یہ ضرور نہیں کہ سب شرکاء کے حصے برابر ہوں بلکہ کم و بیش بھی ہو سکتے ہیں ۔
جس کا حصہ کم ہے تو ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔
سات شخصوں نے پانچ گایوں کی قربانی کی یہ جائز ہے کہ ہر گائے میں ہر شخص کا ساتواں حصہ ہوا۔
   اور آٹھ شخصوں نے پانچ یا چھ گایوں میں بہ حصہ مساوی شرکت کی یہ ناجائز ہے کہ ہر گائے میں ہر ایک کا ساتویں حصہ سے کم ہے۔
    سات بکریوں کی سات شخصوں نے شریک ہو کر قربانی کی یعنی ہر ایک کا ہر بکری میں ساتواں حصہ ہے استحساناً قربانی ہو جائے گی یعنی ہر ایک کی ایک ایک بکری پوری قرار دی جائے گی۔
    یونہی دو شخصوں نے دو بکریوں میں شرکت کر کے قربانی کی تو بطور استحسان ہر ایک کی قربانی ہو جائے گی۔
    گائے کے شرکاء میں سے ایک کافر ہے یا ان میں ایک شخص کا مقصود قربانی نہیں ہے بلکہ گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہ ہوئی۔
       بلکہ اگر شرکاء میں سے کوئی غلام یا مدبر ہے جب بھی قربانی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ لوگ اگر قربانی کی نیت بھی کریں تو نیت صحیح نہیں۔
 قربانی کا وقت:
      قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے
     یعنی تین دن ، دو راتیں اور ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں۔
 اور گیارہ سے تیرہ تک تین دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں لہٰذا بیچ کے دو دن ایام نحر و ایام تشریق دونوں ہیں اور پہلا دن یعنی دسویں ذی الحجہ صرف یوم النحر ہے
اور پچھلا دن یعنی تیرہویں ذی الحجہ صرف یوم التشریق ہے۔
 دسویں کے بعد کی دونوں راتیں ایام نحر میں داخل ہیں ان میں بھی قربانی ہو سکتی ہے مگر رات میں ذبح کرنا مکروہ۔
    شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہو چکے لہٰذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی۔
   اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہو سکتی ہے اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے۔
   اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عید کا خطبہ ہو چکنے کے بعد قربانی کی جائے۔ یعنی نماز ہو چکی ہے اور ابھی خطبہ نہیں ہوا ہے اس صورت میں قربانی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
      اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو پہلی جگہ نماز ہو چکنے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضرور نہیں کہ عید گاہ میں نماز ہو جائے جب ہی قربانی کی جائے بلکہ کسی مسجد میں ہو گئی اور عید گاہ میں نہ ہوئی جب بھی ہو سکتی ہے۔
     قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی مثلاً بجائے قربانی اوس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کر دی یہ ناکافی ہے۔
      اس میں نیابت ہو سکتی ہے یعنی خود کرنا ضرور نہیں بلکہ دوسرے کو اجازت دے دی اوس نے کر دی یہ ہو سکتا ہے۔
    پہلا دن یعنی دسویں تاریخ سب میں افضل ہے پھر گیارہویں اور پچھلا دن یعنی بارہویں سب میں کم درجہ ہے۔
     اور اگر تاریخوں میں شک ہو یعنی تیس کا چاند مانا گیا ہے اور انتیس کے ہونے کا بھی شبہہ ہے مثلاً گمان تھا کہ انتیس کا چاند ہوگا مگر ابر وغیرہ کی وجہ سے نہ دکھایا شہادتیں گزریں مگر کسی وجہ سے قبول نہ ہوئیں ایسی حالت میں دسویں کے متعلق یہ شبہہ ہے کہ شاید آج گیارہویں ہو تو بہتر یہ ہے کہ قربانی کو بارہویں تک مؤخر نہ کرے یعنی بارہویں سے پہلے کر ڈالے کیونکہ بارہویں کے متعلق تیرہویں تاریخ ہونے کا شبہہ ہوگا تو یہ شبہہ ہوگا کہ وقت سے بعد میں ہوئی۔
اور اس صورت میں اگر بارہویں کو قربانی کی جس کے متعلق تیرہویں ہونے کا شبہہ ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت صدقہ کر ڈالے۔
بلکہ ذبح کی ہوئی بکری اور زندہ بکری میں قیمت کا تفاوت ہو کہ زندہ کی قیمت کچھ زائد ہو تو اس زیادتی کو بھی صدقہ کر دے۔
قربانی کا وقت گزر جائے تو؟
    ایام نحر گزر گئے اور جس پر قربانی واجب تھی اوس نے نہیں کی ہے تو قربانی فوت ہو گئی اب نہیں ہو سکتی۔
     پھر اگر اوس نے قربانی کا جانور معین کر رکھا ہے مثلاً معین جانور کے قربانی کی منت مان لی ہے وہ شخص غنی ہو یا فقیر بہر صورت اسی معین جانور کو زندہ صدقہ کرے
اور اگر ذبح کر ڈالا تو سارا گوشت صدقہ کرے اوس میں سے کچھ نہ کھائے۔
اور اگر کچھ کھا لیا ہے تو جتنا کھایا ہے اوس کی قیمت صدقہ کرے۔
اور اگر ذبح کیے ہوئے جانور کی قیمت زندہ جانور سے کچھ کم ہے تو جتنی کمی ہے اسے بھی صدقہ کرے۔
    اور فقیر نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا ہے اور قربانی کے دن نکل گئے چونکہ اس پر بھی اسی معین جانور کی قربانی واجب ہے لہٰذا اس جانور کو زندہ صدقہ کر دے اور اگر ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو منت میں مذکور ہوا۔ یہ حکم اوسی صورت میں ہے کہ قربانی ہی کے لیے خریدا ہو۔
     اور اگر اوس کے پاس پہلے سے کوئی جانور تھا اور اوس نے اوس کے قربانی کرنے کی نیت کر لی یا خریدنے کے بعد قربانی کی نیت کی تو اوس پر قربانی واجب نہ ہوئی۔
    اور غنی نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا ہے تو وہی جانور صدقہ کر دے اور ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو مذکور ہوا اور خریدا نہ ہو تو بکری کی قیمت صدقہ کرے۔
وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن ان کی قربانی نہیں ہو سکتی۔
      وحشی اور گھریلو جانور سے مل کر بچہ پیدا ہوا مثلاً ہرن اور بکری سے اس میں ماں کا اعتبار ہے یعنی اوس بچہ کی ماں بکری ہے تو جائز ہے اور بکرے اور ہرنی سے پیدا ہے تو ناجائز۔
قربانی کا جانور کیسا ہو؟
    قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیے۔
      اونٹ پانچ سال کا
 گائے دو سال کی
بکری ایک سال کی اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے۔
ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہہ بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اوس کی قربانی جائز ہے۔
     قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے۔
     اور تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی۔
 اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں۔
  جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اوس کی قربانی جائز ہے۔
اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیا اور مینگ تک ٹوٹا ہے تو ناجائز ہے اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے۔
   جس جانور میں جنوں ہے اگر اس حد کا ہے کہ وہ جانور چرتا بھی نہیں ہے تو اوس کی قربانی ناجائز ہے اور اس حد کا نہیں ہے تو جائز ہے۔
     خصی یعنی جس کے خصیے نکال لیے گئے ہیں یا مجبوب یعنی جس کے خصیے اور عضو تناسل سب کاٹ لیے گئے ہوں ان کی قربانی جائز ہے۔
   اتنا بوڑھا کہ بچہ کے قابل نہ رہا، یا داغا ہوا جانور ، یا جس کے دودھ نہ اترتا ہو ان سب کی قربانی جائز ہے۔
     خارشتی جانور کی قربانی جائز ہے جبکہ فربہ ہو اور اتنا لاغر ہو کہ ہڈی میں مغز نہ رہا تو قربانی جائز نہیں۔
    مستحب یہ ہے کہ
      قربانی کا جانور خوب فربہ اور خوبصورت اور بڑا ہو۔
 اور بکری کی قسم میں سے قربانی کرنی ہو تو بہتر
سینگ والا
مینڈھا
چت کبرا ہو
جس کے خصیے کوٹ کر خصی کر دیا ہو۔
حدیث میں ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے ایسے مینڈھے کی قربانی کی۔
  قصاب اور قربانی کی قیمت:
    قربانی کا چمڑا یا گوشت یا اس میں کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں نہیں دے سکتا کہ اس کو اجرت میں دینا بھی بیچنے ہی کے معنی میں ہے۔
   قربانی کا گوشت:
     قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے کھلا سکتا ہے۔
     بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے۔
     بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے ایک حصہ فقرا کے لیے اور ایک حصہ دوست و احباب کے لیے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے، ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے۔
 اور کل کو صدقہ کر دینا بھی جائز ہے۔
اور کل گھر ہی رکھ لے یہ بھی جائز ہے۔
تین دن سے زائد اپنے اور گھر والوں کے کھانے کے لیے رکھ لینا بھی جائز ہے اور بعض حدیثوں میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ منسوخ ہے۔
   اگر اوس شخص کے اہل و عیال بہت ہوں اور صاحب وسعت نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں ہی کے لیے رکھ چھوڑے۔
    بکری خریدی ،دیکھا تو اُس کے کان کٹے ہوئے ہیں، یہ عیب ہے۔
     یونہی قربانی کے لیے کوئی جانور خریدا جس کے کان کٹے ہوئے ہیں یا اُس میں کوئی عیب ایسا ہے جس کی وجہ سے قربانی نہیں ہو سکتی اُسے واپس کرسکتا ہے۔
     اور اگر قربانی کے لیے نہ ہو تو واپس نہیں کرسکتا مگر جبکہ عرف میں وہ عیب قرار دیا جائے۔
    اگر بائع و مشتری میں اختلاف ہوا مشتری کہتا ہے میں نے قربانی کے لیے خریدا ہے بائع انکار کرتا ہے اگر وہ زمانہ قربانی کا ہو اور مشتری اہل قربانی سے ہو تو مشتری کا قول معتبر ہے۔
 قربانی کے متفرق مسائل:
   ایام تشریق :یومِ نَحْر(قربانی)یعنی دس ذوالحجہ کے بعد کے تین دن(۱۱و۱۲و۱۳) کوایام تشریق کہتے ہیں۔
     عيد اضحی تمام احکام میں عیدالفطر کی طرح ہے صرف بعض باتوں میں فرق ہے،
      اس میں مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے اگرچہ قربانی نہ کرے ، اور کھا لیا تو کراہت نہیں۔
اور راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتا جائے۔
اور عیداضحی کی نماز عذر کی وجہ سے بارہویں تک بلا کراہت مؤخر کر سکتے ہیں، بارہویں کے بعد پھر نہیں ہو سکتی اور بلا عذر دسویں کے بعد مکروہ ہے۔
     شکرانہ کی قربانی سے آپ کھائے، غنی کو کھلائے، مساکین کو دے اور کفارہ کی صرف محتاجوں کا حق ہے۔
    قربانی کی نیت سے دوسرے جانور مثلاً مرغ کو ذبح کرنا ناجائز ہے۔

میرے تین ہزار الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع