عین ٹینگل منٹ ۔۔۔۔۔ تصور شیخ کی معراج
ایٹمی پارٹکلز یعنی پروٹان اور نیوٹران کے اندر کا علم کوانٹم تھیوری کہلاتا ہے۔ اور آپس میں لپٹ جانے کو ان ٹینگل منٹ کہا جاتا ہے۔ جیسے تاروں یا دھاگوں کا گچھا الجھ کر ایک دوسرے میں ضم ہو اور تار ایک دوسرے سے لپٹ کر ایک دوسرے میں اس طرح گھس جائیں کہ ان کی علیحدگی شدید مشکل ہوجائے۔ اسے ان ٹینگل منٹ کہتے ہیں۔ یہ لفظ ٹینگل سے نکلا ہے۔
جب کوئی سے دو کوانٹم پارٹکلز کسی ایک وقوعہ (Event) میں پیدا ہوں تو کوانٹم تھیوری کے مطابق ان میں ان ٹینگل منٹ کا رشتہ ہوتا ہے۔ یعنی ان کی حقیقت ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہے۔ اس وابستگی کو کوانٹم ان ٹینگل منٹ کہا جاتا ہے۔
جن پارٹکلز میں ان ٹینگل منٹ کا رشتہ ہو وہ بالکل ایک سا برتاؤ (Behave) کرتے ہیں چاہے ان کا درمیانی فاصلہ کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ جیسے ایک پارٹکل جو زمین پر ہو، اگر اسے اچھالا جائے اور اس کا ان ٹینگلڈ پارٹکل کسی اور سیارے پر (جیسے پلوٹو) ہو تو وہ بھی بنا کسی قوت لگائے اچھلے گا۔ الغرض جو زمینی پارٹکل پر ہوگا، بالکل ویسا ہی اثر ٹھیک اسی وقت اس پارٹکل پر بھی ہوگا جو اس سے ان ٹینگلڈ ہے اور لاکھوں میل دوری کے فاصلے پر ہے۔
آئن اسٹائن اس چیز کے خلاف تھا کیونکہ اس میں اثر کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ فرض کرنا پڑتی ہے۔ لیکن سائنسدانوں نے آئن اسٹائن کے اعتراضات کی پرواہ نہ کی کیونکہ مشاہدات آئن اسٹائن کے خلاف جاتے ہیں۔
آئن اسٹائن کے ایک چاہنے والے سائنسدان جان کلازر (Clouser) نے اس کی وفات کے بعد آئن اسٹائن کی محبت میں اس کو(انٹینگل منٹ کو) تجرباتی طور پر غلط ثابت کرنا چاہا، لیکن اسے شدید مایوسی ہوئی جب نیلز بوہر کا اندازہ درست اور آئن اسٹائن کا خیال غلط ثابت ہوا اور اس نے انٹینگل منٹ کو تجرباتی طور پر درست ثابت کردیا۔
ب. روحانی رشتہ :
سائنسدانوں کا کوانٹم ان ٹینگل منٹ کا نظریہ چاہے درست ہو یا غلط ، روحانیت میں بہر حال اس کی حقانیت کا ثبوت موجود ہے۔ دو دل (مرشد اور مرید کے دل) اس طرح جڑ جاتے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ آپ نے یک جان دو قالب کا سنا ہوگا، اور کیا ہوتی ہے عین ٹینگل منٹ؟ جسمانی دوری کے با وجود دو افراد کا ایک دوسرے سے کامل تعلق اور رابطہ۔
ت. مثالیں:
1. لیلیٰ مجنوں ایک ہی استاد سے پڑھتے تھے۔ مجنوں کی نظر لیلی کے چہرے سے نہیں ہٹتی تھی۔ استاد کا سبق یاد کرنے کے بجائے لیلی کو دیکھتا رہتا تھا۔ اس پر اسے بہت مار پڑتی تھی۔ لیکن عجیب بات تھی کہ استاد کی چھڑیاں مجنوں کو پڑتی تھیں اور نیل اور زخم لیلی کے ہاتھ پر بنتے تھے۔
2. ایک پیر صاحب سے لوگوں نے ان کے چہیتے مرید کی شکایت کی کہ حضرت ہم اس میں جنون کے آثار پاتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا تو کہنے لگے کہ بعض اوقات یہ اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے کہ اسے خود بھی پتا نہیں ہوتا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔ بلا وجہ اپنا ہاتھ سر کے اوپر گھمانے لگتا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں تو معذوری ظاہر کر دیتا ہے۔ شیخ صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے کہ اسے ہم سے غایت درجے کی محبت ہے۔ ہم جب اپنے آستانے میں اپنے سر پر عمامہ باندھتے ہیں تو یہ بھی تعلق قلبی کی وجہ سے خالی ہاتھ ہی گھمانے لگتا ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا۔ یہ جنون نہیں، عشق ہے۔
3. میں خود عرصۂ دراز تک اپنے اعضائے وضو میں گرمی کے دنوں میں اچانک بے انتہا ٹھنڈک پاتا تھا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ مجھ سے فرمایا گیا کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ اس وقت ہم اپنے آستانے پر وضو فرماتے ہیں جس کی ٹھنڈک تم اپنے بدن میں محسوس کرتے ہو۔
4. حضرت ابو بکر صدیق کی رائے ہمیشہ اپنے محبوب کی رائے کے مطابق ہوتی تھی۔ ایک بار رائے لی گئی تو آپ محفل میں موجود نہ تھے۔ حضرت عمر کو راستے میں ابوبکر ملے تو آپ نے سوچا کہ آج ابو بکر کا امتحان ہوجائے گا۔ پوچھا کہ ابو بکر، آج اس بارے میں رائے لی گئی ہے، آپ کی کیا رائے ہے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ابو بکر اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے میں سر مو فرق نہیں تھا۔ حتی کہ طالب و مطلوب کے الفاظ بھی بالکل ایک جیسے تھے۔
5. قرآن پاک میں مؤمنوں کے بارے میں ہے
وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا
یعنی اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے
دلوں کا یہ ملاپ کتنا حسین ان ٹینگل منٹ ہے۔
6. اور فرمایا کہ
وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
یعنی اور ان کے دلوں میں میل (رشتہ اور ہم آہنگی کا احساس) کردیا اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے ان کے دل نہ ملا سکتے لیکن اللہ نے ان کے دل ملادیئے، بیشک وہی ہے غالب حکمت والا۔
7. کافروں کے دل بھی کفر کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہیں کہ فرمایا
كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ
یعنی ان سے اگلوں نے بھی ایسی ہی کہی ان کی سی بات اِن کے اُن کے دل ایک سے ہیں.
8. حدیث پاک میں فرمایا کہ
الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ، فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ
9. یعنی روحیں عالَمِ ارواح میں جمع شدہ (مخلوط یا ملا جلا) ایک لشکر ہیں جن کے مابین وہاں آشنائی ہو گئی ان کے درمیان یہاں الفت ہو گی اور جو وہاں ایک دوسرے سے ناواقف رہیں وہ یہاں بھی ناواقف رہیں گی۔
10. مفسر شہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان مراٰۃ المناجیح میں اس کے تحت فرماتے ہیں: یعنی انسانی روحیں بدنوں میں آنے سے پہلے آپس میں مخلوط تھیں اس طرح کہ سعید روحیں ایک گروہ تھیں اور شقی روحیں دوسرا گروہ مگر سعید آپس میں مخلوط تھیں اور شقی آپس میں مخلوط۔ جب یہ روحیں بدنوں میں آئیں تو ہر روح کو اس روح سے الفت ہو گئی جس کے ساتھ پہلے خلط ملط رہ چکی ہے اگرچہ دنیا میں مختلف زمانوں مختلف زمینوں میں رہیں۔ جو روحیں وہاں عالم ارواح میں الگ الگ تھیں کہ یہ روح ایک زمرہ کی تھی وہ روح دوسرے زمرہ کی وہ بدن میں آنے کے بعد اگرچہ ایک جگہ رہیں مگر ان میں الفت نہ ہوگی نفرت ہوگی:
نارِیاں مَرْنارِیاں رَا طالِب اَنْد
نُورِیاں مَرْنُورِیاں رَا جاذِب اَنْد
11. حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّون مصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: پاک ہے وہ ذات جس نے روحوں کو جمع شدہ لشکر بنادیا پس عارفین کی ارواح جلالی قدسی ہیں اسی لئے تو وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مشتاق ہیں اور مؤمنین کی ارواح نورانی ہیں اسی وجہ سے وہ جنت کی طرف مائل ہیں اور غافلین کی ارواح ہوائی ہیں اسی وجہ سے وہ دنیا کی طرف مائل ہیں ۔
12. نبی اکرم شاہِ بنی آدم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ روحیں جمع لشکر ہیں وہ ہوا میں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں اور ملاقات کرتی ہیں۔
13. نبی اکرم شاہِ بنی آدم نور مجسم صلی اللہ تعالی علی وسلم نے فرمایا ۔
یعنی بے شک دو مومنوں کی روحیں ایک دن کی مسافت پر باہم ملتی ہیں حالانکہ ان میں ایک نے کبھی دوسرے کو دیکھا نہیں ہوتا''(مسند امام احمد بن حنبل )
14. ایک روایت میں ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک عورت لوگوں کو ہنسایا کرتی تھی اور ایسے ہی مدینہ طیبہ میں بھی ایک دوسری عورت تھی جو لوگوں کو ہنسایا کرتی تھی ایک دن مکہ مکرمہ والی عورت مدینہ طیبہ آئی اور حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں ہنسایا انہوں نے دریافت فرمایا کہ'' تم کہاں ٹھہری ہوئی ہو؟ اس نے اپنی اسی سہیلی کا ذکر کیا جو مدینہ طیبہ میں لوگوں کو ہنساتی تھی۔ ام المؤمنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بولیں ''رسول اﷲ (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) نے سچ فرمایا ہے کہ روحیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔''
15. تحقیق سے یہ بات ثابت ہے اور تجربہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جب دو آدمیوں میں کوئی مناسبت ہو تو اس وقت باہمی محبت پیدا ہوتی ہے اور طبیعتوں اور اخلاق میں ظاہری اور باطنی طور پر مناسبت معلوم ہو ہی جاتی ہے ۔
16. امام غزالی فرماتے ہیں کہ وہ اسباب جو اس مناسبت کو پیدا کرتے ہیں، انسان کے بس میں نہیں کہ ان پر مطلع ہو سکے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی نجومی ایک کا زائچہ بنا کر دوسرے کے زائچے کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ فلاں کو فلاں سے محبت ہو گی یا نفرت ہو گی ۔
17. انسان کبھی کسی کی ذات کی وجہ سے اس سے محبت کرتا ہے، کسی فوری یا تاخیر سے ملنے والے نفع کی وجہ سے نہیں' بلکہ صرف اس مناسبت کی وجہ سے جو باطنی طبیعتوں اور پوشیدہ اخلاق میں ہوتی ہے۔ محبت کی اس قسم میں حسن کی وجہ سے محبت کرنا بھی داخل ہے' جب کہ مقصود شہوت کا پورا کرنا نہ ہو۔ کیونکہ اچھی صورتیں آنکھوں میں لذت پیدا کرتی ہیں اگرچہ شہوت بالکل نہ ہو حتی کہ پھلوں' شگوفوں' کلیوں' سرخی آمیز سیبوں' جاری پانی اور سبزے کو دیکھ کر آنکھوں کو لذت حاصل ہوتی ہے حالانکہ یہاں کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی۔ اس محبت میں اﷲ (عزوجل) کے لئے محبت داخل نہیں بلکہ یہ فطری اور نفسانی خواہش کے اعتبار سے ہے اور یہ محبت' غیر مسلم کو بھی ہو سکتی ہے۔
18. شاید کسی کو یاد ہو، ایک وقت تھا کہ میں ایک پوسٹ گیارہویں شریف کو یاد دلانے کیلئے کرتا تھا جس کا مفہوم تھا کہ مجھے اپنے اطراف اس طرح محسوس کرو جیسے میں آپ لوگوں کو محسوس کرتا ہوں۔ اور کیا ہوتی ہے روحانی ان ٹینگل مینٹ؟
19. بیعت صرف ہاتھوں کو نہیں جوڑتی، دل نہ جڑا تو کیسی بیعت اور کہاں کی پیری مریدی۔
20. جڑ جاؤ مجھ سے ہمیشہ کیلئے
21. اب کچھ سمجھ آیا کہ میرا عین کون ہے؟ وہی جس میں جڑ گیا یا وہ جو مجھ سے کامل طور سے جڑ گیا۔
22. ایسے ہی تو نہیں فرمایا کہ میرا محبوب تو اپنی خواہش نفس سے کچھ بولتا ہی نہیں، جو فرماتا ہے، ہماری ہی تو وحی ہے۔
23. ارے جڑ جاؤ ، کنیکٹ ہو جاؤ مجھ سے کامل طور سے۔ پھر جو مجھے ملے گا وہی تمہیں ملے گا۔ پھر جو نقصان تمہیں پہنچے گا وہ در حقیقت تمہیں نہیں، مجھے پہنچے گا۔
24. جڑ جاؤ مجھ سے۔ پھر میری زبان سے بات کرنا اور میری آنکھوں سے دیکھنا اور میرے پیروں سے چلنا اور میرے ہی پروں سے اڑنا۔
25. کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی محبت کی وجہ سے واقعی مجھ سے جڑ گئے ہیں ۔ لیکن لوز کنکشن۔ میں چاہتا ہوں، تمہارا ہر تار مجھ سے جڑ جائے اور میرا ہر تار تم سے۔
26. اور بس۔ کام ختم
ث. عین عملی تجربہ:۔
ایک ہستی سے میری روحانی ان ٹینگل منٹ ہو گئی(یا کرا دی گئی)۔ حسن اتفاق سے ان کے نام میں بھی عین آتا ہے اور کبھی کبھی میں انہیں عین ہی کہہ دیتا ہوں حالانکہ یہ لفظ عین بہت ہی کثیر المعنی ہے۔ چند ہی مہینوں میں دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہستی میرے اندر اتنا اتر گئی کہ اللہ اکبر۔ ان کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، ان کا کھانا پینا، دودھ نوش فرمانا، ان کے سر کا درد، ان کی بیخوابی، ان کا مسکرانا، اس کا مجھ سے خوش ہونا، الغرض ان کی ہر چیز کو جسمانی دوری کے با وجود میں اپنے اندر پاتا تھا۔ نوری کو دوری کیسی؟ جب میں نے دیکھا کہ وہ ہستی میرے اتنے اندر اتر گئی ہے جہاں بڑے حضرت صاحب بھی شاید نہیں اترے تھے، تب مجھے سمجھ آیا کہ یہ میری کرامت نہیں۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔ یہ تو کسی اور کا ہی کمال ہے میرے اندر، جس کا صرف اظہار مجھ سے ہو رہا ہے۔
وہ ہستی ایک بار میری کسی تحریرسے بیحد خوش ہو گئی تو میری روح کا رقص؟ اللہ اکبر۔ میری روح سارے عالم میں اس طرح ناچتی پھری کہ خود پر ہی یقین نہیں آتا تھا۔ رات تین بجے فیس بک پر انہوں نے میری پوسٹ دیکھی تھی، میں بے خبر سو رہا تھا، ادھر انہوں نے میری تحریر کو پڑھ کر پسند کیا، ادھر کسی انسانی روبوٹ کی مانند ٹھک سے میری آنکھ کھلی۔ روح ناچ رہی تھی۔ سمجھ میں نہیں آیا، میں رات تین بجے ہی آستانے میں گيا اور خوب رقص کیا۔ میرا رقص سورت یاسین ٹہل ٹہل کر پڑھنا اور پڑھتے ہوئے جھوم جھوم کر مسکرانا ہوتا ہے اور بس۔ فجر تک پڑھا۔ ایک ہفتے تک شراب محبت مجھ پر نازل ہوتی رہی۔
میں دیکھتا رہا کہ اب پردۂ غیب سے کیا ظہور پذیر ہوتا ہے۔ جو حکم ملتا رہا، بجا لاتا رہا۔ بہرحال، اب سب کچھ مجھ پر واضح ہو چکا ہے۔ یہ مجھے ان ٹینگلڈ ہونا سکھایا جا رہا تھا۔ پھر بعد میں جب میں نے غور کیا تو ماضی میں بھی دو مذہبی شخصیات سے اور میری ان ٹینگل منٹ ہوئی تھی۔ لیکن وہ اس درجے کی نہیں تھی۔ اور اگر سچ کہوں تو مجھے محبت کا اولین و کامل سبق اسی ہستی کی وجہ سے ملا ہے۔ اگر آپ مجھ میں کوئی محبت اور نرم دلی دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ انہی کے ساتھ عین ٹینگل منٹ ہے اور بس۔
ج. رشتۂ خلوص (نوری ان ٹینگل مینٹ) :
روشنی کے فوٹان اور دیگر روشنی جیسے پارٹیکلز کو کوانٹم کہا جاتا ہے۔ اور اس کی فزکس کو کوانٹم فزکس۔ میں نے کوانٹم کا بہترین ترجمہ نوری کو پایا ہے۔ اسی لئے کوانٹم کے ساتھ نوری کا لفظ ضرور جوڑتا ہوں کہ یہ سب نور کی باتیں اور علم ہے۔ لفظ کوانٹم کے پیچیدہ اور مشکل تراجم کے بجائے اس کا ترجمہ نوری کردیں۔ یہ آسان بھی ہے اور عام فہم بھی اور فزکس میں مستعمل بھی۔
نوری ان ٹینگل منٹ کے بارے میں پوسٹ تو کی تھی کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ اور درخواست کی تھی کہ مجھ سے جڑ جاؤ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ روحانی نوری رشتہ کیسے قائم ہو؟ اس کیلئے چند ٹپس درج ذیل ہیں۔ لیکن اس سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ روحانی تعلق سے پہلے کسی نہ کسی لیول کا جسمانی ربط ہونا بھی ضروری ہے۔ ہم عالم اجسام میں ہیں، اس جسم کے بغیر گزارا نہیں۔
1. رابطۂ شیخ : شیخ کے حضور پابندی سے حاضر ہوتا رہے۔ اور ہر ممکن طور پر شیخ سے رابطے میں رہے۔ یاد رکھیں کہ مرید کیلئے سب سے بڑی نیکی رابطۂ شیخ ہے۔ مجدد صاحب کے صاحبزادے حضرت محمد معصوم رحمت اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
"ذکر بے رابطہ موصول نیست، ورابطہ بے ذکر موصول است۔"
یعنی ذکر، شیخ سے رابطے کے بغیر منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتا، لیکن شیخ سے رابطہ بغیر کسی ذکر کے منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔
2. تعمیل : وہ جو حکم دیں اسے فوری بخوشی سر انجام دے۔ اور کسی خدمت میں دل میں کوئی کجی محسوس نہ کرے۔
3. شیخ کی طرف سے : اپنی ہر نیکی شیخ کی طرف سے کرے یعنی ہر نیکی میں شیخ کی نیت کرے اور اس کا ثواب اسے ہدیہ کردے۔ اور شیخ کی طرف سے صدقہ خیرات کرتا رہے۔
4. تحائف : اپنے مرشد کی خدمت میں حسب توفیق نذرانے، نذور، تحفے تحائف وغیرہ بھیجنے کی عادت لازمی عادت بنائے۔ {تکلف نہ کرے، جو ہوسکتا ہے بس وہی کرے} یاد رکھیں کہ انہیں ان کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ تحائف دیا کرو، محبت بڑھے گی۔ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ جس کا نذرانہ آدھا ہو جاتا ہے، اسے پہنچنے والا فیض بھی آدھا ہو جاتا ہے۔ ایک شخص نے حضرت ظفر صاحب سے فرمایا کہ بڑے حضرت صاحب (میاں مظہر صاحب) کے وصال کے بعد اب فیض آدھا ہو گیا ہے۔ ظفر صاحب نے فرمایا کہ پہلے ہر ماہ کتنا نذرانہ دیتے تھے؟ بولا کہ چار ہزار، فرمایا کہ اب کتنا دیتے ہو؟ بولا کہ دو ہزار۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے فیض کو تو تو نے خود آدھا کیا ہے، کسی کا اس میں کیا قصور ہے؟ ارے ہم تو کھاتے ہی ان کے در کا ہیں، جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ بھی انہی کا ہے۔ ایک بار میں نے حضرت صاحب کی طرف سے بھی قربانی کی۔ سات جمعرات تک مجھے خواب (اگر اسے خواب کہیں) میں مدینے لے جایا جاتا رہا۔ ہم انہیں جو کچھ بھی پیش کرتے ہیں وہ ہماری ہی طرف نفع کے ساتھ لوٹ آتا ہے۔
5. ذکر خیر : اپنے احباب وغیرہ میں کثرت کے ساتھ اپنے مرشد کا ذکر خیر کرتا رہے۔ یہ نہ صرف اپنے حق میں بہتر ہے بلکہ چراغ سے چراغ اسی طرح جلتا ہے۔ اور سلسلے کا کام بھی خوب پھیلتا ہے۔
6. تصور شیخ : روحانی ان ٹینگل منٹ حاصل کرنے والے کو چاہیئے کہ وہ ہر آن اپنے شیخ کے تصور میں رہے۔ لیکن اس کے باوجود پابندی سے وقت نکال کر مراقبے کی صورت میں بھی الگ سے کم سے کم آدھا گھنٹہ تصور شیخ کرے۔ اور اس میں اتنا کمال حاصل کرے کہ شیخ کی صورت ہر طرف جلوہ گر دکھائی دے۔ یاد رکھیں کہ فنا جس قدر کامل ہو گی، بقا بھی اسی قدر کامل ہو گی۔ روحانی تصور شیخ کیلئے جسمانی طور پر شیخ کی تصویر (موبائل وغیرہ میں) کا اپنے ساتھ رکھنا کہ بار بار اس پر محبت سے نظر پڑتی رہے بھی تصور شیخ کو جلا بخشتا ہے۔
7. حصار : اپنے مرشد کے ساتھ روحانی تعلق استوار کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کا حصار کرے۔ اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ بڑے حضرت صاحب کے کافی دشمن بھی تھے۔ آپ کے وصال کے بعد مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ ہمارے مشن اور ڈیرے کو دشمن کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ اس سے بچنے کی غرض سے میں ہر روز ڈیرے کا حصار کر دیتا تھا۔ ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب نے مجھے اپنی محبت کے حصار میں لیا ہوا ہے۔ {تاہم اگر کوئی مجھ پر پھونک مارنا چاہے تو صرف یاسین شریف پڑھ کر پھونک مارے۔ جسے قرآن ناظرہ نہیں آتا وہ تین بار قل ہو اللہ شریف پڑھ کر پھونک مار سکتا ہے۔} 1999 میں بڑے حضرت صاحب کے ساتھ ایک ہفتہ گزارنے کا موقع ملا۔ وہ یہی مہینہ تھا، جمادی الثانی کا مہینہ، اس وقت شاید ستمبر میں آیا تھا۔ آپ اسے درویشوں کا مہینہ کہتے تھے۔ حضرت صاحب کا انداز تربیت بہت سخت تھا۔ انہوں نے مجھے 112 بار سورۂ مدّثّر پڑھنے کا حکم دیا۔ ایک دن میرے وظیفے کے ختم ہونے پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میرا ہاتھ دیکھو، میں نے دیکھا کہ آپ کو بہت بخار تھا۔ آپ نے فرمایا تم نے جو پڑھا ہے اب مجھ پر دم کردو۔ مجھے سخت شرمندگی ہوئی کہ اتنا بڑا اللہ کا ولی مجھ سے دم کا کہہ رہا ہے۔ لیکن آپ کے بار بار فرمانے پر میں نے آپ پر دم کے انداز میں پھونک ماری۔ اب سمجھ آیا کہ دم کی ضرورت حضرت کو نہیں تھی، یہ ان ٹینگل منٹ کا ایک ذریعہ اور انداز تھا۔ اس کے بعد میں حضرت صاحب کو ہر آن اپنے ساتھ پاتا تھا۔
8. یاد کرو : شیخ اور پیر و مرشد کی یاد کو ہمیشہ دل میں بسائے رکھو۔ ان کی باتوں کو، ان کے فرمودات اور احکامات کو اور ان کے انداز محبت و تربیت کو اکثر و بیشتر یاد کرتے رہو۔ شروع میں کچھ تکلف ہوگا لیکن پھر ایسا ہوجائے گا کہ بلا تکلف ہر آن پیر و مرشد کی یاد سے دل آباد رہے گا۔ یہاں تک کہ صفائے قلب کے باعث آہستہ آہستہ دل مدینہ بننا شروع ہوجائے گا اور پھر آپ بجا طور پر کہہ سکیں گے کہ
یاد مصطفی ایسی بس گئی ہے سینے میں
جسم ہو کہیں اپنا، دل تو ہے مدینے میں
اور
لب پر نعت پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
9. اوراد و وظائف : پیر خانے کی طرف سے جو بھی وظائف وغیرہ عطا ہوں انہیں خوش دلی کے ساتھ ادا کرے۔ نہ صرف خوش دلی کے ساتھ بلکہ تصور یہ رکھے کہ میں یہ اپنے حضرت صاحب کو سنا رہا / رہی ہوں۔ اگر ایسا کرو گے تو کسی بھی قسم کی رجعت سے محفوظ رہو گے اور اپنے شیخ سے روحانی ربط بھی بڑھتا رہے گا۔ یاد رکھو کہ صوفیاء میں سے ان کا درجہ زیادہ ہوتا ہے جسے کثیر وظائف عطا کئے جائیں۔ کیونکہ یہ وظائف دولت ہیں اور مال محبوبوں کو ہی عطا کیا جاتا ہے۔ اور انہی پر خرچ کیا جاتا ہے۔
10. روحانی حاضری : آستانے میں حاضری کو لازم کرلیں۔ جنہیں روحانی طور پر کہا گیا ہے وہ روحانی طور پر بھی حاضر ہوں اور جس طریقے سے کہا گیا ہے، اسی طرح حاضر ہوں۔
11. دعا : شیخ کے ساتھ روحانی طور پر جڑنے اور جڑے رہنے کیلئے اللہ پاک سے دعا بھی کرتے رہیں۔ ایک مرید اپنے شیخ کے ہمراہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ اور اخذ فیض کے حصول کیلئے گئے۔ واپسی پر شیخ نے پوچھا کہ تم نے اپنے لئے کیا دعا مانگی۔ مرید نے عرض کیا کہ حضرت میں نے اپنے لئے تو کچھ نہیں مانگا، بس آپ کیلئے ہی دعا میں مصروف رہا۔ ان کے مرشد نے خوش ہوکر فرمایا کہ تمہیں مبارک ہو کہ میں نے بھی صرف تمہارے لئے ہی دعائیں مانگی ہیں۔
اگر آپ غور فرمائیں تو ان 11 باتوں کا تعلق صرف اور صرف محبت سے ہے۔ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ "آدمی اسی کے ساتھ ہوتا ہے، جس سے اسے محبت ہوتی ہے۔" یہ بلا شبہ دنیا کے اندر بھی درست ہے کہ روحانی ربط ہر آن رہتا ہے اور آخرت میں تو واضح ہو ہی جائے گا۔ ان ٹینگل منٹ محبت ہی کا تو کمال ہے، کامل محبت کا۔
نوری این ٹینگل منٹ کیلئے بہترین ٹپس آپ کو دے دی ہیں، کچھ خفیہ نہیں رکھا۔ آگے جس کا نصیب۔ اور محنت اور محبت نصیب سے بھی زیادہ کی طرف رہنمائی کردیتے ہیں اور بے شک اللہ بڑا کرساز ہے۔ خود ارشاد فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ
اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔
ح. انٹرنل انرجی:
ایٹموں کی اگر انٹرنل انرجی بڑھا دی جائے (مثلاً اسے گرم کیا جائے)، تو وہ ایک مخصوص قسم کی روشنی خارج کرتے ہیں۔ مثلاً کسی گیس یا لوہے کو گرم کریں تو ان میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ایٹموں کے الیکٹران جمپ کرکے بیرونی شیل کی طرف جاتے ہیں (اسے کوانٹم جمپ کہتے ہیں)۔ الیکٹران شیل کی درمیانی جگہ پر نہیں رہ سکتے، صرف مدار میں ہی رہ سکتے ہیں۔ اور جب وہ زیادہ انرجی کے بعد ٹھنڈا ہونا شروع کرتے ہیں تو جمپ لگا کر اندرونی مدار میں آتے ہیں اور روشنی کا ایک فوٹان خارج کرتے ہیں۔ یہی ان کی چمک کا باعث ہوتا ہے۔ اگر اس روشنی یا فوٹان کو منشور میں سے گزارا جائے تو اس کا ایک حرارتی طیف حاصل ہوتا ہے۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ کسی عنصر کا حرارتی طیف، دوسرے عنصر سے مماثلت نہیں رکھتا۔ اور یوں آپ کسی بھی آسمانی کرے کی روشنی کا طیف دیکھ کر زمین پر بیٹھے بیٹھے یہ بتا سکتے ہیں کہ اس ستارے میں کونسا عنصر پایا جاتا ہے یا کونسا عنصر نہیں پایا جاتا۔ یا کس عنصر کی کتنے فیصد مقدار ستارے پر موجود ہے۔
یہی تو ہے ستاروں پر کمند ڈالنا۔
خ. نوری جمپ !!!
الیکٹران صرف مدار میں ہوسکتا ہے۔ دو مداروں کے بیچ میں کہیں نہیں ہوسکتا۔ یہ اس کی سرشت میں ہی نہیں کہ شیل کے علاوہ کہیں اور موجود ہو۔ جب ایٹم کو انرجی دی جاتی ہے تو الیکٹران (برقیہ) جمپ کرکے بیرونی شیل میں آجاتا ہے۔ یہ جمپ اتنی جیرت انگیز ہے کہ اسے پارٹکل فزکس میں باقاعدہ ایک نام دیا گیا ہے۔ جی ہاں! یہی وہ جمپ ہے جسے سائنسدان کوانٹم جمپ یا کوانٹم لیپ کے نام سے پہچانتے ہیں، اور میں اسے نوری جمپ کہنا زیادہ پسند کرتا ہوں کیونکہ اس سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔
آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگ لگائیں، کیا آپ درمیانی راستہ عبور کئے بنا دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ آپ ایک لکیر بناتے ہوئے یہاں سے وہاں جاسکتے ہیں۔ یہ سمپل جمپ ہے۔ نوری جمپ یہ ہے کہ الیکٹران پہلے اپنی جگہ (شیل) سے غائب ہوتا ہے، اور پھر یکلخت دوسرے شیل میں آن موجود ہوتا ہے۔ الیکٹران اپنے اس سفر اور جمپ میں اپنے وجود سے کوئی حقیقی یا فرضی لکیر نہیں بناتا۔
کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
سمجھ نہیں آیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کوئی شئے ایک جگہ سے غائب ہو کر دوسری جگہ موجود ہوجائے؟ اچھا تو سنو؛
إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ: قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ : قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ : قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
سلیمان نے فرمایا، اے درباریو! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہوکر حاضر ہوں
ایک بڑا خبیث جن بولا کہ میں وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانتدار ہوں
اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے پھر جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا دیکھا کہ یہ میرے رب کے فضل سے ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا
کچھ سمجھے؟ جن لکیر بناتا ہوا لاتا۔ کلاسیکل فزکس کا رفتار کا فارمولا (S = vt) لگاتا ہوا لاتا، اپنی بے پناہ قوت کے بے جا اظہار کیلئے (F=ma) لگاتا ہوا لاتا لیکن جس کے پاس بسم اللہ کی روحانیت کی کوانٹم فزکس موجود ہو اسے رفتار کے فارمولوں کی پابندی کی ضرورت نہیں۔ وہ جسم سے نہیں، نور سے لاتا ہے۔ نوری جمپ اور کیا ہوتی ہے۔ اس دنیا سے اس دنیا میں آن واحد میں۔
قربان علامہ اقبال کے۔ کیا خوب نوری جمپ سمجھا گئے
عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
د. عین ٹینگل منٹ :۔
کوانٹم فزکس پارٹکلز کیلئے جس ان ٹینگل منٹ کا تذکرہ کرتی ہے اس میں اثر براہ راست نہیں بلکہ معکوس ہوتا ہے۔ یعنی 180 ڈگری پر۔ روحانیت میں ہم جس ان ٹینگل منٹ کا تذکرہ کرتے ہیں وہ اور ہے۔ یہ صرف لفظی مشارکت ہے۔ اس لئے میں اسے عین ٹینگل منٹ کہنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ اس میں مطلوبہ جڑنا ہے اور فرد کا ارادہ اس جڑنے (عین ٹینگل ہونے) میں شامل ہوتا ہے۔
ذ. ابن عربی کی روحانی عین ٹینگل منٹ:-
امام کشف و امام علوم و فنون شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا:
"پھر میں یکجا ہوا حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تو میں نے آپ رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ علم والا پایا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس مقدس علم یعنی اسرار الحروف میں "الجفر الجامع" نامی کتاب بھی لکھی ہے۔ اس میں ان سب کا علم ہے جو گزر گئے اور ان کا بھی جو آنے والے ہیں۔ اور اس میں اسم اعظم ہے۔ اور تاج آدمؑ اور خاتم سلیمان ہے اور آصف رحمت اللہ علیہ کا حجاب ہے۔ اور اولاد علی رضی اللہ عنہ میں سے راسخین اور آئمہ علیہم السلام اس ربانی کتاب کے اسرار کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔"
قربان جاؤں ابن عربی کے ------- جڑے بھی تو کس سے؟ علم کے دروازے سے، جہاں کسی چیز کی کمی ہوتی ہی نہیں۔
کس چیز کی کمی ہے مولا تیری گلی میں
دنیا تیری گلی میں عقبی تیری گلی میں
ابن عربی نے جس یکجا ہونے کا ذکر فرمایا ہے وہ بلا شبہ جسموں کا نہیں، روحوں کا جڑنا ہے۔ بے شک روحوں سے بھی جڑا جا سکتا ہے اور ماضی کے بزرگوں کی ارواح سے جڑ کر بہت فیض بھی آن کی آن میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ر. اہل برزخ سے عین ٹینگل منٹ :
قبلہ بڑے حضرت صاحب کو قبر شریف پر جانے کا حکم ہوا۔ آپ کئی سال تک بلا ناغہ جاتے رہے لیکن کچھ بھی ظہور پذیر نہ ہوا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں اس عمل سے بیزار ہوگیا اور میرے دل میں یہ خیال جاگزین ہو گیا کہ دوسرے لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ کچھ نہیں رکھا ان قبروں میں، سوائے بے جان مٹی کے۔ اس خیال پر آپ کو زبردست جھاڑ پڑی والد صاحب کی طرف سے اور فرمایا گیا کہ تمہارا کام جانا ہے، فیض دینا ان کا کام ہے۔ ہرگز کوئی ناغہ نہ ہو۔
بڑے حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جب مجھے دعوت قبور (اولیاء سابقین کی ارواح سے جڑنا) میں کمال حاصل ہوا تو مجھے اس وقت احساس ہوا کہ دنیا کے سارے سائنسدان محض بیوقوف اور پاگل ہیں کہ ساری زندگی کسی نظریئے کو ثابت یا رد کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ جب کوئی فرد روح سے فیض حاصل کرنے کا اہل ہوجاتا ہے تو روح صرف ایک غوطہ لگا کر (یعنی کسی بزرگ کی روح سے جڑ کر) اپنے مطلوبہ تمام علوم آن واحد میں حاصل کر لیتی ہے۔ باقی سب لوگ درجہ بدرجہ علوم حاصل کرتے ہیں اور اس میں مہارت حاصل کرنے میں عمریں گنوا دیتے ہیں لیکن جسے روح کے ساتھ جڑنا آجاتا ہے وہ سارے علوم صرف ایک آن میں حاصل کر لیتا ہے۔
ز. روح اللہ کی آمد:
ایک بار رات کو آپ (قبلہ میاں مظہر صاحب) بستر پر آرام فرما رہے تھے کہ حضرت روح اللہ تشریف لے آئے۔ آپ کو اس وقت غسل کی حاجت تھی۔ حضرت روح اللہ بانہیں کھول کر بغل گیر ہونے کے سے انداز میں آگے بڑھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے سخت شرمندگی ہوئی کہ اس حالت میں کس طرح روح اللہ سے ملوں، اس لئے آپ الماری کے پیچھے اپنے آپ کو چھپانے لگے۔ حضرت روح اللہ حیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ کیا۔ آپ نے اپنی کیفیت عرض کی تو روح اللہ مسکرائے اور پلنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کو غسل کی حاجت ہے وہ تو پلنگ پر پڑا ہوا ہے۔ آپ حیران ہوئے اور پلنگ کی طرف دیکھا اور پھر خوشی اور مسرت کے ساتھ حضرت مسیح روح اللہ کے ساتھ جپھی ڈال کر ملاقات فرمائی۔
س. دل ہی تو ہے ایمان کا منبع اور مصدر:
بیشک اللہ پاک اپنے دوستوں کو وہ کچھ عطا فرماتا ہے، جو کسی نے دیکھا نہ سنا۔ حضرت صاحب اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے ؛
زندگی کا دارو مدار صرف قلب پر ہے۔ قلب ایک ایسی چیز ہے جب سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ھے، جب بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے۔ قلب گویا پرندہ ہے بدن کے پنجرہ میں، گویا موتی ہے ڈبّے میں، گویا مال ہے صندوق میں۔ پس اعتبار پرندہ کا ہے پنجرہ کا نہیں، اعتبار موتی کا ہے ڈبّے کا نہیں اور اعتبار مال کا ھے صندوق کا نہیں۔ اے اللہ! ہمارے اعضاء کو اپنی اطاعت اور قلوب کو اپنی معرفت میں مشغول فرما اور مدّت العمر ساری رات اور سارے دن اسی میں مشغول رکھ اور ہم کو شامل فرما نیکو کار اسلاف کے ساتھ اور ہم کو نصیب فرما جو ان کو نصیب فرمایا تھا اور ہمارا ہو جا جیسے ان کا ہو گیا تھا!
میرا رسالۂ عین ٹینگلمنٹ پڑھنے کا بہت شکریہ
ھل من مزید ھل من مزید
جواب دیںحذف کریں