Quantum Fields

أ‌.               بس پیار ہی پیار :
1.     اہل علم و دانش اور سائنسدان ہمیشہ اس کھوج میں رہے ہیں کہ ہماری کائنات کس شئے سے بنی ہے۔ ڈھائی ہزار سال پہلے یونانی فلسفی دیمقراط یا دی مقراطیس (Democritus ) نے یہ کہا کہ ہر چیز چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر بنی ہے (اسی کے نام پر ڈیموکریسی کا لفظ ہے)، انہیں اس نے ایٹاموس (Atomos) کا نام دیا جنہیں اجزائے دیمقراطیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ ناقابل تقسیم ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ سوا دو ہزار سال تک من و عن مانا جاتا رہا۔ جان ڈالٹن نے انیسویں صدی میں اس کے کام کو آگے بڑھایا مگر وہ بھی اس پر قائم رہا کہ کائنات کا بلڈنگ بلاک ناقابل تقسیم ایٹم ہی ہیں۔
2.    سن 1906عیسوی میں جے جے تھامسن نے ایٹم میں الیکٹران دریافت کر لئے۔ پھر ردر فورڈ نے ایٹم کے اندر مرکزہ دریافت کرلیا۔ اور نیلز بوہر نے نیوکلیئس میں پروٹان دریافت کیا۔1932 میں جیمز چیڈوک نے نیوٹران دریافت کر لیا۔ یوں کائنات کے بلڈنگ بلاک کی تلاش جاری رہی۔

3.     پھر پارٹکل ایکسیلریٹر وجود میں آگئے اور ذرات کو آپس میں ٹکرانا شروع کیا گیا تو درجنوں ذرات دریافت ہوگئے۔ اور نیوٹران اور پروٹان میں کوارکس دریافت ہوگئے۔ اتنے پارٹکلز دریافت ہوئے کہ سائنسدانوں کے پاس ان ذرات کو نام دینے کیلئے حروف بھی کم پڑگئے۔ اب تک 80 سے زیادہ سب ایٹامک پارٹکلز دریافت کئے جا چکے ہیں۔
4.    سن 1998 اور 2008 کے درمیان سرن (CERN) نے دنیا کے 100 ممالک (جن میں سے ایک پاکستان بھی ہے) کے دس ہزار سے زائد سائنسدانوں کی مدد سے ایٹمی ذرات کو ٹکرانے کی ایک مشین (لارج ہیڈران کولائیڈر یا ایل ایچ سی) بنائی۔ یہ فرانس اور سوٹزرلینڈ کے بارڈر پر (جینیوا کے قریب) دنیا کا سب سے بڑا پارٹکل ایکسلریٹر ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کا سب سے بڑا اور مہنگا تجربہ بھی۔ یہ تقریباً 27 کلومیٹر (17 میل) لمبی دائرے کی شکل کی سرنگ میں واقع ہے جو کہ لگ بھگ 600 فٹ کی گہرائی میں زمین کے اندر بنائی گئی ہے۔
5.     کچھ احمقوں نے اسے بگ بینگ تجربے کی مشین سمجھا اور اسے خدائی کاموں میں مداخلت تصور کرکے اس کی ناکامی کی شدید دعائیں کی اور جب مشین کو 19 ستمبر 2008 (چلنے سے کچھ ہی پہلے) ایک زبردست حادثہ (magnet quench) پیش آیا جس میں 6 ٹن مقناطیسی کولینٹ (مائع ہیلیئم) ضائع ہو گیا اور اس کے دھماکے سے 50 سے زائد سپر کنڈکٹنگ مقناطیس بھی تباہ ہوگئے تو علم و عقل کے ان دشمنوں نے خوشی سے بغلیں بجائیں کہ دیکھ لو خدائی کاموں میں مداخلت کا انجام۔ لیکن سائنسدانوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ مزید آگے بڑھ گئے۔ حادثے سے پہلے اس کی پاور 3 ٹی ای وی(Tetra Electron Volt) تھی جو بعد میں بڑھا کر 13 ٹی ای وی کردی گئی جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔
6.     کوارکس سے بننے والے ذرات (پروٹان اور نیوٹران) کو اجتماعی طور پر ہیڈران (Hadron) کہا جاتا ہے۔ اس کولائیڈر میں ہیڈران (مثلاً پروٹان) کو روشنی کی رفتار سے زیر زمین ٹکرایا جاتا ہے۔ اور یوں ذرات پر ذرات دریافت ہوتے گئے۔
7.     آخر کار 4 جولائی 2012 کو سرن نے اعلان کردیا کہ انہوں نے ہگز بوزان نامی نظریاتی ذرے کو دریافت کر لیا ہے۔ یہ بلا شبہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اور 2013 میں پیٹر ہگز اور ان کے ساتھی کو نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ ہگز بوزان کسی ذرے کو اس کی کمیت دیتا ہے۔
8.     بات پھر وہیں آگئی جہاں سے چلی تھی۔ ساری دنیا ایٹم سے بنی ہے، لیکن ایٹم کے اندر درجنوں ذرات ہیں تو آخر کس چیز سے دنیا بنی ہے؟ وہ ایک شئے کیا ہے؟
9.     آخر کار کوانٹم فزکس کی فیلڈ والے سائنسدان فیلڈ تک جا پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر شئے فیلڈ سے وجود پاتی ہے، ہر ذرہ فیلڈ (قوت کا دائرۂ کار یا قوت کے اثر کا رقبہ) سے وجود پاتا ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں فیلڈ موجود نہ ہو۔ اگر کسی شئے (برتن وغیرہ) میں سے کسی طریقے سے ہر شئے کو نکال دیا جائے یہاں تک کہ ایک ایک ذرے کو بھی تو جو خلا باقی ہوگا اس میں بھی فیلڈ موجود ہو گی اور اس کی لہریں (Fluctuations) بھی۔ یہ کوانٹم فیلڈ کہلاتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوانٹم فیلڈ تھیوری میں پارٹکلز کو فیلڈ کوانٹا (جیسے روشنی کے کوانٹا) تصور کیا جاتا ہے۔
10.                کچھ فیلڈز سے ہم پہلے ہی واقف ہیں: مقناطیسی فیلڈ، برقی فیلڈ، گریوٹی کی فیلڈ، ریڈی ایشن فیلڈ (جیسے گاما فیلڈ) وغیرہ وغیرہ۔ جہاں کوئی فیلڈ ہوتی ہے، وہاں کسی نا دیدہ قوت کا اثر لازمی موجود ہوتا ہے۔ موبائل سے دنیا بھر میں بات چیت کا ہونا فیلڈ ہی کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔ تاہم بہت سی فیلڈ انسانی جسم کیلئے نقصان دہ بھی ہوتی ہے جیسے گاما اور لیزر فیلڈ وغیرہ۔
11.                سائنسدان اس نظریے پر پہنچے ہیں کہ پارٹکلز پر انحصار نہ کیا جائے کیونکہ ساری کائنات 12 مختلف قسموں کی فیلڈ سے بنی ہے۔ یعنی الیکٹران کی دو، کوارکس کی چھے، نیوٹرینو کی تین اور میون اور ٹاء کی فیلڈز سے۔ یہ 12 فیلڈز ہی پارٹکلز کو جنم دیتی ہیں جن سے ساری دنیا بنی ہے۔ اور چار فیلڈز چار قوتوں کی اور ہیں، یہ کل سولہ فیلڈز ہوئیں جو کائنات کا بلڈنگ بلاک کہلاتی ہیں۔ اور اگر ان کی قسموں سے صرف نظر کریں تو کائنات کا بلڈنگ بلاک صرف ایک ہی ہے۔۔۔۔ یعنی فیلڈ۔
12.                یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اب تک کوارکس اور الیکٹران سے زیادہ چھوٹا ذرہ دریافت نہیں ہو سکا۔ اور ہر چیز الیکٹران، کوارکس اور نیوٹرینو سے بنی ہے۔ لیکن یہ بنیادی ذرات بھی فیلڈز سے بنتے ہیں۔
13.                اس وقت نظری فزکس کا دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ (جو اپنے بلیک ہول سے لگاؤ کی وجہ سے بھی مشہور ہے) جو شدید جسمانی معذوری کا شکار ہے، اور بیماری کے باعث اپنے جسم سے کسی تباہ شدہ سیارے کا آخری پسماندہ ایلین معلوم ہوتا ہے۔ اور اپنی معذوری کی وجہ سے فطری طریقے سے بات بھی نہیں کرسکتا اور اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کو ایک پیچیدہ مشینی عمل  کے ذریعے آواز کی لہروں میں کنورٹ کرکے گفتگو کرتا ہے، اور فزکس کے بہت اعلی لیکچرز ڈیلیور کرتا ہے، لیکن وہ آخر میں ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ کائنات میں خدا کے وجود کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ کوئی ضرورت ۔ ہم اس کے اعلی لیکچرز کی ضرور قدر کرتے ہیں لیکن اسے یا کسی دوسرے سائنسی کھلنڈرے کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ سائنس کی آڑ میں ہمارے مذہبی نظریات بالخصوص نظریۂ خدا سے کھلواڑ کرے۔ جو اس کے لیکچرز سنے، وہ اس کے مزاج کے دہریئے پن سے ضرور محتاط رہے۔ {یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس وقت فیس بک پر میری یہ پوسٹ پبلش ہوئی تھی، اس کے دوسرے دن ہی دنیائے فزکس کا یہ سائنسدان  انتقال کر گیا۔ فزکس میں ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔}
14.                آخر فیلڈ ہے کیا؟ جب ہر چیز فیلڈ سے پیدا ہوئی ہے تو فیلڈ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
15.               سائنسدانوں کے بہترین نظریئے کے مطابق فیلڈ ایک نا دیدہ سیال قسم کی شئے ہے جو ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں عجیب قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی شئے ہے جس کی اسپیس کے ہر مقام پر ایک مخصوص قیمت اور قدر ہوتی ہے اور یہ ویلیو وقت کے اندر تبدیل ہوتی ہے۔ فیلڈ کو آپ ایک ایسا نا دیدہ سمندر سمجھ سکتے ہیں جو ہر وقت اور ہر جگہ بہتا ہے۔ جس کی لہروں نے ساری کائنات کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔
ب‌.        محبت کی نوری فیلڈ:
16.               جب آپ فیلڈ کے بارے میں اتنا کچھ جان چکے ہیں اور بنا دیکھے اس پر یقین کرتے ہیں تو اب میں مسلمان طالبعلم سے کہتا ہوں کہسائنسدانوں کی بتائی ہوئی فیلڈ پر تو یقین کرتے ہو، اس فیلڈ پر کیوں یقین نہیں جس نے اس کوانٹم فیلڈ کو بھی پیدا کیا ہے۔ جس کی لہروں نے ازل سے ابد تک کا احاطہ کر رکھا ہے۔ جو ہر جگہ موجود ہے، وہاں بھی جہاں کسی کا گمان تک نہیں جا سکتا۔ ہاں وہی۔۔۔۔ جس نے لولاک کہہ کر اپنی محبت کا اظہار فرمایا اور ساری کائنات کو پیدا فرما دیا۔ اس کی محبت اور رحمت کی فیلڈ جو ہر شئے کو محیط ہے۔ اس فیلڈ کے آثار ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ ارے وہ تو پہلے ہی فرما رہا ہے کہ میری رحمت اور محبت کے ہر سو پھیلے آثار کو دیکھو، فَانظُرْ إِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا  ارے اس کی محبت اور رحمت کی فیلڈ کے آثار تو دیکھو کہ کیسے مردہ زمین کو زندہ فرما دیتا ہے۔ یہ رات اور دن کیا ہیں؟ سب اسی کی محبت و رحمت (کی فیلڈز) نے پیدا فرمائے ہیں۔ وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
17.                اس کی رحمت و محبت اور اس کے علم کی فیلڈ کے سمندر نے ہر شئے کو گھیر رکھا ہے، زمین والے تو زمین والے، آسمانوں والے حاملین عرش بھی اس فیلڈ کا احساس و ادراک رکھتے اور بر ملا اس کا اظہار کرتے ہیں کہ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا یعنی اے ہمارے پروردگار، تیری رحمت اور علم (کی فیلڈز) نے اپنے اندر ہر شئے کو سمو رکھا ہے۔
18.                وہ پاک پروردگار اس محبت و رحمت کے بارے میں خود ارشاد فرماتا ہے کہ وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ اور فرماتا ہے کہ میری محبت (کی فیلڈ کے سمندر کی لہروں) نے ہر شئے کا یوں احاطہ کر رکھا ہے کہ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ نہ صرف یہ کہ اس نے خود فرمایا بلکہ ہمیں بھی حکم دیا کہ جب کوئی جھٹلائے تو اسے واشگاف کہہ دو کہ قُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ تمہارے پروردگار کی (محبت اور ) رحمت (کی فیلڈ) لا متناہی ہے، دریائے ناپیدا کنار ہے۔ جب ہر طرف اسی کی محبت اور رحمت کی فیلڈز کے جلوے بکھرے ہیں اور موجودات میں سے ہر شئے اس کی محبت و رحمت کی فیلڈ کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اس سے محروم رہ جائے؟ اس کے باوجود بھی کوئی اس پاک پروردگار کی اسی بیکراں رحمت سے مایوس ہو جس کی فیلڈ میں وہ سدا رہا ہو تو یہ گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی لئے تو فرمایا کہ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ اپنے رب کی رحمت سے تو وہی مایوس ہوتے ہیں جو راہ بھول بیٹھے ہوں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ نوری چہرہ تو ہمیشہ اپنے پروردگار کی محبت اور رحمت (کی فیلڈ) میں ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے تو فرمایا کہ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ جن کے چہرے ایمان سے سفید اور نوری ہوں وہ ہمیشہ اس محبت کی فیلڈ میں ہی رہتے ہیں۔
19.                پیٹر ہگز نے کہا تھا کہ کوئی پارٹکل ہگز فیلڈ کو جتنا ڈسٹرب کرتا ہے اسی قدر میسیو (Massive) اور وزنی ہوجاتا ہے (اسی مقصد کیلئے سرن نے ایل ایچ سی شروع کیا تھا کہ ہگز بوزان کو تلاش کیا جاسکے جو ہگز فیلڈ پیدا کرتا ہے جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی)۔ کیا اب بھی سمجھ نہیں آیا؟ پروردگار کی محبت اور رحمت کی فیلڈ کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کئے بغیر اس میں بہتے چلے جاؤ، خبردار ! ڈسٹرب کرنے کی کوشش مت کرنا۔ اسے ڈسٹرب کرنے اور اس سے ٹکرانے کی کوشش کرو گے (صرف کوشش ہی) تو بوجھل (گناہگار) ہوتے چلے جاؤ گے۔ اور کیا ہوتا ہے ثقل؟ گناہوں کا بوجھ اور بھاری پن ہی تو ہے۔ سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ اے جن و انس کے دونوں بوجھو، عنقریب ہم تمہارے لئے فارغ ہوا چاہتے ہیں۔
20.                اس کا ہر نام حسین اور خوبصورت ہے اور ایک فیلڈ ہے، علم ہو یا قدرت، احدیت ہو یا صمدیت، محبت ہو یا رحمت سب فیلڈز ہیں اور سب سے اسٹرانگ اور سب پر حاوی فیلڈ محبت اور رحمت کی ہے۔ یاد رکھیں کہ اللہ پاک کی محبت، رحمت اور اس کی عطا کیلئے دریا اور سمندر کا لفظ عام استعمال کیا جاتا ہے اور حمد و نعت میں تو کثرت کے ساتھ اس کیلئے دریا کا لفظ آتا ہے، جیسے
رحمت دا دریا الہی ہر دم وگدا تیرا
تیری رحمتوں کا دریا سرعام چل رہا ہے
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کیلئے بھی یہ لفظ آتا ہے، جیسے
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
ارے جب اس کی محبت کو نظر آنے والا دریا کہا جا سکتا ہے تو نظر نہ آنے والا سمندر (فیلڈ) کیوں نہیں کہا جا سکتا۔ حالانکہ دریا اور سمندر کا تصور محدود ہے اور فیلڈ کا تصور لا محدود جو ساری کائنات میں بہتا ہے۔۔ یہ دریا اور سمندر سے زیادہ مناسب لفظ ہے۔ جو علم والے میری بات کو غور سے سنتے ہیں ان سے عرض کرتا ہوں کہ اس کی رحمت اور دیگر صفات کو فیلڈ کے لفظ سے سمجھنے کے بعد قرآن پاک پر نظر غور فرمائیں، اور دیکھیں، کتنے اسلامی تصورات کی وضاحت ہوجائیگی۔
21.                محبت کی فیلڈ سمجھ آگئی ہو تو ایک دینی سائنسدان کا شعر پیش کرتا ہوں اور سائنسدانوں کو اس پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ ساری کوانٹم فزکس (QFT) اس ایک شعر میں موجود ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے۔
وہی جلوہ شہر بہ شہر ہے، وہی اصل عالم و دہر ہے
وہی بحر ہے، وہی لہر ہے، وہی پاٹ ہے وہی دھار ہے
اور ایک آخری بات مسلمان سائنسدانوں سے بھی کہتا ہوں کہ علم و دانش اور سائنس ہماری فیلڈ ہے، اس فیلڈ میں ہمیں ہی دندناتے نظر آنا چاہیئے۔ ہم اپنے میدان پر کسی اور کا قبضہ کیوں رہنے دیں۔ اپنی تمام صلاحیتوں کو صرف کردو اور اپنا وقار واپس حاصل کرلو۔ کوئی دوسری قوم ہمیں ذہانت کے میڈل پہنائے، اس سے کہیں زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم انہیں ذہانت کے میڈل پہنائیں۔ بات تو سمجھ کی ہے اور سمجھدار کو اشارہ کافی ہے۔
ت‌.        تیراکی کا فیض :
کوانٹم فزکس یہ بتاتی ہے کہ کائنات میں جہاں کچھ نہیں ہوتا، وہاں فیلڈز ہوتی ہیں، مختلف قسم کی کوانٹم فیلڈز۔ انہیں آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ لیکن ان کے ہونے کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن پاک میں سورۂ ذاریات، مرسلات اور نازعات کی ابتدائی آیتوں میں جن چیزوں کی قسمیں ارشاد فرمائی گئی ہیں، وہ اگرچہ مفسرین کے مطابق مبہم اور غیر متعین ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ فیلڈز کی طرف کامل اشارہ کرتی ہیں۔ اگرچہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا تاہم کچھ جدید مفسرین نے ان سے مراد توانائی بھی لی ہے۔
ایک آیت مبارکہ ایسی بھی ہے جس کا مفہوم مختلف ادوار میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جاتا رہا۔ وہ یہ آیت مبارکہ ہے؛
وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (یعنی ہر ایک، ایک گھیرے میں پیر (تیر) رہا ہے۔
اس میں تین لفظ ہیں جو مفہوم کے اعتبار سے ہر بار نئی تشریح کے ساتھ سامنے آتے رہے۔
 لفظ کل (ہر ایک) : کبھی صرف چاند سورج کیلئے، کبھی دن رات بھی اس میں شامل ہوئے، کبھی سارے سیارے، کبھی زمین شامل اور کبھی مستثنی۔ اور کبھی سارے اجرام فلکی خواہ وہ ہمارے نظام شمسی کے علاوہ ہی کیوں نہ ہوں۔
 فلک (آسمان) : کبھی اسے آسمان سمجھا گیا، کبھی مدار، کبھی فرضی دائرہ۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ لفظ فلک ،کوانٹم فیلڈ ہی کی تشریح کرتا ہے۔ یہ اقوال بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
قال الضحاك: فلكها مجراها وسرعة سيرها. (فلک ان کا راستہ اور چلنے کی سرعت ہے)
وَقَالَ الْكَلْبِيُّ: الْفَلَكُ اسْتِدَارَةُ السَّمَاءِ (فلک آسمان کی گولائی ہے)
وَقَالَ آخَرُونَ: الْفَلَكُ مَوْجٌ مَكْفُوفٌ دون السماء تجري فيه الشمس والقمر والنجوم (فلک آسمان نہیں بلکہ ایک موج مکفوف یعنی لپٹی ہوئی یا بہنے سے روکی ہوئی موج ہے جس میں چاند، سورج اور ستارے چلتے ہیں۔)
وَرُوِيَ عَنْ كَعْبٍ أَنَّهُ قَالَ: السَّمَاءُ الدُّنْيَا مَوْجٌ مَكْفُوفٌ (کعب فرماتے ہیں کہ آسمان دنیا موج مکفوف ہے)
 یسبحون (تسبیح کرتے ہیں) : ابتدا میں اس کا صرف ایک مفہوم تھا، یعنی سبحان اللہ کہنا۔ پھر مفہوم ہوا کہ اپنا کام کرنا اور طلوع و غروب ہونا۔ اور اب اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے تیرنا یا گھومنا۔
غور طلب بات ہے کہ چاند سورج کے طلوع و غروب اور سفر کیلئے تیرنا کا لفظ اختیار کیا ہے۔ یسبحون کا مادہ سبح ہے جس کے ایک معنی ہیں پانی یا ہوا میں تیز چلنا (تیرنا یا اڑنا)۔ سبح سے ہی تسبیح کا لفظ بنا ہے۔ چاند اور سورج نہایت تیز چلتے ہیں اور ان کی حرکت تیرنے کے مشابہ ہے۔ تیرنا یا اڑنا کسی سیال (Fluid) میں ہی ممکن ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خلا میں تو کوئی سیال نہیں ہوتا، تاہم کوانٹم فزکس یہ ضرور بتاتی ہے کہ خلا میں بھی نادیدہ فیلڈز موجود ہوتی ہیں جنہوں نے کسی نادیدہ سیال کی طرح کائنات کو بھر رکھا ہے۔ حتی کہ ایک چھوٹے سے ایٹم میں بھی جتنی خالی جگہ ہوتی ہے اس میں بھی الیکٹرک، میگنیٹک اور دوسری کئی قسم کی کوانٹم فیلڈز موجود ہوتی ہیں۔
بڑے حضرت صاحب فرماتے تھے کہ "ڈوب کر اللہ کو یاد کیا کرو۔" تو کوئی چیز تو ہوگی جس میں ڈوبا جائے۔ بس وہی فیلڈ ہے۔
ث‌.        آخر مجھے فیض کب ملے گا؟
میرے فیض نامی ایک دوست اکثر اپنے پیر و مرشد سے (جو امام احمد رضا بریلوی کے نواسے بھی ہیں اور صاحب کرامت بزرگ بھی) شکایت کیا کرتے تھے کہ حضرت جی، آخر مجھے فیض کب ملے گا؟ آپ فرماتے تھے کہ بتاؤں گا کبھی۔ ایک دن میں حسب عادت مغرب بعد مسجد میں سورۂ یاسین کی تلاوت میں مصروف تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ بیرونی دروازے پر کون ہے اور کیا گفتگو ہو رہی ہے۔ کوئی گھنٹہ بعد میں تلاوت سے فارغ ہوا اور باہر آیا تو فیض صاحب دروازے پر میرا انتظار فرما رہے تھے۔ میں آیا تو کہنے لگے کہ "آج حضرت صاحب سے میں نے وہی سوال کیا تو انہوں نے یہیں کھڑے کھڑے آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ جب اس طرح اللہ کا ذکر کرنے لگ جاؤ گے تو فیض خود بخود تمہاری طرف آنے لگے گا۔ بھائی بتا دو کہ تم کس طرح ذکر کرتے ہو؟ میں نے تو صرف اتنا دیکھا ہے کہ تمہیں اطراف کی خبر نہیں ہوتی"۔ میں بھلا کیا کہتا؟ عاجزی کا اظہار کرتا ہوا واپس ہولیا۔ جو راز کو پالے، اسے کسی تفصیل کی کیا ضرورت۔ جس کے سامنے مثال موجود ہو، اسے لفظوں کی کیا حاجت۔ اور پھر کئی سال بعد میری ان سے ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ عمرے پر جارہے تھے، میرے پاس آئے تھے۔ حسن اتفاق سے میں اس وقت عمرے سے ہی لوٹا تھا۔ میں نے دیکھا کہ فیض صاحب اسم با مسمی ہوگئے ہیں۔ ان کا فیض واقعی دیدنی تھا۔ مجھ سے پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ درود خضری کا تحفہ لے جاؤ بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے۔ بولے کہ حضرت اسی مقصد کے تحت حاضر ہوا ہوں، مہربانی کرکے مجھے لکھا ہوا درود خضری عطا کردیں۔ میں نے انہیں درود شریف دیا اور سوا لاکھ پڑھنے کی تاکید بھی کی۔
میں حضرت صاحب کی بات کو بڑا کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ہاں، ڈوب کر اللہ کو یاد کیا کرو، پہلے ڈوب کر خوب اچھی طرح سے غوطہ لگاؤ، پھر لذت، سرور اور عاجزی کے ساتھ دریائے وحدت (کی اومنی پریزنٹ فیلڈ) میں تیرتے رہو۔ جسے تیرنا نہیں آتا، اسکی بھلا کیا تسبیح اور کیا ذکر؟ کیونکہ تسبیح صرف الفاظ کا نہیں، بلکہ احساس کا نام ہے۔ یہ کوئی کوانٹم فیلڈ نہیں، بلکہ اس کریم و قیوم کے، اس سبحان و قدوس کے کرم کی ہے جس نے ساری کائنات کو تھام رکھا ہے۔ جو ہر شریک سے پاک ہے۔ جو ہر عیب سے پاک ہے۔ کوئی اس کے جیسا نہیں۔
وہی جلوہ شہر بہ شہر ہے، وہی اصل عالم و دہر ہے
وہی بحر ہے، وہی لہر ہے، وہی پاٹ ہے، وہی ہی دھار ہے
یاد رکھو، تسبیح صرف تیرنے کو نہیں بلکہ اڑنے کو بھی شامل ہے۔ تم تیرو گے تو تسبیح تمہیں اڑائے گی، تمہارا مقام بلند کرے گی۔ چونکہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے، اس لئے تسبیح کرنے والا کائنات سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک میں آتا ہے
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ
کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے سب نے جان رکھی ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح، اور اللہ ان کے کاموں کو جانتا ہے،
جسے تیرنا آتا ہو وہ طوفان نوح میں بھی غرق نہیں ہوتا۔ غرق ہونا تو کجا، اسے طوفان محسوس ہی نہیں ہوتا، کب آیا، کب گیا۔ جو تیرنے سے غافل ہو وہ ڈوب ہی جاتا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کو حکم تسبیح تھا، لیکن وہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں، انہیں سب کے ساتھ تیرنا تھا۔ وہ کشتی میں بیٹھے تو طوفان نے انہیں خبردار کیا کہ کشتی تو وہ خود ہیں لاکھ یا اس سے بھی زائد انسانوں کی۔ انہیں ایک مچھلی نے نگل لیا اور دریا کی تہہ میں لے گئی۔ وہ دریائے وحدت کی مثال تھا کہ ڈوب کر اسے یاد کرنا ہے۔ نون مچھلی کو کہتے ہیں۔ ذوالنون نے جب اس کا ادراک کیا تو بے اختیار پکارے؛
فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
 تو اندھیریوں میں پکارا کوئی معبود نہیں سوا تیرے پاکی ہے تجھ کو، بیشک مجھ سے بے جا ہوا
جو تیرنے لگتا ہے، تسبیح اسے بلند کر دیتی ہے۔ وہ بھی بلند ہوگئے۔ اگر وہ تسبیح میں مشغول نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔
فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ۝ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۝
تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا، ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے۔
اندھیریوں سے نکل کر نور میں آنا ہے تو تسبیح والوں میں شامل ہو جاؤ۔ فیلڈ تو اندھیرے کی بھی ہوتی ہے۔ جو ہر شر کو پیدا کرتی ہے۔ اور فیلڈ نور کی بھی ہوتی ہے جو ہر بھلائی کی جامع اور منبع ہے۔
تیراکی سیکھ لو، بہت کام آئے گی۔
ج‌.           مکان کی پانچ قسمیں اور  بزرگوں کا انداز
مکان کی پانچ قسمیں کی گئی ہیں: مکان کثیف، مکان لطیف، مکان الطف، مکان روحانیات اور مکان روح انسانی۔ اور ان کی رفتاریں بھی پانچ ہیں۔
مکان کثیف (ٹھوس) : مکان کثیف زمین ہے، جس کی دشواری اور تنگی ظاہر ہے کہ جب تک ایک اٹھ نہ جائے، دوسرا اس کی جگہ بیٹھ نہیں سکتا۔ اس کی دوری اور نزدیکی بھی معلوم ہے۔ اس مکان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا ممکن ہی نہیں جب تک قدم نہ اٹھائے جائیں۔ اور یہ ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا دشوار ہو۔
مکان لطیف (سیال) : مکان لطیف ہوا ہے۔ اس مکان میں بھی تنگی ہے۔ اس لئے کہ چمڑے کا وہ تھیلا (یا جیسے ایئر سلنڈر وغیرہ) جو ہوا سے خوب بھرا ہوا ہے، اس میں مزید ہوا اس وقت تک نہیں جاسکتی جب تک کہ اس کو اندر کی ہوا سے خالی نہ کیا جائے (یا بہت زیادہ قوت صرف نہ کی جائے)۔ ہاں اتنی بات یاد رکھنے کی ہے کہ مکان کثیف کا بعد، اس مکان کا قرب ہے۔ اس لئے کہ مکان کثیف میں جتنی دور ایک مہینے میں پہنچا جا سکتا ہے، مکان لطیف میں وہ مسافت ایک دن میں طے ہو سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت، جسے ہوا اڑاتی تھی، ہر دن اور ہر رات میں ایک مہینے کی مسافت طے کرتا تھا۔ خود قرآن پاک میں ہے کہ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ یعنی اس کی صبح کی منزل ایک مہینے کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ۔ البتہ دوری اس مکان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس لئے کہ ہوا اگر مشرق سے مغرب کو جانا چاہے تو اس میں کچھ مدت ضرور لگے گی۔
مکان الطف (مکان نور) : یہ انوار صوری کا مکان ہے۔ اور جو کچھ مکان لطیف میں دور ہے، یہاں نزدیک۔ سورج جب مشرق سے اپنا سر اٹھاتا ہے، تو اسی آن میں اس کی روشنی مغرب تک پہنچتی ہے۔ اگر اس کی روش ہوا کے مکان کی طرح ہوتی تو مغرب تک پہنچنے میں کچھ مدت لگتی۔ یہی حال آگ اور اس کی مانند چیزوں کا ہے۔ جب تک ان کی روشنی منقطع نہ ہو۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ روشنی کو ہوا میں ایک علیحدہ مقام حاصل ہے۔ ہاں اس مکان میں دشواری اور تنگی نہیں۔ اس لئے کہ جب تم ایک مشعل ایک مکان میں روشن کرو، تو اس کی روشنی مکان کے کونوں میں پہنچتی ہے۔ اور اگر تم سو مشعلیں اور روشن کرلو تو بھی ان سب مشعلوں کا نور اسی ایک مکان میں سما جائے گا۔ بے اس کے کہ پہلی مشعل کا نور باہر نکالا جائے۔ مگر دوری اس مکان کیلئے بھی ہے۔ اس لئے کہ سورج کی روشنی کثیف پردوں کے باہر نہیں جا سکتی۔ اور جب دوری زیادہ بڑھتی ہے تو روشنی بالکل مدھم اور تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔
نوٹ: یہی مکان ہے جس کیلئے پوری کوانٹم فزکس اور اس کے پیچیدہ ترین قوانین وضع کئے گئے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس مکان کو مکان نور صرف مشابہت کی بنا پر کہا گیا ہے۔ یہ حسی نور کا مکان ہے جسے نور صوری (وہ نور جو مادّی اشکال اختیار کرلے) کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ {راقم}
مکان روحانیت (فرشتوں کا مکان) : مکان روحانیت اس مکان الطف (مکان نور) سے بھی ما وراء ہے۔ اور وہ فرشتوں کا مقام ہے۔ کہ ان کی سیر کیلئے بڑی سے بڑی روک مانع نہیں ہو سکتی۔
نقل ہے کہ جبرائیل علیہ السلام سدرہ کے مقام سے آنکھ جھپکتے زمین پر آ جاتے۔ چنانچہ جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالا تو خطاب ہوا کہ اے جبریل! یوسف تک پہنچو۔ تو جیسے ہی آپ کے بھائیوں نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے چھوڑا، حضرت جبریل آپ تک پہنچ گئے اور آہستگی سے کنوئیں میں اتار دیا کہ آپ کو کوئی تکلیف اور گزند نہ پہنچے۔ مگر ان کے مکانوں میں بھی خفیف سی دوری ہے اس لئے کہ انہیں (پروں کی) حرکت کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پلک جھپکنے سے کم وقفے میں منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن یہی حرکت کی ضرورت کمال روحانی کے منافی ہے۔
مکان روح انسانی : مکان روح انسانی کمال لطافت رکھتا ہے۔ اس لئے کہ وہ کسی حرکت کا محتاج نہیں۔ جہاں اسے تلاش کرلو گے، پالو گے۔ عرش سے لے کر تحت الثری تک کوئی ذرّہ، اس سے اور اس کے مکان سے دور نہیں ہے۔ مگر پھر بھی اس میں کچھ دوری ہے کہ اسے بھی کسی جگہ پہنچنے کیلئے ارادہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مقام رب : واحد حقیقی ان تمام مکانوں سے منزہ، مقدس اور متعالی ہے۔ نہ اس کا حلول ان مکانوں میں جائز، نہ ان کا مس ہونا اس سے متصور۔ اور نہ ان مکانوں کا اس کے محاذات میں ہونا روا۔ اس برگزیدہ کی منزلت ان تمام چیزوں سے بالا تر ہے۔ وہ منزلت قرب در قرب ہے، اس میں کسی اعتبار سے کوئی بعد ممکن ہی نہیں۔ تمام غیر متناہی امور اس کیلئے ایک نقطہ ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جس کیلئے کہا گیا ہے کہ علم تو بس ایک نقطہ ہے جسے جاہلوں نے پھیلا لیا ہے۔ اس نقطے میں ازل سے ابد تک سب سمایا ہوا ہے اور تمام غیر متناہی اشیاء کو اس کے احاطے میں پاؤ گے۔
یہ نقطہ اور یہ لمحہ (Singularity) اسرار وحدانیت کا مظہر اور واحد حقیقی کے انوار فردانیت کا مشہد ہے۔ وہ اس نقطے سے بھی پاک اور منزہ ہے۔ ہاں اسے اللہ کا مکان یا اللہ کا زمان کہنا اختصاص و شرف افزائی کی بنا پر ہے۔ جیسا کہ بیت اللہ، ناقۃ اللہ اور روح اللہ کہا جاتا ہے۔ اور انتہائی قرب کے باعث اسے مقام رب بھی کہہ سکتے ہیں۔ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ سے اسی مقام کی جانب اشارہ ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی مقام نہیں۔
ترا خود عقل تو، اول عقیلہ ست
عجائب حالتے، ایں را چہ حیلہ ست
تیرے لئے خود تیری عقل سب سے بڑی رکاوٹ ہے، احوال عجیبہ کو اس میں کیا حیلہ بناتا ہے۔
ح‌.           محبت کا پیرایہ :
سبع سنابل شریف حضرت میر عبد الواحد بلگرامی کی تصنیف ہے اور یہ کتاب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں مقبول ہے۔ آپ کا انتقال 1017 ہجری میں ہوا۔ گویا کہ یہ تمام حقائق آپ نے ساڑھے چار سو سال قبل بیان کئے تھے۔ کس قدر سادہ اور سہل انداز ہے۔ یہ انہوں نے اس وقت تحریر کیا تھا جب آئن اسٹائن اور بگ بینگ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یہی ماضی کے تمام بزرگوں کا طریقہ تھا۔ سائنسی حقائق کو بھی تصوف کے رنگ میں بیان کرتے تھے۔ ہمارے ان بزرگوں کے انداز بیان کا خلاصہ کچھ یوں ہے؛
تصوف میں کمال حاصل کرنا، سائنسی حقائق پر عبور حاصل کرنا، سائنسی حقائق کو تصوف کے پیرائے میں بالکل آسان کرکے بیان کرنا، اور ہر سائنسی حقیقت کو محبت، عشق، تصوف، توحید اور معرفت کے ضمن میں اختصار سے بیان کرنا۔
ہمارے بزرگوں نے سائنسی حقائق اور روحانیت کے راز بھی اپنی کتابوں میں درج کر رکھے ہیں۔ ضرورت صرف ان کے پیرائے اور انداز بیان کو سمجھنے کی ہے۔ امام غزالی، ابن عربی، ابن سینا، داتا گنج بخش علی ہجویری اور دیگر تمام بزرگوں نے یہی انداز اپنایا ہے جو ہر دور میں پسندیدہ رہا ہے۔ اپنے خزانوں کی عظمت پہچان لو گے تو سمجھ میں آجائے گا کہ فی زمانہ یوروپی اقوام کا انداز بیان کس قدر مشکل اور سر دکھانے والا ہے۔ اور اب تو ایسے مسخرے بھی پیدا ہوگئے ہیں جو علم کی بات کو بھی کھیل کود اور کارٹونوں کے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہو چکے ہیں جو ماضی کے بزرگوں کا بھی پیرایہ (انداز بیان) جدیدیت کے نام پر بدل دیتے ہیں اور ان کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے انہیں اپنے رنگ میں رنگنے کی سعئ لا حاصل میں مصروف ہیں۔
یاد رکھیں کہ بہترین پیرایہ (انداز) علم کی خوشبو ہے۔ پھول پتے تو کوئی بھی تلاش کرسکتا ہے، ہاں گلاب کی خوشبو کسی کسی کا نصیب ہوتی ہے۔
ہم نے خزانے کا پتا اور نقشہ تجھے دے دیا ہے، اس امید پر کہ جس خزانے تک ہم نہ پہنچ پائے، ہو سکتا ہے کہ تو اسے حاصل کرلے۔
خ‌.           چادر تنی نور کی (طالب علموں کیلئے کوانٹم فیلڈ کی کچھ تشریح) :
 سادہ ترین چیز : ایک برتن (ظرف) جس میں سے ایک ایک چیز باہر نکال دی گئی ہو۔ یہ دنیا کی سب سے سادہ ترین چیز ہوگی سمجھنے کیلئے۔ اس سے زیادہ سادہ چیز کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ عدم سے زیادہ سادہ چیز اور ہو بھی کیا سکتی ہے؟ خالی برتن کا یہ خلا، جسے دنیا کی سب سے سادہ ترین چیز سمجھا جاتا ہے، شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ اس کی کیلکولیشنز کو حل کرنے کیلئے دنیا کے سپر کمپیوٹرز بھی ناکافی ہیں۔
 وہ خلا جس میں کچھ نہیں ہوتا، اس میں بھی کچھ ہوتا ہے۔ یعنی فیلڈز۔ کائنات میں ہر طرف فیلڈز جلوہ گر ہیں، حتی کہ دور دراز خلاؤں میں بھی۔ پارٹکلز کی 12 فیلڈز (کوارکس کی چھے، نیوٹرینو کی تین، الیکٹران، میوآن اور ٹاء کی تین)۔ ہر طرف فیلڈز کے دریا خالی خلاؤں میں موج زن ہیں۔ ہر طرف فیلڈز ہیں، ایک دوسرے میں مدغم اور ایک دوسرے کے ساتھ انٹریکٹ کرتی ہوئی فیلڈز۔ ایک پارٹکل ایک سے زیادہ فیلڈ سے انٹریکٹ کر سکتا ہے، اور ایک فیلڈ بھی دوسری فیلڈ سے۔
 مادّے کی پیدائش : الیکٹران کی فیلڈ کو انرجی دو، الیکٹران پیدا ہوجائے گا، کوارکس کی فیلڈ کو انرجی دو گے تو کوارکس پیدا ہوکر پروٹان اور نیوٹران بنا لیں گے۔ کیونکہ پارٹکل فیلڈ کی انرجی کا ایک ڈھیر اور مجموعہ (فیلڈ کوانٹا) ہی تو ہوتے ہیں۔
 پیٹر ہگز کوانٹم فزکس اور بگ بینگ کی مساواتوں میں الجھا ہوا تھا لیکن سارے جوابات غلط آرہے تھے۔ کوئی چیز تھی جو ان مساواتوں کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اس نے ایک ایک کرکے اجزا کو صفر کرنا شروع کیا۔ اور جب اس نے کمیت (ماس) کو صفر رکھا تو ساری مساواتوں نے درست جواب دینا شروع کردیا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ پارٹکلز کا کوئی ماس نہیں ہوتا۔ لیکن ماس کو صفر کرنا ایک اور بڑی پرابلم تھی۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ پارٹکلز کا ماس ختم ہوجائے تو وہ سب روشنی کی رفتار سے دوڑنا شروع کردیں گے۔ اور یوں ایٹم بلکہ کائنات کا ڈھانچہ قائم نہیں رہ سکے گا۔ ہر چیز بکھر کر منتشر ہو جائے گی، جیسے بگ بینگ سے پہلے تھی۔ اس کا صرف ایک ہی حل تھا کہ ماس پارٹکلز کی ذاتی پراپرٹی نہیں ہوتی۔ پارٹکلز تو ماس لیس ہی ہوتے ہیں، کوئی بیرونی شئے ہے جو پارٹکلز کو کمیت فراہم کرتی ہے۔ وہ چیز فیلڈ کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس فیلڈ کو اس نے اپنے نام پر ہگز فیلڈ کا نام دیا۔ اور کہا کہ جو پارٹکل ہگز فیلڈ کو جتنا ڈسٹرب کرتا ہے، اس کی کمیت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لئے کوارکس کی کمیت الیکٹران کی کمیت سے 300 گنا زیادہ ہوتی ہے، اگرچہ سائز دونوں کا ایک سا ہوتا ہے۔
 اب سوال یہ تھا کہ اس فیلڈ کو عملی طور پر کیسے ثابت کیا جائے۔ ایک بات معلوم تھی کہ فیلڈ کو اگر انرجی دی جائے تو اسی فیلڈ سے تعلق رکھنے والا پارٹکل پیدا ہو جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے سرن نے 2008 میں ساری دنیا کی مدد سے ایل ایچ سی نامی پروجیکٹ تیار کیا۔ یہ بظاہر تو ایک پارٹکل ایکسلریٹر ہے۔ لیکن پارٹکل ایکسلریٹر تو 1932 میں ہی بن چکے تھے یہ صرف ایک کولائیڈر نہیں تھا۔ یہ تو پارٹکل (مادّہ یا مادّی ذرّات) پیدا کرنے کی مشین تھی۔ اسی لئے کچھ لوگوں نے اسے بگ بینگ مشین کا نام بھی دیا۔ اور وہ اس میں کچھ غلط بھی نہ تھے۔ اب اگر ہگز فیلڈ کا سراغ مل جاتا تو بگ بینگ کے ابتدائی لمحات میں پیدا ہونے والی فیلڈز کی تصدیق ہوجاتی اور یہ بھی ثابت ہو جاتا کہ ایک فیلڈ ایسی بھی ہوتی ہے جو بے کمیت ذرات کو ماس عطا کرتی ہے۔ اور ساری کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔
 ایل ایچ سی اسٹارٹ ہوا تو چار کروڑ کولیزن (8 کروڑ ذرات کو) فی سیکنڈ کے حساب سے پارٹکلز کو ٹکرایا گیا۔ اور دو سال کے بعد ہگز پارٹکل کی موجودگی کا ثبوت ملا۔ یہ پارٹکل دریافت نہیں ہوا تھا، پیدا ہوا تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ روشنی کی رفتار سے ٹکراتے پروٹانز نے بالآخر ہگز فیلڈ میں ہلچل پیدا کی ہے جس کی وجہ سے ہگز بوزان نامی ذرہ پیدا ہو گیا۔ جسے اس کی خصوصیات سے پہچانا گیا۔ پیدا ہوتے ہی فورا تحلیل ہو جانے والے ہگز بوزان کی موجودگی نے ثبوت فراہم کردیا کہ ہمارے اطراف میں ہر جگہ ہگز فیلڈ موجود ہے جو اشیاء کو ان کی کمیت عطا کرتی ہے۔ اور یہ فیلڈ ہر جگہ موجود ہے۔
 ہمارے چاروں طرف فیلڈز (قوتوں کے میدان) موجود ہیں۔ ہم اپنے جسم سے انہیں محسوس نہیں کر سکتے۔ انہی میں سے ایک ہگز فیلڈ بھی ہے۔ 12 فیلڈز ذرات کی ہیں اور 4 قوتوں کی۔
 اگر فیلڈ کو آپ تصور میں دیکھ سکیں تو یہ ہر طرف پھیلی ہوئی نور کی ایک چادر کی مانند دکھائی دے گی۔ جیسے چاند کی چاندنی۔ ہر فیلڈ نور ہی کی تو ہوتی ہے۔ یہ نور ہی تو ہے جو ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ لوگ مادے اور نور میں الجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ جن اشیاء پر آپ کلاسیکل فزکس کے قوانین نہ لگا سکیں، وہ سب نور ہی تو ہے۔ جیسے روشنی اور فیلڈز۔
 جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے موجودات کو پیدا فرمانے کا ارادہ کیا اور زمین کو بچھانے اور آسمان کو بلند فرمانے کا قصد فرمایا تو اپنے فیض ذات سے مُٹھی بھر لے کر اس سے ارشاد فرمایا: ''اے نور! محمد بن جا۔'' اُس نور نے ایک نوری ستون کی صورت اختیار کرلی۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس نور کے چار حصے کرکے ایک حصے سے لوحِ محفوظ اور دوسرے سے قلم کو پیدا فرمایا۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیسرے حصے سے عرش کو پیدا کیا۔ پھر چوتھے حصے کے مزید چار حصے کرکے پہلے حصے سے عقل، دوسرے سے معرفت، تیسرے سے سورج، چاند اور آنکھوں کا نور اور دِن کی روشنی پیدا فرمائی۔ اس کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نور کی اس چوتھی قسم کے چوتھے حصے کو بطورِ امانت عرش کے نیچے رکھ دیا۔ پھر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو وہ نور ان کی پشت مبارک میں رکھا۔ (یہ حدیث شریف طوالت کی غرض سے پوری درج نہیں کی گئی۔ )
 اب میں پھر اپنے معصوم مسلمان طالب علموں سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہوں کہ میرے عزیز طالب علم ساتھیو! سائنسدانوں نے بتایا تو سب کچھ مان لیا، یہ بھی کہ یہ فیلڈز ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کوئی گوشہ ان سے خالی نہیں۔ تو جس کے نور کی فیلڈ چاندنی بن کر سارے جہان پر چھائی اسے منور کر رہی ہے، اور اسے حقیقت میں وجود بخش رہی ہے اسے مان لینے میں کیا قباحت ہے؟ جس کی رحمت سارے عالم پر محیط ہے، سورج اور چاند نے اپنا نور جس کے نور سے مستعار لیا ہے، جسے اللہ پاک نے خود ساری کائنات کو چمکاتا سورج بنا کر بھیجا ہے، اور وہ ذات پاک خود اپنے مبارک ہونٹوں سے اعلان فرما رہی ہے کہ اے جابر، اللہ پاک نے سب سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر اسی نور سے ساری کائنات پیدا فرمائی۔
 سائنسدانوں نے بھی تو 12 ہی فیلڈز کہا ہے، نور نبی کے بھی تو 12 حصے ہی کئے گئے اور ہر حصے سے ایک قسم کی اشیاء کو پیدا فرمایا۔ سائنس کے میدان میں بارہا دھوکہ کھا جانے والے سائنسدانوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، اس کی بات کیوں سمجھ نہیں آتی جس کے بارے میں پروردگار اعلان فرماتا ہے کہ میرا حبیب تو اپنی خواہش نفس سے کچھ بولتا ہی نہیں، یہ جو فرماتے ہیں وہ ہماری ہی تو وحی ہے۔
 سائنسدان نہیں بتا سکتے کہ نور کی بھی جنریشنز ہیں، لیکن اس حدیث پاک نے واضح کردیا کہ نور کی جنریشنز ہیں۔ پہلی جنریشن میں نور کے چار حصے کئے گئے، پھر دوسری جنریشن کیلئے چوتھے حصے کے مزید چار حصے کئے گئے، پھر تیسری جنریشن کے نور کیلئے دوسری جنریشن کے نور کے چوتھے حصے کے پھر چار حصے کئے گئے۔ یہ کل 12 حصے بنتے ہیں۔ لیکن ان کے نور کی شدت پہلے 1/4 ہے، دوسرے میں 1/16 ہے اور تیسرے میں 1/64۔ اتنی تفصیل تو کوئی امی ہی بتا سکتا ہے، وہی امی جس کے نور سے ہر نور پیدا کیا گیا ہو۔
میرے طالب علم ساتھیو! نور کی اس فیلڈ کی معرفت اور حصول کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ ہمیں صرف تقوی اختیار کرنا ہے اور اس کے محبوب پر غیر متزلزل یقین رکھنا ہے۔ یہ نور اور اس کا ادراک تمہیں بھی حاصل ہوجائے گا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ اپنی رحمت کے دو حصے تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور کردے گا جس میں (دنیا و آخرت میں) چلو گے اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
عزیز طالب علمو! سچی توبہ اس نور تک پہنچنے کا واحد زینہ ہے۔ اللہ کی جناب میں گناہوں اور غلط نظریات سے سچے دل سے توبہ کرو، وہ ہماری توبہ کو قبول فرمائیں گے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے قریب ہے تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے اتار دے اور تمہیں باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہیں جس دن اللہ رسوا نہ کرے گا نبی اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں کو ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے آگے اور ان کے دہنے عرض کریں گے، اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے، بیشک تجھے ہر چیز پر قدرت ہے۔
د‌.                دعا برائے نور :
صرف یہی نہیں بلکہ اللہ پاک سے اس نور کی دعا کرتے رہو۔ خود نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دعا مانگا کرتے تھے اللہ پاک نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔
اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَأَعْظِمْ لِي نُورًا
یعنی اے اللہ ! میرے دل میں نور کردے، میرے کانوں میں نور کردے، میرے دائیں بائیں اور اوپر نیچے نور کردے اور میرے آگے پیچھے نور کردے اور مجھے سراپا نور کردے۔ (اور کیسی ہوتی ہے نور کی فیلڈ؟)
ذ‌.                لفظ نور کی تشریح :
 امام اجل امام اہلسنت سید نا أبو الحسن اشعری قدس سرہ (جن کی طرف نسبت کر کے اہل سنت کو اشاعرہ کہا جاتا ہے ) ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نور ہے نہ اور نوروں کی مانند اور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی روح پاک اسی نور کی تابش ہے اور ملائکہ ان نوروں کے ایک پھول ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور بنایا اور میرے ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی ۔
 علامہ سید شریف جرجانی نے فرمایا : نور ایک ایسی کیفیت ہے جس کا ادراک قوت باصرہ پہلے کرتی ہے پھر اس کے واسطے سے تمام مبصرات کا ادراک کرتی ہے ۔
 اور حق یہ کہ نور اس سے اجلٰی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے ۔یہ جو بیان ہوا تعریف الجلی بالخفی ہے۔ نور بایں معنٰی (ان معنوں میں تو) ایک عرض و حادث ہے اور رب عزوجل اس سے منزہ ۔
 محققین کے نزدیک نور وہ کہ خود ظاہر ہو اور دوسروں کا مظہر۔
 بایں معنی اللہ عزوجل نور حقیقی ہے بلکہ حقیقۃً وہی نور ہے اور آیہ کریمہ اللہ نور السمٰوٰت والارض (اللہ تعالٰی نور ہے آسمانوں اور زمین کا) بلا تکلف و بلا دلیل اپنے معنی حقیقی پر ہے ۔ کیونکہ اللہ عزوجل بلاشبہ خود ظاہر ہے اور اپنے غیر یعنی آسمانوں ، زمینوں ، ان کے اندر پائی جانے والی تمام اشیاء اور دیگر مخلوقات کو ظاہر کرنے والا ہے ۔
 حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلاشبہ اللہ عزوجل کے نور ذاتی سے پیدا ہیں ۔
 حدیث شریف میں وارد ہے : اے جابر! بیشک اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا ۔(اس کو عبد الرزاق نے روایت کیا اور بیہقی کے نزدیک اس کے ہم معنٰی ہے۔)
 علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں : (من نورہٖ) ای من نور ھو ذاتہ یعنی اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس نور سے پیدا کیا جو عین ذات الٰہی ہے ، یعنی اپنی ذات سے بلاواسطہ پیدا فرمایا۔
 امام احمد قسطلانی مواہب شریف میں فرماتے ہیں : جب اللہ عزوجل نے مخلوقات کو پیدا کرنا چاہا تو صمدی نوروں سے مرتبہ ذات صرف میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ظاہر فرمایا ، پھر اس سے تمام علوی و سفلی نکالے۔
 شیخ محقق مولانا عبد الحق محدث دہلوی ، مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں : انبیاء اللہ کے اسماء ذاتیہ سے پیدا ہوائے اور اولیاء اسمائے صفاتیہ سے ، بقیہ کائنات صفات فعلیہ سے ، اور سید رسل ذات حق سے ، اور حق کا ظہور آپ میں بالذات ہے ۔
 ہاں عین ذاتِ الٰہی سے پیدا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ ذاتِ الٰہی ذاتِ رسالت کیلئے مادہ ہے جیسے مٹی سے انسان پیدا ہو، یا عیاذاً باللہ ذات الٰہی کا کوئی حصہ یا کُل ، ذاتِ نبی ہو گیا۔ اللہ عزوجل حصے اور ٹکڑے اور کسی کے ساتھ متحد ہو جانے یا کسی شَئے میں حلول فرماتے سے پاک و منزہ ہے ۔ حضور سید  عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، خواہ کسی شے، جزء ذاتِ الٰہی خواہ کسی مخلوق کو عین و نفس ذاتِ الٰہی ماننا کفر ہے۔
 اس تخلیق کے اصل معنی تو اللہ و رسول جانیں ، جل وعلا و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔ عالم میں ذاتِ رسول کو تو کوئی پہچانتا نہیں ۔ حدیث میں ہے : "یا ابا بکر لم یعرفنی حقیقۃ غیر ربی" یعنی اے ابُو بکر! مجھے جیسا میں حقیقت میں ہوں میرے رب کے سوا کسی نے نہ جانا۔"
میرے ساڑھے سات ہزار الفاظ کا یہ رسالہ پڑھنے کا بہت شکریہ


تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع