تعریف (انعام) کا تقوىٰ
تعریف (انعام) کا تقوىٰ۔۔۔ ریاکاری کی ایک قسم:
بہت سے افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب تک ان کی تعریف کی جاتی رہے، وہ متقی رہتے ہیں۔ لوگوں کی طرف سے کی جانے والی تعریف ان کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ کسی دینی ماحول میں نئے آنے والے افراد کیلئے تو اس قسم کے تقوىٰ کی تھوڑی بہت گنجائش موجود ہے لیکن بہرحال عمومی طور پر اس قسم کے تقوىٰ کو محمود نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ دراصل عارضی تقوىٰ ہوتا ہے اور تمام عارضی تقوے در حقیقت ریاکاری ہی کی ایک مختلف شکل ہوتے ہیں۔
تعریف کا تقوىٰ رکھنے والے کسی متقی کی اگر ذرا سی بھی تنقید کردی جائے اور اس کی ذات کے کسی کمزور پہلو کی طرف ہلکے سے بھی اشارہ کردیا جائے تو ایسا شخص نہ صرف یہ کہ ناراض ہوتا ہے بلکہ اس کے عمل میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے یا بالکل ہی عمل ترک ہو جاتا ہے۔ یہ اس بات کی واضح علامت ہوتی ہے کہ اس کا تقوىٰ دراصل تعریف کا تقوىٰ ہے۔ عمل تو ہمیں انجام دینا ہی ہے، کوئی تعریف کرے یا تنقید۔
ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت، مرید کو اخلاص کب حاصل ہوتا ہے؟ فرمایا کہ "جب کسی کی تعریف اسے چست اور کسی کی تنقید اسے سست نہ کرے۔" یعنی جب مرید تعریف کے تقوىٰ کی وادی کو عبور کر لے تو اسے اخلاص کی وادی میں داخل ہونا نصیب ہو جاتا ہے۔
دو سال:
بہت سے لوگ زندگی بھر اس قسم کے متقی رہتے ہیں۔ یہ بلا شبہ گھاٹے کا سودا ہے۔ مرید کو اس سے جلد نکل آنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ عروس البلاد میں جہاں مرید بھی مصروف کار ہوتا ہے اور پیر بھی، ہر روز اور ہر ہفتے تو کجا، مہینے میں ایک بار ہی آستانوں پر حاضری مشکل ہوتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ایسے میں عرصہ دو سال کے اندر مرید اس مقام پر ہو جہاں تعریف اور ڈانٹ دونوں ہی اسے اپنے مشن کے قریب کردیں۔ یعنی جو سلسلے میں داخل ہوا اور اسے دو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا، اب اسے تعریف و انعام کے تقوىٰ سے باہر آکر اخلاص کی وادی میں داخل ہو جانا چاہیئے۔ بلکہ ہوسکے تو نئے آنے والوں کی تعریف کریں اور ان کی ہمت بندھائیں۔
بیشک کسی دینی معظم ہستی کی طرف سے کی جانے والی تعریف عمل کرنے والے کیلئے ایک سرٹیفکیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہمارا اصل مقصود نہیں۔ نیکی کرنے والے کو رضائے الہی کے سوا اور کوئی مقصود دل میں نہیں رکھنا چاہیئے۔
بے شک، ہرکام صرف اورصرف اپنے رب کی رضا کےلئے ہونا چاہیئے۔ یہ اسی وقت ممکن ہےجب ہر وقت ہرآن انسان کے دل ودماغ میں یہ بات پیشِ نظر رہے۔
جواب دیںحذف کریں