Hoor Tajalla

پیش لفظ
کون سا ایسا مسلمان ہوگا جو جنت میں حوروں سے نکاح کا منکر ہو۔ بلکہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں خود بارہا حوروں کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کی طرف رغبت دلائی ہے اور پاکیزہ بیویوں سے نکاح کو جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت عظمی قرار دیا ہے۔ ایک مسلمان گھرانے میں رہنے والے فرد کے کانوں میں اپنے انتہائی بچپن سے ہی حوروں کا لفظ پڑتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تصور سے آگاہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ اخلاص کا درس دیا اور اعمال کو خالص اللہ کی رضا کیلئے انجام دینے کا حکم دیا۔ اسی لئے کبھی زندگی میں کسی حور کی آرزو پیدا نہ ہوئی۔ نہ ہی دولت یا عورتوں کی جانب کبھی ایسی رغبت ہوئی جو اعمال کے مقصد کو ہی تبدیل کر کے رکھ دے۔ "اللہ کا ذکر، اللہ کیلئے " ایک مسلمان کا وطیرہ ہوتا ہے، میرا بھی یہی ہے۔ بھلا حوروں کیلئے بھی کوئی عمل کرتا ہے؟ کوئی پاگل ہی ہوگا جو کرے گا۔لیکن چند باتیں ایسی ہوئیں جنہوں نے مجھے یہ رسالہ لکھنے پر آمادہ کیا۔
01.  پہلا واقعہ:
ایک دن میں اپنے گھر میں مصروف مطالعہ تھا، بیوی بچے بیٹھک میں محو گفتگو تھے کہ ایک صاحبہ دم کرانے کیلئے حاضر ہوئیں۔ میں عموما بیٹھک میں ہی دم کرتا ہوں لیکن ڈرائنگ روم میں گھر والے مصروف تھے اس لئے انہیں ساتھ والے کمرے میں بلایا اور دم کیلئے مؤدب ہو کر بیٹھ جانے کا کہا۔ وہ صاحبہ نماز کی طرح ہاتھ سینے پر باندھ کر با ادب ہو کر بیٹھ گئیں۔ میں نے آنکھیں بند کرکے دم کرنا شروع کیا۔ کمرے میں روشنی کافی مدھم تھی۔ اچانک ایک عجیب بات ہوئی۔ غیر متوقع طور پر میرے دل میں دم کرانے والی اس خاتون کیلئے انتہائی شدید محبت پیدا ہوئی بالکل ایسی جیسے دل میں کوئی کانٹا گھس گیا ہو اور کانٹا بھی ببول کا۔ میرے لئے اس محبت کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ بس ایسے جیسے کسی نے جادو کردیا ہو۔ وہی جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ یا حیرت! جس نے کبھی جوانی میں ایسی لغویات کی طرف توجہ نہ کی، اس ادھیڑ عمری میں یہ کیسی بات تھی جس نے ایک دم تڑپا کر رکھ دیا۔
آج سے پہلے کب اترا تھا دل میں اتنا گہرا چاند
دین اور بچگانہ خواہش آمنے سامنے تھے۔ شریعت روک رہی تھی اور خواہش زور کر رہی تھی۔ میں خود دین اور شریعت سے کافی واقف ہوں اور فرائض و واجبات خوب جانتا ہوں اور اکثر میری زبان پر اللہ رسول ہی کا نام رہتا ہے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک حرام کام کا مرتکب ہوتا۔ میں اس وقت عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔ بے شک وہ محترم خاتون حسن و جمال میں یکتائے زمانہ تھیں لیکن مجھ پر تو کسی کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ اور یہ پارسا خاتون بھی پہلے کئی بار مل چکی تھیں اس وقت تو ایسا کچھ نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ کسی حسین چہرے پر نظر پڑی تو نظریں جھکالیں۔ اور بس، نہ کوئی خیال، نہ کسی قسم کی کوئی لگاوٹ۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پوری زندگی میں پہلی بار میرے ضبط نفس کو کسی کے حسن نے چیلینج کیاتھا۔ نہ صرف میرے ضبط نفس کو للکارا ، بلکہ ایک ہی آن میں گویا کہ چاروں شانے چت کردیا۔ ایک عجیب سی کیفیت ہوگئی اس کشمکش میں۔ سوائے آنسو بہانے کے اور کوئی چارہ نہ پایا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ مدھم روشنی میں مؤدبانہ انداز میں سر جھکائے بیٹھی وہ طیبہ میرے آنسو نہ دیکھ سکی۔ ورنہ شکست کا احساس مجھے مار ہی ڈالتا۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ میں اور میری آنکھیں کس سونامی سے گزر رہے تھے۔
دم کرتے کرتے اللہ سے پہلی بار اجرت مانگی۔ یا اللہ! ساری زندگی فی سبیل اللہ لوگوں کی خدمت کی، آج پہلی بار تجھ سے کچھ مانگ رہا ہوں۔ جنت میں میرا نکاح حور عین سے ضرور فرمانا۔ تجھ سے دعا مانگ کر میں کبھی نا مراد نہیں ہوا۔ بیشک تو اپنے بندوں کی دعائیں سننے والا ہے اور ہم پر بڑا مہربان ہے۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں اللہ سے کیا مانگ رہا ہوں۔ اس وقت میں نے کوئی حور نہ دیکھی تھی۔ بس ایک مدھم سا خاکہ میرے اندر موجود تھا کہ حور عین اسی طاہرہ کی مانند خوبصورت ہوگی۔ یہ عجیب حسن اتفاق تھا کہ عین ان محترمہ کے نام کا بھی حصہ تھا۔بہرحال انہیں کچھ اندازہ نہ ہوا اور ان کے سر اٹھانے سے پہلے ہی میں اپنے گال اور آنکھیں صاف کرچکا تھا۔
ان کے جانے کے بعد اپنے آپ کو بہت نفرین کی کہ نوری صاحب، یہ کیا؟ ایک ذرا سا امتحان بھی برداشت نہ کرپائے۔ بہرحال، اس کے بعد جب بھی کبھی ان کا خیال آتا، اپنے خیال کو حور عین کی طرف لگا لیتا۔ اور ڈھیروں آنسو بہاتا۔ جب کافی عرصے تک ایسا ہوتا رہا تو حور عین کا تصور میرے اندر پختہ ہوتا گیا اور پھر جب کبھی احادیث مبارکہ میں حور عین کا تذکرہ پڑھتا تو توجہ کے ساتھ پڑھتا۔ یہاں سے میرے تصور حور کی ابتداء ہوئی جس نے آخر کار مجھے یہ رسالہ لکھنے پر تیار کیا۔
02.  دوسرا واقعہ:
ایک بار میرا وظیفہ (شاید یاسین شریف کا) پورا ہونے کو تھا۔ عجیب رنگ و نور کا سماں تھا۔ کیف و مستی، ذوق و شوق اور سرو کا عالم طاری تھا۔ دل میں وظیفہ کامیابی سے پورا ہوجانے کی خوشی تھی۔ دوران وظیفہ ہی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ کمرے کا نقشہ بدل گیا ہے۔ بڑے بڑے خوبصورت اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان ہوں اور زمین پر اتنا سبزہ ہے کہ زمین ہی دکھائی نہیں دیتی۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ساری زمین پھولوں کا ہار پہنے ہوئے ہے۔ نظر اٹھی تو اچانک کسی صاحبہ کو اپنے پاس سے مڑ کر واپس جاتے ہوئے دیکھا۔ خوشبوؤں کی ایک زبردست لپٹ تھی جو اس قتالۂ عالم کے جسم منور سے اٹھ رہی تھی اور میرے مشام جان کو معطر کئے دے رہی تھی۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا، بس اس کے مڑنے سے پیشتر اس کے دائیں گال کی ہلکی سی جھلک۔ سارا جنگل مہک رہا تھا۔ اور کسے کہتے ہیں جنگل میں منگل۔ بس ایسا ہی لگا جیسے ہلکی سی مسکراہٹ، اعتماد بھری، جیسے خود پر حد درجہ ناز ہو، کہ ہاں، آئے گا میرے پیچھے پیچھے، ضرور آئے گا۔
میں دم بخود تھا۔ ذرا ہوش سنبھلا تو اس حور کے پیچھے چلا۔ اس کا لباس بہت بڑا تھا۔ جیسے دنیا کے سارے کپڑے اس نے پہن رکھے ہوں۔ اس کے بدن سے روشنی سی پھوٹ رہی تھی جو لباس کے باہر سے بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔ اس کے لباس میں جو رنگ تھے، سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ نہیں، اسے صرف رنگ کہنا تو اس کی توہین ہوگی۔ وہ تو زندہ رنگ تھے، مسکراتے تھے، بات کرتے تھے، جھلملاتے تھے۔ اپنے ملبوس کے ساتھ پرفیکٹلی میچڈ تھے، بلکہ نہیں، میچنگ کا لفظ کچھ زیادہ نہیں جچتا، وہ اس حور کے ساتھ واقعی عین ٹینگلڈ (Entangled) تھے۔ جیسی ادا، ویسا رنگ۔
اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اور میں نے بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، کسی اور طرف دیکھنے کا یارا کب تھا۔ وہ آگے بڑھتی رہی، میں پیچھے چلتا رہا۔ اس سرو سیمیں کا خرام ایسا تھا جیسے ہوا اڑائے لئے جا رہی ہو۔ پھولوں بھری اس رنگین وادی کا راستہ نور کے خزانے تک لے گیا۔ سفید، دودھیا اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والا نور۔ بس شعاعیں بکّے اڑا رہی تھیں۔ اس کے سوا کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ وہ تو جیسے بنی ہی اس نور سے تھی اور اسی نور میں ہی رہتی تھی، چلتے چلتے نور میں داخل ہوگئی۔ میں نے لاکھ آگے بڑھنا چاہا مگر اس اس کی اجازت نہ تھی۔ آن کی آن میں وہ نور میں سرائیت کر گئی۔ اور میں جنت نظیر وادی سے واپس اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔
یوں تو اللہ اپنے فضل و کرم سے کافی مشاہدات کرواتا ہے لیکن یوں کسی حور کو دیکھنے کا میرا یہ پہلا مشاہدہ تھا۔ ایسا کوئی منظر نہ دنیا میں کہیں موجود ہے اور نہ ورچول ریالٹی اسے تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود تخلیق کر سکتی ہے۔ اس منظر کی کامل مثال دینا ناممکن ہے۔ کمپیوٹر اسکرین پر موجود لاکھوں رنگ بھی اس کے لباس کا ایک رنگ پیش نہیں کرسکتے۔
03.  تیسرا واقعہ:
یہ غالباً نوے کی دہائی کی بات ہے۔ یہ دہائی میری زندگی میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اسی میں تعلیم مکمل ہوئی، اسی میں جاب کرنے لگا، اسی دہائی میں شادی ہوئی اور اسی دہائی میں قبلۂ عالم حضرت میاں محمد مظہر احسان ڈاہر نقشبندی کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دہائی میں وقت کے قطب کے ساتھ ایک ہفتہ گزارنے کا موقع ملا جس نے میری زندگی کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور اللہ اللہ کی طرف میری توجہ ہوئی۔ پاکستان کیلئے بھی یہ دہائی فخر کا باعث ہے کہ اسی دہائی میں پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ نوے کی اسی دہائی میں میرے محترم شیخ میری کسی بات یا نیکی پر خوش ہوئے تو مجھے وہ سعادت بخشی کہ اس پر جتنا فخر کروں، کم ہے۔ یہ سعادت اولیاء اللہ کے ہمراہ خواب میں جنت کی سیر تھی۔ نہ صرف سیر بلکہ دعوت ضیافت تھی۔
جمعرات کا دن روحانیت کے اعتبار سے ویسے بھی بہت شاندار ہوتا ہے، میرے لئے تو بہت ہی شاندار تھا۔ سارا دن کامیابیاں قدم چومتی رہیں۔ مزاج میں خوش دلی، طبیعت میں چستی اور بحالی، بدن میں نور اور رگ و پے میں سرور دوڑنے لگا۔ ان دنوں یہ کیفیت میرے لئے نئی تھی۔ اور میں اس کی وجہ نہ سمجھ سکتا تھا۔ بس جو زبان سے نکلتا تھا، اسی وقت پورا ہو جاتا تھا۔ در حقیقت یہ کیفیت جلد حاصل ہونے والی کسی سعادت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
رات کو بستر پر گیا تو حسب معمول اپنے وظائف بجا لایا اور با وضو دائیں کروٹ قبلہ رو ہو کر پاؤں سمیٹ کر لیٹ گیا۔ جلد ہی نیند کی آغوش میں تھا۔ آنکھ لگی تو قسمت جاگ اٹھی۔ آسمانوں پر جنت میں لے جایا گیا۔ وہاں تو عید کا سا سماں تھا۔ ہر طرف اولیاء اللہ کی کثرت تھی۔ بہترین لباسوں میں دین کے جوان مرد جنت کی سیر کرتے نظر آئے۔ ان میں سے بہت سے وہ بھی تھے جو میری ہی طرح پہلی بار لائے گئے تھے۔ ان کی آنکھوں کی حیرت اور خوشی سے اندازہ ہوتا تھا کہ پہلی بار کی حاضری ہے۔ یقیناً انہوں بھی بھانپ لیا ہوگا کہ میری بھی پہلی ہی حاضری ہے۔ میں نے وہاں اتنے اولیاء اللہ کا دیدار کیا جن کی گنتی محال ہے۔ حضرت صاحب اور اپنے سلسلے کے دیگر اولیاء اللہ سے تو میں پہلے ہی واقف تھا، وہاں تو سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے، حضرت جنید بغدادی، با یزید بسطامی، بس یوں سمجھیں کہ آپ کو جتنے ولیوں کے نام یاد ہیں، وہ سب وہاں موجود تھے۔ ہر کوئی اپنے شغل میں مصروف تھا۔
بہرحال، ضیافت شروع ہوئی، اولیاء اللہ ضیافت کے دوران ایک دوسرے سے گفتگو بھی فرماتے جا رہے تھے۔ بھنی ہوئی مچھلیاں، پرندوں کا گوشت، نمکین، میٹھا، مٹھائیاں، الغرض کیا نہیں تھا وہاں۔ ایک سے بڑھ کر ایک شربت موجود تھا۔ سب لوگ سلیقے کے ساتھ تناول کر رہے تھے سوائے ایک سلیم قادری کے۔ اور میرا حال ندیدوں کا سا تھا، اس بھوکے کا سا جسے عرصۂ دراز کے بعد نہ صرف کھانا بلکہ بہترین شاہی کھانا نصیب ہوگیا ہو۔ اپنی خوراک میں اس قدر ندیدہ پن میں نے کبھی نہیں دیکھا، ویسے بھی خوراک کے معاملے میں سلیقہ ہی اچھا لگتا ہے۔ اس دن میں نے اتنا کھایا، اتنا کھایا کہ زندگی میں کبھی نہیں کھایا ہوگا۔ اپنے آپ پر ہی حیرت ہونے لگی تھی کہ اتنا کوئی کیسے کھا سکتا ہے۔ بس یوں سمجھیں کہ جیسے آپ ساری زندگی کا کھانا ایک ہی وقت میں کھا رہے ہوں۔
دو باتیں تھیں جو بہت شاندار تھیں۔ ایک تو یہ کہ مجھے کسی قسم کی کوئی گرانی نہ تھی۔ ورنہ اتنا کون کھا سکتا ہے۔ اور دوسری یہ کہ جنت میں میرے ندیدے پن پر نہ تو کسی نے مجھے ٹوکا اور نہ ہی کسی نے میری اس حرکت کا برا منایا۔ سب کچھ نارمل تھا۔ جیسے کسی نے کچھ دیکھا ہی نہ ہو۔
کھانے کے بعد سیر اور پھر سیر۔ ایک جگہ مجھے شیشے سے بنا ایک خوبصورت چوکور برتن نظر آیا جیسے دنیا میں مچھلیوں کیلئے ایکیوریم وغیرہ ہوتے ہیں۔ جانی پہچانی چیز کو دیکھ کر میں اس کے قریب ہوا اور اس کے عجائبات دیکھنے لگا۔ اس میں ایک چیز ایسی نظر آئی جس میں مجھے کسی قدر کراہت محسوس ہوئی۔ یہ ایک دو انچ کے جتنا مچھلی کا بچہ تھا جس کے ہاتھ پاؤں نکلے ہوئے تھے۔ ابھی میں حیرت میں ہی تھا کہ ایک حسن و جمال والی حور میری طرف آئی۔ میں سمجھا شاید یہی حور عین ہے۔ وہ شاید پہچان گئی تھی، کہنے لگی کہ میں اس کی خادمہ ہوں۔ اور یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہ آپ ہی کے اندر دنیا کی محبت کا حصہ ہے۔ اسے نکالنا ہوگا۔ اس کی بات سے عجیب تسلی ہوئی کہ یہ میری جنت کا مستقل حصہ نہیں ہے، اسے پرہیز گاری سے دور کیا جا سکتا ہے۔ وہ خادمہ شاید یہی بات بتانے کے لئے میرے پاس آئی تھی ۔
فجر سے پہلے واپسی ہوئی۔ دوسرے دن مجھے ہلکی سی سرزنش کی گئی کہ جنت میں کس چیز کی کمی ہے۔ سلیقے سے بھی کھایا جا سکتا ہے۔ اس وقت مجھے کافی شرمندگی ہوئی۔
04.  رسالۂ حوریہ کی غرض و غایت:
ان واقعات نے میری توجہ کو کسی قدر حوروں کی جانب مبذول کیا۔ پھر نوری بلاگ کی تشکیل ہوئی تو مجھے کافی تسلی ہوئی کیوں کہ بلاگ پر آپ نہ صرف یہ کہ پوری کتاب بھی پوسٹ کر سکتے ہیں بلکہ اپنی کسی بھی پوسٹ کو لیبلز کی مدد سے آسانی سے تلاش بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے میں صرف فیس بک سے واقف تھا۔ فیس بک کسی حد تک آسان ضرور ہے لیکن وہ متن میں کسی قسم کی خوبصورتی اور فارمیٹنگ کی ہرگز قائل نہیں۔ جبکہ بلاگ آپ کو مکمل فارمیٹنگ کی سہولت دیتا ہے۔ اور کسی کتاب یا رسالے کیلئے بلاگ ہی سب سے بہترین آپشن ہے۔ اگرچہ اردو ایڈیٹنگ بالخصوص نمبرنگ کے حوالے سے اس میں کافی پیچیدگیاں ہیں۔ لیکن طویل پوسٹوں کیلئے بلاگ ایک بہترین انتخاب ہے۔ فیس بک پوسٹ تین چار ہزار سے زیادہ الفاظ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اور حوروں سے متعلق رسالہ اس سے دس گنا زیادہ جگہ چاہتا ہے۔
 حوروں کے ساتھ نہ صرف ہمارے عقیدے اور تصورات وابستہ ہیں بلکہ جنت کی نعمتوں کا ذکر حوروں کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس چیز نے میرے اندر تحریک پیدا کی کہ حوروں پر ایک جامع تالیف پیش کروں جس میں تمام حوروں سے متعلق پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔
ایک غرض و غایت یہ بھی ہے کہ ہماری خواتین حوروں کی صفات سے اچھی طرح واقف ہو کر اپنے گھر کو جنت بنانا سیکھ لیں۔ اور جو حوری صفات وہ اپنے اندر پیدا کر سکیں، کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اور وہ بھی یہ جان لیں کہ خالق کائنات نے آدمیوں کی پسند کو کس طرح بیان فرمایا ہے۔ اکثر خواتین اپنے خاوندوں کی پسند و نا پسند کے بارے میں سوچتی ہیں۔ ایک آدمی کو کیا پسند ہے ان سب کا تذکرہ قرآن و حدیث میں حوروں کے ضمن میں کیا گیا ہے۔ کوئی خاتون اب بھی نہ سمجھے تو سمجھانے والے کا کیا دوش؟




ایک غرض یہ بھی ہے کہ دین سے دور ہمارے نوجوان حوروں کا تذکرہ پڑھ کر ان کی غائبانہ محبت میں ہی سہی، اللہ کی طرف مائل ہوں۔ آخر کو اللہ پاک نے حوریں آدمیوں کیلئے تخلیق فرمائی ہیں۔ ہمارے اسلاف میں سے کئی وہ بھی ہیں جنہوں نے دنیا میں ہی حوروں کا نظارہ کیا ہے اور پھر ان کی ملاقات کے شوق میں ان کی شب بیداری اور سوز و فغاں میں اضافہ ہوا اور وہ سب سے کٹ کر ایک اللہ کے ہوگئے۔
05.  طلب حور میں کوئی ملامت نہیں:
ایک غلط فہمی ہے لوگوں میں، جس کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ کی خاطر عمل کرتے ہیں، ہمیں حور و قصور سے کیا سروکار؟ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ اور آپ میں اخلاص کامل ہو اور میرا حسن ظن ہے کہ ضرور ہوگا۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ حوروں پر آپ کا عقیدہ ہی کمزور ہو اور یہ یقین ہی نہ ہو کہ حوریں بھی اللہ پاک کی کوئی مخلوق ہیں۔ کیا آپ نمازوں کے بعد اللہ سے بیماری سے شفاء اور رزق میں فراوانی کی دعا نہیں مانگتے؟ تو کیا ان دعاؤں سے آپ کے اخلاص میں کوئی کمی واقع ہو جاتی ہے؟ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ نے شفاء کیلئے عبادت کی ہے اور آپ تو رزق کیلئے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ دعائیں بھی آپ کے اندر اخلاص ہی کی وجہ سے ہیں کہ آپ کو اللہ پر یقین ہے کہ اللہ ہی رزق اور شفاء اور تمام نعمتیں عطا فرمانے والا ہے۔ بس اسی طرح عبادات و ریاضت صرف اللہ کی خاطر کریں اور پھر اللہ سے حور عین مانگیں، ان سے نکاح مانگیں اور جنت میں ان کے ہمراہ پاکیزہ حیات مانگیں۔ یقین مانیں کہ آپ کے اخلاص میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ کیا یہ آپ کو پسند ہے کہ اللہ پاک تو ہزاروں سال سے آپ کیلئے جنت اور حوروں کو سجوا رہا ہے، اور آپ اس سے بے نیازی کا اظہار کریں؟ جنت آپ کی میزبانی  ہے اور اس سے بے رغبتی کا سچا یا جھوٹا اظہار کرنا درحقیقت میزبان ہی سے بے رغبتی کا ایک انداز ہوگا۔ 
06.  طلبِ حُور میں ملکہ کو بھلا کیوں بیٹھے؟
یاد رہے کہ دنیاوی بیوی بھی جنتی ہوئی تو آپ کی ساری حوروں کی ملکہ ٹھہرے گی اور یہ بات حدیث پاک سے بھی ثابت ہے کہ دنیا کی عورتیں جو جنت میں جائیں گی ان کا حسن و جمال حوروں سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔ اور آخرت میں درجات کا اظہار خوبصورتی اور نور سے ہوگا۔ مانا کہ جنت کی یا اُس میں رہنے والی حور کی تحقیر سے کفر لازم آتا ہے لیکن کیا ہم جس طرح دُنیا کی اِن حوروں کے چہروں پر طمانچے ، کردار پر کیچڑ، اور کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔ کبھی سر بازار اور کبھی بند کمروں میں انہیں ایذا دیتے ہیں۔ کفر نہ سہی گناہ کا کوئی ادنی سا احساس بھی ہمارے ضمیر کے آئینے کو جھنجھوڑنے کیلئے دل کے کسی نہاں خانے میں ارتعاش کا باعث بنتا ہے؟ یا ہم اُن کی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اور ان کے جذبات کو پامال کرتے ہوئے گُزر جاتے ہیں؟ کیا دُنیا کی اِن حوروں کو ایذا دینے والوں کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ،، جب حوروں کی ملکہ کا ہی دل زخموں سے چور چور ہوگا تو جنت کی حوریں تو اِن مومنہ حوروں کی تابع ہوں گی۔ وُہ کس طرح اپنی ملکہ کو ایذا دینے والوں کو خوشی کا ساماں دیں گی۔ بلکہ ایسے افراد کا تو جنت میں جانا ہی مشکل ہے۔


سید محمد سلیم قادری نقشبندی مجدّدی


باب اول
حور کا تعارف اور لفظ حور کی تحقیق
متقین اور نیک و کار لوگوں کیلئے اللہ پاک نے جنت میں جو انعامات تیار کر رکھے ہیں انہیں نہ کسی انسان نے دیکھا اور نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزرا۔ انہی نعمتوں میں سے ایک انعام ایک ایسی مخلوق بھی ہے جو غیر انسانی ہے۔ غیر انسانی ان معنوں میں کہ وہ ابو البشر حضرت آدم کی اولاد میں سے نہیں۔ نہ وہ جنات میں سے ہیں اور نہ فرشتوں میں سے۔ اس کے باوجود وہ انسان کیلئے اس کا مکمل جوڑا ہے جس کی تخلیق حسن، حیا اور نور سے ہوئی ہے۔ اس کے کثیر حسن کی زیادتی کی وجہ سے اسے حور کہا جاتا ہے۔
دنیاوی عورتوں میں اور جنتی عورتوں یعنی حوروں میں صفات کے اعتبار سے کافی فرق ہے۔
دُنیا کی عورت کی جوانی ایک نہ ایک دِن ڈھل ہی جاتی ہے اور اُس کا حسن مانند پڑ ہی جاتا ہے۔ اگر نہانے سے باز رہے تو جسم بدبو دینے لگتا ہے۔ اگر سر کی صفائی نہ کرے تو بالوں میں جوئیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مرض حیض بھی اِس میں موجود ہے۔ کھانے پینے کے بعد جسم سے غلاظت کا اخراج بھی ہوتا ہے۔ جبکہ حُوریں اِن تمام کثافتوں سے غلاظتوں سے پاک ہیں۔ حوروں کے ذکر ہی سے بندے کی طبیعت میں اُن سے ملاقات کی خواہش انگڑائی لیکر جاگنے لگتی ہے۔ اِن کی طلب بعض مَردوں کو گناہوں سے روک کر نیکی کی جانب متوجہ کر دیتی ہے۔ کیونکہ حوریں صرف مومنین کیلئے ہیں۔ گناہگاروں کیلئے نہیں۔ جب تک کہ وُہ اپنے گناہوں کی سزا نہ پالیں۔
حور ایک ایسی مخلوق ہے جو اس عالم میں نہیں بلکہ جنت میں عالم امر سے ہے۔ ظاہری اعضاء میں تو دنیاوی عورتوں کے مشابہ ہیں لیکن باطن میں ان کی خوبصورتی، حسن اور نزاکت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ دنیا میں جب کسی محبوبہ کے انتہائی حسن کی تعریف کی جاتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ خوابوں کی شہزادی یا خیالوں پر چھائی ہوئی ملکہ، لیکن حوریں اس سے بھی زیادہ حسین ہیں جتنا کوئی خواب میں دیکھ سکتا ہے یا اپنے خیال میں سوچ سکتا ہے۔ حوریں اپنے شوہر کو بے انتہا چاہتی ہیں۔ اور اسے خود پر پیار دلاتی ہیں۔ ہمیشہ نوجوان، ہم عمر، کنواری اور حسن کی انتہا کی معراج پر رہنے والی یہ حوریں دنیاوی کثافتوں اور غلاظتوں سے بالکل پاک صاف ہیں اور انتہائی پاکیزہ اور شرم و حیا والی طبیعتیں رکھتی ہیں۔ الغرض حور ایک انتہائی حد تک آئیڈیل مخلوق ہے۔ جو نیک مردوں کیلئے پیدا کی گئی ہیں۔

حوریں پیدا ہو چکی ہیں اور جنت میں محلات میں مقیم ہیں۔ انہیں کسی انسان یا جن نے نہیں چھوا۔ ان سے جنت میں پروردگار اپنے پرہیز گار بندوں کا نکاح فرمائے گا۔ اور انسان ان حوروں سے اسی طرح نفع اٹھائے گا جیسے دنیا میں اپنی بیوی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ حوریں انسان کے مزاج سے مکمل واقف ہوں گی۔ اور وہ ہر وقت اپنے شوہر کی تعریف کریں گی۔ آج بھی حوریں اپنے ہونے والے جنتی شوہر کیلئے بناؤ سنگھار سے اپنے آپ کو مزین کرتی ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کچھ عرصہ جنت میں رہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں جنت میں تشریف لے گئے، حضرت ادریس علیہ السلام جنت میں رہتے ہیں مگر یہ کوئی حضرات حوروں سے تعلق نہیں رکھتے، بعد قیامت ان سے تعلق ہوگا۔ یہ حضرات اور شہداء جنت کے پھل فروٹ وغیرہ کھاتے رہے اور کھا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ہر حُور کو خبر ہے کہ میں کسی مسلمان کی بیوی ہوں۔
آسمانی جاندار جیسے فرشتے اور حُور عِین و غلمان وغیرہ، یہ عام رزق کے محتاج نہیں بلکہ ان کی غذا تسبیح و تہلیل ہے۔
01.  لفظ حور کی تحقیق:
حور کا لفظ الحَوْرُ سے بنا ہے۔
الحَوْرُ : اس لفظ کے معنی ہیں اپنے آپ کی طرف لوٹنا یا رجوع کرنا۔ اور حدیث پاک میں حور بعد کور سے پناہ مانگی گئی ہے یعنی زیادت کے بعد نقصان سے پناہ۔ اسی لفظ کے ایک معنی التَّحَيُّر بھی ہیں۔
جنت کی عورتوں کو بھی حور کہا جاتا ہے جن کی آنکھیں بڑی بڑی اور انتہائی حسین۔ اس کی جمع حوراء آتی ہے۔ یا اس عورت کے معنی میں ہیں جس کی آنکھیں، ہرن کی آنکھوں کے مانند بالکل سیاه ہوں۔
02.  عُرُوْب، حُوْر، حَوْراء اور عِیْناء:
قرآن پاک میں جنتی عورتوں کیلئے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے عُرُوْب اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے شوہر سے محبت کرتی، جماع کی خواہش رکھتی اور اسی سے اس کی لذت پوری ہوتی ہو۔ اور حُور سفید رنگت والی کو کہتے ہیں۔ اسی طرح حَوْرَاء اس عورت کو کہتے ہیں جس کی آنکھوں کی سفیدی زیادہ اور ان کی سیاہی بالوں کی سیاہی کی مانند ہو اور عیْنَاء بڑی بڑی آنکھوں والی کو کہتے ہیں۔ چونکہ حوروں کی آنکھیں بڑی اور خوب سفید و سیاہ ہیں اس لیے انہیں حُور عین کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ حُور جنس بشر سے نہیں کہ وہ اولاد آدم علیہ السلام نہیں ہیں نورانی مخلوق ہے۔ دنیا میں انسان کا نکاح غیر جنس سے درست نہیں، آخرت میں بعد قیامت درست ہوگا۔
بہشتی نعمتوں میں سے ایک نعمت "حور العین " ہے جو مؤمن مردوں کے اختیار میں رکھی جائے گی۔ ظاہری طور پر حور العین ، دنیا کی عورتوں کے علاوہ ہیں جن کے بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے: اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے انکے جوڑے لگا دیں گے۔"
اکثر مفسروں کی تفسیر کے مطابق ،شادی دنیاوی معنی میں بہشت میں موجود نہیں ہے ۔ بلکہ یہاں پر خداوند متعال کی طرف سے اپنے بہشتی بندوں کو حور العین عطا کرنا، اور اس سے نزدیک کرنا مراد ہے۔ 
03.  کلام الہی میں ذکر حوران بہشت:
قرآن پاک میں بعض آیات میں لفظ حور کے ساتھ حوروں کا تذکرہ آیا ہے، جیسے؛
كَذَٰلِكَ وَ زَوَّجْنَٰهُم بِحُور عِينٍ
مُتَّكِءِينَ عَلَىٰ سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ وَ زَوَّجْنَٰهُم بِحُور عِينٍ
حُور مَّقْصُورَٰتٌ فِي الْخِيَامِ
وَ حُور عِينٌ
 كَأَمْثالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ
اور حوروں کا تذکرہ بنا لفظ حور کے تو کئی جگہ وارد ہوا ہے جیسے سورت رحمان میں ہے؛
فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ
ترجمہ: ان بچھونوں پر وہ عورتیں ہیں کہ شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔ ان سے پہلے انہیں نہ چھوا کسی آدمی اور نہ جِن نے۔
یہ آیت اس بات پر صریح ہے کہ وہ دنیا کی مؤمن عورتیں نہ ہوں گی۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آدمی حوروں کے ساتھ جماع کرے گا۔ اور ان سے اسی طرح لطف اندوز ہوگا جیسے دنیا کی عورتوں سے ہوتا ہے۔
 نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنات بھی اسی طرح اپنی عورتوں (جنیوں) سے جماع کرتے ہیں جیسے دنیا کے آدمی اپنی عورتوں جماع کرتے ہیں۔ اور اسی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جنات جنّی عورتوں کے علاوہ انسانی عورتوں سے بھی جماع کر سکتے ہیں۔ اسی لئے حوروں کے اچھوتے پن کی تعریف کیلئے فرمایا کہ انہیں جنتی انسان سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہوگا۔
04.  حور سے جماع:
بلا شبہ جنت میں حوروں سے نہ صرف یہ کہ دل جمعی کی باتیں ہوں گی بلکہ ان سے دنیاوی منکوحہ کی طرح بھی نفع اٹھایا جائے گا جس میں جسمانی قربت بدرجۂ اولی شامل ہے۔ یہ بات قرآن و حدیث دونوں سے ہی واضح ہوتی ہے۔ جیسا کہ سورت یاسین شریف میں اللہ پاک کا فرمان ہے :
إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ
ترجمہ: جنتی لوگ آج کے دن اپنے (دلچسپ) مشغلوں میں ہشاش بشاش ہوں گے ۔
یہاں جنتی کے مشغلوں سے مراد کنواریوں کے پاس جانا ہے ۔
اسی طرح نبی ﷺ کے متعدد فرامین سے بھی یہ بات واضح ہے کہ اہل جنت حوروں سے جماع کریں گے ۔ جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ أهْلَ الجنةِ إذا جَامَعُوا نِساءَهُمْ عادُوا أبْكارًا
ترجمہ: جنتی جب اپنی بیویوں سے صحبت کرلیں گے تووہ پھرسے وہ کنواری (جیسی) ہوجائے گی۔
یہ اس بات کی واضح شہادت ہے کہ جنت میں جنتی مرد اپنی حوروں سے جماع بھی کریں گے۔ اسی لئے ان کے دوبارہ کنواری ہو جانے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب ان سے جماع کیا جائے۔


باب دوم
احادیث میں حوروں کی صفات
قرآن کریم کے ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ حوروں کا تذکرہ آیا ہے، کبھی رمضان، کبھی جہاد اور کبھی دیگر اعمال کے ضمن میں حوروں کا ذکر بطور انعام اور جزا کیا گیا ہے۔ نیک اعمال کی طرف رغبت دلانے کیلئے بھی اور جنتی کے حقیقی اور جسمانی نفع اٹھانے کی کیفیت کے ذکر کیلئے بھی حوروں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یعنی جنت میں صرف روحیں نہیں جائیں گی بلکہ نیک و کار لوگ اپنے جسموں کے ساتھ جائیں گے اور جسم کو جو چیزیں درکار ہوتی ہیں، جنت میں وہ سب انتہائی اعلیٰ نعمتوں کی صورت میں موجود ہوں گی۔ ورنہ روحوں کو کھانے پینے اور نکاح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
01.  حور کا دوپٹہ:
 صحیح بخاری میں ہے کہ اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت (حُور) زمین کی طرف رخ کرے تو وہ تمام فضا کو جو آسمان اور زمین کے بیچ میں ہے روشن کردے گی، اور اس کو خوشبو سے بھردے گی، اور بے شک اس کا دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے تمام دنیا و مافیہا سے اعلیٰ و افضل ہے۔
02.  حور کے سینے پر لکھا ہے:
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک حور ہے جس کا نام لعبۃ ہے اگروہ اپنا لعاب دہن (کڑوے) سمندر میں ڈالدے توسمندر کا تمام پانی شیریں ہوجائے، اس کے سینے پریہ لکھا ہوا ہے: جوشخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کومیرے جیسی حور ملے تواس کوچاہئے کہ میرے پروردگار کی فرمانبرداری والے اعمال کرے۔
03.  جناب سیدہ اِنسانی حور ہیں:
صرف ایسا ہی نہیں کہ حوریں اور ان کی سی صفات رکھنے والی صرف جنت میں ہوں گی، اس دنیا میں بھی ایسی نیک اور پاکباز خواتین ہیں جنہیں حور کہا گیا ہے۔ حدیث پاک میں خاتون جنت حضرت سیدہ بی بی فاطمہ اور حضرت ام رومان رضی اللہ عنہن کو بھی انسانی حور کہا گیا ہے۔ یہ آپ کے بہترین خصائل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 حضرت سیِّدُناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے : ''فاطمہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میرے جسم کا ٹکڑا ہے ، فاطمہ انسانی حُور ہے۔ ''
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جنت اور اس کی نعمتوں کا اشتیاق ہوتا تو حضر تِ سیِّدَتُنافاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بوسہ لے لیتے اور ان کی پاکیزہ خوشبو کو سونگھتے۔ اورجب ان کی پاکیزہ مہک سونگھتے تو فرماتے : ''فاطمہ تو انسانی حُور ہے۔ ''
نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری صاحبزادی فاطمہ آدمیوں میں حُور ہے کہ نجاستوں کے عارضے جو عورت کو ہوتے ہیں ان سے پاک و منزہ ہے۔ اللہ عزوجل اس نے کا فاطمہ اس لئے نام رکھا کہ اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو آتش دوزخ سے آزاد فرما دیا۔
04.  حضرت ام رومان انسانی حور ہیں:
 یہ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہیں اور حضرت عائشہ اور حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر کی ماں ہیں ان کی شکل و صورت اور ان کی بہترین عادتوں اور خصلتوں کی بنا پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں اگر کسی کو حُور دیکھنے کی خواہش ہو تو وہ ام رومان کو دیکھ لے کہ وہ جمال صورت اور حسن سیرت میں بالکل جنت کی حُور جیسی ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام ان پر بڑا خاص کرم فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں آپ کی محبوب زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بھی بالواسطہ تعریف موجود ہے کہ آپ حور کی بیٹی ہیں۔
سن ۶ھ میں جب حضرت ام رومان رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان کی قبر میں اترے اور اپنے دست مبارک سے ان کو سپرد خاک فرمایا اور ان کی مغفرت کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ یا اﷲ عزوجل! ام رومان رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تیرے اور تیرے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے ساتھ بہترین سلوک کیا ہے وہ تجھ پر پوشیدہ نہیں لہٰذا تو ان کی مغفرت فرما۔
{یوں بھی عام طور پر کسی بھی خاتون میں عظیم صفات دیکھ کر اسے حور کہہ دیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوجانے والی لڑکی فاطمہ کو حور صحرائی فرمایا ہے۔ اسی طرح دنیا میں پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے والی عظیم خاتون فاطمۃ الفہریہ کو بھی حور کہا جاتا ہے۔مؤلف}
05.  چار حوریں:
 حضرتِ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، ایک دن سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ''میں جنت میں داخل ہوا۔ اسی دوران جبکہ میں اس کے باغوں ، نہروں اور درختوں کے گرد گھوم رہاتھا کہ میرا ہاتھ ایک پھل سے مس ہوا، میں نے اسے پکڑا تو وہ میرے ہاتھ میں چار ٹکڑوں میں بٹ گیا، ہر ٹکڑے سے ایک حُور نکلی، اگروہ اپنا ایک ناخن ظاہر کردے تو تمام زمین و آسمان والوں کو فتنے میں مبتلا کردے، اور اگراپنی ایک ہتھیلی ظاہر کر دے تواس کی روشنی سورج اور چاند کی روشنی پر غالب آجائے ، اگر وہ تبسم کرے تو اپنی خوشبو سے زمین وآسمان کی درمیانی جگہ کو کستوری سے بھر دے۔
 میں نے پہلی سے پوچھا: ''تم کس کے لئے ہو؟ '' بولی : ''حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے۔ '' میں نے اسے حکم دیا: ''تم اپنے شوہرکے محل کی طرف جاؤ۔ '' تو وہ چلی گئی۔ دوسری سے پوچھااس نے کہا: '' میں حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ہوں۔ ''اسے بھی میں نے حکم دیا کہ تم اپنے خاوند کے محل میں چلی جاؤ۔ '' تو وہ بھی چلی گئی۔ تیسری سے بھی پوچھا: اس نے جواب دیا: ''خون سے لت پت ظلماً شہید کئے ہوئے ، حضرتِ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے۔ ''اسے بھی میں نے اپنے خاوند کے محل کی طرف جانے کاحکم دیاوہ بھی چلی گئی۔ چوتھی سے سوال کیاتووہ کچھ دیر خاموش رہی پھراس نے کہا: ''اللہ پاک کی قسم! یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اللہ پاک نے مجھے حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حُسن پر پیدا کیا اور میرا نام ان کے نام پر رکھا اور حضرتِ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے ان کے ساتھ نکاح ہونے سے دو ہزار سال قبل اللہ پاک نے حضرتِ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے میرا نکاح کر دیا تھا۔ ''
06.  غصہ پینے والے کے لیے جنتی حور:
حضرتِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص غصہ نافذ کرنے پر قادر ہونے کے باوجود اسے پی جائے ، قیامت کے دن اللہ پاک تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اسے اختیار دے گا کہ بڑی آنکھوں والی جس حُور کو چاہے پسند کرے۔
07.  بڑی آنکھوں والی جنتی حور:
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ پہلا گروہ جو جنت میں جاوے گا وہ چودھویں رات کے چاند کی شکل پر ہوگا پھر جو ان سے متصل ہوں گے آسمان کے تیز چمک دار تارے کی روشنی میں ہوں گے ان سب کے دل ایک آدمی کے دل کے موافق ہوں گے کہ نہ ان میں مخالفت نہ بغض ان میں سے ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے جن کی پنڈلیوں کی مینگ حسن کی وجہ سے ہڈی و گوشت کے اوپر سے دیکھی جاوے گی صبح شام اللہ کی تسبیح پڑھیں گے نہ کبھی بیمار ہوں گے نہ پیشاب پا خانہ کریں گے اور نہ تھوکیں گے نہ ناک صاف کریں گے ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن لوبان اور ان کا پسینہ مشک ہوگا ایک آدمی کے عادت پر اپنے باپ حضرت آدم کے شکل پر ساٹھ گز بلند۔
08.  بہتّر بیویاں:
مشکاۃ شریف میں روایت ہے حضرت ابو سعید سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ادنیٰ جنتی وہ ہوگا جس کے اسّی ہزار خادم ہوں اور بہتر بیویاں اور اس کے لیے موتیوں زبرجد اور یاقوت کا خیمہ لگایا جاوے گا جیسا کہ جابیہ اور صنعاء کے درمیان کا فاصلہ ہے۔
09.  حور کی مانگ:
مشکاۃ شریف میں روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ اللہ کی راہ میں صبح یا شام چلنا دنیا سے اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ اور اگر جنت والی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانکے تو ان دونوں کے درمیان کو چمکا دے اور ان کے درمیان کو خوشبو سے بھر دے۔ اور اس کے سر کی مانگ دنیا اور دنیا کی چیزوں سے بہتر ہے۔
10.  حور کی نزاکت :
ام المؤمنین حضرت سلمہؓ نے اس سے متعلق نبی کریمؐ سے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ ''ان کی نرمی و نزاکت اس جھلی جیسی ہو گی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے''۔
11.  حُور کی باطنی سفیدی:
حضرتِ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مُکَرَّم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''بے شک جنتی عورتوں میں سے ہر عورت کی پنڈلی کی سفید ی ستّر حلوں کے باہر سے نظر آتی ہے بلکہ اس کی پنڈلی کا مغز تک نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا:
كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ
تر جمہ کنز الایمان : گویاوہ لعل اور یاقوت اور مونگاہیں۔
 اور یاقوت ایک ایسا پتھر ہے اگر تم اس میں دھاگا ڈالو پھر اسے بند کردو پھر بھی اس کے باہر سے وہ دھاگا تمہیں نظر آئے گا۔''
12.  حُور کی انگوٹھی:
 حضرتِ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرتِ کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ'' اگر آسمانی حُور کے ہاتھ کی سفیدی اور اس کی انگوٹھیاں زمین و آسمان کے درمیان لٹکا دی جائیں تو اس کی وجہ سے زمین اس طرح روشن ہوجائے جس طرح سورج دنیا والوں کے لیے روشن ہوتا ہے۔ ''
پھر فرمایا کہ ''یہ تو میں نے اس کے ہاتھ کا تذکرہ کیا ہے اس کے چہرے کی سفیدی اور حسن و جمال اور اس کے تاج، یاقو ت و زبرجد کے حسن کا کیا عالم ہوگا؟ ''
13.  حور کی ہتھیلی:
 حضرتِ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : '' اگر حُور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان ظاہر کردے تو اس کے حسن کی وجہ سے مخلوق فتنے میں پڑ جائے اور اگر وہ اپنی اوڑھنی ظاہر کردے تو سورج اس کے حسن کی وجہ سے دھوپ میں رکھے ہوئے چراغ کی طرح ہوجائے جس کی کوئی روشنی نہیں ہوتی اور اگر وہ اپنا چہرہ ظاہر کردے تو زمین و آسمان کی ہر چیز کو روشن کردے۔ ''
14.  حُور کی انگلیاں :
 حضرتِ انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے بتایا : '' جب کوئی آدمی کسی حُور کے پاس جائے گا تو وہ اس سے معانقہ اور مصافحہ کر کے اس کا استقبال کرے گی۔ ''پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ''پھر تم اس کی جن انگلیوں سے چاہو پکڑو، اگر اس کی انگلی کا ایک پورا دنیا پر ظاہر ہوجائے تو اس کے سامنے سورج اور چاند کی روشنی ماند پڑ جائے اور اگر اس کے بالوں کی ایک لٹ ظاہر ہوجائے تو مشرق و مغرب کی ہر چیز اس کی پاکیزہ خوشبو سے بھر جائے۔ جنتی شخص اپنی مسہری پر بیٹھا ہوگا اچانک اس کے سر پر ایک نور ظاہر ہوگا وہ گمان کریگا کہ شاید اللہ عز وجل اپنی مخلوق پرناہ کرم فرما رہا ہے لیکن جب وہ اس نور کو دیکھے گا تو وہ ایک حُور ہو گی جو یہ کہہ رہی ہو گی : '' اے اللہ عز وجل کے ولی ! کیا تمہارے پاس ہمارے لیے وقت نہیں ہے ؟ ''وہ پوچھے گا : '' تم کون ہو؟ ''تو وہ کہے گی: '' میں ان حوروں میں سے ہوں جن کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے
وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ
ترجمہ: اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔
 پھر وہ اس کی طرف رخ کرے گا تو دیکھے گا کہ اس کے پاس جو حسن و جمال ہے وہ پہلے والی حوروں میں نہیں۔
 پھر جب وہ اس حُور کے ساتھ اپنی مسہری پر بیٹھا ہوگا تو اسے ایک او ر حُور پکارے گی : ''اے اللہ عز وجل کے ولی ! کیا تمہارے پاس ہمارے لیے وقت نہیں ؟ ''وہ پوچھے گا: '' تم کون ہو؟ وہ کہے گی : ''میں ان حوروں میں سے ہوں جن کے بارے میں اللہ عز وجل نے فرمایا ہے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ کنز الایمان : تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لئے چھپا رکھی ہے صلہ ان کے کاموں کا۔
" پھر وہ اسی طرح اپنی بیویوں میں سے ایک حُور سے دوسری کی طرف منتقل ہوتا رہے گا۔ "
15.  حُور کی مسکراہٹ اور دانتوں کا نور:
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: '' جنت میں ایک نور پھیلے گا یہاں تک کہ وہ جنتیوں کے سروں سے بلند ہو جائے گا، وہ نور جنتی حُور کے اگلے دانتوں کا ہو گا جو اپنے شوہر کے لیے مسکرائی ہو گی۔ ''
16.  فضا خوشبو سے بھر جائے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " اگر جنتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑ جائے تو آسمان و زمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے۔ "
17.  حوروں کا مجمع:
مشکاۃ شریف میں روایت ہے حضرت علی سے، فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جنت میں آنکھ والی حوروں کا مجمع ہوتا ہے جو اپنی آوازیں بلند کرتی ہیں۔ ایسی آواز مخلوق نے کبھی نہ سنی۔ کہتی ہیں کہ "ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں، کبھی نہ فنا ہوں گے اور ہم خوش رہنے والیاں ہیں کبھی غمگین نہ ہوں گے، ہم راضی رہنے والیاں کبھی ناراض نہ ہوں گی۔ اسے خوشخبری ہو جو ہمارا ہو اور ہم اس کے ہوں۔ "
18.  حور سے اولاد:
اور اسی اسناد سے ہے فرمایا مؤمن جب جنت میں اولاد کی خواہش کرے گا تو اس کا حمل اس کا جننا اس کا عمر رسیدہ ہونا(جوان ہونا اور جنتیوں کی طرح توانا ہونا) پل بھر میں ہوجاوے گا جیسا وہ چاہے۔
 اور کہا اسحاق ابن ابراہیم نے اس حدیث کے متعلق کہ جب مؤمن جنت میں اولاد چاہے گا تو ایک پل میں ہوجاوے گی مگر وہ چاہے گا نہیں۔
19.  روز محشر ادنیٰ مؤمن کا مقام:
 نبی ٔمُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: لوگ پل صراط پر سے اپنے نور کے مطابق گزریں گے، ان میں سے بعض پلک جھپکنے کی دیر میں گزریں گے تو بعض بجلی کی طرح، بعض بادلوں کی طرح گزریں گے تو بعض ستارے ٹوٹنے کی طرح، بعض ہوا کی طرح گزریں گے تو بعض گھوڑے کے دوڑنے کی طرح، بعض کجاوہ باندھنے کی طرح گزریں گے یہاں تک کہ جسے اُس کے قدموں کے ظاہر پر نور عطا کیا جائے گا وہ چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کے بل چلے گا، ایک ہاتھ کھینچے گا تو دوسرا اٹک جائے گا، ایک پاؤں کھینچے گا تو دوسرا پھنس جائے گا، اس کے پہلوؤں کو آگ پہنچ رہی ہو گی، وہ چھٹکارا پانے تک اسی کیفیت میں رہے گا، پھر جب آزاد ہو جائے گا تو کھڑا ہو جائے گا اور کہے گا: ''تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے جس نے مجھے وہ کچھ عطا کیا جو کسی کو عطا نہیں کیا کہ مجھے عذاب کے دیکھنے کے بعد اس سے نجات عطا فرمائی۔ ''
پھر وہ جنت کے دروازے پر ایک تالاب کی طرف جائے گا اور ا س میں غسل کرے گا اور اسے اہلِ جنت اور ان کے رنگوں کی خوشبو آئے گی تو وہ دروازے کے سوراخوں سے جنت کی نعمتیں ملاحظہ کر کے عرض کرے گا: ''اے میرے پروردگار پاک ! مجھے جنت میں داخل فرما دے۔ '' تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ''کیا تو جنت کا سوال کرتا ہے حالانکہ میں نے تجھے دوزخ سے نجات عطا فرمائی ہے؟ '' تو وہ کہے گا: ''میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل کردے یہاں تک کہ میں اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سن سکوں۔ '' پس وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور اپنے سامنے ایک محل دیکھے گا یا اس کے سامنے کھڑا کیا جائے گا گویا وہ محل اس کی نسبت سے ایک خواب ہوگا تو وہ کہے گا: ''اے میرے پروردگار پاک ! مجھے یہ محل عطا فرما دے۔ '' اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: '' اگر میں تجھے یہ عطا کر دوں تو ہو سکتا ہے تو کوئی دوسری چیز مانگ لے۔ '' وہ عرض کرے گا: ''نہیں ! اے پروردگار پاک ! تیری عزت کی قسم! میں اس کے علاوہ کچھ نہیں مانگوں گا اور کیا اس سے بہتر بھی کوئی محل ہو سکتا ہے؟ '' وہ اسے عطا کر دیا جائے گا تو وہ اس میں جائے گا اور اپنے سامنے ایک اور محل دیکھے گا اور اسی طرح کہے گا جیسے پہلے کہا تھا پھر وہ اس میں بھی داخل ہو جائے گا۔
اس کے بعد وہ خاموش ہو جائے گا تو اللہ پاک اس سے دریافت فرمائے گا: ''تجھے کیا ہوا کہ کچھ نہیں مانگ رہا؟ '' تو وہ عرض کرے گا: ''اے پروردگار پاک ! میں تجھ سے مانگتا رہا یہاں تک کہ مجھے اب تجھ سے شرم آتی ہے۔ '' تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ''کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں تجھے ابتدائے دنیا سے فنائے دنیا تک کی مثل اور اس سے 10 گنا زیادہ عطا فرما دوں ؟ '' تو وہ عرض کرے گا: ''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیا تو مجھ سے استہزاء فرما رہا ہے حالانکہ تو رب العزَّت ہے؟ '' تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ''نہیں ، بلکہ میں اس پر قادر ہوں ، لہٰذا مانگ۔ '' تو وہ عرض کرے گا: ''میری ملاقات لوگوں کے ساتھ کرا دے۔ '' تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ''جاؤ، لوگوں سے ملو۔ '' لہٰذا وہ چل دے گا اور جنت میں لپک لپک کر چلے گا یہاں تک کہ جب وہ لوگوں کے قریب پہنچ جائے گا تو اس کے سامنے ایک موتیوں کا محل کھڑا کیا جائے گا تو وہ سجدہ میں گر جائے گا، اسے کہا جائے گا: ''اپنا سر اٹھا، تجھے کیا ہوا ہے؟ '' وہ عرض کرے گا: ''میں نے اپنے پروردگار پاک کی زیارت کی یا مجھے پروردگار پاک کا دیدار کرایا گیا ہے۔ '' تو اسے کہا جائے گا: ''یہ تو تیرے ہی محلوں میں سے ایک محل ہے۔ ''
پھر وہ ایک شخص سے ملے گا تو (شکر کے) سجدوں کے لئے تیار ہو جائے گا اسے کہا جائے گا: ''ٹھہر جا۔ '' تو وہ عرض کرے گا: ''میرے خیال میں تم یقیناً فرشتے ہو۔ '' وہ کہے گا: ''میں تو آپ کے خزانچیوں میں سے ایک خزانچی اور خدّام میں سے ایک خادم ہوں ، میرے ماتحت میرے جیسے ہی ایک ہزار خزانچی ہیں۔ '' چنانچہ، وہ اس کے آگے آگے چلے گا یہاں تک کہ اس کے لئے محل کا دروازہ کھولا جائے گا جو ایک ہی موتی کا ہو گا اور اس کی چھتیں ، دروازے، تالے اور چابیاں بھی موتیوں سے تراشیدہ ہوں گے، اس کے سامنے کا محل سبز ہو گا جو اندر سے سرخ ہو گا، اُس کے ستّر دروازے ہوں گے، ہر دروازہ اندر سے سبز محل کی طرف کھلے گا، ہر محل دوسرے محل کی طرف کھلے گا کہ جس کا رنگ مختلف ہو گا، ہر محل میں تخت، بیویاں اور نو عمر خادمائیں ہوں گی جن میں سب سے کم حسین بڑی بڑی آنکھوں والی حُور ہو گی، اُس پر ستّر حلّے ہوں گے، اس کے حلوں کے اندر سے اس کی پنڈلی کا گودا نظر آئے گا، اِس کا سینہ اُس کے لئے اور اُس کا سینہ اِس کے لئے آئینہ ہو گا، جب وہ اُس سے منہ پھیرے گا تو اُس کی آنکھوں کے حسن میں پہلے سے ستّر گنا اضافہ ہو جائے گا، وہ اُس سے کہے گا: ''خدا کی قسم! تو میری آنکھوں میں ستّر گنا زیادہ حسین نظر آ رہی ہے۔ '' تو وہ جواب دے گی: ''بے شک آپ بھی میری آنکھوں میں ستّر گنا زیادہ حسین نظر آر ہے ہیں۔ '' پھر اسے کہا جائے گا: ''نیچے جھانک۔ '' وہ نیچے دیکھے گا، تو اسے کہا جائے گا: ''تیری سلطنت 100 سال کی مسافت تک ہے جہاں تک تیری نگاہ پہنچتی ہے۔ ''
 امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیثِ پاک حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنی تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: ''اے کعب! کیا آپ نہیں سن رہے کہ اُمّ عبد کے بیٹے(حضر ت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) ہمیں ادنیٰ جنتی کے متعلق کیا بتا رہے ہیں (جب ادنیٰ جنتی کا یہ مقام ہے) تو پھر اعلیٰ جنتی کا مقام کتنا بلند ہو گا؟ '' تو انہوں نے عرض کی: ''اے امیر المؤمنین ین رضی اللہ عنہ ! اعلیٰ جنتی کا مقام وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ '' اور اس کے بعد انہوں نے بھی ایک حدیث ِ پاک ذکر کی۔
20.  حُور عین کی اوڑھنی :
حضرتِ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ''اللہ عزوجل کی راہ میں سفر کرنا یا اس سے واپس لوٹنا دنیااور اسکی ہر چیز سے بہتر ہے جنت میں تم میں سے کسی کی کمان رکھنے یا کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا اور اس کی ہرچیز سے بہتر ہے اور اگر جنت کی کوئی حُور اہل زمین پر ظاہر ہوجائے تو زمین وآسمان کے درمیان کی ہر چیزکو روشن کردے اور اس کوخوشبوسے بھردے اورحُور عین کے سر کی اوڑھنی دنیا اوراسکی ہر چیز سے بہتر ہے۔ ''
21.  میں آپ کی محبوبہ ہوں:
 امیر المؤمنین ضرت علیُّ المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول انور، صاحبِ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت ِ مبارکہ کے متعلق استفسار کیا:
يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا
ترجمۂ کنز الایمان: جس دن ہم پرہیز گاروں کو رحمن کی طرف لے جائیں گے مہمان بنا کر۔
امیر المؤمنین حضرت علیُّ المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی : '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وفد تو سواروں کے قافلہ کو کہتے ہیں ؟ '' تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جب متقی لوگ اپنی قبروں سے نکلیں گے تو انہیں ایسی سفید اونٹنیاں پیش کی جائیں گی جن کے پر ہوں گے اور ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے، ان کے جوتوں کے تسمے نور کے ہوں گے جو چمک رہے ہوں گے، ان کا ہر قدم تا حدِّ نگاہ ہو گا، وہ جنت کے دروازے پر پہنچیں گے، وہاں سونے کی تختیوں پر سرخ یاقوت کا حلقہ ہو گا، وہاں جنت کے دروازے پر ایک درخت ہو گا جس کی جڑ سے دو چشمے پھوٹ رہے ہوں گے، جب وہ ایک چشمہ سے پئیں گے تو ان کے چہروں پر نعمتوں کی تازگی آجائے گی اور جب وہ دوسرے سے وضو کریں گے تو ان کے بال کبھی پراگندہ نہ ہوں گے۔
 اس کے بعد وہ سونے کے تختے پر حلقہ کو ماریں گے۔ اے علی! کاش! تم اس حلقے کی آواز سنتے۔ وہ آواز ہر حُور تک پہنچ جائے گی اور اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کا خاوند آ گیا ہے لہٰذا وہ جلدی کرے گی اور اپنے خادم کو بھیجے گی، وہ اس کے لئے دروازہ کھولے گا، اگر اللہ پاک نے اسے اپنی پہچان نہ کرائی ہوتی تو وہ شخص نور اور رونق دیکھ کر اس خادم کے لئے سجدہ میں گر جاتا۔
خادم اس سے عرض کرے گا: '' میں آپ کا خادم ہوں ، آپ کی خدمت میرے سپرد کی گئی ہے، وہ متقی اس کے پیچھے پیچھے چل دے گا اور اپنی زوجہ کے پاس جائے گا، وہ جلدی کرے گی اور خیمے سے باہر آ کر اس متقی سے معانقہ کرے گی، پھر عرض کرے گی: ''آپ میرے محبوب ہیں اور میں آپ کی محبوبہ ہوں ، میں آپ سے خوش ہوں اور کبھی ناراض نہ ہوں گی، میں نرم و نازک ہوں ، کبھی کسی پریشانی کا باعث نہ بنوں گی، میں ہمیشہ رہنے والی ہوں ، مجھ پر کبھی موت نہ آئے گی۔ ''
پھر وہ متقی ایک ایسے مکان میں داخل ہو گا جس کے فرش سے چھت تک کی اونچائی ایک لاکھ گز ہو گی، وہ موتیوں اور یاقوت کے پتھروں سے بنایا گیا ہو گا، سرخ، سبز اور زرد راستے ہوں گے لیکن کوئی راستہ دوسرے کے مشابہ نہ ہو گا، وہ مزین تخت پر آئے گا، جس پر پلنگ ہوں گے، ہر پلنگ پر ستّر بستر ہوں گے، ہر بستر پر ستّر بیویاں اور ہر بیوی پر ستّر لباس ہوں گے، ان لباسوں کے اندر سے اس کی پنڈلی کا گودا نظر آئے گا، وہ ایک رات کی مقدار تک ان سے جماع کرے گا۔
22.  دو دو بیویاں :
نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: ''ہر جنتی کی بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی، ہر بیوی کے ستّر حلّے ہوں گے اور ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت اور حلّوں سے اس طرح نظر آئے گا، جیسے سفید شیشے کے برتن سے سرخ شراب نظر آتی ہے۔''

23.  کوئی بغیر بیوی کے نہ ہوگا:
سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، رحمۃ لِّلْعٰلَمِیْن صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: ''ہر جنتی کی دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اندر سے نظر آئے گا اور جنت میں بغیر بیوی کے کوئی نہ ہو گا۔ ''
24.  بہتّر بیویاں:
سرکارِ مکۂ مکرمہ، سردارِ مدینۂ منورہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''ادنیٰ جنتی کے پاس دنیا کی بیویوں کے علاوہ72 حوریں ہوں گی اور ان میں سے ایک کی زمین پر بیٹھنے کی جگہ (کرسی وغیرہ) ایک میل کی مقدار ہو گی۔ ''
25.  پانچ سو حوریں:
دو جہاں کے تاجور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: ''جنتی شخص500 حوروں ، 4 ہزار باکرہ (یعنی کنواریوں ) اور8 ہزار ثیبہ(یعنی شادی شدہ) عورتوں سے نکاح کرے گا، وہ ان میں سے ہر ایک سے دنیوی عمر کی مقدار معانقہ کرے گا۔ ''
26.  حوروں سے بڑھ کر:
شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن، صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: ''قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! تم دنیا میں اپنی بیویوں اور گھروں کو اس سے زیادہ نہیں جانتے جتنا اہلِ جنت اپنی بیویوں اور گھروں کے متعلق جانتے ہوں گے، ایک جنتی مرد اپنی72بیویوں کے پاس جائے گا جنہیں اللہ پاک پیدا فرمائے گا اور دو اولادِ آدم سے ہوں گی جو دنیا میں کی جانے والی عبادت کی وجہ سے اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی ان حوروں پر فضیلت رکھتی ہوں گی، وہ دونوں میں سے پہلی کے پاس یاقوت کے بالا خانے میں جائے گا، وہاں موتیوں سے جڑے ہوئے سونے کے پلنگ پر ستّر بیویاں ہوں گی جو سندس اور استبرق کے لباس میں ملبوس ہوں گی پھر وہ اس کے کندھوں کے درمیان اپنا ہا تھ رکھے گا تو اس کے سینے کی طرف سے کپڑوں ، جلد اور گوشت کے پیچھے سے اپنا ہاتھ دیکھ لے گا اور اس کی پنڈلی کا گودا اس طرح دیکھے گا جیسے تم میں سے کوئی یاقوت کے سوراخ میں دھاگا دیکھتا ہے، اِس کا سینہ اُس کے لئے اور اُس کا سینہ اِس کے لئے آئینہ ہو گا، وہ اس کے پاس ہی رہے گا نہ یہ اُس سے اُکتائے گا اور نہ وہ اِس سے اُکتائے گی، جب بھی جماع کی خاطر اس کے پاس آئے گا تو اسے کنواری ہی پائے گا، اس میل ملاپ میں دونوں کو کوئی کمزوری بھی نہ آئے گی، وہ اسی حالت میں ہو گا کہ اسے آواز آئے گی: ''ہم جانتے تھے کہ نہ تو تم اکتاؤ گے نہ وہ اکتائے گی مگر یہ کہ یہاں مرد و عورت کی منی نہیں ، ہاں ! اس کے علاوہ بھی تمہاری بیویاں ہیں۔ '' پھر وہ نکلے گا اور یکے بعد دیگرے ایک دوسری کے پاس جائے گا، جب بھی وہ کسی ایک کے پاس جائے گا تو وہ عرض کرے گی: ''خدا پاک کی قسم! جنت میں تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی چیز نہیں یا مجھے جنت میں تم سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں۔ ''
27.  سو حوروں اور چار ہزار کنواریوں سے نکاح:
اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جنت میں ہر شخص کا 4 ہزار باکرہ (یعنی کنواریوں ) 8 ہزار ثیبہ(یعنی شادی شدہ) عورتوں اور100 حوروں سے نکاح کیا جائے گا اور وہ سب ہر7 دن میں جمع ہوا کریں گے اور وہ حوریں اتنی اچھی آواز میں نغمے گائیں گی کہ جس کی مثل مخلوق نے کوئی آواز نہ سنی ہو گی(وہ کہیں گی) ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں کبھی ہلاک نہ ہوں گی ، ہم نعمت والیاں ہیں کبھی تکلیف نہیں اٹھائیں گی، ہم راضی رہنے والیاں ہیں کبھی ناراض نہیں ہوں گی ، ہم قیام کرنے والیاں ہیں کبھی کوچ نہ کریں گی، ان کے لئے مبارک ہو جو ہمارے لئے اور جن کے لئے ہم ہیں۔ ''
28.  ریشم اور کھدر:
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ سے عرض کی ''یا رسول اللہؐ! دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟ حضورؐ نے فرمایا ''دنیا کی عورتوں کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ریشم کو کھدر پر، اس لئے کہ ان پاکیزہ عورتوں نے دنیا میں نیک اعمال کئے، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، عبادتیں کیں''۔ (طبرانی)
29.  سو آدمیوں کی طاقت :
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے پاس یہودی آئے اور پوچھا:اے ابا القاسم آپ کا یہ گمان ہے کہ جنت میں لوگ کھائیں اور پئیں گے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نعَم ؛ والَّذي نَفسُ مُحمَّدٍ بيدِه ، إنَّ أحدَهم ليُعْطَى قوَّةَ مئةِ رجُلٍ ؛ في الأكلِ والشُّربِ والجِماعِ
ترجمہ :ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے جنتی مردوں میں سے ہر ایک کو کھانے پینے اور ہم بستری کرنے میں ایک سو آدمیوں کے برابر قوت دی جائے گی۔
30.  جنتی کا جوش مردانہ:
 حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم جنت میں جماع بھی کریں گے ؟ توآپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ہاں !قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے خوب جوش سے صحبت کریں گے ، جب کھڑے ہوں گے تو وہ (حور آپ خود) پاک اور باکرہ ہوجائے گی۔ 
31.  حور عین کا مہر:
حدیث پاک میں ہے کہ مسجدیں بناؤ اور ان میں سے گرد و غبار نکال دیا کرو کہ جو اللہ پاک کی رضا کیلئے مسجد بنائے گا اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ '' ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا مسجدیں گزر گاہوں پر بنائی جائیں ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ! اور ان میں سے گرد و غبار صاف کرنا حُور عین کا مہر ہے۔
حضرت ابو قرصافہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''مسجدیں تعمیر کرو اور ان سے کوڑا کرکٹ نکالو، پس جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا اور اس سے کوڑا کرکٹ نکالنا حُور عِین کے مہر ہیں۔
32.  اپنے رب سے ڈرنے والے کا انعام:
حضرتِ عاصم بن ضَمَرَہ رضی اللہ عنہ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت کرتے ہیں جس میں ہے کہ اپنے رب سے ڈرنے والے جنتی کو جب جنت میں لے جایا جائے گا تو ان کا استقبال کیا جائے گا۔
 راوی فرماتے ہیں کہ'' پھر کچھ بچے ان سے ملیں گے اور انہیں اسطر ح گھیرلیں گے جیسے کسی غائب اور محبو ب شخص کی آمد پر دنیا والے اسے گھیر لیتے ہیں پھر اس سے کہیں گے کہ اللہ عزوجل نے تیرے لیے جو کرامت تیا رکی ہے اس کی خوشخبری سن لے۔ پھر ان بچوں میں سے ایک لڑکا اس کی حُور عین میں سے کسی بیوی کے پاس جائے گا اور ا سے اس کا دنیوی نام لے کر بتائے گا کہ فلاں شخص آگیاہے۔ تو وہ پوچھے گی ، ''کیا تو نے اسے دیکھا ہے؟ '' وہ کہے گا، ''ہاں! میں نے دیکھا ہے، وہ میرے پیچھے ہی آرہاہے۔ '' تو وہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی ہونے تک اپنی خوشی ظاہر نہیں کرے گی۔ جب وہ شخص اپنی منزل پر پہنچ جائے گا تو دیکھے گا کہ اس کی عمارت کی بنیاد کس چیز پر رکھی گئی ہے تو دیکھے گا کہ موتی کی ایک چٹا ن ہے جس پر سبز زمرد اور سر خ رنگ کامحل ہے۔ پھر نگاہ اٹھاکر اس کی چھت دیکھے گا تو وہ بجلی کی طر ح چمکدار ہوگی اگر اللہ عزوجل اسے محفوظ نہ رکھتا تو اسے اپنی بینائی چلے جانے کا غم لاحق ہوجاتا۔ پھر وہ نظر جھکا کر اپنی بیویوں، وہاں رکھے ہوئے جاموں اور ترتیب سے بچھے قالینوں کی طرف دیکھے گا تو وہ جنتی ان نعمتوں کی طرف دیکھیں گے پھر تکیہ لگاکربیٹھ جائیں گے اور کہیں گے کہ
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَىٰنَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَىٰنَا اللَّهُ
ترجمہ کنز الایمان : سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی اور ہم راہ نہ پاتے اگر اللہ نہ دکھاتا۔
33.  یہ تیرے پاس مہمان ہے:
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَ الٰہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جب بھی کوئی عورت اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے تو حُور عین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے: ''اللہ پاک تجھے ہلاک کرے، اسے تکلیف نہ دے، یہ تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آ جائے گا۔ ''
34.  حور کے ساتھ رات گزاریں:
مُصْطفٰے جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو کم کھانا کھا کر نماز پڑھتے ہوئے رات گزارتا ہے تو صبح تک اس کے گرد حُور رات گزارتی ہے۔ "
35.  جس حُور سے چاہو نکاح کرو:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسولِ اکرم، شاہ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص میں ایمان کے ساتھ ساتھ تین باتیں پائی جائیں وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو اور جس حُور سے چاہے نکاح کرے:
1- جو پوشیدہ قرض ادا کرے۔
2- جو ہر نماز کے بعد 10مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے اور
3- جو اپنے قاتل کو معاف کردے۔
 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کوئی ایک پر عمل کرے تو؟ فرمایا: ایک پر عمل کرنے والا بھی۔
36.  جیسے یاقوت و مرجان:
حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ:
کَاَنَّـہُنَّ الْیَاقُوۡتُ وَ الْمَرْجَانُ
ترجمۂ کنز الایمان: گویا وہ لعل اور مونگا ہیں۔
کی تفسیر میں صادق و مصدوق آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اس حُور کے چہرے کو اس کی چادر کے باہر سے دیکھے گا تو وہ شیشے سے بھی زیادہ صاف ہوگا اور اس کے اوپر کا ادنیٰ موتی بھی مشرق و مغرب کے درمیان کی ہر شے کو روشن کردے گا، اس کے اوپر ستّر کپڑے تو ہوں گے لیکن نگاہ ان سے پار ہوجائے گی حتیٰ کہ ان کے اوپر سے اس کی پنڈلی کا مغز نظر آئے گا۔
37.  سرخ شراب:
 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حُور عین کی پنڈلی کا مغز (لباس کے) ستّر جوڑوں کے نیچے گوشت اور ہڈی کے پیچھے سے اس طرح نظر آتا ہے جس طرح شیشے کی صراحی میں سرخ شراب نظر آتی ہے۔
38.  حُور گلے لگ کر استقبال کرے گی:
 حضرتِ اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے شہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ جبرئیل امین علیہ السلام نے مجھے خبر دی کہ جب کوئی آدمی کسی حُور کے پاس جائے گا تو وہ معانقہ اورمصافحہ سے اس کا استقبال کرے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ'' پھر تم اس کی جن انگلیوں سے چاہوپکڑواگراس کی انگلی کا ایک پورا دنیا پر ظاہر ہوجائے تو اس کے سامنے سورج اورچاند کی روشنی ماند پڑجائے اوراگراس کے بالوں کی ایک لٹ ظاہر ہوجائے تو مشرق ومغرب کی ہر چیز اس کی پاکیزہ خوشبو سے بھر جائے۔ جنتی شخص اپنی مسہری پر بیٹھا ہوگا کہ اچانک اس کے سر پرایک نور ظاہر ہوگا ۔وہ گمان کریگا کہ شاید اللہ عزوجل اپنی مخلوق پرنظرِ کرم فرمارہا ہے۔ جب وہ اس نور کو دیکھے گا تووہ ایک حُور ہوگی جو ندا دے رہی ہوگی کہ''اے اللہ عزوجل کے ولی ! کیا تمہارے پاس ہمارے لیے وقت نہیں ہے ؟ '' وہ پوچھے گا، '' تم کون ہو؟ '' وہ کہے گی، '' میں ان حوروں میں سے ہوں جن کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے، '' وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ : اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔ پھر وہ اس کی طرف رخ کرے گا تو دیکھے گا اس کے پاس جو جمال اور کمال ہے وہ پہلے والی حوروں میں نہیں۔
 پھر جب وہ اس حُور کے ساتھ اپنی مسہری پر بیٹھا ہوگاتواسے ایک اورحُور پکارے گی، '' اے اللہ عزوجل کے ولی ! کیا تمہارے پاس ہمارے لیے وقت نہیں ؟ '' وہ پوچھے گا ، ''اے ! تم کون ہو؟ '' وہ کہے گی کہ'' میں ان حوروں میں سے ہوں جن کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے ،
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ کنز الایمان : تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لئے چھپارکھی ہے صلہ ان کے کاموں کا۔
39.  گانے والی حُور عین
سرکارِ والا تَبار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پاک میں ہے کہ
 اللہ عزوجل جنتیوں کے لئے گانے والی حُور عین بھیجے گااور پھر وہ حُور آگے بڑھ کر ان کو ایسی خوش کن آواز میں حق تبارک و تعالیٰ کی حمد سنائے گی کہ اس سے اچھی آوازکسی سننے والے نے کبھی نہ سنی ہو گی۔
 اور اس میدان میں ایسے درخت ہوں گے جن کی ہر ٹہنی میں نوے(90) قسم کے ساز ہوں گے۔ ملائکہ ان درختوں کو اس حُور کے سامنے کردیں گے اور اللہ عزوجل اس حُور سے فرمائے گا: ''میرے ان بندوں کو(میری حمدوثناء کے نغمے ) سناؤ جنہوں نے دنیامیں میری خاطرگانوں(اور باجوں) سے اپنے کانوں کوبچائے رکھااور دنیامیں میرے کلام اور میرے پیارے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کوسن کر خوش ہوتے تھے ، تو آج ان کے لئے میرے ہاں خوشی اور عزت ہے۔ ''
 پھر حُور عین حق تبارک وتعالیٰ کی تسبیح ، اس کی حمد، بزرگی اور وحدانیت کے نغمے گائے گی اور عرش کے نیچے سے ان سازوں پر ایسی ہوا چلے گی کہ سب لوگ حق تعالیٰ کی ملاقات کی خوشی ومسرت میں جھوم اٹھیں گے اور وجد میں آجائیں گے۔
اور ہر ولی کے لئے ستّر حُور عین اور خدمت گار باندیاں ہوں گی، ہر حُور پر ستّر حلّے ہوں گے۔ ایسا لگے گا کہ عنقریب ان کا نور آنکھوں کو اچک لے گا اور ستّر ہزار اقسام کے زیورات ہوں گے جو موتیوں اور جواہرات سے جڑے ہوئے ہوں گے اللہ عزوجل کا ولی ان میں سے جس سے چاہے گا نفع اٹھائے گا۔ ''
40.  دلہن حُور کے سینے پر نام:
تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک فرمانِ عالیشان میں یہ بھی ہے کہ : ''جب جنت میں صبح ہو گی تو ایک فرشتہ محل کا دروازہ کھٹکھٹائے گا، خادم پوچھے گا: ''کون ہے ؟ '' اللہ عزوجل کی طرف سے آنے والا فرشتہ کہے گا: ''تمہارے سردار مرد یا عورت کے لئے نمازِ صبح کے بدلے ہدیہ لایا ہوں۔ ''
پھر اللہ عزوجل حُور عین سے فرمائے گا: ''میرے بندوں کو خوشی کے نغمے سناؤ کیونکہ یہ میری رضا کے لئے دنیا میں گانوں کی آواز سے اپنے کانوں کو بچاتے تھے، میرے ذکر اور میرے کلام کو سن کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے ، تو تم ان کو اپنی آواز میں میری حمد و ثناء سناؤ۔ '' تو حُور عین گائیں گی اور ساز بھی ان کے ہم آواز ہوکر بجتے ہوں گے سب لوگ الله عزوجل کی بارگاہ میں اسے سن کر خوشی سے مست و بے خود ہو جائیں گے۔
 اورحضرت رضوان علیہ السلام تشریف لاکر اولیاء کرام کو تنہائی مہیا کريں گے، ان میں سے ہر ولی کے لئے ایک خیمہ اور دلہن ہوگی جس کے جسم پر حُلَّے اورزیور ہوں گے۔ وہ ولی سے کہے گی: ''اے اللہ عزوجل کے ولی! مجھے کافی عرصے سے آپ کی ملاقات کا شوق تھا تمام خوبیاں اس اللہ عزوجل کے لئے ہیں جس نے ہم دونوں کو ایک جگہ اکٹھا فرمایا۔
توبندهٔ مؤمن کہے گا : '' اے الله عزوجل کی بندی! تو مجھے کیسے جانتی ہے حالانکہ آج سے پہلے تونے مجھے کبھی نہيں دیکھا ؟ ''
وہ دلہن کہے گی: '' الله عزوجل نے مجھے آپ کے لئے پیدا فرمایا اورآپ کا نام ميرے سينے پر لکھا اوریہ منازل پیدا فرما کر ان کے دروازوں پرآپ کا نام لکھ دیا اوریہ تمام حُور وغلماں بھی آپ کے لئے پیدا کئے ہيں اور ان کے رخساروں پرآپ کانام اس خوبصورتی سے لکھ دیاہے کہ وہ نام چہرے پر تِل سے زیادہ خوبصورت لگتاہے اوریہ سب اس وقت ہواجب آپ دنیامیں اللہ عزوجل کی عبادت کرتے، نمازپڑھتے اورطویل دن میں روزہ رکھتے تھے تواللہ عزوجل حضرتِ رضوان کو حکم فرماتا کہ'' وہ ہمیں اپنے پروں پر اٹھا کر لے جائے تاکہ ہم آپ کادیدار کریں اور آپ کے افعالِ حسنہ دیکھیں۔ ''توہم سے حضرت رضوان علیہ السلام فرماتے : '' یہ تمہاراسردار ہے اس وقت ہم نے آپ کودیکھا اورپہچان لیااورجب کبھی ہمیں آپ کے دیدار کاشوق ہوتاتوہم محلات کے دروازوں سے نکل کرحضرت رضوان سے کہتیں : ''اللہ عزوجل کی قسم ! ہم اپنے محلات میں اس وقت تک داخل نہیں ہوں گی جب تک اپنے سرداروں کادیدار نہ کرلیں تو حضرت رضوان علیہ السلام ہمیں (آسمانِ) دنیا کی طرف لے جاتے اورہر حُور اپنے سردار کودیکھ لیتی لیکن اُسے (یعنی سردار کو) اِس دیکھنے کاعلم تک نہ ہوتاتھا۔ ''
 اگر وہ حوراپنے سردار کورات کی تاریکی میں نماز پڑھتادیکھتی تو خوش ہوکر کہتی : '' اطاعت کئے جاؤتاکہ تمہاری خدمت ہواورکھیتی اُگائے جاؤتاکہ کاٹ سکو۔ اے میرے سردار! اللہ عزوجل آپ کے درجات کوبلند فرمائے اور آپ کی اطاعت کوقبول فرمائے خداعزوجل کی اطاعت میں فناء ہونے کے بعد اورطویل عمر گزارنے کے بعد اللہ عزوجل مجھے اورآپ کوملادے گا اورمیں آپ سے ملنے کے شوق میں آس لگائے بیٹھی ہوں۔ ''پھرہم جنت میں اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاتی تھیں اورآپ ا س معاملے سے بے خبر دنیاہی میں ہوتے تھے۔ ''اور دنیامیں کوئی بھی مؤمن ایسانہیں جس کے لئے جنت میں خدّام اورحُور وغلماں نہ ہوں جواسے دیکھتے ہیں اوروہ ان سے بے خبر ہوتاہے اورجب وہ اس کوعبادت میں دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اورغافل دیکھ کر غمگین ہوتے ہیں۔
41.  سمندر شہد سے زیادہ میٹھے ہو جائیں:
 حضرتِ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں '' اگر جنتی عورتوں میں سے کوئی عورت سات سمندروں میں اپنا تھوک ڈال دے تو وہ سارے سمندر شہد سے زیادہ میٹھے ہو جائیں۔''
42.  جنت کی عورت:
اگر کوئی حُور سمندر میں تھوک دے تو اُس کے تھوک کی شیرینی(مٹھاس) کی وجہ سے سمندر شیریں(میٹھا) ہو جائے اور ایک روایت ہے کہ اگر جنَّت کی عورت سات سمندروں میں تھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں (یعنی میٹھے) ہو جائیں*
43.  نرم و نازک حوریں :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا '' جنتی اپنی مجلس میں ہوں گے کہ ان کے لیے جنت کے دروازے پر ایک نور ظاہر ہوگا۔ وہ اپنا سرا ٹھائیں گے تو کیا دیکھیں گے کہ ان کا رب پاک جلوہ فرما ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ''اے جنتیو! مجھ سے مانگو۔ وہ عرض کریں گے: ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ توہم سے راضی ہو جا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ''میری رضا نے ہی تو تمہیں میرے اس گھر میں اتارا ہے اور تمہیں یہ عزت دی ہے، تو تم مجھ سے (کچھ اور) مانگو۔ جنتی عرض کریں گے: ہم تجھ سے مزید نعمتوں کا سوال کرتے ہیں۔ تو انہیں سرخ یاقوت کے گھوڑے عطا کیے جائیں گے جن کی لگامیں سبز زَبَرْجَد اور سرخ یاقوت کی ہوں گی، وہ جنتی ان پر سوار ہوں گے اور وہ گھوڑے اپنے قدم حد نگاہ پر رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ درختوں کو حکم دے گا تو ان پر پھل آ جائیں گے ۔
اور جنتیوں کے پاس حُور عِین آئیں گی، جو کہیں گی: ہم نرم و نازک ہیں اور ہم سخت نہیں ہیں ، ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں ہم پر موت نہیں آتی اور معزز لوگوں کی بیویاں ہیں۔ "
44.  موتی کا خیمہ:
 حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''مؤمن کے لئے جنت میں ایک کھوکْھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی لمبائی 60میل ہو گی، مؤمن کے ا ہل خانہ بھی اس میں رہیں گے ، مؤمن ان کے پاس (حقِ زوجیت ادا کرنے کے لئے) چکر لگائے گا اور ان میں سے بعض بعض کو نہیں دیکھ سکیں گے۔
45.  حور یہ کہتی ہے:
لَا تُوْذِیْہِ قَاتَلَکِ اللہُ فَاِنَّمَا ہُوَ عِنْدَکِ دَخِیْلٌ یُوْشِکُ اَنْ یُّفَارِقَکِ اِلَیْنَا۔
مشکاۃ شریف میں روایت ہے حضرت معاذ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا نہیں ستاتی کوئی عورت اپنے خاوند کو دنیا میں مگر اس کی حُور عین بیوی کہتی ہے کہ خدا تجھے غارت کرے اسے نہ ستا کیونکہ یہ تیرے پاس مہمان ہے بہت قریب تجھے چھوڑ کر ہماری طرف آئے گا۔
فقہی مسائل  کیلئے یہ حدیث پاک نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوتے ہیں:
 ایک یہ کہ حوریں نورانی ہونے کی وجہ سے جنت میں زمین کے واقعات دیکھتی ہیں، دیکھو یہ لڑائی ہو رہی ہے کسی گھر کی بند کوٹھڑی میں اور حُور دیکھ رہی ہے، یہاں مرقات نے فرمایا کہ ملاء اعلیٰ دنیا والوں کے ایک ایک عمل پر خبردار ہیں۔
 دوسرے یہ کہ حوروں کو لوگوں کے انجام کی خبر ہے کہ فلاں مؤمن متقی مرے گا۔
 تیسرے یہ ہے کہ حوروں کو لوگوں کے مقام کی خبر ہے کہ بعد قیامت یہ جنت کے فلاں درجہ میں رہے گا۔
چوتھے یہ کہ حوریں آج بھی اپنے خاوند انسانوں کو جانتی پہچانتی ہیں۔
پانچواں  یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جنت کے حالات حوروں کے کلام سے خبردار ہیں جب ہی حُور کا یہ کلام نقل فرما رہے ہیں۔ وہ ہے حور، حضور ہیں نور، صلی اللہ علیہ و سلم ہر حُور، دنیا کے ہر گھر کے ہر حال سے خبردار ہے مگر یہ کلام وہ ہی حُور کرتی ہے جس کا زوج اس گھر میں ہو۔
جب حُور دوسری زبان سمجھ سکتی ہے تو اولیاء کے سر دار سرکارِ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ وفات کے بعد دوسری زبانیں کیوں نہیں سمجھ سکتے؟ بالکل سمجھ سکتے ہیں۔ جسے علم لدنّی حاصل ہو وہ ساری آسمانی کتابوں کا حافظ ہوتا ہے اور عبرانی اور سریانی زبانوں کا علم اسے حاصل ہوتا ہے۔
یہاں صاحب مرقات حضرتِ مُلّا علی قاری رحمۃ اللہِ علیہ نے فرمایا کہ مَلاءِ اعلیٰ دنیا والوں کے ایک ایک عمل پر خبر دار ہیں۔ دوسرے یہ کہ حوروں کو لوگوں کے انجام کی خبر ہے کہ فُلاں مؤمن متقی مرے گا۔ جبھی تو کہتی ہے: عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آئے گا تیسرے یہ کہ حوروں کو لوگوں کے مقام کی خبر کہ بعد قیامت یہ جنّت کے فُلاں درجے میں رہے گا۔
چھٹا یہ کہ آج بھی حوروں کو ہمارے دکھ سے دکھ پہنچتا ہے ہمارے مخالف سے ناراض ہوتی ہیں۔ جب حوروں کے علم کا یہ حال ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم جو تمام خلق سے بڑے عالم ہیں ان کے علم کا کیا پوچھنا، آج لوگ حضور کو حاضر ناظر ماننا شرک کہتے ہیں، یہاں سے معلوم ہوا کہ حُور حاضر ناظر ہے۔
46.  حاضر و ناظر کا مسئلہ:
اہل سنت و جماعت ہمیشہ سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر مانتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں میں ہی ایک جدید طبقہ ایسا ہے جو اپنے مذموم مقاصد کیلئے اس بات کو توڑ مروڑ کر عوام میں پیش کرتا ہے اور اسے شرک ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بیشک یہ انتہائی درجے کی جہالت اور پرلے درجے کی کم ظرفی ہے۔ یہ جاہل طبقہ اسلاف کے عقائد کو سمجھے اور تحقیق کئے بنا ان کا انکار کرتا ہے۔ اس رسالے میں اس تفصیل کی زیادہ گنجائش نہیں، لیکن یہاں چند باتیں عرض کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، امید ہے کہ قبولیت کے کان اسے پسند فرمائیں گے۔
حاضر و ناظر کا مطلب ہر جگہ موجود ہونا نہیں۔ ہر جگہ موجود ہونا خدائے وحدہ لا شریک کی صفت ہے۔ اور جس نے ایک اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو ہر جگہ موجود مانا اس نے بلا شبہ شرک کیا۔ یہ اسلاف پر الزام ہے کہ وہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ موجود مانتے تھے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ہمارے اسلاف سب کے سب مشرک تھے۔ معاذ اللہ! اللہ اپنے کرم سے ہمیں ایسی بری سوچ سے محفوظ فرمائے۔ جو ایسا گھٹیا الزام ہمارے اسلاف پر لگائے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانے کی پوری کوشش میں ہے۔ اس الزام کی بروز قیامت بڑی سخت پکڑ ہو گی۔
حاضر و ناظر کا مطلب امت کے احوال سے واقفیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے احوال سے واقف ہیں۔ اور کیوں واقف نہ ہوں؟ ہمیں کوئی سختی اور مشقت پہنچتی ہے تو ہمارے شفیق آقا پر گراں گزرتا ہے۔ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ ہمارے احوال سے پوری طرح واقف ہیں بلکہ آپ جس کی چاہتے ہیں فریاد رسی فرماتے ہیں۔ یہ ہے حاضر و ناظر کا اصلی مفہوم۔ باقی آگے ان کی مرضی ہے جہاں چاہیں آئیں، جائیں۔ آخر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے پروردگار کے محبوب ہیں، ساری کائنات  میں آپ جیسا دوسرا اور کون ہے؟ کسی کو اپنی محفل میں سرکار کی موجودگی کا بطور کشف یقین ہوجائے تو اس پر کون سا فتوی لگاؤ گے؟
آقا یہاں موجود ہیں، ایمان ہے میرا
سب یا رسول اللہ کا نعرہ لگائیے!!!!!
کتنا خوبصورت شعر ہے۔ جاہل طبقے نے اس پر بھی شرک کا فتوی لگا دیا۔ یہ سوچے بنا کہ اس میں شاعر نے "یہاں" کا لفظ استعمال کیا ہے، ہر جگہ کا نہیں۔


باب سوم
حوروں کا تذکرہ
بزرگان دین سے بھی حوروں کا تذکرہ ثابت ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ حور اللہ کے انعامات میں سے ایک انعام ہے۔ بلکہ مجسم انعام ہے اور انعامات جنت کا خلاصہ ہے۔ اس لئے احادیث مبارکہ میں حوروں کے تذکرے کے بعد بہتر ہے کہ بزرگان دین کے اقوال بھی اس رسالے میں بیان کئے جائیں۔
01.  حور عین اِلَّامَنْ شَآءَ اللہُ میں داخل ہیں:
جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوقات بے ہوش ہوجائیں گی لیکن اس دن بھی مخلوقات میں سے کچھ ایسی بھی ہوں گی جو بیہوش نہیں ہوں گی۔ حور عین انہی میں سے ایک تخلیق ہے۔
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَٰوَٰتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ
ترجمۂ کنز الایمان : اور صور پھونکا جائے گا ، تو بے ہوش ہو جائیں گے ، جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں، مگر جسے اللہ چاہے ، پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گاجبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔
 ''اِلَّامَنْ شَآءَ اللہ" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک جنہیں چاہے گا انہیں گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ اوریہ کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ چنانچہ، ایک قول یہ ہے کہ وہ شہداء ہیں۔ بعض کے نزدیک ان سے مراد جبرائیل ، میکائیل وعزرائیل اور اسرافیل علیہم السلام ہیں۔ اور بعض نے کہا: '' وہ عرش اٹھانے والے فرشتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ تمام فرشتے مرادہیں، جبکہ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے حُور عِین مرادہیں۔
02.  حوریں اور میلاد شریف :
 حضرت سیِّدَتُناآمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں: '' جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے شکم میں تشریف فرما رہے میں نے کبھی درد والم، بوجھ یا پیٹ میں مروڑ محسوس نہ کیا۔ حمل ٹھہرنے کے کامل نو ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہو گئی۔ اچانک میں نے دیکھا کہ میری غم گُسار بہن فرعون کی بیوی حضرت سیِّدَتُناآسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لے آئیں۔ پھر میں نے ایک نور دیکھا جس سے سارا مکان روشن ہو گیا۔ یہ حضرت سیِّدَتُنامریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ پھر میں نے چودہویں کے چاند جیسے چمکتے دمکتے چہرے دیکھے، یہ حوروں کا قافلہ تھا۔ جب دردِ زِہ کی تکلیف زیادہ ہوئی تو میں نے ان خواتین سے ٹیک لگا لی۔ پھر عالم ُ الغیب و الشہادہ پاک نے مجھ پرولادت آسان فرما دی اورمیرے بطن سے حبیب ِ خدا پاک وصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔
مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناف مبارک کاٹنا چاہی تو دیکھا کہ وہ پہلے سے کٹی ہوئی تھی اور اس سے اضافی حصہ زائل ہو چکا تھا۔ پھر حُور عِین یعنی بڑی بڑی آنکھوں والی حُور نے حبیب ِ خداپاک و صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف خوشبوئیں لگائیں۔
03.  حوروں کی گفتگو:
جنت میں بعض حوریں وہ بھی ہوں گی جنہیں ان کے سرداروں سے عارضی طور پر روکا جائے گا۔ اور ان کو ان کے سرداروں سے روکے جانے کاسبب ان حوروں کااُن کے تمام احوال کی اطلاع پاناہے ، چنانچہ ایک حُور دوسری سے کہتی ہے : ''تم نے اپنے سردار کوکیا عمل کرتے ہوئے پایا؟ ''جواب میں دوسری کہتی ہے : ''میں نے ان کو نماز اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرتے ہوئے پایا۔ ''تو پہلی کہتی ہے: ''میں نے تو اپنے سردار کونیندکے عالم میں پایا۔ ''اس پر دوسری کہتی ہے: ''میراسردار تو کثرت سے مجاہدے کرتاہے اورتیراسردار تو اِنتہائی غفلت میں ہے قریب ہے کہ تم بھی میرے سردار کی میراث بن جاؤ گی۔ ''
توپہلی کہتی ہے : ''اللہ عزوجل نہ کرے کہ میرا آقا مجھ سے جداہو، اللہ عزوجل میرے اور اس کے درمیان کبھی جدائی نہ ڈالے گااورنہ اس کو محروم کریگا۔ ''
04.  جنتیوں کا پہلا گروہ:
بہار شریعت میں درج ہے کہ پہلا گروہ جو جنت میں جائے گا، اُن کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں رات کا چاند اور دوسرا گروہ جیسے کوئی نہایت روشن ستارہ، جنتی سب ایک دل ہوں گے، ان کے آپس میں کوئی اختلاف و بغض نہ ہوگا، ان میں ہر ایک کو حُور عِین میں کم سے کم دو بیبیاں ایسی ملیں گی کہ ستّر ستّر جوڑے پہنے ہوں گی، پھر بھی ان لباسوں اور گوشت کے باہر سے ان کی پنڈلیوں کا مغز دکھائی دے گا، جیسے سفید شیشے میں شرابِ سُرخ دکھائی دیتی ہے
 آدمی اپنے چہرے کو اس حُور کے رخسار میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف دیکھے گا اور ایک روایت میں ہے کہ مرد اپنا ہاتھ اس کے شانوں کے درمیان رکھے گا تو سینہ کی طرف سے کپڑے اور جلد اور گوشت کے باہر سے دکھائی دے گا۔
 مرد جب اس کے پاس جائے گا اسے ہر بار کنواری پائے گا، مگر اس کی وجہ سے مرد و عورت کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔
اگر کوئی حُور سمندر میں تھوک دے تو اُس کے تھوک کی شیرینی کی وجہ سے سمندر شیریں ہوجائے۔ اور ایک روایت ہے کہ اگر جنت کی عورت سات سمندروں میں تھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں ہو جائیں۔
 جب کوئی بندہ جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پائنتی دو حوریں نہایت اچھی آواز سے گائیں گی، مگر اُن کا گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ اﷲ عزوجل کی حمد و پاکی ہوگا، وہ ایسی خوش گُلو ہوں گی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سنی ہو گی اور یہ بھی گائیں گی: کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں، کبھی نہ مریں گے، ہم چین والیاں ہیں، کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گے، ہم راضی ہیں ناراض نہ ہوں گے، مبارک باد اس کے لیے جو ہمارا اور ہم اس کے ہوں۔
05.  جامِ حورِ عین:
 حضرتِ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کاولی شہد کی نہر سے ٹیک لگائے بیٹھا ہو گا حُور عین اسے جام دے رہی ہو گی اور یہ دونوں نعمت وسرو رمیں ہوں گے، تو حُور عین کہے گی : ''اے اللہ عزوجل کے دو ست ! کیاتم جانتے ہو کہ اللہ عزوجل نے میرا نکاح تم سے کب کیا تھا ؟ '' وہ کہے گا: '' نہیں، میں نہیں جانتا۔ ''
تو وہ کہے گی : ''ایک دن سخت گرمی میں اللہ عزوجل نے تمہیں شدتِ پیاس کے عالم میں پایا تو فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتے ہوئے فرمایا : '' اے میرے فرشتو ! میرے اس بندے کی طرف دیکھوجس نے اپنی خواہشِ لذت ، بیوی اور کھانے پینے کو میرے انعامات میں رغبت کرتے ہوئے چھوڑرکھا ہے ، میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے اسے بخش دیا ہے۔ '' تو اسی دن اللہ عزوجل نے تمہاری مغفرت فرماکر مجھے تمہاری زوجیت میں دے دیا تھا۔
06.  خدایا! ہم کو اعلیٰ حُور عطا فرما :
 عورت کو بہترین متاع اس لئے فرمایا گیا کہ نیک بیوی مرد کو نیک بنا دیتی ہے، وہ اُخروی نعمتوں سے ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "رَبَّنَا اٰ تِنَا فِی الدُّنْیَاحَسَنَۃً" کی تفسیر میں فرمایا خدایا ہم کو دنیا میں نیک بیوی دے اور آخرت میں اعلیٰ حُور عطا فرما اور آگ'' یعنی خراب بیوی'' کے عذاب سے بچا۔ جیسے اچھی بیوی خدا کی رحمت ہے ایسی ہی بری بیوی خدا کا عذاب ہے۔
07.  دنیاوی حُور کی نام نہاد محبت:
ہمارے بہت سے بھائی راہ دین میں توبہ پر آمادہ ہونے اور بظاہر کوئی رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود توبہ سے محروم رہتے ہیں۔ اس کی بڑی اور خفیہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی دنیاوی حُور کی نام نہاد پاکیزہ محبت میں مبتلاء ہو چکے ہوتے ہیں ، لہذا! انہیں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ توبہ کرنے اور کسی شیخ کی بیعت کرنے کے بعد انہیں اپنی من پسند شے سے ہاتھ دھونے پڑیں گے ، چنانچہ وہ توبہ کی خواہش کے باوجود توبہ نہیں کر پاتے۔
08.  جھوٹی محبت سے کیسے بچیں؟
 اس قسم کی آزمائش میں مبتلاء بھائیوں کو چاہئے کہ وہ وقتی لذّت کی بجائے اس کے نقصانات مثلاً مال، وقت اور صحت کی بربادی ، خاندان کی بدنامی ، نیکیوں سے محرومی اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول کی ناراضگی وغیرہا پر نگاہ فرمائیں اور ایسے اعمال اختیار کریں جس سے دنیا میں بھی عافیت نصیب ہو اور آخرت میں کامیابی ملے۔ اس آفت سے چھٹکارے کے لئے اپنے ضمیر سے یہ سوال کریں کہ جو جذبات میں کسی کی بہن یا بیٹی کے بارے میں رکھتا ہوں ، اگر کوئی دوسرا میری بہن یا بیٹی کے بارے میں بھی ایسے خیالات رکھتا ہو تو کیا مجھے یہ گوارہ ہوگا؟
09.  حور کی تجلّی:
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے شاگردوں نے شدت خوف اور کثرت مجاہدہ میں دیکھا تو عرض کیا: اے شیخ! اگر آپ اس مجاہدہ کو کچھ کم کریں گے تبھی اپنی مراد کو پہنچ جائیں گے، آپ نے فرمایا کیونکر میں پوری کوشش نہ کروں میں نے سنا ہے کہ اہل جنت اپنی منزل میں ہوں گے کہ ان پر ایک بہت بڑا نور ظاہر ہوگا اور اس کی رونق اور شدت روشنی کی وجہ سے آٹھوں جنتیں روشن ہو جائیں گی اور اہل جنت سمجھیں گے کہ یہ نور اللہ کی جانب سے ہے اور سجدہ میں گر پڑیں گے اس وقت ایک منادی آواز دے گا کہ اپنے سر اٹھاؤ یہ وہ نور نہیں ہے جس کا تمھیں گمان ہوا، یہ ایک حور کے چہرہ سے نور چمکا ہے جو اپنے خاوند کے سامنے مسکرائی ہے اور اس کے مسکرا نے سے یہ نور ظاہر ہوا ہے۔
یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ حوروں کی طلب میں کسی قسم کی کوئی ملامت نہیں، یہ اللہ کا اپنے متقی بندے پر انعام ہے۔  اللہ کے انعام کو حاصل کرنے کیلئے خوب محنت اور اخلاص کے ساتھ عمل کریں اور کسی قسم کی سستی کو آڑے نہ آنے دیں۔ اللہ کا انعام، اللہ کا انعام ہے، اس کے خاص بندوں کو ہی ملتا ہے۔
10.  حُور کی توہین کفر ہے:
اکثر شاعری میں کہہ دیا جاتا ہے کہ
اِس حُور کا کیا کریں جو ہزاروں سال پرانی ہے
 معاذ اللہ پاک اس میں جنّتی حُور کی کھلی توہین ہے ، بلکہ جنّت یا جنّت کی کسی بھی نعمت کی توہین صریح کفر ہے۔
11.  بعض لوگ اور ان کی نیتیں:
بعض لوگ جہنم کے خوف کی وجہ سے عمل کرتے ہیں، بعض جنت کی امید پر، اگر چہ اس قسم کی نیتیں اس اعلیٰ درجے کی نِیّت کے مقابلے میں کم تر ہیں جو صرف اور صرف رب کریم عزوجل کی ذات اور اس کے جلال کی تعظیم کیلئے کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ نیتیں اچھی سمجھی جاتی ہیں کیونکہ ان نِیّتوں کا رخ اس بات کی طرف ہے جس کا آخرت میں وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ جنت کی نعمتوں کو حاصل کرنا اور جہنم کے عذاب سے بچنے کی نِیّت کرنے والا در اصل اپنے نفس کیلئے ہی عمل کرتا ہے اور نفس کی خواہشات میں سب سے بڑی خواہش پیٹ اور شرمگاہ کی ہوتی ہے اور جنت میں پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات کی تسکین کا سامان کیا گیا ہے۔
چنانچہ محض جنت کی خاطر عمل کرنے والا گویا کہ اپنے پیٹ اور شرمگاہ کی خاطر عمل کرتا ہے جیسا کہ ایک برا مزدور (یعنی وہ عمل کر کے اجرت کا مستحق تو ہو جاتا ہے خواہ اجرت سے اپنے نفس کی خواہشات کی تسکین کرنا چاہتا ہو) ایسے لوگوں کا درجہ سیدھے سادھے لوگوں کا درجہ ہے اور یہ اپنے عمل کی وجہ سے اپنا مقصود حاصل کر لیں گے کیونکہ اکثر جنتی سیدھے سادھے ہوں گے۔
لیکن عقل مند لوگوں کی عبادت اللہ تعالیٰ کے ذکرو فکر سے تجاوز نہیں کرتی وہ اس کے جلال اور جمال سے محبت کرتے یہ لوگ ان جنتیوں پر ہنسیں گے جو حوروں کے حسن و جمال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح حوروں کو دیکھ کر لطف اندوز ہونے والے ان لوگوں کو دیکھ کر ہنسیں گے جو مٹی سے بنی ہوئی صورتوں کو دیکھ لطف حاصل کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہنسیں گے کیونکہ اللہ رحمٰن و رحیم کے جمال اور حوروں کے جمال میں جو فرق ہے وہ اس سے کروڑوں درجے زیادہ ہے کہ جو فرق حوروں اور مٹی سے بنی ہوئی صورتوں کے درمیان ہے۔
12.  ایک کے بدلے دس :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت میں قحط پڑا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے فرمایا: تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی یہاں تک کہ اللہ پاک تمہیں اس قحط سے نجات دے گا۔ پھر جب اگلا دن ہوا تو ان کے پاس خوشخبری دینے والا آگیا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گندم اور سامان خوراک کے ایک ہزار اونٹ آر ہے ہیں۔ پھر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گندم اور دیگر کھانے کی چیزوں کے ایک ہزار اونٹ آئے تو اگلے روز تاجر لوگ آپ کے گھر پہنچ گئے اور ان کے دروازے پر دستک دی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر تشریف لائے اور ان سے پوچھا: تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے گندم اور دیگر اشیاء کے ایک ہزار اونٹ آئے ہیں، آپ وہ ہمیں فروخت کردیں تاکہ مدینہ منورہ کے ضرورت مندوں پر رزق کی وسعت ہوجائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: اندر آجاؤ۔ وہ لوگ اندر گئے تو ایک ہزار اونٹوں کا بوجھ گندم وغیرہ کی صورت میں آپ کے گھر میں پہنچ چکا تھا۔
آپ نے ان سے پوچھا: تم لوگ ملکِ شام کے نرخوں کے مطابق کیا نفع دو گے؟ انہوں نے کہا: دس روپے کے بارہ روپے دیں گے یعنی دس روپے پر دو روپے نفع، آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے اس سے زیادہ نفع مل رہا ہے۔ تاجروں نے کہا: دس روپے کے چودہ روپے لے لیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے زیادہ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا: دس کے پندرہ لے لیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس سے زیادہ نفع مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا: مدینہ کے تاجر توہم ہیں ، آپ کو کون زیادہ نفع دے رہا ہے؟ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: مجھے ایک روپے پر دس روپے منافع مل رہا ہے، تم اس سے زیادہ دو گے؟ انہوں نے کہا: ہم اتنا منافع نہیں دے سکتے۔
آپ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! اس بات پر گواہ ہو جاؤ کہ میں نے یہ تمام اشیاء خوردنی مدینے کے ضرورت مندوں کے لئے صدقہ کردی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: میں جب رات کو سویا تو خواب میں سید عالم، نور مجسم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی، آپ نے نور کی چادر پہن رکھی تھی ، مبارک ہاتھوں میں نور کی چھڑی اور پاؤں مبارک میں جو نعلین تھے ان کے تسمے بھی نورانی تھے۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ کی طرف میرا اشتیاق بڑھتا جاتا ہے۔ سرکار مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جلدی میں ہوں، عثمان نے ایک ہزار اونٹ کا بوجھ گندم وغیرہ صدقہ کیا ہے۔ اللہ پاک نے عثمان کا یہ عمل قبول فرما کر جنتی حُور سے ان کا نکاح فرمایا ہے۔
13.  زمین پر شہداء سے بلند مرتبہ مجاہدین
 حضرتِ ابو ذر غفاری رَضِیَ اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرتِ ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عنہ نے حضور صلَّی اللہ عَلَیْہِ وسلَّم سے دریافت کیا: مشرکین سے لڑنے کے علاوہ کوئی اور بھی جہاد ہے؟ حضور صلَّی اللہ عَلَیْہِ وسلَّم نے فرمایا: ہاں اے ابوبکر! اللہ کی زمین پر ایسے مجاہدین رہتے ہیں جو شہداء سے افضل ہیں ، زمین پر چلتے پھرتے ہیں ، رزق پاتے ہیں اللہ تَعَالٰی ملائکہ میں ان پر فخر کرتا ہے، ان کے لئے جنت سنواری جاتی ہے جیسے امِ سلمہ کو نبی صلَّی اللہ عَلَیْہِ وسلَّم کے لئے سنوارا گیا۔
صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہ عنہ نے پوچھا حضور وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ نیکی کا حکم کرنے والے، برائیوں سے روکنے والے، اللہ کے لئے دشمنی اور اللہ کے لئے محبت کرنے والے ہیں۔
پھر فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، ایسا شخص جنت میں تمام بالا خانوں سے اوپر، یہاں تک کہ شہداء کے بالا خانوں سے بھی اوپر ایک بالا خانے میں ہوگا۔ ہر بالا خانے کے تین دروازے ہوں گے، یاقوت اور سبز زمرد کے ، ہر دروازے پر روشنی ہو گی۔ تین سو پاکدامن حوروں سے ان کی شادی کی جائے گی، جب وہ کسی ایک حُور کی طرف متوجہ ہوگا، وہ کہے گی: تمہیں وہ دن یاد ہے جب تم نے نیکی کا حکم دیا تھا اور برائی سے روکا تھا؟ دوسری کہے گی : آپ کو وہ جگہ یاد ہے جہاں آپ نے نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کیا تھا؟
14.  و لدان گھیر لیں گے:
روایت ہے کہ جنت میں داخل ہوتے ہی انہیں ولدان گھیر لیں گے جیسے دنیا میں اپنے کسی دور سے آنے والے کسی عزیز بچے کو گھیر لیتے ہیں اور وہ اس سے کہیں گے تجھے خوشخبری ہو، اللہ تَعَالٰی نے تیرے لئے فلاں فلاں عزت و کرامت رکھی ہے، پھر ان ولدان میں سے ایک امرد اس جنتی کی بیویوں میں سے کسی بیوی کی طرف جو کہ جنت کی حُور ہو گی، جائے گا اور اسے کہے گا کہ فلاں آدمی جو دنیا میں فلاں نام سے بلایا جاتا تھا، آیا ہے۔ حُور کہے گی: تو نے اسے دیکھا ہے، وہ امرد کہے گا: ہاں ! میں اسے دیکھ کے آ رہا ہوں اور وہ بھی میرے عقب میں آ رہا ہے، تب وہ خوشی سے از رفتہ ہوکر دروازے کی دہلیز پر فرطِ اشتیاق سے کھڑی ہوجائے گی۔ جب وہ جنتی وہاں پہنچے گا اور اس گھر کی بنیادیں دیکھے گا جو موتیوں کی ہوں گی اور دیواریں سرخ، سبز اور پیلے ہر رنگ کے موتیوں سے بنی ہوئی ہوں گی، تب وہ چھت کو دیکھے گا، وہ بجلی کی طرح ایسی خیرہ کن ہو گی کہ اگر اللہ تَعَالٰی اسے قدرت نہ دیتا تو اس کی آنکھیں زائل ہو جاتیں ، پھر سر جھکا کر نیچے نظر کرے گا تو اسے حوریں قطار در قطار آبخورے لئے، صف باندھے تکیے اور سجی ہوئی مسندیں نظر آئیں گی اور وہ ان سے تکیہ لگا کر کہے گا:
 ''سب تعریفیں اللہ تَعَالٰی کے لیے ہیں جس نے ہمیں اس کی ہدایت کی اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ '
15.  ہر بستر پر حور :
جب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّم سے اس فرمانِ الٰہی:
وَمَسَٰكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّٰتِ عَدْنٍ
یعنی عدن کے باغ میں پاکیزہ رہنے کی جگہیں ہیں۔
کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا کہ وہ موتیوں کے محلّات ہوں گے، ہر محل میں سرخ یاقوت کے ستّر گھر ہوں گے، ہر گھر میں سبز زمرد کے ستّر مکان ہوں گے، ہر مکان میں ایک تخت ہوگا، ہر تخت پر قسم قسم کے ستّر بچھونے ہوں گے، ہر بچھونے پر اس کی بیوی حُور عین ہو گی، ہر مکان میں ستّر دستر خوان ہوں گے، ہر دسترخوان پر ستّر قسم کے کھانے ہوں گے، ہر مکان میں ستّر خادمائیں ہوں گی اور مومن ہر صبح ان تمام دستر خوانوں پر بیٹھ کر کھائیں گے۔ اور بندۂ مومن کو ہر صبح ان حوروں کے پاس جانے کی طاقت دی جائے گی۔
16.  بیوی کی ہم شکل حور:
بنی اسرائیل میں ایک نہایت ہی فاسق و فاجر انسان تھا جو اپنی بد کردار یوں سے کبھی باز نہ آتا تھا، اَہلِ شہر جب اس کی بد کاریوں سے عاجز آگئے تو اللہ تَعَالٰی سے اس کے شَر سے محفوظ رہنے کی دعا مانگنے لگے۔ اللہ تَعَالٰی نے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی کی کہ بنی اسرائیل کے فلاں شہر میں ایک بد کار جوان رہتا ہے اسے شہر سے نکال دیجئے تاکہ اس کی بد کاریوں کی وجہ سے سارے شہر پر آگ نہ برسے، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام وہاں تشریف لے گئے اور اسے اس کی بستی سے نکال دیا، وہ قریب ہی دوسری بستی میں چلا گیا۔ پھر فرمانِ الٰہی ہوا کہ اسے اس بستی سے بھی نکال دیجئے، جب حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کو اس بستی سے بھی نکال دیا تو اس نے ایک ایسے غار پر ٹھکانہ بنایا جہاں نہ کوئی انسان تھا اور نہ ہی کسی چرند پرند کا گزر تھا، قرب و جوار میں نہ کہیں آبادی تھی اور نہ دور دور تک سبزے کا کوئی پتہ تھا۔
اس غار میں آکر وہ جوان بیمار ہوگیا، اس کی تیمار داری کے لئے کوئی شخص بھی اس کے آس پاس موجود نہ تھا جو اس کی خدمت کرتا، وہ ضعف و ناتوانی سے زمین پر گر پڑا اور کہنے لگا کاش! اس وقت اگر میری ماں میرے پاس موجود ہوتی تو مجھ پر شفقت کرتی اور میری اس بے کسی اور بے بسی پر روتی، اگر میرا باپ ہوتا تو میری نگہبانی، نگہداشت اور مدد کرتا، اگر میری بیوی ہوتی تو میری جدائی پر روتی، اگر میرے بچے اس وقت موجود ہوتے تو کہتے، اے ہمارے رب، عاجز، گناہگار، بد کار اور مسافر باپ کو بخش دے جسے پہلے تو شہر بدر کیا گیا اور پھر دوسری بستی سے بھی نکال دیا گیا تھا اور اب وہ غار میں بھی ہر ایک چیز سے ناامید ہوکر دنیا سے آخرت کی طرف چلا ہے اور وہ میرے جنازہ کے پیچھے روتے ہوئے چلتے۔
پھر وہ نوجوان کہنے لگا: اے اللہ! تو نے مجھے والدین اور بیوی بچوں سے تو دُور کیا ہے مگر اپنے فضل و کرم سے دور نہ کرنا، تو نے میرا دل عزیزوں کی جدائی میں جلایا ہے، اب میرے سراپا کو میرے گناہوں کے سبب جہنم کی آگ میں نہ جلانا، اسی دم اللہ تَعَالٰی نے ایک فرشتہ اس کے باپ کے ہم شکل بنا کر، ایک حُور کو اس کی ماں اور ایک حُور کو اس کی بیوی کی ہم شکل بنا کر اور غلمانِ جنت کو اس کے بچوں کے رُوپ میں بھیج دیا، یہ سب اس کے قریب آکر بیٹھ گئے اور اس کی شدتِ تکلیف پر تاسف (افسوس) اور آہ و زاری کرنے لگے۔ جوان انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسی مسرت میں اس کا انتقال ہوگیا، تب اللہ تَعَالٰی نے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی کی کہ فلاں غار کی طرف جاؤ، وہاں ہمارا ایک دوست مرگیا ہے، تم اس کی تکفین و تدفین کا انتظام کرو۔
حکمِ الٰہی کے بموجب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام جب غار میں پہنچے تو انہوں نے وہاں اسی جوان کو مرا ہوا پایا جس کو انہوں نے پہلے شہر اور پھر بستی سے نکالا تھا، اس کے گرد حوریں تعزیت کرنے والوں کی طرح بیٹھی ہوئی تھیں۔ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے ربّ العزت! یہ تو وہی جوان ہے جسے میں نے تیرے حکم سے شہر اور بستی سے نکال دیا تھا۔ ربّ العزت نے فرمایا: اے موسیٰ! میں نے اس کے بہت زیادہ رونے اور عزیزوں کے فراق میں تڑپنے کی وجہ سے اس پر رحم کیا ہے اور فرشتہ کو اس کے باپ کی اور حُور و غلمان کو اس کی ماں ، بیوی اور بچوں کے ہم شکل بنا کر بھیجا ہے جو غربت میں اس کی تکلیفوں پر روتے ہیں ، جب یہ مرا تو اس کی بیچارگی پر زمین و آسمان والے روئے اور میں اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن پھر کیوں نہ اس کے گناہوں کو معاف کرتا۔
17.  آٹھوں جنتیں جگمگا اُٹھیں گی:
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہِ عَلَیْہِ کے ساتھیوں نے آپ کے خوف خدا، عبادت میں انتہائی کوشش اور خستہ حالی کو دیکھ کر عرض کی: استاد محترم! اللہ پاک نے چاہا تو آپ اس سے کم درجے کی کوشش کے ذریعہ بھی اپنی مراد پالیں گے۔
آپ نے جواب دیا: میں کوشش کیوں نہ کروں حالانکہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اہلِ جنت اپنی منازل و مکانات میں تشریف فرما ہوں گے کہ اچانک ان پر نور کی ایک تجلی پڑے گی جس سے آٹھوں جنتیں جگمگا اُٹھیں گی، جنتی گمان کریں گے یہ اللہ رب العزت کی ذات کا نور ہے تو سجدے میں گر پڑیں گے، انہیں ندا ہو گی: اپنے سر سجدے سے اُٹھا لو، یہ وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو، یہ تو جنتی عورت(حور) کی مسکراہٹ کا نور ہے جو اپنے شوہر کے لئے مسکرائی ہے۔
18.  حوریں سنگھار کرتی ہیں:
حضرتِ امام اَوزاعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرتِ یحییٰ بن ابو کثیر رحمۃ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ''دو اوقات میں جنت کو آراستہ کیا جاتا اور حوریں مُزَیَّن ہوتی ہیں: ایک نماز کا وقت اور دوسرا قتال(جہاد) کا، ان دو موقعوں سے لوٹنے والا اگر اللہ پاک سے حوروں اور جنت کا سوال نہیں کرتا تو حوریں بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتی ہیں: اس کا برا ہو نہ تو اس نے ہمیں مانگا اور نہ ہی جنت کا سوال کیا اور قتال (جہاد) کے وقت مجاہد کی جنتی بیوی(حور) اس سے کہتی ہے: آگے بڑھ! اور مجھے میری سہیلیوں کے سامنے رسوا نہ کر۔ ''
19.  دعا کرنے کا برا انداز:
حضرتِ محمد بن ولید رحمۃ اللہِ عَلَیْہ کا بیان ہے کہ حضرتِ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہِ عَلَیْہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو کنکر ہاتھ میں لئے کھیلتے ہوئے یہ دعا کر رہا تھا: اے اللہ پاک ! حُور عِین سے میرا نکاح کردے۔ آپ نے اس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: تمہارے دعا کرنے کا انداز کتنا برا ہے، تم کنکر پھینک کرا خلاص و للہیت کے ساتھ دعا کیوں نہیں کرتے۔
یعنی گویا کہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ اے طالب حور! حور کوئی مفت کا تماشہ نہیں ہے جو یوں کھیلتے ہوئے بے توجہی سے اللہ سے اسے مانگ رہا ہے۔ حور بندۂ مؤمن پر اللہ کا بڑا انعام ہے۔ جو حور کو مانگتا ہے گویا کہ اس نے اللہ پاک سے ساری نعمتیں ایک ساتھ مانگ لیں جیسے کہ نیکی کی زندگی، کلمے پر ایمان کے ساتھ موت، آگ سے نجات، جنت میں داخلہ وغیرہ۔ کیا یہ معمولی بات ہے؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر جب تو اللہ سے اتنے انعامات ایک ساتھ مانگ رہا ہے تو اللہ کی طرف توجہ تو دل سے کر اور اس کی بارگاہ میں عاجزی اور اخلاص تو لے کر آ کہ یہاں انہی چیزوں کی قدر ہے۔ حور کوئی مذاق نہیں ہے، اللہ کا انعام مجسم ہے بلکہ تمام انعامات کا مجموعہ ہے۔  یعنی تیرا دل تو کھیل میں لگا ہے اور حوروں سے نکاح کا طالب ہے۔ اگر واقعی تو حوروں سے نکاح کا طالب ہے تو اس کیلئے عبادت کر، نیکیاں کر، رات بھر جاگ، دن میں روزہ رکھ، کثرت سے نوافل ادا کر اور پھر ان نیکیوں کے بعد اللہ سے حوروں کو مانگ۔ کیونکہ اللہ غافل دل کی دعا قبول نہیں فرماتا۔
20.  تاریکی میں حور جھانک لے تو:
امیر المؤمنین حضرتِ عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک بار حضرتِ کعب الاحبار رحمۃ اللہِ عَلَیْہ سے فرمایا: ہمیں خوش کرو!
حضرتِ کعب الاحبار رحمۃ اللہِ عَلَیْہ نے کہا: خوش ہو جائیے! کیونکہ رضائے الٰہی کے حصول کی 314راہیں ہیں جو کلمہ شہادت کی گواہی کے ساتھ ان میں سے کسی بھی راہ کو اختیار کر لے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے جنت میں داخل فرمائے اور اگر تم اللہ پاک  کی تمام رحمتیں جان لو تو عمل کے معاملے میں سست ہو جاؤ گے۔
پھر فرمایا کہ بخدا! اگر کوئی جنتی عورت(حور) آسمانِ دنیا سے رات کی تاریکی میں جھانکے تو اس کی روشنی سے ساری زمین مُنَوَّر ہو جائے۔ خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! اگر جنتیوں کا کوئی لباس دنیا میں ظاہر کیا جائے تو جو اسے دیکھے بےہوش ہو جائے اور نگاہیں اسے دیکھنے کی تاب نہ لا سکیں۔
21.  مجھ سے شادی کر لو:
حضرت ازہر بن مغیث رحمۃ اللہ علیہ جو عابدوں میں سے تھے، فرماتے ہیں : میں نے خواب میں ایک عورت کو دیکھا جو دنیا کی عورتوں کے مشابہ نہ تھی، میں نے اس سے کہا: ''تم کون ہو؟ '' اس نے جواب دیا: ''حور۔ '' میں نے کہا: ''مجھ سے شادی کر لو۔ '' اس نے کہا: ''میرے آقا کو نکاح کا پیغام دو اور مہر بھی ادا کر دو۔ '' میں نے کہا: ''تمہارا مہر کیا ہے؟ '' کہا: ''رات میں دیر تک نماز پڑھنا۔ ''
22.  مجھ سے نکاح کرلو :
حضرت علی طَلْحِی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مجھے خواب میں ایک عورت نظر آئی جو دنیاوی عورتوں جیسی نہ تھی، میں نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں حُور ہوں۔ میں نے کہا: مجھ سے نکاح کرلو۔ اس نے کہا: پہلے میرے مالک کے پاس نکاح کا پیغام بھیجو اور میرا حق مہر ادا کرو۔ میں نے پوچھا: تمہارا حق مہر کیا ہے؟ اس نے کہا: اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے روکے رکھنا۔
23.  ایک بزرگ کا شوقِ حُور :
ایک بزرگ جہاد سے واپس آئے تو زوجہ بستر بچھا کر ان کا انتظار کرنے لگی، وہ بزرگ مسجد میں گئے اور صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ زوجہ نے عرض کی: '' میں آپ کی تشریف آوری کی کب سے منتظر تھی، آپ آئے ہیں تو صبح تک نماز میں ہی مشغول رہے ہیں۔ '' فرمایا: ''خدا کی قسم! میں اس طویل رات میں جنت کی حوروں میں سے ایک حُور کے بارے میں غور و فکر کرتا رہا ، تمہارے اور گھر کے متعلق کچھ خیال ہی نہ آیا اور ساری رات اس کے شوق میں نماز پڑھتا رہا۔ ''
24.  حُور عین کے مشابہ عورت:
منقول ہے کہ خوبصورت، اچھے اخلاق والی، سیاہ آنکھوں اور بالوں والی، بڑی بڑی آنکھوں والی، سفید رنگت والی، خاوند سے محبت کرنے والی اور اپنی نگاہوں کو صرف اسی تک محدود رکھنے والی عورت حُور عین کی صورت پر ہے کہ اللہ پاک نے جنتی عورتوں کی یہی صفات بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ، ارشاد ہوتا ہے:
خَیۡرٰتٌ حِسَانٌ
ترجمۂ کنز الایمان: عورتیں ہیں عادت کی نیک صورت کی اچھی۔
خَیرٰتٌ سے مراد اچھے اخلاق ہیں۔ ایک جگہ فرمایا:
قٰصِرٰتُ الطَّرْفِۙ
ترجمۂ کنز الایمان: وہ عورتیں ہیں کہ شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
عُرُبًا اَتْرَابًا
ترجمۂ کنز الایمان: انہیں پیار دلاتیاں ایک عمر والیاں۔
25.  عارفین و مقربین کا مطلوب:
عارفین کا مطلوب یہی حالت ہے جس کے بارے میں یہ تصور بھی نہ کیا جا سکے کہ اس دنیا میں کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہوگا۔ جہاں تک حور، محلات، پھل، دودھ، شہد، شراب، زیورات اور کنگن کا معاملہ ہے تو ان لوگوں کو ان کی حرص نہیں۔ اگر یہ چیزیں انہیں دے بھی دی جائیں تو وہ ان پر قناعت نہیں کریں گے بلکہ وہ تو فقط دیدارِ الٰہی کی لذت کے طالب ہیں جو کہ سعادت اور لذت کا انتہائی اور اعلیٰ درجہ ہے۔
26.  باغات میں سیر:
ابرار باغات میں سیر کریں گے اور حُور و غلماں کے ساتھ جنت میں چین پائیں گے جبکہ مُقَرَّبِیْنِ بارگاہِ ربّ العزت میں حاضر رہیں گے۔
 اسی لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''اَکۡثَرُ اَھۡلِ الۡجَنَّةِ الۡبُلۡہُ وَ عِلِّیُّوۡنَ لِذَوِی الۡاَلۡبَاب
یعنی اکثر اہْلِ جنت بھولے بھالے ہیں اور مقامِ علیین کے مستحق عقل والے ہیں۔ "
27.  جب حُور اترا کر چلے گی:
پس تم اہل جنت اور ان کے چہروں میں چین کی تازگی پہ غور کرو! وہ خالص ستھری شراب پلائے جائیں گے جو مُہر کی ہوئی رکھی ہے، وہ سفید موتیوں کے نرم و نازک خیموں کے اندر سرخ یاقوت کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے جن میں سبز رنگ کے منقّش خوبصورت بچھونے بچھے ہوں گے، شرابِ طہور اور شہد کی نہروں کے کنارے ٹکائے گئے تختوں پہ تکیہ لگائے ہوں گے اور وہ خیمے غلاموں اور لڑکوں سے بھر پور ہوں گے اور مزین ہوں گے اچھی صورت اور نیک سیرت حوروں سے گویا یاقوت و مرجان(چھوٹا موتی) ، ان سے پہلے انہیں ہاتھ نہ لگایا کسی آدمی اور نہ کسی جن نے، وہ جنت کے درجات میں خراماں خراماں چلیں گی اور جب ان میں سے کوئی حُور اِترا کر چلے گی تو اس کے دامنوں کو ستّر ہزار لڑکے اٹھائیں گے، ان پر سفید ریشم کی چادریں ہوں گی کہ آنکھیں ان کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گی، ان کو موتی اور مرجان جڑے ہوئے تاج پہنائے جائیں گے، وہ سرخ و سفید آنکھوں والی، ناز نخرے والی اور خوشبو دار ہوں گی، بڑھاپے اور بدحالی سے امن میں ہوں گی، جنتی باغات کے وسط میں بنائے گئے یاقوت کے محلّات میں خیموں کے اندر پردہ نشین ہوں گی، کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔
28.  جب عیناء چلتی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جنت میں ایک حُور ہے جسے عَیْنَاء کہا جاتا ہے جب وہ چلتی ہے تو اس کے دائیں بائیں ستّر ہزار خادمائیں چلتی ہیں اور وہ کہتی ہے: کہاں ہیں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والے؟
29.  شرمیلی حوریں:
فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِۙ-لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّۚ(۵۶) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِۚ(۵۷)
ترجمہ کنز الایمان : ان بچھونوں پر وہ عورتیں ہیں کہ شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں ان سے پہلے انہیں نہ چھوا کسی آدمی اور نہ جنّ نے۔ تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے۔
ترجمۂ کنز العِرفان: ان جنتوں میں وہ عورتیں ہیں کہ شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں ، جنہیں ان کے شوہروں سے پہلے نہ کسی آدمی نے چھوا اور نہ کسی جن نے۔ تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
{فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ: ان جنتوں میں وہ عورتیں ہیں کہ شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔ }
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان جنتوں کے محلات میں جنّتی مَردوں کے لئے ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گی اور ان میں سے ہر ایک اپنے شوہر سے کہے گی: مجھے اپنے رب پاک کی عزت و جلال کی قسم! جنت میں مجھے کوئی چیز تجھ سے زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی، تو اس خدا پاک کی حمد ہے جس نے تمہیں میرا شوہر بنایا اور مجھے تمہاری بیوی بنایا۔ اور وہ بیویاں ایسی ہوں گی کہ انہیں ان کے جنتی شوہروں کے علاوہ نہ کسی آدمی نے چھوا ہوگا اور نہ ہی کسی جن نے۔ ان بیویوں سے مراد حُور عِین ہیں کیونکہ وہ جنت میں پیدا کی گئی ہیں ، اس لئے ان کے شوہروں کے سوا انہیں کسی نے نہیں چھوا۔
بعض مفسرین نے فرمایا ان سے مراد دنیا کی عورتیں ہیں ، انہیں دوبارہ کنواریاں پیدا کیا جائے گا اور اس پیدائش کے بعد انہیں ان کے شوہروں کے علاوہ کسی اور نے نہ چھوا ہو گا۔
30.  حور عین کا نغمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ''جنت میں حُور عِین یہ نغمہ گائیں گی ''نَحْنُ الْخَیْرَاتُ الْحِسَانُ حُبِسْنَا لِاَزْوَاجٍ کِرَامٍ'' ہم اچھی سیرت اور اچھی صورت والیاں ہیں ، ہم معزز و محترم شوہروں کے لئے روکی گئی ہیں۔
31.  حور عین سے شادی:
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک بار ارشاد فرمایا:
''بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو باطل کو چھوڑ کر اسے مردہ کر دیتے ہیں۔ اور حق کا بول بالا کرکے اسے زندگی بخشتے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ ختم ہونے والی زندگی یعنی آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہ لوگ آخرت کے بدلے دنیا کو چھوڑ دیتے ہیں۔ حیات ان کے لیے نعمت اور موت ان کے لیے کرامت ہے۔ کل بروز قیامت حُور عین سے ان کی شادی کرائی جائے گی اور جنتی خدام ان کی خدمت پر مامور ہوں گے۔ ''
32.  ایک لاکھ حوریں اور دس کروڑ کنیزیں:
حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جس نے ایک بار قرآنِ کریم ختم کیا اللہ عَزَّ وَجَلَّ حُور عین میں سے ایک لاکھ حوروں کے ساتھ اس کا نکاح فرمائے گا۔ ان میں سے ہر حُور کے ساتھ 10کروڑ خادم اور10کروڑ کنیزیں ہوں گی اور جس نے قرآن کریم میں سے تھوڑی مقدار تلاوت کی اُسے اسی کے مطابق نوازا جائے گا اور جس نے اسلامی سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے قرآنِ کریم کا ختم کیا تو اُس کے لئے 10کروڑ تک بڑھا دے گا اور اس کے لئے اسی مقدار کے برابر جنت میں شہر، محلات اور موتی و یاقوت کے کمرے بنائے گا اور یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے آسان ہے۔ مزید فرماتے ہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو تلاوت ِ قرآن اور ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں۔
33.  حور اپنے شوہر کیلئے مسکرائی ہے:
حضرت محمد بن غالب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جنت میں ایک بجلی سی چمکے گی تو فرشتے بتائیں گے کہ جنتی حُور اپنے شوہر کے لیے مسکرائی ہے۔
باب چہارم
حوروں سے متعلق اولیاء اللہ کے واقعات
01.  جنت کی حوروں کا کلام:
 حضرتِ عبد العزیز بن سلمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرتِ مطہر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (جو ساٹھ سال تک اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گریہ کناں رہے ) نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ مشک کی خوشبو دار نہر کے کنارے پر ہوں جس کے کنارے پر موتیوں کے درخت ہیں اور اسکی مٹی عنبر کی ہے اور اس میں سونے کے ٹیلے ہیں۔ یکایک میری نظر کچھ لڑکیوں پر پڑی جو بیک زبان ہوکر یہ کہہ رہی تھیں:
 ''پاک ہے وہ ذات، پاک ہے وہ ذات جس کی ہر زبان میں تسبیح کی جاتی ہے، وہ ذات پاک ہے، پاک ہے ، موجود ہے ، پاک ہے ، وہ ذات جو دائمی ہے۔ وہ پاک ہے ، ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں ہم ہمیشہ رہیں گی کبھی نہ مریں گی ہم (جنتی شوہروں سے) راضی رہنے والیاں ہیں (ان پر کبھی) ناراض نہ ہوں گی، ہم ترو تازہ رہنے والیاں ہیں کبھی زوال نہ پائیں گی۔ ''
 حضرتِ مطہر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میں نے ان سے کہا تم کون ہو؟ کہنے لگیں ہم اللہ عزوجل کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں۔ میں نے کہا تم کیا کر رہی ہو؟ تو انہوں نے یک زبان ہو کر خوبصورت انداز میں جواب دیا،
ذَرَانَا اِلٰہُ النَّاسِ رَبُّ مُحَمَّدٍ
لِقَوْمٍ عَلَی الْاَطْرَافِ بِاللَّیْلِ قُوَّمُ
یُنَاجُوْنَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ اِلٰھَھُمْ
وَتَسْرِیْ ھُمُوْمُ الْقَوْمِ وَالنَّاسُ نُوَّمُ
ترجمہ: ہمیں لوگوں کے معبود، ربّ محمد عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بندوں کے لئے پیدا فرمایا ہے جو رات کے حصوں میں اس کے لئے قیام ( عبادت) کرتے ہیں۔
 اور وہ جو اپنے معبود، تمام جہانوں کے پالنے والے سے مناجات کرتے ہیں اور ان کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں جبکہ غافل لوگ سوتے رہ جاتے ہیں۔
 حضرتِ مطہر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سن کر کہا : ''خوب بہت خوب ! وہ لوگ کون ہیں جن کی آنکھوں کو اللہ عزوجل نے ٹھنڈا کیا ہے ؟ '' وہ کہنے لگیں: ''کیا آپ انہیں نہیں جانتے؟ '' میں نے کہا: ''خدا کی قسم ! نہیں جانتا۔ '' تو ان لڑکیوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رات عبادت اور تلاوت قرآن میں گزارتے ہیں۔
02.  عاشوراء جنتی بیوی:
مصر میں کھجوروں کا ایک تاجر رہتا تھا جس کا نام عطیہ بن خلف تھا۔ وہ بہت مال دار تھا پھر اچانک فقیر ہو گیا کہ اس کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے ایک کپڑے کے سوا کچھ بھی باقی نہ بچا۔ جب عاشوراء کا دن آیا تو اس نے جامع مسجد عمرو بن عاص میں نمازِ فجر ادا کی۔ عام طور پر اس مسجد میں عاشوراء کے دن ہی عورتیں دعا کے لئے آتی تھیں۔ وہ تاجر بھی باقی لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو کر دعا مانگنے لگا۔ وہ عورتوں سے ہٹ کر ایک طرف کھڑا تھا کہ ایک عورت اپنے ساتھ یتیم بچوں کو لے کر اس کے پاس آئی اور عرض کی: '' جناب ! میں اللہ پاک کے نام پر سوال کرتی ہوں کہ آپ میری مشکل آسان کر دیجئے، مجھے کچھ عنایت فرمائیے جس سے میں ان بچوں کی غذا حاصل کر سکوں کیونکہ ان کا باپ مر چکا ہے اور اس نے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا۔ میں ایک عزت دار خاتون ہوں۔ میرا کوئی واقف کار بھی نہیں کہ اس کے پاس جا سکوں۔ آج محض اس ضرورت و حاجت کی وجہ سے مجھے ذلیل ہو کر گھر سے نکلنا پڑا ورنہ ہی مجھے مانگنے کی عادت ہے۔ ''
تاجر نے اپنے دل میں سوچا کہ میں تو کسی چیز کا مالک نہیں اور اس لباس کے سوا میرے پاس کوئی چیز بھی نہیں۔ اب اگر میں یہ لباس اس کو دیتا ہوں تو خود برہنہ ہو جاؤں گا اور اگر اس کو خالی لوٹاتا ہوں تو اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کیا عذر پیش کروں گا۔ بہرحال اس نے عورت سے کہا: '' میرے ساتھ چلو، میں تمہیں کچھ دوں گا۔ ''وہ عورت اس کے ساتھ اس کے گھر گئی۔ تاجر نے اس کو دروازے پر کھڑا کر دیا اور خود گھر میں داخل ہو کر اپنے کپڑے اُتار کر ایک پھٹا پرانا کپڑا لپیٹ لیا اور پھر دروازے کی دراز میں سے وہ لباس اس عورت کو دے دیا۔ عورت نے اس کے حق میں دعا کی: '' اللہ پاک آپ کو جنّتی پوشاک پہنائے اور آپ کو بقیہ عمر کسی کا محتاج نہ کرے۔ ''
تاجر عورت کی دعا سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے دروازہ بند کیا اور پھر گھر میں داخل ہو کر رات گئے تک ذکر ِ الٰہی پاک میں مشغول ہو گیا۔ جب رات کو سویا تو خواب میں ایک ایسی حسین و جمیل حُور دیکھی جس کی مثل دیکھنے والوں نے نہ دیکھی ہوگی۔ اس کے ہاتھ میں ایک سیب تھا جس کی خوشبو آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی تھی۔ حُور نے وہ سیب تاجر کو دیاتو اس میں سے ایک جنّتی حُلّہ نکلا جس کی قیمت ساری دنیا بھی نہ بن سکے۔ اس نے وہ لباس تاجر کو پہنایا اور خود اس کے قریب بیٹھ گئی۔ تاجر نے پوچھا: '' تم کون ہو؟ '' بولی: ''میرا نام عاشوراء ہے اور میں تیری جنتی بیوی ہوں۔ ''تاجر نے پوچھا: '' مجھے یہ مقام و مرتبہ کیسے ملا؟ '' تو اس نے جواب دیا: '' اس بیوہ اور یتیم بچوں کی دعا کی وجہ سے جن پر تو نے کل احسان کیا تھا۔ ''
جب تاجر بیدار ہوا تو وہ اتنا خوش تھا جسے اللہ پاک کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کا سارا گھر جنّتی لباس کی خوشبو سے معطَّر تھا۔ اس نے وضو کر کے اللہ پاک کا شکر بجا لاتے ہوئے دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر آسمان کی جانب منہ اُٹھا کر عرض کی: '' اے میرے پروردگار پاک ! اگر میرا خواب سچا ہے اور جنت میں میری بیوی عاشوراء ہو گی تو مجھے اپنی بارگاہ میں واپس بلا لے۔ '' ابھی اس کی دعا پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ اللہ پاک نے اس کی روح کو جنت میں بھیج دیا۔
03.  جذبۂ شہادت
 حضرتِ قاسم بن عثمان جَوعِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ''میں نے ایک شخص کو طواف کرتے ہوئے دیکھا اس کی زبان پر بس یہی دعا جاری تھی: ''اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ! توہی محتاجوں کی حاجتیں پوری فرماتاہے ، لوگوں کی حاجتیں تو نے پوری کردیں ، میری حاجت ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔ ''
 وہ شخص بار بار یہی کہہ رہا تھا اس کے علاوہ کچھ اور نہ کہتا۔ میں نے پوچھا: ''بھائی ! تم اس کے علاوہ کوئی اوردعا کیوں نہیں مانگتے؟ '' کہا: ''میں تمہیں ساراوقعہ بتاتاہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم سات مجاہد مختلف شہروں سے جمع ہوکر ایک غزوہ میں شریک ہوئے، دشمن ہمیں قید کرکے اپنے سردار کے پاس لے گئے۔ وہ ہمیں شہید کرنے ایک ویران سی جگہ لے گئے۔ میری نظر آسمان کی طر ف اٹھی تو دیکھا کہ سات دروازے کھلے ہوئے ہیں اورہر دروازے پر ایک حورکھڑی ہے۔ جب ہم سات مجاہدوں میں سے ایک کو دشمنوں نے شہید کردیا۔
 تو میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک حُور اپنے ہاتھوں میں رومال لئے زمین کی طرف اُتری۔ پھر دوسرے مجاہد کو بھی شہید کردیاگیا۔ اب دوسری حُور اس طرح ہاتھوں میں رومال لئے زمین کی طرف اتری۔ الغرض میرے چھے رفقاء کو باری باری اسی طرح شہید کیاگیا۔ جب بھی کوئی مجاہد شہید ہوتاتو فوراً ایک حورہاتھوں میں رومال لئے زمین کی طرف اترتی۔ بالآ خر میرا نمبر بھی آگیا۔ اب صرف ایک دروازہ کھلا تھا اوراس پر ایک حورباقی تھی۔ جب مجھے شہید کیا جانے لگا تو بعض لوگوں نے فدیہ دے کر مجھے چھڑوا لیا۔ اس حُور کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا: ''اے محروم! تجھے کس چیز نے پیچھے رکھا؟ ''اتنا کہہ کر اس نے دروازہ بند کردیا۔ اے میرے بھائی ! میں اس وقت سے آج تک اس فضیلت کے نہ ملنے پر افسردہ وغمگین ہوں۔ ''
 حضرت سیِّدُناقاسم جَوعِی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: '' میں اس شخص کو ان سب سے افضل سمجھتاہوں کیونکہ اس نے وہ چیز دیکھ لی جو انہوں نے نہ دیکھی۔ اب یہ حسرت زدہ چھوڑ دیا گیا تاکہ اس نعمت کے حصول کی خاطر عمل کرتارہے۔ ''
04.  واہ میری عیناء کتنی خوبصورت ہے:
 حضرتِ سیِّدُنا ثابت بُنَانیِ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : '' ایک دن میں حضرت اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر تھا۔ اتنے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے جو ابوبَکْر کے نام سے مشہور تھے جہادسے واپس آئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جہاد کے متعلق پوچھاتو انہوں نے جہاد میں پیش آنے والے بہت سے واقعات بتائے اور کہا: '' ابا جان ! کیا میں آپ کو اپنے ایک مجاہد ساتھی کی عجیب وغریب و ایمان افرو ز حالت کے بارے میں نہ بتاؤں؟ '' حضرتِ اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: '' ضرور بتاؤ۔ ''کہا : '' ہمارے لشکر میں ایک خوبر و نوجوان بھی تھا۔ جب ہم دشمن کے بالکل سامنے پہنچ گئے تو حملے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ اتنے میں اس نوجوان کے یہ الفاظ فضاء میں گو نجے: '' واہ! میری زوجہ''عَیْنَاء ''کیسی خوبصورت ہے، واہ میری زوجہ''عَیْنَاء '' کیسی خوبصورت ہے''۔
یہ آواز سن کرہم فوراً اس کی طرف دوڑے ، ہم سمجھے کہ شاید اسے کوئی عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔ ہم نے پوچھا: ''اے نوجوان ! کیا ہوا؟ '' کہا : '' اے اللہ پاک کے شہسوار و ! سنو! میں ہمیشہ اپنے آپ سے یہ کہتا تھاکہ میں ہر گز شادی نہ کروں گا یہاں تک کہ میں کسی غزوہ میں شہید ہو جاؤں گا اور اللہ ربُّ العزَّت جنت کی سب سے خوبصورت حُور سے میری شادی کر دے گا۔ میں ہر مرتبہ شہادت کی آرزو لئے جہاد میں شریک ہوتا ، کئی جہادو ں میں شرکت کے باوجود مجھے شہادت کی دولت نہ مل سکی۔ اب اس لشکر کے ساتھ جہاد میں آگیا۔ راستے میں میرے نفس نے مجھے اس ارادے پر ابھارا، '' اگر اس مرتبہ بھی مجھے شہادت نہ ملی تو واپسی پر میں شادی کرلوں گا۔ ''
 ابھی کچھ دیر قبل مجھے اونگھ آئی میرے خواب میں کوئی آنے والا آیا اور کہا : '' تم ہی ہو جو یہ کہہ رہے ہو کہ اگر اس مرتبہ میں شہید نہ ہوا تو واپسی پر شادی کرلوں گا؟ '' سنو ! اللہ پاک نے ''حو رِعینا ء'' کے ساتھ تمہاری شادی کردی ہے۔ اٹھو! میرے ساتھ چلو۔ '' وہ مجھے لے کر ایک انتہائی سر سبز وشاداب وسیع باغ میں پہنچا ، وہاں کا منظر بڑا ہی دِلرُباتھا اس میں دس(۱۰) ایسی حسین وجمیل لڑکیاں موجود تھیں کہ اس سے قبل میری آنکھوں نے ایسا حسن نہ دیکھا تھا۔ میں نے کہا: '' شاید ان میں سے کوئی ایک ''حُور عَیْنَاء '' ہوگی۔ '' یہ سن کر ان دوشیزاؤں نے کہا : '' ہم تو اس کی کنیز یں ہیں'' حورِعَیْنَاء '' تمہارے سامنے کی جانب ہے۔ ''
 میں آگے بڑھا تو ایک بہت ہی خوبصورت اور سر سبز باغ نظر آیا یہ پہلے باغ کی نسبت زیادہ خوبصورت و وسیع تھا۔ اس میں بیس(20) حسین وجمیل دو شیزائیں تھیں ان کے حسن وجمال کے سامنے پہلی دس لڑکیوں کے حسن کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ میں نے کہا: '' ان میں سے کوئی ایک''حُور عَیْنَاء'' ہے۔ ''جواب ملا: '' آگے چلے جاؤ ''حُور عَیْنَاء'' تمہارے سامنے ہے۔ ہم تو اس کی کنیزیں ہیں۔ '' میں آگے بڑھا تو سامنے ایک ایسا وسیع وعریض اور خوبصورت باغ تھا جو پہلے دو باغوں کی نسبت بہت زیادہ پُر بہار تھا۔ اس میں چالیس(40) ایسی خوبصورت لڑکیاں تھیں کہ ان کے سامنے پہلی دوشیزاؤں کی خوبصورتی کچھ بھی نہ تھی۔ میں نے کہا : ''ان میں کوئی ایک ضرور ''حُور عَیْنَاء '' ہوگی۔ ''
 یہ سن کر انہوں نے اپنی پُرتَرَنُّم آواز میں کہا : '' ہم تو اس کی کنیز یں ہیں ''حُور عَیْنَاء '' تمہارے سامنے ہے، آگے چلے جاؤ۔ ' ' میں آگے بڑھا تو اپنے آپ کو یا قوت کے بنے ہوئے ایک خوبصورت کمرے میں پایا جس میں ایک تخت پر سابقہ تمام لڑکیوں سے زیادہ حسین وجمیل نوجوان لڑکی موجود تھی اس کا حسن آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ وہ بڑی شان وشوکت سے تخت پر بیٹھی میری جانب دیکھ رہی تھی۔ میں نے بے تاب ہو کر پوچھا : ''کیا تم ہی ''حُور عَیْنَاء '' ہو؟ '' اس نے اپنی مسحورکُن آواز میں کہا : '' خوش آمدید ! میں ہی ''حُور عَیْنَاء '' ہوں۔ '' یہ سن کر میں نے اسے چھونے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اس کی مترنم آواز گونجی: ''ٹھہرجائیے ! ابھی آپ کے اندر روح موجود ہے۔ کچھ دیر انتظار کیجئے! اِنْ شَاءَ اللہ پاک آج آپ افطاری ہمارے ساتھ کریں گے۔ '' میں ابھی اس ہو شرُ با منظر میں ہی گم تھا کہ میری آنکھ کھل گی۔ بس اب میں بہت جلد وہاں پہنچنے والا ہوں۔
 نوجوان نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ منادی نے پکار کر کہا : '' اے اللہ پاک کے شہسوارو ! دشمن پر حملہ کرنے کا وقت آگیا۔ اللہ پاک کا نام لے کر اسلام کے دشمنوں پر ٹو ٹ پڑو!۔ ''یہ سن کر ہم دشمن کے مقابلے میں صفیں بنا کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے۔ وہ نوجوان بڑی بے جگری سے دشمنوں سے نبرد آزماتھا۔ مجھے اس کی بات یاد تھی، میں کبھی سورج کی طرف دیکھتا کبھی اس کی طرف۔ جیسے ہی سورج غروب ہوا اس کی گردن تن سے جدا کردی گئی۔ وہ راہِ خدا میں اپنا سر قربان کرا چکا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ سور ج پہلے غروب ہوا یا وہ نوجوان پہلے شہید ہو ا۔ یقینا اس نے افطاری ''حُور عَیْنَاء '' کے ساتھ کی ہوگی۔ حضرتِ سیِّدُنااَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ علیہ نے جب اپنے بیٹے کی زبانی اس نوجوان کی ایمان افروز کہانی سنی تو بے ساختہ دعا گو ہوئے: ''اللہ پاک کی اس مجاہدپر رحمت ہو۔ ''
05.  انگوروں کا باغ:
 عبدالرحمن بن یزیدکابیان ہے، ایک مرتبہ ہماراقافلہ ''روم''کی جانب جہادکے لئے جارہاتھا، قافلے میں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا۔ ہوایوں کہ جب ہماراگُزر انگوروں کے ایک باغ کے قریب سے ہواتوہم نے ایک نوجوان کوٹوکری دیتے ہوئے کہا: ''جاؤ! اس باغ سے ہمارے لئے انگورلے آؤ، ہم چلتے ہیں، تم انگورلے کرہمارے ساتھ مل جانا۔ ''وہ نوجوان انگوروں کے باغ میں چلاگیا۔ وہاں پہنچاتو انگورکی بیل کے نیچے سونے کے تخت پرایک حسین وجمیل خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی دیکھی، نوجوان نے فوراً نگاہیں جھکا لیں اور دوسری طرف چلا گیا۔ وہاں بھی ویسی ہی خوبصورت دوشیزہ سو نے کے تخت پربیٹھی ہوئی پائی۔ اس نے پھر نگاہیں جھکا لیں۔ یہ دیکھ کروہ حسین وجمیل دوشیزہ مسکراتے ہوئے یوں گویا ہوئی: ''ہماری طرف دیکھئے! آپ کوہماری طرف دیکھناجائز ہے کیونکہ ہم ''حورِعین'' میں سے آپ کی جنتی بیویاں ہیں اورآج آپ ہمارے ہاں پہنچ جائیں گے۔ ''
 اس کے بعدوہ انگورلئے بغیراپنے رفقاء کی طرف واپس آگیا۔ وہ خالی ہاتھ تھا اور اس کے چہرے سے نورکی کرنیں پھوٹ رہی تھیں، ہم نے حیران ہوکرماجرادریافت کیا مگر اس نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ جب دوستوں نے بہت اصرار کیا تواس نے ساراواقعہ کہہ سنایا۔ سب لوگ اس واقعہ سے بہت حیران ہوئے۔ پھرجیسے ہی ہمارا لشکردشمن کے سامنے پہنچاوہ نوجوان بِپھرے ہوئے شیرکی طرح دشمنوں پرٹوٹ پڑا اورلڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کرگیا۔ اس دن مسلمانوں کے لشکرمیں سب سے پہلے شہیدہونے والاوہی نوجوان تھا۔
06.  عقلمند باپ کے بیٹے کی توبہ:
 منقول ہے کہ ایک عقلمند شخص کا انتقال ہونے لگا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلوايا اور اسے الوداعی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ''بیٹے ! اگر کبھی تیرا شراب پینے کو دل کرے تو پہلے شراب خانے جا کر کسی شرابی کو دیکھ لينا ، اگر جوا کھیلنے کو دل چاہے تو پہلے کسی ہارے ہوئے جواری کا مشاہدہ کر لينا اور اگر کبھی زنا کو دل کرے تو بالکل صبح کے وقت طوائف خانے جانا۔ ''
 اس کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد لڑکے کے دل میں شراب پینے کا خیال پیدا ہوا ، باپ کی نصیحت کے مطابق وہ نوجوان ایک شرابی کے پاس پہنچا جو نشے میں دھت ایک نالی میں گرا ہوا تھا ، اس کی يہ عبرت ناک حالت دیکھ کر اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ''اگر میں نے بھی شراب پی تو میرا بھی یہی حشر ہو گا۔ ''یہ خیال آتے ہی اس نے شراب پینے کا ارادہ ترک کر دیا۔
 پھر ایک مرتبہ شیطان نے اسے جوئے کی ترغیب دلائی ، حسب وصیت يہ پہلے ایک ہارے ہوئے جواری کے پاس پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ ہار جانے کے باعث وہ جواری شدید رنج و غم میں گرفتار تھا اور اس کی حالت نہایت قابل رحم ہو رہی تھی۔ اس کی يہ حالت دیکھ کر اسے بھی اپنے بارے میں یہی خوف پیدا ہوا اور يوں جوئے سے بھی باز آگیا۔
 پھر کچھ عرصے بعد نفس نے زنا کی خواہش کا اظہار کیا ، اس مرتبہ بھی يہ حسب نصیحت صبح کے وقت طوائف خانے جا پہنچا۔ جب دروازہ بجایا تو کچھ دیر بعد ایک طوائف باہر آئی ، نیند سے بیدار ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں گندگی بھری ہوئی تھی، بال بکھرے ہوئے تھے ، بغیر سرخی پاؤ ڈر کے چہرہ بالکل بے رونق نظر آ رہا تھا اور اس پر مردنی سی چھائی ہوئی تھی ، ترو تازگی نام کو نہ تھی ، منہ سے بدبو کے بھپکے اڑ رہے تھے ، اس نے میلا کچيلا لباس پہن رکھا تھا جس سے پسینے کی بو بھی محسوس ہو رہی تھی ، گويا کہ شام کو ملمع کاری کر کے شکار کو اپنی جانب راغب کرنے والی حُور پری اس وقت غلاظت کا ایک ڈھیر نظر آ رہی تھی۔ طوائف کا يہ بھیانک حلیہ دیکھ کر اس نوجوان کے دل میں زنا سے کراہيت پیدا ہو گئی اور اس نے اپنے ارادے سے ہمیشہ کے لئے توبہ کر لی۔
07.  غفلت کا شکار ہونے والا:
 حضرت علی بن حسین علیہ الرحمۃ کہتے ہیں کہ ہمارا ایک پڑوسی بہت زیادہ عبادت گزار تھا۔ وہ اس قدر نمازیں پڑھا کرتا کہ اس کے قدم سوج جاتے اور اتنا روتا کہ اس کی بینائی کمزور ہو گئی۔ ایک مرتبہ اس کے گھر والوں اور لوگوں نے مل کر اسے شادی کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ سن کر اس نے ایک کنیز خرید لی۔ یہ کنیز نغمہ سرائی کی شوقین تھی لیکن اس عابد کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ ایک دن عابد اپنی عبادت گاہ میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا کہ کنیز نے بلند آواز میں گانا شروع کردیا۔ گانے کی آواز سن کر عابد بے چین ہوگیا۔ اس نے عبادت میں لگے رہنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ آخر ِ کار کنیز اس سے کہنے لگی ، '' میرے آقا! تمہاری جوانی ڈھلنے کو ہے ، تم نے عین جوانی میں دنیا کی لذتوں کو چھوڑ دیا ، اب تو مجھ سے کچھ فائدہ اٹھا لو۔ '' یہ بات سن کر عابد عبادت چھوڑ کر اس کے ساتھ لذتوں میں مشغول ہوگیا۔ جب اس کے بھائی کو یہ بات پتہ چلی تو اس نے اپنے بھائی کو (نیکی کی دعوت پر مشتمل ) ایک خط لکھا،
بسم اللہ الرحمن الرحیم: یہ خط ایک مشفِق و ناصح اور طبیب دوست کی طرف سے اس شخص کی طرف ہے جس سے حلاوتِ ذکر اور تلاوت قرآن کی لذت سلب ہو گئی ، جس کے دل سے خشوع اور اللہ عزوجل کا خوف جاتا رہا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے ایک کنیز خریدی ہے جس کے بدلے اپنا ، ''حصہ آخرت '' بیچ دیا ہے ، تم نے کثیر کو قلیل کے بدلے اور قرآن کو نغمات کے بدلے بیچ دیا، میں تمہیں ایسی شے سے ڈراتا ہوں جو لذات کو توڑنے والی ، شہوتوں کو ختم کرنے والی ہے ، جب وہ آئے گی تو تیری زبان گنگ ہوجائے گی ، اعضاء کی مضبوطی رخصت ہوجائے گی اور تجھے کفن پہنایا جائے گا ، تیرے اہل و عیال اور پڑوسی تجھ سے وحشت کھائیں گے ، میں تمہیں اس چنگھاڑ سے ڈراتا ہوں جب لوگ بادشاہ جبار ل کی ہیبت سے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے ، میرے بھائی ! میں تمہیں اللہ عزوجل کے غضب سے ڈراتا ہوں۔ ''
 پھر یہ خط لپیٹ کر اس کے پاس بھیج دیا۔ جب اس عابد کو یہ خط ملا وہ رقص و سرور کی محفل میں تھا۔ یہ خط پڑھتے ہی اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔ وہ ساری لذت بھول کر اس محفل سے اٹھا اور شراب وغیرہ کے برتن توڑ دئیے۔ کنیز کو آزاد کر نے کے بعد قسم کھائی کہ اب نہ کھانا کھائے گا اور نہ ہی سوئے گا۔
 جب اس کا انتقال ہوگیا تو خط لکھنے والے بھائی نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا ، ''مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ۔ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ ''تو اس نے جواب دیا ، ''اللہ عزوجل نے مجھے اس کنیز کے بدلے ایک جنتی کنیز (یعنی حور) عطا فرمائی ہے جو مجھے شراب ِ طہور یہ کہہ کر پلاتی ہے کہ یہ اس کے بدلے میں پی لو جو تم نے دنیا میں چھوڑی تھی۔ ''
08.  کھلے بالوں والی حور:
 حضرت ابوسلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عراق میں ایک نوجوان بہت عبادت گزار تھا، وہ ایک مرتبہ ایک دوست کے ساتھ مکہ مکرمہ کے سفر پرنکلا، جب قافلہ کہیں پڑاؤ کرتا تھا تویہ نماز میں مصروف ہوجاتا تھا اور جب وہ کھانا کھاتے تھے تویہ روزہ دار ہوتا تھا۔ سفر میں جاتے آتے وقت تک اس کا وہ دوست خاموش رہا۔ جب اس سے جدا ہونے لگا تواس سے پوچھنے لگا ۔اے بھائی! مجھے یہ توبتاؤ میں نے جوتجھے اتنا ذیادہ عبادت میں مصروف دیکھا ہے۔ اس پرتمھیں کس بات نے برانگیختہ کررکھا ہے؟
 اُس نے بتایا کہ،، میں نے نیند میں جنت کے محلات میں سے ایک محل دیکھا ہے۔ جس کی ایک اینٹ سونے کی تھی۔ اور دوسری چاندی کی تھی۔ جب اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ تو اس کا ایک کنگرا زبرجد کا تھا تو دوسرا یاقوت کا ان دونوں کے درمیان حورعین میں سے ایک حور کھڑی تھی۔ جس نے اپنے بالوں کوکھول رکھا تھا۔اس کے اوپر چاندی کا لباس تھا ۔جب وہ بل کھاتی تھی تواس لباس میں بھی بل پڑجاتے تھے۔ اس نے مجھے مخاطب کرکے کہا، اے خواہش پرست! اللہ عزوجل کی طرف میری طلب میں کوشش کر۔ اللہ کی قسم! میں تیرے طلب میں روز بروز نئے نئے طریقوں سے زیب وزینت کیے جارہی ہوں۔ چنانچہ یہ محنت جوتم نے دیکھی ہے۔ اس حور کی طلب کے لیے ہے۔
حضرت ابوسلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حکایت بیان کرکے فرمایا یہ اتنی ساری عبادت توایک حور کی طلب میں ہے۔ اب اس شخص کی عبادت کی کیا حالت ہونی چاہئے جو اس سے زیادہ کا طلبگار ہو؟
09.   حور کو دیکھتے ہی مر جاتے:
حضرت عطاء سلمی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا: اے ابویحییٰ ہمیں (نیک اعمال کرنے کا) اور جنت میں جانے کا شوق دلائیں؟
 تو انہوں نے فرمایا: اے عطاء! جنت میں ایک حور ہے۔ جس کے حسن پر جنتی مرتے ہوں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ جنت والوں کے لیے زندہ رہنے کا فیصلہ نہ کر دیتا تو وہ اس کے حسن کو دیکھ کرہی مر جاتے۔ چنانچہ حضرت عطاء حضرت مالک کی اس بات کوسننے کے بعد چالیس سال تک رنجور اور غمگین رہے۔
10.  ایک طائف کی نرالی دُعا
حضرتِ قاسِم بن عثمان جو کہ صاحبِ علم و فضل اور متقی بزرگ تھے، فرماتے ہیں : میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ دورانِ طواف صرف یہی دُعا کئے جا رہا تھا: اَللّٰھُمَّ قَضَیْتَ حَاجَۃَ الْمُحْتَاجِیْنَ وَحَاجَتِیْ لَمْ تَقْضِ یعنی ''اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تُو نے سب حاجت مندوں کی حاجت پوری فرما دی اور میری حاجت پوری نہیں ہوئی۔ '' میں نے اُس سے جب اِس نرالی دُعا کی تکرار کے بارے میں استفسار کیا تو بولا: ہم سات افراد جہاد میں گئے، غیر مسلِموں نے ہمیں گرفتار کر لیا، جب بَاِرادۂ قتل میدان میں لائے، میں نے یکایک اوپر سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان میں سات دروازے کھلے ہیں اور ہر دروازے پر ایک حُور کھڑی ہے، جیسے ہی ہمارے ایک رفیق کو شہید کیا گیا ، میں نے دیکھا کہ ایک حُور ہاتھ میں رومال لیے اُس شہید کی روح لینے کے لیے زمین پر اتر پڑی، اِسی طرح میرے چھ رُفَقَاء شہید کئے گئے اور سب کی روحیں لینے ایک ایک حُور اترتی رہی، جب میری باری آئی تو ایک درباری نے اپنی خدمت کے لیے مجھے بادشاہ سے مانگ لیا اور میں شہادت کی سعادت سے محروم رہ گیا۔ میں نے ایک حُور کو کہتے سنا: ''اے محروم! آخر اِس سعادت سے تو کیوں محروم رہا؟ '' پھر آسمان کے ساتوں دروازے بند ہوگئے۔ تو اے بھائی ! مجھے اپنی محرومی پر سخت افسوس ہے۔ کاش! مجھے بھی شہادت کی سعادت عنایت ہو جاتی یہی وہ حاجت ہے جس کا آپ نے دُعا میں سنا۔
حضرتِ قاسم بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے نزدیک ان ساتوں خوش نصیبوں میں سب سے افضل یہی ساتواں ہے جو قتل سے بچ گیا، اِس نے اپنی آنکھوں سے وہ روح پرور منظر دیکھا جو دوسروں نے نہیں دیکھا پھر یہ زندہ رہا اور انتہائی ذوق و شوق سے نیکیاں کرتا رہا۔
11.  ریشمی لباس میں جنتی حور:
حضرت ابو سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کا بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے بتایا : میں ایک رات اپنے اوراد و وظائف پڑھے بغیر سو گیا تو میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک کنیز کے ساتھ ہوں ، میں نے اس سے زیادہ حسین چہرہ نہیں دیکھا، وہ سبز ریشم کا لباس پہنے ہوئے تھی اور اس کے دونوں پاؤں میں نعلین تھیں اور وہ اپنے تسموں کے کناروں سمیت پاکی بیان کر رہی تھی پس اس کے نعلین تسبیح کر رہے تھے اور تسمے پاکی بیان کر رہے تھے اور وہ کہہ رہی تھی: اے ابن زید! مجھے پانے کے لئے کوشش کرو کیونکہ میں تمہاری جستجو میں ہوں ، پھر وہ پُر سوز آواز میں یہ اشعار پڑھنے لگی:
مَنْ يَّشْتَرِيـْنِيْ وَمَنْ يَّكُنْ سَكَنِي
يَاْمَنْ فِي رِبْحِهِ مِنَ الْغَبْنِ
ترجمہ: مجھے خریدنے اور میرے ساتھ رہنے والا اپنے نفع میں دھوکے سے محفوظ رہے گا۔
 تو میں نے کہا: اے کنیز! تیری قیمت کیا ہے؟ تو وہ یہ اشعار کہنے لگی:
تَوَدَّدِ اللهَ مَعَ مَحَبَّتِهِ
وَطُوْلِ شُكْرٍ يُشَابُ بِالْحُزْنِ
ترجمہ: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی محبت اور طویل شکر کے ساتھ جس میں غم ملا ہو اس کی چاہت طلب کرو۔
تو میں نے اس سے کہا: اے کنیز! تو کس کی مِلک ہے؟ تو اس نے کہا:
لِمَالِكٍ لَا يَرُدُّ لِيْ ثَمَنًا
مِنْ خَاطِبٍ قَدْ اَتَاهُ بِالثَّمَنِ
ترجمہ: اس مالک کی جو میرے عوض ثمن لے کر آنے والے عاقد کا ثمن رد نہیں فرماتا۔
پھر میری آنکھ کھل گئی اور میں نے یہ عہد کر لیا کہ میں رات کو سونا چھوڑ دوں گا۔
12.  حوریں مجھے دیکھ رہی ہیں:
جنگ حمص میں پہلے دن کی جنگ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی دلیری نے جنگ کا رخ پلٹ دیا، انہیں دیکھ کر اسلامی لشکر کے دیگر شہسوار بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت عکرمہ بن ابو جہل رضی اللہ عنہ نے قوم مخزوم کے ساتھ رومیوں پر ایسا شدید حملہ کیا کہ اہل حمص نے ایسا حملہ نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی سوچا تھا۔ تلوار سے ان کا مقابلہ کرنا محال تھا، لہٰذا رومیوں نے ان پر تیروں کی بو چھاڑ کردی۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ تیروں سے بے خوف ہوکر رومیوں کے خلاف قتال کر رہے تھے۔ ساتھیوں نے عرض کیا: ''اے عکرمہ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرتے ہوئے اپنے آپ پر نرمی کیجئے۔ ''آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو ایمان افروز جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''اے گروہ مؤمن ین! ایک وہ زمانہ تھا کہ میں جہالت کی تاریکی میں تھا اور بتوں کی حمایت میں مسلمانوں سے لڑتا تھا، لیکن آج (جب حضور نبی رحمت، شفیعِ اُمت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے مجھے ایمان کی روشنی نصیب ہوئی تو ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت و رضامندی میں لڑ رہا ہوں۔ ''
پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
''وَاِنِّيْ اَرَى الْحُور مُتَشَوِّقَاتٍ اِلَيَّ وَلَوْ بَدَتْ وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ لِاَهْلِ الدُّنْيَا لَاَغْنَتْهُمْ عَنِ الشَّمْسِ وَالْقَمْر وَلَقَدْ صَدَقَنَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْمَا وَعَدَنَا
یعنی میں اس وقت بھی جنت کی حوروں کو دیکھ رہا ہوں جو میری طرف شوق اور دلچسپی سے دیکھ رہی ہیں۔ اگر ان میں سے ایک حُور بھی دنیا والوں پر ظاہر ہوجائے تو وہ انہیں سورج اور چاند سے غنی کردے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہم سے وعدہ فرمایا تھا وہ بالکل بر حق ہے۔ ''
یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ شیر کی طرح رومیوں پر ٹوٹ پڑے، تمام رومی محو حیرت تھے، جو بھی ان کے قریب جاتا آن کی آن میں خاک میں ملا دیا جاتا۔ حاکم ہر بیس دور بیٹھا آپ کی جرات و بہادری دیکھ رہا تھا، اس نے اپنے قریب سے حربہ اٹھایا اور عکرمہ رضی اللہ عنہ کے دل کا نشانہ لے کر پھینکا، وہ سیدھا نشانے پر لگا اور آپ رضی اللہ عنہ زمین پر تشریف لے آئے، آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
13.  عشق میں مبتلا معشوقہ حُور :
حضرت عتبۃُ الغلام رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں ایک خوب صورت حُور دیکھی جو کہہ رہی تھی: اے عتبہ! میں تمہارے عشق میں مبتلا ہوں، کوئی ایسا کام نہ کرنا جو میرے اور تمہارے درمیان رکاوٹ بنے۔ آپ نے فرمایا: "میں دنیا کو تین طلاقیں دے چکا ہوں اب رجوع کی کوئی صورت نہیں حتیٰ کہ تم سے ملاقات کر لوں۔ "
14.  حُور کے چہرے کا نور:
 حضرت ابو سلیمان درّانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی عبادت گاہ میں کھڑا اپنے وظائف مکمل کر رہا تھا کہ مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوا چنانچہ میں بیٹھ گیا اور بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے خواب میں ایک نہایت ہی خوبصورت حُور کو دیکھا، جس کے رخساروں سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ میں اس حسن و جمال کو دیکھ کر دنگ رہ گیا ، اتنے میں اس نے مجھے اپنے پاؤں سے ہلکی سی ٹھوکر لگائی اور کہنے لگی ، ''بڑے افسوس کی بات ہے ! میں جنت میں تیرے لئے بنی سنوری بیٹھی ہوں اور تم سو رہے ہو؟ '' یہ سن کر میں نے اسی وقت نذر مان لی کہ اب کبھی نہیں سوؤں گا۔
 میری یہ حالت دیکھ کر حُور مسکرا دی جس سے میرا سارا کمرہ نور سے جگمگا اٹھا اور میں بڑی حیرانی سے اس پھیلے ہوئے نور کو دیکھنے لگا۔ اس نے میری حیرت کو بھانپ لیا اور کہنے لگی، ''جانتے ہو کہ میرا چہرہ اتنا روشن کیوں ہے ؟ '' میں نے کہا، '' نہیں۔ ''وہ کہنے لگی کہ ، ''تمہیں یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ سخت سردیوں کی رات تھی ، تم نے اٹھ کر وضو کیا ، اس کے بعد نماز ادا کرنا شروع کی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے تمہاری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے ، اسی وقت رب عزوجل کی طرف مجھے حکم دیا گیا کہ فردوس بریں سے سینہ زمین پر اتر کر تمہارے اِن آنسوؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ لوں۔ پھر میں نے تیرے آنسوؤں کا ایک قطرہ اپنے چہرے پر مل لیا تھا ، میرے چہرے کی یہ چمک تمہارے انہی آنسوؤں کی وجہ سے ہے۔ ''



باب پنجم
رمضان المبارک اور تذکرۂ حوران بہشت
01.  حور عین کے خیمے میں:
حضرتِ ابو مسعود غِفاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن رمضان کا چاند نظر آنے کے بعد سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ'' اگر بندے جان لیں کہ رمضان میں کیا ہے تو میری امت ضرو ر یہ تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہو۔ '' بنوخُزَاعہ کے ایک شخص نے عرض کیا، '' یانبی اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم! ہمیں کچھ بتائیے۔ '' ارشاد فرمایا، '' بیشک سال کی ابتداء سے لے کر آخر تک جنت کو رمضا ن کیلئے سجایا جاتاہے ، جب رمضان کا پہلا دن آتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے اور جنت کے درختوں کے پتے ہلنا شروع ہو جاتے ہیں تو حُور عین ان کی طرف دیکھ کر عرض کرتی ہیں، '' یا رب عزوجل ! ہمارے لئے اس مہینے میں اپنے بندوں میں سے کچھ شوہر بنادے جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔ '' پھر فرمایا، ''جو بندہ رمضان کے ایک دن کا روزہ رکھتاہے موتیوں کے ایک خیمے میں اس کا نکاح حُور عین میں سے ایک حُور کے ساتھ کردیا جاتاہے جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے؛
حُور مَّقْصُورَٰتٌ فِي الْخِيَامِ
ترجمہ کنز الایمان : حوریں ہیں خیموں میں پردہ نشین۔
ان میں سے ہر حُور پر ستّر حُلّے ہوتے ہیں جن میں ہرایک کا رنگ دو سرے سے مختلف ہوتاہے اور انہیں ستّر رنگوں کی خوشبو عطا کی جاتی ہے اور ہر خوشبو کا رنگ دوسری سے مختلف ہوتاہے اور ان میں سے ہر عورت کے ساتھ ستّر ہزار کنیزیں کا م کاج کے لئے ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ ستّر ہزار غلِمان (یعنی غلام) ہوتے ہیں اور ہر غلمان کے پاس سونے کا ایک برتن ہوتاہے جن میں ایک قسم کا کھانا ہوتاہے جس کے ہر لقمے کا ذائقہ دوسرے سے جدا ہوتاہے اور ان میں سے ہر عورت کے لئے سرخ یا قوت کے ستّر تخت ہوتے ہیں اور ہر تخت پر ستّر قالین ہوتے ہیں جن کا اندرونی حصہ ِاسْتَبْرَق (یعنی سبز ریشم) کا ہوتاہے اور ہر قالین پر ستّر تکیے ہوتے ہیں اور ان کے شوہر کواتنے ہی موتیوں سے مزیّن سر خ یاقوت کے تخت عطا کئے جاتے ہیں اورسو نے کے دو کنگن پہنائے جاتے ہیں اور یہ فضلیت اسے رمضا ن کا ہررو زہ رکھنے پر عطا کی جاتی ہے جبکہ دیگر نیکیوں کا ثواب اس کے علاوہ ہے۔ ''
02.  حوریں پکارتی ہیں:
 حضرتِ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے خاتِمُ الْمُرْسَلین صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، '' بے شک جنت کو ایک سال کی ابتداء سے دوسرے سال تک رمضان کی آمد کے لئے'' بخور'' کی دھونی دی جاتی ہے اور سجایا جاتاہے پھرجب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جسے'' مُثِیرہ'' کہا جاتا ہے تو جنت کے پتے اور دروازوں کے پٹ ہلنے لگتے ہیں اور اس سے ایسی دلکش آواز پیدا ہوتی ہے کہ اس جیسی آواز کسی نے نہ سنی ہوگی تو حورعین باہر نکلتی ہیں اور جنت کی با لکو نیوں پر کھڑی ہوکر ند ا کرتی ہیں، '' کوئی ہے اللہ عزوجل کو پکارنے والاتاکہ وہ اس کی شادی کرائے ؟ 'پھر وہ پوچھتی ہیں، ''اے رضوانِ جنت! یہ کون سی رات ہے ؟ ''تو حضرتِ رضوان علیہ السلام ان کی نداپر لبیک کہتے ہوئے جواب دیتے ہیں، ''یہ رمضان کی پہلی رات ہے، امت محمدی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے روزہ داروں کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ ''
03.  حُور عین کی دعا:
 بیہقی شعب الایمان میں ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جنت ابتدائے سال سے سال آئندہ تک رمضان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، جب رمضان کا پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ایک ہوا حُور عین پر چلتی ہے، وہ کہتی ہیں، اے رب! تُو اپنے بندوں سے ہمارے لیے ان کو شوہر بنا، جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور اُن کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔ ''


باب ششم
حوریں اور مجاہدین
01.  حوریں پردہ کر لیتی ہیں:
 حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یزید بن شجرہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہ تھا، انہوں نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، ''اے لوگو! اللہ عزوجل کی ان نعمتوں کو یاد کرو جو تمہیں عطا کی گئیں ، ان سبز ، سرخ اور پیلی اشیاء اورقیام گاہوں میں غو ر کرو کہ اللہ عزوجل نے تمہیں کیسی کیسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ '' آپ رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے، '' جب لوگ نماز یا جنگ کے لئے صف بناتے ہیں تو آسمانو ں اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بندکردئیے جاتے ہیں اور حورِعین کو سنوار کر چھوڑ دیا جاتاہے۔ جب کوئی شخص جہاد میں پیش قدمی کرتاہے تو حورِعین کہتی ہیں ، ''اے اللہ عزوجل! اس کی مددفرما۔ ''اور جب وہ پیچھے ہٹتاہے تو اس سے پردہ کرلیتی ہیں اور کہتی ہیں ، ''یا اللہ عزوجل! اس کی مغفرت فرما۔ ''
 یہ سن کر لوگوں کے چہرے مرجھاگئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، '' تم پر میرے ماں باپ قربان ! حورعین کو غمزدہ نہ کرو کیونکہ جب مجاہد کے خون کا پہلا قطرہ گرتا ہے تو اس کے ہر گناہ کو مٹادیا جاتاہے تو حُور عین میں سے اس کی دوبیویاں اس کے پاس اترتی ہیں اور اس کے چہرے سے مٹی ہٹاتے ہوئے کہتی ہیں ، '' ہم تمہارے لئے ہیں۔ '' اور وہ کہتا ہے، '' میں تمہارے لئے ہوں۔ ''پھر اسے سوحلّے پہنائے جاتے ہیں جو کہ کسی آدمی کے بنائے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ جنت کی پیداوار ہوتے ہیں، وہ ایسے نفیس ہوتے ہیں کہ اگر انہیں دوانگلیوں سے پکڑا جائے تو پکڑ میں آجائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بتایا گیا ہے ، '' تلواریں جنت کی کنجیاں ہیں۔ ''
02.  دودھ پلانے والی اونٹنیاں:
 حضرتِ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں شہید کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا، '' شہید کے خون سے زمین خشک ہونے سے پہلے حُور عین میں سے اس کی دوبیویاں اس طرح آتی ہیں جیسے ریگستا ن میں دودھ پلانے والی اونٹنیاں اپنے دودھ پینے والے بچے کو ڈھانپ لیتی ہیں، ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں جنت کا ایک ایسا جوڑا ہوتاہے جو دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہترہے۔ ''
03.  حُور سے منہ پھیر لیا:
 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کے خیمے کے قریب سے گزرے جبکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس اعرابی نے خیمے کا گو شہ اٹھا کرپوچھا، ''کون لوگ ہیں ؟ ''کہاگیا، '' رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ علیہم الرضوان ہیں جو کہ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ''اعرابی نے پوچھا، '' کیا دنیا کامال بھی پائیں گے؟ ''جواب دیاگیا ، ''ہاں! غنیمت پائیں گے پھر انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ ''یہ سن کر وہ اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ اپنے اونٹ کی طرف بڑھے اور اسے رسی سے باندھ کر ان کے ساتھ چل پڑے۔
 وہ اپنے اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے قریب کرنے لگے، جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کے اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے دورکرتے رہے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، '' اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ، یہ جنت کے بادشاہوں میں سے ہے۔ '' پھر جب دشمنوں کےساتھ مقابلہ ہواتویہ اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ جنگ کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو ان کی شہادت کی خبر دی گئی تو آ پ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ان کی میت پر تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اورخوشی سے مسکرانے لگے، پھر اپنا رخِ انور دوسری طرف پھیر لیا تو ہم نے عرض کیا ، ـ'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو خوشی سے ہنستے ہوئے دیکھا پھرآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنا چہرہ اقدس دوسری طرف کیوں پھیرلیا؟ ''فرمایا ، ''میری خوشی اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس کا مرتبہ دیکھنے کی وجہ سے تھی اور میرے اس سے منہ پھیرنے کی وجہ یہ ہے کہ حورِعین میں سے اس کی ایک بیوی اب اس کے سرہانے آبیٹھی ہے۔ ''
04.  حور عین لے جاتی ہیں:
سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: شہید کے لیے جسم نہایت خوبصورت یعنی اجسامِ مثالیہ سے اترتا ہے اور اس کی روح کو کہتے ہیں اس میں داخل ہو، پس وہ اپنے بدن کو دیکھتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں اور کلام کرتا ہے اور اپنے ذہن میں سمجھتا ہے کہ لوگ اس کی باتیں سن رہے ہیں، اور آپ جو انہیں دیکھتا ہے تو یہ گمان کرتا ہے کہ لوگ بھی اسے دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ حُور عین میں سے اس کی بیبیاں آکر اسے لے جاتی ہیں۔
05.  شہید کے چھ درجے
فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ شہید کی اﷲ کے ہاں چھ خصلتیں(درجے) ہیں پہلی ہی دفعہ میں اسے بخش دیا جاتا ہے اور اسے جنت کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے اور اسے قبر کے عذاب سے امان دی جاتی ہے اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا اور اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا اور دنیا کی چیزوں سے بہتر ہوگا اور بہتّر حُور عین(حسین آنکھوں والی) سے اس کا نکاح کیا جائے گا اور اس کے ستّر اہل قرابت میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
مرقات میں یہاں فرمایا کہ شہید کو اپنی دنیاوی اور کفار کی مؤمنہ بیویوں کے علاوہ جو اسے کفار کے ورثہ میں ملیں گی بہتر حوریں بیویاں دی جائیں گی۔
 یہ بھی خیال رہے کہ حوروں سے اختلاط بعد قیامت ہوگا، قیامت سے پہلے اگرچہ شہید جنت کے پھل فروٹ کھائیں گے مگر حوروں سے بے تعلق رہیں گے۔
باب ہفتم
حوروں سے متعلق سوال جواب

سوال: کیا حوریں پیدا ہو چکی ہیں یا بعد قیامت پیدا کی جائیں گی؟
جواب: حوریں پیدا ہو چکی ہیں۔ ابتدائے آفرینش میں عاشورہ کے دن حوروں کو پیدا فرمایا گیا۔ حضرت جبریل کی پیدائش بھی عاشورہ کے دن ہوئی۔
سوال: کیا حوریں صرف جنت میں مقیم ہیں یا دنیا میں بھی آتی ہیں؟
جواب: حوریں جنتی محلوں اور خیموں میں رہتی ہیں لیکن کبھی کبھی فرشتوں کے پروں پر بیٹھ کر زمین پر بھی تشریف لاتی ہیں اور شہیدوں کے چہروں سے خون اور مٹی وغیرہ صاف کرنے کا تو احادیث میں واضح ذکر ہے۔ باقی بزرگوں کے بعض واقعات بھی ان کے زمین پر آنے کی خبر دیتے ہیں۔ تاہم زمین پر آنے کے باوجود ان کا عالم الگ ہوتا ہے۔
سوال: کیا جنتی آدمی حوروں کو چھو سکتا ہے؟
جواب: بالکل چھو سکتا ہے بلکہ ان سے نکاح اسی مقصد سے ہوگا کہ ان سے قربت اختیار کرے، اور ان سے بوس و کنار اور جماع کرے۔
سوال: بہت سے لڑکا اور لڑکی آپس میں عہد و پیمان کر لیتے ہیں کہ دنیا میں نہ مل سکے تو کیا ہوا، جنت میں ہم ایک دوسرے سے شادی کریں گے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب: بالکل غلط اور حماقت ہے۔ جنتی بیوی اپنے جنتی شوہر کے ہمراہ ہو گی۔ کنواری لڑکی تو کسی شادی شدہ کو مل سکتی ہے لیکن کسی جنتی کی دنیاوی منکوحہ جنت میں کسی دوسرے کو نہیں مل سکتی۔
سوال: اگر کسی عورت کی دنیا میں دو شادیاں ہوئی ہوں اور وہ جنتی بھی ہو اور اس کے دونوں دنیاوی شوہر بھی جنتی ہوں تو عورت کس شوہر کے ساتھ ہوگی؟
جواب: اس صورت میں چند باتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ اسے اپنا جنتی شوہر چننے کی اجازت دے دے۔ دوسرا یہ کہ آخری شوہر ہی اس کا جنتی شوہر بھی ہو۔ آخری بات ہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ عورتوں کی جانب سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ جن عورتوں نے ایک سے زیادہ شادی کی ہوتی ہے جنت میں جانے کے بعد وہ کس شوہر کے ساتھ ہوں گی۔ اس حوالے سے اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ عورت کی فطرت توحید پر مبنی ہوتی ہے اور نیک عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی ہے۔
ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ فرمایا؛ عورت کے اگر دنیا میں دو شوہر ہوں گے تو آخرت میں جس کو بھی اچھا پایا منتخب کرے گی۔
 آنحضرت نے ایسا نہیں فرمایا کہ دونوں کو انتخاب کرے گی ، بلکہ فرمایا بہترین کو انتخاب کرے گی۔ یہ اس بات کی صراحت ہے کہ دنیاوی عورت کا جنت میں ایک ہی شوہر ہوگا۔ اور یہی حیا دار عورت کی فطرت ہے۔
نیز حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے آخری شوہر کے ساتھ ہوگی۔
سوال: مردوں کو تو جنت میں حوریں ملیں گی، جنتی عورتوں کو کیا ملے گا؟
جواب : قرآن میں جنت کو بیان کرتے ہوئے جس طرح اس میں مردوں کے لیے حوروں اور شراب طہور کے تحفوں کی بشارت دی گئی ہے اسی طرح عورتوں کو رنگ برنگے لباس، محلات اور زیورات کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔ حوروں سے لذت اندوزی کے سوا جنت میں جو نعمتیں آدمی کو ملیں گی وہی سب نعمتیں عورتوں کیلئے بھی ہیں۔ بلکہ حور عین بھی جنتی خواتین کو بطور کنیز ملیں گی۔ کیونکہ یہ جنتی عورت سب حوروں کی ملکہ ہوگی۔
 مردوں کو تو جنت میں اُن کی بیویاں، جنتی عورتیں اور حوریں ملیں گی۔ جبکہ جنتی عورتوں کو ان کے جنتی شوہر ملیں گے۔ جن عورتوں کے شوہر جنتی نہ ہوں گے تو انہیں جس طرح اللہ چاہے گا دوسرے جنتی انسان بطورِ شوہر ملیں گے۔
جو میاں بیوی جنّت میں جائیں گے وہ وہاں بھی اکٹھے رہیں گے اور جس عورت کا شوہر معاذ اللہ عزوجل جہنّم میں جائے گا اُس کا کسی جنّتی مرد کے ساتھ نکاح کر دیا جائیگا۔
سوال: کیا جنت میں حوریں اتنی وافر تعداد میں ہوں گی کہ ہر جنتی کو ملیں گی یا شروع والوں کو مل کر ختم ہو جائیں گی؟
جواب: جنت کی کوئی چیز ، کوئی نعمت کبھی ختم نہ ہوگی۔ اس کی نعمتوں کو زوال یا اختتام نہیں۔ حوریں بھی ہر ایک کو ملیں گی، بہت وافر ہوں گی۔پھر بہت سی حوریں وہ ہیں کہ جنت کے درختوں پر پھلوں کی طرح اگیں گی، جس کو چاہے اپنے پاس بلالے یا درخت سے توڑ کر اپنے محل میں لے آئے۔توڑی ہوئی جگہ پر نئی حور اگ آئے گی۔کس چیز کی کمی ہے اللہ کی سجائی ہوئی جنت میں۔ ہر خواہش پوری ہوگی، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔اللہ سے بڑھ کر کس کا وعدہ سچا ہو سکتا ہے۔دل کے سب ارمان پورے ہوں گے۔پہلے حوروں کے چاہنے والے تو بنو۔
سوال: کیا جنت میں بھی پردہ ہوگا؟
جواب: جی ہاں۔ جنت میں بھی پردہ ہوگا۔ حور عین کے دوپٹے اور اوڑھنی کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔ اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ بعض جنتی بعض کو نہ دیکھ سکیں گے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد جنتی کی دنیاوی بیوی کا جنتی حور یاپھر اپنے جنتی شوہر کی دوسری بیویوں کو نہ دیکھنا ہو۔
سوال: کیا وقت کے ساتھ جنتی حوروں کا حسن اور جسم بھی ڈھلے گا؟
جواب: جی نہیں۔ جنت کی کسی چیز پر زمانے کے اثرات نہیں آتے۔ ہر ایک جوان رہے گا، ہر ایک ہمیشہ صحتمند اور طاقتور رہے گا۔ حوریں بھی سدا بہار رہیں گی۔ اور جنتی انہیں ہمیشہ کنواری پائیں گے۔
سوال: کیا ابھی حوروں سے نکاح ممکن ہے؟
جواب: حوروں سے نکاح بعد از قیامت ہوگا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ حوروں سے جنتی کا نکاح تو ہو چکا ہے لیکن انہیں ہاتھ لگانے کی اجازت بعد از دخول جنت ہوگی۔ اسی لئے شہیدوں کو لینے آنے کیلئے حور عین بیوی کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی کی جس دن جناب سیدہ سے شادی ہوئی تھی اس سے دو ہزار سال پہلے آپ کا نکاح جنت کی حور سے ہوگیا تھا۔ یہ حور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے حسن پر پیدا کی گئی ہے۔
سوال: کیا آدمی کے سوا بھی حور کا کسی اور سے نکاح ہو سکتا ہے؟
جواب: حوروں کی پیدائش ہی جنتی مردوں کیلئے کی گئی ہے۔ حور کا جوڑا صرف آدمی ہے۔
سوال:کیا حوریں شیشے کی مانند شفاف اور ٹرانسپیرنٹ ہوں گی؟
جواب: حوروں کی ٹرانسپیرنسی کا کچھ ذکر تو احادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔ اس کی پنڈلی کے گودے کے دکھائی دینے والی حدیث بہت مشہور ہے۔اور حوروں کے جسموں کا آئینے کی مانند ہونا بھی احادیث سے ثابت ہے کہ جنتی اس کے چہرے اور سینے میں اپنا چہرہ دیکھے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ اپنا ہاتھ اس کی پشت پر رکھے گا تو اسے اس کے سینے میں سے دیکھے گا۔ ایک بات بالکل یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ حور عین آئینے کی مانند بھی ہوں گی اور شیشے کی مانند بھی۔
سوال: اگر حوروں کی پنڈلی کا گودا بھی دکھائی دے گا تو باقی اندرونی اعضاء بھی دکھائی دیں گے؟ یہ تو شدید کراہیت پیدا کرے گا؟
جواب: باقی اندرونی اعضاء جیسے دل، جگر وغیرہ کے بارے میں مجھے کسی حدیث میں کوئی صراحت نہ ملی۔ تاہم ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ جنتی مرد اپنی حور پر رغبت کرے گا اور اس سے بوس و کنار اور جماع کا مشتاق ہوگا اور وہ بھی مشتاق ہوگی بلکہ اس مقصد کیلئے خوب پیار دلائے گی، اور یہ تبھی ممکن ہے جب کراہت والی ہر چیز سے وہ دور ہو۔ تمام دنیاوی مکروہات سے حور کا پاک ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ ازواج مطہرات یعنی پاک بیویاں۔ بہر حال آپ مطمئن رہیں اور دل جمعی سے اعمال کرتے رہیں۔ جنت میں کوئی کراہیت والی شئے نہ ہوگی۔
Question: I’ve a question, not about hoor, but about slave-girls. Will you allow me please?
Answer: Sure, you may.
Question: Have you read these Ahadith?
First Hadith: Narrated through Hamad Ibn Salama from Thamana Ibn Abdullah Ibn Anas from his grandfather Anas who said: “The slave-girls of Umar were serving us with uncovered hair and their breasts were shaking/wobbling.
Second Hadith: Nafe’e narrated that whenever Ibn Umar wanted to buy a slave-girl, he would inspect her by analyzing her legs and placing his hands between her breasts and on her buttocks
Answer: Yes, I’ve read these Ahadith Shareef. The second one is as follows, but no more questions about slave-girls please.
عن نافع ، عن ابن عمر ” أنه كان إذا اشترى جارية كشف عن ساقها ووضع يده بين ثدييها و على عجزها
سوال: غلمان کیا ہیں؟ اور یہ کیسے ہوتے ہیں؟
جواب: یہ جنتی لڑکے ہیں اور ان کے بارے میں کئی اقوال ہیں۔ مجھے جو قول سب سے پسند ہے وہ یہ ہے کہ یہ اوپری جسم سے لڑکے ہوں گے اور باقی جسم لڑکیوں کا سا ہوگا تاکہ جنتی کو ان پر کسی قسم کی غیرت نہ آئے کہ ان کا ان کے محلوں میں کثرت سے آنا جانا ہوگا۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ جنت میں غیرت کی وجہ نہ ہوگی لیکن غیرت کا آنا ممکن ضرور ہوگا۔
سوال: کیا پریوں کا کوئی وجود ہے؟ یا یہ بھی حور کا ہی ایک دوسرا نام ہے؟
جواب: بیشک پریوں کا وجود ہوتا ہے اور یہ حوروں سے ایک الگ وجود ہیں۔ اعلیٰ حضرت کے ملفوظات شریف میں جو پریوں کا ذکر ہے اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ پریاں جنات کی خواتین اور مادہ جن ہیں جنہیں آپ جنّی یا جنیہ کہہ سکتے ہیں۔ بہار شریعت میں یہ مسئلہ موجود ہے {مسئلہ ۱۶: جِنّ یعنی پری سے جماع کیا تو جب تک انزال نہ ہو، روزہ نہ ٹوٹے گا۔نیز یہ بھی درج ہے کہ مسئلہ ۲: مرد کا پری سے یا عورت کا جن سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ }جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریاں جنیوں ہی کو کہا جاتا ہے۔ لیکن ابن عربی کی فتوحات مکیہ میں ایک ایسی زمین کا سفر نامہ بھی موجود ہے جسے حضرت آدم کی بچی ہوئی مٹی سے بنائی گئی کھجور کی باقی ماندہ مٹی سے بنایا گیا ہے۔ وہاں انہوں نے جن خواتین کا ذکر کیا ہے وہ جنت کی حوروں سے بھی کروڑوں گنا زیادہ خوبصورت ہیں۔ بلکہ فتوحات مکیہ میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ وہاں کی عورتوں کا حسن جنت کی حوروں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے جنت کی حوروں کا حسن دنیا کی عورتوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتا ہے۔ آپ نے ان کے تیزی سے گردش کرتے پروں کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ بیشک پریوں کے ساتھ خوبصورت پروں کا تصور لازمی ہے۔ یہی ان کے نام کی اصل وجہ ہے۔ ابن عربی وہ عظیم بزرگ ہیں جو نہایت سریع الکشف ہیں اور آپ کی بات کا انکار خطرے سے خالی نہیں۔علم کی جس گہرائی کی آپ بات کرتے ہیں وہاں تک پہنچنا کئی اولیاء کو بھی نصیب نہیں ہوتا۔
سن 2015 عیسوی سے ایک حسین غیبی وجود میرے ساتھ ہوگیا تھا۔ میں نے آسانی کی خاطر اس کے مادہ ہونے کی وجہ سے اسے مؤکلات کی مؤکلہ کہنا شروع کردیا، حالانکہ مؤکلات کی کوئی مادہ نہیں ہوتی۔ میری یہ مؤکلہ مجھ سے بے انتہا محبت کا اظہار کرتی، اکثر میری تنہائی اور پریشانی میں آن موجود ہوتی۔ اس نے مجھے کبھی مجھے تنگ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مجھے خوش کرنے کیلئے دنیا جہان کی خبریں دیا کرتی۔ اس کی دی ہوئی خبروں کو میں نے ہمیشہ سچا پایا۔
ایک بار کرن میں ڈی پی ای کے سلسلے میں ہمارا ایگزام تھا۔ ڈی پی ای ہمارے ادارے کی ایک بہت غلط پالیسی تھی اور اس کا سارا نقصان اسٹاف لیول کے لوگوں کو تھا۔ میں بھی اس کے متاثرین میں سے تھا۔ خیر ہم کرن پہنچے اور امتحان حال کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ جس وقت امتحانی پرچے بانٹے جا رہے تھے، میری یہ پری مؤکلہ امتحان ہال میں آگئی۔ ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھا، وہ بہت خوش تھی۔ اڑتے ہوئے میرے پاس آئی اور میری امتحانی کرسی کے رائٹنگ پیڈ پر بیٹھ کر اٹھکھیلیاں کرنے لگی۔ میں نے اسے اشارے سے منع کیا تو اس کی شوخی اور بڑھ گئی اور قد چھوٹا کرکے اڑتے ہوئے میرے گال کے پاس آئی اور اپنے تیزی سے گردش کرتے پروں سے میرے گال کو مس کیا۔ عجیب لمس تھا اس کے پروں کا، گدگداتا اور لبھاتا لمس۔ میں نے قلت وقت کی وجہ سے اسے ناراضگی سے گھورا تو اپنا قد مزید کم کرکے میرے قلم سے لٹک کر جھولنے لگی۔میں نے دھیمی آواز سے کہا کہ محترمہ، میرا پرچہ شروع ہوچکا ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ کہنے لگی کہ میں نے کب روکا ہے؟ دو پرچہ۔ میں نے کہا کہ میرا قلم چھوڑو گی تو کچھ لکھوں گا۔ وہ شوخی سے ہنسی اور اڑتے ہوئے میرے کان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کا تو ویسے ہی ہوجائے گا۔ یہ کہا اور اڑتے ہوئے اپنا قد بڑا کرکے دور چلی گئی۔
میں مطمئن تھا کہ پرچہ بہت اچھا ہوا ہے اور میری پری مؤکلہ نے بھی کہا ہے تو ضرور ہو ہی جائے گا۔ لیکن مجھے شدید حیرت کا جھٹکا لگا جب میرا نام کامیاب ہونے والوں کی فہرست میں نہ تھا۔ بیشک اسٹاف دشمن پالیسی ساز کب چاہتے تھے کہ ایسا ہو، لیکن آج تک ایسا نہ ہوا تھا کہ پری مؤکلہ نے جو خبر دی ہو اور وہ پوری نہ ہوئی ہو۔ تو یہ کیسے ہوگیا کہ اس کی خبر غلط نکلے۔
اگلے سال پھر وہی ہال تھا، وہی لوگ اور وہی امتحان۔ حسب معمول میری پری مؤکلہ آن موجود ہوئی، لیکن اس بار میرے پاس نہیں آئی، جانتی تھی کہ میں اس بارے میں اس سے ناراض ہوں۔لیکن دور سے ہی اشاروں میں تسلی دی اور کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں، آپ کا تو ویسے ہی ہوجائے گا۔ پھر سارے امتحان ہال میں اڑتی رہی۔ نتیجہ اس بار بھی وہی تھا۔مجھے اس جھوٹی مؤکلہ پر بہت شدید غصہ آیا۔ کتنا کھیلی تھی مجھ سے وہ۔ ہزار خبریں سچی دینے کے بعد ایک جھوٹی ہوجائے تو اسے سچا کہتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اس بار تو ڈی پی ای کی پوری پالیسی ہی بدل گئی تھی۔ لوہے کے چنے جیسی سخت پالیسی بعد کے بہت سے لوگوں کیلئے موم ہوگئی تھی۔ لیکن بہت سارے سینیئر لوگ بد نیتی پر مبنی اس پالیسی کی غیر شفافیت کا شکار ہوگئے تھے جن میں سے ایک میں بھی تھا۔ اب تو ظاہری ہر امید بھی ختم ہو چکی تھی۔ تاہم ایک خیال آیا کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز ہمارے اندازے کے مطابق ہوتی چلی جائے۔ پری مؤکلہ نے امتحان میں کامیابی کی خبر کب دی تھی؟اس نے توکہا تھا کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کا تو ویسے ہی ہوجائے گا۔ بیشک اس نے کوئی سال کب بتایا تھا، اور کب یہ کہا تھا کہ اس امتحان کے باعث آپ کا نام کامیاب ہونے والوں کی فہرست میں آجائے گا۔ اس نے تو کہا تھا کہ آپ کا تو ویسے ہی ہو جائے گا۔
اس پری مؤکلہ کے بارے میں اپنے ایک دوست کے علاوہ میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ بتانے کی ضرورت بھی کیا تھی؟ کون یقین کرتا؟ سب مذاق اڑاتے اور نقصان اٹھاتے۔ سچ کو جھٹلانا کبھی فلاح کا باعث نہیں ہوتا۔ تاہم یہاں اس لئے تحریر کردیا کہ آپ سب لوگ تو میرے اپنے ہیں، یقین کرنے والے۔ اپنے شیخ کی بات آپ کیلئے تو بیشک درست ہے۔ کوئی اور مانے نہ مانے، آپ تو ضرور مانیں گے۔ یہ مؤکلہ بعد میں بھی میرے پاس آتی رہی، لیکن پھر میری توجہ اس کی طرف  سے ہٹ گئی۔ اب اگر کسی خاص صورت میں آتی ہے تو ایک نظر ڈال لیتا ہوں، ورنہ اپنے کام سے کام رکھنا سے بہتر پالیسی اور کیا ہوسکتی ہے؟
سوال: کیا جل پریوں کا وجود حقیقی ہے؟
جواب: جَل پَری ''یعنی''پانی کی پری۔'' اورجل مانَس یعنی دریائی انسان محض افسانوی کردار ہیں تا حال ان کا کوئی سائنسی ثبوت منظر عام پر نہیں آیا، البتّہ حیوانیات پر لکھی قدیم کتب میں اس طرح کی مچھلیوں کا ذِکر ملتا ہے کہ جن کی شکل یا بعض اعضاء انسانوں سے کسی حد تک ملتے جلتے ہیں ۔
بنات الماء (پانی کی عورتیں) کا تذکرہ حیات الحیوان میں موجود ہے اور مصنف نے ان کے کئی واقعات بھی تحریر کئے ہیں اور بتایا ہے کہ یہ مچھلی کی مانند مخلوق ہے اور اس کا اوپری دھڑ عورت کی مانند اور نچلا دھڑ خوبصورت اور رنگین مچھلی کا ہوتا ہے۔ حیات الحیوان کے مصنف نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ماہی گیر ان کو پکڑ کر ان سے عیاشی کرنے کے بعد پھر سمندر میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تاہم یہ اس دور کی بات ہے جب پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا موجود نہیں تھا اور ایسی کسی بات کی تصدیق کرنا یا جھٹلانا ممکن نہ تھا۔ یہ جل پری، آسمانی حور کی طرح کسی دوسرے عالم کی مخلوق نہیں بلکہ ہماری دنیا کے اسی عالم کی ہے۔ اور اس عالم کی ہر چیز کو میڈیا پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اب تک کسی طرف سے بھی ایسی کوئی چیز کسی میڈیا پر پیش نہیں کی گئی۔ افسانوی فلموں میں البتہ انہیں دکھایا جاتا ہے۔آپ کی بات کے جواب میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ افسانوی دنیا کو چھوڑ کر اب تک ان کا وجود کسی کو نہیں ملا۔حقیقی دنیا میں رہنے والوں کو ان پر یقین کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
سوال: کیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ اللہ کی رضا کی خاطر اعمال کئے جائیں؟ اور حوروں کی چاہت کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہ کیا جائے؟
جواب: اللہ ہمارا اور عالمین کا رب ہے اور حور اس کا انعام۔ بیشک منعم کی ذات انعام سے زیادہ عظیم ہوتی ہے۔ اعمال  خالصتاً اللہ کی رضا کیلئے کئے جائیں۔  لیکن اللہ سے اس کا انعام ضرور مانگا جائے۔  جب حضرت علی اللہ پاک سے اعلی حور طلب فرما رہے ہیں، جیسا کہ اوپر گزرا،  تو باقی ہما و شما کس گنتی میں ہیں؟ جبکہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ کھانوں پر ٹوٹ کے پڑ رہے ہیں، دعوتوں میں ہزاروں روپے صرف ایک وقت کے کھانے پر صرف  کئے جارہے ہیں اور دعوتوں کے پیچھے مرے جا رہے ہیں،  کوئی مشروب نہیں چھوڑا جا رہا، مچھلی تو کجا، لوگ جھینگا تک کھاجاتے ہیں،  زبان تو کجا، لوگ  گردے، کٹاکٹ اور بٹ اور اوجھڑی تک نہیں چھوڑتے، مرغی تو کجا، لوگ اس کے پنجے تک نہیں چھوڑتے،  جنتی حور تو کجا، دنیا کی چڑیل کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، کوئی ایسی چیز جسے انسان دنیا میں کسی بھی حوالے سے نعمت سمجھتا ہو، اسے حاصل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ایسا شخص کہے کہ مجھے حوروں سے کوئی غرض نہیں، سبحان اللہ!  اسے تو یہی کہا جائے گا کہ اے کاش! تجھے حوروں سے ہی کوئی شغف ہوتا تو انہی کی خاطر ہی سہی، نیک اعمال اور مجاہدے تو کرتا، راتوں کو اللہ کے حضور طلب حور میں ہی سہی، گڑگڑاتا اور گریہ و زاری تو کرتا۔ دنیا کی عارضی اور فانی نعمت پر تو سب سے بڑھ کر تو خود ٹوٹ کر پڑتا ہے اور اپنے آپ کو ہی اس نعمت کا سب سے بڑا حقدار سمجھتا ہے، اور باقی اور لا زوال نعمت سے صرف نظر کرتا ہے،  یہ صرف تیرے دل کا ایک بہلاوا ہے جس سے تو خود تو خوش ہوسکتا ہے، لیکن اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ تیرا حوروں پر عقیدہ ہی نہیں، بلکہ آخرت پر ہی تیرا یقین کمزور ہے۔  اپنے یقین کی کمزوری کو اخلاص کے پردے میں مت چھپا۔  تجھے پاک حوروں سے زیادہ دنیاوی غلاظت والی کنیزوں میں رغبت ہے، اور کیا ہوتی ہے مادہ پرستی؟ اپنے مادہ پرستانہ ذہن کی سوچ کو اخلاص کا لبادہ مت پہنا۔
"مجھے حوروں میں کوئی رغبت نہیں" اسی کے منہ پر سجتا ہے جو دنیاوی نعمتوں اور لذتوں سے دور بھاگتا ہے اور اللہ کی خاطر بہت ساری جائز اور حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دیتا ہے۔ تو اللہ سے کیا محبت کرے گا، تو تو کسی حور سے محبت کے لائق بھی نہیں۔کیونکہ اس کے حصول کیلئے بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آخرت پر ہی یقین کمزور ہو تو حور پر یقین کیسے پختہ ہو سکتا ہے؟  قربان جائیے علامہ کی نبض شناس نظر پر، آپ نے اسی لئے تو دور حاضر کے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
تاہم ایک بات ضرور یاد رکھنے کی ہے، طلب حور "مزید" والوں کیلئے ایک سنگ میل ہے، منزل نہیں۔ لیکن منزل اسی کو ملتی ہے جو سنگ میل کو عبور کرجائے۔ جس طرح اللہ کا ذاکر بننے سے پہلے بظاہر عامل بننا پڑتا ہے، اس کے بنا بندہ ذکر کثیر نہیں کرسکتا، اسی طرح طلب حور کو بھی سمجھ لیں۔ جو چلتا رہا، منزل کو پالے گا۔  لیکن جو حور سے پہلے رک گیا، اسے منزل تو کجا، حور ملنا بھی محال ہے۔  جس طرح ولی بننے سے پہلے عالم اور نیک و  کار بننا ضروری ہے، اس کے بغیر بندہ ولی نہیں بن سکتا، اسی طرح  حوروں کی محبت اور رغبت بھی حصول اخلاص کیلئے ضروری ہے۔  آپ اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں، ایک لاکھ جوانوں میں سے ایک ہی ایسا نظر آئے گا جس کے دل میں حور سے ملاقات کا شوق موج زن ہو، آج کے نوجوان کی حوریں موبائلوں پر ہوتی ہیں، فرضی حوریں، جس کا حاصل حصول کچھ نہیں۔حقیقی حوروں کو بھول کر جانے کن بھول بھلیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اللہ سمجھ دے۔
سوال: کیا حوروں کو دیکھنا ممکن ہے؟
جواب: جی بیشک ممکن ہے۔ حوروں کو دیکھنا فرشتوں کو دیکھنے سے زیادہ آسان ہے۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات شریف میں اپنے فرشتوں کو دیکھنے کا تذکرہ فرمایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اخلاص، مجاہدوں اور ریاضتوں سے چمکا ہوا اور اجلا دل  حد سے حد ایک ماہ یا چالیس دن میں حوروں کا دیدار کرسکتا ہے۔ ایسے شخص کو صرف اپنی توجہ ان احادیث کی طرف مبذول کرنا ہوگی جن میں جنت اور حوروں کی صفات عالیہ کا دو جہان کے سلطان نے ذکر کیا ہے۔ اس کیلئے یہی آپ کے زیر نظر رسالہ "حور تجلّا" پڑھنا بھی بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس میں ایسی تقریباً تمام ہی احادیث کو جمع کردیا گیا ہے۔ جب آپ کی توجہ کامل اس طرف ہوجائے گی، اللہ اپنے کرم سے آپ  پر یہ دروازہ بھی کھول دے گا۔  بلکہ بہتر تو یہی ہے کہ آپ انہیں دیکھنے کی لازمی کوشش کریں۔
01.  ایمان کامل:
ہمارے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ غیب کا شہود بننا ایمان کامل کی علامت ہے۔ دنیا پرستی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر وقت دنیا کی چیزوں ہی کا سوچتے رہتے ہیں۔ اور غیب میں ہماری ایمانیات کی جتنی چیزیں ہیں، ان کے بارے میں سوچ بچار ہی نہیں کرتے، نہ ان کا تصور باندھنے کی کوئی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ایک دو نہیں، بیشمار چیزیں ہیں۔ جنت، دوزخ، پل  صراط، میزان، نامۂ اعمال، حساب کتاب، موت، عالم برزخ، فرشتے، منکر نکیر، جبریل، میکائیل، عرش، حاملین عرش، روح، روح کا جسم میں آنا، جان کا نکلنا، جنت کی نعمتیں، وہاں کے پھل اور شہد اور دودھ کی نہریں، حوریں، شراب طہور، رضوان، مالک، عقوبات دوزخ، دوزخ کا چنگھاڑنا، جوش کھانا، قیامت اور اس کے بیشمار متعلقات۔۔۔۔ ہم ان میں سے کسی چیز کا تصور نہیں باندھتے۔ مادہ پرستی کی سوچ ہمیں لوہے اور تانبے سے باہر ہی نہیں نکلنے دیتی۔ سونے کے ایسے منحوس چکر میں ہماری زندگی پھنسی ہوئی ہے جس سے ہم باہر ہی نہیں نکلنا چاہتے۔
02.  غیب میں جیو:
ایک وقت تھا کہ لوگ زبان رسالت سے حور کا تذکرہ سنتے تو تصدیق کیلئے آتے کہ کیا ہمیں بھی یہ ملے گا۔ جواب اثبات میں پاکر بے دریغ جنگ میں کود جاتے اور ان سے کیا گیا وعدۂ حور اللہ کی طرف سے وفا کردیا جاتا۔ کئی جوانوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے ایک آیت کی بشارت یا تنبیہ سن کر جان دے دی۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوتا تھا؟ وہ بھی انسان ہی تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ غیب کی اس دنیا میں رہتے تھے جس کے ذکر سے قرآن و حدیث بھرے ہیں، اور ہم اس دنیا میں رہتے ہیں جس کی مذمت سے قرآن و حدیث بھرے ہیں۔
حوروں کی چاہت درجے کے اعتبار سے اعلی ہو یا ادنی، ایک بات ضرور ثابت کر دیتی ہے کہ  حوروں کی چاہت میں اعمال کرنے والے کو وعدۂ الہیہ پر کامل یقین ہے۔ کیا حوروں کی چاہت کا یہ انعام تھوڑا ہے؟ اپنے دل سے ہی پوچھ لو، کسی ملّا سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
دیکھو جنت کی حوروں کو، دیکھنے کی پوری کوشش کرو۔ جس کی آنکھ حور کا جلوہ نہیں سکتی، اس کی آنکھ اللہ کا جلوہ کیسے دیکھ پائے گی؟  یقین رکھو  کہ حوروں کو دیکھنا اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی ممکن ہے۔ مرد تو وہ ہے جو امپاسبل مشن کو بھی پاسبل کر دکھائے، تم دین کے کیسے جوانمرد ہو جو پاسبل کو بھی پاسبل نہیں کر سکتے؟
سوال: آدمی کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے، حوروں کی تخلیق کس چیز سے ہوئی ہے؟
جواب: حوروں  کی تخلیق حسن، حیاء، زعفران،  نور اور فرشتوں کی تسبیح سے ہوتی ہے۔ اسی لئے ان کا دیکھنا فرشتوں کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے کہ ان کی تخلیق صرف اور صرف نور سے ہوتی ہے۔ نیز فرشتوں سے حوروں کا دیکھنا اس وجہ سے بھی زیادہ آسان ہے کہ حوروں میں انسان کشش جنسی بھی پاتا ہے۔ کشش جنسی سے یہاں مراد وہ کشش ہے جو ایک جنس کو اپنی ہی جنس سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات ضرور یاد رہے کہ حوریں جنس کے اعتبار سے آدمی کا جوڑا ضرور ہیں لیکن اولاد آدم سے نہیں ہیں۔
سوال: کیا ہمارے اسلاف میں سے حوروں کو کسی نے دیکھا ہے؟
جواب: بہت سے بزرگوں نے تو ظاہری آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور مراقبے اور مشاہدے میں تو دیکھنے والوں کی کافی بڑی تعداد ہے۔ اور اس رسالے میں بھی ان بزرگوں کے کچھ واقعات بیان ہوئے ہیں۔
سوال: کیا مؤلف کتاب نے بھی حوروں کا مشاہدہ کیا ہے؟
جواب: جی ہاں، کئی بار دیکھا ہے۔ پہلی بار دیکھنے کا تذکرہ تو پہلے کر ہی چکا ہوں، اس رسالے کی مدت تالیف میں بھی بہت بار دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے، میرا اندازہ ہے کہ بارہ مرتبہ تو اس دوران مشاہدہ کیا ہی ہوگا۔ صوفی کی ایک بڑی پہچان یہ بھی ہے کہ اس کا معاملہ ذو القرنین اعظم کی مانند ہوتا ہے۔ سکندر ذو القرنین جس طرف کا قصد فرماتے تھے، اسباب خود بخود بننے لگتے تھے۔ کتابوں میں یہاں تک درج ہے کہ حضرت ذو القرنین اگر ساتویں زمین کا قصد بھی فرماتے تو اس کا سبب بھی پیدا ہوجاتا۔  ان کے اسباب کا ذکر سورت الکہف میں بھی موجود ہے۔
آج ہی دوران نماز دیکھا کہ ایک حور جنت سے بادلوں پر تشریف لائی ہیں اور جھک کر زمین پر جھانک رہی ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کسے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے اوپر سے اسے دیکھتے ہوئے دیکھا۔  اس کے لباس میں نگاہوں کو خیرہ کردینے والے بے تحاشہ رنگ اور شدید چمک تھی۔  کمپیوٹر پر کام کرنے والے رنگوں کے گریڈینٹ سے خوب واقف ہوتے ہیں، لیکن وہ کوئی اور ہی شئے تھی۔ آج کے مشاہدے میں ایک بات اور بھی ہوئی، اس بار اللہ کا نام بھی چمکتا دیکھا، سہہ جہاتی نام، جیسے لوگ اپنی گاڑیوں میں آویزاں کرتے ہیں، لیکن بہت بڑا اور شدید چمکتا، اتنا کبھی زندگی میں چمکتا نہیں دیکھا، حور عین کے کپڑوں سے زیادہ چمکتا، اس کے دانتوں اور اس کے گالوں سے بھی زیادہ چمکتا۔ بس ایسے جیسے سیر کو سوا سیر۔ مثال زیادہ عمدہ نہیں، لیکن بات سمجھانے کو کافی ہے۔ حوریں اس نام سے بہت محبت کرتی ہیں۔ اس حور کی بھی اس نام سے محبت دیدنی تھی۔
سنو حور، عین سے کہہ دینا، جس وقت میں اپنے چاہنے والے کو دیکھنے گئی تھی، تمہارا چاہنے والا تمہیں دیکھنے کو وہاں آیا ہوا تھا۔ اور اسے بتا دینا کہ وہ نہایت قد آور جوان ہے اور تم سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ تمہیں دوبارہ دیکھا تو ضرور پوچھوں گا کہ میری امانت اسے پہنچائی کہ نہیں۔ 
01.  مشاہدہ اور خیالی تصور میں فرق:
یہاں ایک بات ضرور عرض کر دوں، ذہن میں گردش کرتے خیالات اور اصل مشاہدے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مجدد صاحب نے دیدار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں اس پر کافی روشنی ڈالی ہے۔ذہن میں گردش کرتے خیالات کبھی اس نہج پر نہیں پہنچتے کہ بندہ کہہ سکے کہ میں نے دیکھا، نہ ہی وہ اس منظر کی تفصیل اور جزئیات بیان کرسکتا ہے، خیال کی بھلا کیا تفصیل؟  جسے مشاہدہ کرایا جاتا ہے اسے اسی درجے کا یقین بھی عطا کیا جاتا ہے۔ نیز یہ اپنی کوشش سے نہیں، صرف عطا سے ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ جسے مشاہدہ کرایا جاتا ہے اس کے مشاہدے کی کوئی بات دین کے مسلمہ اصولوں کے کبھی خلاف نہیں ہوتی۔
02.  مشاہدات کی حکمت:
مجھے جو مشاہدات کرائے جاتے ہیں وہ کبھی نہ کبھی میری کسی نہ کسی تحریر میں ضرور جھلک جاتے ہیں۔ جس موضوع کی تحریر ہوئی، صرف اسی سے متعلق اگر کوئی مشاہدہ ہوا ہو تو ضرور تحریر کرتا ہوں۔کئی بار سوچا کہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، آخر وہ کیوں دیکھتی ہے؟ کیوں مجھے ان چیزوں کے مشاہدات کرائے جاتے ہیں جو اور لوگوں کو نہیں کرائے جاتے؟ کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں مجھ میں؟ میں تو انتہائی سست اور گناہگار آدمی ہوں۔ آخر کار سمجھ آ ہی گیا۔
 اللہ کی سنت یہ ہے کہ ایک کو دیتا ہے اور ایک کے وسیلے سے سب کو دیتا ہے۔ ایک سورج سارے جہان کو چمکا دیتا ہے، ایک عالم دین پوری بستی کو علم سے مہکا دیتا ہے۔ وہ ایک بندے کو چنتا ہے اور باقی سب کیلئے یقین کا سامان پیدا کردیتا ہے۔ کچھ لوگوں کیلئے میری باتیں حد درجہ یقین کا باعث ہوتی ہیں۔ وہ بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح ہمارے حضرت صاحب فرماتے تھے کہ بیشک کلمے سے سب بخشے جائیں گے، پھر فرماتے تھے کہ چلو، اگر ہمارا کلمہ پڑھنا اس درجے کا نہیں تو ہمارے مجدد صاحب نے تو پڑھا ہے کلمہ، ہمارے غوث پاک نے تو پڑھا ہے کلمہ، ہمارے کریم آقا نے تو پڑھا ہے کلمہ۔ ہم انہی کے کلمہ پڑھنے پر بخشے جائیں گے۔
جب مجھے یہ سمجھ آگیا کہ عزیز مصر کے خواب کی طرح جس میں حضرت یوسف کا حصہ شامل تھا کہ عزیز مصر کے اسی خواب کی بدولت آپ قید خانے سے باہر آئے،  اور اہالیان مصر کا بھی حصہ تھا کہ اسی خواب کی بدولت انہوں نے قحط سالی سے بچنے کی ترکیب حاصل کی، ان مشاہدات میں دوسروں کا حصہ ہے صرف میرا نہیں، تو میرے اندر کا ڈر نکل گیا۔ اب میں بے تکلفی سے وہ بات بیان کر جاتا ہوں جسے دوسرے تکلف کرکے بھی بیان نہیں کرسکتے۔  میں کچھ بھی نہیں، میں کچھ بھی نہیں، بس میرا ماہی صل علی۔

رسالۂ حوریہ تمام ہوا۔ پانسو پیرا گرافوں پر مشتمل میرے اکتیس ہزار الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ 

تبصرے

  1. حوروں کے تصور کو اب تک معمولی سمجھا تھا اب سمجھ آیا کہ یہ تو رب تعالی کی اعلی تخلیقات میں سے ایک ہے، آپ کو سیلیوٹ پیش کرتی ہوں کہ آپ نے نہایت جرات مندانہ طریقے سے اس نقطے کو
    تحریر کیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. میں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر علماۓ اسلام ہمارے نوجوانوں کی توجہ اس نعمت عظمی کی جانب دلائیں تو انہیں دور حاضر کی خرافات سے ممکنہ حد تک بچایا جاسکتا ہے، اسی نعمت کا جھانسہ دلا کر اسلام دشمنوں نے ہمارے نوجوانوں کو دہشت گردی کی راہ پر لگادیا، آپ کی یہ تربیتی تحریر پڑھ کر کتنے لوگوں کی اصلاح ہوسکتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. نعمت عظمی ہر ایک کو نہیں ملتی، یہ کسی کسی کا نصیب ہے۔

      حذف کریں
  3. یہ وہ نعمت جس کی تمنا مجاہدوں نے بھی کی اور اولیاؤں نے بھی۔ سب سے بہترین سیکشن مجھے سوال و جواب کا لگا جہاں آپ نے عموما ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کو شامل کیا اور ان کے جوابات بھی پیش کیے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ پیاری، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے

      حذف کریں
  4. نہایت شاندار تحقیق ، کیا یہ تحریر مطبوعہ ہے اگر نہیں تو کیا اسے کو کتابی صورت میں تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع کرنے کی اجازت ہوگی

    جواب دیںحذف کریں
  5. سلام عرض ہے۔۔۔آپ کے اکتیس ہزار الفاظ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے۔۔۔عنوان اور مقصد تحریر تو ایک طرف،آپ کے مشاہدات سے بہت لطف اٹھایا۔الفاظ کا چناوء اور انداز بیان نے سچ میں جنت کی سیر کروا دی۔۔۔بہت نوازش آپ کی۔ایک سوال ہے اگر جواب مرحمت فرما دیں تو؟؟؟

    روحانیت کے سفر میں آپ کو ہلکا سا چسکہ لگوا کے مشاہدات کا سلسلہ موقوف کر دیا جائے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟کسی ناراضگی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے یا ہجر و فراق سے گزارا جاتا ہے؟ان دو باتوں میں فرق کیسے پتہ چلے؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. کبھی ناراضگی کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے، لیکن اکثر ایسا شوق دلانے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ جو چیز آپ کو حاصل ہے اس کی اہمیت کو اچھی طرح سے سمجھ سکیں۔ اہلِ تصوف اسے قبض و بسط سے تعبیر کرتے ہیں۔ تاکہ آپ اللہ سے اس کی دعا کرتے رہیں اور اس کیلئے کوششیں کریں۔ شکریہ

      حذف کریں
  6. میرا حملِ ہذا تحریر سے سوال ہے کہ مردوں کو تو حوریں ملیں وہ بھی سیکس کرنے کیلئے، لیکن ماں بہن بیٹی کو کو سیکس کیلئے کیا اور کون ملے گا؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اس رسالے میں اس کا مکمل جواب موجود ہے، بس تھوڑی سی زحمت گوارا کرلیں پڑھنے لی۔

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع