Be & Become The True Lover Of The Prophet (ﷺ)

ایمان بِاالرَّسُوْل کی اہمیت
1.            تمہید:
قرآن پاک کی ایک آیت بہت تعجب میں ڈالتی ہے۔ آج اسی آیت پر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ قبولیت کے کانوں سے سماعت فرمائیں گے۔ پہلے آیتِ مبارکہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ اپنی رحمت کے دو حصے تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور کردے گا جس میں چلو اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں ایمان والوں سے کہا جا رہا ہے کہ رسول پر ایمان لاؤ۔ یا اﷲ! وہ تو پہلے ہی ایمان والے ہیں، وہ تو پہلے ہی تیرے نبی کو ماننے والے ہیں جبھی تو انہیں ایمان والا کہا گیا ہے۔ ورنہ تو وہ کافر ہوتے ۔
فلسفے اور منطق کا اصول ہے کہ حصولِ حاصل، لا حاصل ہوتا ہے۔ اور اللہ اس بات سے پاک ہے کہ اپنے کلام میں کسی لا حاصل بات کا تذکرہ فرمائے کیونکہ اللہ پاک کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ لیکن جو پہلے ہی ایمان والے ہیں، انہی سے فرمان ہوتا ہے کہ ایمان لاؤ تو یہ بظاہر بہت عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔

اس بات کا مفسّرین نے ایک جواب یہ دیا ہے کہ یہاں ایمان والوں سے مراد گزشتہ امّتوں کے صاحبانِ ایمان لوگ ہیں۔ سبحان اللہ! یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے جبکہ
1.   قرآنِ پاک میں کم و بیش ۸۹ بار ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ کے الفاظ سے مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور کہیں بھی اس سے اہلِ کتاب مراد نہیں۔
2.     اہلِ کتاب کو جب ایمان لانے کا حکم ہوا تو یوں ارشاد ہوا ﴿ يَٰأَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَٰبَ ءَامِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم
3.   باقی تمام لوگوں سے ایمان لانے کا کہا گیا تو یوں خطاب ہوا ﴿ يَٰأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ
4.    اور جب منکرین اور کافروں سے حکم ہوا تو یوں ارشاد فرمایا گیا کہ ﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ
5. ﴿ يَٰأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ کا پیارا صیغہ صرف اور صرف مسلمانوں سے خطاب کیلئے ہے۔ اور قرآنِ پاک میں دو بار مسلمانوں کو اس صیغے سے رسول پر ایمان لانے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا ﴿ يَٰأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ اور دوسری جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ان آیات میں ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ کے پیارے الفاظ سے خطاب صرف اور صرف اُمّتِ مُسلمہ سے ہے، یعنی ہم مسلمانوں سے۔
2.            رسُول ﷺ پر ایمان عام ایمان نہیں:
جنّت، دوزخ، برزخ، قیامت، پلِ صراط، میزان، تقدیر، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور اﷲ ﷻ کے سارے نبیوں اور رسولوں پر ہمارا ایمان ہے۔ لیکن کیا ہر ایمان ایک سا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ایمانیات کی باقی چیزیں غیب میں ہیں، بن دیکھے ان پر ایمان لاتے ہیں، لیکن اﷲ کے رسول کی بابت ایسا نہیں ہے۔ آقائے دو عالم کی پاک ہستی ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان رہی، انہوں نے آپ کو دیکھا، پرکھا، اور جس نے جانچنا چاہا، جانچا اور آخرش آپ کے عشق میں گھائل ہوا اور اسلام لے آیا۔ آپ کی عظمت اس کے دل میں گھر کر گئی اور ہمیشہ کیلئے آپ کی اداؤں کا اسیر ہوا۔
رسول پر ایمان ہر طرح سے امتیاز رکھتا ہے۔
1.   آپ پر ایمان دراصل ایمان بالمُشاہدہ کی مانند ہے۔
2.    آپ مسلمانوں کے ایمان و عقائد کی اصلاح فرماتے ہیں، ایمانیات کی دیگر چیزوں کو یہ شرف حاصل نہیں۔ جنّت و دوزخ اور فرشتوں وغیرہ کو یہ شان حاصل نہیں۔
3.   آپ پر ایمان، ایمان کا جزو نہیں بلکہ کل ایمان ہے جیسا کہ کلمۂ طیّبہ سے ظاہر ہے۔ کلمۂ طیبہ کلمۂ ایمان ہے اور اس میں اﷲ اور اس کے مقدّس و محترم رسول کے سوا ایمانیات کی کسی دوسری شئے کا ذکر نہیں ہے۔ کلمۂ طیّبہ پورا ایمان ہے۔
4.    جنّت و دوزخ، برزخ، قیامت، فرشتے، کتابیں اور ایمانیات کی دیگر چیزیں آپ سے محبت اور ساتھ نہیں چاہتیں جبکہ رسول اکرم آپ سے اپنی محبت اور ساتھ چاہتے ہیں۔ سفر ہو یا حضر، آپ اپنے امتی سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ سے محبت کرے، آپ کا ساتھ ہی تو ایمان کا تقاضہ ہے۔
الغرض ایسی بہت سی باتیں ہیں جو یہ واضح کرتی ہیں کہ رسول پر ایمان دیگر چیزوں پر ایمان کی مانند نہیں بلکہ جس طرح آپ کی ذات بے مثال اور ممتاز ہے، اسی طرح آپ پر ایمان بھی ممتاز ہے۔ آپ پر ایمان عشقِ رسول کا تقاضہ کرتا ہے۔
اسی حقیقت کی طرف حضرت سلطان باھوؒ یوں اشارہ فرماتے ہیں کہ
ایمان سلامت ہر کوئی منگے، عشق سلامت کوئی ھو
جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان خبر نہ کوئی ھو
قربان جائیے سخی سلطان باھوؒ کے فہمِ دین پر۔ ایمان کے بعد ایمان کیلئے عشق سے بہتر اور کون سا لفظ ہو سکتا تھا۔
3.            عاشقِ رسولِ بنیں:
سادہ  الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو اس آیتِ مُبارکہ میں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اے مسلمانو! میرے رسول پر ایمان کو صرف ایمان تک محدود نہ سمجھنا بلکہ مسلمان ہونے کے بعد عاشقِ رسولِ اکرم ہو جانا۔ محض ایک عام مسلمان مت بننا بلکہ حضرت بلالؓ جیسا بننا، حضرت عمّار ؓ جیسا بننا، ذاتِ پاکِ مُصطَفیٰ پر اپنا تن، من، دھن سب کچھ قربان کر دینے والے  صدّیقِ اکبرؓ سے ایمانی سیکھنا،  اگرچہ مسلمان تو اور بھی ہیں لیکن تم اعلیٰ درجے کا مسلمان بننے کی ہی کوشش کرنا۔
4.عاشقِ رسولِ اکرم کو کیا ملے گا؟
کوئی سوال کرسکتا  ہے کہ ایمان کے بعد عشق رسول سے ہمیں کیا ملے گا۔ اس سوال کا جواب اسی آیت میں موجود ہے۔  اﷲ ﷻ نے تین انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے جو صرف عاشقانِ رسول کیلئے مخصوص ہیں۔
1.   اللہ کی رحمت سب مسلمانوں  کیلئے ہے لیکن عاشقانِ رسول کیلئے اللہ پاک کی رحمت  دو گنا ہوگی۔ سب کو ایک حصّہ اور عاشقوں کو دو حصے رحمت۔
2.    تمہارے لئے نور ہوگا جس میں چلو گے۔ جب چلو گے، اسی نور میں چلو گے۔ نورِ علم،  نورِ ایمان، نورِ عقل، نورِ ہدایت، نورِ یقین سب تمہیں حاصل ہو گا۔  یعنی تمہیں وہ سب حاصل ہوگا  جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے،؏
جن کی خاطر مر گئے مُنْعَمْ رگڑ کر ایڑیاں
3.   اللہ تمہیں بخش دے گا۔ اللہ کی بخشش کا تمہیں یقینِ کامل ہوگا۔ دوسرے لوگ تھرتھرائیں گے اور عاشق کہے گا کہ  کل بروزِ قیامت میں  اپنا خیمہ  جہنّم کے دروازے  پر لگا لوں گا اور رسولُ اللہ کے کسی امّتی کو دوزخ میں جانے نہیں دوں گا۔ (قولِ حضرت بایزیدؒ)
5.            مسلمانو! یہ سودا نفع کا ہے:
دگنی رحمت، دنیا و آخرت کا نور اور مغفرت کی یقینی نوِید، یہ تو سراسر نفع کی تجارت ہے۔ تو اے میرے بھائیو! دوستو! بزرگو! اور میرے بیٹو! ایمان لے کر بڑھو اور جادۂ عشق پر گامزن ہوجاؤ۔ بن جاؤ عاشقِ رسول بن جاؤ نقشبندی۔ ؏
اس شان کے سودے میں خسارے نہیں ہوتے
عیدِ میلاد النّبی پر میرے 12 سو الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں