مظہر عالم

حرفِ آغاز

 ارشاد باری تعالیٰ ہے:  وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ  

ترجمہ:۔'' اور تم اﷲ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو اگر تم ایمان والے ہو۔

قرآن مجید کی اس آیت کریمہ میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے مؤمنین کو مخاطب فرمایا ہے اور مؤمنین کو تلقین اور تنبیہ کی ہے کہ جو مؤمن ہوتا ہے وہ صرف اﷲ پر تو کل کرتا ہے یعنی توکل مؤمنین کی نشانی ہے۔

ہمارے پیر و مُرشد قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی مکمل تفسیر تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی اﷲ کے توکّل پر گزار دی اور آپ ساری زندگی مریدین کو اﷲ پر توکل کرنے کا درس دیتے رہے اور لوگوں کو اﷲ اﷲ کرنے کا طریقہ سکھاتے رہے۔

اے ساقیٔ وحدت تجھ پہ فدا آباد رہے ترا میخانہ

مخمور ہوا ہے ایک جہاں پی پی کے شراب الّا اﷲ

ہمارے پیر و مرشد و قبلہ عالم کو لکھنے لکھانے کی بجائے دوستوں کی تربیت کا زیادہ خیال رہا۔ اس لئے آپ حسن اخلاق اور وظائف پر زیادہ زور دیتے اور آپ کی کوشش ہوتی کہ بندہ اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارے۔ بعض مریدین آپ کے ارشادات لکھ لیا کرتے تھے۔

جب حضور پیر و مرشد و قبلہ عالم نے ظاہر ی وصال فرمایا ، تو احباب نے اس طرف توجہ دلائی کہ پیر و مرشد کے حالات زندگی اور آپ کے ارشادات کے بارے میں کتاب تحریر کی جاوے۔ دوستوں نے اس کام کے لئے مجھے حکم دیا اور میں ٹال مٹول اور شش و پنج کا شکار تھا کیوں کہ جس کے سایۂ الفت و جمال کو میں ہر دم محسوس کرتا ہوں اور وہ آقا و پیشوا جو ہر قدم پر میری راہنمائی فرما تے ہیں، میں ان کے بارے میں کس طرح لکھوں۔

 اور اس کے ساتھ مجھے اپنی کم علمی و کم ہمتی کا احساس بھی تھا میں نے اس کا ذکر دوستوں سے کیا لیکن دوستوں نے مجھے بہت حوصلہ دیا کہ میں ہی یہ کام سب سے بہتر کر سکتا ہو ں اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔

 اب پہلا کام یہ تھا کہ آپ کے حالات زندگی اور فرمودات اکٹھے کئے جائیں یہ کام مشکل تھا اس کی ایک راہ یہ نکالی گئی کہ پرانے مریدین کو کہا کہ وہ اپنے اپنے مشاہدات مجھے لکھ کر بھیجیں۔ اس میں کافی وقت لگا۔

 دوستوں نے بھر پور تعاون کیا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ جس نے کام کیا وہ پروفیسر منظور احمد صاحب (رٹائرڈ اسلامیہ کالج فیصل آباد) ہیں۔

ڈاکٹر محمد رمضان صاحب (رنگ پور والے)

ظفر اﷲ خان او۔ ٹی ماسٹر (آف واندڑ)

حفیظ صاحب (پنڈی والے)

اصغر صاحب (چک ۳۳۶ والے )

محمد اعظم صاحب اور محمد سلیم نوری صاحب (کراچی والے) بھی خاص طور پر شامل ہیں۔

پیر و مرشد کی زندگی بڑی بھر پور زندگی تھی۔ آپ ہر لمحہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے تھے۔ ۔آپ کی حیات کے بیشمار گوشے یقیناًً مختلف لوگوں کے علم میں ہوں گے۔ ۔آپ کی زندگی کے تمام واقعات اور فرمودات اکٹھے کرنا تو خیر ممکن ہی نہیں۔ البتہ ایسے فرمودات و واقعات (جو میسر ہو سکے ) جمع کر کے اُن کی دھند لی سی تصویر بن جائے۔

 وہ اکثر فرمایا کر تے تھے کہ تم میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اور بقول پروفیسر منظور صاحب

 ''وہ ایک سمندر تھے اور ہم ساحل پر کھڑے اس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگا نے کی کو شش کر رہے تھے ''

ان کا ذکر، ان کی تمنا ، ان کی یاد

وقت کتنا قیمتی ہے آج کل

خیر خواہ

(پیر طریقت و رہبر شریعت)

میاں محمد ظفر محمود الحسن

نقشبندی مجدّدی

چوک اعظم ، لیّہ، پنجاب

  

ارشاداتِ عالیہ

پروفیسر منظور صاحب کو جو ار شا دات فرمائے وہ وقتاً  فوقتاً لکھ لیا کرتے تھے، اُنھوں نے وہ مجھے (حضرت صاحب میاں محمد ظفر محمود الحسن  ﷾کو) بھیجے۔

آپ کا ہر کام اور فرمان چونکہ قرآن و سنت کے مطابق تھا۔ اور مجھے جو آپ کے ارشادات بھیجے گئے میں نے اس میں بعض جگہوں پر قرآنی آیات و تفسیر اور احادیث کا اضافہ کیا ہے۔

1.            اللہ اللہ چاہتے ہو تو اسم ذات پڑھو

13 مارچ 79 (بروز جمعہ 17 شعبان)

 شام کے وقت ڈیرہ کے قریب نہر (تھل کینال ) کے کنارے غسل فرمایا اور مجھے (یعنی منظور صاحب کو)  میرے وظائف کے بارے میں سوال کرنے پر نصیحت فرمائی اور فرمایا۔

'' محض دُنیا کا فائدہ چاہتے ہو تو پچا س ہزار بار 'بسم اﷲ شریف' پڑھو روزانہ۔ اور اگر صرف دِین، یا اﷲ اﷲ چاہتے ہو تو روزانہ اتنا ہی اسم ذات پڑھو۔ اور اگر دونوں چاہتے ہو تو دونوں وظائف نصف، نصف، پڑھو "۔ پھر میاں صاحب نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ "یہ میرا آزمودہ نسخہ ہے۔''

''ہر چیز کا اسم اس کے قریب ترین ہوتا ہے۔ اسی طرح ''اﷲ'' کا اسم اسکی ذات کے قریب ترین ہے۔ ''

''روح '' بھی اﷲ تعالیٰ کی ذات کے قریب ترین ہے کیونکہ یہ بھی '' امرِ ربی ''ہے۔ چونکہ روح لطیف ترین ہے اور اﷲ تک پہنچ سکتی ہے بشرطیکہ یہ اسم اﷲ کو ذات حق تک پہنچنے کے لئے اپنا وسیلہ بنائے اور نفس کی مکمل طور پر مخالفت کرے۔

اسم ذات کو اتنا زیادہ پڑھے کہ ہر وقت اﷲ اﷲ کرے اور تجلیات حق میں گم ہو جائے جیسا کہ مو لانا روم ؒ نے فرمایا ہے۔ ''اﷲ اﷲ کن کہ (اسم ) اﷲ می شوی ''

غیر مسلم اپنے نفس کی مخالفت کرے تو اسکی روح کا عروج اسفل السافلین کی طرف ہو گا۔

مؤمن کی روح کا ارتقاء ذات باری تعالیٰ کی جانب ہے۔

جب تک روح قوی نہ ہو جائے نوافل کا فائدہ کم ظاہر ہوتا ہے۔ اسی لئے حضرت مجددِ الف ثانی نے ذکر کے دوران صرف فرائض اور سنتِ مؤکدہ کی تاکید فرمائی ہے۔

2.            نعت اور عشق کی تڑپ

 بروز بدھ

 بندہ نے محمود صاحب (بڑے صاحبزادے) کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ آیا آپ کو اس میں اپنے بچپن کی جھلک نظر آتی ہے ؟ فرمایا ہاں بہت زیادہ ٹھنڈے مزاج کا لڑکا ہے۔ زیادہ باتونی نہیں ہے، لیکن اس عمر تک پہنچتے پہنچتے میں نعتیں پڑھنے لگ گیا تھا جسے ابھی اس نے شروع نہیں کیا۔ چھوٹا بچّہ اس سے مختلف ہے۔ پھر فرمایا

 "میرا آدھا کا م نعت خوانی کے ذوق کا مرہون منت ہے۔ شروع میں تو صرف آواز کا سرور ہوتا ہے لیکن بعد میں عشق کی تڑپ پیدا کرنے میں نعت کو بڑا دخل ہے۔ نعت پڑہنے کے علاوہ نعت سننے میں بہت کیف و سرور ہے۔"

3.            قبلۂ عالم پر سرکار کی نظر عنایت

24 اکتوبر 1989

پیر کی نگاہ کرم کی بات چلی تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ نظر ہمیشہ خوبصورت چیزوں کو لگتی ہے۔ اتنے خوبصورت ہو جاؤ کہ تمہارے حسن کو دیکھ کر دل کھل اٹھے۔ فوراً نظر لگ جائے گئی۔ جب تک یہ بات پیدا نہ ہو نظر کچھ نہیں کرتی۔

عشقِ رسول ﷺ اور تصورِّ رسول ﷺ کی بات چلی تو فرمانے لگے  کہ اگر میرے پاس کچھ ہے تو وہ حضور ﷺ کی نظر عنایت ہے۔ ورنہ میرے پاس عمل کوئی قابل ذکر نہیں۔ ورد، وظیفے پڑھنے میں بھی سستی ہو جاتی اور بعض اوقات نمازوں میں بھی دیر سویر ہو جاتی ہے۔ بس یہ صرف اُنہیں کا کرم ہے جو تمام اعمال سے اعلیٰ ہے۔

فرمایا کہ میری عمر صرف پینتیس سال اور چند ماہ تھی میری بقیہ عمر اور اس کے لوازمات اور دیگر عنایات سب حضور ﷺ کے صدقے میں ہیں۔

4.طلب صادق

25 اکتوبر 89

حاجی احمد صدیق کے ہاں میاں صاحب تشریف لے گئے۔ وہاں پر ''طلب صادق'' کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ قریشی صاحب نے فرمایا کہ یہاں جتنے افراد موجود ہیں ان کے پیشِ نظر طلبِ مولا کے سوا کچھ نہیں۔ فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ طلب صادق اگر ہو تو انسان کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اس میں نیّت ٹھیک نہ ہو تو کوشش بھی ناتمام رہتی ہے۔ اس کے بعد آپ نے ایک استاد کی مثال دی جس نے اپنے شاگردوں کو امتحان کے نتیجے کے بارے میں سوال کیا اور سوائے ایک لڑکے کے باقی سب کو سزا ملی۔ جس لڑکے کو سزا نہ ملی اُس نے کہا تھا میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا کیونکہ میں نے محنت، کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے کی ہے۔ لہذا جو پختہ ارادہ رکھتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں۔

5.            یٰسین شریف

28 فروری 81

شام کے وقت میاں صاحب "احمد آباد" سے تشریف لائے اور سورۃ یٰسین شریف جو کسی خوشنویس سے لکھوا کر لائے تھے اسکی فوٹو اسٹیٹ دکھائی۔ ایک ہی کاغذ پر دو بار سورۃ یٰسین شریف لکھی ہوئی تھی۔ جب میں نے پوچھا کہ ایک ہی کاغذ پہ دو بار کیوں ؟ تو مسکرائے اور فرمایا کہ خود غور کرو۔

پھر فرمایا کہ پچھلے دنوں اپنے سلسلے کے کچھ بزرگوں کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے سورۃ یٰسین شریف پڑھنے کے بارے میں فرمایا ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ حضرت سجاد صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے خواب میں سیّد ظفر الایمان شاہ صاحب نے بھی ''سورۃ یٰسین شریف'' پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی۔

دشمنی اور مخالفت کا تذکرہ کرنے پر آپ نے فرمایا کہ سورۃ یٰسین شریف مبینوں پر پڑھو۔

6.             کیا '' اسمِ ا ﷲ '' کو سجدہ جائز ہے ؟

ایک مرتبہ میاں صاحب نے شرق پور شریف جانے کا پروگرام بنایا اور بندہ کو بھی شرف ہمراہی سے نوازا۔ جب ہم بس پر سوار ہوئے تو فرما یا کہ ایک فقیر نے عجیب سوال کیا ہے کہ کیا "اسمِ ا ﷲ'' کو سجدہ جائز ہے ؟"

پھر اس کا جواب آپ نے یہ فرمایا کہ ہمارا تصوّرِ خدا غیر محدود ہے اس طرح یہ تصوّر محدود اور مُقیّد ہو جائے گا۔ جو اﷲ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں۔ پھر آپ نے ایک نغمے کا شعر سنایا جس میں عاشق اپنے محبوب کا نام لکھ کر اُس کو سجدے کرتا ہے۔ پھر بندہ نے ''اسمِ ذَات'' کو سجدہ کرنے کے بارے میں سوال کیا۔ اور انکی گزشتہ تعبیر کا حوالہ دیا تو فرمایا کہ بے خودی اور دیوانگی میں کیا جائز اور کیا ناجائز۔

قبلہ سیّد ظفر الایمان شاہ صاحب کے بارے میں ایک دفعہ فرمایا کہ اُن کا معیار بہت بلند تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ جب حضور ﷺ کسی کو اجازت خلافت دینے کے بارے میں حکم کریں گے اُس وقت میں اُنہیں اجازت نامہ دوں گا۔ (آپ کا اپنا بھی یہی معیار تھا )

نوٹ : (میاں صاحب کے خواب جو پروفیسر منظور صاحب نے نوٹ کئے ہیں وہ میں درج نہیں کر رہا )

7.            تقدیر

تقدیر کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو کام انسان کرتا ہے اس کا علم باری تعالیٰ کو پہلے سے ہے اور اُس نے سب کچھ لوحِ محفوظ پہ لکھ دیا ہے۔

انسان مجبور ہے نہ مختار ' بلکہ دونوں کے بین بین ہے۔

تقدیرِ ازلی ناقابل تغیّر ہے۔

تقدیر کی ایک قسم اَنبیاء کے وسیلے سے قابلِ تغیّر ہے۔

تقدیر کی ایک قسم اولیائے کرام کے وسیلے سے قابلِ تغیّر ہے۔

تقدیر کی ا یک قسم دعاؤں کے وسیلے سے قابلِ تغیّر ہے۔

تقدیر کی ایک قسم انسان کی کو شش اور ارادہ کے تابع ہے۔ اور بدل سکتی ہے۔

فرمایا کہ ذکر قلبی کی تحصیل اور تکمیل شیخِ کامل کی صحبت اور تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ قلب کی فوری اصلاح و جِلا اور نفس کی سرکشی کا مکمل علاج صحبتِ شیخ کے علاوہ کچھ نہیں۔ شیخ اپنی قوی روحانیت سے اپنے عقیدت مند کے قلب اور روح میں جِلا پیدا کرتا ہے۔ اور پیر کی صحبت میں رہتے ہوئے چونکہ اسے اپنے نفس کی حکمرانی کی بجائے اپنے شیخ کی مرضی کے تابع ہونا پڑتا ہے جس سے اس کے نفس کی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے۔ اور روح کی کمزوری کا باعث بننے والے عوامل دم توڑنے لگتے ہیں۔

لہٰذا ہمارا مشن اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہو کر اسکے فیوض و برکا ت سے بہرہ ور ہونے کیلیے بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے بغیر کوئی عمل اور نیکی قابلِ اعتبار نہیں۔ بہت ضروری ہے کہ ایسے کام کئے جائیں جن سے روحانی کام آسان ہو جائیں اور نفسانی خواہشات مغلوب ہو کر رہ جائیں۔

8.            روح اور خیال

جنوری 1992

جامع مظہر الاحسان پر حاضر تھے۔ قریشی صاحب اور رشید صاحب بھی موجود تھے۔ ''روح '' کے بارے میں ارشاد فرمایا؛ ''اصل انسان ہے ہی روح۔ جسم تو ایک چولا ہے۔" پھر اُنھوں نے احمد آباد میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان فرمایا کہ میں نے خود اپنے جسم کو مسجد میں دیکھا ،جب کسی نے آواز دی تو میں اپنے جسم پر لیٹ گیا اور جب سر سے سر ملا تو آنکھ کھل گئی۔

میں نے استفسار کیا کہ یہ عذاب ثواب جسم کو ہے یا روح کو ؟ فرمایا کہ جسم بے چارے کی کیا حقیقت ہے سب کچھ ''روح '' کیلیے ہی ہے۔

میں نے عرض کی کہ ''روح '' امرِ ربی ہے اور پاک ہے تو اسے کیسا عذاب ؟ فرمایا کہ جو روح مِن امرِ ربی ہے اُس کا تعلق عالمِ امر سے ہے۔ یہ روح جو بندے کے ساتھ وابستہ ہے یہ روح عالم خلق سے ہے اور یہی روح جو تخلیق ہے اسے امرِ ربی سے جسم کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے۔ اور موت کے وقت ان دونوں کو الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ اور جو تعلق (جسم اور روح کے درمیان) پیدا کرنے والی روح ہوتی ہے اسے نکال لیا جاتا ہے۔

گفتگو 'روح ' سے خیال اور اسکی اہمیت کی طرف چلی گئی۔ آپ نے فرمایا کہ خیال روح کا عمل ہے۔ خیال کو معمولی چیز نہ سمجھو۔ اگر تم اپنے خیالات کو کنٹرول کرلو تو ولی اﷲ بن جاؤ گے۔ قریشی صاحب نے کہا کہ خیالات تو آتے جاتے رہتے ہیں، ختم ہو تے ہی نہیں۔ آ پ نے فرمایا ؛ "انسانی ذہن خیالات کی گزر گاہ ضرور ہے لیکن خیالات کو دماغ میں ٹھرنے نہیں دینا چاہیے۔"

9.            روحانی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ

آپ نے فرمایا ایک شخص کی روحانی ترقی صرف اس لئے روک دی گئی کہ اسکے خیالات پراگندہ تھے۔ اﷲ اﷲ کے لئے خیالات کا ایک مرکز پر مجتمع ہونا ضروری ہے۔

میں نے پوچھا کہ کیا ہم درودِ پاک پڑھتے وقت مسجدِ نبوی وغیرہ کا خیال کر سکتے ہیں۔ تو کیا یہ تصوّر کچھ وزن رکھتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں اس کا بڑا وزن ہے۔

میں نے پوچھا خیالات کو مجتمع کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ فرمایا ''تصوّرِ شیخ''

میاں صاحب ماہِ رمضان میں ماہانہ اجتماع کے سلسلہ میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ وہم اور پریشانی کے متعلق عرض کیا تو فرمانے لگے کہ تصوّرِ شیخ کیا کرو۔ پھر تصوّر کی اہمیت واضع کرتے ہوئے فرمایا یہ کامل عمل ہے۔ اور کوئی عمل اس کے برابر نہیں پہنچتا۔ حضرت موسیٰ   کا معراج شریف کے موقع پر بار بار حضور ﷺ کو بارگاہِ قدس میں بھیج کر نماز روزہ کی تخفیف کی 'رمز' واضع فرمائی۔

10.    کا مل کا دیدار عین عبادت ہے

فرمایا ، حضور ﷺ نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ جنہوں نے حضور ﷺ کی آنکھوں کی جھلک دیکھی ہے وہ خدا تعالیٰ کی تجلّیات سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اس طرح نظر سے نظر روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ حضور ﷺ اور اﷲ تعالیٰ تک جا پہنچتا ہے۔ اس طرح کسی کا مل کا دیدار کرنا عین عبادت ہے۔ پھر فرمایا کہ جب مذکور سامنے ہو تو ذکر حماقت ہے۔

11.    مطالعہ، عمل اور ذکر قلبی

17 رمضان 1412 ہجری

میاں صاحب کی خدمت میں حاضر تھے۔ پڑھنے پڑھانے کی بات ہو رہی تھی، فرمانے لگے؛ "عمر کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ نو جوانی میں مطالعہ زیادہ کرنا چاہیے، پھر علم کو عمل کی صورت دینی چاہیے پھر بڑھاپے میں زیادہ ذکرِ قلبی کرنا چاہیے۔ تاکہ قبر میں اور حشر میں دل جاری رہ سکے۔"

12.    روح ہی اصل انسان ہے

26 اپریل 92

قبلہ میاں صاحب کی خدمت میں حا ضر ہوا۔ ''روح '' کے موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ فرمایا کہ اصل انسان روح ہی ہے، یہ جسم تو کچھ بھی نہیں۔ جسمانی عمل، روحانی عمل کے پاسنگ بھی نہیں۔ جو عمل ہم جسم سے انجام دیتے ہیں اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوں۔

عمل کی صحیح لذّت اور استفادہ حاصل کرنا روح کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مثلاً ایک آدمی جسم کی نماز پڑھتا ہے تو اسکے ثمرات کی حیثیت مٹی سے زیادہ نہیں۔ لیکن جب یہی نماز روح سے ادا کی جائے پھر یہ صحیح معنوں میں نماز ہو گی۔ ( روح کی نماز جسمانی نماز ہی ہے )

دیگر عبادات روزہ ،حج ، زکاۃ وغیرہ ہیں۔ روح سے غافل شخص کے یہ اعمال بالکل حقیر اور معمولی ہوتے ہیں۔ لیکن روحانیت سے بہرہ ور شخص ان اعمال کی حقیقت تک پہنچتا ہے اور ان کے بے پایاں ثمرات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دین کی اصل ہی روحانیت ہے۔ مذہب اور نظریات سے قطع نظر روحانیت کی بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی وجود دو ہیں۔ جسم اربع عناصر کی پیدا وار ہے اور اسکی پرواز کی حد بھی اربع عناصر تک ہے۔ جبکہ روح اصل انسان ہے جو بے پناہ قوتوں کا حامل ہے۔ جسمانی حواسِ خمسہ ''روح'' کے حواسِ خمسہ کے تابع ہیں۔ اگر روح کے حواس علیحدہ ہو جائیں تو جسمانی حواس ختم ہو جاتے ہیں۔ روح کے حواس بہت زیادہ مؤثر اور قوت کے حا مل ہیں اس لئے جسمانی زبان کی اﷲ اﷲ روح کی زبان کی اﷲ اﷲ تک نہیں پہنچ سکتی۔

ہم نے پیر و مُرشد سے گزارش کی کہ آپ نے روح کی تقویت کے بارے میں اس قدر شدّت اور تکرار سے بیان فرمایا ہے کہ ہمیں اسکی صداقت اور اہمیت کا اندازہ بخوبی ہو گیا ہے۔ لیکن اب اس علم اور آگہی کو عملی صورت میں کیسے ڈھالا جائے۔

فرمایا روحانیت کا ابتدائی سبق ہے' کا مل یقین '۔

جس طرح ایک ظاہری وجود ہے اسی طرح ہمارا ایک باطنی وجود ہے جسمانی وجود ناپائدار ہے، غیر اہم ہے جبکہ اصلی اور حقیقی وجود روح کا ہی ہے۔ جسمانی وجود اسکے اشاروں کے تابع ہے

مثال کے طور پر ایک شخص سو رہا ہے۔ اس کے تمام اعضاء مکمل طور پر موجود ہیں۔ ہم اسکے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ اُس کے کان ہوتے ہیں لیکن وہ سن نہیں پاتا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اصل مالک گھر پر نہیں روح کے بغیر تمام حواس و اعضاء کچھ معنی نہیں رکھتے۔ ہم اس کے بازو سے گھڑی یا جیب سے کوئی چیز نکال لیتے ہیں اُسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ جب تک اصل وجود اس میں سرائیت نہیں کرے گا ، مادی وجود مٹی کی مانند ہے اور بے حس و بے جان ہے۔

روحانی وجود مکمل رہتا ہے حتیٰ کہ ایک ایک کر کے ہمارے کئی اعضاء مثلاً ہاتھ، پاؤں، آنکھیں ، زبان وغیرہ کاٹ بھی دیں تب بھی روحانی وجود اپنی تمام قوتوں کے ساتھ باقی رہتا ہے۔

جب ہمیں اس عقیدے پر یقین کامل ہو جائے تو پھر اگلے سفر کے لئے ہمیں شیخ کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیر کا اصل مقصد ہی یہ ہے، باقی سب ظاہر داری اور دوکان داری ہے۔

13.    تصوّرِ شیخ:

آپ نے فرمایا ،؛ "اب جب کہ تمہیں روحانی وجود اور اسکی حسّیات پر یقین آ چکا ہے تو میں تمہیں روح کا ذکر بتاؤں گا تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ''خیال'' (جسے ہم بیکار، منتشر اور پراگندہ کرنے والی چیز سمجھتے ہیں ) ''روح '' کا عمل بن جائے گا۔ اس سفر میں تصوّرِ شیخ دو دھاری تلوار ہے۔ جو راستے میں حائل ہر رکاوٹ کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔"

دنیا اور اسکے تمام رشتے جن کی بنیاد اربع عناصر پر ہو گی سب فانی اور ختم ہو جانے والے ہیں، انکی حقیقت بھی کچھ نہیں۔ اصل رشتہ روح کا رشتہ ہے جو زندگی اور زندگی کے بعد ہمیشہ باقی رہے گا۔

''تصوّرِ شیخ '' ہی وہ دروازہ ہے جس کے ذریعے ہم شیخِ کامل کی روحانیت سے مستفیض ہو سکتے ہیں۔ پھر آپ نے ایک اندھے کا واقعہ بیان فرمایا، جسے کسی عیسائی نے یہ طعنہ دیا کہ ہمارے نبی تو مادر زاد اندھوں کو بینائی عطا کر دیتے تھے۔ تم بھی اپنے نبی سے آنکھیں مانگو۔ وہ نابینا روضۂ اقدس پر حاضر ہو کر دعائیں کرتا رہا لیکن اس کی توجہ وہاں پر ملنے والی نعمتوں کی طرف مبذول ہوگئی۔ کوئی بادشاہ جو عاشقِ رسول ﷺ تھا ، وہ حاضری کے لئے جب دربارِ اقدس پر پہنچا تو اسے نابینا کو دیکھ کر حیرت ہوئی (یہاں آپ نے ایک نقطہ بیان فرمایا کہ عاشق کے عشق کا تقاضا ہے کہ وہ محبوب کی ذات میں کسی قسم کا کوئی عیب یا نقص بیان کیا جائے تو وہ برداشت نہیں کرتا۔) چنانچہ بادشاہ نے پوچھا کہ نابینا کب سے یہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضور تین سال سے آنکھوں کی بینائی کے لئے فریاد کر رہا ہے اور ابھی تک توجہ حاصل نہیں ہوئی۔ بادشاہ نے کہا میں حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں سلام کرنے جا رہا ہوں، میری واپسی تک اگر اس کی آنکھیں روشن نہ ہوئیں تو اس کی گردن اڑا دی جائے۔ جب نابینا نے یہ بات سنی تو وہ ہمہ تن زاری سے حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہوا۔ بادشاہ نے واپس آ کر جب اسے ٹھوکر لگائی تو وہ سمجھا کہ شاید جلاّد نے تلوار کا وار کر دیا ہے، وہ زور سے پکارا ''یا رسول اﷲ ﷺ! دوسرے لمحے اس کی آنکھیں روشن ہو چکی تھیں۔

مولانا روم ؒکی مثنوی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ایک شیر کا بچہ بھیڑ بکریوں میں پل کر خود کو بھیڑ ہی سمجھنے لگا تھا، اگرچہ حقیقت میں وہ شیر تھا۔ اسے اس کے شیر ہونے کا یقین دلانے کیلئے شیروں کے ایک جوڑے کو کافی جدوجہد کرنا پڑی۔ لہٰذا تم بھی اپنی حقیقت کو پہچانو بھیڑ نہ بنو۔ تم شیر ہو۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جسے ''مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبُّہٗ" میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تک ہم اپنی اصل اور نقل میں تمیز نہیں کرتے، ہم اپنے رب کو نہیں پہچان سکتے۔ پھر آپ نے درد بھرے انداز میں فرمایا کہ ''یہ وہ حقیقت ہے جس سے لوگ آج بیگانہ ہو چکے ہیں۔ اگر ہم یہ حقیقت لوگوں کو باور کرا سکیں ، یہی حقیقی دین اور دین کی خدمت ہو گی ''۔

اس میں ایک خطرے کی نشاندہی فرماتے ہوئے آپ نے کہا کہ ''خطرہ یہ ہے کہ روحانیت کے ذوق میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ظاہری عبادات میں نقص اور کمی و تساہل واقع ہو۔''

14.    روح کی تجسیم

اگلے دن جب میں حاضرِ خدمت ہوا تو میں نے عرض کیا کہ خدا اور رسول ﷺ کے واسطے مجھے بھی روحانی سبق عطا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ''وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ'' یہ تمہارا پہلا سبق ہے۔ جسمانی زبان بند کرو اور روح کو ذکر کرنے دو۔ میں نے عرض کیا کہ میں پوری طرح سمجھ نہیں سکا تو آپ نے فرمایا کہ پھر کسی دن آنا تمہیں روح کی تجسیم کی مشق کرائیں گے۔ روحانی وجود کی مشق اس طرح ہو جائے کہ یہ وجود حقیقی وجود ہو جائے۔

٭ ایک دفعہ میاں صاحبؒ کے ہمراہ ''عدلو آنی'' گئے، میاں صاحب ؒ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بچہ عطا کیا تھا، انہوں نے خوب خدمت کی۔ گفتگو کے دوران میاں صاحبؒ نے فرمایا کہ روحانی وجود جسمانی وجود کے تابع نہیں بلکہ جسمانی وجود روحانی وجود کے تابع ہے۔ پھر آپ ؒ نے اس کی وضاحت فرمائی۔

اس روز میاں صاحب کسی دوست کی بچی کی پیدائش پر لاہور گئے۔ وہ دوست بینک میں ملازم تھے۔

٭ اکیسویں کے بعد بندہ میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا فرمانے لگے تم سے ایک مشورہ کرنا ہے، میں نے عرض کیا کہ فرمائیے۔ کہنے لگے کہ حضور ﷺ کی موجودگی میں کسی بزرگ نے ایک وظیفہ عطا کیا ہے جس کے پڑھنے سے روحانی فوائد انتہا تک پہنچ جاتے ہیں حتیٰ کہ معراج حاصل ہو جاتی ہے لیکن تکلیفوں کی حد ہو جاتی ہے۔ گھر بار حتیٰ کہ بچے تک قربان کرنا پڑتے ہیں اور ہر روز زہر کھانا پڑتا ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا اور کوئی جواب نہ بن پڑا۔ پھر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر زندگی کا مقصد حاصل ہو جائے تو پھر زندگی رہے یا نہ رہے خواہ کوئی بھی قربانی دینا پڑے۔ اس خیال سے میں نے پوچھا یا حضرت! زندگی کا مقصد کیا ہے؟ فرمانے لگے کہ اب میرا نظریہ بدل گیا ہے۔ انسانی جسم میں جب روح ڈالی گئی تو روح فریاد کر رہی تھی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے واپس بلانے کا عہد کیا ہے، اب انسانی زندگی کا مقصد اس روح کو اپنی اصل یعنی ذات باری تعالیٰ تک پہنچانا ہے اگر زندگی میں یہ مقصد حاصل کر لے تو کامیاب ورنہ ناکام۔ میں نے عرض کیا کہ مرنے کے بعد تو ہر روح اپنی اصل سے مل ہی جائے گی۔ فرمانے لگے کہ ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد روح اس قدر کمزور ہو چکی ہو کہ اس ذات اقدس تک پہنچ نہ سکے۔ اس لئے روح کی تقویت کا خیال رکھنا چاہیے۔ پھر آپ نے فرمایا جس دن سید سجاد حیدر کا وصال ہوا اس روز اعلیٰ حضرت سید ظفر الایمان شاہ صاحب نے مجھے خاص دولت عطا فرمائی۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں ماہ رمضان میں اعتکاف کے دوران بھی حضور ﷺ نے خصوصی کرم نوازیاں فرمائیں۔ انہوں نے اپنا آستانۂ عالیہ بھی دکھایا اور میرے مشن کے درست ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت فرمائی۔

15.    تصوّر روح

۱۹ ذی الحجہ ۱۴۱۳ ھ بروز جمعۃ المبارک

٭ ۱۹ ذی الحجہ ۱۴۱۳ ؁ھ بروز جمعۃ المبارک حاضر خدمت ہوا۔ قریشی صاحب، رشید صاحب اور ظفر اللہ صاحب بھی موجود تھے۔ میاں صاحب فرمانے لگے کہ جتنی توجہ تم جسم کی جانب دیتے ہو اس کا دسواں حصہ بھی اگر روح کو دو تو کام بن جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ یا حضرت ہم جسم کو کھلاتے ہیں؛ پہناتے ہیں، صاف ستھرا اور صحت مند رکھتے کی کوشش کرتے ہیں، روح کے ساتھ کیا سلوک کریں اور کیسے رکھیں؟ فرمایا '' تازہ تحقیق کے مطابق اپنی روح کا تصور کرو۔ جو تمہارے جسم سے الگ متشکل ہو کر تمہارے سامنے ہو۔ یہ روح کمزور ہو گی۔ پھر شیخ کا تصور کرو، شیخ کی روحانیت فوراً حاضر ہو گی وہ قوی ہے اسکے ساتھ ذکر کرو تو کمزور روح قوی ہوتا چلا جائے گا۔ اسم ذات ''اللہ'' پہلے ایک ہزار حرف ''ا'' پر ، پھر ایک ہزار دفعہ ''ل'' پھر ایک ہزار مرتبہ دوسرے لام پر اور پھر ایک ہزار ''ہ'' پر پھر اسم ذات ''اللہ'' شیخ کی پیشانی پر رکھ کر ذکر کرو اور اسی تصور میں گم ہو جاؤ۔ اس طرح تمہارا روحانی وجود حقیقت میں ڈھل جائے گا۔ مثلاً ایک شخص کسی ایک جگہ حاضر ہے اور کسی دوسری جگہ دیکھا جاتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی دو مثالیں بیان فرمائیں۔

16.    دو مثالیں

(i) ایک دن آپ اپنے کمرے میں آرام فرما رہے تھے۔ خواب میں کمرے سے باہر نکلے ،ایک جسم کے دو جسم بن گئے۔ ایک جسم چنیوٹ آیا وہاں مولوی منظور احمد چنیوٹی سے چھٹی ہوئی مسجد کے پاس ملاقات ہوئی۔ اس نے اتنی رات گئے شہر میں موجود ہونے پر حیرت کا اظہار کیا۔ جب آپ واپس اپنے کمرے کے پاس گئے تو اندر سے کنڈی بند تھی۔ بڑے میاں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے خود دیکھا واقعی دروازہ اندر سے بند تھا اور آپ باہر کھڑے تھے۔

(ii) دوسری بار آپ خواب میں بہت سے خوفناک اونٹوں میں گھِر گئے جو منہ کھول کر آپ کو ہڑپ کرنے کے لئے کوشاں ہیں کہ اچانک ایک برقعہ پوش آیا اور آپ کو بازو سے پکڑ کر اوپر اُٹھا لیا۔ برقعہ پوش کے مضبوط ہاتھ کا لمس اب تک آپ کو محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر ہم فضا میں بلند ہوتے چلے گئے۔ متعدد بار جس طرح کسی حد کو پھاڑ کر آگے گزرا جاتا ہے اس قسم کی آواز آئی پھر آپ کو اچانک گھر والوں کی پریشانی کا خیال آیا۔ اس خیال کے آتے ہی آپ اپنے گھر کے صحن میں موجود تھے اور کمرہ اندر سے بند تھا۔ بڑے میاں صاحب ؒ آپ کو باہر دیکھ کر بیدار ہوگئے اور بڑی مشکل سے دروازہ جو اندر سے بند تھا اسے کھولا۔

17.    شیخ کی پیشانی

٭ آپ نے فرمایا: ایک دفعہ بڑے میاں صاحب ؒ نے تصوّرِ شیخ کی پیشانی پر اسمِ ذات لکھ کر (خیال سے) ذکر کرنے کی ہدایت کی۔ رات کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا ؛ "پیشانی پر تصور صحیح طرح سے کرنا ، کیونکہ شیخ کی پیشانی ہی آپ ﷺ کی پیشانی بن گئی ہے۔ دونوں ایک ہو چکی ہیں جب شیخ کی پیشانی پر اسم ذات کا تصور کیا جائے تو یہ حضور ﷺ کی پیشانی بن جاتی ہے۔

18.    ہر انسان کو ایک خلا در پیش ہے

2 جنوری 1994

٭2 جنوری 1994؁ بندہ میاں صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ روحانیت کے موضوع پر گفتگو چلی فرمانے لگے: "كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ'' آپ نے اپنی تسبیح ایک دائرے کی شکل میں پھیلا دی اور فرمایا کہ انسان پہلے معدوم تھا پھر اسے ہست میں لایا گیا۔ اس کے بعد پھر موت آئے گی۔ پھر اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا، اور پھر وہ اپنی اصل کی جانب رجوع کرے گا۔ گویا انسانی زندگی ایک مسلسل عمل ہے جو عدم سے وجود میں آکر پھر اپنی اصل تک پہنچتا ہے۔ وہاں تک رسائی حاصل کرنا ہی اس کی اصل ڈیوٹی ہے یہی وہ فریضہ ہے جسے یہ پایۂ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔

میں نے عرض کی کہ یہ دائرہ تو بہر حال پورا کرنا ہے کیونکہ حکم باری تعالیٰ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فرق ہے۔ اپنے آپ کو اس قابل بنانا کہ وہ اپنی اصل کی طرف رجوع کر سکے اور بات ہے اور زبردستی وہاں تک پہنچا دیا جانا اور بات ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ہر انسان کو ایک خلا در پیش ہے جسے عبادت سے پر کرنا ہے۔ یہ خلا حضور نبی کریم ﷺ نے بطریق احسن پورا کیا۔ حتیٰ کہ خداوند کریم کو کہنا پڑا ''مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ'' یعنی اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لئے نہ اتارا کہ مشقت میں پڑو۔

یہ خلا پُر کر کے ہی انسان اپنی آخر کا مقصد پورا کرتا ہے دراصل اس خلا کی تکمیل کے ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی تکمیل ہوتی ہے جس طرح ارشاد باری ہے۔'' اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ و عَلَیْکُم دِیْنُکُم۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی تمام نعمتیں اور انعامات حضور ﷺ کو عطا فرما دئیے، اس طرح انکے غلاموں کو بھی یہ انعامات اور نعمتیں عطا ہوتی ہیں۔ اس خلا کی تکمیل کے دوران ہر طرح کی نعمت، انعام اور درجات ملتے جاتے ہیں۔ جب یہ خلا مکمل ہو جاتا ہے تو ہر نعمت مکمل ہو جاتی ہے اسی میں معراج ہوتی ہے۔

19.    بیوی کا کمال

پھر آپ نے فرمایا حضور نبی کریم ﷺ سے کلمہ پڑھنے والے ہر صحابی کا قلب کھلا تھا اور ہر صحابی کے باطن کی آنکھ کھلی تھی۔ لوگ تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ''یا ساریۃ الجبل'' کی بات کرتے ہیں۔ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کی بیوی نے ہزاروں میل سے اپنے خاوند کو خطرات میں گھِرے دیکھا کیونکہ حضور ﷺ کے موئے مبارک والی ٹوپی گھر پر رہ گئی تھی۔ وہ خاتون ٹوپی لیکر برق رفتاری سے اپنے خاوند   کے پاس پہنچاتی ہیں۔ عیسائی راہب سے پوچھنے والے دریافت کرتے ہیں کہ یہ گرد باد کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ یہ خالد بن ولید کی بیوی ہے۔ ایک عورت کا بھی صحابیہ ہونے کی بنا پر یہ مقام ہے۔ بلکہ یوں کہو کہ اﷲ تعالیٰ کا مقصد ہی یہ تھا کہ ان لوگوں کو اسلام کی دولت سے مشرف کرنا ہے جن کے قلب کھلے ہیں کیونکہ جن کے قلب کھلے نہیں تھے ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ بیان فرماتا ہے:  ''إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ'' یعنی بیشک وہ جن کی قسمت میں کفر ہے ا نہیں برابر ہے، چاہے تم انہیں ڈراؤ، یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے کے نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ" خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ"یعنی اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی۔

قلب و روح کی یہی قوت حاصل کرنا مقصدِ حیات تھا اسی لئے جن کی یہ قوت مسلوب ہو چکی تھی ان کو ہدایت بھی فائدہ نہیں دیتی۔ یہ روح کے حواسِ خمسہ کو بیدار کرنا ہی مسلمانی ہے۔

اس کے بعد ایک خاص کیفیت میں آپ نے فرمایا کہ اس وقت شاید ایک میں ہوں جس پر حضور ﷺ اور اﷲ تعالیٰ کا فضل اپنے کمال پر ہے۔ میری زندگی کے ہر شعبے میں حضور ﷺ نے میری دستگیری فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے مجھے بیماری کا علاج بتایا، دہی کھانے کا مشورہ دیا، نسخے بتائے، بیداری کی حالت میں مزار شریف سے آواز آئی کہ اس کا برادہ بنا کر اس میں ڈالو۔( نسخوں میں کتابوں والے عموماً کمی رہنے دیتے ہیں)۔

20.    میں تو ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں

٭ جناب صاحبزادہ محمود غفاری (قبلۂ عالم کے بڑے صاحبزادے) کی وفات پر تمام بزرگوں نے اظہارِ ہمدردی کیا اور مجھے تسلی اور دلاسہ دیا۔ مجھے حضور ﷺ کا خیال آیا تو میں بہت رویا۔ پھر حضور ﷺ خود تشریف لائے اور فرمایا ''میں تو ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں۔''

٭ آپ ؒ نے فرمایا کہ جس طرح لٹھا پھاڑنے سے آواز پیدا ہوتی ہے اس قسم کی آواز سات مرتبہ آئی اور میری پرواز جاری رہی۔ پھر میں نے اپنے آپ کو ایک سائبان کے نیچے پایا۔ ارد گرد چھوٹی چھوٹی جھگیاں دیکھیں۔ وہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنی رفاقت میں سیر کرائی۔

٭ میں نے پوچھا کہ یا حضرت ! اصل عبادت کیا ہے جس سے خلا کو پُر کرنا چاہیے ؟ فرمانے لگے، جس طرح تمہارے جسم کا پردہ تمہاری روح کو ڈھانپے ہوئے ہے، اسی طرح شریعت کا پردہ اصل عبادت کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ روحانی وجود کے ارتقاء کے لئے دوسرے وجود کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ارکانِ شریعت کی پابندی اصل عبادت تک رسائی کے لئے ضروری ہے اور وہ اصل عبادت ذکرِ مقبول ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ذکرِ مقبول کون سا ذکر ہوتا ہے؟ فرمایا: کہ جب تم اﷲ کہو تو وہ تمہارے سامنے ہو۔ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم اﷲ کو دیکھ کر عبادت کرو ورنہ وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے۔ یہ ہے اصل ذکر۔ اس کے لئے شدید محبت درکار ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے اتنی محبت کرو کہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں دینے کے لئے تمہاری جستجو کرے۔ حضور ﷺ سے اتنی محبت کرو کہ وہ توجہ دینے کے لئے تمہاری جستجو کریں۔

21.    اپنی کمر پر اللہ لکھو

٭18 رمضان المبارک 1414؁ھ

اکرم صاحب کے یہاں افطاری کا پروگرام تھا۔ میاں صاحب ؒ مدعو تھے۔ بندہ بھی گیا۔ جب سب لوگ فارغ ہو کر چلے گئے تو میں نے عرض کی کہ میاں صاحب ؒ آپ وہ اصل بندہ باہر نکال دیں گے یا اس مقصد کے لئے ہمیں کسی دیوار سے سر ٹکرانا ہو گا؟ میاں صاحب ؒ مسکرائے۔ فرمانے لگے ؛ "اسے باہر نکالنا چاہتے ہو؟" میں نے عرض کیا جی ہاں! بولے ٹھیک ہو کر بیٹھ جاؤ۔ میرے سامنے میاں صاحب ؒ کرسی پر بیٹھے تھے بولے کہ تصور سے اپنی کمر پر ''اﷲ'' لکھو۔ جب میں نے اپنے تصور میں خود اپنی کمر پر ''اﷲ'' لکھا تو میرا وجود صرف ایک بورڈ کی حیثیت رکھتا تھا اور اصل ساتھی لکھ رہا تھا۔ میاں صاحب ؒ فرمانے لگے میں نے جسم کے ایک ایک بال پر تجربے کئے ہیں۔ صرف کمر ہی ایسی جگہ ہے جہاں پر یہ تصور کرنے سے اصل انسان باہر آ جاتا ہے اور خول پیچھے رہ جاتا ہے۔

22.    اصلی وجود سے کیا کام لیں ؟

اس کے بعد ہم اکرم صاحب کے گھر سے روانہ ہو کر سڑک کی جانب چلے تو میں نے راستے میں دریافت کیا کہ اپنے اصل وجود سے نفی اثبات کا ذکر کروانا چاہیے؟ میاں صاحب ؒ بولے ہاں! جو بھی سبق ہو۔ اسکے علاوہ جو کام چاہے آپ اس سے لے سکتے ہیں۔ بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔ فرمانے لگے میں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت تجربات اور حقیقت کی تلاش میں صَرف کیا ہے اور بہت مشکلات کے بعد صحیح راہ پر پہنچا ہوں۔ ان کا مطلب تھا کہ وہ جو کچھ ہمیں بتا رہے ہیں وہ ان کی عمیق تحقیق کا نچوڑ ہے۔

23.    جناب غوث پاک رضی اﷲ عنہ کے زیر تربیت

21 اپریل 1995

کچھ عرصہ قبلہ میاں صاحب ؒ حضرت پیرانِ پیر، دستگیر حضرت غوث الاعظم رضی اﷲ عنہ کے زیر تربیت رہے۔ آپ نے بیان فرمایا کہ ہمارے سلسلے کے بزرگ ایک بلند جگہ سے ہمیں دیکھتے تھے۔ حضرت پیر صاحب تشریف لاتے اور دو نفل پڑھنے کی ہدایت فرماتے۔ اس کے بعد سیر شروع ہو جاتی اور مختلف مقامات طے کئے جاتے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جو ذمہ داری حضرت جبریل علیہ السلام کی انبیاء کے زمانے میں تھی، وہ ڈیوٹی اب حضرت غوثِ اعظم رضی اﷲ عنہ ادا کر رہے ہیں اور اسکے بندوں کو خدا سے ملا رہے ہیں لقائے الہٰی کے لئے حضرت غوثِ پاک رضی اﷲ عنہ وسیلہ بنتے ہیں۔ کیونکہ یہ مقام ان کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ دوسرے اولیائے کرام کو بھی مختلف انعامات سے نوازا گیا ہے لیکن یہ مقام حضرت غوثِ پاک رضی اﷲ عنہ کے ساتھ مخصوص ہے۔

٭ میاں صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ غوث پاک رضی اﷲ عنہ کے زیرِ تربیت رہ کر بھی میں نے اپنے مزاج اور اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں کی یعنی کوئی خاص احتیاط یا پرہیز وغیرہ نہیں کی۔ حضرت پیر صاحب نے ذرا گرمی دکھائی لیکن فوراً کسی غیبی ترغیب پر پیر صاحب کے رویّے میں واضح تبدیلی آگئی۔ کوئی ذات پس پردہ میری پشت پناہی کے لئے ہمہ وقت موجود تھی۔

24.     روحانی وزیرِ اعظم

 یہاں آپ نے ایک اور واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک مرتبہ روحانی وزیرِ اعظم کے دفتر میں، میں اور میرے ساتھ ایک اور فرد ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ مجھے بلایا گیا۔ قدرے ناراضگی شفقت میں تبدیل ہوگئی۔ (میاں صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ وہ اس روحانی کمیٹی کے کچھ عرصہ تک ممبر رہے ہیں اور بعد میں کچھ اختلاف رائے پیدا ہو جانے کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔) دنیا میں جو واقعات ہوتے ہیں یہ روحانی کمیٹی پہلے اسکی منظوری دے دیتی ہے اور جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہی دنیا میں ظاہر ہوتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا ؛ "دعا عبادت کا مغز ہے اور اسمِ اعظم کا حصہ ہے۔" پھر فرمایا کہ اسمِ اعظم کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسے مختلف اجزاء کی صورت میں قرآن پاک میں پھیلا دیا گیا ہے ان اجزاء کو اکٹھا کر کے دیکھا گیا تو مکمل اسمِ اعظم حاصل ہوتا ہے۔

25.    خطبۂ جمعہ

٭ خطبۂ جمعہ میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ اپنے بندے سے بے حد پیار کرتا ہے۔ ''حکایت الصالحین'' کی بچھو، سانپ اور شرابی مرد کی حکایات بیان فرمائیں، پھر فرمایا: کہ بندے کو اپنے خالق سے پیار کرنا چاہیے۔ اس سے بات چیت کرنا چاہیے اور اپنے دکھ سکھ اس سے بولنا چاہیے۔ جیسے گھر میں بڑے میاں کی کثیر اولاد ہوتی ہے۔ سب اس کا احترام تو کرتے ہیں لیکن اسکی خواہش ہوتی ہے کہ اس سے بولا جائے، اس سے باتیں کی جائیں، جس سے ہم اکثر اجتناب کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اور اس کا رسول پاک ﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ ان سے بھی باتیں کیا کرو، خصوصاً درود پاک میں حضور ﷺ کو حاضر و ناظر سمجھا کرو۔

26.    کھڑے کھڑے ذکر

17 مئی 95

اعلیٰ حضرت سیدنا ظفر ا لایمان شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے مزار پر عرس پاک کے موقع پر ذکر کرتے وقت میاں صاحب ؒ نے فرمایا کہ کھڑے کھڑے اس طرح ذکر کریں کہ پاؤں کے انگوٹھے سے ''لا'' جھک کر کھینچے ''الہٰ'' کو دائیں کندھے پر لاکر قلب پر ''الا اﷲ'' کر ضرب لگائیں۔

27.    بر وقت رہنمائی

19 مئی 95

بروز جمعۃ المبارک قدم بوسی کے لئے حاضر ہوا تو میاں صاحب ؒ اکیلے تھے۔ قالین کو ایک طرف سے لپیٹ کر کمرے میں تیز تیز چل کر کچھ پڑھ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر مسکرا کر فرمایا کہ میں ایک مسئلے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور دل میں خیال کر رہا تھا کہ اگر منظور جلدی آجائے تو اس مسئلے کے بارے میں اس سے مشورہ لیں گے۔ جب بندہ نے مسئلہ کے بارے میں استفسار کیا تو فرمانے لگے کہ اگر کسی شخص کو اﷲ تعالیٰ کی زیارت ہو جائے اور تصور قائم ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ آیا وہ اﷲ تعالیٰ کا تصور کرے یا کہ ذکر کرے یا حضور ﷺ کا تصور کر کے ذکر کرے؟ ساتھ ہی آپ نے فرمایا کہ میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ حضور ﷺ کا تصور ترک کروں۔ میں بھی یہ مسئلہ سن کر پریشان ہوا کہ سالک اس مقام پر کیا کرے ابھی اس مسئلے کا کوئی حل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آپ خود ہی فرمانے لگے کہ ابھی ابھی میں نے توجہ کی تو بزرگوں نے راہنمائی فرمائی ہے کہ ایک بار ایک تصور پر پڑھو اور دوسری بار دوسرے تصور پر۔ اس طرح یہ پیچیدہ مسئلہ آناً فاناً حل ہو گیا۔

بعد ازاں آپ نے فرمایا کہ میرے شامل حال حضور ﷺ کی خصوصی کرم نوازی سے میرے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔ ورنہ روحانی بزرگ معمولی معمولی کوتاہیوں پر سخت ڈانٹ ڈپٹ فرماتے ہیں۔ بارہا ایسا ہوا کہ کسی بزرگ کے زیر تربیت رہتے ہوئے کوئی کوتاہی ہوئی تو بزرگ نے خفگی کا اظہار فرمایا۔ فوراً محسوس ہوا کہ پیچھے سے کسی قوت نے انہیں کچھ ایسی بات کہہ دی کہ فوراً انکے رویّے میں تبدیلی آگئی۔

28.    اولیاء کی کونسل

پھر آپ نے فرمایا کہ اولیائے کرام کی ایک کونسل ہے جو دنیا کا نظام چلا رہی ہے۔ اس کونسل کے سربراہ کو آپ روحانی وزیرِ اعظم کے نام سے موسوم فرماتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جو فیصلے صبح ہونے ہوتے ہیں رات کو اس کونسل میں ہو جاتے ہیں اور وہی فیصلے من و عن صبح رونما ہو جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ عرصہ میں بھی اس کونسل کا ممبر رہا ہوں لیکن اپنے مزاج کی افتاد کی وجہ سے مستعفی ہو گیا۔ ایک بار میری کسی بات پر وزیرِ اعظم نے ذرا درشت روّیہ اختیار کیا فوراً سے کسی طرف سے پیغام پہنچ گیا اور یکدم رویّے میں تبدیلی ہوگئی اور وہی بات جو ناگوار گزری تھی اس کے لئے جواز پیدا ہو گیا۔

29.    مجھ پر علم کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں

آپ نے فرمایا کہ یہ میرے کسی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ حضور ﷺ کی خصوصی شفقت اور محبت کا ثمر ہے کہ حضور ﷺ نے خود کمالِ شفقت سے فرمایا کہ میں تمہارا باپ ہوں تم مجھے ''ابّا جی'' کہو اور میں نے ایسا کیا بھی۔ یہی دولت ہے جو مجھے ہر مشکل سے عہدہ براء کرتی ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ مجھ پر علم کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔ جس کسی کو یہ مقام حاصل ہو جائے تمام دنیا کے علم اور زبانیں اسے سیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی پھر آپ نے اﷲ تعالیٰ کے کلام کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے آواز آتی ہے جو الفاظ کے جامے سے بے نیاز ہے۔ مختلف قسم کے الفاظ اور زبانوں کا جامہ اسے بعد میں پہنایا جاتا ہے۔ کلام کا یہ طریقہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان یکساں ہے۔ حضور ﷺ کا خطاب بھی اسی طرح ہوتا ہے اور انکی آواز کو الفاظ اور زبان کا جامہ بعد میں پہنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حروفِ مقطعات کا مطلب صرف خدا اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔

٭ ''اسمِ اعظم'' کے بارے میں فرمایا کہ اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت قبلہ میاں محمد صدیق ڈاہر صاحب ؒ (آپ کے والد گرامی)نے بڑی مہربانی فرمائی اور انہوں نے اسمِ اعظم کے منتشر حصّوں کو یکجا کر کے بتایا۔ اسمِ اعظم کافی طویل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسمِ اعظم کی تلاوت سے لاکھوں کبیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس اسمِ اعظم کے ذکر سے عروج کے مراتب عقل و فکر سے باہر ہیں۔ ابھی اس سلسلے میں بات چل رہی تھی اور عین ممکن تھا بہت سی چیزیں منظر عام پر آ جاتیں کہ فرمانے لگے کہ خاموشی اختیار کرنے کا حکم آگیا ہے۔

30.    نیکو کاروں کی عیاشی

پھر آپ نے فرمایا ملکی حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اﷲ اﷲ کرنے والے طبقہ سے عیاشی ختم ہو جائے۔ عیاشی کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ کسی لغزش کو خاموش تماشائی بن کر دیکھنا انکی عیاشی ہے۔

٭آپ نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ حالات و احوال ورطۂ تحریر میں آ جائیں کہ شاید کوئی اس جگہ سے گزرے تو اسے اس سے اطمینان اور راہنمائی حاصل ہو سکے۔ بزرگوں نے اس مسئلے کو اخفاء میں رکھا ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی یہاں تک رسائی نہیں ہوسکی۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے وہ دولت عطا کی ہے جس کی نہ میں نے تمنّا کی تھی نہ میرے وہم و گمان میں تھی۔

آپ نے فرمایا روحانیت کے لئے تندرستی اور صحت مند ہونا بھی ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر روحانیت کمزور ہو جاتی ہے۔

31.    غیب سے انتظام ہو جائے گا

٭ خطبۂ جمعہ شریف میں آپ نے جسم کو روح کا لباس قرار دیتے ہوئے اسے غیر اہم قرار دیا اور اصل چیز روح کو ٹھہرایا۔ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی وہ جسم کے فنا ہونے سے فنا نہیں ہوتی۔ (حسن اتفاق سے آپ کا یہ خطبہ مبارک میں نے بھی سنا ہے۔ سلیم قادری )

 ''خیال'' کو ''روح'' کا عمل قرار دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ آپ کے پاس حج پر جانے کے وسائل نہیں ہیں پھر بھی آپ دن میں چند بار پیار اور محبت سے روضۂ اقدس اور مکہ مکرمہ کا خیال کریں۔ انشاء اﷲ غیب سے انتظام ہو جائے گا۔ تجربہ شاہد ہے۔

٭ جنّات کے بارے میں کسی دوست کے استفسار کرنے پر میاں صاحب ؒ نے فرمایا کہ اس کی چند اقسام عام ہیں۔

1. حقیقی

2. خیال اور وہم

3. تصوّر

4. ہسٹیریا  (Hysteria)

5. مکر۔

ان میں سب میں صرف ایک قسم ہی صحیح ہے کہ ''جن'' کا اثر ہو جاتا ہے ، جسم میں داخل نہیں ہوتا۔

32.    احسن تقویم اور روحانی وجود

18 اکتوبر 93

قبلہ میاں صاحب ؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ روحانی وجود زیرِ بحث تھا۔ ہمیشہ کی طرح میاں صاحب ؒ زور دے رہے تھے کہ اصل وجود روحانی وجود ہے۔ سورۃ والتّین کی ابتدائی آیات پڑھ کر فرمایا کہ یہاں اﷲ تعالیٰ نے جس احسن التقویم کا ذکر کیا ہے وہ روحانی انسان ہے ، جسمانی طور پر کوئی شخص اندھا، لنگڑا اور معذور بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ احسن التقویم نہیں رہتا لیکن کوئی بھی ہو روحانی وجود سب کا احسن ہے۔ پھر قرآن پاک کی ابتدائی آیات میں سے صمُٗ بکمٌ ٗ یعنی گونگے بہرے کا اصل تخاطب ابو جہل اور ابی لہب کی جانب ہے جبکہ وہ عام جسمانی اعتبار سے گونگے بہرے نہ تھے۔ معلوم ہوا کہ اصل انسان ہے ہی ''روح''۔ جسم کی حیثیت اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ پھر فرمایا دنیاوی تمام رشتے جسم سے وابستہ ہیں۔ مادی جسم میں آنے سے پہلے تمام روحیں صرف روحیں تھیں اور کوئی رشتہ نہ تھا۔ اسی طرح جسم ختم ہو جانے کے بعد کوئی تعلق باقی نہ رہے گا۔ لیکن روحانی تعلق باقی رہے گا۔

پھر آپ نے فرمایا کہ جسم کی حالت تو یہ ہے کہ جب تک یہ توانا ہے اس تعلق کو اہمیت دی جاتی ہے، کمزور اور بوڑھا ہونے پر خود اولاد جسم والے انسان کو نظر انداز کرنے لگ جاتی ہے۔ باپ چار پائی پر پڑا ہے اور چاہتا ہے کہ اولاد اس کے پاس بیٹھے، اس سے باتیں کرے لیکن اولاد اسے نظر انداز کرتی ہے۔

33.    پیر جلوی کا ذکر

21 اکتوبر 93

بندہ میاں صاحب ؒ قبلہ کی رہائش چھے میل پر حاضر ہوا۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے اٹھ کر کمرے میں چلے گئے ہمیں بھی طلب فرمایا۔ قریشی صاحب بھی موجود تھے۔ میاں صاحب ؒ کے پاس ''پیر جلوی'' کی تصنیف موجود تھی جس میں سے اسمِ اعظم کا ذکر میاں صاحب ؒ پڑھ رہے تھے۔ اس تصنیف کے مطابق سورۃ البقرہ کے بعد سورۃ آلِ عمران کے اوائل میں '' الم۔ اﷲ ۔۔۔۔۔۔۔۔'' اسمِ اعظم ہے۔ میاں صاحب ؒ فرمانے لگے یہ اس شخص کی اپنی تحقیق ہے کسی بزرگ کی روایت نہیں۔

34.     اصل اسم اعظم

اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اصل اسمِ اعظم حضور ﷺ کا تصوّر ہے۔ میں نے جب بھی حضور ﷺ کا تصوّر کیا میرے دل میں جو خیال بھی آیا وہ پورا ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ روحانیت کی بنیاد تصوّر پر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا کہ انہوں نے شوق کی زیادتی پر اﷲ تعالیٰ سے جلوہ دکھانے کی درخواست کی لیکن اﷲ تعالیٰ نے صاف انکار کردیا کہ "لَنْ تَرَانی''۔ ہاں ایک صورت ہے کہ کسی آئینے میں اﷲ تعالیٰ کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ معراج کے موقعہ پر حضور ﷺ کا بار بار بارگاہِ ایزدی میں جانا دراصل انکی اس دعا کی قبولیت کا وقت تھا۔ حضور ﷺ بار بار اﷲ تعالیٰ کے دربار میں بار یاب ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس تشریف لاتے تھے تو آپ بتائیں کہ حضور ﷺ اﷲ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے وقت کس کیفیت سے گزرتے ہوں گے۔ محبوب کے رنگ میں رنگ جانا عام سی بات ہے۔ حضور ﷺ اس بحرِ وحدت سے غوطہ زن ہو کر جب آتے تو موسیٰ علیہ السلام حضور ﷺ کی ذات میں تجلّئ الہٰی کا مشاہدہ کرتے تھے۔ اسی طرح معروف حدیث پاک ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق  نے فرمایا کہ میں نے خدا کو مدینے کی گلیوں میں پھرتے دیکھا ہے۔ روحانیت کا سارا معاملہ تصوّر کا ہے۔ جو شخص حضور ﷺ کی زیارت کرے گا وہ ان کے رنگ میں ڈوب جائے گا۔ پھر آپ نے احمد آباد میں ماہِ رمضان کے اعتکاف کے دوران زیارتِ آنحضرت ﷺ کا واقعہ بیان فرمایا۔

پھر تصوّرِ شیخ کا ذکر چلا، فرمایا کہ سب سے پہلے تصوّرِ شیخ میں پختگی حاصل ہوتی ہے تو وہی تصوّر حضور ﷺ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ تصوّرِ شیخ پر بھر پور زور دینے کے بعد آپ نے فرمایا کہ آج سے تم "لا الٰہ الا اﷲ" کا ذکر شروع کردو۔ "اﷲ ھو'' جتنا ہو گیا ہے اسی پر اکتفا کرو۔ میں نے وضاحت چاہتے ہوئے پوچھا کہ قلب سے ''لا'' کھینچ کر ''الٰہ'' کو دائیں کندھے پر رکھتے ہوئے ''الا اﷲ'' کی ضرب قلب پر لگانی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ''ہاں''۔ پھر اپنا واقعہ بیان فرمایا کہ مجدّد الف ثانی ؒ کے مکتوبات شریف میں ''لا'' کو ناف سے کھینچا جاتا ہے لیکن مجدد صاحب ؒ ،اعلیٰ حضرت قبلہ سید ظفر الایمان شاہ صاحبؒ اور میاں صاحب ؒ کی موجودگی میں حضور ﷺ نے مجھے نفی اثبات پڑھنے کا جو طریقہ سمجھا یا اور میں نے کر کے دکھایا کہ حضور ﷺ کی منظوری حاصل کی۔ وہ طریقہ یہی تھا جو میں نے آپ کو بتایا ہے۔

 اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ زندگی موت کا کوئی اعتبار نہیں، اس لئے اب ڈٹ کر اسے پڑھو، یہی روح کی تقویت کا ذریعہ ہے۔ اس سے پہلے تمہاری اﷲ اﷲ کا کوئی خاص مقصد نہ تھا لیکن اب تمہاری منزل خدا کی ذات ہے جس تک اس وسیلے سے پہنچنا ہے۔

قریشی صاحب نے پوچھا کہ ذکر کے دوران اسی طرح سے سر ہلانا ہے؟ آپ نے فرمایا؛ ''ہاں'' اسی کا نام ''پاس انفاس'' ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس طرح کلمہ کا تصور ٹوٹ جاتا ہے ''لا'' کو قلب سے کھینچنا کندھے پر ''الٰہ'' اور ''اﷲ'' اسم شیخ کی پیشانی پر اسکی بجائے مکمل لا الٰہ الا اﷲ کا تصور ہونا چاہیے تھا۔تو آپ نے فرمایا حضرت سلطان باہوؒ نے مجھے اس تصور پر محنت کرنے کی ترغیب دی تھی لیکن میں نے اسے نہیں کیا۔

35.    ہو بہو نقل

06 نومبر 97

قبلہ میاں صاحب ؒ کے حکم کے موجب حاضرِ خدمت ہوا۔ قریشی صاحب پہلے سے موجود تھے اور روحانی وجود پر گفتگو ہو رہی تھی۔ فرمانے لگے کہ جسمانی وجود روحانی وجود کے تابع ہے۔ جو شکل روحانی وجود کی ہے وہی شکل جسمانی وجود کو دی گئی ہے۔ یہ جسم عنصری اس اعلیٰ تخلیق کی ہو بہو نقل ہے۔ کیونکہ اصل تخلیق جو عالم ارواح میں معرض وجود میں آئی تھی وہ ہر لحاظ سے مکمل اور احسن التقویم تھی اور پورا پورا وجود رکھتی تھی۔ یہ جسم بعد میں تخلیق ہوتا ہے جو اصل وجود کی نقل ہے۔ قرآن پاک سے اپنی بات کی تائید کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے پاس ایک صندوق کا ذکر آتا ہے جس میں من جملہ دیگر تبرکات کے کچھ تصاویر بھی تھیں۔ اور ان میں سے بعض تصاویر ایسی ہستیوں کی تھیں جو ابھی اس دنیاوی وجود میں ظاہر نہیں ہوئے تھے، مثلاً حضور نبی کریم ﷺ ، حضرت ابو بکر صدیق  ۔

36.    ملاقات اور بات عین ممکن ہے

 پھر آپ نے ایک اور واقعہ سنایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اس بات پر آگاہی چاہی کہ حضور ﷺ کے امتی بنی اسرائیل کے انبیاء جیسے ہونگے تو حضور ﷺ کے ایک امتی امام غزالی ؒ کو حاضر کیا گیا اور ان سے سوال جواب ہوئے۔ یہ سب صورتیں تبھی ممکن ہیں کہ روح ایک مکمل اور کامل وجود رکھتی ہے اور وہ ارواح جو ابھی جسم عنصری سے ظاہر نہیں کی گئیں ان سے ملاقات اور کلام عین ممکن ہے۔ روحانی وجود چونکہ اصل ہے اس لئے اس کے اثرات اس جسمانی وجود پر ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ وجود اس روحانی وجود کو متاثر نہیں کرتا۔

پھر میاں صاحب ؒ نے اپنی واردات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ مجھے دونوں وجود الگ الگ دکھائے جائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے تجربے سے گزارا کہ میں اپنے دونوں وجودوں کو الگ الگ دیکھ رہا تھا۔ میں نے سوال کیا کہ وہ کون تھا جو ان دونوں وجودوں کو دیکھ رہا تھا؟ آپ ؒ نے فرمایا کہ وہ تیسرا وجود ہے جس سے اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں اجسام کو یکجا کیا ہوا ہے۔ ایسے ہی جیسے دو چادروں کو ہم دھاگے سے سی کر ایک بنا دیتے ہیں۔ جب دھاگہ نکال لیں گے دونوں چادریں الگ الگ ہو جائیں گی۔ یہ اللہ کا امر ہے جیسے اس کا ''کُن'' فرمانا۔ نہ یہ خالق ہے نہ مخلوق ہے بلکہ اس کا حکم یا امر ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرا روحانی وجود پاؤں کی جانب سے اپنے مادّی وجود سے پیوست ہونا شروع ہوا اور جب اس روحانی وجود کے سر کا پچھلا حصہ سفلی وجود کی پیشانی سے لگا تو یہ حالت اختتام کو پہنچی۔ نفس کا مقام سفلی وجود کی پیشانی ہے۔

37.    اللہ بس، باقی ہوس

05 دسمبر 73

محمد اسلم علوی کو کراچی ایک خط میں تحریر کیا:

سارا قرآن اسم ذات میں موجود ہے اور تمام وجود اسی کیلئے ہیں۔ اسلام اور دنیا و مافیہا کا مقصد و مقصود اور اخذ اسم ذات ہے۔ ''اللہ بس باقی ہوس''۔

حضور نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے بڑا حق ہم پر آپ ﷺ کی ذات پر درود شریف پڑھنا ہے۔

38.    کسبی اور وہبی قوّت

وَھبی دراصل عطائی صلاحیتوں کو کہتے ہیں جو بندے کو بغیر اس کی محنت کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں۔ کَسبی وہ افعال ہیں جس پر محنت کرکے انسان ان میں کمال حاصل کرتا ہے۔ سب سے بڑی وَھبی طاقت ''روح'' ہے۔ باقی جتنی بھی وَھبی قوتیں ہیں وہ اس سے کم ہیں۔ اگر کوئی شخص بے عملی کی وجہ سے روحانی قوت کو کمزور کر سکتا ہے تو وہ باقی تمام وَھبی صلاحیتیں بھی با آسانی ضائع کر سکتا ہے۔ ''کَسبی'' وہ طاقت ہے جو کوئی اپنے فعل سے کامل اور اکمل کرے جیسا کہ تمام انبیاء ، اولیاء کرام اور صحابہ کرام کی طاقت کَسبی ہے۔ سب سے زیادہ کَسبی طاقت حضور نبی کریم ﷺ کی ہے۔ کَسبی طاقت میدان حشر تک ضائع نہیں ہوتی اور اسی پر ثواب و عذاب کا انحصار ہے۔ کَسبی طاقت زائل نہیں ہوتی۔ '' روحانی کَسب ''یا روحانیت کی کَسبی طاقت اعلیٰ و افضل ہے کیونکہ اس کا تعلق روح سے ہے جو امرِ ربّی ہے اسی لئے اس کا کَسب ناقابلِ تلافی ہے۔ اسی لئے روحانی استوار والوں کو زندگی جاوید ملتی ہے۔

39.    شرک ناقابل معافی ہے

جس طرح روح کا کَسب دائمی ہے اور لازوال ہے اسی طرح روح کا گناہ دائمی اور ابدی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرک ایسا گناہ ہے جو ناقابل معافی ہے کیونکہ وہ روح کے ساتھ گناہ ہے۔ شرک چونکہ باری تعالیٰ کا صریحاً انکار ہے اور روحانیت کا انکار ہے اس لئے یہ گناہ ناقابل معافی ہے۔

40.     عکس در عکس

٭ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ مجھے فرصت نہیں ملتی ورنہ آئینے کے آگے تمہاری مشق کرا کے تمہیں روحانیت کے سبق سے روشناس کراؤں۔ چند دنوں کے بعد میں ایک بڑے سا‏ئز کا آئینہ خرید کر لے گیا۔ دیکھ خوش ہوئے پھر فرمایا کہ ایک آئینہ کافی نہیں کم از کم ایک اور ہونا چاہیے۔ میں اگلے روز ایک اور ایسا ہی آئینہ کچہری بازار سے خرید کر لے گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ایسے ہی دو آئینے اور لاؤ۔ اور ساتھ ان کو دیوار میں نصب کرنے والے کلپ بھی لانا۔ اگلے روز میں دو اور آئینے اور کلپ لے کر حاضر خدمت ہو گیا۔ چند دن کے بعد ایک مستری کی مدد سے آئینے کمرے کی چاروں دیواروں میں اس طرح نصب کئے کہ کمرے کے درمیان میں جو فرد کھڑا ہو اس کا عکس چاروں دیواروں میں نظر آئے اور پھر عکس در عکس۔ جب یہ تمام انتظام مکمل ہو گیا تو آپ مجھے کمرے کے اندر لے گئے، درمیان میں کھڑا کرکے حصار کھینچا اور بلند آواز سے ذکر کرنے اور دوران ذکر اپنے تصور کی جانب متوجہ ہونے کی ہدایت کی۔ میں نے وہاں بلند آواز سے نفی اثبات کا ذکر کیا۔ میرے بعد قریشی صاحب کو اسی طرح ذکر کرنے کی ہدایت فرمائی۔ دو دن کے بعد آپ واپس چوک تشریف لے گئے۔ جاتے وقت آپ نے ہدایت فرمائی کہ یہ عمل تم اپنے گھر پر کرنے نہ بیٹھ جانا۔ کسی کامل کی راہنمائی کے بغیر ''روح'' کے بجائے '' ہم زاد'' سے تعلق ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ خیالی طور پر مشق ضرور کیا کرو۔ اس میں فائدہ ہے۔ آئینے کے آگے ذکر کرنے سے پہلے حصار میں ہونا ضروری ہے۔ وہ آئینے ہر وقت آپ کے کمرے میں آویزاں رہتے لیکن ان پر پردے ڈال دئیے گئے۔

41.    ویری ویری ایکس لنٹ

21 محرم الحرام:

قبلہ میاں صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، بجلی بند تھی۔ صحن میں درخت کے نیچے چار پائی پر بیٹھے تھے۔ بندہ سلام عرض کرکے وہیں صف پر بیٹھ گیا۔ تو فرمانے لگے کہ غوث پاک ؓ نے پوچھا کہ کیا اب کام ٹھیک ہو گیا ہے۔ تو میں نے جواب دیا ـ

"Good, better, best, excellent, very very excellent"

میں نے خوش ہوکر عرض کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ غوث پاک ؓ کی تربیت کا مرحلہ اختتام پذیر ہوا۔ فرمانے لگے ہو سکتا ہے ایسے ہی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی ایک مرحلے کی تربیت مکمل ہوئی ہو۔

42.     چاہتی اِسم

پھر اسمِ اعظم کا ذکر چلا، فرمانے لگے تم نے جو سوال کیا تھا، غوث پاک ؓ سے اس کا جواب بھی مل گیا ہے۔ تم نے کہا تھا کہ موسیٰ ؑ نے جب اللہ کے انتہائی پسندیدہ اسم بتانے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسمِ اعظم بتانے کی بجائے ''لا الٰہ الا اللہ'' فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی سے یہ بعید لگتا ہے۔ فرمایا غوث پاک ؓ نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء  کو اسمِ اعظم کا علم عطا فرمایا ہے لیکن جب اسمِ اعظم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے من پسند اسم کو ملایا جائے تو اس کے مقابلے میں باقی تمام ذکر و اذکار اور ورد وظیفے معمولی نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسمِ اعظم اور '' چاہتی اِسم '' کو زبانی پڑھنے سے وہ ثمرات مرتّب ہوتے ہیں جو اور کسی طرح ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں مضمر فرما دیا ہے۔ اس کا علم صرف اسے ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ چاہے ورنہ منتشر حالت میں تو ہر قرآن پڑھنے والا اسے پڑھتا ہے۔

بعد ازاں روحانیت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ وہ تو دنیا ہی الگ ہے۔ وہ لوگ اس دنیا اور اس کی مخلوقات کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے سائنسدان خورد بین کی مدد سے معمولی اور حقیر چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ دنیا کی زندگی اور اس کے اعمال کی حقیقت بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ حشرات الارض کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر تعجب کرتے ہیں۔ نمازِ ظہر کے بعد مسجد میں بیٹھے تو فرمانے لگے کہ کیا تم ایسی ہی زندگی گزارنا چاہتے ہو جس میں اصل حقیقت کا شعور اور ادراک حاصل نہ ہو ؟ اصل انسان ''روح'' ہے، اس کا شعور اور ادراک بھی ''روح'' ہی ہیں۔

آپ نے ایک مثال بیان فرمائی کہ آپ شیشے (آئینے) کے آگے بیٹھیں تو اس تصور میں اس قدر کھو جائیں کہ خود کو بھول جائیں اور پھر جب کوئی آپ کو متوجہ کریگا تو آپ کو اس کی طرف توجہ کرنے میں کچھ وقت لگے گا، اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ اصل انسان وہاں موجود نہیں ، وہ بلائے جانے پر وہاں آنے میں اتنا ہی وقت لیتا ہے۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ تم بھی روح کی پرواز کی طرف دھیان دو۔ ہر وقت روح کے بارے میں غور و تفکّر کیا کرو اور خیال ہی خیال میں ( جو روح کا عمل ہے) کبھی چوک ، کبھی ٹبّے پر چلے آیا کرو۔ مزار شریف پر کھڑے ہوکر اس خیالی اور تصوراتی وجود کے ہاتھ میں تسبیح پکڑا دو اور پھر اسے ذکر کرنے کی ہدایت کرو اور خیال رکھو اور ذکر کا شمار کرو۔ ایک وقت آئے گا کہ آپ سچ مُچ خود کو وہاں محسوس کریں گے۔

43.     قابَ قوسین

پھر آپ نے معراج کے واقعے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ''عبدہٗ'' کے خطاب سے نوازا ہے کیونکہ مقامِ عبدیت کو جس طرح مکمل طور پر حضور ﷺ نے طے فرمایا کسی اور کے حصے میں یہ سعادت نہیں آئی۔ ''قابَ قوسین'' کی وضاحت میں آپ نے اپنے بازوؤں کو قوس کی شکل میں کھولا اور فرمایا اس کو بھی قوس کہتے ہیں۔ '' اَوْ اَدْنیٰ '' کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضور ﷺ بغل گیر ہوتے کبھی وہ اس کی جانب بڑھا اور کبھی آپ ﷺ اس کی جانب بڑھے اور پھر دونوں ذاتیں ایک ہو گئیں۔

44.     حضور ﷺ کے تصور کی کیا ضرورت ہے ؟

2 صفر :

ایک سائل کے ساتھ بغرض دعا حاضر ہوا، آپ نے سائل کا مسئلہ حل کر دیا اور پھر فرمایا کہ ذکر انسان کو مذکور تک پہنچاتا ہے۔ لیکن طلب صادق اگر پیدا ہو جائے تو مسافت کئی گنا کم ہو جاتی ہے۔ طلب صادق ہی مشکل کام ہے۔

آپ ؒ نے فرمایا کہ جب میں دیدار باری تعالیٰ سے مشرف ہوا تو رخسار پر سیاہ داغ دیکھا۔ میں حیران تھا اور شیطان مجھے بہکانا چاہتا تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ انسانوں کے گناہوں کا داغ ہے۔ شیطان نے ایک اور وار بھی کیا کہ جب میں تصور باری تعالیٰ تک پہنچا تو شیطان نے کہا کہ اب حضور ﷺ کے تصور کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا میرا تو سب کچھ حضور ﷺ ہی ہیں۔ میں تو ان کے بغیر قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ پھر ایسے ہی ہوا۔ ( ایک بلند مقام پر ۔۔۔۔)

حضور ﷺ نے مجھے ایک گدی پر بٹھایا جو حضور پاک ﷺ کے لئے مخصوص تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ میں سائلوں کے مسائل کا جواب دوں۔ اُن کے فرمان کے مطابق میں نے ایسا کیا بھی۔

٭ چند نکات آپ نے بیان فرمائے:

 پہلے خدا تعالیٰ نے وہ ضابطہ تخلیق فرمایا جس کے تحت اس کا بندہ اس تک پہنچ سکے گا۔ اس کے بعد بندہ تخلیق فرمایا۔

45.     اہل اللہ

آپ نے حضرت سلطان باہو ؒ کے حوالے سے ایک نقشہ بنا کر دکھایا۔ {تماشہ بین (تماشہ گر) تماشہ بین} کہ دنیا تمام تماشہ گر ہے اور جو لوگ دنیا کے اس دائرے سے نکل کر آگے آ جاتے ہیں وہ تماشہ بین ہیں اور وہی درویش کہلاتے ہیں جو دنیا اور اہل دنیا کو تماشائی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔

46.     عشق عشق ہے

 عشق کے بغیر انسان ، انسان نہیں بلکہ ڈھور ڈنگر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا عشق سے زیادہ مؤثر اور زود رس کوئی عمل نہیں۔ جب عشق ہو جاتا ہے تو نیند آور دوائیں کھانے سے بھی نیند نہیں آتی۔

 درد منداں دیاں آہاں کولوں

بھج ناگ زمین وچہ وڑدے ھو

آپ ؒ نے فرمایا کہ کلام باھو ؒ پڑھنا چاہیے۔

47.     اصلی انسان کا رخ

اصلی انسان اور نقلی انسان کا موازنہ کرتے ہوئے آپ ؒ نے فرمایا کہ اصل انسان اللہ کا امر ہے۔ عرش، کرسی، لوحِ محفوظ کی طرف اس کا رخ ہے جبکہ نقلی انسان کی پرواز '' اسفل السافلین'' کی طرف ہے۔ وہ نور ہے جبکہ یہ جسم عناصر اربعہ کی پیداوار ہے۔ اُس کی غذا بھی نورانیت ہے، اسکی غذا اربعہ عناصر سے ہے۔ اصل انسان مسجود ملائکہ ہے جبکہ نقل انسان وحوش سے بھی بدتر ہے۔ اُس کی پرواز فرشتوں سے بڑھ کر ہے جبکہ اس مادّی وجود کی پرواز محدود ہے۔ آپ نے حضرت جبرائیل ؑ کی پرواز کی مثال دی کہ تین بار انہیں تیز رفتاری کے باعث پسینہ آگیا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالتے وقت

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالتے وقت

حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرتے وقت

انسان کے دونوں پہلو مثبت اور منفی صفات سے متّصِف ہیں۔ دونوں کے امتزاج کے بغیر یہ دنیا کی زندگی نہیں گزار سکتا۔

حواس خمسہ اصل انسان کے ہیں۔ لیکن مادّی قالب میں یا بند ہونے کی وجہ سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کے وجود جنتی روحوں کی مانند ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ کے رفع حاجت اور حضرت عائشہ ؓ کے تجسّس کا واقعہ بیان فرمایا۔

48.     دیدار باری تعالیٰ

اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے سے حالت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو دیکھتا ہے۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ میں نے محسوس کیا کہ ریلوے انجن جیسی تیز دو روشنیاں آ رہی ہیں۔ جب میں نے ان میں سے روشنی کے مبداء کی جانب دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے نگاہیں ٹکرا گئیں۔ آپ نے فرمایا ہمارے دوستوں میں سے بھی چند ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا ہے۔ آپ نے تصدیق کیلئے اُن سے اللہ تعالیٰ کی داڑھی کے متعلق پوچھا تو ان کا جواب درست تھا۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کو حضور ﷺ کی شکل میں دیکھا؟ آپ ؒ نے فرمایا کہ شکلیں تو سب ایک ہی ہیں۔

آپ نے یہ بات زور دے کر فرمائی کہ جسمانی گناہ ثواب کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اللہ اللہ کرتے جاؤ اور اس میں کمی نہ آنے دو۔

49.     روحانی کمیٹی کے ارکان

دنیا کا نظام چلانے والی کمیٹی کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ایک وزیر اعظم ہے جس کے ماتحت سات افراد ہیں۔ پھر اُن سات میں سے ہر ایک کے تابع دس دس افراد ہیں۔ اور ان دس میں ہر ایک کے تابع چالیس چالیس افراد ہیں۔ یہ جماعت فیصلے کرتی ہے۔ جن پر دنیا میں اور باطن میں عمل ہوتا ہے۔ آپ ؒ نے فرمایا میں اس کمیٹی کا رکن رہا ہوں لیکن میں نے اس سے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن میری خواہش ہے کہ ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی اس کمیٹی کا رُکن بنے، اس کیلئے کثرت سے ذکر کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ آپ ؒ کو حضور ﷺ کی مجلس پاک میں خازن مقرر کیا گیا تو آپ نے ایک چھوٹی داڑھی والے شخص کو حاضری سے منع کر دیا۔ بعد میں آپ ؒ نے بتایا کہ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران سچ مُچ اس شخص سے ملاقات ہوگئی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔

50.    روحانیت کا طریقہ

اپنے مسلک اور طریقے کے بارے میں فرمایا کہ یہ روحانیت کا طریقہ قیامت کے قرب میں اللہ تعالیٰ نے میرے ذمّے لگایا ہے۔ یہ وہ اسرار ہیں جن کے بارے میں بہت کم لوگوں نے بیان کیا ہے۔ جو آدمی روحانیت سے واقف نہیں اسے زندگی کا علم ہی نہیں۔

اسمِ اعظم کے بارے میں ایک مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ابھی تک کسی بزرگ نے تائید نہیں فرمائی کہ ہاں یہی اسمِ اعظم ہے۔ اگرچہ اثرات سے اس کی تائید ہو رہی ہے۔ اب (مئی ۱۹۶۹؁ء) ایک بزرگ نے تین آدمیوں کو بتانے کی اجازت دی ہے۔

تخلیق کائنات کا مقصد اللہ تعالیٰ کا اپنی شانِ ربوبیت کا اظہار ہے۔ اس مخفی خزانے نے اپنی قدرت کے اظہار کیلئے ایک نظام ترتیب دیا اور پھر حضرت آدم ؑ کی تخلیق کی تاکہ وہ اس مقررہ نظام پر عمل پیرا ہوکر اپنے خالق کی پہچان کر سکے۔

٭ روحانیت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے آپ ؒ نے فرمایا کہ ایک ظاہری انسان ہے اور ایک باطنی انسان ہے۔ باطنی انسان، جس کی آنکھ کان زبان ہیں۔ اسی باطنی انسان کی سماعت، گویائی اور بصارت کھولنے کی ضرورت ہے اس مقصد کیلئے پیر کی ضرورت ہے۔

انسان کے اندر دو طرح کی صورتیں کارفرما ہیں

نفس،

روح۔

نفس کا غلبہ اربعہ عناصر سے ہے اور روح کی غذا اللہ کا ذکر ہے۔ روح کی تقویت سے نیکی کرنا آسان ہو جاتی ہے۔

اصلی انسان ''روح'' ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ جسم کی حیثیت ایک لباس کی سی ہے۔ جسم کا عمل بے حقیقت ہے، اسکی کوئی حیثیت نہیں۔ اصل گناہ وہی ہے جس میں انسان کی روح ملوث ہو۔ اسی لئے شرک کا گناہ ناقابلِ معافی ہے۔

روحانی جسم کو چلاؤ اور اسی روحانی جسم سے ذکر کرو اس طرح کہ یہ مادّی جسم اس ذکر کو صرف سنے۔ اصل انسان ''روح'' ہے، مادّی جسم اسکی شکل پر بنایا گیا ہے۔ حواس خمسہ صرف روح کے ہیں۔ اس جسم کے تمام حرکات و سکنات اسی روحانی وجود کے تابع ہیں۔ اصل انسان نور ہے، مسجود ملائکہ ہے، امر ربّی ہے۔ نقلی (ظاہری) انسان عناصر اربعہ کی پیداوار ہے۔ اصل انسان کا عروج اعلیٰ علییّن کی جانب ہے ، جبکہ نقلی انسان کا عروج ''اسفل السافلین'' کی جانب ہے۔ اصلی انسان اور نقلی انسان یا مثبت و منفی پہلوؤں کی موجودگی اس دنیا کی زندگی کیلئے لازمی ہے۔ دونوں قوتوں کی موجودگی کے بغیر زندگی کا عمل بھی بجلی کے (مثبت اور منفی کی موجودگی کے بغیر روشنی) کی طرح ناممکن ہے۔

51.    انڈے کی زردی

08 اگست 96 مطابق 22 ربیع الاول، جمعرات

بندہ میاں صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ''مجرباتِ امام سیوطی ؒ پڑھ رہے تھے۔ انڈے کا ذکر ہو رہا تھا کہ اسکی زردی استعمال کرنا چاہیے۔ باتوں باتوں میں آپؒ فرمانے لگے انسان کو جس چیز کے متعلق علم ہو اسے اس کو محض اس لئے اخفاء میں نہیں رکھنا چاہیے کہ کوئی اس کو بتائے جانے کے اہل نہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی اہل ہو یا آنے والے زمانے میں کوئی شخص اتنا اہل ہو کہ وہ صرف پڑھ کر ہی اسے حاصل کرے یا حاصل کرنے والے کے اطمینان اور یقین کا باعث ہو جائے۔ اس لئے اظہار ضروری ہے۔

52.    آب حیات

 پھر آپ نے فرمایا کہ آؤ تمہیں میں بتاؤں کہ جب میری روحانیت غالب ہوئی اور پرواز شروع ہوئی تو میں نے ''آبِ حیات'' کا قصد کیا۔ یہ پہاڑوں میں واقع ہے۔ جب میں نے پرواز کی تو میں نے محسوس کیا کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ کوئی اور ہوتا تو شاید تھک ہار کر بیٹھ جاتا۔ میں اس معاملے کو روحانی انتظامیہ کمیٹی میں لے گیا کہ استعداد اور اہلیت کیسے بڑھ سکتی ہے؟ ان میں سے ایک بزرگ نے بتایا کہ انڈے، زیتون اور شہد سے یہ استعداد بڑھتی ہے۔ اسکے بعد میں نے ان اشیاء کا استعمال شروع کیا۔

میں نے عرض کیا کہ یہ اشیاء آپ نے کیسے استعمال کیں؟ فرمایا انڈے کو روغن زیتون میں فرائی کر کے شہد ملاکر روٹی سے کھا لیتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد میرے اندر واقعی اہلیت پیدا ہوگئی اور میں چشمہ آبِ حیات پر جا پہنچا میں نے دیکھا کہ کچھ انسان اور پرندے وہاں پڑے ہوئے ہیں انہوں نے آبِ حیات پی رکھا ہے اس لئے مر نہیں سکتے لیکن کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔

53.    موت میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی

پھر آپ نے فرمایا کہ آبِ حیات میں نے بھی پیا۔ قریشی صاحب نے خوش ہوکر فرمایا کہ پھر تو آپ کو بھی ابدی زندگی مل گئی۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ میں نے (آبِ حیات کے بغیر ہی) موت دا کنڈا کڈھ چھڈیا۔ یہ موت میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ (انشاء اﷲ)

54.     روحانیت کا سبق

٭ بعد نماز عصر مسجد میں چند دوستوں میں روحانیت کا سبق شروع کیا گیا۔ فرمایا کہ مراقبہ کرو اور یوں محسوس کرو کہ تمہارے ساتھ ایک اور تم کھڑا ہے۔ اسے ذکر کرنے کی تلقین کرو۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر فرمایا کہ اب اسے کہو کہ ذکر بھی کرے اور تمہارے گرد چکر بھی لگائے، تیسری بار آپ نے فرمایا اسے کہو کہ مسجد کی چھت پر چڑھ جائے لیکن اسے اذان دینے سے روکنا ہے اور ذکر کرنے کو کہنا ہے۔ ذکر کی تعداد تم نے گِننِی ہے۔ بعد میں آپ ؒ نے ہر ایک سے اسکے مشاہدات اور ذکر کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایا۔

آپ ؒ نے فرمایا کہ آئندہ ایک اور تمہارا وجود تمہارے دوسری جانب ہو گا ایک طرف کا وجود ذکر کرے گا اور دوسرا وجود تسبیح پکڑ کر ذکر کی تعداد شمار کرے گا اور تم اسے چیک کرو گے۔ یہ قدرے مشکل ہے لیکن اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو سمجھو کہ میدان میں آگئے۔

٭ 25، ربیع الاوّل بعد نماز عصر اکرم صاحب کے ہاں محفلِ نعت خوانی میں دوستوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ عصر کے بعد میاں صاحبؒ تشریف لے آئے مراقبہ میں تیسرے نمبر پر مولوی سردار احمد کی مسجد میں ذکر کرنے کی تلقین کی۔

مراقبے سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ یہ سلسلہ غوثِ پاک رضی اﷲ عنہ کے ایما پر شروع کیا گیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں غوث ِ پاک  کا خصوصی فیض ہے آپ ؒ نے فرمایا کہ ''ہاں''۔

26، ربیع الاوّل مسجد میں مراقبے میں بس کے ذریعے چوک جانے کے لئے کہا گیا۔ فارغ ہوکر آپ   نے فرمایا کہ اسے محض خیال ہی نہ سمجھ لینا۔ یہ حقیقت ہے اور جسے تم حقیقت سمجھتے ہو وہ بے حقیقت ہے۔

55.    غوثِ پاک رضی اﷲ عنہ کی حیثیت

31 مارچ 97

اکیسویں شریف کے موقع پر بندہ حاضر ہوا۔ نعت خوانی میں آخری نعت خواں نے غوثِ پاک   کی منقبت شروع کردی۔ آپؒ خوش ہوئے اور فرمایا کہ غوثِ پاک  کی حیثیت حضرت جبریل  کی مانند ہے وہ ہر نبی کے پاس آتے اور اﷲ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے۔ اسی طرح غوثِ پاک  بھی ہر اس شخص کو اﷲ تعالیٰ سے واصل کرتے ہیں جو اس کی اہلیت پیدا کر لیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ فرد انکے سلسلے سے متعلق ہو۔ ہر سلسلے کے افراد پر انکی مہربانی یکساں ہے۔ بلکہ یہ ان کے فرائض میں شامل ہے کہ اہل بندوں کو اﷲ تعالیٰ سے ملائیں۔ یہ ڈیوٹی انکی کیوں ہے؟ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ بس ایک ڈیوٹی ان کے ساتھ مخصوص کردی گئی ہے۔ قصیدہ غوثیہ میں جو آپ نے فرمایا ہے کہ میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے اور میری گردن پر حضور ﷺ کا قدم مبارک ہے انہوں نے اس میں اپنی اسی ڈیوٹی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ ہر کسی کے پیر و رہنما ہیں۔ شرط صرف اس اہلیت کی ہے جو ملاقاتِ خداوندی کے لئے مخصوص ہے اور وہ ہے ''روحانیت''!

56.    تم نے کون سا کمال کیا

ختم شریف کے بعد کھانا تناول فرماتے ہوئے ڈاکٹر الیاس بشیر صاحب سے باتیں کرتے ہوئے پھر جذباتی ہوگئے، کھانا چھوڑ دیا۔ فرمایا تم سمجھتے ہو کہ تم نے بہت پڑھ لکھ کر 2000 روپے زیادہ لینے شروع کر دئیے ہیں اور کمال حاصل کر لیا ہے۔ روحانیت کی نظر میں اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ روحانیت کی تحقیق کرو اور باقی دوسری تحقیق چھوڑ دو۔

میں نے عرض کیا کہ یا حضرت ! اگر ہمیں اس کا ادراک ہو جاتا تو ہم بھی نہ چھوڑتے اور ضرور نئی نئی جہتوں سے اس کا مشاہدہ کرتے جس طرح آپ کو یقین حاصل ہے اور آپ اسے قطعاً ترک نہیں کرتے۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ میرے سامنے کوئی شخص سورج کو زمین پر اتار لائے اور پھر اسے واپس لے جائے تو میں اس سے متاثر نہیں ہوتا۔ روحانیت نے وہ دولت عطا کی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ میں نے مختلف طریقوں سے تمہیں سمجھانے کی جدوجہد کی ہے۔ پہلا سبق یہ ہے کہ اس روحانی وجود کے بارے میں غور و فکر کیا کرو۔ ہر وقت اسے محسوس کیا کرو اور روحانی وجود کو اپنے وظائف پڑھنے کی تلقین کیا کرو۔ آپؒ نے ختم شریف کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ اب تم سب یہ سمجھو کہ ہم مر چکے ہیں اور ہماری روح اور جسم الگ الگ ہیں اس طرح اس حال میں روح کا ذکر کیا کرو اور ہر روز کم از کم پانچ منٹ اور زیادہ سے زیادہ دس منٹ تک یہ ذکر کیا کرو۔  

57.     محنت اور عمل کی اہمیت

          ایک دفعہ قبلہ میاں صاحبؒ نے محنت اور عمل کی اہمیت واضح کرنے کے لئے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ ان کا کوئی کام تھا۔ اس کے بارے میں جاننے کے لئے کہ یہ کب ہو گا، آپؒ اسے روحانی کمیٹی میں لے گئے۔ وہاں پر آپ کو بتایا گیا کہ یہ کام فلاں وقت تک ہو جائے گا۔ جب آپ نے یہ سنا تو وہ عمل جو آپ کر رہے تھے اسے چھوڑ دیا کہ کام کو فلاں وقت ہی ہونا ہے پھر محنت کی کیا ضرورت ہے؟ جب وقتِ مقررہ پر کام نہ ہوا تو آپ پھر روحانی کمیٹی میں گئے اور کام نہ ہو سکنے کی شکایت کی۔ جواب ملا کہ آپ نے بھی تو وہ عمل ترک کردیا تھا جس کی بنیاد پر آپ کو کہا گیا تھا کہ کام فلاں وقت پر ہی ہو جائے گا۔ آپ کے عمل کی رفتار کے مطابق آپ کو وقت بتایا گیا تھا اب رفتار کم کرنے سے یا عمل ختم کر دینے سے کام بھی متاثر ہو گا۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ ہر کام کے لئے محنت اور اﷲ اﷲ درکار ہے ایک مخصوص تعداد پوری ہونے پر کام ہو جاتا ہے۔ اس کے بغیر دوسرا کوئی ذریعہ نہیں۔

58.    حبسِ دم اور پاس انفاس

٭ قبلہ میاں صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا مسلسل طبیعت کے خراب رہنے اور کمزوری غالب آ جانے کی شکایت کی۔ فرمانے لگے کہ حبسِ دم کے ساتھ پاس انفاس کیا کرو۔ میں نے عرض کی کہ کیا حَبسِ دم اور پاس انفاس کو ملاکر کیسے کرنا ہے؟ آپؒ نے فرمایا کہ ایک سانس میں پانچ سے دس مرتبہ تک جتنی مرتبہ ہو سکے نفی اثبات پڑھ کر پھر دوسرا سانس لیا کرو۔ سانس کے ساتھ ذکر کرنا پاس انفاس ہے اور ہر سانس میں ایک مقررہ تعداد پڑھ کر سانس لینا حَبسِ دم ہے۔ آپؒ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حالتِ حَبسِ دم میں ہیں۔

59.    مؤمن ناپاک نہیں ہوتا

٭ ایک مرتبہ آپؒ نے بیان فرمایا کہ آپ حالتِ جنابت میں تھے کہ خواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے۔ وہ آپ کو گلے لگانا چاہتے ہیں لیکن آپ حالتِ جنابت کی وجہ سے پریشان ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مؤمن ناپاک نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق جسم سے ہے اور جسم عنصری چار پائی پر پڑا ہے۔ روحانی وجود ہمیشہ پاک ہے۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ مؤمن ناپاک ہوتا ہی نہیں تو ان کا اشارہ روحانی وجود ہی کی طرف تھا۔ سو اصل شئے ہے ہی ''روح''۔ جسمِ خاکی کی کوئی حیثیت نہیں۔

60.     ہم نے تو کیا پردۂ اسرار کو بھی فاش

ایک دن مجھے طلب فرمایا اور کہا کہ یہ نقش چھپوانا ہے۔ بندہ نے پینسل سے بیضوی شکل کی قوسین ایک کاغذ پر بنا کر میاں صاحبؒ کی خدمت میں پیش کیں اور ایک سیاہ رنگ کا ''مارکر'' دیا کہ آپؒ اپنے دستِ مبارک سے اس قوس کو اجاگر فرمائیں اور جو ردّ و بدل کرنا ہو وہ فرما دیں۔ آپؒ نے اپنے ہاتھ سے پینسل سے بنے ہوئے نقش پر مارکر پھیرا اور اس کے شروع اور آخر میں کچھ حروف بنانے کی کوشش کی۔ جب آپ یہ نقش بنا رہے تھے تو علامہ اقبالؒ کا یہ شعر وردِ زبان تھا۔

ہم نے تو کیا پردۂ اسرار کو بھی فاش

دیرینہ ہے ترا مرضِ کور نگاہی

گاہے گاہے میرے چہرے کے تاثرات پڑھنے کے لئے کہ آپ میری طرف بھی دیکھ رہے تھے لیکن میں نقش کی طرف متوجہ تھا۔

پھر ایک موقع پر آپؒ نے وضاحت فرمائی کہ حضور کے تصور ہی سے توحید کا حصول ممکن ہے۔ تمہارے لئے ایک قدم پیچھے ہے کہ تم یہ سبق پیر سے شروع کرو۔ فرمانے لگے لوگ فوراً ''لا الٰہ الا اﷲ'' کا ترجمہ کرنے دوڑتے ہیں۔ جبکہ اسے ایک ''اسم'' کے طور پر نہیں مانتے۔ "فَعْلَمْ اَنّٰہٗ لا الٰہ الا اﷲ'' اس کا ترجمہ یوں کیوں نہیں کرتے ''پس جان لو کہ میں ''لا الٰہ الا اﷲ'' ہوں جب ہم یہ کہتے ہیں ''اَنْتَ لا الٰہ الا اﷲ'' تو ہم کوئی نئی بات نہیں کرتے حضور ﷺ کا تصور سامنے ہو تو ہم اسے '' اَنْتَ لا الٰہ الا اﷲ مُحَمّدُٗ رَّسُولُ اﷲ'' کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ حضور ﷺ خدا کی ذات کے مظہرِ تام ہیں۔ جنہوں نے معراج کی شب اﷲ تعالیٰ کی ذات کو ''قابَ قوسین'' کے مقام پر دیکھ کر لا الٰہ الا اﷲ کہا اور پھر موسیٰ علیہ السلام کی دعا کی تکمیل اس طرح ہوئی کہ جتنی بار موسیٰ علیہ السلام نے رَبِّ اَرِنِیْ کہا تھا، اتنی بار حضور ﷺ بارگاہِ ایزدی میں تشریف لے گئے اور پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس تشریف لائے ہر بار تجلّئ الٰہی موسیٰ علیہ السلام کی نگاہوں پر وارد ہوئی اور وہ تجلی جو وہ طور پر نہیں دیکھ سکے تھے، اس طرح انہیں اس کا نظارہ کرایا گیا۔

یہ نقش چھپواکر میں نے میاں صاحب ؒ کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے چند نقوش مجھے عطا کئے۔ لیکن اپنے دوستوں میں سے کسی کے پاس یہ نقش میں نے نہیں دیکھا۔ نہ ہی اسے دوسرے نقوش مثلاً ''لا الٰہ الا اﷲ'' کی طرح جگہ جگہ چسپاں کیا۔

61.    قوسین کا نقش

آخری نقش جس کی آپؒ نے خواہش ظاہر کی وہ قوسین کا نقش تھا۔ آپؒ صوفی اسمٰعیل کراچی والے کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ آنکھ کا نقش بنا کر ان میں گہرے سُرخ رنگ سے ''لا الٰہ الا اﷲ'' لکھنا ہے۔ انہوں نے ہدایت فرمائی کہ آنکھ کی صرف قوسین بنانا ہے، پلکیں یا ناک وغیرہ کچھ بھی نہیں بنانا۔ ''لا الٰہ الا اﷲ'' کا سا‏ئز وہی ہونا چاہیے جو پہلے چھاپے ہوئی ایک نقش کا ہے۔ (آپؒ نے اس نقش کی قبولیت کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ معراج پر گئے تو آپ نے اس نقشہ کو بھی وہاں دیکھا۔)

آپؒ نے فرمایا کہ لا الٰہ الا اﷲ کا تصور ''آنکھوں'' پر کرنا چاہیے۔ جب نقش چھپا تو میں نے سارا کا سارا اسٹیکر (Sticker) کاغذ پر چھپوایا اور آپ نے اسے بہت زیادہ آویزاں فرمایا جگہ جگہ مسجد، گھر، حتیٰ کہ دربار شریف کے دروازے پر بھی آویزاں کیا۔

٭ آپؒ نے فرمایا؛ ''یاراں (۱۱) بجے یاراں (دوست) دا ٹائم ہوجاندا ے''

٭ آپؒ نے فرمایا؛ ''رات کو جاگنا چاہے کوئی عمل نہ بھی کیا جائے تب بھی فائدہ مند ہے۔

٭''اگر تم یاد میں ہو تو تم یاد میں ہو۔'' آپؒ نے فرمایا کہ اسے لکھ کر آویزاں کرلو۔ کیونکہ جب تم یاد کئے جاتے ہو تو ہمیں اس کی یاد کی توفیق ملتی ہے۔

٭٭٭٭ ختم شد ٭٭٭٭

قبلۂ عالم حضرت میاں محمد مظہر احسان ڈاہر نقشبندی مجدّدی مکان شریفی

عمر مبارک: ۶۳ سال

وصال: ۱۸ ذی الحج  ۱۴۲۰ ہجری

62.    تعارف آستانۂ نوری:

الحمد اللہ! آستانۂ نوری کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ حضرت میاں مظہر احسان نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کو لے کے چلنا اس آستانے کا خاصہ ہے۔ اس آستانے کے روحِ رواں جناب سید محمد سلیم قادری نقشبندی  المعروف شیخ صاحب(جو کہ قبلہ حضرت میاں محمد ظفر محمود الحسن نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ کے کراچی میں خلیفہ ہیں) بہت عمدہ اور احسن طریقے سے اس آستانے سے  وابستہ لوگوں کی روحانی تربیت کر تے ہیں۔ اس سلسلے میں ہر ماہ چاند کی گیارہ تاریخ کو بعد مغرب گیارہویں شریف کی محفل کا انعقاد آستانۂ نوری میں منعقد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آستانے میں آنے والے لوگ اپنی اپنی مرادوں کو پاتے ہیں۔  حضرت سلیم قادری نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ کے حلقہ  احباب میں کوئی بھی میرے علم میں ایسا نہیں جس نے سوا لاکھ درودِ پاک نہ پڑھا ہو۔ نیزآپ دامت برکاتہم العالیہ کے سفرِ مدینہ کے وقت اس آستانۂ نوری سے سوا کروڑ مرتبہ درودِ خضری شریف حضور  ﷺ کی بارگاہِ عالی میں پیش کیا گیا۔

63.    اعظم صاحب (کراچی والے)

سید محمد سلیم قادری نقشبندی فرماتے ہیں کہ کبھی بھی اپنے وسیلہ کو نہ چھوڑو۔ اسی طرح جو آپ کو روحانیت کی راہ پر گامزن کرنے کا وسیلہ بنے اس کے بھی ہمیشہ احسان مند رہو۔ حضرت اعظم صاحب (جن کا ذکر سلیم بھائی بہت کثرت سے کرتے ہیں  اور فرماتے ہیں کہ مجھے اس سلسلہ نقشبند میں لانے والے حضرت اعظم صاحب ہیں) جو کہ قبلہ حضرت میاں محمد مظہر احسان رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اکبر ہیں بہت سادہ مزاج طبیعت کے مالک ہیں۔ آپ بہت زیادہ پرہیز گار، حسنِ اخلاق اور عاجزی کے پیکر ہیں۔ آپ کے دولت کدے پر ہر ماہ کی بارہ تاریخ کو محفل منعقد ہوتی ہے ۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے سلیم بھائی (شیخ صاحب) کے متعلق ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ غوثِ پاک   شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے خاص طور سے سلیم قادری  (شیخ صاحب)کے متعلق سفارش کی  کہ انہیں سلسلہ نقشبند میں بیعت کیا جائے اور پھر اس طرح اعظم صاحب کی وساطت سے سلیم قادری (شیخ صاحب) قبلہ میاں محمد مظہر احسان رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ نقشبند میں بیعت ہوئے۔ 

بول بالے میری سرکاروں کے!

اللہ پاک قبلہ میاں ظفر محمود الحسن نقشبندی، حضرت اعظم صاحب اور حضرت سلیم قادری نقشبندی کا سایہ ہم پر تا دیر قائم و دائم رکھے اور ان کے علم میں، عمل میں، روزی میں اور برکتیں عطا فرمائے اور ہمیں ان سے خوب خوب فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

احقر

محمد صادق نقشبندی (آستانۂ نوری)

میرے 14528 الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع