The Dot

الْعِلْمُ نُقْطَۃٌ
&     نقطہ کیا ہے؟
 جو شئے طول، عرض، عمق کو قبول کرے وہ جسم مطلق ہے جیسے: کتاب اور جو صرف لمبائی اور چوڑائی کو قبول کرے وہ سطح ہے جیسے: کتاب کے صفحے کی ایک جانب اور جو فقط لمبائی کو قبول کرے وہ خط ہے جیسے: صفحہ کی ایک عمودی یا افقی طرف اور جو لمبائی، چوڑائی، گہرائی کو قبول نہ کرے وہ نقطہ ہے جیسے: صفحے کا انتہائی آخری کونہ۔

نقطے کی جمع کئی طریقے سے آتی ہے جیسے نُقُطات(ق کے پیش کے ساتھ)، نُقْطات(ق کے سُکون کے ساتھ)، نِقَاط (ن کے زیر کے ساتھ)اور نُقَط وغیرہ

&     بسیط کی شکل طبعی کُروی کیوں ہوتی ہے؟
طبیعتِ واحدہ، مادّۂ واحدہ میں ایک ہی فعل نسقِ واحدہ پر کر سکتی ہے۔ اختلاف ممکن نہیں ولہذا ہر بسیط کی شکل طبعی کرہ ہے کہ وہی نسق واحد پر ہے بخلاف مثلث مربع وغیرہ کہ ان میں کہیں سطح ہے کہیں خط کہیں نقطہ، یونہی اور اختلاف بھی سبب ہے کہ پانی کی جو بوند گرے، آگ کا جو پھول اڑے اس کی شکل کروی ہوتی ہے۔
ہر متشکل متناہی ہے ہر متناہی متشکل نہیں، جیسے نقطہ، وہ اور جز خود اپنے نفس کے لیے حد ہیں نہ کہ ان کو کوئی حدِ محیط۔
دو خطوں کا نقطۂ اتصال تو جزءِ لا یتجزٰی ہوتا ہے جہاں رائی کے ہزارویں حصہ کی بھی گنجائش نہیں تا آنکہ وہ جو ہر فرد نہ ہوجائے۔
&     نقطہ، نکتہ اور وکتہ
نقطہ، نکتہ اور وَکتہ (وَکْتَۃٌ) تینوں ہی عربی الفاظ ہیں اور تینوں ہی احادثِ مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں اور تینوں ہی قریب المعنی ہیں، یہاں تک کہ بعض مترجمین نے تینوں کا ترجمہ نقطہ یا نکتہ ہی کیا ہے۔ اور اسی میں آسانی ہے۔
&     کیا کیا چیزیں نقطہ ہیں؟
1.   باریک روشنی جو شعاعوں کے جمع ہونے سے بنتی ہے۔
2.     جملہ یا پیراگراف کے اختتام پر جو نشان لگایا جاتا ہے۔ (۰ یا ۔)
3.   دل کی ایک خونی بیماری کا نام بھی نقطہ ہے ۔
4.    سطح مستوی کا ایک چھوٹا سا گول دائرہ، جس کا کوئی طول ہو نہ عرض، آئٹم، پوائنٹ، ڈاٹ،
5.   شادی کے موقع پر دلہا دلہن کو جو تحفہ پیش کیا جاتا ہے اسے بھی عرب لوگ نقطہ کہتے ہیں،
6.    شک ظاہر کرنے کے لئے بھی نقطہ دیتے ہیں ۔
7.    قلم کی نوک کاغذ پر رکھنے سے جو نشان بنے۔
8.   کسی چیز کی بہت تھوڑی مقدار۔
9.     کئی نقطے مل کر خط یعنی لائن بناتے ہیں، خط نقطوں سے مرکب تسلیم کیا جاتا ہے،
10.          مرکزِ دائرہ ۔
11.         نقطۂ اتصال، نقطۂ اتفاق، نقطۂ اختلاف، نقطۂ ارتکاز، نقطۂ انجماد، نقطۂ انحطاط، نقطۂ تحوُّل، نقطۂ حرارت وغیرہ کے الفاظ اردو زبان میں مستعمل ہیں۔
12.          نقطہ خط کے بنیادی اکائی یا جز کا نام ہے، جو کہ ناقابل تقسیم ہوتا ہے۔
13.         نقطہ کو بطور ایسا کُرہ جس کا قطر صفر ہو تعریف کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ نقطہ کا کوئی قطر اور سا‏ئز نہیں ہوتا، مگر علمِ ہندسہ (انجینئرنگ)میں اس کا مقام ہوتا ہے۔
14.          نقطہ لائن کے منتہیٰ کو بھی کہا جاتا ہے، جو قابل تقسیم نہیں ہوتا (اگر چہ جدید سائنس نے اسے بھی قابل تقسیم بنایا ہے)۔ بالفاظ دیگر :دو لائنوں کے ملاپ کی جگہ نقطہ کہلاتی ہے۔
15.         نیز اسی سے سیکورٹی پوائنٹ، پولیس پوائنٹ، بس پوائنٹ وغیرہ بھی ہیں،
16.         وہ جگہ جہاں دو خطوط ایک دوسرے کو کاٹیں ۔
17.         وہ صفر کا نشان جو بعض حروف پر دیا جاتا ہے، جیسے ب کے نیچے ایک ، ت کے اوپر دو، ج کے پیٹ میں ایک، ث کے اوپر تینوں نشان، جس کی نہ چوڑائی نہ لمبائی نہ موٹائی ہو۔
&     نکتہ کیا ہے؟
نکتہ:ج؛ نُکُتَات(بضم القاف)نُکتات(بسکون القاف)،نِکات،
نُکت۔ زمین کھرچنے سے جو نشان لگ جائے،
1.   کسی کے کلام میں نکتے نکالنا
2.     کسی بھی معاملہ، امر، چٹکی یا چٹ کلہ، کام یا کسی بات کی باریکی کا نام ہے، جو کہ غور و فکر کے بغیر سمجھ میں نہیں آتی،
3.   مخفی علامت۔
4.    لغت میں اس کے مطالب یہ ہیں۔: باریک بات، باریکی، بھید، راز، سخنِ دقیق و بلیغ اور پاکیزہ جسے ہر ایک نہ سمجھ سکے(لطیفہ)، عقدہ، کُنَہ، وہ چمڑا جو گھوڑے کے منہ پر رہتا ہے۔
دونوں کا محل استعمال یہ ہے کہ نقطہ عبارت کے رموز و علامات میں سے ایک علامت ہے، جو کہ جملہ اور بات پورا ہونے پر لگایا جاتا ہے جس کے لئے یہ نشان(•)استعمال ہوتا ہے.. جسے انگریزی میں فل اسٹاپ یا ڈاٹ کہا جاتا ہے. جبکہ نکتہ باریک بات کو کہا جاتا ہے۔ اس کا تعلق رموز و علامات کے بجائے عبارت سے ہے، کیونکہ یہ کچھ الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے۔ نکتہ کا لفظ آپ لفظاً و کتابۃً جب کہ نقطہ کو آپ علامۃً استعمال کرینگے۔
&     نقطۂ نظر اور نکتۂ نظر
نقطہ کا لفظ نظر کے توجہ والی جگہ پر استعمال کر سکتے ہیں جیسے" نقطہء نظر اور نقطۂ نگاہ/پوائنٹ آف وِیو"، اگر ‏نظر سے مراد بصارت ہو تو لفظ نقطۂ نظر اور مراد بصیرت ہو تو لفظ نکتۂ نظر استعمال ہونا چاہیئے۔
لیکن عام استعمال میں ان دونوں حالتوں میں نقطۂ نظر مستعمل ہوتا ہے۔ نُقطہ اور نکتہ اُردو کے اُن الفاظ میں سے ہیں جن کا استعمال آج کل عام طور پر سمجھ میں نہیں آتا اور سمجھا جاتا ہے کہ ایک غلط ہے یا دوسرا ۔
غوثِ پاک کی شان
&     اِبنِ نُقطہ
بزرگوں میں سے ایک بزرگ کا نام ابن نقطہ بھی ہے۔ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے مقام کے بارے میں خبر کی ہے چنانچہ حضرت عبد الغنی بن نقطہ نے خبر دی کہ ان کے سامنے ان کے مرشد حضرت شیخ ابو عمر و عثمان صریفینی قدس سرہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اللہ عزوجل نے اولیاء میں حضرت شیخ محی الدین عبد القادر ؓکا مثل نہ پیدا کیا نہ کبھی پیدا کرے ۔
توریت کا دعویٰ
&     توریت کا شوشہ (اِنجیلِ متی باب ۵ سے)
درس ۱۷ : یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابیں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں۔
در س۱۸ : کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان و زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا۔
بیشک توریت نے اپنے بارے میں اپنے سدا محفوظ ہونے کا دعویٰ کیا لیکن اس دعوے کے ساتھ خدائی تائید نہ ہونے کے سبب تمام آسمانی کتب امتدادِ زمانہ کا شکار ہوئیں اور قرآنِ پاک کے سوا کوئی کتاب بھی اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہ رہ سکی۔
&     قرآنِ پاک کا معجزہ
قرآنِ پاک میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بیشی محال ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو شخص قرآن مجید سے ایک حرف، ایک نقطہ کی نسبت ادنیٰ احتمال کے طور پر کہے کہ شاید کسی نے گھٹا دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا ہو وہ قطعاً کافر ہے اور قرآن عظیم کا منکر ۔
قرآن فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے آج علماء کے لیے معجزہ ہے مگر اس میں یہ خوبیاں ہیں کہ بار بار پڑھنے سے پرانا نہیں ہوگا، بغیر سمجھے لذت دیتا ہے، حفظ ہو جاتا ہے، عوام کو تڑپا دیتا ہے، اس کے ایک نقطہ میں تبدیلی نہ ہوسکی ان وجوہ سے عوام کے لیے معجزہ ہے، دوسری کتب آسمانی میں یہ خوبیاں نہ تھیں لہذا وہ معجزہ نہ تھیں۔
قرآن مجید بعینہٖ محفوظ ہے اس میں کسی قسم دخل بشری سے ایک نقطہ کی کمی بیشی ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔
&     قرآن ساری آسمانی کتابوں کا جامع ہے
تمام آسمانی کتابوں کے مضامین قرآن شریف میں ہیں۔ اور سارے قرآن شریف کے مضامین سورۂ فاتحہ میں۔ اور ساری سورۂ فاتحہ کے مضامین بسم اﷲ میں اور ساری بسم اﷲ کے مضامین اس کے ب کے نقطہ میں۔
دیکھو ریلوے ٹائم ٹیبل یا جغرافیہ میں پورے ملک یا پورے شہر کی طرف ایک نقطہ سے اشارہ کردیا جاتا ہے اس لیے حضور انور نے سورۂ فاتحہ کو بڑی سورہ فرمایا۔
نقطۂ علم
علامہ بوصیریؒ اپنے شہرۂ آفاق قصیدۂ بردہ شریف میں فرماتے ہیں
وَوَاقِفُوْنَ لَدَيْہِ عِنْدَ حَدِّھمِ
مِنْ نُّقْطَۃِ الْعلْمِ اَوْ مِنْ شَكْلَۃِ الْحِكَمِ
وہ سب (انبیاء کرام ) آپ کے سامنے (فرشتوں کی طرح)اپنی اپنی حدوں پر یوں قائم کھڑے ہیں جیسے علم کا کوئی نقطہ یا حکمت کی شکلیں ۔ یہ نقطہ اور حکمت مکمل طور پر نبی اکرم کے ساتھ خاص ہیں۔ جبکہ باقی تمام انبیاء کیلئے ایک معین حد اور معلوم و ظاہر مقام ہے جس پر وہ فائز ہیں۔ ذرا بھر بھی اس سے آگے نہیں گزر سکتے۔
مُنَزَّہ عَنْ شَرِيْكٍ فِيْ مَحَاسِنِہ
فَجَوْھرُ الْحُسْنِ فِيْہِ غَيْرُ مُنْقَسِمِ
نبی کریم اپنے حسن و جمال اور خوبیوں میں دوسرے کسی بھی شریک سے مُنزہ ہیں کیونکہ آپ کے حسن کا جوہر وہ ہے کہ تقسیم کو قبول ہی نہیں کرتا۔
احادیثِ مبارکہ
النكتة: صاف شئے میں سیاہ نقطے کو نکتۃ کہتے ہیں۔
والوكت: کسی شئے میں کسی دوسرے رنگ کے نقطے کو وکتۃ کہتے ہیں۔ کسی شئے کے بہت معمولی سے اثر کو بھی وکت یا وکتۃ کہا جاتا ہے۔
&     سفید نقطہ
وکت واؤ کے فتحہ کاف کے سکون سے جمع ہے وکتۃ کی بمعنی نقطہ سفید جو آنکھ کی سیاہ پتلی میں ہو، چھوٹے چھالے یا چھوٹے تل کو بھی وکت کہتے ہیں خواہ کالا تل ہو یا سرخ۔
ذیل کی عربی میں پیش کی گئی احادیث میں ان لفظوں کو واضح کیا گیا ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بِأَبِي مَا لَوْ نَزَلَ بِالْجِبَالِ الرَّاسِيَاتِ لَهَاضَهَا، ظَهَرَ الْكُفْرُ، وَاشْرَأَبَّ النِّفَاقُ، فَمَا اخْتَلَفُوا فِي نُقْطَةٍ إِلَّا طَارَ أَبِي بِخَصْلِهَا وَغَنَائِهَا
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء
قَالَ حُذَيْفَةُ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ، حَدَّثَنَا أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ. ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا فَقَالَ: " يَنَامُ الرَّجُلُ فِيكُمْ فَيُنْكَتُ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَالْمَجَلِّ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفَطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، فَيُصْبِحُ النَّاسُ لَيْسَ فِيهِمْ أَمِينٌ، وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَظْرَفَهُ وَمَا أَعْقَلَهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ مِنَ الْإِيمَانِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ "
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُنَيْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ الشِّرْكَ بِاللهِ , وَعُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ , وَالْيَمِينَ الْغَمُوسَ , وَمَا حَلَفَ حَالِفٌ بِاللهِ يَمِينَ بِرٍّ فَأَدْخَلَ فِيهَا مِثْلَ جَنَاحِ الْبَعُوضَةِ إِلَّا كَانَتْ نُكْتَةً سَوْدَاءَ فِي قَلْبِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
سنن ابن ماجه
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ، فَإِنْ زَادَ، زَادَتْ، فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ: {كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ} [المطففين: 14] "
مسند الحارث : قیامت ایک نکتہ ہے۔
قَالَ: " وَعُرِضَتْ عَلَيَّ الْأَيَّامُ فَرَأَيْتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ كَأَنَّهُ فِي مِرْآتِهِ بَهَاءٌ وَنُورٌ , وَفُضِّلَتْ عَلَى سَائِرِ الْأَيَّامِ فَسَرَّنِي , ثُمَّ رَأَيْتُ فِيهِ نُكْتَةً سَوْدَاءَ كَالشَّامَةِ فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ مَا هَذِهِ النُّكْتَةُ السَّوْدَاءُ فِي هَذَا الْبَهَاءِ وَالنُّورِ؟ قَالَ: هِيَ السَّاعَةُ تَقُومُ فِيهَا الْقِيَامَةُ "

&     دنیا اور اس کا حسن اور جمعے کا نقطہ
 حضرتِ سیدنا حذیفہ ؓ سے رو ایت ہے کہ سلطانِ بَحرو نے فرمایا کہ'' میرے پاس جبرئیل امین ؑ حا ضر ہوئے تو ان کے ہاتھ میں ایک صا ف وشفا ف اور خوبصورت تر ین آئینہ تھا، جب کہ اس کے درمیان میں سیا ہ رنگ کا ایک نقطہ تھا ۔ میں نے پوچھا،'' اے جبرئیل ؑ! یہ کیا ہے ؟'' عرض کیا، ''یہ دنیا اور اس کا حسن ہے۔''
میں نے پوچھا،''یہ اس کے درمیان سیا ہ نقطہ کیا ہے؟'' عرض کیا کہ'' یہ جمعہ ہے۔ ''میں نے پوچھا،''جمعہ سے کیا مرا د ہے؟'' عرض کیا کہ'' یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب عزوجل کے ایام میں سے ایک عظیم دن ہے عنقریب میں آپ کے سامنے اس دن کے شرف و مرتبہ اور اس کے آخرت کے نام عرض کروں گا اس کا فضل و شرف اور دنیا میں یہ نام اس لئے ہے کہ اللہ عزوجل نے اس دن مخلوق کے معاملہ کو جمع فرمایا اور اس میں جو چیز امید والی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ایک گھڑ ی ایسی ہوتی ہے کہ جو مسلمان بندہ یا مسلمان بندی اس میں اللہ عزوجل سے جو بھلائی مانگیں گے اللہ عزوجل ان دونوں کو وہ بھلا ئی ضرو ر عطا فرمائے گا اور اس کا آخرت میں شر ف و مرتبہ اور نام یہ ہے کہ اللہ جب جنت کو جنتیو ں سے بھر دے گا اور جہنمیو ں کو جہنم میں داخل فرما دے گا اور ان پر ان کے ایام اور گھڑیاں رواں ہو جائیں گی ان میں دن اور رات نہ ہوں گے ان کی مقدار اور گھڑ یو ں کو اللہ ہی جانتا ہے پھر جب جمعہ کا دن آئے گا اور وہ گھڑی آئے گی جس میں اہل جمعہ،جمعہ کے لئے نکلا کرتے تھے تو ایک منادی ندا کریگا کہ ''اے جنتیوں! دارا لمز ید کی طرف چلو جس کی وسعت،لمبا ئی اور چوڑائی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔'' تو وہ مشک کے ٹیلوں کی طرف چل دیں گے۔"
&     اُمّت کی عید
سرکارِ مدینہ کا فرمانِ عالیشان ہے: میرے پاس حضرت جبرائیل ؑ آئے، ان کے ہاتھ میں سفید آئینہ تھا جس میں ایک سیاہ نقطہ تھا، میں نے دریافت کیا: ''اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟'' انہوں نے بتایا: ''یہ جمعہ ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا ہے تاکہ یہ آپ اور آپ کی امت کے لئے عید قرار پائے۔''
آپ نے پھر دریافت فرمایا :''اس میں ہمارے لئے کیا اجر ہے؟'' انہوں نے جواب دیا کہ اس میں آپ کے لئے برکت ہے، اس میں ایک ایسی ساعت ہے کہ جس نے اس ساعت میں اپنے رب سے بھلائی کی دعا کی اگر اس کے نصیب میں ہو تو اللہ اسے عطا فرما دے گا اور اگر نصیب میں نہ ہو تو اس کے بدلے اس کے لئے بڑی بھلائی محفوظ کر لی جائے گی یا اپنے رب سے کسی شر سے پناہ طلب کی جو اس کے لئے لکھا ہو تو وہ اسے اس سے بڑی مصیبت سے پناہ عطا فرما دے گا۔
          آپ ارشاد فرماتے ہیں :''میں نے پوچھا کہ اس میں یہ سیاہ نقطہ کیسا ہے؟''
بولے یہ قیامت ہے جو جمعہ کے دن قائم ہو گی اور یہ ہمارے نزدیک تمام دنوں کا سردار ہے اور آخرت میں ہم اسے یَوْمِ مَزِیْد کے نام سے یاد کریں گے۔''
آپ فرماتے ہیں : میں نے پوچھا : ''اسے یَوْمِ مَزِیْد کہنے کی وجہ کیا ہے؟'' انہوں نے عرض کی:بے شک آپ کے رب نے جنت میں ایک سفید کستوری کی وادی بنائی ہے اور اللہ جمعہ کے دن جنتیوں کے لئے اس میں تجلِّی فرمائے گا اور انبیاء کرام عَلَـیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نور کے منبروں پر جلوہ فرما ہوں گے، صدیقین اور شہداء کے لئے سونے کی کرسیاں بچھائی جائیں گی اور باقی جنتی ٹیلوں پر بیٹھیں گے، وہ سب دیدارِ باری تعالیٰ کر رہے ہوں گے تو ربِّ قدوس ان سے فرمائے گا: ''میں نے تم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کیں، یہ میری نعمتوں کا محل ہے پس مجھ سے سوال کرو۔''
لہٰذا وہ اس کی رضا مانگیں گے تو اللہ ارشاد فرمائے گا: ''میری رضا ہی نے تمہیں جنت میں داخل کیا اور تمہیں عزت دی، لہٰذا تم اور سوال کرو۔'' تو وہ سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کی خواہشات ختم ہو جائیں گی۔ اس وقت ان کے لئے جمعہ کے دن کی مقدار تک ایک ایسی نعمت ظاہر کی جائے گی جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی، نہ کسی کان نے سنی اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا۔'' پھر آپ نے ارشاد فرمایا: ''جمعہ کے دن انہیں اس سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہ ہو گی کہ وہ اس میں زیادہ لطف و کرم پائیں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کے جلووں کا دیدار کریں، اس لئے اسے یَوْمِ مَزِیْد کہا جاتا ہے۔''
&     یہ قیامت ہے
حضرتِ سیِّدُنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا: ''مجھ پر تمام دن پیش کئے گئے، ان میں چمکتا دمکتا جمعہ کا دن بھی تھا، اس میں ایک سیاہ نقطہ بھی تھا، میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ قیامت ہے جو جمعہ کے دن قائم ہوگی۔''
&     ازل اور ابد، ابتداء و انتہا ایک نقطے میں
مکتوبات حضرت شیخ مجدد الف ثانی جلد اول، مکتوب ۲۸۳میں ہے :
 آں سرور علیہ الصلٰوۃ والسلام دراں شب چوں از دائرہ مکان و زمان بریون جست و از تنگی امکان برآمد ازل و ابد راں آں واحد یافت و بدایت و نہایت را در یک نطقہ متحد دید۔
اس رات (شبِ معراج) سرکار دو عالم مکان و زمان کے دائرہ سے باہر ہوگئے،اور تنگی امکان سے نکل کر آپ نے ازل و ابد کو ایک پایا اور ابتداء کو انتہا کو ایک نقطہ میں متحد دیکھا۔
&     میٹھا میٹھا ہے میرے مُحَمَّد کا نام
لفظ اللہ اور لفظ محمد میں چند طرح مناسبت ہے: اللہ میں حرف چار تو محمد میں حرف چار، اللہ کے چاروں حرف بے نقطہ محمد کے چاروں حرف بے نقطہ، اللہ میں ایک شد محمد میں ایک شد، اللہ کے تین حرف حرکت والے محمد کے تین حرف حرکت والے، ہاں اللہ کے شد پر الف ہے محمد کے شد پر الف نہیں، اللہ سلطان حضور اس سلطنت کے وزیر اعظم، اللہ بولنے سے دونوں ہونٹ جدا ہوتے ہیں محمد بولنے سے دونوں ہونٹ مل جاتے ہیں کہ وہ نیچوں کو اوپر والوں سے ملانے ہی تو آئے ہیں۔ کیا خوب فرمایا ہے اعلیٰ حضرت نے: ؏
نقطۂ سِرِّ وَحدت پہ یکتا درود
مرکزِ دورِ کثرت پہ لاکھوں سلام
&     جسمِ پاک پر کبھی مکھی نہ بیٹھتی تھی
بعض علماء عجم نے اس بناء پر کہ کلمہ مُحَمَّد ٌرَّسُوْلُ اللّٰہ کے سب حروف بے نقطہ ہوتے ہیں، ایک لطیفہ لکھا کہ آپ کے جسم پر مکھی نہ بیٹھتی تھی، لہذا یہ کلمہ پاک کلی نقطوں سے محفوظ رہا کہ وہ شبیہ مکھیوں کے ہیں ۔
&     سیاہ نقطہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، حضورِ اقدس نے ارشاد فرمایا ''جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے، جب وہ اس گناہ سے باز آ جاتا ہے اور توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو ا س کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے: ''کَلَّا بَلْ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ (پ۳۰،المطففین:۱۴)
ترجمۂ کنزالایمان: کوئی نہیں بلکہ ان کے دِلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ان کی کمائیوں نے۔''
رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن نے ارشاد فرمایا: ''گناہوں کی کثرت سے دل سخت ہو جاتا ہے۔''
&     چٹائی کے تنکے
حضرت سیِّدُنا حُذَیفہ ؓ فرماتے ہیں، میں نے حضور نبی ٔ پاک کو ارشاد فرماتے سنا: ''دلوں پر پے در پے فتنے یوں چھا جائیں گے جیسے چٹائی کے تنکے ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں اور جو دل ان فتنوں کو قبول کرے گا اس پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جائے گا اور جو انہیں رد کرے گا اس پر ایک سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دونوں دلوں پر نقطے ہوں گے ایک پر چکنے اور صاف پتھر کی طرح سفید نقطہ ہوگا، جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے اُسے کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچا سکے گا اور دوسرے پر انتہائی سیاہ نقطہ ہوگا اور وہ (دل)اوندھے لوٹے کی طرح ہو گا جو نہ تو نیکی پر عمل کرے گا اور نہ ہی برائی کا انکار کرے گا بلکہ اپنی خواہش کے مطابق عمل کرے گا۔''
&     جھوٹی قسم
صاحبِ لولاک کا فرمانِ عالیشان ہے: ''جو شخص قسم کھائے اور اس میں مچھر کے پرکے برابر جھوٹ ملا دے تو قیامت کے دن تک وہ قسم اس کے دل پر سیاہ نقطہ بن جائے گی۔''
رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن کا فرمانِ بابرکت ہے: ''جو شخص جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال دبا لیتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے جسے قیامت تک کوئی چیز تبدیل نہ کر سکے گی۔''
&     سیاہ و سفید نقطے
          امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں کہ ''ایمان ایک چمکتے نشان کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ بندے کے نیک اعمال اس کی چمک بڑھاتے اور زیادہ کر دیتے ہیں جس سے سارا دل روشن ہو جاتا ہے اور منافقت ایک سیاہ نقطے کی طرح ظاہر ہوتی ہے، بندہ جب حرام کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ نقطہ بڑھ کر زیادہ ہو جاتا ہے، آخر کار اس کے پورے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے اور اس پر مہر لگ جاتی ہے۔ یہی ختم (یعنی مہر) ہے۔'' پھر آپ ؓ نے یہ آیت ِ طیبہ تلاوت فرمائی:
کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ (پ۳۰، المطففین:۱۴)
ترجمۂ کنز الایمان: کوئی نہیں،بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔
&     دین کا مرکزی نقطہ
دین کا مرکز ی نقطہ اَمْربِالْمَعْرُوف ونَہی عَنِِ الْمُنْکَر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ہے اور یہی وہ اہم کام ہے جس کے لئے اللہ نے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو مبعوث فرمایا،اگر اس سے غفلت اور بے توجہی برتی جائے یوں کہ لوگ نہ اس کا علم حاصل کریں اور نہ اس پر عمل کریں تو نَبُوَّت کے مقاصد ہی فوت ہو جائیں، دیانت داری کا اثر ختم ہو جائے، کمزوری و سستی عام ہو جائے، گمراہی پھیل جائے، جہالت کا دور دورہ ہو جائے، فساد و خرابی سرایت کر جائے، اختلاف و انتشار بہت زیادہ ہو جائے، ممالک تباہ و برباد اور بندے ہلاک ہو جائیں۔
رموزِ تحریر
&      چند رموزِ اوقاف در بابتِ نقطہ
1.   فاصلہ(،): یہ معطوف اور معطوف علیہ جملوں اور مفردات کے درمیان نیز حرف جواب اور منادی کے بعد لکھتے ہیں : یَا بَکْرُ، أَحْسِنْ۔ نَعَمْ، اَلْعَدْلُ خَیْرٌ۔
2.    فاصلہ منقوطہ(؛): یہ دو ایسے جملوں کے درمیان لکھتے ہیں جن میں سے ایک دوسرے کا سبب اور علت ہو: أَکْرَمْتُہٗ؛ لِأَنَّہٗ عَالِمٌ، ہُوَ عَالِمٌ؛ فَأَکْرَمْتُہٗ۔
3.    نقطہ (۔): یہ مکمل جملے اورکلام کے آخر میں لکھتے ہیں : تَأَمَّلْ۔
4.   نقطتین(:) : یہ مقولے یا کسی چیز کی وضاحت اور تفصیل سے پہلے لکھتے ہیں : قَالَ النُحَاۃُ: اَلْفَاعِلُ مَرْفُوْعٌ نَحْوُ: جَائَ خَالِدٌ، وَھُوَ قِسْمَانِ: ظَاہِرٌ وَضَمِیْرٌ۔
&     "ب" کا نقطہ:
ایک شخص حضرت سیِّدُنا ابوبکر شِبْلیؒ کے پاس آیا تو آپ نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس طرح پوچھنا آپ کا طریقہ کار تھا۔ اس نے کہا: میں "ب" کا نقطہ ہوں۔ آپؒ نے فرمایا: خدا تمہیں اکارت کرے تم خود کو ایک مقام دے رہے ہو(یعنی عاجزی تو یہ ہے کہ خود کو کچھ نہ سمجھو)۔
نقاطِ قُرآن  کا تاریخی جائزہ
&     خطِّ کوفی
قدیم عرب میں اگرچہ اعراب و نقاط کا وجود تھا لیکن بعد کے کسی زمانہ میں اسے ترک کردیا گیا۔ حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت کے مطابق نقطوں کے موجد کا نام عامر بن جدرہ تھا جو قبیلہ بولان سے تعلق رکھتا تھا۔ قرآن کریم کی اوّلین کتابت میں بھی نقاط اور اعراب نہیں لگائے گئے تھے کیونکہ اُس وقت جو عربی خط رائج تھا وہ ان کے بغیر ہوتا تھا۔ اِس خط کی نسبت حیرہ سے ہے جو کوفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے اور اب نجف کہلاتا ہے۔ بعد میں یہی خط ''خطِ کوفی'' کے نام سے مشہور ہوا۔
قوی قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کے زمانہ میں خطِ کوفی میں ہی قرآن کریم لکھا گیا۔ اگرچہ اُس زمانہ کا قرآن کریم کا کوئی نسخہ محفوظ نہیں ہے لیکن آنحضور کے بادشاہوں کے نام خطوط اور دیگر مصاحف بھی خط کوفی میں ہی لکھے گئے ہیں جو آج بھی محفوظ ہیں۔
&     مُصحفِ عثمانی
حضرت عثمانؓ کے دَور میں لکھا جانے والا قرآن کریم کا نسخہ جو مصحفِ امام کہلاتا ہے، یہ بھی خطِ کوفی میں ہی لکھا گیا ہے۔ اس میں اعراب اور نقاط نہیں لگائے گئے لیکن اس کا تلفّظ وہی تھا جو آج بھی رائج ہے۔ اُس زمانہ میں نقاط اور اعراب کے بغیر پڑھنے پر لوگ پوری طرح قادر تھے بلکہ بسا اوقات نقطے ڈالنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔
&     نقطاطِ قرآن کا خالق: ابو الاسود دوئلی
عجمی اقوام نے اسلام قبول کیا تو مادری زبان عربی نہ ہونے کی وجہ سے وہ قرآن کریم کی تلاوت میں غلطیاں کرنے لگے۔ اس پر حضرت علیؓ نے ابو الاسود دوئلی کو چند قواعد بتا کر اس فن کی تدوین پر مامور کیا اور اس طرح قرآن کریم پر نقاط اور اعراب لگانے کا کام ابو الاسود کے ذریعہ ہی سر انجام پایا۔ ابو الاسود بصرہ کے قاضی تھے اور انہوں نے نقط مصاحف پر ایک رسالہ بھی تحریر کیا تھا۔ آپ 69ھ میں فوت ہوئے۔ ابو الاسود کے دو شاگردوں یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم نے اپنے استاد کے کام کو آگے بڑھایا۔
&     نقاطِ قرآن؛ ایک بدعت
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت ابن عمرؓ ، حضرت قتادہؓ، حضرت حسن بصری، ابن سیرین اور دیگر بہت سے علمائے سلف میں سے اکثر قرآن کریم پر نقاط یا دیگر علامات لگانا مکروہ بلکہ ایک طرح کی بدعت سمجھتے تھے۔
حضرت امام مالکؓ نیم خواندہ لوگوں یا بچوں کے لئے نقاط و علامات لگانا جائز سمجھتے تھے لیکن بالغوں کے لئے اسے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مگر لوگ آہستہ آہستہ نقطوں اور اعراب والے قرآن کی طرف راغب ہوتے گئے اور علماء نے بھی اس کو پسندیدہ قرار دے دیا۔
&     اِبنِ مقلہ اور خط نسخ
عباسی دَور کے ایک وزیر ابن مقلہ نے جو تیسری صدی ہجری کے آخر اور چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ایک باکمال خطاط تھے، رسم الخط میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں ایجاد کیں۔ انہوں نے چھ نئے خط بھی ایجاد کئے جن میں سے سب سے مشہور ''خط نسخ'' ہے جو 310ھ میں ایجاد ہوا اور اپنی عمدگی کی وجہ سے قرآن لکھنے کے لئے مخصوص ہوگیا۔
&     امیر علی تبریزی اور خطِ نستعلیق
ساتویں صدی ہجری میں امیر علی تبریزی نے ایک خوبصورت خط ایجاد کیا جو ''خط نستعلیق'' کہلاتا ہے۔ یہ خط اردو زبان میں لکھنے کے لئے خاص طور پر بہت معروف ہوا۔ (یہ تحریر بھی خط نستعلیق میں ہے جسے آپ اس وقت پڑھ رہے ہیں۔)
إحْصائیاتُ القُرْآن
&     نقاط اور آیاتِ قرآنی
قرآنِ پاک میں کل 1،57،845نقاط ہیں۔ یعنی ڈیڑھ لاکھ سے کچھ زیادہ۔ یعنی ایک سورتِ مُبارکہ میں اوسطاً ۱۳۸۴، ایک آیت میں اوسطاً ۲۵ اور ایک کلمے (لفظ) میں اوسطاً ۲ نقاط آتے ہیں۔ اسی طرح ہر دو حروفِ قرآنی میں سے ایک حرف نقطے والا ہوتا ہے۔ خطِّ عثمانی کے اعتبار سے تعداد کا نقشہ ذیل میں دیا گیا ہے۔
السور
الآيات
الكلمات
نقاط
الحركات
الحروف
114
6236
77432
157845
274957
326159
کُل منقوطہ
کُل غیر منقوطہ
کُل اوپری نقطے
کُل زیریں نقطے
۱ اوپری نقطہ
۱ زیریں نقطہ
108،959
217،200
99،213
58،632
48،803
14،808
۲ اوپری نقطے
۲ زیریں نقطے
۳ اوپری نقطے
یہ اعداد و شمار خط عثمانی کے مطابق ہیں
19898
21912
3538

چونکہ بڑی گیارہویں شریف (۱۱ ربیع الثانی) قریب ہے اس لئے قرآنِ پاک کے نقاط کا کچھ تجزیہ پیش کرنے کو اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔ امید ہے کہ پسند آئے گا۔ ۱۱ نقاط کی کل ۲۱۱ آیات ہیں جو وارد ہوئی ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس میں ایک نقطے کی تبدیلی بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اس کے نقاط بھی اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ غالباً اب آپ کی سمجھ میں یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ نقاطِ قرآنی پر یہ پوسٹ کیوں کی جا رہی ہے۔ ؏
یہی میرے پیشِ نظر رہے، میں یہی کتاب پڑھا کروں
&     سورتُ الغاشیۃ آیت ۱۲
فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ
اس آیتِ مُبارکہ میں ۱۱ نقطے ہیں اور ۱۱ نقاط کی یہ مختصر ترین آیت ہے۔ اس کے نقاط کا رمز ۳۴۰ ہے۔ یعنی ۳ نقاط واحد (سنگل جیسے ب، ج، خ، ذ، ز، ض، ظ، غ، ف، ن) آئے ہیں، اور ۴ نقاط تثنیہ (یعنی ڈبل جیسے ت، ق، ي) آئے ہیں اور صفر نقاط جمع (یعنی ٹرپل جیسے ث، ش)
۳۴۰ میں ۳ واحد نقاط کو ظاہر کرتا ہے، ۴ تثنیہ نقاط کو اور ۰ جمع نقاط کو۔ تین واحد تو تین نقطے ہیں، اور ۴ تثنیہ در اصل ۸ ہوگئے۔ صفر جمع نقطے صفر ہی رہیں گے۔ ۳، ۸ اور ۰ کو جمع کیا تو کل ۱۱ نقطے بنے۔
تیسرا
دوسرا
پہلا
۰
۴
۳
۰
۸
۳
اسی پر باقی سب کو قیاس کرلیں۔
&     سورتُ الانفطار آیت ۵
عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ
اس آیتِ مُبارکہ میں ۱۱ نقاط اور ۱۱ ہی غیر منقوطہ حروف (بے نقطہ حروف جیسے ا، ح، د، ر، س، ص، ط، ع، ک، ل، م، و، ہ، ی) آئے ہیں۔ نقاط کا رمز ۳۴۰ ہے۔
&     سورتُ البقرہ آیت ۱۵۷
أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَٰتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
۱۱ نقاط کی طویل آیت ہے اور نقاط کا رمز (۳۴۰)ہے۔
&     سورتُ المؤمنون آیت ۱۱۶
فَتَعَٰلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ
۱۱ نقاط، ۱۱ کلمات کی طویل آیت ہے اور رمزِ نقاط (۲۳۱) ہے۔
&     سورتُ عبس آیت ۱۸
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ
۱۱ نقاط، ۱۱ حروف، ۱۱۴۷ اعداد (۲۳۱)
&     سورتُ الشعراء آیت 192
وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ
۱۱ نقاط، ۱۱ غیر منقوطہ حروف (۵۳۰)
&     سورتُ الرحمن آیت 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ
۱۱ نقاط، ۱۱ غیر منقوطہ حروف، سارے نقطے موجود(۴۲۱)
&     سورتُ الانفطار آیت 8
فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ
۱۱ نقاط، ۱۱ غیر منقوط، سارے نقطے موجود (۲۳۱)
&     سورتُ البلد آیت 5
أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ
۱۱ نقاط، ۱۱۱۹ اعداد (۳۴۰)
&     سورتُ البروج آیت 12
إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ
۱۱ نقاط، ۱۲ ویں آیت، سارے نقطے موجود (۴۲۱)
&     سورتُ الصافات آیت 121 (اور المرسلات آیت 44)
إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
۱۱ نقاط، ۱۲۱ ویں آیت، ۱۱۴۱ اعداد (۷۲۰)
&     سورتُ عبس آیت 22
ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ
۱۱ نقاط، ۳ نقطے ۳ بار (۲۰۳)
&     سورتُ الحاقة آیت 22
فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ
۱۱ نقاط، سب سے چھوٹی آیت(۳۴۰)
&     سورتُ الحجر آیت 9
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَٰفِظُونَ
۱۱ نقاط، سب یک نقطی حرف، سب اوپری نقاط (۱۱۰۰)
&     سورتُ الرحمن آیت 11
فِيهَا فَٰكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ
۱۱ نقاط،۵۵ ویں سورت، ۱۱ ویں آیت (۵۳۰)
دیگر آیات
۱۱ نقاط کے سوا اور بھی نقطے توجہ طلب ہیں۔چند ایک کا مختصر تجزیہ ذیل کے چارٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔
&     سورتُ الأنفال آیت 9
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَٰئِكَةِ مُرْدِفِينَ
۳۰ نقاط، ۳۰ غیر منقوطہ حروف، ۱۱ کلمات
&     سورتُ الأحزاب آیت 54
إِن تُبْدُوا شَيْءًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
۲۴ نقاط، ۲۴ غیر منقوطہ حروف، ۱۱ کلمات
&     سورتُ یس آیت 78
وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحْيِ الْعِظَٰمَ وَهِيَ رَمِيمٌ
۲۴ نقاط، ۲۴ غیر منقوطہ حروف، ۱۱ کلمات
&     سورتُ المعارج آیت 25
لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ
۱۴ حروف ِ غیر منقوطہ کی سب سے بڑی آیت
&     سورتُ عبس آیت 9
وَهُوَ يَخْشَىٰ
ایک، دو اور تین نقطوں کی جامع سب سے چھوٹی آیت
&     سورتُ المائدة آیت 12
وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَٰقَ بَنِي إِسْرَٰءِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَوٰةَ وَءَاتَيْتُمُ الزَّكَوٰةَ وَءَامَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّءَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَٰرُ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
۱۱۴ نقاط اور ۱۳۱ حروفِ غیر منقوطہ پر مشتمل واحد آیت جس کے نقاط قرآنِ پاک کی سورتوں کی تعداد یاد دلاتے ہیں۔
إحصائیات النّقاط
&     تنبیہِ جلیل
1.   یہ چارٹ کمپیوٹر اسکرین کے اعتبار سے پیش کئے جا رہے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ موبائل اسے کتنا سپورٹ کرتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے کمپیوٹر پر ہی ملاحظہ کیا جائے۔ موبائل اسکرین پر یہ ایک بھدا رزلٹ دے سکتے ہیں۔
2.    خطّ عثمانی میں ی کو (ي) لکھا جاتا ہے۔ یعنی ﴿ ي﴾ کے نقطے بھی شمار کئے جاتے ہیں۔ اس پوسٹ میں اسی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اسے ذہن میں رکھیں۔
&     نقاط کیوں؟
اوپر پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآنِ مجید کے کسی بھی نقطے میں تبدیلی اور کمی بیشی کا یقین رکھنا کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا ایک ایک نقطہ محفوظ ہے۔ اس لئے نقاط کے بارے میں یہ تحقیق پیش کی جا ریہ ہے۔ اور مہربان رب سے قبولیت کی امید ہے۔
۱۱ نقاط
&     ۱۱ بالائی نقاط والی آیات
ذیل میں جو آیاتِ مُبارکہ دی گئی ہیں وہ سب ۱۱، ۱۱ نقاط والی ہیں اور سب نقطے وہ ہیں جو اوپری ہیں۔ ایک بھی نیچے کی طرف نہیں ہے۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
اوپری نقطے
الحجر
9
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَٰفِظُونَ
11
طه
68
قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ
11
الشعراء
124
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ
11
الشعراء
142
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَٰلِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ
11
الشعراء
161
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ
11
الواقعة
35
إِنَّا أَنشَأْنَٰهُنَّ إِنشَاءً
11
الواقعة
64
ءَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّٰرِعُونَ
11
الجن
11
وَأَنَّا مِنَّا الصَّٰلِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا
11
المدثر
6
وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ
11
عبس
19
مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ
11
عبس
22
ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ
11
الانفطار
5
عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ
11

&     ۱۱ ویں آیات میں ۱۱ نقاط
آیت بھی گیارہویں ہو اور اس میں نقاط بھی گیارہ ہوں تو کیا بات ہے۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
النقط
الشعراء
11
قَوْمَ فِرْعَوْنَ أَلَا يَتَّقُونَ
11
الذاريات
11
الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ سَاهُونَ
11
الطور
11
فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ
11
الرحمن
11
فِيهَا فَٰكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ
11
الحاقة
11
إِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاءُ حَمَلْنَٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ
11
الجن
11
وَأَنَّا مِنَّا الصَّٰلِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا
11

&     ۱۱ نقاط اور ۱۱ کلمات
وہ واحد آیتِ مبارکہ جس کے کلمات (الفاظ) اور نقاط کی تعداد ۱۱ ہے۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
كلمات و نقاط
المؤمنون
116
فَتَعَٰلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ
11

&     ۱۱ نقاط اور ۱۱۰۰ اعداد
وہ آیات جن کے اعداد ۱۱ سو اور ۱۲ سو کے درمیان ہیں اور نقاط کی تعداد ۱۱ ہے۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
اعداد
الواقعة
95
إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ
1107
الزمر
30
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ
1129
الصافات
80
إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
1141
الذاريات
27
فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ
1143
عبس
18
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ
1147
الشعراء
11
قَوْمَ فِرْعَوْنَ أَلَا يَتَّقُونَ
1150
الكهف
38
لَّٰكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا
1176
الإنسان
3
إِنَّا هَدَيْنَٰهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
1178
القمر
34
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا ءَالَ لُوطٍ نَّجَّيْنَٰهُم بِسَحَرٍ
1188
الواقعة
89
فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ
1198

&     ۱۱ نقاط مع اعدادِ ملفوظی
پہلے کسی پوسٹ میں بتا چکا ہوں کہ سادہ اعداد اور اعدادِ ملفوظی میں فرق ہوتا ہے۔ سادہ اعداد میں ﴿ م﴾ کے عدد ۴۰ جبکہ ملفوظی میں ۹۰ بنتے ہیں۔ وہ دو آیات جن میں ۱۱ نقاط آئے ہیں اور جن کے ملفوظی اعداد ۱۱ اور ۱۲ سو کے درمیان ہیں۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
اعداد ملفوظی
الصافات
58
أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ
1126
البلد
5
أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ
1119

&     ایک حیرت انگیز آیت
نقاط کے اعتبار سے سورتِ حجر کی نویں آیت ایک یونیک اور نہایت حیرت انگیز آیت ہے۔ اس میں کئی باتیں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔
1.   اس میں ۱۱ نقاط ہیں۔
2.    اس میں ۱۱ حروفِ منقوطہ ہیں۔
3.   ہر نقطہ سنگل ہے۔
4.    ہر سنگل نقطہ اوپر آیا ہے۔
5.   کوئی سنگل نقطہ نیچے نہیں آیا۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَٰفِظُونَ
دیگر نقاط
&     حروف سے زیادہ نقاط والی آیات مُبارکہ
قرآنِ پاک میں چند آیات وہ بھی ہیں جن میں نقاط کی تعداد حروف سے بھی زیادہ ہے۔ ایسی تمام آیات کو ذیل کے چارٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ باقی تمام آیات میں حروف کی تعداد زیادہ ہے۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
الحروف
النقط
قريش
1
لِإِيلَٰفِ قُرَيْشٍ
9
10
الحاقة
22
فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ
10
11
التكوير
9
بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ
10
12
الغاشية
10
فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ
10
11
المدثر
20
ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ
11
12
البينة
3
فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
11
12
الغاشية
16
وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ
12
13
الحاقة
21
فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ
14
16
القارعة
7
فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ
14
16
عبس
26
ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا
15
17
الشعراء
81
وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ
18
22
الفجر
24
يَقُولُ يَٰلَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي
20
23

&     بے نقطہ آیاتِ مبارکہ
قرآنِ پاک کی ۲۲ آیات وہ ہیں جن میں کوئی نقطہ نہیں آیا۔ ان میں سے ۱۷ آیات میں حروفِ مقطعات آئے ہیں، اگر انہیں شمار نہ کیا جائے تو صرف ۵
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
البقرة
1
الم
آل عمران
1
الم
الأعراف
1
المص
طه
1
طه
الشعراء
1
طسم
القصص
1
طسم
العنكبوت
1
الم
الروم
1
الم
لقمان
1
الم
السجدة
1
الم
غافر
1
حم
فصلت
1
حم
الشورى
1
حم
الزخرف
1
حم
الدخان
1
حم
الجاثية
1
حم
الأحقاف
1
حم
الطور
1
وَالطُّورِ
25
البلد
3
وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ
العصر
1
وَالْعَصْرِ
الإخلاص
2
اللَّهُ الصَّمَدُ

&     زیریں نقاطِ واحدہ
۵ آیات وہ ہیں جن میں صرف نیچے کی جانب سنگل نقطے آئے ہیں۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
النقط
الواقعة
31
وَمَاءٍ مَّسْكُوبٍ
1
نوح
22
وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا
1
الطور
6
وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ
2
النازعات
32
وَالْجِبَالَ أَرْسَىٰهَا
2
الأعلى
1
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى
2

&     زیریں نقاطِ اثنان (جڑواں نقطے)
یہ وہ تمام آیات ہیں جن میں صرف نیچے کی جانب جڑواں نقطے آئے ہیں۔ کوئی نقطے اوپر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی سنگل نقطہ نیچے کی طرف آیا ہے۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
النقط
مريم
1
كهيعص
2
يس
1
يس
2
البروج
2
وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ
2
القارعة
10
وَمَا أَدْرَىٰكَ مَا هِيَهْ
2
نوح
11
يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا
4
الانشقاق
12
وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا
4
الطارق
16
وَأَكِيدُ كَيْدًا
4
الإخلاص
3
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
4
طه
26
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
6
المعارج
10
وَلَا يَسْءَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا
6

&     صرف ثلاثی نقطے:
آیت میں صرف تین نقطے ایک ساتھ آئے ہوں اور دوسرا کوئی نقطہ موجود ہی نہ ہو، ایسی تو صرف ایک ہی آیت ہے۔ یعنی سورت البروج کی آیت نمبر ۳
﷽ : وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ
&     سب سے زیادہ ایک ہی قسم کے نقاط
ذیل میں وہ آیات پیش کی گئی ہیں جن میں صرف ایک ہی قسم کے نقاط سب سے زیادہ وارد ہوئے ہیں۔
السورة
الآية
نص الآية الكريمة
نقاط
مقام
الحجر
9
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَٰفِظُونَ
عبس
41
تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ
صرف ڈبل
اوپر
البروج
3
وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ
صرف ٹرپل
اوپر
الأعلى
1
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى
صرف سنگل
نیچے
الطور
6
وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ
صرف سنگل
نیچے
النازعات
32
وَالْجِبَالَ أَرْسَىٰهَا
صرف سنگل
طه
26
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
نیچے
المعارج
10
وَلَا يَسْءَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا
جڑواں
نیچے

&     نقطوں کا عظیم توازن (بیلینس)
کیا شان ہے اس آیتِ مبارکہ میں نقطوں کے توازن کی۔ یہ سورت الکہف کی ۹۸ نمبر کی آیت ہے۔ اس میں کل ۲۲ نقاط ہیں، ۱۱ اوپری نقاط اور ۱۱ ہی زیریں نقاط۔اوپر سنگل آنے والے نقاط کی تعداد ۵ ہے، اور نیچے بھی سنگل نقاط کی تعداد ۵ ہی ہے۔ اوپر ۳ بار جڑواں نقاط آئے ہیں تو نیچے بھی جڑواں نقاط ۳ بار آئے ہیں۔
سنگل نقاط اوپر نیچے ۵، ۵، ڈبل نقاط اوپر نیچے ۳، ۳، کل اوپری اور زیریں نقاط ۱۱،۱۱۔ اور کل نقاط ۲۲۔ آیت مبارکہ یہ ہے۔
قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا
ان آیات کی کل تعداد ۹۸ ہے جن میں اوپر نیچے، سنگل ڈبل نقطوں کی تعداد برابر ہے۔
&     اسمِ اعظم
کسی بزرگ؛ غالباً علّامہ سُیوطیؒ نے اسم اعظم کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں نے اسمِ اعظم ایک ایسی سورت میں پایا ہے جو نہ کتاب کے شروع میں ہے نہ آخر میں (جیسے سورت یس)، اور ایسی آیت میں پایا ہے جو اس سورت کے نہ تو شروع میں ہے نہ آخر میں (جیسے آیت ۵۸)، اس میں جتنے نقطے اوپر آئے ہیں (جیسے ۳)، اتنے ہی نیچے آئے ہیں، اللہ ﷻ کے نام سے شروع ہوتی ہے اور اسی کے نام پر ختم ہوتی ہے (جیسے سلام اور رحیم) اور وہ نامِ مُقدّس سورت کے نام اسرار سے ہے(جیسے یا سین، یا سلام) اور وہی اہلِ جنت کا عمومی کلام ہوگا۔ یہ بات سمجھ نہ آ سکی ہو تو قرآنِ پاک سامنے رکھ کر اسے پڑھیں، ضرور جان جائیں گے۔
&     چند دلچسپ حقائق
نقطوں سے متعلق چند دلچسپ حقائق درج ذیل ہیں:
1.   بریل: یہ دنیا کی واحد زبان ہے جو صرف نقطوں پر مشتمل ہے اور نابینا افراد کے پڑھنے اور لکھنے کیلئے وضع کی گئی ہے۔ اس میں ابھرے ہوئے نقطوں کا امتزاج ہے جس کی مدد سے رموز اوقاف اور حروف کو پڑھا جا سکتا ہے۔
2.    مارس کوڈ نقطوں اور ڈیشز پر مشتمل ایک زبان ہے جسے خفیہ پیغامات کیلئے وضع کیا گیا۔
3.   نقطہ کو'1996 میں امریکہ کے سب سے مفید لفظ کا خطاب دیا گیا۔
4.    ہلکا نیلا نقطہ زمین کی وہ تصویر ہے جو سب سے زیادہ فاصلے سے لی گئی ہے۔ ساڑھے تین بلین میل دور سے یہ تصویر ۱۴ فروری ۱۹۹۰ کو وائیجر اول سے لی گئی جب وہ نظامِ شمسی کو چھوڑنے والا تھا۔
غوثِ اعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ اپنے قصیدے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں؛
نَظَرْتُ الیٰ بِلاَدِ اللہِ جَمعاً
کَخَرْدَلَۃٍ عَلیٰ حُکْمِ اتِّصَالِی
یعنی میں نے خدائے تعالیٰ کے تمام شہروں کی طرف دیکھا تو وہ سب مل کر رائی کے دانے کے برابر تھے۔
گُوگل ارتھ سے زمین کو دیکھیں تو اسّی ہزار کلومیٹر دوری سے دیکھنے کے باوجود اس کا حجم ایک انچ سے زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ اور ناسا کہتی ہے کہ زمین کو 3.7 بلین کلومیٹر کی بلندی سے دیکھیں تو ایک نقطہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ تو صرف زمین کا نقطہ دیکھنے کیلئے درکار بلندی ہے، پورے نظامِ شمسی کو نقطے کی صورت میں دیکھنے کیلئے خدا معلوم کتنی بلندی درکار ہوگی۔ اور پھر اللہ کے تمام شہروں کو ایک نقطے کی صورت میں دیکھنے کیلئے نجانے کس قدر بلندی چاہیئے۔ یوں ہی تو نہیں فرمایا اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی ؒنے
؎واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اُونچے اُونچوں کے سَروں سے قدم اعلیٰ تیرا
&     نہایت، بدایت میں مُندرج ہے
تحریر کی ابتداء نقطے (Dot) سے ہوتی ہے۔ قلم جو کچھ بھی لکھے، پہلے نقطے ہی معرضِ وجود میں آتا ہے۔ یہ نقطے ہیں جو آپس میں مل کر حروف بناتے ہیں، حروف الفاظ اور الفاظ جُملے اور پوری کتاب انہیں جملوں پر محیط ہوتی ہے۔ جس پر نقطہ کھل جاتا ہے، الفاظ اس کے غلام ہوتے ہیں۔
انسان کی ابتداء جمے ہوئے خون کے لوتھڑے (Clot) سے ہوتی ہے۔ ڈاٹ اور کلاٹ؛ دونوں ہی ابتداء کو ظاہر کرتے ہیں۔ کائنات کی ابتداء بھی ایک نقطے سے ہوتی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے سارے خزانے کاف (ک) اور نون (ن) کے درمیان بنا دیئے۔ ک بنا نقطے کے ہے اور نون نقطے کے ساتھ۔ کاف عدم ہے اور نون وجود، اور کُن ْعدم سے وجود کا سفر۔
قربان جائیے غوثِ پاک کے فرمان حقیقت نشان پر۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
"ستارے موجودات کی کتاب کے نقطے ہیں۔"
ذرا سائنسدانوں سے تو پوچھو کہ لوہا کہاں سے آیا، سونا چاندی کیسے بنے، پوچھو کہ ہم کیمیائی عناصر کیوں نہیں بنا سکتے، حالانکہ سب ہی ہائیڈروجن سے بنتے ہیں۔ ان کا یہی جواب ہوگا کہ یہ سب آسمانوں میں بنتے ہیں، ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا ہوئی ہے اور جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ ہم کسی عنصر کو زمین پر پیدا نہیں کر سکتے، ایسا ہوتا تو سائنس میں ترقی یافتہ ممالک سارا سونا بنا کر سب سے امیر ہو جاتے اور باقی ممالک کنگال۔ یہ سب چیزیں ستاروں میں بنتی ہیں اور بن رہی ہیں۔ انہیں زمین پر ہمارے لئے اتارا گیا ہے۔ دیکھی اس عظیم روحانی سائنسدان کی پرواز؟ ستارے موجودات کی کتاب کے نقطے ہیں۔ قدرت کا قلم تھری ڈی میں لکھتا ہے، بلکہ نہیں، فور ڈی میں۔
جس نے اپنی ابتداء پر غور کیا، ڈی این اے تک جا پہنچا، جس نے کائنات کی ابتداء پر غور کیا، بگ بینگ تک جا پہنچا، جس نے عناصر کی ابتداء پر غور کیا، ستاروں تک جا پہنچا۔ اسی کو ترقی کا نام دیا گیا۔ کیا اب بھی نہیں سمجھے؟
نہایت، بدایت میں پوشیدہ ہے۔
انجام، شروعات میں پوشیدہ اور مندرج ہے۔ اور ہر شئے کی شروعات نقطہ ہے۔
ن
میرے ساڑھے سات ہزار الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ

تبصرے

  1. جوابات
    1. بہت شکریہ جناب شاہد صاحب۔ آپ نے پوسٹ کو پڑھنے کے لائق سمجھا اور اپنا وقت نکال کر کمنٹ کئے۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خلر عطا فرمائے۔ آمین

      حذف کریں
  2. قطرہ میرے کریم سے گر کسی نے مانگا
    دریا بہادیئے ہیں در بے بہا دیئے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. قطرہ میرے کریم سے گر کسی نے مانگا
    دریا بہادیئے ہیں در بے بہا دیئے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. قطرہ میرے کریم سے گر کسی نے مانگا
    دریا بہادیئے ہیں در بے بہا دیئے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع