Say Bye to Corona

ثریا ستارہ
ابتدائیہ
یہ ایک نہایت عمدہ اور معلوماتی مضمون ہے۔ اس میں نجم، ثریا، عاھات، کورونا وائرس اور طلوعِ ثریا پر بحث کی گئی ہے۔ یہ ثریا ستاروں اور کورونا وائرس کے مابین ربط کی ایک کاوش ہے۔ امید ہے کہ آپ کو بیحد پسند آئے گا۔
ضروری۱۳ سافٹویئرز
اس مضمون کی تیاری میں آپریٹنگ سسٹم کے علاوہ مائیکروسافٹ آفس (ورڈ، ایکسل، پاور پوائنٹ، ون نوٹ، ون ڈرائیو)، ونڈوز فوٹو ایپ، آسمانی اطلس کے تین بڑے جدید سافٹویئرز (مائیکروسافٹ ورلڈ وائیڈ ٹیلی اسکوپ، علا دین، اسپیس انجن)، المدینہ لائبریری سافٹویئر، المکتبۃ الشاملہ، ورڈ ویب ایپ اور ونڈوز کی بہت سی سہولتوں (جیسے کیلکولیٹر وغیرہ) اور انٹرنیٹ کی مدد لی گئی ہے۔ اور کئی ہفتے اس کام میں لگے ہیں۔
ثریا کیا ہے؟
ثریا آسمان پر چند کھلے ستاروں کا جھرمٹ ہے۔ عرب لوگ اس ثریا سے اپنی نظروں کا امتحان کیا کرتے تھے۔ عام صحتمند آنکھوں والا آدمی اس پر نظر جمائے تو اس میں سات ستارے دیکھ لیتا ہے۔ یہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کی نظر تھی کہ آپ اس میں گیارہ ستارے دیکھا کرتے تھے جیسا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے مدارج النبوت میں تحریر فرمایا ہے۔ اور روح البیان میں ہے کہ ثریا کے سات میں سے چار ستارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ 
احسن النجم (سب سے خوبصورت ستارے)
روح البیان میں ہے کہ یہ سات ستارے ہیں اور ساتویں ستارے پر نظر کا امتحان ہوتا ہے اور در حقیقت یہ بارہ ستارے ہیں۔ اور ہمارے پیارے نبی ﷺ ان سب کو اپنی قوتِ بصری سے دیکھا کرتے تھے۔ اور قریش کہتے تھے کہ آسمان پر سب سے خوبصورت ستارے (احسن النجم) ہیں اور زمین پر آسمان کی زینت ہیں۔
ثریا کی مزید تصاویر کیلئے اس لنک پر کلک کریں
آسمان پر ثریا کی رفتار
ہمارے ہاں کراچی میں بہار کا موسم ختم ہونے کے بعد صبح فجر کے وقت طلوع ہوتی ہے اور ہر روز پہلے سے زیادہ جلدی طلوع ہوتی ہے۔ بارہ مئی دو ہزار بیس کو یہ صبح چھے بج کر چار منٹ پر طلوع ہوئی تھی اور کم ہوتے ہوتے آج سات جون کو (بوقتِ تحریر) تقریباً ایک مہینے کے بعد صبح چار بج کر اٹھارہ منٹ پر طلوع ہوئی ہے۔ اور ان چھبیس (26) دنوں میں یہ 106 منٹ پہلے طلوع ہوئی ہے۔ یعنی ہر روز گزشتہ روز کی بہ نسبت اوسطاً چار منٹ پہلے طلوع ہوتی ہے۔
سردیوں کے چلے جانے کے بعد یہ گرمیوں کے شروع میں اس وقت طلوع ہوتی ہے جب دن اور رات تقریباً برابر ہوتے ہیں۔
حدیثِ پاک میں ثریا (اور طلوعِ ثریا) کا تذکرہ
حدیثِ پاک میں ثریا بالخصوص طلوعِ ثریا کا بہت تذکرہ آیا ہے۔ آئیے ان احادیث کو دیکھتے ہیں کہ جن میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ؛
1. إِذَا طَلَعَتِ الثُّرَيَّا أمِنَ الزَّرْعُ مِنَ العاهَةِ
2. إِذَا طَلَعَتِ الثُّرَيَّا أمنت الزروع
3. إِذَا طَلَعَتِ الثُّرَيَّا صَبَاحًا رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ الْبَلَدِ
4. إِذَا طَلَعَتِ الثُّرَيَّا غُدْوَةً ارْتَفَعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ كُلِّ بَلَد
5. إِذَا طَلَعَتِ الثُّرَيَّا يأمن الزَّرْعُ مِنَ العاهَةِ
ان تمام احادیثِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ثریا صبح کے وقت طلوع ہوتی ہے تو کھیتی، پھلوں اور ہر خطّۂ زمین سے آفات ٹل جاتی ہیں۔ 
الْعَاهَةُ کیا چیز ہے؟
اوپر کی ثریا والی تمام احادیث میں اور ذیل کی نجم والی احادیث میں ایک لفظ مشترک ہے یعنی { الْعَاهَةُ }۔ مراد یہ ہے کہ جب ثریا طلوع ہوتی ہے یا نجم طلوع ہوتا ہے تو اہلِ زمین سے { الْعَاهَةُ } دور ہوجاتی ہے۔ آخر یہ { الْعَاهَةُ} ہے کیا جو ثریا کے طلوع ہونے سے ٹل جاتی ہے؟
جامع الاحادیث میں اس کی یہ تشریح موجود ہے؛
من نحو مرض و وباء أو ما فى مالهم من نحو إبل وثمر.
" مرض اور وباء (انسانوں میں) یا ان کے مالوں جیسے اونٹوں میں اور پھلوں میں" یعنی مراد یہ ہے کہ { الْعَاهَةُ} سے مراد انسانوں، مویشیوں اور پھلوں پر آنے والی بیماریاں اور وبائیں ہیں۔
تفسیر قرطبی میں ہے؛
الْغَاسِقُ: الثُّرَيَّا، وَذَلِكَ أَنَّهَا إِذَا سَقَطَتْ كَثُرَتِ الْأَسْقَامُ وَالطَّوَاعِينُ، وَإِذَا طَلَعَتِ ارْتَفَعَ ذلك
تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ "غاسق" سے مراد ثریا ہے۔ کیوں کہ جب ثریا ڈوب جاتی ہے تو اسقام (بیماریاں) اور طواعین (طاعون) کی کثرت ہو جاتی ہے اور جب یہ طلوع ہوتی ہے تو یہ سب (بیماریاں اور وبائیں) اٹھا لی جاتی ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ عاھات (جمع) سے مراد وبائیں ہیں۔
ایسا ہی کچھ روح البیان میں بھی ہے؛
وقيل الغاسق الثريا ووقوبها سقوطها لانها إذا سقطت كثرت الأمراض والطواعين وإذا طلعت قلت الأمراض والآلام 
روح البیان میں ہے کہ کہا جاتا ہے کہ غاسق سے مراد ثریا ہے اور اس کے وقوب سے مراد اس کا ڈوب جانا یا چھپ جانا ہے۔ کیونکہ جب یہ چھپ جاتی ہے تو امراض اور طواعین (وبائی بیماریاں جیسے طاعون وغیرہ) کی کثرت ہو جاتی ہے اور جب طلوع کرتی ہے تو امراض اور آلام کم اور قلیل ہو جاتے ہیں۔
یہی کچھ " فتح القدير للشوكاني" میں بھی کہا گیا ہے۔ اور نهاية الإيجاز في سيرة ساكن الحجاز میں ہے کہ 
والمراد بالعاهة الافة التى تلحق الزرع والثمار في فصل الشتاء، وصدر فصل الربيع
یعنی عاھات سے مراد آفات ہیں جو کھیتیوں اور پھلوں کو سردیوں کی فصل میں اور بہار کی فصل کے درمیان پہنچتی ہیں۔
نجم کیا ہے؟
نجم کی اصطلاح بھی حدیثِ پاک میں وارد ہوئی ہے۔ ان سب احادیث مبارکہ کا لُبِّ لباب یہی ہے کہ جب نجم طلوع ہوتا ہے تو ہر شہر ، ہر قوم اور پوری زمین سے آفات اور وبائیں دور ہو جاتی ہیں ورنہ کم ضرور ہو جاتی ہیں۔ احادیثِ مبارکہ یہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛
1. إِذَا ارتفع النَّجْمُ رُفِعَت الْعَاهَةُ عَنْ كُلِّ بلدة,
2. إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ ارْتَفَعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ كُلِّ بَلَدٍ
3. إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ صباحًا رُفِعَت الْعَاهَةُ عَنْ كُلِّ بلدة,
4. إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ لم يبق في الْأَرْضِ مِنَ الْعَاهَةِ شَيْءٌ إِلَّا رُفِعَ
5. مَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قط وبقوم عاهة إلا رُفِعَت أو خفت
6. مَا طَلَعَ النَّجْمُ قَطُّ وَفِي الْأَرْضِ مِنَ الْعَاهَةِ شَيْءٌ إِلَّا رُفِعَ 
ان تمام احادیث میں نجم کا لفظ مختلف طریقوں سے آیا ہے۔ یہ تمام احادیث مکتبۃ الشاملہ سافٹویئر کی کتب سے لی گئی ہیں۔ اب تو یہ آن لائن بھی دستیاب ہے۔ اگر آپ انہیں تلاش کرنا چاہیں تو اس لنک پر جا کر تلاش کر سکتے ہیں۔
لفظِ نجم کی تین مختلف تشریحات
عربوں کی عادت تھی کہ وہ آسمان پر ستاروں کے ایک کھلے جھرمٹ کو نجم کہتے تھے۔ اکثر مفسرین و محدثین نے نجم کے یہی معنی بیان کئے ہیں۔ جامع الاحادیث میں نجم والی احادیث کے ضمن میں فرمایا کہ نجم سے مراد ثریا ہے۔ شرح زاد المستقنع میں لکھا کہ طلوعِ نجم سے مراد طلوعِ ثریا ہے۔
پہلا قول (ثریا) : اس سے مراد ’’ثُرَیّا ‘‘ ہے۔ یاد رہے کہ اگرچہ ثریا کئی تارے ہیں لیکن ان پر نجم کا اِطلاق عرب والوں کی عادت ہے ۔ یعنی جب ثریا طلوع ہوتی ہے تب آفات ٹلتی ہیں۔
دوسرا قول (تمام ستارے): نجم سے نجوم کی جنس یعنی تمام تارے مراد ہیں ۔ تفسیرِ بغوی میں ہے کہ نجم سے مراد سارے ستارے ہیں۔ یہ لفظ تو واحد ہے لیکن جمع کے معنوں میں آیا ہے۔ تمام طلوع ہونے والے کواکب (ستاروں اور سیاروں) کو نجم کہا جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ كُلُّ طَالِعٍ نَجْمٌ، یعنی ہر چیز جو طلوع ہو اسے نجم کہتے ہیں۔ 
تیسرا قول (نباتات): اس سے وہ نباتات مراد ہیں جو تنا نہیں رکھتیں بلکہ زمین پر پھیلتی ہیں، جیسا کہ تفسیرِ بغوی میں کہا گیا ہے کہ كُلُّ طَالِعٍ نَجْمٌ یعنی ہر طلوع ہونے اور ابھرنے اور نمودار ہونے والی چیز نجم ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں (وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ یعنی اور سبزے اور پیڑ سجدہ کرتے ہیں) فرمایا گیا ہے۔ جب نباتات زمین پر اگنا شروع ہوتی ہیں تب اہلِ زمین سے آفات ٹل جاتی ہیں۔ 
کون نہیں جاتا کہ موسمِ ربیع (بہار) میں نباتات کا زمین پر اگنا مشہور ہے، اگرچہ سارا سال ہی کچھ نہ کچھ نباتات نمودار ہوتی ہی رہتی ہیں، لیکن فصلِ بہار میں اس کی شان ہی الگ ہوتی ہے۔ اور یہ عموماً دن اور رات کے مساوی ہوجانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ 
ایام کا الٹ پھیر
یاد رہے کہ ۲۱ جون سب سے طویل دن ہوتا ہے اور ۲۱ دسمبر سب سے مختصر۔ اسی طرح ۲۱ مارچ اور ۲۳ سمبر کو دن رات کی لمبائی بالکل مساوی ہوتی ہے۔ اور تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ ثریا صبح کے وقت اس وقت طلوع ہوتی ہے جب دن رات بالکل مساوی اور دونوں ٹھیک بارہ بارہ گھنٹوں کے ہوتے ہیں۔
بارہ مئی اور طلوعِ ثریا
ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ طلوعِ ثریا کی اطلاع کیلئے اب ہمارے پاس زیادہ معتبر اور حساس آلات موجود ہیں جو دن، تاریخ اور گھنٹے تو کجا، منٹ اور سیکنڈز تک بہت صحت کے ساتھ بتا سکتے ہیں۔ اس لئے کتابوں کے ساتھ ساتھ اس وقت ان آلات کی مدد اور رہنمائی بھی لی جا سکتی ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ یہ رویتِ ہلال کی طرح شرعی معاملہ نہیں جہاں مشینوں پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا میں ہزاروں رصد گاہیں موجود ہیں جن کے ڈیٹا پر مکمل اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ 
فلکیات دانوں نے اس سال صبح کے وقت طلوعِ ثریا کیلئے ۱۲ مئی کی تاریخ دی تھی۔ آپ اس پر بھروسا کر سکتے ہیں۔ میں نے تین بڑے سافٹویئرز اس مقصد کیلئے استعمال کئے ہیں۔ یہ وہی سافٹویئرز ہیں جنہیں خود ناسا (NASA) کے سائنسدان انہی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ صرف دو دن کا مختصر سا ڈیٹا یہاں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
07 June: Rise: 04:18 >>> Transient: 11:11 >>> Set: 18:01
12 May: Rise: 06:04 >>> Transient: 12:53 >>> Set: 19:43
یہ بھی دھیان میں رہے کہ ۱۲ مئی کو طلوعِ آفتاب چھے بجے سے دس منٹ پہلے ہوا تھا یعنی سورج نکلنے کے ۱۵ منٹ بعد مشرق سے طلوعِ ثریا ہوا تھا۔ اور آج سات جون کو سورج چھے بجنے سے تقریباً بیس منٹ پہلے طلوع ہوا ہے۔ یعنی طلوعِ ثریا صبح فجر کے وقت ہو رہا ہے۔ اور یہی حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ جب صبح کے وقت طلوعِ ثریا ہوتا ہے تو زمین پر کوئی آفت نہیں رہتی مگر یہ کہ اٹھا لی جاتی ہے۔
کورونا وائرس کی وباء اور طلوعِ ثریا
اوپر بیان کردہ احادیثِ مبارکہ میں آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ ثریا (نجم) کے طلوع ہونے پر آفات (عاھات) ٹل جاتی ہیں یا ان میں کمی ضرور آ جاتی ہے۔ عاھات کے بارے میں بھی عرض کر چکا ہوں کہ اس سے مراد مُوذی اور مہلک متعدی امراض، بلائیں، عام بیماریاں، خطرناک وبائیں، مصیبتیں اور آلام ہیں۔ 
کورونا وائرس کے بارے میں دلچسپ پیش گوئیوں کی تاریخ آپ اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔
اس سال ساری دنیا ایک خوفناک عالمی وباء کی لپیٹ میں ہے۔ کورونا وائرس ایک چین ری ایکشن کی مانند پھیلنے والی بیماری ہے۔ اس خوفناک مرض نے دانشوروں کے ہر تخمینوں اور اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔ ساری دنیا لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ کورونا ایک عالمی دردِ سر ہے۔ فیس ماسک، سینی ٹائزر، سوشل ڈس ٹینسنگ، آئسولیشن، قرنطینہ الغرض یہ ننھا سا بے جان وائرس اپنے پورے شباب پر ہے۔ ابھی تک کوئی ویکسین تیار نہیں ہو سکی جو دیگر بیماریوں کی طرح کورونا سے بچاؤ میں کام آ سکے۔ اور کیا ہوتی ہے { الْعَاهَةُ } آفت اور بلا؟ 
مان لو کہ کورونا آفت ہے
وبائیں ہوں یا بیماریاں، یہ سب آفات ہی تو ہوتی ہیں، کورونا وائرس بھی ایک وباء اور { الْعَاهَةُ } ہے جس سے ساری دنیا خوفزدہ ہے۔ قربان جائیے رب العالمین کے محبوب ﷺ پر۔ ایسی بات ارشاد فرما گئے کہ دکھی دلوں کو چین آگیا، خوفزدہ لوگوں میں ہمت کی کرن ثریا کی طرح چمکنے لگی۔ فرمان ہوتا ہے
مَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قط وبقوم عاهة إلا رُفِعَت أو خفت
جب بھی ثریا صبح کو چمکتی ہے، آفت زدہ قوم سے آفت یا تو اٹھا لی جاتی ہے یا اس کی شدت میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اوپر مندرج یہ حدیث جانتے ہیں کس نے روایت کی ہے؟ ہاں، حبیبۃ الحبیب، بنتِ صدیق، آرامِ جانِ نبی یعنی حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے۔ اسی لئے کہ تمہیں مصیبت میں آرام آجائے۔ یوں بھی ؏
نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے
کورونا آفت ہے اور ثریا اس آفت میں راحت ہے۔ بس یوں سمجھو کہ کورونا ختم یا اس کی شدت ختم، دونوں ہی ہمارے لئے راحت کا پیغام ہیں۔ تو خوش ہو کر کہہ کیوں نہیں دیتے "بائے بائے کورونا"
شک کے مریض، کورونا اور قوتِ مدافعت
سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ زیادہ قوتِ مدافعت رکھنے والے اس بیماری سے لڑ سکتے ہیں، جیسے بچے اور جوان، جبکہ معمر افراد کو اس سے متاثر ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے۔ 
جب بچپن اور جوانی قوت مدافعت دے سکتے ہیں تو یقین کیوں نہیں دے سکتا؟ آئیے ایک بار پھر سناتا ہوں آپ کو کہ حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ دو جہاں کے تاجور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 اِذَا ارْتَفَعَتِ النُّجُوْمُ ارْتَفَعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ كُلِّ بَلَدٍ یعنی جب ثریا ستارے طلوع ہوتے ہیں تو ہر شہر سے آفت اٹھ جاتی ہے ۔ 
ارے او شک کے مریض! کون سا شہر ہے تیرا جہاں اس فرمانِ عالی کا ظہور نہیں ہو گا؟ میرے آقا نے تو اپنی رحمت میں تمام بلاد اللہ کو لے لیا۔ وہ تو وہ ہیں، عظیم المرتبت، آپ ﷺ کے تو غلام فرماتے ہیں کہ 
نَظَرْتُ الیٰ بِلَادِ اللہِ جَمْعًا
میں نے اللہ کے تمام بلاد کو ایک نظر میں دیکھ لیا۔ جی ہاں یہ قولِ غوثِ پاک ہے۔ تو وہ جو اس غوثؒ کے بھی آقا ہیں، کیوں نہ تمام بلاد کو دیکھ کر فرمائیں کہ جب ثریا طلوع ہوتی ہے تو تمام بلاد سے آفت اٹھ جاتی ہے۔ 
یقین کی امیونٹی اپنے اندر پیدا کریں، یہ ہرڈ امیونٹی سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔ ؎
آج بھی ہو جو براھیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
تمام دنیا سے کہتا ہوں، تم نے ڈاکٹروں کی بات مان لی، تم نے سائنسدانوں کو دیکھ لیا، اب ذرا محمدِ عربی ﷺ کی بات پر بھی یقین کر دیکھو!
فرصت ملے جو لال حویلی کے درس سے
اک بوریا نشیں کے بھی افکار دیکھنا
اونٹ کو باندھ اور توکل کر
ثریا سارا سال طلوع ہوتی ہے، لیکن جب صبح کے وقت طلوع ہو تو یہ اہلِ زمین کیلئے خوش خبری لے کر آتی ہے کہ پھلوں اور فصلوں اور مویشیوں اور انسانوں سے آفتیں ٹل گئی ہیں، اور بلاؤں کی شدت میں خاطر خواہ کمی آ گئی ہے۔ اب اکسی بلا سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اوپر درج کی ہوئی ان احادیث کو یقین کے ساتھ عام کریں کہ یہ اللہ کے نبی ﷺ کے فرامین عظمت نشان ہیں۔ اور جید محدثین اور علمائے کرام نے ان کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ تاہم احادیثِ مبارکہ کے مطابق یہ ممکن ہے کہ یہ وائرس ختم نہ ہوا ہو بلکہ اس وائرس کی شدت میں کمی آئی ہو۔ کیونکہ یہ دونوں ہی باتیں ممکن ہیں اور احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اسلام کی بتائی ہوئی تمام احتیاطوں پر عمل بھی کریں اور ایمانی تقاضے کے مطابق یہ یقین بھی رکھیں کہ کورونا بس اب چند دن کی بات ہے۔ یعنی اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کرتے ہوئے نماز ادا کریں۔ 
اے مسلمان! ایسا جوان بن
فکن رجلا رجلہ فی الثری
وھامۃ ھمتہ فی الثریا
یعنی اے مسلمان! یقین کے معاملے میں ایسا جوان بن جس کا پاؤں تحت ا لثریٰ میں ہو اور اس کے ارادوں کی چوٹی ثریا کو چھو رہی ہو۔ شاید اسی لئے شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے یہ شعر کہا ہے ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ستاروں کی جگہ "ثریا" بھی لکھ دیا جائے تو نہ صرف وزن بلکہ مفہوم بھی تقریباً وہی رہتا ہے۔
ستاروں کے رقیب (رقيبُ النَّجْم)
اردو شاعروں کا رقیب کے بنا کام نہیں چلتا، لیکن آپ کو شاید یہ جان کر واقعی حیرت ہو گی کہ صرف محبوب کیلئے ہی رقیب نہیں ہوتا بلکہ ستاروں کے بھی رقیب ہوتے ہیں۔ کسی ستارے یا ستاروں کے جھرمٹ (Constellation/Cluster) کے بھی اپنے رقیب ہوتے ہیں۔ ایسے دو ستارے جن میں سے ایک طلوع ہو تو دوسرا غروب ہوجائے، یا ایک غروب ہو تو دوسرا طلوع ہوجائے، آپس میں ایک دوسرے کے رقیب کہلاتے ہیں۔ 
آپ کو یہ بھی علم ہو گا کہ چاند کی ۲۸ منازلِ قمر میں سے ہر منزلِ قمر بھی اپنے ساتھ والی منزل کیلئے رقیب ہوتی ہے، یعنی جب پہلی غروب ہو جاتی ہے تو دوسری طلوع ہو جاتی ہے۔
ثریا کا رقیب
کتاب "الأنواء في مواسم العرب" میں منقول ہے کہ ؛
ورقيب الثريا إكليل العقرب. وإذا طلعت الثريا عشاء، سقط إكليل العقرب عشاء، وإذا طلعت بالغداة، سقط إكليل العقرب بالغداة.
یعنی ثریا کا رقیب "اکلیل عقرب" ہے کہ جب ثریا رات کے وقت طلوع کرتی ہے تو اِکلیلِ عقرب غائب ہو جاتا ہے اور جب ثریا صبح کے وقت طلوع ہوتی ہے تو صبح اکلیلِ عقرب غائب ہو جاتا ہے۔
دیگر جھرمٹوں اور ستاروں کے رقیب
تاج العرُوس میں درج ہے کہ؛
الإِكْلِيلُ: رَأْسُ العَقْرَب، ويُقَالُ: إِنَّ رَقِيبَ الثُّرَيَّا مِنَ الأَنْوَاءِ: الإِكْلِيلُ، لأَنَّهُ لَا يَطْلُعُ أَبَداً حَتَّى تَغِيبَ، كَمَا أَنَّ الغَفْرَ رَقِيبُ الشَّرَطَيْنِ، والزُّبَنَانِ: رَقِيبُ البُطَيْنِ، والشَّوْلَةُ رَقِيبُ الهَقْعَةِ، والنَّعَائِمُ: رَقِيبُ الهَنْعَةِ، والبَلْدَةُ، رَقِيبُ الذِّرَاعِ وَلاَ يَطْلُعُ أَحَدُهُمَا أَبَداً إِلاَّ بِسُقُوطِ صاحِبِه وغَيْبُوبَتِه، فَلاَ يَلْقَى أَحَدُهمَا صَاحِبَهُ.
یعنی اکلیل عقرب (برجِ عقرب جس کی شکل بچھو کی سی ہوتی ہے) کا سر ہے اور کہا جاتا ہے کہ ستاروں کے جھرمٹ میں ثریا کا رقیب اکلیل ہے کہ ثریا اس وقت تک کبھی طلوع نہیں ہوتی جب تک اکلیل غائب نہ ہوجائے، جیسا کہ غفر، شرطین کا رقیب ہے، زُبنان، بُطین کا رقیب ہے، شولۃ، ھقعۃ کا رقیب ہے اور نعائم، ھنعۃ کا رقیب ہے اور بلدۃ، ذراع کا رقیب ہے اور ان میں سے کوئی بھی کبھی طلوع نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا رقیب غائب نہ ہوجائے اور کوئی ستارہ اپنے رقیب سے کبھی نہیں ملتا۔
مزید حوالوں یہ کتابیں بھی کیلئے ملاحظہ کریں؛
1. الأنواء في مواسم العرب لابن قتيبة
2. تاج العروس
3. شرح ديوان المتنبي للعكبري
4. الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية
5. لسان العرب
6. منتخب من صحاح الجوهري 
ثریا سے متعلق چند دیگر باتیں
ثریا اور سمندری سفر
حدیثِ پاک میں آیا ہے کہ؛
من ركب البحر بعد طلوع الثريّا، فقد برئت منه الذمّة
جو ثریا کے طلوع ہونے کے بعد سمندر پر سوار ہوا، میں اس سے بری الذمّہ ہوں۔
ثریا مئی کے مہینے میں طلوع ہوتی ہے اور اکتوبر کے مہینے تک دکھائی دیتی رہتی ہے۔ خاص طور پر جون جولائی کے مہینوں میں تو سمندر بھی اپنے پورے جوبن اور طغیانی پر ہوتا ہے۔ اس لئے ان ایام میں سمندری سفر ہرگز نہ کیا جائے، بلکہ گرمیوں میں جو من چلے سمندر میں نہانے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں یہ حدیث شریف ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ جس سے اللہ کے محبوب اپنے بری الذمہ ہونے کا اعلان فرما دیں، وہ اگر زندہ سلامت بھی سمندر سے واپس آگیا تو کیا آیا؟ اللہ ہمیں اپنے نبی ﷺ کے ذمۂ کرم میں ہمیشہ رکھے۔ آمین!
امامِ اعظم ابو حنیفہؒ
حدیثِ پاک میں آیا ہے کہ؛
لو كان الإيمانُ في الثُّرَيَّا لناله رجالٌ من فارس
فرمایا کہ اگر دین ثریا تارے کے پاس بھی ہوتا تو فارس کا ایک شخص وہاں سے لے آتا۔
روایت مسلم ابو ہریرہ سے ہے :اگر ایمان ثریا کے پاس ہوتا تو بھی ابنائے فارس جاتے حتی کہ اسے حاصل کرلیتے۔
روایت شیخین میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے ہے :قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر دین ثریا پر معلق ہوتا تو بھی فارس کا ایک شخص اس کو حاصل کر لیتا ۔اور فارس سے مراد اس کے مشہور شہر نہیں ہیں بلکہ عجمی قوم مراد ہے اور وہ فارس کے لوگ ہیں کیونکہ دیلمی کی روایت ہے، ''خَیْرُ الْعَجَمِ فَارِسٌ'' اور امام ابو حنیفہ کے دادا فارس ہی سے تھے، اکثر علماء کی یہی تحقیق ہے۔
امامِ اعظم کے دادا حضورؒ
آپ کا نام شریف نعمان ابن ثابت ابن زوقی ہے، حضرت زوقی یعنی امام صاحب کے دادا فارسی النسل ہیں۔ حضرت امام کی کنیت ابو حنیفہ، لقب امام اعظم، آپ کے دادا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عاشق زار اور آپ کے خاص مقربین میں سے تھے، آپ ہی کی محبت میں فارس چھوڑ کر کوفہ میں آپ کے پاس قیام کیا، حضرت زوقی اپنی بچے ثابت کو دعا کے لیے علی مرتضٰی کے پاس لائے، آپ نے دعا فرمائی اور بشارت دی کہ اس فرزند کے بیٹے سے عالم میں علم بھر جائے گا۔
بلند و بالا ثریا اور کالی اور پست کیچڑ
بہت سے لوگ آپؒ کے اعلیٰ ترین علمی مقام سے شدید حسد کے باعث یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کیا ہم پر ابو حنیفہؒ کی اتباع و تقلید لازمی ہے؟ کیا مسلمان خود دین سے واقفیت حاصل نہیں کر سکتا؟ اگر ان کی تقلید واجب ہے تو قرآن و حدیث میں کہاں لکھا ہے؟ ہم خود بھی تو قرآن و حدیث سمجھ سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ان کے جواب میں کیا عرض کروں، بس ایک مصرعہ ہی کہہ سکتا ہوں، ؏
وَاَین الثریا واین الثرٰی
یعنی کہاں ثریّا اور کہاں کیچڑ ؟ چہ نسبتِ خاک را بہ عالَمِ پاک
امام محمد ابنِ سیرین
آپ کا نام محمد ہے، حضرت انس کے آزاد کرد ہ غلام ہیں، شہادت حضرت عثمانؓ سے دو برس پہلے پیدا ہوئے، تیس صحابہ سے ملاقات ہوئی، فن حدیث و تعبیر خواب کے امام تھے۔
امام محمد ابنِ سیرینؒ نے ایک بار جوزا تارے کو ثریا سے آگے بڑھا ہوا پایا تو فرمایا میری موت قریب ہے مگر پہلے حسن بصری وفات پائیں گے پھر میں ، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ سو ( ۱۰۰ ) دن پہلے خواجہ حسن بصری فوت ہوئے بعد میں آپ۔
ایک شخص تمنا کرے گا
سرکارِ مدینۂ منورہ ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:’’عنقریب ایک شخص تمنَّا کرے گا کہ وہ ثریا سے گر جاتا لیکن لوگوں کے کسی معاملے کا والی نہ بنتا۔‘‘ 
ان کے گیسو ثریا تارے میں لٹکے ہوتے
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے خرابی ہے حکام کے لیے خرابی ہے سرداروں کے لیے خرابی ہے امانت داروں کی، قومیں آرزو کریں گی قیامت کے دن کہ ان کی پیشانیاں ثریا تارے میں لٹکی ہوتیں، آسمان و زمین کے درمیان ہلتے ہوتے اور انہوں نے سرداری نہ لی ہوتی۔ اور احمد کی روایت میں ہے کہ ان کے گیسو ثریا تارے میں لٹکے ہوتے، آسمان و زمین کے درمیان قلا بازیاں کھاتے اور کسی چیز پر حکومت اختیار نہ کرتے۔
ثریا ستارے سے بھی زیادہ دور
تاجدارِ رِسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ایک شخص ایسی بات کہتا ہے جس کے ذریعے اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ہنساتا ہے ،مگر وہ اس کے باعث ثریا(ستارے)سے بھی زیادہ دور جا گرتا ہے ۔''
حضرتِ سیِّدُنا ربیعہ بن ابو عبد الرحمٰنؒ نے کہا کہ میں نے مدینہ طیبہ میں کچھ بوڑھوں کو دیکھا انہوں نے سرخ رنگ کے لباس پہنے ہوئے تھے، ہاتھوں میں مخصوص لاٹھیاں اور نوجوانوں کی طرح مہندی کے آثار تھے، اگر ان میں سے کسی کا دین دیکھا جاتا تو وہ اپنے دین سے ثریا سے بھی زیادہ دور ہوتا۔
ثریا کا الف لام جدا نہیں ہو سکتا
عَلَم ایسے اسم کو کہا جاتا ہے جو کسی شخص یا چیز کی پہچان اور علامت بن گیا ہو۔ جیسے موسیٰؑ، رمضان وغیرہ کہ یہ الفاظ کسی خاص کیلئے ہی بولے جاتے ہیں۔ ان پر الف لام آتا ہے اور کبھی نہیں بھی آتا۔
جو علَم الف لام کے ساتھ موضوع (وضع کیا گیا) نہ ہو
جو علَم الف لام کے ساتھ موضوع (وضع کیا گیا) نہ ہو لیکن اصل میں وہ صفت یا مصدر یا ایسا اسم ہو جس کے معنی جنسی سے مدح یا ذم کا قصد کیا جاتا ہے تو اس پر الف لام لانا جائزہے: اَلْحَسَنُ، اَلْفَضْلُ، اَلْأَسَدُ، اَلْکَلْبُ وغیرہ اور اس طرح کے علَم سے الف لام کا جدا ہونا بھی جائز ہے۔
جو علَم الف لام کے ساتھ موضوع (وضع کیا گیا) ہو: 
جیسے
1. اَلثُرَیَّا(ثوریعنی بیل کی شکل میں ستاروں کا مجموعہ)
2. اَلدَبَرَانُ(قمر کی اٹھائیس منازل میں سے ایک منزل کا نام یا ثریا اور جوزاء کے درمیان کا ستارہ)،
3. اَلْعَیُّوْقُ (ثریا کے پیچھے نکلنے والا ستارہ جو جوزاء سے قبل طلوع ہوتا ہے)
 اس سے الف لام جدا نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ یہ ایک ہی کلمے کے بعض حروف کی طرح ہے۔
میرے چار ہزار الفاظ کا رسالہ پڑھنے کا بہت شکریہ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں