عالمین کا راز
عالمین کا راز (7 منٹ کی ریڈنگ)
عروج دینے والا / عالمین کے درمیان / ایئر
لاک / عالمین کا راز / وسیلۂ عُظمیٰ
تیس سے زائد تفاسیر
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ : عالمین کی تشریح میں ۲۷۶ کتبِ تفسیر سے ہماری تیس سے زائد تفاسیر کا بیان مکمل ہوا۔ آج یاراں دا عشرہ کا آخری دن ہے تو آج ہم نے چاہا کہ عالمین اور الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ کے ضمن میں چند ضروری باتیں بیان کر کے اپنے سفر کو پورا کرتے ہیں تاکہ اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی تشنگی نہ رہ جائے۔
اللہ کے چار پسندیدہ کلمات
حضرت ابو سعید ؓخدری اور حضرت ابو ہریرہؓ
سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے تمام کلمات میں
سے چار کلمات کو منتخب اور پسند فرمایا ہے: سبحان الله، والحمد لله، ولا
إله إلا الله، والله أكبر۔
پس جو سبحان اللہ کہتا ہے اس کیلئے بیس (۲۰) نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں
اور بیس گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں۔ اور جو
اللہ اکبر کہتا ہے اس کیلئے بھی اور جو لا إله إلا الله کہتا ہے اس کیلئے بھی۔ اور جو
الحمد
لله رب العالمين کہتا ہے اس کیلئے تیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں
اور تیس گناہ اس کے نامۂ اعمال سے محو کردیئے جاتے ہیں۔ ﴿ الكفاية في التفسير بالمأثور والدراية﴾
سب سے افضل دعا
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ سب سے افضل
ذکر ﴿لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ﴾ ہے اور سب سے افضل دعا ﴿
الْحَمْدُ لِلَّهِ﴾ ہے۔
حضرت
ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ الحمد ہر شکر اور توحید کا سر ہے جیسا کہ
سورتِ فاتحہ میں ان کو جمع کیا گیا ہے کہ اس کا اول حمد ہے، درمیان توحید ہے اور
آخر دعا ہے۔
کلمۂ طیبہ کے بعد کیا کہنا مستحب ہے؟
تفسیرِ طبری میں ہے کہ حضرت سعید بن جُبیرؓ
فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی شخص ﴿لَا
إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ﴾ کہے تو اس کے بعد الْحَمْدُ
لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ کہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت
فرمائی:
﷽
{ هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ
إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَالَمِينَ } [غافر: 65]
اور اسی میں یہ حضرتِ عبد اللہ ابن
عباسؓ سے بھی مروی ہے۔
ہدایہ میں ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت کلمۂ طیبہ کے بعد الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ کہنے کی تاکید کرتی ہے۔ تفسیر سمعانی میں حضرت ابن سیرین سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔
بیس اور تیس نیکیاں
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا کہ ﴿لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ﴾
کہنے والے کیلئے بیس اور
الْحَمْدُ
لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ کہنے والے کیلئے تیس نیکیاں لکھ
دی جاتی ہیں۔
شکر گزاروں کا کلمہ
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں
کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَٰلَمِينَ ہر شکر گزار کا کلمہ ہے۔
کلمۂ طیبہ افضل ہے یا الْحَمْدُ لِلَّهِ
رَبِّ الْعَٰلَمِينَ؟
علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ کلمۂ
طیبہ افضل ہے یا الْحَمْدُ
لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ کہنا افضل ہے۔ دونوں طرف کے
علماء کے پاس اپنی بات کے ثبوت کیلئے مضبوط دلائل ہیں۔
جو علماء الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَٰلَمِينَ کو افضل گردانتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:
1. کلمۂ طیبہ کلمۂ توحید ہے۔ جبکہ ساری
توحید "رب
العالمین" میں جمع ہے اور اس میں کلمہ حمد بھی ہے۔ تو
اس میں توحید اور حمد دونوں جمع ہیں اس لئے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَٰلَمِينَ افضل ہے۔ یعنی اس میں شکر و ثنائے الٰہیہ بھی
ہے۔
2. اللہ نے اپنے کلام مقدس کی ابتداء اس سے فرمائی ہے۔
3. اہلِ جنت کا آخری کلام الْحَمْدُ
لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ ہوگا۔
﷽ {
دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَ
آخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } [يونس: 10]
4. کلمۂ طیبہ کے قائل کو بیس جبکہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ کہنے
والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں۔
5. آدمؑ کا پہلا کلام الْحَمْدُ لِلَّهِ
رَبِّ الْعَٰلَمِينَ تھا۔
جو علماء ﴿لَا
إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ﴾ کی افضلیت کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ
ہیں:
1. کلمۂ طیبہ اپنے قائل سے کفر و شرک
کو دور کر دیتا ہے۔
2. قتال اسی پر کیا جاتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ
میں اس وقت تک جہاد کروں جب تک لوگ ﴿
لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ ﴾ نہ کہہ لیں۔ یہ جہاد کی حد ہے۔
3. متفق علیہ حدیث میں ہے کہ مجھ سمیت
تمام انبیاء نے جو کچھ کہا ہے، ان میں سب سے افضل ﴿ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ ﴾ ہے۔
4. یہ کلمۂ اسلام اور کلمۂ تقویٰ ہے۔
5. کلمۂ طیبہ میں اللہ پاک کی صفات کا
تذکرہ ہے، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَٰلَمِينَ میں اس کے افعال کا تذکرہ ہے۔
6. لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ میں مُنعِم پر نظر ہے اور الْحَمْدُ لِلَّهِ
رَبِّ الْعَٰلَمِينَ میں نعمت پر۔
7. حدیث شریف میں ہے کہ أَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا
إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ الْحَمْدُ لِلَّهِ۔ اس میں پہلے لَا
إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ ہے اس لئے یہ افضل ہے۔
8. حدیث (ضعیف) شریف میں ہے کہ کلمۂ طیبہ جنت کی قیمت ہے
اور الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَٰلَمِينَ نعمتوں کی قیمت ہے۔ اور جنت دنیاوی نعمتوں سے
افضل ہے۔
9. ذکر دعا سے افضل ہے۔ ذاکر کو بنا دعا
کے اللہ دعا کرنے والوں سے زیادہ عطا فرماتا ہے جیسا کہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت
ہے۔
10. لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ جنت کی کنجی ہے۔
بسم اللہ سے حیرت انگیز مشابہت
سورت الصافات میں ایک آیت ایسی بھی ہے
جس کی بسم اللہ سے حیرت انگیز مشابہت ہے۔
﷽
{
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ }
[الفاتحة: 1]
﷽
{ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَالَمِينَ } [الصافات: 182]
ان دونوں آیات میں کلمات، حروف اور نقاط
کی تعداد بالکل برابر ہے۔ یہاں یہ ذکر اس
کی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَٰلَمِينَ سے مماثلت و مشابہت کی وجہ سے کیا ہے۔
عروج دینے والا
میرے پیر و مرشد حضرت مظہر احسان ڈاہرؒ اکثر
فرمایا کرتے تھے کہ رب تو کہتے ہی عروج دینے والے کو ہیں۔ کافی عرصے تک یہ بات میری
سمجھ میں نہ آ سکی۔ محترم اعظم صاحب نے کئی بار مختلف انداز سے اس کی تشریح کی لیکن
میری تشفی نہ ہو سکی۔ میں اسے مانتا تو تھا، لیکن سمجھ نہ آتا تھا۔ آخرش اللہ پاک نے اس معاملے میں میرا سینہ کھولا اور الْحَمْدُ
لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ کے مفہوم تک میری رہنمائی فرمائی۔
رب پالنے والے کو کہتے ہیں اور بلاشبہ کسی کی پرورش کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا
ہے کہ پال پوس کر اسے درجہ بدرجہ اس کے
عروج تک لے جایا جائے۔ اب کتنا آسان ہے اس بات کو سمجھنا۔ سبحان اللہ!
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو جہانوں کو عروج عطا فرماتا ہے۔ اسی لئے تو فرمایا
ہے کہ {
مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ }
[المعارج: 3]
جو عروج کے زینوں کا مالک ہے۔
عالم کا عروج
ایک عالم کو جب عروج دیا جاتا ہے تو بسا
اوقات عروج اتنا ہو جاتا ہے کہ ایک ہی عالم میں ایک سے زائد عالمین نظر آنے لگتے ہیں۔
انسان نے بے جان چیزوں کو رفتار کے قابل
بنایا ہے۔ مشینوں کی رفتار ایک عالم ہے۔ اس عالم کو رفتہ رفتہ عروج حاصل ہوا، پہلے
پہیہ ایجاد ہوا، چھکڑے بنے، پھر بائیسیکل،
پھر اسٹیم انجن بنے، پھر موٹر کاریں، پھر ہوائی جہاز، پھر راکٹ، پھر برقی کاریں۔ یہ
سب مشینی رفتار کا ایک عالم ہے۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو اس عالم میں بھی کئی عالم
موجود ہیں۔ مثال اور تشریح آگے آر ہی ہے۔
دو عالموں کے درمیان کیا
ہے؟
عالمِ دنیا اور عالمِ آخرت بڑے عالمین میں
سے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص دنیا کے فوراً بعد عالمِ آخرت میں چلا
جائے۔ ان دونوں عالموں کے درمیان ایک تیسرا درمیانی (Intermediate) عالم ہے جسے برزخ کہا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص دنیا سے چلا جاتا ہے
تو وہ قیامت تک عالم برزخ میں رہتا ہے۔ پھر جب قیامت آئے گی تو اسے دوسرے عالم میں
اٹھایا جائے گا۔ قرآنِ پاک میں ہے:
﷽ {
۔۔۔ وَ مِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى
يَوْمِ يُبْعَثُونَ } [المؤمنون: 100]
!
ترجمہ: اور ان
کے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس دن اٹھائے جائیں گے۔
دنیا اور آخرت تو بہت بڑے عالم ہیں اس
لئے ان کے درمیان کا برزخ بھی بہت بڑا ہے، لیکن عالم بڑا ہو یا چھوٹا، ہر دو
عالموں کے مابین (عالمین کی وسعت کی مقدار کے حساب سے) ایک برزخ ضرور ہوتا
ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے:
﷽ {
وَ هُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَ هَذَا مِلْحٌ
أُجَاجٌ وَ جَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَ حِجْرًا مَحْجُورًا } [الفرقان: 53]
!
ترجمہ: اور وہی
ہے جس نے ملے ہوئے رواں کیے دو سمندر یہ میٹھا ہے نہایت شیریں اور یہ کھاری ہے نہایت
تلخ اور ان کے بیچ میں پردہ رکھا اور روکی ہوئی آڑ۔
اسی بات کو سورتِ رحمان میں اس طرح فرمایا
کہ
﷽
{ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ
يَلْتَقِيَانِ (19) بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ (20) } [الرحمن:19-20]
!
ترجمہ: اسی نے
دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیں، اُن دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے وہ (اپنی
اپنی) حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔
ائیر لاک
آپ نے کسی خلائی اسٹیشن (جیسے آئی ایس ایس) کی بناوٹ دیکھی ہوگی۔ خلائی اسٹیشن میں زمین کا
ماحول رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
اسٹیشن کے اندر زمین کا عالم ہوتا ہے، اسٹیشن کے باہر خلا کا عالم۔ ان
دونوں عالموں کو جدا رکھنے کیلئے ایک ایئر لاک بنایا جاتا ہے۔ در اصل ایئر لاک ایک
درمیانی عالم (برزخ) کی بہترین حسّی اور ٹھوس مثال ہے۔ یہ برزخ دونوں عالموں کو
کامیابی اور حفاظت کے ساتھ جوڑتا ہے۔ اگر یہ
نہ ہو تو خلاباز تو کجا، شاید خلائی اسٹیشن ہی تباہ ہوجائے۔
ساؤنڈ بیریئر (رفتار کا عالم )
عام رفتار سے آواز کی رفتار تک رفتار کا ایک ہی عالم رہتا ہے۔ آواز کی رفتار تک پہنچنے پر رفتار کا عالم تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رفتار کے عالم کو عروج ملا اور انسان نے آواز کی رفتار سے تیز رفتار حاصل کرنے کی کوشش کی تو سائنسدانوں کے اس برزخ کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے کئی جہاز اور کئی جہاز ران (پائلٹس) جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ساؤنڈ بیریئر در حقیقت آواز کے عالم کا برزخ ہے۔ برزخ کے بغیر دوسرے عالم میں منتقلی شدید خطرے اور نقصان کا باعث ہے۔
آواز کی رفتار سے زیادہ رفتار کا عالم
بہت وسیع ہے۔ ہوا میں آواز کی رفتار ایک سیکنڈ میں ساڑھے تین سو میٹر ہے، یعنی ایک
گھنٹے میں ساڑھے سات سو میل (کراچی تا لاہور)۔
اس کے بعد جتنی چاہیں رفتار بڑھا لیں، رفتار کا عالم نہیں بدلتا۔ رفتار کا
اگلا عالم ایک سیکنڈ میں تیس کروڑ میٹر
ہے، یعنی کراچی تا چاند۔ جب اس رفتار پر پہنچیں گے تو ایک زبردست برزخ کا
سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں پر آئن اسٹائن درست ہے۔ لیکن یہاں سے آگے اس کی عقل کے گھوڑے چکرا کر رک
گئے۔ علامہ فرماتے ہیں؛؏
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
تھوڑی اور ہمت کر لیتے آئن اسٹائن! لیکن
شاید تمہارے اپنے عالم کی حد آ گئی تھی۔
تم مادے سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے۔ یہ حد ہے تمہارے عالم کی۔
عالمین کا راز
عالمین سے گزرنا آسان نہیں۔ قرآنِ پاک میں
ہے
﷽
{ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَ
الْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَ
الْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ } [الرحمن: 33]
!
ترجمہ: اے
گروہِ جن و اِنس! اگر تم اِس بات پر قدرت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں
سے باہر نکل سکو (اور تسخیرِ کائنات کرو) تو تم نکل جاؤ، تم جس (کرّۂ سماوی کے)
مقام پر بھی نکل کر جاؤ گے وہاں بھی اسی کی سلطنت ہو گی۔
اردو ترجمے سے سلطان کا مفہوم پوری طرح
واضح نہیں ہو رہا اس لئے گلوریس قرآن سے
انگریزی ترجمہ بھی پیش کرتا ہوں
O
company of jinn and men, if ye have power to penetrate (all) regions of the
heavens and the earth, then penetrate (them)! Ye will never penetrate them save
with (Our) sanction.
سینکشن (sanction) کسی کام کیلئے اجازت یا منظوری کو کہا جاتا ہے۔ زمین و آسمان کی حدوں سے باہر نکلنا ہے تو رب
العالمین کی اجازت اور اس کے سلطان کی ضرورت ہو گی، پراونۂ راہداری کی ضرورت ہو گی،
قانونی پاسپورٹ کی ضرورت ہو گی۔ یہ عالم اتنی آسانی سے نہیں بدلے گا۔ یہی نہیں، کسی بھی عالم سے دوسرے عالم میں جاؤ،
سلطان کی ضرورت ہو گی۔ سلطان راز ہے عالمین کا۔ جو سلطان تک پہنچ گیا، سلطنت اسی کیلئے
مسخر کی گئی ہے۔
وسیلۂ عُظمیٰ
نبی کریم ﷺ اللہ تک پہنچنے کیلئے سب سے
بڑا وسیلہ ہیں۔ آپ ﷺ اللہ سے لیتے ہیں اور مخلوق کو دیتے ہیں، آپ ﷺ ذاتِ خداوندی
تک پہنچنے کا دروازہ ہیں۔ آپ ﷺ کے وسیلے کے بغیر کوئی شخص اللہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
آپ ﷺ برزخِ کبری ہیں۔ جس طرح محبّت میں حرف ب اور محمّد میں حرفِ میم مشدد
ہے کہ ب ایک طرف تو ح سے اور دوسری طرف تاء سے ملتا ہے اسی طرح بلا تشبیہ نبی ﷺ ایک
طرف تو اپنے پروردگار سے ہم کلام ہوتے ہیں اور دوسری طرف پروردگار کے احکام اس کے
بندوں تک پہنچاتے ہیں۔ ؎
ادھر اللہ سے واصل، ادھر مخلوق میں شامل
خواص اس برزخِ کبریٰ میں ہے حرفِ مشدد کا
تو اب کہیں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ
الْعَٰلَمِينَ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔