عظمتِ قرآن

قرآن کی عظمت

قرآنِ پاک عظیم ہے۔ اسے جس قدر عظیم سمجھو، یہ اس سے زیادہ عظیم ہے۔ اس سے جتنی محبت کرو، اتنا ہی اس کا فیض تمہاری جانب آتا ہے۔ کم عظمت کے ساتھ زیادہ قرآن پڑھنے سے بہتر ہے کہ بے پناہ عظمت رکھ کر کم پڑھ لیا جائے۔ اس کا فیض؛ اس کی عظمت اور ادب کے احساس کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔

میں نے چوتھی کلاس میں آتے آتے ختمِ قرآن کر لیا تھا۔ جس وقت میں ناظرہ پر تھا، اس وقت بھی میرے اندر اس بات کی شدید تڑپ تھی کہ یہ جان سکوں کہ اس میں کیا پیغام لکھا ہے۔ در حقیقت قرآنِ پاک میں زیادہ تر کلمات وہ تھے جن کے معنی میں نہیں جانتا تھا، وہ میرے لئے بہت اجنبی تھے جیسے؛ أَحْبَارَهُمْ، أَخَرَقْتَهَا، أَسْتَخْلِصْهُ، اسْتَهْوَتْهُ، أَسْفَارِنَا، الْخَرَّٰصُونَ، سَوْءَٰتِهِمَا، سَيُصِيبُهُمْ، صَيَاصِيهِمْ وغیرہ۔

لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے ایسے کلمات بھی تھے جن کے معنی میں اس وقت بھی اچھی طرح سے جانتا تھا جیسے؛ رب العالمین، مالک، صراطِ مستقیم، کتاب، آخرت، رسول، عظیم، رعد، برق وغیرہ ۔ اگرچہ کہ آیات کا مفہوم تو واضح نہ ہوتا تھا لیکن اتنا واضح ہو جاتا تھا کہ بات کس شئے کے بارے میں کی جا رہی ہے۔

اور بہت سے کلمات وہ تھے جن کے معنی تو ٹھیک سے نہ جانتا تھا لیکن وہ جانے پہچانے سے لگتے تھے جیسے؛ نَعْبُدُ، رَزَقْنَٰهُمْ، يُؤْمِنُونَ، الْمُفْلِحُونَ، يَشْعُرُونَ، تِّجَٰرَتُهُمْ وغیرہ۔ یہ دونوں قسم کے کلمات مجھے سمجھاتے اور تسلی دیتے تھے کہ قرآنِ پاک کوئی ایسی کتاب نہیں جسے بس پڑھنا ہے اور یہ کبھی سمجھ نہیں آئے گا، بلکہ یہ کہ اسے سمجھا جا سکتا ہے، اس کے پیغام کو جانا جا سکتا ہے اور اسے بھی سیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن ہمارے گھر میں صرف ایک ہی مصحف تھا اور وہ بھی بلا ترجمہ۔ عربی سے واقفیت نہ تھی اس لئے یہ جاننے کی تڑپ بڑھتی چلی گئی کہ اس میں کیا خزانہ پوشیدہ ہے۔ ایک بار کسی رشتہ دار کے ہاں جانا ہوا، وہاں اشرف علی تھانوی صاحب کا ترجمہ موجود تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کون صاحب ہیں، نہ مجھے اس میں دل چسپی تھی۔ اندھیرا ہونے تک پڑھتا رہا، اپنی پیاس بجھاتا رہا۔ مغرب سے کچھ پہلے میرے ایک عم زاد تشریف لائے اور انہوں نے بتایا کہ یہ اشرف علی تھانوی صاحب کا ترجمہ ہے۔ ابا کو علم نہ تھا اس لئے وہ ان جانے میں اسے اٹھا لائے۔ ہمارے ہاں اسے کوئی نہیں پڑھتا۔ مولوی صاحب نے کنز الایمان کا کہا ہے لیکن ابھی جانا نہیں ہوا۔

میں نہ تو اشرفعلی صاحب کو جانتا تھا اور نہ کنز الایمان کو۔ بس قرآن کو جانتا تھا کہ یہ میرے رب کا کلام ہے، اسی کا جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے۔

کچھ مزید بڑا ہوا تو جیب خرچی کے پیسے بچا بچا کر ایسی کتابیں لاتا جن میں کثرت سے آیاتِ قرآنیہ اور ان کا ترجمہ لکھا ہوتا۔ نویں کلاس میں اتنے پیسے بچا لئے تھے کہ ایک نیا مصحف خرید لایا جس کی مجھے ضرورت تھی، پرانا مصحف شہید ہو رہا تھا۔ تاہم ابھی جیب خرچی اتنی نہ ہو سکی تھی کہ اردو ترجمۂ قرآن لا سکتا۔

میٹرک کے بعد انگریزی کچھ بہتر ہو چلی تھی۔ ایک بار میں پرانی مکہ مسجد  میں تھا۔ وہاں آدھے کمرے جتنی ایک چار دیواری تھی جس کی اونچائی کوئی تین فٹ ہو گی، جس میں شہید مقدس اوراق جمع کئے جاتے تھے۔ صبح نو یا دس کا وقت تھا، میں مسجد میں تلاوت کر رہا تھا۔ طبیعت بے چین تھی کہ ترجمہ ہوتا تو کیا بات تھی۔ ایک خیال آیا کہ مقدس اوراق میں شاید مجھے کوئی بوسیدہ مصحف مل جائے۔ مجھے کون سا اس میں تلاوت کرنی ہے، مجھے تو بس ترجمے سے کام ہے۔ تلاوت کیلئے میرے پاس اپنا مصحف موجود تھا۔ فوراً تلاوت ختم کر کے مقدس اوراق کی طرف گیا اور اس میں تلاش شروع کر دی۔ بوسیدہ مصحف تو ملے لیکن ترجمے والا قرآن نہ مل سکا۔ صرف ایک آدھ صفحہ ہی مل سکا جو میری پیاس نہ بجھا سکتا تھا۔ کافی تلاشِ بسیار کے بعد مجھے انگریزی ترجمہ مل گیا۔ یہ مارمیڈیوک  پیکتھال (Marmaduke William Pickthall 1875-1936) کا "دا گلوریس قرآن" نامی مشہورِ عالم ترجمہ تھا۔ {یہ صاحب بعد میں محمد مارماڈیوک پیکتھال (Muhammad Marmaduke Pickthall) بن گئے تھے یعنی صرف قرآنِ پاک نے ہی اسلام کی طرف ان کی رہنمائی کی تھی۔} میں نے اسے نکال کر گرد صاف کی اور مسجد میں لے آیا۔

میں اسے گھر لانا چاہتا تھا لیکن خیال آیا کہ مسجد کی چیزوں کو گھر لے جانا ٹھیک نہیں لگتا اس لئے رک گیا۔ ظہر میں عموماً قاری  صاحب ضرور تشریف لاتے تھے۔ میں ان کا انتظار کرنے لگا۔ نماز کے بعد ان کو صورتِ حال بتائی اور ان سے اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں لے جا سکتے ہیں لیکن چونکہ مسجد کی چیزیں وقف ہوتی ہیں اور وقف کا کوئی مالک نہیں بن سکتا اس لئے پڑھنے کے بعد آپ کو فوراً ہی واپس رکھنا ہوگا۔

یہی فرق ہوتا ہے صوفی اور عالم میں۔ کوئی اہلِ تصوف ان کی جگہ ہوتا تو اس بچے کو اپنے گھر لاتا اور اپنی لائبریری سے اسے بہترین ترجمہ اور تفسیر پیش کرتا اور کہتا کہ جو دل چاہے، لو، پڑھو اور اپنی پیاس بجھاؤ۔ جسے ٹھیک سے کاشت کیا جا سکے، اسے بھلا خود رو کیوں بننے دیا جائے؟ وہ یقیناً میری پیاس کو بھانپ چکے تھے لیکن اس کے با وجود صرف علمی مسئلہ بیان کر رہے تھے۔

گلوریس قرآن (The Glorious Quran) گھر آیا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ خوشی میری آنکھوں سے پھوٹ پڑی۔ سیلِ رواں تھا جو قرآنِ پاک کی عظمت بیان کر رہا تھا۔ گھر میں کتابستان کی بیسویں صدی کی انگریزی سے اردو لغت موجود تھی۔ جب کوئی لفظ مشکل پاتا تو اسے لغت میں تلاش کر لیتا۔

قرآن دل میں اترنے لگا، اس کے مطالب اور مفاہیم سمجھ میں آنے لگے۔ اس کی عظمت نکھرنے لگی۔ ایک بار مولوی صاحب نے مغرب میں سورتِ قدر کی تلاوت کی تو اس قدر گریہ طاری ہوا کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ میرے دل میں قرآن کی عظمت میرے دل سے پاس پڑوس کے دلوں میں جانے لگی۔ میری کوشش کے بغیر۔ اور کوئی خوش الحان قاری جب تلاوت کرتا تو میرے سینے سے زوروں کی گھٹا اٹھتی اور آنکھوں سے جھڑی برسنے لگ جاتی۔؏

سینے سے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑی برسے

شاید اسی لئے اعلیٰ حضرت سے جب کسی نے عشقِ نبی ﷺ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ کسی خوش گلو نعت خوان سے سرکار ﷺ کی نعتیں سننے سے عشق میں کثیر اضافہ ہوتا ہے۔

مارچ ؁۱۹۹۲ء میں میری ملاقات اعظم  صاحب سے ہوئی۔ آپؒ نے مجھے نہ صرف حضرت صاحب سے روشناس فرمایا بلکہ قرآنِ پاک کے وہ مفاہیم بیان کئے جو پہلے کسی عالم سے نہ سنے تھے۔ یہ معنیٰ صوفیائے کرام کے گروہ کے تھے۔ میری فہم کیلئے یہ سب نیا تھا۔ اعظم صاحب میرے شیخِ تربیت ہیں۔ آپؒ نے ہر معنی جو بیان کیا وہ اعلیٰ ترین درجے کا تھا۔ اب میرے لئے قرآن صرف ترجمہ اور تفسیر ہی نہ تھا بلکہ اور بھی بہت کچھ تھا۔

پاکستان میں جمعہ کے دن کی چھٹی بند ہوئی تو آفسوں میں جمعہ ہونے لگا۔ خطبے خطاب کیلئے قرآنِ پاک سے میرا شغف اس قدر بڑھا کہ اعظم صاحب نے بھی کئی بار فرمایا کہ قادری صاحب! ہم اہلِ قرآن (فرقہ) نہیں ہیں، ہم خدام القرآن (ایک تنظیم) نہیں ہیں۔ ہم اہلِ سنت ہیں۔ لیکن ؏

ہوش میں جو نہ ہو وہ کیا نہ کرے

آپؒ ایک دلیل پیش کرتے اور میری زبان پر قرآنِ پاک کی دس دلیلیں آ جاتیں۔ ممکن ہے کہ وہ میری اس بات سے ناراض ہوئے ہوں، لیکن پھر شاید جلد ہی انہیں یہ اندازہ ہوگیا کہ سلیم صاحب کا ادب اور محبت اپنی جگہ پوری طرح سے نہ صرف یہ کہ قائم ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے تو یہ کسی اور بات کا پیش خیمہ ہے۔ ہائی کمان کے فیصلوں پر تو اعظم صاحب بھی سرِ تسلیم خم کیا کرتے تھے۔

قرآنِ پاک سے بڑھتا ہوا شغف اور محبت بہت کام کی چیز ہے۔ میں ایک ہی آیت، بسا اوقات تو صرف ایک ہی لفظ کیلئے کئی کئی تفاسیر کھنگالنے لگا۔ الفاظ سے جملے، روٹ ورڈز اور لفظ کی صرفی حالت، احکامِ فقہ ؛ الغرض ایک لفظ کو اچھی طرح زیر زبر پیش کے ساتھ سمجھنے کی کوششیں کرتا رہا۔ سالک تو کہتے ہی اسے ہیں جس کا سفر جاری رہتا ہے۔

نورِ قرآن العظیم

ایک روز میں صوفے پر قرآنِ پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ میرا رخ جنوب کی جانب تھا۔ تلاوت کیلئے بہتر یہ ہے کہ کعبے کی سمت رخ کیا جائے، لیکن اس میں نماز کا سا حکم نہیں۔ آپ بوقتِ ضرورت دوسری جانب بھی رخ کر سکتے ہیں اور تلاوت کر سکتے ہیں۔ تلاوت کرتے کرتے اچانک چاروں طرف ایک نور چھا گیا۔ اتنا عظیم نور تھا کہ جس کی شدت کا کوئی اندازہ نہیں۔ ساری کائنات میری آنکھوں کے سامنے تھی۔

صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ عارف کیلئے شش جہات صرف ایک جہت بن جاتی ہے۔ صرف سامنے کی ایک طرف؛ دائیں بائیں اوپر نیچے اور پیچھے سب اس کیلئے معدوم ہو جاتے ہیں۔ عارف جو کچھ دیکھتا ہے، سامنے کی طرف دیکھتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر اپنی پشت کے پیچھے کا بھی کوئی منظر دیکھے گا تو سامنے کی طرف دیکھے گا۔

میرے سامنے میری برداشت سے کہیں زیادہ شدید منظر تھا۔ وہ نورِ عظیم، جس کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ ہر چیز اس نور میں غوطہ زن تھی۔ چاند سورج اور ستارے تو بے چارے کیا شئے تھے، کہکشائیں، پلسار، قواسر، کلسٹر، بلیک ہول، ڈارک میٹر اور توانائی، سب اس نور میں اس طرح بہے جا رہے تھے جیسے کسی چنگھاڑتے طوفانی دریا میں بے قیمت و بے حیثیت خس و خاشاک۔ پھر سلیم قادری کی تو اوقات ہی کیا تھی۔

میں نے ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے لگا کہ شاید میرا آخری وقت قریب ہے اس لئے مرنے سے پہلے اپنے پروردگار کو سجدہ کر لوں۔ میں نے گردن جھکائی ہی تھی کہ کسی مضبوط اور طاقتور ہاتھ نے میری گدی پکڑ لی اور کہا کہ نہیں، نہیں؛ یہ وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ میں نے وہ آواز صاف پہچان لی۔ یہ میرے حضرت صاحب کی آواز تھی، میاں مظہر احسان ڈاہرؒ کی۔ خوف مجھ پر حاوی تھا۔ میں نے لرزتی آواز میں کہا کہ یہ کیا تھا حضرت صاحب! حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ نورِ قرآن تھا۔ ہمارا سجدہ ذاتِ خداوندی کیلئے ہے۔

اس منظر کے ہول اور دہشت نے مجھے دو دن تک گم سم کر دیا۔ کسی چیز میں دل نہ لگتا تھا۔ بار بار نظر میں سورج لڑھکتا گرتا پڑتا بہتا دکھائی دیتا تھا، چاند ادھر لڑھک رہا تھا، کہکشائیں ادھر چکراتی پھر رہیں تھیں۔ نہ کوئی ثقل کی قوت تھی، نہ کوئی طاقتور یا کمزور مرکزاتی طاقتیں اور نہ ہی برقناطیسی قوت۔ بس کائنات میں ہر طرف نور کی حکمرانی تھی جس کے دائرۂ اثر سے کوئی موجود باہر نہ تھا۔ دو دن بعد طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو قرآن کی محبت اور شدید ہوگئی اور دل میں اس کی عظمت اور گھر کر گئی۔

حضرت صاحب میاں ظفر محمود الحسن نے اپنا ایک واقعہ ارشاد فرمایا تھا کہ ایک بار کسی قاری نے نماز میں سورت القارعہ کی تلاوت کی تو میری آنکھوں میں قیامت کا سارا منظر گھوم گیا۔ وہ اتنا ہولناک منظر تھا کہ مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مالک شخص کے ہوش اڑا دینے والا تھا۔ پورے ایک ماہ تک میں روتا رہا، کھانا پینا کچھ اچھا نہ لگتا تھا۔ ہر وقت قیامت کی ایک فکر دامن گیر رہتی۔ ایک مہینے بعد کچھ افاقہ ہوا۔

 بیشک اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ جس کا جتنا ظرف ہے، اتنا ہی نصیب۔

قرآن کی مثال بارش کی ہے

قرآنِ پاک کی مثال آسمان سے اترتی بارش کی سی ہے۔ پہلے ہی سپارے میں ہے کہ

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ

یعنی یا ایسی مثال ہے جیسے آسمان سے زوروں کی برستی بارش

اور سورت رعد کی ۱۷ ویں آیت میں بطورِ تمثیل یوں فرمایا کہ

أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا وَ مِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَٰعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَ الْبَٰطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَ أَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ

اس نے آسمان سے پانی اتارا تو وادیاں اپنے اپنے لائق بہہ نکلیں، تو پانی کی رو اس پر ابھرے ہوئے جھاگ اٹھا لائی، اور جس پر آگ دہکاتے ہیں گہنا یا اور اسباب بنانے کو اس سے بھی ویسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں۔ اللہ بتاتا ہے کہ حق و باطل کی یہی مثال ہے، تو جھاگ تو پھک (جل) کر دور ہو جاتا ہے، اور وہ جو لوگوں کے کام آئے زمین میں رہتا ہے اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے۔

اور سورتِ نوح کی گیارہویں آیت میں ہے کہ

يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا یعنی وہ تم پر تم پر شراٹے کا (موسلا دھار) مینہ بھیجتا ہے۔

پھاگن، ساون اور بھادوں کی برسات

برسات پھاگن میں بھی ہوتی ہے، ساون میں بھی اور بھادوں میں بھی۔ پھاگن مارچ میں، ساون جولائی میں اور بھادوں اگست میں شروع ہوتا ہے یعنی جشنِ آزادی سے وفاتِ قائد تک بھادوں رہتا ہے۔ سب سے زوروں کی بارش بھادوں میں ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک نے اپنے بارے میں شراٹے دار بارش کی جو مثال دی ہے، ایسی بارشیں صرف بھادوں میں ہوتی ہیں۔ قرآنِ پاک بھادوں کی بارش کی مانند ہے جس میں امید اور خوف، قوت اور رحمت سب ایک ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ابنِ انشاء کہتا ہے؛

ساون کا نہیں بادل جو چار گھڑی برسے

برکھا ہے یہ بھادوں کی، برسے تو بڑی برسے

کچھ لوگ یہاں ساون کے بجائے پھاگن بھی پڑھتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ابن انشاء نے یہ شعر کس وجہ سے لکھا ہے لیکن یہ قرآنِ پاک کے بارش ہونے کی بڑی اچھی تشریح کرتا ہے۔

میری پیدائش بھادوں کے مہینے کی ہے۔؁۲۰۱۵عیسوی کے بعد کسی سال کی بات ہے ؛جب میں نے فیس بک پر حضرت رومیؒ کے اقوالِ محبت نئے نئے شیئر کرنا شروع کئے تھے؛ ایک بار بس یونہی دل میں خیال سا آگیا کہ آستانے میں سالگرہ منائی جائے۔ ہماری سالگرہ بھی کیا ہوتی ہے سوائے تلاوت، نعت اور دعا کے۔ بس پھر کیا تھا، سالگرہ والے دن رات عشاء کے بعد ساتھی جمع ہونا شروع ہوئے۔ یہی ہوتا ہے رشتہ اور وہ جسے میں عین ٹینگلمنٹ کہتا ہوں۔ مرید در حقیقت اپنے شیخ سے جڑے ہوتے ہیں ۔ میں نے اس بات کا کسی سے اظہار نہیں کیا تھا کہ آستانے میں سالگرہ ہو، بس ایک ہلکا سا خیال تھا۔ لیکن بنا بتائے ہی لوگ جمع ہوگئے۔

ہمیں کیا خبر تھی کہ قدرت اس سالگرہ کو یادگار بنانے پر تلی ہوئی تھی۔ خواتین پہلے آئی تھیں اور کیک لائی تھیں، مرد حضرات بعد میں آئے تھے اور تحائف تھے ان کے پاس۔ میں پہلے آنے کی وجہ سے کیک والوں کے ساتھ تھا۔ ابھی کیک کھلا ہی تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ بھادوں کی بارش تو ایسی ہی ہوتی ہے، آن کی آن میں بارش نے سب جل تھل ایک کر دیا۔ بارش تک تو بات ٹھیک تھی، لیکن اس کے ساتھ بادلوں کی وہ گرج تھی کہ سارا کراچی گونج رہا تھا۔ اور بجلیاؤ ایسا تھا کہ نابینا بھی نوری آباد تک دیکھ لے۔ اوپر آستانے میں کچھ نو عمر بھی تھے۔ مجھے خوف لاحق ہوا کہ ان میں سے کوئی سہم کر باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ بجلیاں غضب کی تھیں اور بلند جگہوں کو تاکنا ویسے بھی ان کی عادت ہوتی ہے۔

میں اللہ سے پناہ طلب کرتا، چھاتا لے کر آستانے کی طرف گیا۔ بھادوں کی بارش کا یہ عالم تھا کہ نکاسی کا بہترین اور دوہرا انتظام ہونے کے با وجود کئی کئی انچ پانی موجود تھا۔ میرا گمان تھا کہ وہ بھی سہم رہے ہوں گے۔ لیکن آستانے میں تو عجیب خوشی کا عالم تھا۔ جو بارش مجھے دہلا رہی تھی وہ اسے نہ صرف فل انجوائے کر رہے تھے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں تھے۔ مجھے دیکھ کر خاموش ہوئے ۔ میں نے اللہ کے نبی کی سنت اس بارے میں بتائی اور دعا کیلئے کہا۔ گرج چمک میں ان سے سالگرہ کی مبارک باد وصول کی اور چند ہدایات کے بعد پھر نیچے آگیا۔ رات گیارہ بجے کے قریب بارش کچھ دھیمی ہوئی تو انہیں رخصت کیا اور خیریت کے اطلاعی فون کی تاکید بھی کی۔

حضرت صاحب کا واقعہ

اہل اللہ کے دل میں آنے والی باتوں کی بھی پروردگارِ دو عالم کے ہاں کتنی قدر و منزلت ہوتی ہے اس بات کا اندازہ حضرت ظفر صاحب دامت برکاتھم کی اس بات سے لگا لیں کہ ایک بار آپ نے مجھ سے دیگر ساتھیوں کی موجودگی میں فرمایا تھا کہ سلیم صاحب! ایک بار بازار میں کسی کام سے گیا تو ایک نہایت شاندار چمچماتی کار دیکھی تو میرے دل میں آیا کہ مجھے دین کے سلسلے میں (یعنی تبلیغ دین، میلاد شریف کی محفلوں اور اعراس میں شرکت وغیرہ کیلئے ) اکثر دوسرے شہروں اور دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا ہے؛ سواری کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکل پیش آتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اللہ پاک سواری کا کوئی معقول انتظام فرما دیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ گھر پہنچا ہی تھا اور ابھی کچھ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں باہر نکلا تو ایک صاحب تھے جن کے ہاتھ میں ایک چابی تھی۔ وہ صاحب کہہ رہے تھے کہ میاں صاحب! آپ کو فلاں صاحب کی طرف سے یہ کار تحفے اور نذرانے میں پیش کی گئی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں باہر آیا اور کار دیکھی تو حیران رہ گیا کہ بالکل ویسی ہی ایک کار تھی جیسی کار کو دیکھ کر میرے دل میں یہ بات پیدا ہوئی تھی۔ سرِ مو بھی فرق نہیں تھا۔

آپ فرماتے ہیں کہ میں اندر آیا اور بہت رویا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت توبہ و زاری کی۔

کیسے آقاؤں کا بندہ ہے رضا

بول بالے میرے سرکاروں کے

بس میلاد منالو! اسی میں عافیت ہے

میری پیدائش کوئی معجزہ ہے اور نہ کوئی کرامت۔ یہ ایک امید کے سوا کچھ نہیں۔ میں اپنے ساتھیوں کو تاکید کرتا ہوں کہ میری سالگرہ کی فکر چھوڑو، میرے سرکار کا میلاد منالو! اسی میں عافیت ہے اور اسی میں میری خوشی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ ہر جائز کیا جائے؟ وہ کیا جائے جو جائز سے بہتر ہو۔ نبی کی گلیوں میں آنا جانا، نبی کی یاد میں رہنا، نبی کی ذات میں گم ہونا تمہارے شیخ کی آرزو ہے۔ اور تمہارے شیخ کی تو یہاں اوقات ہی کیا ہے، پیرانِ پیر کی بھی یہی آرزو ہے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں؛

میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں

صبح نے نورِ مہر میں مِٹ کے دِکھا دیا کہ یوں

یعنی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ میں حسنِ ازل میں گم ہونا چاہتا تھا لیکن یہ سمجھ نہ آتی تھی کہ گُم کیسے ہوا جائے۔ صبح کے وقت نے سورج کے نور میں عملی طور پر مٹ کر دکھا دیا کہ حضرت، اس طرح گم جائیں جس طرح میں سورج کے نور میں گُم گئی ہوں۔

انہی کی پیدائش کی یاد منانا جن کا پیدا ہونا، جن کا وصال پانا اور جن کا دوبارہ جی اٹھنا سب سلامتی ہے۔ عیسیٰؑ فرماتے ہیں:

وَ السَّلَٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَ يَوْمَ أَمُوتُ وَ يَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا

اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد (پیدائش) کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ (مریم:۳۳)

قرآنِ پاک بھادوں کی بارش ہے۔ بھادوں کی بارش ہو اور اس کے با وجود بھی کوئی درخت سوکھا اور کوئی جان پیاسی رہ جائے؟ ناممکن! رحمتِ خدا کی زوروں کی بارش میں تو کوئی کمی نہیں۔ اگر کمی ہوتی تو یہ حجت نہ بنتا۔ شراٹے کی بارش سے صرف محروم ازلی ہی محروم رہ سکتا ہے۔ جس کے نصیب میں سعادت کا کچھ حصہ بھی لکھا ہے، وہ اس بارش سے فائدہ اٹھا لیتا ہے۔

قرآن بہت عظیم ہے

قرآن بہت سے لوگ پڑھتے ہیں، فرقہ باز اسی سے فرقہ واریت اخذ کرتا ہے، دنیا دار اسی سے دنیاوی فائدہ لینا چاہتا ہے، لوگ اسی کو خوشامد کے طور پر بھی پڑھتے ہیں اور اظہارِ نفرت اور دشمنی کیلئے بھی۔ اور بہت سے اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کیلئے بھی پڑھتے ہیں۔ بھائیو! خدا کی قسم! قرآنِ پاک اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ یہ لا متناہی فیض کا منبع ہے۔ یہ ایک رسی ہے جس کا ایک سرا آپ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا آپ کے خالق کے ہاتھ میں۔ اسے پکڑے چلتے چلے جاؤ، اپنے خالق سے جا ملو گے، اس حال میں کہ وہ آپ سے راضی ہوگا اور آپ اس سے راضی ہوں گے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع