مظہر الایمان

مظہر الایمان

یعنی آپ کی ہر مشکل کا یقینی حل

حضرت میاں محمد مظہر احسان ڈاہرؒ

(نقشبندی، مجددی، مکان شریفی)

Updated on: Mar 16, 2022

فہرست

مظہر الایمان

اللہ اور بندے کا تعلق

ایمان اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت

مسلمان اور نماز

دنیا کا رزق اور عزت کس چیز میں ہے؟

آدمی کے عروج و زوال کا انحصار کس چیز پر ہے

احکام خداوندی اور روحانیت

شیخ سے ہمیں کیا چاہیئے

قلب:

انسان کے جسم میں قلب کی اہمیت:

روح:

ہمارا مشن

ذکر قلبی

صحبت شیخ

درود پاک

عددی تجزیہ


مظہر الایمان

اللہ اور بندے کا تعلق

دنیا کا ہر واحد عنصر در اصل مرکب کا حامل ہوتا ہے۔ جیسے ریت کا ایک ذرہ جو بظاہر مفرد یا واحد نظر آتا ہے اس میں بھی کئی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ کوئی واحد اور منفرد (مخلوق میں سے) آمیزش سے خالی نہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی واحد، احد، یکتا و یگانہ و بے مثل و بے نظیر ہے۔ وہ ایسا واحد اور احد ہے جو آمیزش سے پاک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ فطری طور پر ناممکنات میں سے ہے۔ ہمارے پروردگار کا ذاتی نام (اسم اللہ) ہی وحدانیت کا حامل ہے۔ اسم اللہ کے حروف ایک ایک کر کے ہٹانے بھی آخری حرف تک اس کا نام اور ذات باقی رہتے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی مخلوق کا نام لے لیجیے اس کا ایک یا دو حروف ہٹانے سے نہ تو اس کا صحیح نام رہتا ہے اور نہ ذات کے ساتھ تعلق باقی رہ سکتا ہے مثلاً: نذیر کا "ن" دور کرنے سے ذیر رہ گیا، اب نہ اسم نذیر ہی رہا اور نہ ہی ذات کے ساتھ ذیر کا کوئی تعلق رہ گیا۔ تمام مخلوق کے ناموں کا یہی حال ہے۔ لیکن اسم اللہ کا ایک ایک حرف ہٹا کر دیکھیے۔ نام بھی باقی رہے گا اور ذات سے تعلق بھی قائم رہے گا۔

مثلاً اسم اللہ کا الف دور کرنے سے "للہ" رہ جائے گا۔ نام بھی پورا ہے اور ذات سے تعلق بھی موجود ہے۔ جیسے { لِلَّهِ مَا فِي السَّمَٰوَٰتِ وَ الْأَرْضِ ۔۔۔ } [لقمان: 26].

اب "للہ" کا "ل" دور کرنے سے "له" رہ جائے گا۔ جیسے قرآن پاک میں ہے { لَهُ مَا فِي السَّمَٰوَٰتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ ۔۔۔ } [الشورى: 4]. اب اس کی ذات سے تعلق بھی قائم ہے اور نام بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اب "ل" ہٹانے سے "ہٗ" (ھو) باقی رہ جائے گا جیسے قرآن پاک میں ہے { هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۔۔۔ } [الحشر: 22]. اب هُوَ جو ضمیر متصل ہے اپنی ذات کی طرف راغب ہے۔ پس ثابت ہوا کہ باری تعالیٰ کا نام ہی اپنی ہی وحدانیت کا علمبردار ہے۔

اب روح "امر ربی" ہے جو مخلوق کی طرف راغب ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پیدا فرمایا تو اس میں اپنی روح پھونکی جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے { فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي ۔۔۔ } [ص: 72].  یعنی میں نے پھونک دی اس میں اپنی روح۔ اب چونکہ روح اللہ تعالیٰ کی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے { كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَ كُنتُمْ أَمْوَٰتًا فَأَحْيَٰكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ } [البقرة: 28]. یعنی تم کیسے اللہ کے منکر ہوجا‏ؤ گے حالانکہ تم مردہ تھے، اس نے تم کو زندہ کیا، پھر تم کو مارے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پس ثابت ہوا کہ آدمی کا آنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور واپس لوٹنا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت اور محبت کے سوا چارہ نہیں۔ جتنی زیادہ محبت اتنا ہی اپنے اصل کی طرف راجع، جتنی محبت کم اتنا ہی اصل سے دور، جس نے بالکل ہی چھوڑ دیا، اس نے گویا اپنے اصل کو چھوڑ دیا اور اپنی جان پر ظلم کیا۔ اس لئے دوزخ لازم آئے گا۔ کیونکہ اس نے اپنی جان کو اپنے اصل سے جدا کیا۔ اگر اپنے اصل کی طرف رغبت کی تو کامیابی، عزت اور وقار اس کے قدموں پر ہے۔

چونکہ انسان کا اصلی جوہر روح ہے اور روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے اس لئے نہ خالق ہے نہ مخلوق ہے۔ یہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان واسطہ ہے۔ گویا خالق اور مخلوق کے درمیان امر اس کا واسطہ ہے اس لئے اس کو افضل المخلوق کہا گیا ہے۔ اور سب سے بڑا واسطہ، سب سے بڑا تعلق اللہ اور بندے کے درمیان روح ہی ہے۔ اسی واسطے سے بندہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اور جتنی روحانی قوت یا روحانیت کمزور ہوگی اتنا ہی اپنی اصل یعنی اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس ثابت ہوا کہ انسان کا وقار، عزت، دین و دنیا سب کچھ روحانیت ہی پر منحصر ہے۔


ایمان اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت

تمام جہانوں میں اور عالم کبیر کے ہر ذرے میں اللہ تعالیٰ کی نورانیت ظاہر ہوتی ہے۔ ان تمام انوار کو اکٹھا کرکے باری تعالیٰ نے عالم صغیر یعنی آدمی میں رکھ دیا۔ اس لئے تمام مخلوق سے آدمی افضل ہے۔ اس میں عالم کبیر کے صفات ظاہر ہیں۔ گویا کہ باری تعالیٰ نے دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ اب تمام انسانوں کی نورانیت کو یکجا کرکے ایک ولی میں رکھ دیا۔ تمام ولیوں کی نورانیت کو یکجا کرکے ایک غوث میں رکھ دیا اور تمام غوثوں کی نورانیت کو ایک مجدد میں رکھ دیا۔ تمام مجددوں کے نور کو اکٹھا کرکے ایک صحابی میں رکھ دیا۔ تمام صحابہ کے نور کو اکٹھا کرکے ایک چھوٹے نبی علیہ السلام میں رکھ دیا۔ تمام نبیوں کی نورانیت کو ایک رسول علیہ السلام میں رکھ دیا اور تمام رسولوں کے نور کو اکٹھا کرکے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں رکھ دیا۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام نورانیت کا مجموعہ اور جڑ ہیں۔

جیسا کہ ایک درخت کی جڑ تمام شاخوں اور پتوں کو غذا دیتی ہے اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام افراد امت کو ایمانی تقویت بخشتے ہیں۔ جس طرح کہ اگر ایک پتّہ یہ دعوی کرے کہ میں جڑ سے تعلق رکھے بغیر سر سبز رہ سکتا ہوں تو یہ دعوی باطل ہوگا اور وہ جڑ سے تعلق منقطع کرکے سر سبز نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح کوئی بھی انسان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق توڑ کر مسلمان یا مؤمن نہیں بن سکتا۔ جتنا تعلق اور محبت زیادہ ہوگی اتنا ہی ایمان قوی ہوگا۔

جب آدمی کلمۂ طیبہ پڑھ لیتا ہے تو دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے، مسلمان بن جاتا ہے۔ جب اسلامی ارکان پورے کرکے اسلام میں مکمل ہو جاتا ہے تو مؤمن بن جاتا ہے۔ جب اس کا ایمان قوی ہوجاتا ہے تو موقن بن جاتا ہے۔ جب اس کا یقین کامل ہوتا ہے تو محب بن جاتا ہے۔ جب محبت اور عشق میں کامل ہوجاتا ہے تو باری تعالیٰ اسے اپنا محب اور مقرب بنا لیتے ہیں۔ اسلامی ارکان کامل کرکے ایمان میں قوی ہونا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر منحصر ہے۔ جتنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، اتنا ہی قوی ایمان۔ جتنی کم محبت اتنا ہی ایمان کمزور جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ) یعنی "اے صحابہ! تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اس کی محبت میرے ساتھ ہو۔ محبت اولاد سے، والدین سے، مال سے، تمام دنیا سے، تمام کائنات سے زیادہ ہو۔" تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کامل ہونا ہی ایمان کی تکمیل ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھ جاتی ہے تو باری تعالیٰ اس کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ وہ کامل ولی، غوث اور مجدد ہوجاتا ہے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں { قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ۔۔۔ } [آل عمران: 31].

 جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوجاتی ہے تو اتباع کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع میسر آجائے تو باری تعالیٰ کی محبت میں کامل ہوجاتا ہے۔اور اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کرکے گویا اس نے خدا کی محبت، گناہوں سے بخشش اور خدا کو راضی کرنا سب کچھ حاصل کرلیا۔ گویا تمام اسلام کا انحصار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ہے۔ اسی سے روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جب روحانیت غالب آتی ہے اور اپنے اصل یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہو جاتے ہیں۔


مسلمان اور نماز

ہر ایک چیز کا عروج ہوتا ہے۔ جس چیز کی بدولت یہ عروج ہو وہی سر فہرست اور اہم ہوتی ہے۔ اسلام میں عروج نماز میں ہے۔ اسی لئے نماز مؤمن کی معراج ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان نماز ہی ایک ایسا مقام ہے جس میں بندہ اپنے مولا سے ہم کلام ہوکر اللہ کا دیدار اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رحمت و شفقت حاصل کرتا ہے۔ اصل میں نماز کی ضرورت تمام اسلام میں زیادہ اس لئے ضروری ہوئی کہ ابتدائے اسلام میں، آپ جانتے ہوں گے کہ، جب کوئی آدمی اسلام کی دعوت قبول کرتا تو صرف لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّه پڑھتا اور مسلمان بن جاتا۔ اس پر اور کوئی فرض عائد نہیں تھا لیکن گناہ سے تائب ہونا فرض تھا۔ اسلام کی بنیاد ہی ممنوعات سے بچنا تھا۔ جو شخص فتل، زنا یا بری چیزوں سے توبہ کرتا وہ مسلمان ہوجاتا تھا۔ اب اسلام میں ممنوعات سے بچنا ہی زیادہ ضروری ہے۔ تو باری تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا: { ۔۔۔ إِنَّ الصَّلَوٰةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنكَرِ ۔۔۔ } [العنكبوت: 45]. یعنی نماز بے حیائی اور ممنوعات سے روکتی ہے۔ تو نماز نے ممنوعات سے بچنے میں مدد دی اور وہی فرض جو اسلام کے لئے ضروری تھا اسے پورا کرنے کی راہ ہموار کر دی۔

نماز سنت انبیاء ہے۔ فجر کی نماز حضرت آدم علیہ السلام نے پڑھی۔ ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پڑھی۔ عصر کی نماز حضرت موسی علیہ السلام نے پڑھی۔ مغرب کی نماز حضرت عیسی علیہ السلام نے پڑھی۔ اور عشاء کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی۔ حدیث پاک میں مروی ہے کہ جس نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی (گویا کہ اس نے) حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ بیس مقبول حج کئے۔ ظہر کی نماز با جماعت پڑھی تو حضرت ابراهیم علیہ السلام کے ساتھ چالیس مقبول حج کئے۔ عصر کی نماز سے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ گویا ساٹھ مقبول حج کئے۔ مغرب کی نماز سے حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ اسّی مقبول حج کئے۔ اور عشاء کی نماز با جماعت پڑھی تو گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیّت میں سو مقبول حج کئے۔ ذرا غور کیجئے، ایک حج پر جتنا خرچ آتا ہے اس سے بیس، چالیس، ساٹھ، اسّی اور سو حج پر آنے والے خرچ کا اندازہ لگائیے۔ جو شخص با جماعت نماز نہیں پڑھتا اس کا کتنا نقصان ہوتا ہے!

جب آدمی نماز پڑھتا ہے، حدیث پاک میں ہے، باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے دیکھ کر پڑھے اور اگر وہ مجھے نہ دیکھ سکے تو یوں سمجھے کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔(أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ ‌كَأَنَّكَ ‌تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ-صحيح البخاري) معلوم ہوا کہ نماز میں اللہ تعالیٰ کا دیدار (جو کہ معراج کی علامت ہے) حاصل ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔"

جب آدمی نماز پڑھتا ہے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص نہر میں پانچ دفعہ نہاتا ہے اس پر میل کیسے رہ سکتی ہے؟" پانچ دفعہ نہانے سے پانچ نمازیں مراد ہیں۔

باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے تو صبر اور نماز سے کام لو۔ نماز ایک وجود رکھتی ہے جیسا کہ باری تعالیٰ فرماتا ہے { يَٰأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلَوٰةِ ۔۔۔ } [البقرة: 153]. یعنی نماز اور صبر سے مدد حاصل کرو۔ معلوم ہوا کہ ہر مشکل کے وقت نماز مدد دیتی ہے۔ نماز دافع البلاء ہے۔ مشکل کشا ہے۔ یہ انسان کو اس کے مولا کے قریب کرتی ہے۔ ایسی چیز بھلا دین میں ایک ستون کی سی اہمیت کیوں نہ حاصل کرے۔ اسی لئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "الصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّین" یعنی نماز دین کا ستون ہے۔ اب جو شخص نماز سے درگزر کرتا ہے اس نے ابتدائے اسلام سے لے کر ایک بہت بڑے حصے سے روگردانی کی اور اتنی اہم چیز کو اپنے ہاتھ سے کھودیا۔ نہ اوامر میں کامل رہا، نہ منہیات سے بچ سکا اور اسلام کی روح سے بیگانہ رہا۔

نماز اندرونی بیرونی نجاست کو دور کرنے والی ہے، روح کو تقویت دینے والی ہے۔ کئی لوگ نماز کو صرف باطن کا نام دے کر دستبردار ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زبانی یا خیال سے خدا کو یاد کرنے کا نام نماز ہے حالانکہ نماز ایک وجود رکھتی ہے۔ اس کی اپنی ایک حد ہے۔ تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک کا نام نماز ہے جس میں قیام، رکوع، سجود، جلسہ، قومہ، قعدہ سب چیزیں موجود ہیں۔ ایک نماز کا جسم ہے دوسری نماز کی روح ہے۔ نہ جسم روح کے بغیر مکمل ہے نہ روح جسم کے بغیر۔ دونوں کا کامل اتحاد ہی مکمل نماز ہے۔ کامل نماز تب ہی ہو سکتی ہے جب اس ظاہری فرض نماز میں خیال سے ذکر و فکر، روحانی، جسمانی طور پر سب چیزیں باری تعالیٰ کے ساتھ منسلک ہوں۔ صرف ظاہری صرف باطنی نماز کے علم برداروں کو جاننا چاھیئے کہ ہر دو صرف صورت میں الجھے ہوئے ہیں۔ دونوں معنی سے دور ہیں۔ نماز ذکر سے مل کر معنی کی نماز بن جاتی ہے۔ اور جو ذکر نماز کے اندر ہو وہ معنی کا ذکر ہے۔ اگر نماز میں کسی ایک چیز کی بھی کوتاہی ہوگی تو نماز کامل نہیں۔ ظاہری اور باطنی نماز اسی کا نام ہے۔ وہ نماز کیوں نہ کامل و اکمل ہو جو با وضو ہوکر، پاک جگہ پر، قبلہ رو ہو کر، قیام و رکوع و سجود میں پڑھی جائے اور ساتھ ہی ساتھ خدا کی یاد سے نمازی کا دل بھی آباد ہو۔ باطن اور ظاہر کی اکٹھی نماز پڑھے۔

جو لوگ دل میں خدا کی یاد ہی کو کامل نماز سمجھتے ہیں وہ حقیقی نماز کے فیوض و برکات سے بے بہرہ ہیں۔ یہی ذکر فکر اگر نماز کے اندر پایا جائے تو بہتر ہے۔ جب رکوع و سجود والی نماز میں روحانی طور پر خدا کو یاد کرے تو یہ کامل نماز ہے۔ اس سے روح تازہ ہوتی ہے اور اپنے اصل یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہی مؤمن کی معراج ہے۔ روحانیت سے ہی نماز شرف قبولیت حاصل کرتی ہے۔


دنیا کا رزق اور عزت کس چیز میں ہے؟

جب مخلوق میں سے کوئی آدمی اپنے خالق حقیقی کی طرف رغبت کرتا ہے اور اس کے نزدیک ہونا چاہتا ہے اس کی محبت میں سرشار ہوجاتا ہے اور اسی کو اپنا روزی دہندہ سمجھتا ہے، تو اب جب کہ اس نے اپنے روزی دہندہ کو پہچان لیا تو باری تعالیٰ اس کو بے حساب رزق عطا فرماتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: { ۔۔۔ وَ اللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ } [البقرة: 212]. جب انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رغبت اور تعلق قائم کرتا ہے، دنیاوی نجاست چھوڑ کر پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اپنی روح کو عبادت سے تقویت دیتا ہے یا ذکر سے قوی کرتا ہے تو روح اپنی اصل یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے:"جو میری طرف ایک بالشت آتا ہے میں اس کی طرف ایک قدم آتا ہوں، جو میری طرف چل کر آتا ہے میں دوڑ کر آتا ہوں، جو دوڑ کر آتا ہے میں اسے خود لینے آتا ہوں اور اسے اپنا محبوب و مقرب بنا لیتا ہوں" جو میرا بن جاتا ہے میں اس کا ہوجاتا ہوں، میری عزت اس کی عزت یا اس کی عزت میری ہوجاتی ہے۔ اس لئے باری تعالیٰ فرماتے ہیں: { ۔۔۔ وَ تُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَ تُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۔۔۔ } [آل عمران: 26]. یعنی جس کو میں چاہتا ہوں عزت دیتا ہوں جسے چاہتا ہوں ذلت دیتا ہوں۔ { ۔۔۔ وَ اللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۔۔۔ } [البقرة: 105]. اللہ تعالیٰ جس کو اپنی رحمت سے مخصوص کرتے ہیں یا نوازتے ہیں اس پر خزانے کھول دیئے جاتے ہیں، رزق بے حساب کر دیا جاتا ہے، عزت دوبالا کر دی جاتی ہے، وقار بڑھا دیا جاتا ہے۔ تمام دنیا اس کی عاشق ہوجاتی ہے اور اس کی نام لیوا بن جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے، 'جو میرا بن جاتا ہے میں آسمانوں اور زمینوں پر اور عالم ارواح میں منادی کروا دیتا ہوں کہ میں نے اس سے محبت کی ہے۔ اے عالم ارواح کے لوگو، اے دنیا والو، اے فرشتو! تم سب اس کو محبوب بناؤ۔' کیوں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اپنی روح کو تقویت دی۔اس نے روح کی غ‍ذائیں حاصل کرکے اپنی روح کو منور کیا۔ جب اس کی روحانیت بڑھ گئی اور نفس مغلوب ہو گیا۔ اس طرح سے کہ اس کا نفس امّارہ سے لوّامہ اور لوّامہ سے مطمئنّہ ہو گیا، اور وہ اللہ سے راضی اور اللہ اس سے راضی ہو گیا اور روحانیت کامل ہو گئی تو دنیا کا رزق و عزت اس کے قدموں میں خود بخود آتا ہے جو کہ منشاء ایزدی ہے۔ یہ رزق اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہے۔

اب اگر یہ دیکھا جائے کہ صرف رزق تو کافروں کے پاس بھی ہے تو یہ باری تعالیٰ کی فیّاضی ہے کہ اپنے اس مُنکر کو، جس کا آخرت میں کچھ بھی حصّہ نہیں، دنیا کی چار روزہ زندگی میں اسے رزق دے دیا۔ یہ کافروں اور منکروں کے لئے باعث رحمت نہیں بلکہ باعث زحمت ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فیّاضی سے جب کافر و منکر بھی استفادہ کرتے ہیں تو اس کے خزانۂ غیب سے کس کے نام لیوا کب محروم رہ سکتے ہیں؟ جیسا کہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

دوستاں را کجا کنی محروم

تو کہ با دشمناں نظر داری

 کسی کی فیّاضی قانون شکنی نہیں ہوا کرتی کیونکہ صحیح الفطرت قوی روحانیت اور محبوبیت والا شخص جس پر باری تعالیٰ اپنے خزانے کھول دیتے ہیں، ایک طرف اس کا رزق و عزّت جو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے دوسری طرف مغضوب الیہ جس پر باری تعالیٰ کا غضب ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جس کو اصل رزق، عزّت اور جنّت سے محروم کر دیا گیا۔ چند دن کی فیّاضی ہمیشہ کی راحت اور عزّت کے برابر نہیں ہو سکتی تو اصل رزق اور عزّت جو ہے وہ تو روحانیت والے کا ہے۔ بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مجرم جس نے ساری عمر قید میں گزارنا ہے اس کی ایک روزہ عیش و عشرت کی زندگی کو اس شخص کے برابر قرار دے دیا جائے جو روحانیت کی تقویت سے، جو کہ منشائے ایزدی ہے، اللہ کے رزق و فضل کا مستحق بنتا ہے اور تا ابد رزق و عزّت حاصل کرتا ہے۔ کافر اس مجرم کی مانند ہے جس کو ایک دن بعد پھانسی ہوجائے گی اور مؤمن کی مثال ایک سدا بہار درخت کی ہے جو روحانیت کو تقویت دے کر مقبول بارگاہ الہی ہو کر دونوں جہانوں میں اس کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے۔


آدمی کے عروج و زوال کا انحصار کس چیز پر ہے

ہر انسان نفس اور روح سے مرک‍ّب ہے۔ جب نفس غالب آتا ہے تو نفس کے لوازمات اس پر سوار ہو جاتے ہیں، یعنی تمام نفسانی خواہشات کا ارتکاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ نفس کی خواہشات سے ہی بغض، کینہ، حسد، بے حیائی، اسلام سے بے رغبتی، لڑائی، فساد، والدین کی بے ادبی، اسلام اور اس کے شعائر سے نفرت یا بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔ جب نفس سوار ہو جاتا ہے تو شہوت پرستی عام ہوجاتی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ جب شہوت یا غصّہ زور میں آتا ہے تو آدمی کا دماغ مفلوج ہو جاتا ہے۔ جب دماغ ہی مفلوج ہو گیا تو اس کی سوچ بچار، فہم و ادراک سب غلط راستے پر چل پڑتے ہیں۔ تو جس نے بھی نفس پرستی کی اس نے روحانیت کو کمزور کیا، اپنے اصل سے دور ہوا، اپنے آپ پر ظلم کیا، دوزخ کا ایندھن بنا اور اپنے آپ کو ناکارہ بنا لیا۔ باری تعالیٰ اس پر بے روزگاری، بے عزّتی، بے حیائی، بیماری اور طرح طرح کے مصائب مسلّط کردیتے ہیں۔ گویا نفس کا غلبہ اور روحانیت کی کمزوری اس کے زوال کا سبب ہے۔

اب دوسرا جزو روح ہے۔ روح کو روح کی غذا یعنی عبادت، ذکر، نماز، روزہ، حج، زکوة وغیرہ سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جب نفس مغلوب ہوا تو تمام نفسانی خواہشات اور حرکات سے بچ نکلا۔ صرف روح کی غذا باقی رہ گئی، روح قوی سے قوی تر ہوتی چلی گئی اور اپنے اصل کی طرف لوٹنا شروع کیا۔ پاکیزگی، حیاداری، صدق و صفا اور ادب اس کا شعار بنا، اسلامی شعائر کو تقویت حاصل ہوئی جس کے سبب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوئے، روحانیت کامل ہوئی، روحانیت اپنے اصل یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹی۔ اس کی طرف سے مدد حاصل ہوئی، بلند درجات ملے، اس کے زوال کا خاتمہ ہوا اور عروج نصیب ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس سے محبّت کرنے لگے اس طرح اس کو تمام دنیا و عقبی میں سرفرازی ہوئی۔ جب روح خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مستغرق ہوئی تو ان کے تاثر سے تمام بیماریوں سے شفا اور عروج شروع ہو جاتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ روح کی تقویت ہی عروج کا سبب ہے اور روح کی کمزوری زوال کا باعث ہے۔ گویا آدمی کے عروج و زوال کا انحصار روحانیت پر ہے۔

روح کی تقویت سے دل قوی ہو جاتا ہے، دماغ قوی ہو جاتا ہے۔ جس سے اس کی سوچ بچار، فہم و ادراک قوی اور صحیح ہو جاتا ہے۔ اب جب کہ اس کا فہم و ادراک صحیح ہے تو وہ زوال کی طرف نہیں جائے گا بلکہ اس کا عروج لازم و ملزوم ہے۔ ساتھ چونکہ روحانیت وابستہ ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لائے گی اور روحانیت کے کامل ہونے کی وجہ سے عروج اس کا مقدّر بن جائے گا۔ گویا نفس کا غلبہ نیچے زوال کی طرف لے جائے گا اور روح کا غلبہ یا روحانیت اپنے اصل یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لے جائے گا اور عروج اس کا مقدّر بن جاتا ہے۔ اس لئے عروج و زوال کا انحصار روح کی تقویت یا کمزوری پر ہے۔


احکام خداوندی اور روحانیت

آدمی کا انحصار دو چیزوں پر ہے۔ (1)جسم عنصری (2) روح۔ اب دونوں کی تقویت ان کی مناسب غذا پر منحصر ہے۔ جسم عنصری کو عناصر اربعہ کی پیداوار ہی تقویت دے سکتی ہے۔ جس طرح ہم گندم، پھل یا مرغّن غذاؤں سے جسم کو تندرست و توانا کرتے ہیں تو وہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اسی طرح روحانی جسم یا روحانیت کی غذا نورانیت ہے۔ جس طرح جسم عنصری کی غذا اس کے اصل عناصر یعنی عناصر اربعہ کی پیداوار ہے اس طرح روح کی غذا اس کے اصل یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں ہے۔ جیسا کہ باری تعالیٰ نے فرمایا۔ { يَٰأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ۔۔۔ } [البقرة: 21]. 'اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا'۔ گویا جس کی صرف سے روح ہے، اسی کی طرف سے اس کی غذا (عبادت یا احکام خداوندی کی بجا آوری) ہے جو کہ نور ہیں۔ وہی روح کو تقویت دیتے ہیں۔ عبادت یا ذکر، جس سے روحانیت قوی ہوتی ہے، یہ سب احکام خداوندی سے ہے۔ اسی سے پرہیز گاری اور ہدایت نصیب ہوتی ہے جو کہ روح کو تقویت دے کر روح کی اصل یعنی باری تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے جیسا کہ باری تعالیٰ نے فرمایا۔ { ۔۔۔ مَا ءَاتَىٰكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ مَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۔۔۔ } [الحشر: 7]. 'جو چیزیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم لے آئیں ان کو پکڑ لو اور جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمائیں ان کو چھوڑ دو۔' اس سے روح طاقتور بن سکے گی اور اپنے اصل یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ سکے گی اور خدا تک رسائی حاصل کر سکے گی۔ ان ہی احکام خداوندی کو، جن کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم تاکید فرماتے ہیں، شریعت کہتے ہیں۔ اور یہی شریعت خدا تک پہچانے میں معاون ہے۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شریعت یا احکامِ خداوندی روحانیت سے الگ ہیں تو گویا وہ روحانیت کو کمزور کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں نفس تقویت پکڑ جائے گا۔ جب نفس غالب آجائے گا، روح مغلوب ہو جائے گی تو نفس پرستی ہی نفس پرستی رہ جائے گی۔ پس ثابت ہوا کہ شریعت یا احکام خداوندی اور روحانیت لازم و ملزوم ہیں۔ ان کا جدا کرنا باعث ہلاکت اور گمرا ہی ہے۔ روحانیت کی غذا اللہ تعالیٰ کے اوامر ہیں اور انہیں ہی شریعت کہتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ شریعت روحانیت کی غذا ہے۔ جس نے شریعت اختیار کی، اس نے روحانیت کو قوی کیا اور جس نے شریعت سے منہ موڑا، اس نے اپنی روحانیت کو کمزور کیا اور اپنے پروردگار سے منہ موڑا۔ تو گویا روحانیت کی اصل شریعت ہے۔


شیخ سے ہمیں کیا چاہیئے

ہر شخص اپنے زوال سے کنارہ کشی، اجتناب اور برائی سے بچنا چاہتا ہے اور اپنے عروج، عزّت اور وقار کا متمنّی ہوتا ہے۔ چونکہ مریض یہ نہیں جانتا کہ کونسی دوا میری بیماری کا علاج ہے اس لئے وہ کسی حکیم کے پاس جاتا ہے۔ اسی طرح جب آدمی کا نفس غالب، روح بیمار اور مغلوب ہو تو اس کے علاج کے لئے ہمیں کسی روحانی حکیم کے پاس جانا پڑتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔ { ۔۔۔ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ } [النحل:43]. اور { ۔۔۔ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ } [الأنبياء:7]. پس اہل ذکر کے پاس جاؤ جو کچھ تم نہیں جانتے حاصل کرو۔ اب جو باری تعالیٰ نے اہل ذکر کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ذاکر سے ذکر حاصل کرنا مقصود ہے۔ یہی ذکر روحانیت کو تقویت اور دل کو اطمینان بخشنے والی چیز ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے { ۔۔۔ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ } [الرعد: 28]. 'خبردار اللہ کے ذکر سے قلب اطمینان میں آتا ہے یعنی قلب مطمئن ہو کر روح کو تقویت حاصل ہوجائے گی۔ وہی روحانیت جو کمزور ہو چکی تھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے { خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَ عَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ } [البقرة: 7]. یعنی باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ایمان لانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ ان کو کہنا یا نہ کہنا برابر ہے کیونکہ ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے، ان کی سماعت پر مہر لگادی گئی ہے، ان کی بصارت پر مہر لگادی گئی ہے، ان پر موٹے پردے چڑھا دیئے گئے ہیں اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔

شان نزول:

جن آدمیوں کے متعلق مندرجہ بالا ارشاد گرامی ہے، ابو جہل، ابو لہب وغیرہ، ہر آدمی جانتا ہے کہ ان کی آنکھ، کان، زبان سب صحیح حالت میں تھے۔ وہ سنتے بھی تھے، دیکھتے بھی تھے، باتیں بھی کرتے تھے۔ لیکن باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ باطنی کان، آنکھ اور زبان اور ہے جو سر بمہر کر دی گئی تھی۔ جن کے باطنی کان، آنکھ، زبان بند ہوجائیں ان کے متعلق باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ توحید و رسالت کا صحیح فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ ذرا ہم بھی اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ کیا ہمارے کان، آنکھ اور زبان وغیرہ صحیح ہیں یا ہم بھی ان ہی کے ساتھ ہیں۔ اگر ہمارے یہ حواس کھلے نہیں ہیں تو دنیا میں ہر آدمی کا اوّلین فریضہ یہ ہے کہ ان کو کھولنے کی کوشش کرے۔ یہی ہمیں پیر سے درکار ہے تاکہ ہماری باطنی سماعت، بصارت اور گویائی وغیرہ صحیح ہوجائیں۔

اس سماعت اور بصارت کا ثبوت قرآن پاک اور احادیث میں موجود ہے جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے غلام آصف بن برخیا اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے ہزاروں میلوں سے بلقیس کا تخت دیکھ سکتے ہیں اور اٹھا کر لا سکتے ہیں۔ یہی وہ بصارت ہے جو ہمیں پیر سے درکار ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کھڑے ہوکر "یا ساریۃ الجبل" کہ کر ساریہ تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ہی گویائی ہمیں پیر سے درکار ہے۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے کئی میلوں سے چیونٹی کی آواز سن لی جو اپنے لشکر کو کہہ رہی تھی { ۔۔۔ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ ۔۔۔ } [النمل: 18]. "اے چیونٹیو! اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر آر ہا ہے۔" حضرت سلیمان علیہ السلام چیونٹی کی آواز سن کر اس کی بات پر ہنس پڑے۔ بس یہی سماعت ہمیں پیر سے درکار ہے۔ اس کا علاج اہل ذکر نے کیا تو معلوم ہوا کہ منشاء ایزدی یہی ہے کہ اللہ والوں کے پاس جاکر ان سے اپنی روحانیت کی مقوّی دوا حاصل کرو۔ یہی شیخ سے حاصل کرنے کا نام پیری مریدی ہے۔

بجائے روحانی مقوّیات کے، روحانیت کو کمزور کرنے والی دوا دینے والا حکیم اگر کامل ہوسکتا ہے تو غیر شرع بزرگ سب کامل ہیں ورنہ روحانیت کو طاقت دینا ہی اصل فریضۂ شیخ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا { كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَ يُزَكِّيكُمْ وَ يُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ } [البقرة: 151]. یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم چار علوم سکھانے کے لئے دنیا میں تشریف لائے ہیں جس میں:-

1. تزکیۂ نفس

2. علم کتاب یعنی قرآن پاک

3. وَالْحِكْمَةَ یعنی علم لدنّی

4. جو کچھ تم نہیں جانتے۔

یہ ہی ورثہ پیرانِ عظام کا ہے۔ ہر مرید کو اپنے پیر سے یہ چاروں علوم درکار ہیں۔ جن میں روحانیت کے مقوّیات یعنی

1. عبادت، ذکر وغیرہ

2. روحانیت کے اسرار

3. روحانیت کے مشاہدات

4. روحانیت کے عروج و ارادت وغیرہ یعنی روحانیت کو کامل کرنا شامل ہے۔

قلب:

یہ ساری چیزیں چونکہ قلب اور روح سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔قلب کا مقام جسم میں جتنا اہم اور ضروری ہے اسی طرح تمام عبادات اور ذکر میں ذکر قلبی ضروری ہے۔

انسان کے جسم میں قلب کی اہمیت:

انسان کی زندگی کا انحصار قلب پر ہے۔ انسان کے دوسرے اعضاء ایک ایک کر کے اگر نہ بھی ہوں یا بیمار ہوں تو انسان کی زندگی ممکنات میں سے ہے۔ لیکن اگر قلب نہ ہو اور باقی تمام جسم صحیح سلامت ہو تو آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔ زندگی کا دار و مدار صرف قلب پر ہے۔ قلب ایک ایسی چیز ہے جب سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے، جب بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے۔ قلب کا سنورنا پرہیزگاری، حق تعالیٰ پر توکّل، اس کی توحید اور اعمال میں اخلاص پیدا کرنے سے ہے۔

قلب گویا پرندہ ہے بدن کے پنجرہ میں، گویا موتی ہے ڈبّے میں، گویا مال ہے صندوق میں۔ پس اعتبار پرندے کا ہے، پنجرہ کا نہیں، اعتبار موتی کا ہے، ڈبّے کا نہیں اور اعتبار مال کا ہے، صندوق کا نہیں۔

اے اللہ! ہمارے اعضاء کو اپنی اطاعت اور قلوب کو اپنی معرفت میں مشغول فرما اور مدّت العمر ساری رات اور سارے دن اسی میں مشغول رکھ اور ہم کو شامل فرما نیکوکار اسلاف کے ساتھ اور ہم کو نصیب فرما جو ان کو نصیب فرمایا تھا اور ہمارا ہوجا جیسے ان کا ہو گیا تھا!

 روح:

یقین کے پاؤں، ایمان کا کامل ہونا، یقین کا قوی ہونا، صدق کے بازؤں پر پر لگ جانا اور قلب کی آنکھیں کھل جانا یہ تب ہی ہوتا ہے جب روح پوری قوّت میں آجاتی ہے۔ جب آدمی یہ سمجھ لیتا ہے کہ آدمی کا دار و مدار صرف روح سے ہی ہے۔

پہلے روح ہی تھا۔ جب جسم میں روح مقیّد نہ تھا تو نہ اس کا باپ نہ ماں، نہ بیٹا نہ بہن، نہ بیوی نہ کوئی رشتہ دار۔ نہ ہی کسی کا بیٹا، بھائی اور رشتہ دار تھا۔ یہ رشتہ داری وغیرہ سب جسم سے وابستہ ہے۔ جب جسم کا لباس اتر جائے گا تو ویسا ہی ہو جائے گاجیسا پہلے تھا، اور کوئی رشتہ دار وغیرہ نہ رہے گا۔ روح اپنے رب کی طرف لوٹے گی۔ اگر قوی ہے تو رب تک پہنچے گی، اگر کمزور ہے تو سزا کی مستحق ہوگی۔ دنیا میں جس نے روح کو قوی کیا اس نے منشاء ایزدی حاصل کیا اور جس نے روح کو کمزور اور نفس کو قوی کیا اس نے خدا کے غصّے کو دعوت دی اور اپنا ٹھکانہ جہنّم بنایا۔

اے اللہ تعالی! ہماری روحوں کو تقویت دے تاکہ تیری جناب تک رسائی حاصل کرسکیں اور جن لوگوں پر تو نے انعام کیا ان کے راستے پر چلا اور دنیا اور آخرت کی تکالیف ہم سے دور فرما۔ صدقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم۔ اپنی محبت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ایسا محو کر کہ ما سوا تیرے کسی کی خبر نہ رہے! آمین، ثمّ آمین!


 ہمارا مشن

اب جبکہ یہ بات ثابت اور طے شدہ ہے کہ دنیا و عقبی کی بھلائی اور کامیابی کا تمام تر انحصار صرف اور صرف روح کی تقویت پر ہے، میں نے ایک بات بڑی شدت سے محسوس کی ہے کہ انسان اگرچہ کہ دینِ فطرت پر تخلیق کیا گیا ہے، نیکی کی رغبت اور برائی سے نفرت اس کے خمیر میں شامل ہے لیکن ہم اکثر اس کے برعکس حالات دیکھتے ہیں کہ انسان نیکی کی رغبت ہوتے ہوئے بھی نیکی کرنے میں سستی اور تساہل سے کام لیتا ہے اور برائی سے بچنے کی شدید خواہش کے باوجود برائی کا ارتکاب کر گزرتا ہے۔ یہ صورتِ حال روح کی کمزوری اور نفس کے غلبے کی علامت ہے۔ جس شخص کی روح قوی اور تندرست ہوگی نماز، روزہ، حج، زكوة اور دیگر اوصاف حمیدہ اور کار ہائے پسندیدہ اس کے لئے آسان ہو جاتے ہیں۔ اور جس شخص کی روح بیمار اور کمزور ہو اس کا نفس سرکش اور غالب ہوتا ہے اور یہی کام اس کے لئے ناگوار، بھاری اور تکلیف دہ بن جاتے ہیں۔ لہٰذه جب تک انسان کی روح قوی اور تندرست نہیں ہوگی اسلامی شعائر و اقدار پر کما حقّہ عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی اس کے ثمرات سے مکمل طور پر بہرہ ور ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں ایک شخص نماز، روزہ وغیرہ اسلامی ارکان کی پابندی بھی کرتا ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ گناہ اور برائی کے ارتکاب سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ایسا شخص روحانی طور پر بیمار ہے۔ اور جس طرح ایک مریض کے لئے مقوّی غذائیں بجائے فائدے کے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اور جب تک مریض مکمل طور پر تندرست نہ ہو جائے مقوّی اور قوّت بخش غذائیں اس کے لئے نفع بخش نہیں ہوتیں، بعینہ اسلامی ارکان جو کہ دراصل روح کی تقویت کے لئے روح کی مقوّی غذا کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے لئے روحانی بیماری میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب تک انسان کے قلب اور روح تندرست نہ ہوں اس کے نماز، روزے اور دیگر اعمال کا فائدہ غیر یقینی ہے۔

ذکر قلبی

روح کی بیماری دور کرنے کے لئے اور احکام شرعی کی مکمل بجا آوری اور ان کے فیوض و برکات اور ثمرات سے پوری طرح بہرہ ور ہونے کے لئے قلبی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جب تک قلب درست نہیں ہوگا روح تندرست نہیں ہوسکتی۔ اور قلب کی درستی کے لئے ذکر کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

ذکر کی بے شمار اقسام موجود ہیں لیکن قلب کی اصلاح قلبی ذکر کے بغیر ممکن نہیں۔ ارشاد باری ہے۔ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (سورة الرعد۔ 28) 'یاد رکھو اللہ کے ذکر سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یعنی قلب کی اصلاح اور نفس کی سرکشی کو دور کرکے نفس مطمئن حاصل کرنے کے لئے جس شئے کی ضرورت ہے وہ قلبی ذکر کے سوا کوئی ذکر نہیں ہوسکتا۔ قرآن پاک میں یہ ارشاد باری کہ { وَ اذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَ خِيفَةً وَ دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ۔۔۔ } [الأعراف: 205]. "اور اپنے رب کو یاد کرو زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے" ذکر قلبی کی تائید کرتا ہے۔ اسلامی ارکان کی بجا آوری میں کوتاہی اور سستی اور ان ارکان کے ثمرات سے پوری طرح مستفید نہ ہونے کی اصل وجہ ذکر قلبی سے روگردانی ہے۔ اسی لئے حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تک قلب ذاکر نہ ہوجائے، سوائے فرائض و سنّت مؤکّدہ کے نفلی عبادات سے گریز کیا جائے۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ نماز، روزہ اور دیگر اسلامی ارکان و اقدار اوّل تو آج اکثر لوگوں کے لئے ان کی بجا آوری ہی مشکل ہے یا اگر کوئی یہ احکامات بجا لاتا ہے تو ان کے فیوض و برکات سے پوری طرح بہرہ مند نہیں ہوپاتا، میں نے اسے اپنا مشن قرار دیا ہے کہ قلبی ذکر سے قلب کی اصلاح کی جائے۔

جب قلبی ذکر سے قلب مطمئن ہوجاتا ہے اور اس کے عوارض ختم ہو جاتے ہیں تو نفس امّارگی کو چھوڑ کر نفس مطمئنّہ بن جاتا ہے۔ اللہ اس سے راضی ہوجاتا ہے اور وہ اللہ سے ہوجاتا ہے۔ تمام اسلامی ارکان و احکامات اس کے لئے سہل اور نفع بخش ہو جاتے ہیں اور برائیاں اس کے لئے روحانی کرب اور اذیّت کا سبب بن جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا ارتکاب دشوار ہوجاتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ میں اسلامی ارکان کو بجا لاؤں اور ان سے محبّت اور انس پیدا ہو جاتا ہے۔

صحبت شیخ

ذکر قلبی کیسے اور کہاں سے حاصل کیا جائے؟ اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورة النحل۔ 43 اور سورة الأنبياء۔ 7) "پس تم اہل ذکر سے سوال کرو جو کچھ تم نہیں جانتے" قلبی ذکر کی تحصیل و تکمیل شیخِ کامل کی صحبت اور تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ قلب کی فوری اصلاح اور نفس کی سرکشی کا مکمل اور فوری علاج شیخِ کامل کے سوا کچھ نہیں۔

شیخِ کامل اپنی قوی روحانیت سے اپنے عقیدت مند کے قلب اور روح میں جلا پیدا کرتا ہے۔ اور اپنے شیخ کی صحبت میں رہتے ہوئے چونکہ اسے اپنے نفس کی حکمرانی کی بجائے اپنے شیخ کی مرضی کا تابع ہونا پڑتا ہے جس سے اس کا نفس سرکشی ختم کرتا جاتا ہے اور روح کی کمزوری اور بیماری کا باعث بننے والے عوامل دم توڑنے لگتے ہیں۔ ایک ماہر طبیب کی طرح شیخِ کامل اپنے پیرو کے حالات کے مطابق اسے جو ذکر تجویز کرے وہی ذکر اس کی قلبی اور روحانی اصلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

درود پاک

ذکر قلبی کی طرف قلب کو راغب کرنے کے لئے اگر کثرت سے درود پاک پڑھا جائے تو انتہائی مفید و مؤثّر ہے۔ اس سے نہ صرف ذکر قلبی آسان ہو جائے گا بلکہ شریعت کے عوامل کو بجا لانا بھی آسان اور باعث فرحت و انبساط ہو جائے گا۔ اور انسان کا جی چاہتا ہے کہ میں قلبی ذکر سیکھوں۔ بہتر یہ ہے کہ شروع میں درود پاک کا ایک لاکھ ورد کیا جائے۔ اس سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجّہ اور شفقت حاصل ہوتی ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجّہ نصیب ہوجائے تو پھر انسان کے لئے راہ راست پر چلنا سہل ہوجاتا ہے۔ درود پاک کی کثرت سے انسان کے گناہ اور خطائیں معاف کر دیئے جاتے ہیں اور قرب الہی میں بلند مقامات نصیب ہوتے ہیں۔ لہٰذه ہمارا مشن اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کے فیوض و برکات سے مکمل طور پر بہرہ ور ہونے کے لئے بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بغیر کوئی عمل اور کوئی نیکی قابل اعتبار نہیں۔

آئیے! کیوں نہ ہم وہ طریقہ اختیار کریں جس سے روح کو غلبہ اور تقویت دینے والے کام آسان ہوجائیں اور نفس اور نفسانی خواہشات مغلوب ہوکر رہ جائیں۔



اجازت نامہ

  1. یہ متن نوری آستانے کی ملکیت ہے۔ اسے یا اس کے کسی حصے کو (بعینہٖ یا تبدیلی اور خورد برد کر کے) تجارتی یا دیگر کسی بھی مادّی مقاصد و مالی منفعت کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی، اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
  2. اس تحریر کو جو پڑھے اور مسلمانوں کے لئے کارآمد جان کر نیک نیتی کے ساتھ اسے یا اس کے کسی باب یا حصے کو صرف اور صرف تبلیغِ اسلام کے لئے چھپوانا چاہے یا اپنی کسی تحریر میں (Verbatim) پیش کرنا چاہے، یا اس کی وربیٹم نقول (جیسے کمپیوٹر کاپی) تیار کرنا چاہے تو اسے اس کی پوری اجازت ہے۔

عددی تجزیہ

Aadad

1460749

Alphabets (Arabic/English/Urdu))

21733

Characters (Excluding Spaces)

23098

Characters (With Spaces)

29540

Dot-free Words (Longest)

اسلامی

الرَّسُولُ

امّارگی

Dotted Words (Most Dots)

فَاتَّبِعُونِي

بخشش

شفقت

Frequent Nouns

نماز

روح

اللہ

Longest Words

ایماندار

علمبردار

الأنبياء

Non-alphabets (Symbols etc.)

7895

Reading Ease

69 %

Reading Time

25 Minutes

Sentences

571

Words (Total)

6487

Words (Unique)

1337

Mar 16, 2022 Aastana-e-Noori


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں