ڈیٹا سے آگے
حصولِ علم کا ذریعہ حواس ہیں۔ اللہ پاک نے انسان کو مختلف حواس سے نوازا ہے جن کے ذریعے وہ علم حاصل کرتا ہے۔ حواسِ خمسہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے اسے کبھی علم، کبھی اطلاع، کبھی خبر اور کبھی ڈیٹا کہتے ہیں۔ ڈیٹا اس علم یا اطلاع یا خبر کو کہا جاتا ہے جسے کسی پراسس سے گزارا جائے۔
ڈیٹا کی اقسام ( ذرائع کے اعتبار سے)
خبر یا ڈیٹا کے حصول کے اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اشیاء کا بلا واسطہ علم حاصل کیا جائے؛ جیسے کوئی منظر دیکھنا یا پرندوں کی چہچہاہٹ سننا یا گلاب کو سونگھنا وغیرہ۔ اس میں آپ خود اپنے حواس کی مدد سے کسی تیسرے شخص کی مدد کے بغیر علم حاصل کرتے ہیں۔ اور اس میں بیرونی دنیا کا علم حاصل ہوتا ہے۔
بلا واسطہ علم کی ایک قسم وہ بھی ہے جو آپ کو آپ ہی کے اندر کے بارے میں بتاتی ہے۔ جیسے بھوک پیاس وغیرہ کا محسوس ہونا۔ میں اس قسم کے ذریعے کو بوجوہ بطنی (باطنی نہیں) حواس کہتا ہوں۔ بطنی حواس آپ کو خود آپ کے بارے میں اطلاع بہم پہنچاتے ہیں۔
علم بالواسطہ ذریعے سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ جیسے کوئی آپ کو آکر اطلاع دے کہ آج چاند کی چودھویں شب ہے۔ اس طریقے کو "افواہ الرجال" بھی کہا جاتا ہے، یعنی لوگوں سے سن کر یا ان کے اشاروں کو دیکھ کر کوئی بات جان لی جائے۔ اسے بالواسطہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں حقیقت (علم / خبر) اور آپ کے درمیان ایک تیسرا فرد آ جاتا ہے۔ چونکہ اس میں تیسرے فرد کی موجودگی ہوتی ہے اس لئے اس کا درجہ بلاواسطہ علم کے بعد ہے کیونکہ علم کی درستگی کا انحصار تیسرے فرد کی راست گوئی پر ہوتا ہے۔ اسی لئے احادیث کی صحت اور چھان پھٹک کیلئے علم الرجال وضع کیا گیا جس میں کم و بیش چھے لاکھ سے زائد افراد کا ڈیٹا جمع کیا گیا ۔ اللہ حدیث پر محنت کرنے والوں کے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔ آمین۔
نوٹ: اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلویؒ فرماتے ہیں کہ خطیب کیلئے علم ہونا ضروری ہے، خواہ اسے افواہ الرجال سے ہی علم حاصل ہوا ہو۔ غیر عالم کو وعظ کہنا حرام ہے۔
انسانی اور مشینی( مصنوعی) ذہانت
ذہانت اپنے پاس موجود ڈیٹا سے نتیجہ نکالنے کو کہتے ہیں۔ فی زمانہ انسان اس لائق ہوگیا ہے کہ اس نے مشینوں کو ڈیٹا کی مدد سے نتیجہ نکالنے کے قابل بنا دیا ہے۔ مشینیں آن کی آن میں بہت بڑے ڈیٹا کو پراسس کر کے نتیجہ نکال کر پیش کردیتی ہیں۔ ایسی ذہانت کو مصنوعی ذہانت کہتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے بہت سارے کام کے نتیجے اخذ کر کے پیش کر دیتی ہے اور اپنے آپ کو سکھاتی رہتی ہے۔ فی الوقت مصنوعی ذہانت چہروں کو پہچاننے، آپ کی پسندیدہ چیزوں کا اندازہ لگانے، سڑکوں پر گاڑیاں دوڑانے اور اپنے آپ کو سکھانے کے قابل ہوگئی ہے۔ گوگل، مائیکروسافٹ اور فیس بک اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ فیس بک آپ کے دوستوں کے چہرے کو پہچان لیتی ہے اور گوگل آپ کو آپ کے من بھاتے پروگرام اور اشتہارات دکھاتا ہے۔ الغرض ایک عام موبائل سے لیکر چائنا کے چینگ ا ی فائیو (چاند کا نیا مشن) تک اسی مصنوعی ذہانت کی کار فرمائی دکھائی دیتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کو کثیر ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جتنا زیادہ ڈیٹا، اتنا ہی درست نتیجہ۔
مشینی مصنوعی ذہانت کی تیز رفتاری
مصنوعی ذہانت اگرچہ انسان کی پیدا کی ہوئی ذہانت ہے لیکن اسے اپنی تیز رفتاری کے باعث ایک فوقیت ضرور حاصل ہے۔ جو ڈیٹا انسان کیلئے لا متناہی ہوتا ہے اسے یہ منٹوں اور گھنٹوں میں کھنگال لیتی ہے اور نتیجہ پیش کر دیتی ہے۔
نادان دوست (مصنوعی ذہانت) کے غیر انسانی نتائج
ڈیٹا کے ذریعے مشینی نتائج حاصل کرنا فائدہ مند تو ضرور ہے لیکن خطرے سے خالی نہیں۔ کئی بار یہ مشینی مصنوعی ذہانت ایسے نتائج پیش کر دیتی ہے جو قطعاً غیر انسانی ہوتے ہیں اور کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں ہوتے۔
جیسے آپ مصنوعی ذہانت کو چند الفاظ (جیسے ستارے، کتے، چمکنا، بھونکنا) دے کر ایک جملہ بنانے کو کہیں تو وہ "ستارے بھونک رہے ہیں اور کتے چمک رہے ہیں" جیسے جملے بنا کر آپ کو دے گی اور اس میں کوئی شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی کیونکہ اردو قواعد کی رو سے یہ جملے ممکن ہیں۔ بس ان میں ایک خرابی ہے کہ یہ ہمارے تجربے اور مشاہدے کے خلاف ہے۔ مصنوعی ذہانت کو آپ کے تجربے اور مشاہدے سے کوئی غرض نہیں، اسے بس دستیاب ڈیٹا سے ایک درست جملہ بنانا ہے۔
اس کی عملی مثال اس وقت سامنے آئی جب امریکہ کی ایک کمپنی نے اپنے ملازمین کیلئے کووڈ ویکسین لگانے کیلئے مصنوعی ذہانت کا ایک الگورتھم استعمال کیا اور اس کی بدولت اپنے ملازمین کا انتخاب کیا۔ اس دوران وہ ملازمین جن کو نہیں چنا گیا تھا وہ وائرس سے اتنے متاثر ہوگئے کہ کمپنی کے مالک کو اپنے ملازمین سے یہ کہہ کر معافی مانگنا پڑی کہ مصنوعی ذہانت نے سب سے پہلے عمر رسیدہ ملازمین کا انتخاب کیا اور ان کو نظر انداز کردیا جو پہلے سے ہی کورونا وائرس کا شکار تھے۔
ڈیٹا اور مشینی ذہانت کی مثال طاقتور لیکن نادان دوست کی مانند ہے جو دوست کے چہرے پر بیٹھی مکھی سے اسے بچانے کیلئے اینٹ سے اسے کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ مکھی تو اڑ جاتی ہے لیکن دوست کے چہرے کا مثلہ ہو جاتا ہے۔
انسانی ڈیٹا کی بیچارگی
مشینیں جو ڈیٹا استعمال کرتی ہیں ان سے کئی نتائج فوری طور پر حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن ساری دنیا کا ڈیٹا انسانی ہوتا ہے اور انسان خطا کا پتلا ہے۔
آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں: فرض کریں کہ ایک مشین میں دنیا بھر کے انسانوں کے کھانا کھانے کا طریقہ (ویڈیوز کی صورت میں) موجود ہے۔ آپ کے پاس موجود مشینی ذہانت اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے یہ بتا سکتی ہے کہ کس ملک میں، کس عمر میں، کس جنس میں، کن مہینوں اور کن ایام میں کیسا (کیسے) کھانا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس تمام تر دنیا کے ڈیٹا کو پرکھنے کے باوجود یہ نہیں بتا سکتی کہ کھانا کھانے کا سب سے بہترین طریقہ کیا ہے۔
جہاں ڈیٹا کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں وجدان (خدائی ہدایت) انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ سب سے بہترین طریقہ اسی کا بتایا ہوا ہے جو سب کا پیدا فرمانے والا ہے۔
اسوۃٌ حسنۃٌ (کامل نمونہ)
قرآنِ پاک میں اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کے طریقے کو کامل نمونہ فرمایا ہے؛
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
ترجمہ: بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔
بیشک ہمارا ایمان ہے کہ آپ ﷺ کا ہر طریقہ، ہر سنت اور ہر ادا، ڈیٹا سے آگے ہے۔ آپ ﷺ کی ہر بات کو خدائی تائید حاصل ہے اور آپ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات میں ہمارے لئے زندگی کا ایک کامل نمونہ موجود ہے۔ اسی لئے تو خدائے رحمان ﷻ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کی شان میں ارشاد فرمایا ہے کہ
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ۞ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ۞
ترجمہ: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔ وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے۔
اقوامِ مغرب کے پاس خطائے کثیر کے پتلے(یعنی انسان) کے جمع کردہ ناقص اور بوگس ڈیٹا کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جس کے پاس وحی کی روشنی اور نورِ خدا، محمدِ مصطفیٰ ﷺ کی ذات کی رہنمائی کا روشن نور موجود ہو اسے کسی اور ڈیٹا سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں؛
اسی لئے تو علامہ اقبال نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
سائنس جانور کی مانند ہے
قرآنِ پاک میں جانوروں کے بارے میں سورت النحل کی ابتداء میں ارشاد ہوتا ہے
وَالْأَنْعَٰمَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَٰفِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَٰلِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: اور چوپائے پیدا کیے ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو۔ اور تمہارا ان میں تجمل (خوبصورتی) ہے جب انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کو چھوڑتے ہو۔ اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ایسے شہر کی طرف کہ اس تک نہ پہنچتے مگر ادھ مرے ہوکر، بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے۔
بیشک یہ اللہ پاک کا احسان ہے کہ اس نے جانوروں کی پیشانی ہمارے قبضے میں کر دی۔ سائنس بھی جانور کی مانند ہے۔ گاڑیاں، ہوائی جہاز اور راکٹ، جانوروں کی طرح، انسانوں کو دور دراز کی ان جگہوں تک لے جاتے ہیں جہاں تک ہمارا پہنچنا ممکن ہی نہ تھا۔
سائنس کی لونڈی کا سپرمائنڈ آقا
سائنس جانور کی مانند ہے اور جانور انسان کے قبضے میں ہی اچھا لگتا ہے۔ جانور ہوتا ہی اس لئے ہے کہ
لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ۞
ترجمہ: کہ تم ان کی پیٹھوں پر ٹھیک بیٹھو پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو جب اس پر ٹھیک بیٹھ لو اور یوں کہو پاکی ہے اسے جس نے اس سواری (جانور، گاڑی یا سائنس) کو ہمارے بس میں کردیا اور یہ ہمارے بوتے (قابو) کی نہ تھی۔
تاہم اس وقت کے بہت سے بےوقوف قسم کے سائنسدان اسے انسان کے قابو سے اتنا باہر نکال چکے ہیں کہ لگتا ہے کہ سائنس کی لونڈی اپنے سپرمائنڈ آقا کو جنم دیا چاہتی ہے۔ مشین کو سیکھنے کے قابل بنا دینا ہزار ہا خطرات کو دعوت دے رہا ہے۔ بے قابو مشین لرننگ کی مثال پاگل ہاتھی کی سی ہے جو مالک کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنی بے پناہ طاقت کے بل بُوتے پر بلاد میں تباہی مچانے لگتا ہے۔
ایسے سائنسدانوں کی مثال اس احمق آدمی کی سی ہے جو اپنے گھر کی چوکیداری اور رکھوالی کرنے والے کتے کو خوب کھلاتا پلاتا رہا تاکہ وہ دشمنوں سے اس کی حفاظت کر سکے، یہاں تک کہ وہ کتا اتنا طاقتور ہو گیا کہ اپنے ہی مالک کو چیر پھاڑ کر چٹ کر گیا۔
ظاہری ڈیٹا کی مدد سے کسی نتیجے تک پہنچنا آسان ضرور ہے لیکن خطا سے پاک نہیں۔ کیونکہ دستیاب ڈیٹا نقائص سے پاک نہیں ہوتا اور اگر یہ نقائص بھرا ڈیٹا کرپٹ ہوجائے تو سب کچھ برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔
وجدان کیا ہے؟
انسان خالقِ کائنات کا ایک حسین راز ہے۔ اس میں وہ کچھ پوشیدہ ہے جو تمام عمرِ کائنات لیکر بھی کھوجتے رہو تو کبھی اس کی کنہ تک نہ پہنچ سکو۔ ؎
تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا رازداں ہوجا، خدا ﷻ کا ترجماں ہوجا
وجدان کی تعریفات مختلف ہیں۔ لیکن میں ان تمام ذرائع سے حصولِ علم کو وجدان کہہ رہا ہوں جو حواسِ خمسہ کے علاوہ ہیں۔ اب آپ چاہیں اسے جو بھی کہیں، اس پوسٹ میں وجدان سے میری مراد وہی علم ہے جو حواسِ خمسہ کی مدد کے بغیر حاصل کیا جائے۔
کیا حواس کے بنا بھی علم حاصل ہوسکتا ہے؟
علم کی مشہور قسم وہی ہے جو پانچ حواس کی مدد سے حاصل ہوتا ہے، لیکن یہ علم کی واحد قسم نہیں بلکہ انسان میں اس ایک اور عامی ذریعے کے علاوہ بھی دیگر ذرائع ہیں جن سے براہِ راست علم حاصل ہو سکتا ہے اور مسلمانوں میں اس کی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں۔
میرے حضرت صاحب قبلۂ عالم حضرت میاں محمد مظہر احسان ڈاہر نقش بندیؒ ارشاد فرماتے تھے (جس کی فقیر عاجزی سے تصدیق کرتا ہے) کہ جب مجھے دعوتِ قبور پر دسترس اور کمال حاصل ہوا تو ساری دنیا کے سائنسدان اور ریسرچ کرنے والے مجھے نہایت احمق اور دیوانے معلوم ہوئے کہ یہ کس قدر احمق ہیں کہ ایک بات کے پیچھے ہی ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور پھر بھی کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جبکہ روح ایک غوطہ لگاتی ہے اور سارا علم ایک آن میں حاصل کر لیتی ہے۔
میں اسے بھی وجدانی علم کہتا ہوں جس کیلئے کسی ڈیٹا کی ضرورت نہیں ہوتی۔ روح کا ایک غوطہ اور بس، آدمی ہزار سائنسدانوں کے علم کا حامل ہو گیا۔
حضرت بابا فرید گنجِ شکرؒ اور نظام الدین اولیاء
ایک بار حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ الہام اور وسوسے میں کیا فرق ہے۔ آپ ؒ جب اپنے پیر و مرشد حضرت بابا فرید گنجِ شکرؒ کے دربار میں حاضر ہوئے تو آپ کی قدم بوسی کے بعد ایک خادم کی طرح اپنے پیر و مرشد کے پاؤں دبانے لگے۔ سردیوں کے دن تھے، نظام الدینؒ کے دل میں خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ بابا جی کو سردی محسوس ہو رہی ہو، میں اپنی چادر بابا فریدؒ کے قدموں پر ڈال دیتا ہوں۔ پھر ایک خیال آیا کہ بابا فرید تو اللہ کے مقرب ولی ہیں، ان کو سردی سے بچنے کیلئے ان دنیاوی چیزوں کی کیا ضرورت؟
بابا فریدؒ نے آنکھیں کھولیں اور مسکرا کر دریافت فرمایا کہ نظام الدین! سمجھ میں آگیا؟ نظام الدین حیران ہوئے اور پوچھا کہ کس بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اسی سوال کے بارے میں جو تجھے یہاں تک لایا ہے کہ الہام اور وسوسے میں کیا فرق ہے۔ نظام الدینؒ نے حیرانی سے عرض کیا کہ ابھی آپ نے کچھ ارشاد ہی کب فرمایا ہے اس بارے میں۔
بابا فرید گنجِ شکرؒ نے فرمایا کہ نظام الدینؒ! اب تک نہیں سمجھے؟ پہلے جو خیال آپ کے دل میں آیا تھا وہ الہام تھا اور بعد میں جو خیال پیدا ہوا وہ وسوسہ تھا۔
سبحان اللہ! کیا مدلل اور عملی انداز میں آپؒ نے انہیں سمجھایا۔ اسی لئے پیرانِ پیر، پیرِ دستگیر، روشن ضمیر، حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ "اللہ اپنے نبیوں کی تربیت اپنے کلام سے اور اپنے ولیوں کی تربیت اپنے الہام سے فرماتا ہے۔" بیشک الہام، اللہ کے ولیوں کیلئے، ایک لازمی اور جانی پہچانی شئے ہے۔ اور جو علم الہام سے حاصل ہوتا ہے وہ ڈیٹا کی حدود و قیود سے بالکل آزاد ہوتا ہے۔ میں اسے بھی وجدان سے تعبیر کرتا ہوں۔
علماء کے دس امتحانی سوالات
یہ واقعہ غالباً اسرار الاولیاء نامی کتاب میں مرقوم ہے۔ اس کتاب میں گیارہ صدیوں کے اہل اللہ کے احوال و واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ میں یاد داشت کی بنا پر تحریر کرتا ہوں:
ہندوستان کے کسی راجہ کی راجدھانی میں ایک فقیر صوفی نے ڈیرہ لگایا اور خلقِ خدا کی خدمت شروع کی تو وزیروں نے بادشاہ کو بہکانا شروع کردیا کہ اس فقیر کے پاس خلقت بہت جمع ہونے لگی ہے اور اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے، یہ فقیر آپ کی بادشاہت کو ختم کر کے اپنی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے۔
بادشاہ نے بچنے کا طریقہ پوچھا تو سازشی وزیروں نے مشورہ دیا کہ فقیروں کے پاس علم نہیں ہوتا، آپ کے دربار میں ایک سے بڑھ کر ایک علم والا موجود ہے۔ ان سے کہیں کہ ایسے دس مشکل ترین سوالات نکال کر لائیں کہ فقیر تو کجا، کوئی علم والا بھی چکرا جائے۔ پھر فقیر کو یہ سوالات پیش کر کے کہا جائے کہ جواب دو۔ اگر وہ نہ دے پائے تو یہ بہانہ کر کے اس کو ملک بدر کردیا جائے کہ ہم اپنے ملک میں جاہل فقیروں کی موجودگی برداشت نہیں کرسکتے۔
بادشاہ نے علم والوں سے دس سوالات کا کہا اور فقیر کو بلا بھیجا۔ فقیر پہبچا تو بادشاہ نے کہا کہ ان علم والوں کے سوالوں کے جواب دو یا ہمارے ملک سے نکل جاؤ۔
فقیر ہر عالم کے سوال کا جواب دیتا رہا۔ لیکن جب دسویں نے سوال پیش کیا تو فقیر حیران ہوا۔ پہلے اس نے دائیں طرف دیکھا، پھر بائیں طرف، پھر سر جھکا لیا۔ ایک ساعت کے بعد اس نے سر اٹھایا اور دسویں عالم سے کہا کہ یہ تیرا سوال ہے اور یہ اس کا جواب ہے۔
بادشاہ فقیر کی حالت کو غور سے مشاہدہ کر رہا تھا، اس نے فقیر سے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ تم نے دس علم والوں کے سوالات کے درست جواب دئیے ہیں، لیکن آخری سوال پر تم نے دربارِ شاہی کے آداب کی رعایت ملحوظِ خاطر نہ رکھی، اس کا جواب دو، ورنہ تمہیں کڑی سزا دی جائے گی۔
فقیر کہنے لگا کہ "بادشاہ سلامت! آپ کے علماء نے جو سوالات مجھ سے کئے وہ انتہائی مشکل تھے۔ لیکن میں نو سوالوں کے جواب جانتا تھا، اس لئے جواب دیتا رہا۔ لیکن دسویں سوال کا جواب میرے علم میں نہیں تھا۔ میں کچھ پریشان ہوا اور میں نے اپنے دائیں کندھے پر متعین فرشتے سے پوچھا کہ کیا تیرے علم میں اس کا جواب ہے؟ اس نے لاعلمی ظاہر کی تو میں نے بائیں طرف کے فرشتے سے یہی سوال معلوم کیا تو اس نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔ تب میں اپنے دل کی طرف متوجہ ہوا۔ میرا دل ایک آن میں عرش پر پہنچا اور اللہ ﷻ کے حضور اس سوال کو رکھ کر عاجزی پیش کی۔ میرا دل عرش سے اس جواب کو لیکر آیا تو میں نے آپ کے عالم کو اس کا جواب دیا۔ یہ وجہ تھی میرے دائیں بائیں دیکھنے اور گردن جھکانے کی۔
بادشاہ نے فقیر کا یہ روحانی مرتبہ اور قدر و منزلت دیکھی تو سچے دل سے اپنے برے ارادے سے تائب ہوا اور سازشی وزیروں پر عتاب کیا اور فقیر کو سچا پاتے ہوئے انعام و اکرام کے ساتھ راجدھانی میں قیام کی اجازت دی۔
صحابۂ کرام اور وجدان
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ منبر پر جمعے کا خطبہ دیتے ہوئے اچانک پکار اٹھتے ہیں کہ اے ساریہ! پہاڑ کو اپنا پشتی بان بنالو، حضرتِ عثمانِ غنیؓ اپنے ایک ملاقاتی زائر سے فرما رہے ہیں کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ ہمارے پاس اس عالم میں آتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں زنا کا اثر موجود ہوتا ہے، ابو بکر صدیقؓ بوقتِ وفات بی بی عائشہ صدیقہؓ سے فرما رہے ہیں کہ میرا ترکہ تمہارے دو بھائیوں اور تمہاری دو بہنوں کا ہے۔ وہ حیران ہوتی ہیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ وہ لڑکی تمہاری سوتیلی ماں حبیبہ بنتِ خارجہ کے پیٹ میں ہے۔
حضرتِ امام جعفر صادقؒ اور ایک دہریہ ملاح
حضرتِ امام جعفر صادقؒ کے پاس ایک دہریہ ملاح آکر مناظرہ کرنے لگا۔ آپ نے کہا کہ کبھی ایسا وقت بھی تجھ پر گزرا کہ جہاں ہر مدد کی امید دم توڑ گئی ہو؟ اس نے کہا ہاں۔ آپؒ نے پوچھا کہ کیا اس وقت بھی تیرے دل میں آس تھی کہ اب بھی کوئی چاہے تو تجھے بچا سکتا ہے؟ اس نے اقرار کیا کہ ہاں۔ آپؒ نے فرمایا کہ وہی خدا کی ہستی ہے۔
ذرا غور فرمائیں؛ ان صحابۂ کرامؓ اور ائمہ عظامؒ کے پاس کوئی ظاہری ذریعہ ایسا نہیں جس سے انہیں یہ اطلاع حاصل ہو رہی ہو۔ تین سو میل دور میدانِ جنگ کی اطلاع، راستے میں کی جانے والی بد نگاہی کی اطلاع، ماں کے پیٹ میں موجود اولاد کی جنس کی اطلاع، دہریئے کی آخری امید کی اطلاع، یہ سب وجدانِ صحیح کے ہی کرشمے ہیں۔ ان صحابۂ کرام کو کسی ڈیٹا کی مدد کی ضرورت نہیں۔
کشف، وجدان، الہام، القاء، فراستِ مؤمنانہ، مکاشفہ، مشاہدہ، رویائے صادقہ، باطنی اطلاعات۔۔۔ میں ان سب کو اپنی اور آپ کی آسانی کیلئے یہاں وجدان سے تعبیر کر رہا ہوں یعنی وہ علم جو حواسِ خمسہ (ظاہری ڈیٹا) کی مدد کے بغیر حاصل ہو۔
وجدان شک سے پاک ہوتا ہے
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں؛
"اگر آپ اولیاء کے مقامات ، وجدان اور اذواق میں غورو فکر کریں مثلاً مقاماتِ شیخ محی الدین ، قطب وقت السید محی الملۃ والدین السید عبدالقادر جیلانی جن کا مبارک قدم ہر ولی کی گردن پر ہے، شیخ سہل بن عبداﷲ تستری، شیخ ابومدین المغربی، شیخ ابویزید بسطامی، سید الطائفہ جنید بغدادی، شیخ ابوبکر شبلی، شیخ عبداﷲ انصاری اور شیخ احمدا لنامقی الجامی وغیرہ تو آپ بالیقین جان لیں گے کہ جو کچھ انھیں الہام کیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کا احتمال و شبہ راہ نہیں پا سکتا بلکہ وہ حق حق حق اور نفس الامر کے مطابق ہوتا ہے، اور اس میں انہیں اس بات کا بھی علم یقینی ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور وہ یہ علمی مقام حضور ﷺ کی مدد و تائید سے پاتے ہیں بغیر واسطہ اور وسیلہ کے نہیں پاتے۔ "
اعلیٰ حضرت اپنے فتاویٰ میں ایک معاملے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ وجدان کا ہے جسے یہ نصیب ہو وہی اس سے آشنا ہوگا تو انکار کی کوئی وجہ نہیں۔
وجدان میں ترقی کیسے ممکن ہے
دل عالمِ امر اور عالمِ خلق کے درمیان ایک عظیم واسطہ ہے۔ اس میں دو کھڑکیاں ہیں۔ ایک عالمِ امر کی طرف کھلتی ہے اور ایک عالمِ خلق (دنیا) کی طرف۔ جو ہمہ وقت دنیا کی طرف متوجہ رہے، اسے کبھی وجدان کی دولت حاصل نہیں ہوسکتی۔ وجدان حاصل کرنا ہے تو دنیا کی طرف سے آنے والی اطلاعات سے کنارہ کشی اختیار کرلو۔ عالمِ امر کا دروازہ خود بخود کھل جائے گا۔ ہر وجود سے منہ موڑ لو تو واجب الوجود کی معرفت حاصل ہوجائے گی۔ اسی لئے حضرتِ شیخ سعدی شیرازیؒ ارشاد فرماتے ہیں؛
لب ببند و چشم بند و گوش بند
گر نہ بینی نورِ حق بر من بخند
دنیا کی طرف سے اپنے ہونٹ، آنکھیں اور کان بند کرلے۔ اگر پھر بھی حق کے نور کی تجلی نہ چمکے تو مجھ پر ہنسنا اور مذاق اڑانا۔
حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ "جو چالیس صُبحیں خالصتاً اللہ ﷻ کیلئے وقف کر دیتا ہے، اللہ اس کے دل میں حکمتوں کے چشمے جاری کر دیتا ہے۔" [ایک حدیث شریف میں چالیس شامیں اور ایک میں چالیس یوم بھی وارد ہوا ہے۔] یہ وجدانی علم کی طرف اشارہ ہے۔ اب اگر کوئی شخص وجدان کا بھی قائل ہو اور وجدانی علوم کے حصول کا فارمولا بھی اسے عطا کیا گیا ہو اور پھر بھی وہ سستی کرے اور مادّی ڈیٹا کے پیچھے ہی بھاگتا پھرے، اس پر افسوس کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔