مُرشد کا فیض

نیوٹن کے مشہور قانونِ تجاذب کی ایک نوری تشریح


مُرشد کا فیض

قربت کا قانون :-

سورج، چاند اور ستارے سب ہی روشن ہیں۔ ستارے کو صرف دوری کی وجہ سے ستارہ کہتے ہیں، ورنہ درحقیقت ایک ستارہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں ہمارے سورج جیسے لاکھوں سورج سما جائیں۔ 

سورج کی روشنی ہماری زمین پر چیزوں کو روشن اور گرم کردیتی ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ لاکھوں سورجوں کی روشنی اور حرارت رکھنے والے کسی ستارے کی روشنی ہمیں محسوس تک نہیں ہوتی؟ اور سورج سے نہ صرف حرارت بلکہ اتنی روشنی پہنچتی ہے کہ اسے نگاہ بھر کے دیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

اس کا جواب ہے کہ روشنی اور اس کی شدت تو ستارے ہی کی زیادہ ہوتی ہے لیکن ہم تک اس کا اثر کم آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام مادی اثرات انورس اسکوائر لاء(قربت کا قانون) کو ہی فالو کرتے ہیں۔

یعنی کسی چیز سے اگر آپ ایک اکائی فاصلے (جیسے ایک میٹر) پر ہوں اور اس کا اثر 100 ہو تو اگر آپ اس سے دور ہو کر دو اکائی فاصلے پر (جیسے 2 میٹر) ہوں تو اس کا اثر آدھا (1/2) نہیں ہوگا بلکہ ایک چوتھائی (1/4) رہ جائے گا جب کہ دیگر متغیرات ایک قیمت پر رکھے جائیں۔ کیوں کہ دو کا مربع چار ہوتا ہے جس کا معکوس چوتھائی (1/4) ہی بنتا ہے۔ اس کو ہی معکوس مربع کا قانون (Inverse Square Law) کہتے ہیں۔ یعنی جیسے جیسے آپ مؤثر سے قربت اختیار کرتے جائیں گے، اس کا اثر قربت کے مربعے کے حساب سے بڑھتا جائے گا۔

 مُرشد کا فیض :

اگرچہ نیوٹن نے یہ فارمولا مادی اجسام کیلئے اخذ کیا تھا لیکن یہ فارمولہ آپ مُرشد سے حصولِ فیض کیلئے بھی کامیابی سے لگا سکتے ہیں۔ اگر بڑے ایم سے مراد مُرشد (فیض دہندہ) کی ذات لی جائے اور چھوٹے ایم سے مرید کی ذات متصور کی جائے، اور ڈی مُرشد اور مرید کی قربت کو ظاہر کرے تو ایف مُرشد کا فیض ہوگا۔

جی کا مستقل

آپ بجا طور پر یہ سوال کرسکتے ہیں کہ پھر جی کا مستقل کہاں گیا؟ جی۔ جی سے مراد مرید کے دل میں اپنے شیخ کی عظمت ہے۔ مرید کے دل میں اپنے شیخ کی جس قدر عظمت ہوگی، اتنا ہی فیض پائے گا۔ یہ ایک مستقل اور معین مقدار ہے جو ایک مرید کیلئے تو مستقل ہوتی ہے لیکن ہر مرید کیلئے اس کی ویلیو الگ ہوتی ہے۔ یہ جی دو جیز کا حاصل ضرب ہوتا ہے۔ یعنی ایک توشیخ کی عظمت ذاتی اور ایک مرید کے دل میں شیخ کی عظمت۔

اس فارمولے میں دائیں جانب چاروں ویری ایبل (جی، ایم، ڈی وغیرہ) حالت ضرب میں ہیں۔ یعنی ان میں سے کوئی ایک بھی صفر ہوا تو فیض بالکل ختم ہو جائے گا۔ قربت ختم تو فیض ختم، یا مرید کے دل میں شیخ کی عظمت ختم تو فیض ختم۔ یا مرید میں اثر پذیری کی صلاحیت ہی نہ ہو تو بھی فیض اس کیلئے ختم ہی ہو جاتا ہے۔

 مُرشد کی قربت :-

 مُرشد کی قربت سے مراد صرف جسمانی طور پر پاس ہونا ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے سے مراد وہ تمام چیزیں ہوتی ہیں جو مرید کو اپنے مُرشد کے دل کے قریب کردیں۔ اگر آپ مُرشد سے جسمانی طور پر دور ہوں لیکن یہ دور ہونا مُرشد کے حکم اور اس کی رضا سے ہو تو درحقیقت یہ بھی قرب ہے۔ اگر یہ قرب نہ ہوتا اور صرف جسمانی قرب ہی قرب ہوتا تو کوئی صحابی کبھی مدینے سے باہر جانے کا سوچتا بھی نہیں۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ نے جب یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان سے دریافت کیا کہ معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں قرآن پاک سے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہاں نہ پایا تو؟ انہوں نے عرض کی کہ پھر آپ ﷺ کی سنت اور حیات طیبہ سے۔ آپ نے دریافت کیا وہاں نہ پاؤ تو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ، ایسی صورت میں پھر میں (اللہ اور اس کے رسول نے جو عقل سکھائی ہے اس) عقل سے فیصلہ کروں گا۔ آپ ﷺ خوش ہوئے اور دستار باندھ کر انہیں یمن کی طرف روانہ کیا۔

یہ دیکھیں، آپ مدینہ سے یمن جا رہے ہیں، بظاہر مدینے پاک سے جسمانی دوری ہورہی ہے لیکن اللہ کے رسول کا فرمان ہے اور اسی میں ان کی رضا ہے، اس لئے یہ دوری حقیقت میں قرب ہے۔ اور اگر جسمانی قرب تو ہو لیکن ایمانی قرب نہ ہو تو یہ قرب بھی دوری ہی ہے۔ ہاں قرب ایمانی والوں کو جسمانی قرب بھی نصیب ہو تو یہ نور علی نور ہے۔ جیسے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہ سفر حضر میں ہمیشہ سرکار کے ساتھ رہے۔

جس کا سایہ نہیں، اس کا ثانی کہاں؟

شب معراج نبی کریم ﷺ کو مسجد حرام سے مسجد اقصی اور پھر آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ یہ پروردگارِ عالم کا اپنے محبوب سے اظہار محبت تھا۔ اپنے پاس بلا کر آپ کو دولت قرب سے سرفراز فرمایا۔ سبحان اللہ ! کیا قرب تھا جس کی شان یوں بیان کی گئی ہے کہ

فَكَانَ قَابَ قَوْسَینِ أَوْ أَدْنَى

دو کمانوں کو ملا کر ایک ساتھ رکھ دیا جائے تو یہ قاب قوسین ہے۔ یہ قرب کی انتہا ہے ۔ اس سے زیادہ قرب ہم تصور نہیں کرسکتے۔ یہاں فیض کی انتہا ہو جاتی ہے۔ لیکن اللہ پاک نے أَوْ أَدْنَى فرما کر اس بات کا اعلان فرما دیا میرے محبوب کا مجھ سے قرب بے انتہا ہے۔ جہاں تمہاری عقلیں ختم ہوجاتی ہیں میرا محبوب اس سے بھی زیادہ قرب رکھتا ہے۔ اس فیض ربانی کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لمعۂ باطن میں جلوۂ ظاہر گم تھا۔

ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تموّج بحر ھو میں ابھرا

دنا کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھا دیئے تھے

اب پڑھیئے آیت مبارکہ

 قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ یوحَى إِلَی أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ

بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہتے ہوئے ہماری زبان لڑکھڑاتی ہے اورصرف یوحَى إِلَی ہی یاد رہ جاتا ہے۔ ان لوگوں پر افسوس جو اس فارمولے کے ہوتے ہوئے بھی مِثْلُكُمْ کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ آیت تمہیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے، یہ فارمولہ تو خوب سمجھتے ہو۔ ون اپان ڈی اسکوائر کی جگہ اس میں أَوْ أَدْنَى رکھ کر دیکھو۔ ہوش اڑ جائیں گے۔

پیرس کو جانے والے، پیرس کو بھول جاتا

تو بھی جو دیکھ لیتا، سرکار کا مدینہ

جسمانی اور ایمانی قرب :-

اگر جسمانی قرب تو میسر ہو لیکن ایمانی قرب نہ ہو تو یہ اصل میں دوری ہے جو فیض کو بند کردیتی ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرکار بغداد حضور غوث پاکؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ قبلہ رُو ہونے والے بہت سوں کا منہ قبلے سے پھرا ہوا ہے۔ کعبے کے قریب ہوتے ہوئے بھی کعبے سے دور ہیں۔

 حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا جس کا نام کنعان تھا۔ وہ صدقِ دل سے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا، بلکہ وہ منافق تھا۔ اور اپنے کفر کو چھپائے رکھتا تھا۔ لیکن طوفان کے وقت اس نے اپنے کفر کو ظاہر کردیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی پر سوار ہوتے وقت اس کو بلایا اور فرمایا کہ میرے پیارے بیٹے! تم کشتی پر سوار ہو جاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو تو اس نے کہا کہ میں طوفان میں پہاڑوں پر چڑھ کر پناہ لے لوں گا تو آپ نے بڑی دل سوزی کے ساتھ فرمایا کہ بیٹا! آج خدا کے عذاب سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا۔ ہاں جس پر خداوند کریم اپنا رحم فرمائے بس وہی بچ سکتا ہے۔ باپ بیٹے میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک زور دار موج آئی اور کنعان غرق ہو گیا۔

 اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ کنعان ایک بلند پہاڑ پر چڑھ کر ایک غار میں چھپ گیا اور غار کے تمام سوراخوں کو بند کرلیا مگر جب طوفان کی موج اس پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرائی تو غار میں پانی بھر گیا ۔اس طرح کنعان اپنے بول و براز میں لت پت ہو کر غرق ہو گیا۔

دیکھا آپ نے؟ ساری زندگی بظاہر ایک ہی گھر میں ہر وقت ساتھ رہنے والا بیٹا ایمانی قربت نہ ہونے کی وجہ سے دور ہی رہا۔ اسی لئے نوح علیہ السلام کی کشتی میں، جہاں سارے جانوروں جیسے گدھے، خچر، کتے وغیرہ کیلئے جگہ تو موجود تھی لیکن وہاں کنعان کیلئے کوئی نرم گوشہ موجود نہ تھا۔

ایک طرف کنعان تھا اور دوسری طرف وہ بوڑھی عورت تھی جسے کشتی میں سوار ہونے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ طوفان آیا اور گزر بھی گیا۔ جس کے تنور سے طوفان ابلا، اسی کو اس طوفان کی خبر نہ ہو سکی۔ کیسا قرب تھا اس مائی کا۔ اے کاش ہمیں بھی اس بوڑھی عورت کا سا ایمان نصیب ہوجائے۔

شاید ایسی ہی بوڑھی عورتیں ہیں جن کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ

علیکم بدین العجائز

یعنی بوڑھی عورتوں کا سا دین اختیار کرو

صحبت (قریب ہونے) کا فیض :-

گِلے خوشبوئے در حمام روزے

رسید از دستِ محبوب بدستم

بدو گفتم که مشکی یا عبیری

کہ از بوئے دلاویز تو مستم

بگفتا من گلے نا چیز بُودم

ولیکن مُدّتے با گل نشِستم

 یعنی ایک روز خوشبو والی مٹی حمام میں مجھے ایک دوست کے ہاتھوں سے ملی میں نے اس مٹی سے کہا کہ تو مُشک ہے یا عنبر ! کہ تیری دلکش خوشبو نے مجھے مست و بے خود کردیا ہے (یہ سن کر مٹی نے کہا) میں تو حقیر مٹی تھی لیکن ایک مُدّت تک میں پھولوں کی صحبت میں رہی پس ہمنشیں کے جمال نے مجھ میں اثر کیا کہ میں خوشبودار ہوگئی ورنہ میں تو وہی خاک ومٹی ہوں جو پہلے تھی۔

واقعی پھولوں کی صحبت تل کا رنگ بدل دیتی ہے اور ولیوں کی صحبت دل کا رنگ بدل دیتی ہے؛

یک زمانہ صحبت با اولیاء

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

 رسول اللہ ﷺ کا فیض ایک ایسی دولت جاودانی تھا جس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہر قسم کے دنیوی مال و متاع کو قربان کر دیتے تھے۔

 ایک بار آپ ﷺ نے حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں تمہیں ایک مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں، خداعزوجل مال غنیمت دے گا تو تم کو معتدبہ حصہ دوں گا۔بولے ،یا رسول اللہ ! میں مال کے لئے مسلمان نہیں ہوا ۔میں صرف اس لئے اسلام لایا ہوں کہ آپ ﷺ کا فیض صحبت حاصل ہو۔

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی قدر دور مقام عالیہ میں رہتے تھے اس لئے روزانہ آپ ﷺ کےفیض صحبت سے متمتع نہ ہوسکتے تھے۔ تاہم یہ معمول کرلیا تھا کہ ایک روز خود آتے تھے اور دوسرے روز اپنے دینی بھائی حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجتے تھے کہ آپ ﷺ كی تعلیمات و ارشادات سے محروم نہ رہنے پائیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم چونکہ نہایت خلوص و صفائے قلب کے ساتھ آپ ﷺ کےارشاداور ہدایت سے فیض یاب ہونے کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ اس لئے ان پر آپ ﷺ کی صحبت کا اثر شدت سے پڑتا تھا، ایک بار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ'' یا رسول اللہ ﷺ یہ کیا بات ہے کہ جب ہم آپ ﷺ کےپاس ہوتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہو جاتے ہیں ، زہد و آخرت کا خیال غالب ہو جاتا ہے، پھر جب آپ ﷺ کےپاس سے چلے جاتے ہیں اہل و عیال سے ملتے جلتے ہیں اور بچوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ بات باقی نہیں رہتی ۔'' ارشاد ہوا کہ اگر یہی حالت قائم رہتی تو فرشتے خود تمھارے گھروں میں تمھاری زیارت کو آتے۔

سبحان اللہ ! جس کی پاک صحبت کا یہ اثر اور فیض ہو کہ فرشتے اس کے صحابی کی زیارت کو آئیں، خود اس کی پروردگار سے ملاقات کے وقت جبریل اپنے پروں کے جل جانے سے لرزاں نہ ہو تو اور کیا کرے؟

فاصلے اور قرب کا تعلق :-

آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا گیا۔ آپ کی تخلیق قدرت کی خصوصی تخلیق ہے۔ نہ صرف آپ کی، بلکہ آپ کو جہاں اتارا گیا اس زمین کی تخلیق بھی خصوصی ہے۔ آسمان دو دن میں بنایا گیا لیکن زمین اور اس کی قوتوں کی تشکیل چار دن میں ہوئی۔ زمین کو سورج سے فیض لینے والا بنایا تو اسے سورج سے اتنے مناسب قرب پر رکھا گیا کہ سورج سے فیض لے سکے۔ اور اتنے مناسب فاصلے پر رکھا گیا کہ سورج کی تپش سے اسے اور اس کے مکینوں کو نقصان نہ ہو۔

اللہ پاک نے اپنے حبیب کی عظمت اور اس عظیم فیض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیوتَ النَّبِی إِلَّا أَنْ یؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَیرَ نَاظِرِینَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ

اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ۔

 مُرشد سے فیض درکار ہے تو اس سے قربت اختیار کریں۔ اتنا قریب ہوجائیں کہ آپ کو فیض ملنا شروع ہوجائے۔ لیکن پیر و مُرشد سورج کی مانند ہوتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ قریب ہونا نقصان کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ ہمیں کیا معلوم کہ جس پاور ہاؤس سے ہم جڑ رہے ہیں اس میں کتنا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آہستہ آہستہ قریب ہوں۔

قبلۂ عالم میاں محمد مظہر احسان ڈاہر رحمت اللہ علیہ جب بس میں کسی سفر پر جاتے تھے تو ہمیشہ ایک اضافی سیٹ ضرور خریدا کرتے تھے۔ تین کی سیٹ پر ایک طرف آپ بیٹھتے، دوسری طرف کوئی مرید یا عام مسافر اور درمیان والی سیٹ پر کوئی نہ بیٹھتا، وہ خالی رہتی۔ بلا شبہ پاکیزگی میں ان بزرگوں کی مثال قرآن کی طرح ہوتی ہے۔ جو اسے بے وضو چھوئے گا اسے نقصان ہی ہوگا۔

میرے آفس کے ایک محترم ساتھی نے مجھے بتایا کہ انہوں نے خواب دیکھا کہ وہ مجھ سے ملنے ہمارے دفتر (سیکشن) کی طرف آرہے ہیں جسے نئی بلڈنگ میں شفٹ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ جب کاریڈور میں پہنچے تو انہوں نے ہمارے سیکشن کے بیرونی دروازے میں گیارہ ہزار وولٹ دوڑتے پائے۔اس ہائی وولٹیج کی وجہ سے دروازہ خوب روشن ہے اور اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے اور کرنٹ کے جمپ کرنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ قریب آتے آتے ان پر اس کرنٹ کا رعب طاری ہوا اور آنے کے بجائے بائیں طرف مڑ گئے۔

آستانے میں آنے والوں بالخصوص خواتین سے تنبیہاً درخواست گزار ہو ں کہ آستانے میں صرف اسی وقت حاضری دیں جب کہا جائے۔ اسی میں بھلائی ہے۔

مبلغین کیلئے :-

اس فارمولے میں مبلغین کیلئے بھی سامان راحت ہے۔ اگر بڑے ایم سے آپ (مبلغ) مراد ہوں اور چھوٹے ایم سے وہ جسے تبلیغ کی جا رہی ہے۔ اور تبلیغ کے فیض کو ایف سے ظاہر کریں تو یہ فارمولہ کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے۔

عموما لوگ اس مبلغ سے تبلیغ قبول کرتے ہیں جو عمر، مرتبے یا جاہ و منزلت اور صلاحیتوں میں ان سے بڑھ کر ہو۔ لیکن یہ فارمولہ بتاتا ہے کہ اگر کم صلاحیتوں والا مبلغ بھی اپنی تبلیغ کا فیض لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے تو وہ لوگوں سے قریب ہوجائے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ستارے بڑے اور گرم تو بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن ہماری زمین کو سورج کا فیض زیادہ پہنچتا ہے، کیونکہ وہ ستاروں کی بہ نسبت زمین سے زیادہ قریب ہے اس لئے اپنا زیادہ فیض زمین کو ٹرانسفر کر سکتا ہے۔ لوگوں کو تبلیغ کرنا ہے تو ان کے قلوب سے قریب ہوں، انہیں محبت اور پیار دیں اور اپنا وقت ان پر لگائیں۔ ان کے مسائل کو توجہ کے ساتھ سنیں۔ اور حتی المقدور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ پھر دیکھیں آپ کا فیض کیسے لوگوں میں نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ الصُّحْبَةُ تُؤَثِّرُ فِی النَّفْسِ یعنی اچھی صحبت کا دل پر ضرور اثر ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنی صحبت دیں، انہیں خود سے قریب کریں اور خود ان سے قریب ہوں۔ آپ کی اس کاوش کا ان شاء اللہ بہت اچھا اثر آئے گا۔

میں کئی ایسے مبلغین کو جانتا ہوں جو بالکل ان پڑھ تھے لیکن ان کی وجہ سے کئی لوگوں کو ہدایت نصیب ہوگئی۔ اور کیا ہوتا ہے صحبت کا فیض؟

ایک عالم دین سے حضرت قبلۂ عالم نے فرمایا کہ تقریر کرو۔ اس نے کہا کہ حضرت ابھی تو کسی بیان کی تیاری نہیں۔ آپ نے ایک ان پڑھ شخص سے فرمایا کہ تم کچھ بیان کرو۔ اشارہ پاتے ہی وہ دیہاتی اٹھا اور مائیک پر آکر کہنے لگا کہ لوگو۔ لا الہ الا اللہ کلمۂ ایمان ہے۔ اس کا ذکر کیا کرو اور اس کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھا کرو۔ یہ کہا اور بیٹھ گیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ دیہاتی اللہ کے فضل و کرم سے بہترین مبلغ بن گیا۔ کیوں نہ بنتا۔ حضرت صاحب کا حکم مان کر قریب ہوا اور آپ کے فیض کا حقدار ہو گیا۔ اسے کہتے ہیں نو ہیزی ٹیشن (No Hesitation)۔

صحبت بد سے بچیں :

جہاں اچھی قربت اور صحبت کا اچھا اثر آتا ہے، وہیں بری صحبت کا برا اثر بھی آتا ہے۔ بری صحبت سے خود کو بچائیں۔ بری صحبتوں میں ایک بری صحبت انٹرنیٹ کی بھی ہے۔ صرف ضرورت کے وقت اسے استعمال کریں۔ یہ صرف ریسرچ کرنے والوں کے لئے اچھا ہے۔ عام پبلک کو اس کا نفع کم اور نقصان زیادہ ملتا ہے۔ اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ وقت بچانے کے بجائے یہ وقت کو کھاجانا والا بن جاتا ہے۔ جیسے بعض اینٹی وائرس خود وائرس بن جاتے ہیں۔ اور کمپیوٹر کو حد درجہ سست کردیتے ہیں۔ پڑھے لکھے افراد اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

 کمپیوٹر والے افراد ماؤس استعمال کرتے ہیں۔ چوہے (اور کوے) کو حدیث پاک میں فویسق (فاسق کی تصغیر) کہا گیا ہے۔ واقعی یہ ماؤس بھی فاسق ہے۔ جو لوگوں کی زندگیاں کتر ڈالے، وہ فاسق نہیں تو اور کیا ہے۔ اس فاسق اور منحوس چوہے سے جتنا ہو سکے، بچیں۔

ٹچ اسکرین والوں سے کیا کہوں؟ اگر وہ اپنا وقت برباد کرتے ہیں تو وہ تو خود اپنی ہی انگلیوں سے اپنا گوشت نوچ رہے ہیں۔اپنی زندگی برباد کرنے سے بہتر ہے کہ انگلیاں ہی نہ رہیں۔ اللہ سمجھ دے۔ انٹر نیٹ سے دور رہیں اور اگر واقعی ضرورت ہو تو ایک آدھ گھنٹے سے زیادہ ہر گز استعمال نہ کریں۔ نہ صرف انٹرنیٹ بلکہ ہر نقصان دہ چیز سے دور رہیں۔

Google LLC, 1600 Amphitheatre Parkway, Mountain View, CA 94043, USA
You have received this email because noori.aastana@gmail.com shared a document with you from Google Docs.
Logo for Google Docs

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں