مہکتی قبریں (مکمل ناول)

مہکتی قبریں

سید محمد سلیم قادری نقشبندی نوری

فہرست


انتساب:۔        9

چند باتیں        11

ایک جامع تبصرہ        14

عین نوری        14

دل جلا        18

نیل کنول        36

لیلیٰ کا ساگر        50

انوکھی قربانی        66

خون کا بدلہ خون        80

ہاتھوں کی محبت        95

گستاخِ رسول ﷺ کو قتل کرو        115

ہجرت بہت کٹھن        129

آگے آگے دیکھئے ____        145

گرم گرم ____ آہ        157

دیوانے کا عشق        177

زیرے سے ہیرے تک        193

آئی لو یو        216

چوتھی ڈائمنشن        229

قبریں مہکتی ہیں        255

آخری چند باتیں ____ عین ٹینگلمنٹ        264

شماریات        267

سچے تبصرے        271

محبت کی جھلکیاں ____ محمد سلیم قادری        271

شاندار کاوش ____ محمد عابد قادری        271

یہ ناول ضرور پڑھیں ____ محمد صادق قادری        272

تعریف کے لئے الفاظ کی کمی محسوس کر رہا ہوں ____ سید محمد جسیم قادری        273

خوب صورتی اور مہارت ____ مہہ جبین        274

جان توڑ محنت ____ سید وجاہت علی مخدومی ساگر قادری        275

روح کو تسکین ملی ____ محمد عزیر بن عباس        276

اجازت و التماس        279

اجازت نامہ        279

التماس        279

الفاظِ تہنیت        280



مہکتی قبریں

(تاریخی ناول)

سیّد محمد سلیم قادری

میواتی الوری رسول پوری

پاکستان کی گولڈن جوبلی سالگرہ کے موقعے پر پاکستان کے چاہنے والوں کے لیے ایک خوبصورت تحفہ



انتساب

بہت ہی پیاری سی

کامنی سی موہنی سی

اس لڑکی کے نام

جس نے اس تحریر کی کتابت میں دن رات ایک کردیئے

وہ جو اس وقت پیدا ہوئی جس وقت اس کا قلمی نسخہ لکھا جا رہا تھا

ایک لاکھ چھیاسی ہزار روشن حروف کی کتابت کیلئے

ایسی ہی نوری درکار تھی

جس کا راستہ روشنی ہو اور جس کا طریقہ نوری

عین نوری کے نام

بسمل تسمل



نام کتاب: مہکتی قبریں

مصنف: سید محمد سلیم قادری

بارِ اوّل: ۱۲۔ ۲۔ ۱۴۱۷ ھ بمطابق ۲۸ جون ۱۹۹۶

جملہ حقوق محفوظ ہیں

ناول کے تمام کردار فرضی ہیں کسی بھی قسم کی مشابہت اور مطابقت سے مصنف اور پبلشرز قطعی بری الذمہ ہیں۔



چند باتیں

اپنے تمام پڑھنے والوں کو سلام پیش کرنے کی سعادت ایک بار پھر حاصل کر رہا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ پروردگار آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین!

 معزّز قارئین! یہ بات ہم سب خوب جانتے ہیں کہ معاشرے کی طرف سے آنکھ بند کر لینا اور اپنی ہی ڈگر پر آنکھیں موند کر سر جھکائے دوڑتے رہنا دانش مندی سے بعید ہے۔ خصوصاً صاحبِ قلم کا تو یہ اوّلین فرض ہے کہ وہ اپنے قلم کے نشتر سے انسانی کے معاشرے کے ناسور کو کاٹ کر پھینک دے۔ مگر یہ نہایت ہی افسوس ناک حقیقت ہے کہ آج کا صاحبِ قلم بجائے خود ایک ناسور بنتا جا رہا ہے۔

 یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سامنے ہی کا نظارہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ آج کے اکثر صاحبِ قلم عریانیت، فحاشی ، بدیسی ہڑک، دہشت گردی، اور گستاخی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جاسوسی ناول اسلحہ کے فروغ اور قتل اور ڈکیتی کو عام کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور فلموں ڈراموں اور گانے باجوں کا حال تو اس سے بھی بدتر ہے۔ محبت کی آڑ میں 'جسمیت' کا سبق پڑھایا بلکہ ازبر کرایا جا رہا ہے۔

 آہ! محبت کے بارے میں ایک تیرہ چودہ برس کے لڑکے کی گفتگو سن کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ اپنی معشوقہ کا ذکر وہ جس انداز میں کر رہا تھا ، اگر اس کی معشوقہ کی مان سن لیتی تو شاید بلکہ یقیناً خود کشی کر لیتی۔

آہ آہ محبت اور بد کاری کا فرق مٹتا چلا جا رہا ہے، عاشق، عاشق کم اور فاسق زیادہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکیزہ محبت کا تصور ذہنوں سے نکلتا جا رہا ہے۔

کچھ دنوں قبل چند نوجوانوں کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ سسی کی قبر دیکھ کر آئے تھے۔ وہ سسی کے بارے میں جو ریمارکس دے رہے تھے وہ ان کی گندی ذہنیت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ میں نے ان کو ڈانٹا۔ بے شک سسی سچی تھی۔ اس قسم کے کئی واقعات یکے بعد دیگرے سامنے آئے۔ دل خون کے آنسو روتا رہا۔ یہ ناول میرے آنسوؤں کا مجموعہ ہے، خون کے آنسوؤں کا۔

بے شک ایک ناول پورے معاشرے کی سوچ نہیں بدل سکتا ، اس کے لیے تو داستانِ عشق کا مکمل سیلاب چاہیے۔ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ 'جسمیت ' کے بجائے محبت کا جذبہ بیدار کروں۔ لیکن میری یہ آواز ہر ایک کے کان تک نہیں پہنچ سکتی، اس میں ایک اشارہ ہے صاحبانِ قلم کے لیے۔

اے قلم کارو! اے اپنے قلم سے جنسیت کو فروغ دینے والو! تم کب تک معاشرے کی رگوں میں اس عریانیت کا زہر داخل کرتے رہو گے؟ باز آ جاؤ ورنہ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے والوں کے ہاتھ تمہاری طرف بھی اٹھیں گے اس سے پہلے کہ کوئی حادثہ رونما ہو، قوم کو سچائی کی مشعل تھما دو۔

آج اپنی ذمہ داری محسوس کرو ورنہ کل کچھ محسوس کرنے کے قابل بھی نہ رہو گے۔

بہر حال میں امید کرتا ہوں کہ میری آواز سے کوئی متاثر ہو یا نہ ہو اہلِ قلم ضرور ہوں گے۔

لیلیٰ مجنوں کی کہانی کو دہرانے کی ہمت کر رہا ہوں ، مجنوں ہوں۔ دیوانہ، دیوانہ ہوتا ہے، فرزانوں کو کب خاطر میں لاتا ہے؟ میری کہانی میں لیلیٰ بھی ہے، مجنوں بھی اور سچی محبت بھی۔ زندگی قیس سے شروع ہو کر لیلیٰ پر ختم ہو جاتی ہے۔ حسن اور عشق یہ دونوں لفظ ساری کائنات کا خلاصہ ہیں۔

فی امان اللہ

بسمل تسمل

۲۸ جون ۹۶ شب



  1. ایک جامع تبصرہ

  1. عین نوری

تبصرہ

ناول کی کمپیوٹر پر کتابت (کمپوزنگ) کی شروعات اور اس سے میری عین ٹینگل منٹ کا پہلے تذکرہ کرنا چاہتی ہوں۔

  1.  اس ناول کی بارِ اوّل کی تاریخ میری سالگرہ کی تاریخ ہے اور جس ماہ اس ناول کا قلمی نسخہ مکمل ہوا ، کمپیوٹرکتابت کے مکمل ہونے کا مہینہ بھی وہی رہا۔
  2.  جن دنوں فرانس نے ناموسِ آقا  پر حملہ کرنے جیسی حرکت کر کے مسلمانوں کے دل چیرے ، انہی دنوں "گستاخِ رسول کو قتل کرو " کے باب کی کتابت کرہی تھی۔ یہ تمام ابواب میں سب سے بھاری باب تھا۔ اس کی کتابت شروع کرنےکا ارادہ ہی کیا تھا کہ مجھ پر ایک گھبراہٹ طاری ہوگئی ۔
  3.  ٹیچنگ سے کافی عرصے سے دور ہوں لیکن کچھ عرصے بعد مجھے پڑھانے کا اتفاق ہوا ۔ وہ ٹاپک انگلش گرامر کا تھا۔ اتفاقاً وہی ٹاپک کا تذکرہ ناول میں چل رہا تھا۔
  4. لیلیٰ جب بادشاہی مسجد میں تھی تب میرے ٹی وی پر بھی بادشاہی مسجد کی کوئی ڈاکیومنٹری چل رہی تھی۔
  5.  ساگر جب لسّی پی رہا تھا، تب میں بھی لسّی پی رہی تھی ۔
  6.  لیلیٰ کو دو دل جڑے ہوئے لاکٹ کا تحفہ جب ساگر نے دیا ، ویسا ہی لاکٹ میرے گلے میں بھی تھا، پر وہ مجھے کسی ساگر نے نہیں دیا تھا۔

اب آتی ہوں تبصرے کی طرف!

یہ ناول میں نے کوئی چار سے پانچ مرتبہ پڑھ لیا ہے، پر یہ ناول مجھے ہر مرتبہ مجھے میرے حالات کے مطابق کوئی نہ کوئی سبق دیتا رہا۔ خوشی میں شکر کا سبق، مایوسی میں امید کا سبق، نفرت میں محبت کا سبق۔شاہد بھائی سے اس بارے میں بات ہوئی تو انہوں نے اسے کرشماتی ناول کا نام دیا۔

میں ناولز کی شروع سے دلدادہ ہوں، لیکن اتنا جامع اور مکمل ناول میری نظروں سے نہیں گزرا ۔ اس ناول کے ہر باب کو حضرت نے محبّت کے نئے اور منفرد پھول سے سجایا ہے۔ یہ ناول مجموعہ ہے محبت کے پھولوں کا! جسے حضرت نے بڑی محنت سے چنا اور بڑے سلیقے سے سجا کر ایک اچھوتے اور خوبصورت گلدستے کی صورت میں ہم تک پہنچایا، اور یہ پیغام دیا کہ محبّت کرنے والا کسی بھی حال میں ہو، چاہے ہجرت میں ہو یا کہیں مقیم، انتقام کی آگ میں ہو یا دشمن کی چال میں گھرا ہوا، اداس ہو یا بہت خوش، ہجر میں ہو یا وصال میں، وہ محبّت کو کبھی نہیں بھولتا۔ وہ تو بس سراپا محبّت ہوتا ہے۔ بالکل حضرت جیسا!

شروع میں اس ناول کی کتابت میں میرا دل نہیں لگتا تھا؛ عجیب بیزاری چھائی رہتی تھی ____لیلیٰ سے ساگر کی بیزاری جیسی بیزاری۔ پھر جیسے جیسے لیلیٰ کی ساگر سے عین ٹینگل منٹ بڑھی تو میری بھی ناول سے عین ٹینگل منٹ بڑھتی چلی گئی۔ حد تو تب ہوئی جب میں کی بورڈ پر انگلیاں چلاتی تھی تو مجھے لگتا تھا گویا میری انگلیاں لیلیٰ کے پاؤں ہوں جو زینوں پر دوڑ رہی ہو اور انہوں نے بھی لیلیٰ کے قدموں کی طرح نہ رکنے کی قسم کھائی ہو ، لیلیٰ کی تیزی سے مجھ میں تیزی آئی اور میں نے آخر کے چند ابواب کو پچھلے ابواب کے مقابلے میں جلد ہی مکمل کرلیا۔ دل میں یہ خیال آیا اور ساتھ ہنسی بھی کہ اگر اس ناول پر کوئی ڈرامہ یا فلم بنائی جائے تو میں لیلیٰ کا کردار بہت بہترین نبھا سکتی ہوں اور تصور میں خود کو زینوں پر دوڑتا ہوا بھی پایا۔

ناول میں نرگس اور عمران کا کردار گلاب کی طرح مہکتا رہا۔ خاموش سا ۔۔ مگر خوشبو دار۔ محبت اعلانیہ ہو یا خاموش بہت حسین ہوتی ہے۔

مجھے پہلے لگتا تھا کہ ناول کا اختتام گویا بہت جلد بازی میں ہوگیا ہے، ایسے کیسے نواب آیا اور چند ہی لمحوں میں سب کچھ تہس نہس کرگیااور ساگرجیسا ہوشیار بندہ یوں پھنس گیا؟ لیکن اس ناول کے آخری باب کے ذریعے مجھے اس سوال کا جواب ملا کہ " یہ ہجر ہی ہوتا ہے جو محبت کرنے والوں کو زندہ رکھتا ہے۔ یہ ہجر کبھی انہیں مایوس نہیں ہونے دیتا۔ اور جس دن یہ ہجر ختم ہوتا ہے تو بس وصال ہوتا ہے۔ ہجر سے ہجر کا دن ہوتا ہے اور محبوب سے وصال کا دن: ؏

نہ خدائی ملی، پر وصالِ صنم

اور یہ کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے کیوں کہ ابھی وہاں ایک اور ساگر اور لیلیٰ نے آباد ہونا ہے، ممکن ہے وہ ابھی ہجر کے پردے میں ہوں۔ اور شاید آنے والے پچیس پچاس سالوں میں ان کی قبریں وصال کی خوشی سے مہک اٹھیں۔ شعر ؎

تیری جانب ہے بتدریج ترقی میری

میرے ہونے کی ہے معراج تیرا ہوجانا

خاکسار

عین نوری

19 جولائی 21


  1. دل جلا

ساون کا محبت بھرا مہینہ ہو ، ہلکی ہلکی دلوں کو موہ لینے والی پھوار پر رہی ہو اور نسیمِ دیار چل رہی ہو تو ہمارے من چلے دوستوں کو کب قرار آ سکتا تھا۔ رات کو پیراڈائز پوائنٹ کا پروگرام بنا ، صبح روانگی ہوئی یوں ہم کراچی کی مشہور تفریح گاہ پر نازل ہوگئے۔

تفریح اور پھر ساحل سمندر کی تفریح سے ہمیشہ میری جان گھبراتی ہے، مگر دوستوں سے کس کو پناہ ملی ہے جو ہمیں ملتی، میں نے ہر چند کہا "اللہ کے بندو! تم من چلے ، میں دل جلا، تم کھلنڈرے اور میں سنجیدہ، اس معاملے میں میرا اور تمہارا ساتھ مشکل ہے ، کبوتر بہ کبوتر، قاز بہ قاز، کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔" مگر اس غریب کی ایک نہ سنی گئی۔ دھول دھپوں سے انہوں نے مجھے مجبور کر ہی دیا۔

ساحل سمندر کی تفریح ہمیشہ ان لوگوں کے لیے تو نعمتِ غیر مترقبہ ہوتی ہے جو ابنی آنکھوں کو سینکنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس طرح ایسے لوگوں کا دماغ بھی فریش ہو جاتا ہو، لیکن دل جلوں کے لئے یہ منظر کسی سوہان سے کم نہیں ہوتے، زیر جامے میں ملبوس ننگ دھڑنگ لوگ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ شریف بھی یہاں آکر شریر ہو جاتے ہیں۔

پیراڈائز پوائنٹ کی مشہوری کی وجہ وہ چٹانی دیوار ہے جس سے سمندر کی دیوانی موجیں چیختی ہوئی ٹکراتی ہیں۔ چٹانی دیوار سے دیوانی موجوں کا ٹکرانا رائیگاں نہیں گیا۔ ان موجوں نے اس چٹانی دیوار میں ایک شگاف پیدا کردیا۔ رفتہ رفتہ یہ محراب نما شگاف بڑھتا گیا، اور اب یہ شگاف اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ اس میں سے ایک درمیانے سا‏ئز کا ہاتھی بھی گزر سکتا ہے۔ کے ڈی اے نے کسی حادثے کے یا اس قدرتی یادگار کے مٹ جانے کے خدشے کے پیشِ نظر سیمنٹ اور پہاڑی پتھروں سے اس کو مضبوط کردیا ہے تاکہ یہ شگاف بڑھتے بڑھتے دیوار ہی نہ توڑ دے، وہاں جانے والے اس مقام کو سمندر کا دہانہ کہتے ہیں اور سمندر کے دہانے میں اپنی کوئی نہ کوئی یادگار تصویر بنواتے ہیں۔

میں دیر تک اس محراب کے قدرتی حسن میں گم رہا۔ سمندر کی لہریں بڑی دیوار سے ٹکرا کر اچھل رہی تھیں اور موجوں کا کچھ پانی سفید جھاگ بناتا ہوا دہانے کے اندر آ رہا تھا۔ جھاگ والا پانی چٹانی دیوار کی موٹائی پر پھیلتا تو کس قدر حسین لگتا تھا۔

میں دھیمے دھیمے قدموں سے چلتا ہوا دہانے کے اندر جا کھڑا ہوا۔ سمندر کے پانی سے ٹھنڈی ہونے والی چٹان میرے ننگے پیروں کو حد درجہ سکون پہنچا رہی تھی کتنا خوبصورت منظر تھا یہ" واہ میرے پروردگار! تیری بھی ہر آن ایک نئی شان ہے۔" بے اختیار میرے دل کی گھرائیوں سے کلمۂ شکر نکلا۔

میں تھوڑی دیر تک اس روح پرور منظر کا نظارہ کرتا رہا پھر واپسی کے لیے تیار ہوا۔ اسی وقت ایک دیوانی موج چنگھاڑتی ہوئی محراب سے ٹکرائی اور پانی کا ایک زبردست ریلا دہانے سے گزرنے لگا۔ ننھی ننھی بوندوں کی ایک پھوار سی اٹھی اور محراب کی چھت تک کو گیلا کر گئی۔ میں بری طرح لڑکھڑایا۔ اگر چٹان کا ایک پتھر میرے ہاتھ میں نہ آ جاتا تو یقیناً میں پتھروں سے جا ٹکراتا۔ بہرحال اس پھوار کا اتنا اثر تو ہوا کہ میں سر سے پیر تک اچھی طرح بھیگ گیا

"ابری کے بچے! کرکٹ نہیں کھیلو گے کیا ؟ " ندیم نے ہانک لگائی، وہ سب کھیل کے موڈ میں تھے۔

" مجھے تو معاف ہی رکھو" میں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔

"یہ ایسے نہیں مانے گا۔" ایک اور آواز سنائی دی، " دو چار ڈبکیاں دینی ہی پڑیں گی۔" مخدومی کی آواز سنائی دی۔ یہ کلین شیو والے گول مٹول سے چہرے کے مالک کی آواز تھی جسے میری سنجیدگی مضحکہ خیز لگتی تھی۔

" مجھے نہیں کھیلنی کرکٹ ورکٹ" میں نے ایک بار پھر لجاجت سے کہا

" میں کہتا ہوں اسے لائے ہی کیوں تھے؟ یہ ہمارا ہر پروگرام چوپٹ کر دیتا ہے" انجم بھنا گیا۔ یہ درمیانے قد کا ایک لڑکا تھا آنکھوں کے گرد دور کی نظر کا چشمہ تھا۔

" چھوڑو اسے۔ اس دیوانے کی خاطر ہم اپنی تفریح کیوں برباد کریں"، فرید نے کرمیچ کی گیند ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا۔

وہ سب کھیل میں مگن ہوگئے تو میں نے اپنے قدم سیڑھیوں کی طرف بڑھا دئیے۔ یہ سیڑھیاں چٹانی دیوار کے اوپر پہنچاتی تھیں۔ میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا، سرمئی رنگ کے بادلوں نے سارا آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔

سرمئی بادلوں کو دیکھا تو میرے تصور میں دو آنکھیں آ گئیں۔ سرمگیں آنکھیں۔ پھر اس سے پہلے کہ بادل برستے، میری آنکھیں بھر آئیں۔ سرمئی بادلوں سے ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔

میں آہستہ آہستہ زینہ طے کرنے لگا ۔پھوار میرے اندر آگ لگاتی رہی۔ زینہ ختم ہوگیا۔ اب میں اس چٹانی دیوار کے اوپر تھا۔ دیوار کئی فٹ چوڑی تھی۔ دونوں طرف حفاظتی ریلنگ لگی ہوئی تھی۔ کئی سر پھرے نوجوان ریلنگ پر کھڑے ہو کر اپنی بہادری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ رنگ برنگے لباس میں ملبوس لڑکیاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھڑی ہنس رہی تھیں۔ تیز ہوا میں ان کے دوپٹے لہرا رہے تھے۔

میں ان سے دور ہٹ کر ایک جگہ تنہائی دیکھ کر اس طرف بڑھا، ریلنگ پر جھک کر دونوں کہنیاں ٹکا دیں اور اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اپنے ٹھوڑی رکھ کر سمندر کے پار دیکھنے لگا۔

جانے کتنی دیر تک میں سمندر کا نظارہ کرنے میں محو رہا۔ سمندر کو دیکھتے دیکھتے یک بارگی میرا دل بہت شدت سے دھڑکا۔ میں نے حیرانی سے گردن گھما کر دیکھا۔ وہی جوان لڑکے اور لڑکیاں چاروں طرف اڑتے پھر رہے تھے۔

چاروں طرف کوئی خاص بات نہیں تھی مگر دل تھا کہ دھڑکے چلا جا رہا تھا میں نے اپنی نظروں کا احاطہ وسیع کیا، دور پیراڈائز پوائنٹ کے پارکنگ ایریا میں ایک سوزوکی کیری آکر رکی۔ میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ نظریں کیری پر جم گئیں یقیناً اب کوئی انہونی بات ہونے ہی والی تھی۔ اور پھر انہونی ہونی بن گئی۔

کیری کا دروازہ کھلا۔ کوئی لڑکی باہر اتری اس کا دوپٹہ ہوا میں لہرایا۔ میرا دل یک بارگی اس طرح ڈولا جیسے دوپٹے کے ساتھ ہی اڑ جائے گا۔

" کاشی!" میرے زخمی دل نے پکارا۔ ہونٹ بند تھے۔ میرے دل کی پکار سارے بدن میں گونجنے لگی۔

سفید لباس والی لڑکی! اچانک چٹانی دیوار کے سامنے کی طرف مڑی اور اس طرح ریلنگ کی طرف بڑھنے لگی جیسے سچ مچ میرے دل کی پکار سن لی ہو۔ کچھ دیر تک وہ کچھ سوچنے کے انداز میں کھڑی رہی پھر اپنا رخ موڑ لیا۔ ہوا میں اس کا دوپٹہ دونوں کاندھوں کے بیچ میں اس طرح لہرا رہا تھا جیسے واقعی کسی پرستان سے آئی ہوئی پری ہو، سفید پری، جو اڑنے کے لیے پر تول رہی ہو۔

میرا دل جھوم رہا تھا۔ دیوانہ دیوانہ ہوتا ہے۔ اندھے کو آنکھیں مطلوب ہوتی ہیں، دیوانے کو دلبر کا دیدار۔ اور جب دلدار خود ہی چل کر اپنے دیوانے تک آجائے تو اِس دیوانے کا دل خوشی سے کیوں نہ جھومنے لگے۔

سفید پری اپنے لباس کو سنبھالتے ہوئے ہم جولیوں کے جھرمٹ میں ہلکورے لیتی ہوئی زینے کی طرف بڑھنے لگی۔ میں ہٹ کر دیوار کے بالکل آخری سرے پر چلا گیا۔ یہ عشق کی توہین ہوتی ہے کہ محبوب نیچے ہو اور چاہنے والا اوپر۔

سفید پری دیوار پر آگئی۔ اس کی پشت میری طرف تھی، قد کاٹھ میں کاشی ہی تھی۔ پھر اس کی پشت پر ایسی چیز نظر آئی جس کا تعلق نسوانی شرم و حیا سے تھا۔ یک بارگی میرا دل بجھ گیا۔ نہیں نہیں۔ یہ میری کاشی نہیں ہوسکتی۔ یہ میری کاشی نہیں ہوسکتی۔ کبھی نہیں ہوسکتی۔ کبھی نہیں۔ میں اندر سے رو پڑا۔

اس وقت سفید پری نے میری طرف رخ کیا۔ ایک لحظے کیلیے میری نظریں اٹھیں پھر میں نے نگاہیں پھیر لیں۔ سفید پری واقعی پری تھی مگر کاشی نہیں تھی۔ ایسی ہزاروں پریاں میری کاشی پر قربان!

میرا دل بری طرح ٹوٹ گیا۔ سینے میں طوفان اٹھنے لگے۔ آنکھوں میں نمکین آنسو تیرنے لگے۔ میں نے سمندر کی طرف نگاہ کی۔ سمندر بے قرار نظر آیا، بالکل میرے آنسوؤں کی طرح ٹپکنے کے لیے تیار ۔" اے نمکین سمندر ! تو کس مظلوم کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو ہے؟"

کاشی کی محبت سے بھرے ہوئے دل میں اچانک ایک ہوک سی اٹھی۔ جدائی کی ٹیس نے میری ہر رگ کو تڑپا کر رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی میری ہونٹوں سے ایک آواز نکلی اور شعر کے سانچے میں ڈھل گئی۔

دل درد کی شدت سے خوں گشتہ و سی پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے ، ایک وحشی آوارہ

شاعر ہے کہ عاشق ہے، جوگی ہے کہ بنجارا
دروازہ کھلا رکھنا، دروازہ کھلا رکھنا

میں سر جھکائے ، بوجھل قدموں سے چلتا رہا۔ نوجوان آوازے کسنے لگے مگر ان باتوں کا ہوش کسے تھا۔ میں اپنے دل میں کاشی کی تصویر سجائے چلتا رہا۔ پھوار پڑتی رہی۔ میرے سینے کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتی رہی مگر شعلے بدستور بھڑکتے رہے۔ آگ اور پانی کی یہ جنگ میرے لیے نئی نہیں تھی۔ میں زخمی دل سے گنگناتا رہا:

آنکھوں میں تو اک عالم، آنکھوں میں تو دنیا ہے
ہونٹوں پہ مگر مہریں، منہ سے نہیں کہتا ہے

کس چیز کو کھو بیٹھا، کیا ڈھونڈنے نکلا ہے
دروازہ کھلا رکھنا، دروازہ کھلا رکھنا

کچھ لوگ نے ناگواری سے میری طرف دیکھا مگر میں گردو پیش سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ ایک لڑکی کہہ رہی تھی" گانے کا شوق ہے مگر اس کی آواز تو دیکھو، کتنی بھدی اور بے سری ہے۔" لڑکی کا ساتھی کہنے لگا " ایسا مت کہو نیلم اس کی آواز بھدی ضرور ہے مگر اس میں بلا کا درد چھپا ہوا ہے۔" میں نے لڑکے کی طرف دیکھا" درد کا رشتہ چوٹ سے ہوتا ہے برخوردار۔ جیسی چوٹ ویسا درد" میں نے کہا " اور یہ درد تمہاری آواز سے بھی جھلکتا ہے"

"دیکھا۔ میں نہ کہتا تھا۔" لڑکا یکایک پر جوش آواز میں لڑکی سے کچھ کہنے لگا۔ میں نے حسرت سے ان دونوں پر نظر ڈالی" خوش رہو جوان۔" وہ دونوں کتنے خوش قسمت تھے۔ ابھی ان کی محبت کا ابتدائی اسٹیج تھا۔ ابتدائی مرحلے میں خوشیوں کے پھول دِلوں میں کھلتے ہیں۔ اس کے بعد تو آنسو، آہیں اور سسکیاں ہی ملتی ہیں۔

میرے آنسو ٹپکنے لگے، دور سے دیکھنے والا تو اسے پھوار ہی سمجھتا مگر پھواروں کا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے، آنسو گرم۔ میں چلتا رہا، آنسو بہتے رہے:

سینے سے گھٹا اٹھے ، آنکھوں سے جھڑی برسے
ساون کا نہیں بادل ، جو چار گھڑی برسے

برکھا ہے یہ بھادوں کی برسے تو بڑی برسے
دروازہ کھلا رکھنا ، دروازہ کھلا رکھنا

چٹانی دیوار بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ میرے دوست بھی نظروں سے اوجھل ہوگئے تھے اب میں تھا اور پختہ سڑک تھی۔ سڑک کے دونوں طرف اینٹوں کے بنے ہوئے حفاظتی جنگوں میں پھولدار پودے لگائے گئے تھے۔ محبت کرنے والوں نے ان جنگلوں پربھی اپنی یادگاریں بنا ڈالیں تھیں؛ محبت کی یادگاریں؛ پان کا پتہ، جمع کی علامت، اپنے محبوبوں کے نام، ناموں کے مخفف، اور مختلف یادگاریں اور تاریخیں کھدی ہوئی تھیں۔

دیوانہ ایک بار پھر بلک اٹھا۔ میں کونسی تاریخ لکھوں؟ میرے لیے تو ہر ایک دن یادگار تھا۔ ہر پل، ہر لمحہ یادگار تھا، ہر آن یادگار تھی۔ اِن کی محبت سطحی محبت ہے جو انہوں نے دیواروں اور درختوں پر یادگار تاریخیں کھود کر لکھی ہیں۔ میری محبت افلاطونی محبت ہے۔ اپنے محبوب کا نام میں نے اپنے دل پر کھودا ہے۔

پھواریں اب موٹی موٹی بوندوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ میں تھکے ہوئے قدموں سے بڑھ رہا تھا۔ ایک درخت پر ایک شمع کھدی ہوئی دکھائی دی تو یکایک میرے ہونٹ پھر حرکت میں آگئے:

شکوؤں کو اٹھا رکھنا، پلکوں کو بچھا رکھنا
اک شمع دریچے کی ، چوکھٹ پہ جلا رکھنا

مایوس نہ پھر جاؤں، ہاں پاسِ وفا رکھنا

دروازہ کُھلا رکھنا، دروازہ کُھلا رکھنا

پیراڈائز پوائنٹ اب دور رہ گیا تھا۔ اس کی خوبصورت اور پختہ سڑک بھی پیچھے رہ گئی تھی۔ اب میری آنکھوں کے سامنے وسیع و عریض چار دیواری تھی۔ جس کے جنوبی کونے میں ایک گنبد نما استوانی عمارت تھی۔ یہ چار دیواری پوری اسلامی دنیا کے واحد اور اکلوتے ایٹمی پاور پلانٹ کی تھی[1]۔ گنبد نما استوانی(سلنڈریکل) عمارت دراصل ری ایکٹر بلڈنگ تھی۔ ساری عمارت ایک پر اسرار خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔

تفریح کے لیے پیراڈائز پوائنٹ پر آنے والے نوجوانوں کے لیے یہ عمارت ایک معما تھی[2]۔ سمندر کے کنارے کھڑی اِس بلڈنگ کے باہر ایک بورڈ پر یہ جملہ ایک پراسرار سی کیفیت پیدا کرتا تھا۔

"PROHIBITED AREA"

PHOTOGRAPHY IS STRICTLY PROHIBITED

کوئی اسے سمندری نمک حاصل کرنے کا پلانٹ کہتا، کوئی میٹھے پانی کا ری پروسسنگ پلانٹ، کوئی صابن بنانے کا کارخانہ۔ اور جب ری اکٹر بلڈنگ سے ملحقہ ٹربائن ہال کی چمنی سے سفید سفید بھاپ نکلتی تو لوگ کہتے کہ یہ تو سیمنٹ بنانے کی فیکٹری ہے۔ حالانکہ اس روڈ کا نام ہی ری ایکٹر روڈ تھا جو ایک بڑے پتھر کے بورڈ پر لکھا ہوا تھا۔ مگر غور کون کرے؟

لکھا ہے راستے کے شجر پر وہ ایک نام

سب دیکھتے ہیں روز مگر سوچتا ہے کون

عمارت چاہے ایٹمی پاور پلانٹ کی ہو ، چاہے فوجی ہیڈ کوارٹر کی، بنتی انسانوں کے لیے ہی ہے۔ جہاں انسان ہوتے ہیں وہاں زندگی ہوتی ہے اور جہاں زندگی کا وجود ہو وہاں محبت کیوں نہ ہو گی؟ اِسلامی دنیا کے اکلوتے پاور پلانٹ میں بھی محبت نے اپنا قبضہ جمایا ہوا تھا۔ ایٹامک فیول ہینڈلنگ اس پلانٹ کا اہم سیکشن تھا، آصف رضا علوی اس کا ایک اسکل فل کاریگر تھا، اسے کمپیوٹر ڈویژن کی ایک نرگسی آنکھوں والی شہلا سے عشق ہوگیا۔ بہت چرچا ہوا، بہت بدنامی ہوئی، وہ عشق ہی کیا جس کے چرچے نہ ہوں؟ بہت لے دے ہوئی۔ آ خرکار کمپیوٹر ڈویژن اور فیول ہینڈلنگ سیکشن کا الحاق ہوگیا۔ شہلا آصف کی ہوگئی اور آصف شہلا کا۔

میں مردہ دلی سے چلتا رہا۔ آصف اور شہلا کی محبت پیچھے رہ گئی۔ قدم اٹھتے رہے، موٹی بوندیں ،سرسراتی ہوئی ہوا اور پاکستانی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو میرے عشق کے لیے مہمیز بنی ہوئی تھی۔

میں نے سڑک کا راستہ چھوڑ کر کچا راستہ چن لیا۔ دل کو کسی پل قرار نہیں آ رہا تھا۔ میرے قابو میں جو نہیں تھا، قرار کیسے آتا؟ ایک آنکھیں ہی تھیں جو میرے غم میں برابر کی شریک تھیں:

مبتلائے درد عضو ہو کوئی روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

میری ہمدرد آنکھیں روتی رہی۔ ہر آنسو "ہائے میری کاشی " کی صدا لگاتا رہا اور پھر بڑی حسرت سے ٹپک جاتا۔

یکایک میرے قدم جام ہوگئے۔ کہیں سے تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا تھا اور اپنے جِلو میں خوشبو کا تحفہ لایا تھا۔ آہ، یہ کیسی پیاری خوشبو تھی جو میرے سانسوں کے ذریعے میرے دل میں اترتی چلی گئی تھی۔ یہ محبت کی خوشبو ہے۔" میرے دل نے فورا ہی اپنا فتویٰ صادر کردیا، یہ مفتی کبھی جھوٹے اور غلط فتوے نہیں دیتا۔

اُسی وقت دور کہیں بانسری کی آواز سنائی دی۔ لَے اتنی رسیلی تھی کہ میں تڑپ کر رہ گیا۔ یہ بھی کوئی دل جلا معلوم ہو رہا تھا۔ میری طرح۔ جبھی تو بنسری کی دھن پر جدائی کے گیت چھیڑ رکھے تھے۔ میرے قدم خود بہ خود بانسری کی رسیلی آواز کی طرف اٹھنے لگے۔ ایک دِل جلا دوسرے دِل جلے کو کھینچ رہا تھا۔ میں بے خود ہو کر بڑھتا رہا۔ خوشبو میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا اور لَے اب واضح ہوتی جا رہی تھی۔ کتنا درد تھا بانسری کی پکار میں جیسے بجانے والے کا ہر سانس ایک آہ بن گیا ہو۔ میں نے کان لگا دئیے آہ! کیسی پر سوز لَے تھی میں تڑپ کر رہ گیا۔

کاگا سب تن کھائیو، سو چُن کھیو ماس

دو نیناں مت کھائیو، انہیں پیا ملن کی آس

وہ جو کوئی بھی تھا اس کی مایوسی میں آس تھی اور ناامیدی میں امید۔ میں کیچڑ میں بانسری کی آواز کی طرف چلتا رہا۔ بانسری کی آواز ہر لمحہ واضح ہوتی جا رہی تھی۔ خوشبو بڑھ گئی تھی۔ گُلاب اور موتیا کے پھولوں خوشبو۔ میرے تصور میں میری کاشی مسکرانے لگی۔ جس کے بالوں میں گلاب کا گجرا تھا اور ہاتھوں میں موتیا کے کنگن۔

میں چلتے چلتے ایک جھونپڑی تک آگیا۔ پکی اینٹوں سے بنی ایک چار دیواری تھی جِس کے اوپر نرسلوں کا بنا ہوا چھپر پڑا تھا۔ بانسری کی آواز اسی جھونپڑی میں سے آ رہی تھی۔

جھونپڑی میں ایک دو پٹا دروازہ بھی تھا، جس کا ایک پٹ ادھ کُھلا تھا۔ میں اس شش و پنج میں مبتلا تھا کہ دستک دوں یا نہ دوں۔ دل جَلوں کو تصورِ جاناں سے فرصت نہیں ہوتی۔ بلا وجہ کیوں کسی کی لذتِ عشق میں سلام کا پتھر پھینکا جائے۔ یہ دل جلے سلام کرنے پر غضب ناک ہو جاتے ہیں کیوں کہ اس طرح محبوب سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ میں خود دل جَلا تھا۔ دل جَلوں کے آدابِ عشق و محبت سے خوب واقف بھی تھا۔ جو نا واقف ہوتا ہے دشمنی پر اُتر آتا ہے۔ جو واقف ہوتا ہے وہ بے ادبی اور گستاخی نہیں کرتا۔

اسی وقت بانسری خاموش ہوگئی۔" اندر آجا بالک۔ بارش میں کیوں بھیگتا ہے ؟" ایک گھمبیر آواز آئی۔

ادھ کُھلا پٹ پورا کھول کر میں اندر داخل ہوا۔ یہ حیرت کا شدید جذبہ تھا۔ جس نے مجھے گنگ کردیا تھا۔ لکڑی کی ایک چوکی پر ایک نحیف و نزار بوڑھا آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ اتنا ضعیف العمر تھا کہ اس کی بھنویں بھی سفید ہو چکی تھیں۔ چہرے پر ہلکی سی سفید داڑھی تھی۔ بڑھاپے نے اس کی داڑھی کے بال جھاڑ دئیے تھے۔ گال بھی پچک گئے تھے لیکن آنکھوں میں حد درجہ چمک تھی۔ اس کی عمر سو کے لگ بھگ تھی۔ جسم پر کھال اور ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔

"یہ ____ یہ بانسری آپ بجا رہے تھے؟ " میں نے حیرت سے چوکی پر رکھی ہوئی بانسری کی طرف اشارہ کیا۔

" تجھے کوئی شک ہے بالک؟ "

" نہیں۔ لیکن بانسری بجانے کے لیے مضبوط پھیپھڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑھاپے میں سانس پر قابو نہیں رہتا۔ اور گیت بھی محبت کا تھا۔"

بوڑھا پراسرار انداز میں مُسکرایا۔" تو بھی تو محبت کا مارا ہے۔ تیرے جسم میں بھی خون کے بجائے تیری محبوبہ کا عشق دوڑ رہا ہے۔ تیری سرخ آنکھیں اس بات کا اعلان کر رہی ہیں کہ تو اِس کی تلاش میں مارا مارا پھِر رہا ہے۔"

یہ میرے سوال کا جواب ہر گز نہیں تھا لیکن یہی حقیقت تھی۔ میں اندر سے بلک اٹھا۔ ایک لمحے کو تو دِل چاہا کہ اِس بوڑھے کے گلے لگ کر اپنا سار دکھ درد اِس کے گوش گزار کردوں لیکن میں یہ نہ کرسکا۔ صرف اتنا کیا کہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر فرطِ عقیدت سے بوڑھے کے دونوں ہاتھ چُوم لیے۔

" کیا نام ہے؟ " بوڑھا میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔

" کاشی۔ کاشی نام ہے اس کا"

" تو واقعی دیوانہ ہے۔" بوڑھا دھیرے سے مُسکرایا۔" میں نے اُس کا نہیں تیرا نام پوچھا تھا۔"

" اب ری۔ مجھے ابری کہتے ہیں" میں نے وہ نام بتا دیا جِسے میرے دوست پیار میں پکارتے تھے۔

"ابری ____ ساگر، کاشی ____ نیلم۔ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟ " بوڑھا جیسے خود سے بولا۔ میں نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں بوڑھے کی طرف دیکھا۔ وہ کچھ سوچنے میں مگن تھا۔

"اطمینان سے بیٹھ جا بالک۔" بالآخر وہ بولا۔" یقین رکھ کہ تو اپنی منزل کے بہت قریب آن پہنچا ہے۔"

میں اس بوڑھے کے قریب ہی ایک دوسری چوکی پر بیٹھ گیا۔" آپ کا نام کیا ہے محترم بزرگ؟ "

" ناموں میں کیا دھرا ہے" وہ ہنس پرا۔" اپنی کاشی کی باتیں کرو۔ کیا وہ بہت حسین ہے؟"

"حسین؟ وہ حسینوں کی حسین ہے۔ سب سے زیادہ مہ جبین ہے۔ اُس کی یاد میں میرا دِل غمگین ہے"

"آخر وہ کتنی حسین ہے؟ "

" میں نہیں جانتا۔ جب بھی میں نے اس کے حسین سراپا کو الفاظ میں سمونے کی کوشش کی۔ اس کا حسن محدود ہوگیا۔ اِس لیے اب میں اس کے حسن کو الفاظ میں بیان کرنا ترک کر چکا ہوں۔ وہ جیسی ہے بس ویسی ہی ہے۔ اِس سے زیادہ کیا بیان کروں؟ بچپن میں اُسے دیکھا تھا ، اچھی لگی تھی۔ لڑکپن میں دیکھا تو بہت اچھی لگی تھی۔ نوجوانی میں دیکھا تو سیدھی میرے دِل میں اتر گئی۔ اب بھری جوانی میں یہ عالم ہے کہ اس کے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا۔"

" کہاں رہتی ہے؟"

" میرے تصور میں، میری آنکھوں میں، میرے دل میں۔"

" تم بہت دکھی معلوم ہوتے ہو جوان۔ اپنی کہانی کو شروع سے بیان کرو۔ میں بہت دلچسپی محسوس کر رہا ہوں۔" بوڑھا کہنے لگا۔ اِس کے انداز میں بے تابی ٹپک رہی تھی۔

میں نے اپنی ساری زندگی اُس بوڑھے کے سامنے کُھلی کتاب کی طرح کھول دی۔ اپنی کتابِ عشق کے اوراق کو بے تابی سے پلٹتا رہا اور جدائی کی زبان سے داستانِ عشق سناتا رہا۔

بوڑھا ہمہ تن گوش ہوئے سنتا رہا۔ کئی گھنٹے گزر چکے تھے مگر اس کی محویت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ بالآخر جب میں خاموش ہوا تو وہ کہنے لگا" بالک تیری داستان بہت عجیب ہے مگر یہ دنیا ایسی ہزاروں ان گنت داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ جہاں لیلیٰ کا حُسن ہوتا ہے وہاں قیس کا عشق بھی ضرور ہوتا ہے۔ لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، سسی پنوں، ابری کاشی، رومیو جیولیٹ اور نیلم ساگر جیسی ہزاروں کہانیاں اس دھرتی پر جنم لیتی ہیں۔ جِسم فنا ہو جاتے ہیں ، محبت باقی رہ جاتی ہے۔ آ بالک تجھے ایک ایسی ہی چیز دکھاؤں۔ عشق کے مارے کبھی نہیں مرتے، آجا۔"

بوڑھے نے اٹھ کر جھونپڑی کا اندرونی دروازہ کھول دیا۔ خوشبو کا ایک زبردست جھونکا ساری جھونپڑی کو مہکا گیا، کتنی پیاری خوشبو تھی۔

بوڑھا دروازے میں سے گزر گیا۔ میں بھی اُس کے پیچھے پیچھے گیا۔ دروازے میں قدم رکھتے ہی میرے بے قرار دل کو قرار آگیا۔ دل میں ٹھنڈ پڑ گئی۔ جانے کیوں مجھے ایس محسوس ہوا جیسے میری کاشی میرے سینے سے آ لگی ہو۔

یہ بھی ایک چار دیواری تھی۔ ایک کونے میں دو قبریں بالکل برابر برابر بنی ہوئی تھیں۔ قبروں پر پھولوں کی چادریں پڑی تھیں۔ وہ خوشبو انہی پھولوں میں سے آ رہی تھی؛ خدا گواہ ہے کہ میں نے اتنی مسحور کُن خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پھول جنت سے لائے گئے ہوں۔ ہمیشہ مہکتے رہنے والے پھول۔

مہکتی ہوئی ان دو قبروں کے علاوہ چار دیواری میں اور کچھ نہیں تھا۔ باقی جگہ خالی پڑی ہوئی تھی۔

بوڑھا خالی جگہ میں بیٹھ گیا۔ اُس کا رُخ ان قبروں کی طرف تھا۔ مہکتی قبریں مہکتی رہیں، بوڑھا جانے کس سوچ میں گُم تھا۔ کافی دیر بعد اُس نے سر اٹھایا۔

بوڑھا کہنے لگا" بیٹھ جا بالک۔ یہ سکون کی جگہ ہے۔ یہاں بے چینی کا گزر نہیں ہوتا۔ بیٹھا جا"

 وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ میں خاموشی سے اُس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

" یہ کِن کی قبریں ہیں بابا۔" میں نے سوال کیا۔" کیا اِن کے پیچھے کوئی داستان ہے؟ "

" ہاں۔" بوڑھا پراسرار انداز میں مُسکرایا ، " یہ داستان میں تمہیں ضرور سناؤں گا۔ چاہے تم چاہو یا نہ چاہو۔ مگر تم تو خود ہی سننے کی فرمائش کرنے والے تھے"

میں نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ بوڑھا پھر مُسکرایا اور پھر وہ ایک داستانِ طلسم ہوشرُبا سنانے لگا:


  1. نیل کنول

یہ داستان آج سے کوئی سو برس پہلے شروع ہوتی ہے۔ اس زمانے میں بر عظیم پاک و ہند کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور کشمیر اس وقت ایک ہی مملکت کے حصے تھے۔ یہ سب انڈیا تھا اور انڈیا پر گوروں کی حکومت کا چراغ تھرتھرا رہا تھا۔ جس طرح بجھتا ہوا چراغ بجھنے سے پہلے خوب بھڑکتا ہے، اسی طرح ہندوستان بھی بھڑک رہا تھا۔

دوسرے صوبوں کی طرح ایک صوبہ میوات بھی تھا۔ میوات میں کئی ریاستیں تھیں۔ ایسی ہی ایک ریاست 'الور' بھی تھی۔ اب تو اَلور ایک عظیم الشان شہر بن چکا ہے۔ اسی اَلور کے مضافات میں ایک پرسکون بستی تھی۔ اِس پُر سکون بستی کا نام " رسول پور" تھا۔

میں ایک دم چونک کر بوڑھے کو دیکھنے لگا۔ چونکنے کی وجہ یہ تھی کہ خود میرا تعلق بھی اسی بستی سے تھا۔ میرے آباؤ اجداد رسول پور کے تھے اور اسی کی نسبت سے میں اپنے آپ کو کبھی میواتی لکھتا، کبھی الوری اور کبھی اس بستی کے حوالے سے رسول پوری۔ پاکستان میں ہمارا خاندان "رسول پَریا" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

بوڑھا اپنی دھن میں کہتا رہا۔ رسول پُور کا نام سنتے ہی میری توجہ بڑھ گئی تھی اس لئے میں ہمہ تن گوش بن کر سنتا رہا۔ بوڑھا یادوں میں گم لہجے میں کہہ رہا تھا۔

رسول پور کتنی پرسکون بستی ہے اس کا تم اندازہ نہیں لگا سکتے۔ (حالانکہ میں اندازہ لگا سکتا تھا، آخر کو میں خود رسول پوری تھا) وہاں سیدوں کے کئی گھرانے آباد تھے۔ لوگوں کا رجحان مذہبی تھا اِس وجہ سے سادات کرام کی وہاں کافی عزت تھی، لوگ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ اور جس سے جو خدمت ہوسکتی تھی بجا لاتا تھا۔

رسول پور میں کچے اور پکے ہر قسم کے مکانات تھے۔ وسطی بستی میں ایک حویلی بھی تھی۔ چھوٹی سڑکیں نا پختہ تھیں۔ ایک بڑی سڑک تھی جو لال اینٹوں سے بنائی گئی تھی۔

لال حویلی میں ایک پڑھا لکھا خاندان آباد تھا۔ عقیل اسی خاندان کا ایک فرد تھا۔ وہ کُل چھے بھائی تھے اور ایک بہن۔ عقیل بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ سب سے آخری نمبر نجمہ کا تھا جو ابھی چلنا سیکھ رہی تھی۔ عقیل کی والدہ ایک سال قبل ٹی بی کے مرض میں اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں۔ بوڑھا باپ بھی اکثر کھانستا رہتا تھا جیسے وہ خود بھی بیوی کے مرض میں مبتلا ہوگیا ہو۔

وقت گزرتا رہا۔ دن ہفتوں میں ، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔ بستی میں تبدیلیاں آتی رہیں۔

بہار کا مہینہ اپنے جوبن پر تھا۔ ہر طرف پھول کھل رہے تھے، کلیاں مسکرا رہی تھیں اور باغوں میں کوئلیں کوک رہی تھیں۔ ایسے ہی ایک لہلہاتے ہوئے دن میں بستی میں ایک سفید کار آئی۔ کچھ بچے حیرت سے کار کو دیکھنے لگے۔ کار دوڑتی رہی اور پھر لال حویلی کے موڑ پر ایک بچے نے سڑک پار کرنے کی کوشش کی تو کار والا بوکھلا گیا۔ اُس نے تیزی سے بریک لگائے مگر دیر ہو چکی تھی۔ بچے کے دونوں ہاتھ کار کے بونٹ پر پڑے اور بچہ گر گیا ۔ سفید کار پر دو ہاتھ چَھپ گئے۔ چکنی مٹی سے بھرے ہوئے ہاتھ کار پر اپنی نشانی چھوڑ گئے۔ سفید کار رک گئی۔

"چوٹ تو نہیں آئی؟" کار کا مالک آکر پوچھنے لگا۔ وہ بچہ بھی لال حویلی کا ایک فرد تھا، خود دار اور با ہمت۔ اس نے اپنی ساری قوت کو مجتمع کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی وقت اس کی نظر کار کے اندر جا پڑی۔ کسی بچی کے بال لہراتے نظر آئے۔ بچی کی آنکھوں سے ہمدردی جھلک رہی تھی۔

" اَماں شہزادے، کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟" کار والے نے دوبارہ سوال کیا۔

بچے کی نظر ایک بار پھر کار میں بیٹھی ہوئی بچی کی طرف اٹھی۔ وہ اُسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسی وقت بچے کے سینے میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنی آہ کو روکا اور حویلی کی طرف دوڑ لگا دی دوڑ لگاتے وقت وہ غالباً یہ بُھول گیا تھا کہ وہ سفید کار کے بونٹ پر اپنے ہاتھوں کی نشانی چھوڑ آیا ہے۔


" ابو جی ، آپ کو ہاتھ دیکھنا آتا ہے ناں؟" سات سالہ نیلم اپنے باپ سے سوال کر رہی تھی۔

"بالکل آتا ہے بیٹی۔ کیا کسی سہیلی نے فرمائش کی ہے؟" نیلم کے والد صاحب مسکرائے۔ نیلم کے والد کی پرسنالٹی بہت خوب تھی۔ اَلور کے مشہور بزنس مین تھے۔ نہایت ہنس مکھ۔ فخریہ کہا کرتے تھے ہم شہنشاہِ جلال الدین اکبر کی اولاد ہیں۔ شاید یہ بات حقیقت تھی کیوں کہ ان کی شخصیت سے بھی شاہانہ انداز جھلکتا تھا۔

نیلم نے ایک کاغذ اپنے والد صاحب کے سامنے کردیا۔ کاغذ پر دو ہاتھ چھپے ہوئے تھے جن میں لکیریں واضح طور پر نظر آر ہی تھیں۔ ہاتھوں کی بناوٹ سے یہ صاف اندازہ ہوتا تھا کہ ہاتھ کسی بچے کے ہیں۔

"یہ ہاتھ کس کے ہیں بیٹی؟" انہوں نے حیرانی سے نیلم کی طرف دیکھا کیوں کہ کاغذ پر روشنائی کی مدد سے نہیں بلکہ چکنی مٹی کی مدد سے ہاتھ چھاپے گئے تھے۔

 "یہ میں نے آپ کی کار پر سے اتارے ہیں۔ مٹی سوکھ گئی تھی اس لئے میں نے اسے پھر دوبارہ نم کیا تھا۔"

" مگر وہ تو ملازم نے اسی دن صاف کر دئیے تھے۔"

" یہ صاف کرنے سے پہلے کی بات ہے۔" وہ بھولپن سے بولی۔

" اچھا ادھر لاؤ۔ والد صاحب نے کاغذ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ ہاتھوں کی بناوٹ ایسی عمدہ تھی کہ وہ دیکھتے رہ گئے۔ چار لکیریں نہایت واضح تھیں۔ سب سے اوپری لکیر کافی گہری اور موٹی تھی۔ اس کے نیچے ایک اور لکیر تھی جو پہلی سے کم لمبی تھی مگر پہلی والی کہ تقریباً متوازی تھی۔ انگوٹھے کے پاس والی بڑی لکیر کچھ شکستہ تھی۔ اس کے علاوہ ایک درمیانی لکیر تھی جو ہتھیلی کے کلائی کی طرف والے حصے سے شروع ہو کر انگوٹھے والی لکیر کو کاٹتی ہوئی اوپر کی طرف جا رہی تھی۔ یہ ایک عجیب ہاتھ تھا۔

وہ دیر تک اس ہاتھ کو دیکھتے رہے۔ چوتھی لکیر نے ان کو حیرت میں ڈال دیا۔ کیوں کہ یہ ان کا بیالیس سالہ مشاہدہ تھا کہ یہ لکیر بچوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتی۔ مگر آج ان کا مشاہدہ غلط ثابت ہو رہا تھا۔

"یہ ایک غیر معمولی ہاتھ ہے بیٹے۔" بالآخر انہوں نے ایک طویل سانس لی۔ وہ اپنی بیٹیوں کو کبھی " بیٹا" بھی کہتے تھے۔" ایسے ہاتھ شاذو نادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔"

" کیا مطلب؟ ننھی نیلم کی دلچسپی بڑھ گئی۔

" یہ ایک خود دار بچے کا ہاتھ ہے۔ نہایت ضدی اور سرکش۔ اپنے ارادوں میں چٹان کی طرح مضبوط۔ لیکن حالات کا جہنم اس چٹان کو موم کی طرح نرم بنا دے گا۔

" سچ ابو جی؟ " نیلم حیران رہ گئی۔

" بالکل سچ" انہوں نے کاغذ اسے واپس دے دیا۔

" ابو جی۔ سچ اور جھوٹ میں کیا فرق ہوتا ہے؟ "

" سچ ہمیشہ ایک سا رہتا ہے نیلم بیٹا۔ جھوٹ بدلتا رہتا ہے۔ سچ جو کل تھا ، سچ جو آج ہے، جو کل بھی رہے گا، سچ کبھی نہیں بدلتا۔ زمانہ سچائی کو نہیں مٹا سکتا۔"

" ابو جی۔ ہندو جھوٹے ہوتے ہیں ناں؟"

" ہاں بیٹے"

" اور مسلمان؟"

" مسلمان سچا ہوتا ہے۔ اپنے مذہب کی طرح۔" انہوں نے فخر سے کہا۔ پھر اپنی کلائی میں گھڑی کو دیکھ کر چونکے۔

" چلو بیٹا۔ تمہاری پڑھائی کا وقت ہونے والا ہے۔ ماسٹر صاحب آنے ہی والے ہوں گے۔ چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ ساڑھے سات بج چکے ہیں۔"وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔

اُن کے جانے کے بعد نیلم بھی اٹھی۔ ہاتھوں کے نقش والا کاغذ اُس کے ہاتھ میں تھا۔ دو مختلف ہاتھوں کا یہ ساتھ زیادہ دیر نہ رہا۔ نیلم نے کاغذ نہایت احتیاط سے ایک موٹی سی کتاب میں رکھ دیا۔ اس کی نظروں کے سامنے اس لڑکے کا چہرہ گھومنے لگا جو پچھلے ہفتے ان کی کار سے ٹکرا گیا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کے والد نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ وہ لڑکا واقعی خود دار تھا۔


 لال حویلی میں عقیل بخار میں پھنک رہا تھا۔ اُس کے پلنگ پر بڑے بھائی بھی بیٹھے تھے۔ بستی کے حکیم صاحب بھی سامنے کرسی پر براجمان تھے۔ بڑے بھائی غصیلے آدمی تھے، اِس وقت کڑی نظروں سے عقیل کو گھور رہے تھے۔

" میں پوچھتا ہوں ، تم نے اسی دن کیوں نہیں بتایا؟" وہ دہاڑے

"بچہ بخار میں پھنک رہا ہے شکیل صاحب۔ اس طرح اس کی طبیعت مزید بگڑ جائے گی۔ عقیل بچہ ہی تو ہے، دھیان نہیں رہا ہوگا۔ یہ کوئی ایسی بات تو نہیں جس پر اتنا غصہ کیا جائے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ نمک کا استعمال قطعاً بند کردیں۔ ورنہ چوتھائی تو کر ہی دیں۔" حکیم صاحب بولے۔

" مشورے کا شکریہ۔" شکیل نے تلخی سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

" بھئی عقیل میاں۔ اب ہم چلتے ہیں۔ یہ بخار اندرونی چوٹ کی وجہ سے آیا ہے۔ چند جڑی بوٹیاں تمہارے لئے کافی ہوں گی۔ وہ میں نے پرچے میں لکھ دی ہیں۔ ابا سے منگوا لینا۔ ان کے لیے شہر جانا ہوگا۔ بستی میں نہیں ملیں گی۔ صبح نہار منہ استعمال کرنا ہے اور شام کو عصر کے وقت۔ اچھا خدا حافظ۔"

حکیم صاحب کے جانے کے بعد ان کی بوڑھی ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اب کیسی طبیعت ہے؟"

"بس ایک دن اور لگے گا۔" عقیل نے آہ کھینچی۔

"ایک دن اور لگے گا، مگر کس میں؟"

" میرے مرنے میں اور کاہے میں۔" وہ بولا

" ہٹ کمبخت۔ کیسی بد فالیں منہ سے نکالتا ہے۔"وفا دار ملازمہ بڑبڑانے لگی، عقیل کو وہ بہت چاہتی تھی۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں۔ یہ حکیم کالینوس ہر چیز کا پرہیز بتا گئے ہیں۔ ابلے ہوئے بینگن، ابلے ہوئے ٹنڈے ____ اوغ۔" وہ اوکنے لگا۔

"حکیم کالینوس۔" بوڑھی ملازمہ ہنسنے لگی، " اِس حال میں بھی تجھے چین نہیں پڑتا۔ بستی کا سب سے بہترین حکیم ہے۔"

"بہترین حکیم ____ جس کو ابلی ہوئی چیزوں کے علاوہ اور کسی شئے کا نام ہی نہیں آتا۔" عقیل نے منہ بنایا۔

 اسی وقت باہر سے کسی بچی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ عقیل چونک اٹھا پھر پوچھنے لگا ،"نجمہ کیوں رو رہی ہے؟"

"وکیل ہوگا۔ آج صبح ہی سے بچی کو تنگ کئے جا رہا ہے۔ یہ گھر میں کیا رک جاتا ہے، نجمہ کی شامت آ جاتی ہے۔" ملازمہ بڑبڑاتے ہوئے باہر چلی گئی۔ عقیل نے ایک بار پھر تکیے سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ جانے کیوں اس کے تصور میں ایک چھوٹی سی لڑکی آگئی۔ کار میں بیٹھی ہوئی لڑکی، جس کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے اور آنکھوں میں حد درجہ ہمدردی تھی۔


وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ کسی کی خاطر کبھی نہیں رکتا۔ وقت ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔ ایک سیکنڈ کیلیے بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ ہندوستان پر وہ عجیب وقت آن پڑا تھا جس میں فوری فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہندو مسلم فسادات میں روزانہ درجنوں آدمیوں کا مارے جانا روز کا معمول بن گیا تھا۔ نفرت کی آگ بھڑکتی جا رہی تھی۔ انگریز گورنمنٹ امن و امان بحال کرنے میں بُری طرح ناکام ہو چکی تھی۔ اب تو صورتِ حال ایسی نازک ہوگئی تھی کہ خود انگریز حکومت کے پاؤں اُکھڑتے نظر آ رہے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب مسلمان مائیں جیالے سپوتوں کو پیدا کر رہی تھیں۔ مسلمان قوم کبھی عظیم ہستیوں سے خالی نہیں رہی۔ اس میں بڑا حصہ مسلمان ماؤں کا ہے، جن کی شرم و حیا ، جن کی عظمتِ کردار اور جن کا عالی حوصلہ کبھی عمر بن عبد العزیز ہستی کو جنم دیتا ہے، کبھی ابو حنیفہ کو، کبھی یہ مائیں سُلطان صلاح الدین ایوبی کو جنم دیتی ہیں، کبھی طارق بن زیاد کو، کبھی محمد بن قاسم کو اور کبھی حیدر علی کو، کبھی ٹیپو سلطان کو۔ با عفت ماؤں کی پارسا کوکھیں اسلام کا عظیم ہتھیار ہیں۔ یہ ہتھیار کبھی کند نہیں ہوا۔ اور نہ یہ ہتھیار آئندہ کبھی کند ہوگا۔ تاریخِ عالم میں کلیسا کی شکست کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے یہ الفاظ سنہرے حروف سے کندہ ہیں کہ" جب تک صلاح الدین ایوبی کی ماں جیسی مائیں زندہ ہیں، غازی سلطان صلاح الدین ایوبی پیدا ہوتے رہیں گے۔" اے پارسا ماؤں ! تمہاری عظمت کو سلام!

ہندوستان میں ایسی ہی پارسا ماؤں کی کوکھوں نے کئی نورانی ہستیاں پیدا کیں تھیں جن میں احمد رضا خان، محمد علی جوہر، محمد شوکت علی، حفیظ جالندھری کے نام سورج کی طرح چمکتے ہیں۔ احمد رضا خان کے پاس اپنے پیارے نبی محمد رسول اللہ  کے عشق کا ایک ایسا سمندر تھا جو ہندوستان کے بکھرے ہوئے اور بچھڑے ہوئے مسلمانوں کو ایک مرکز پر لے آیا۔"ہم مصطفوی ہیں" کا نعرہ سب سے پہلے آپ ہی نے اِن حالات میں بلند کیا جسے بعد میں علامہ اقبال نے " دو قومی نظریہ" کے نام سے پیش کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ دو قومی نظریہ سب سے پہلے احمد رضا خان نے ہی پیش کیا تھا۔ آپ کے عشقِ رسول کے سمندر کی موجوں نے سارے عالم کو دیوانہ بنا دیا۔ فی الوقت ساری دنیا کا ہر ایک مسلمان احمد رضا کے نام پر اپنی جان چھڑکنے کو تیار ہے۔ آپ نے ایک مشہور سلام لکھا ہے ____ مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام ____ اس سلام کی گونج بر عظیم پاک و ہند کے ہر گوشے میں سنائی دیتی ہے۔

پیرانِ طریقت کا بھی اس تاریخ میں بڑا اہم حصہ ہے۔ آج پڑھا لکھا طبقہ جن پیروں کے نام سے بیزار ہے کل انہی پیروں نے پاکستان کی تعمیر میں اِن پڑھے لکھے لوگوں کو ہزاروں کوس پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

علی پور کا نام شاید اتنا مشہور نہ ہوتا، لیکن علی پور میں ایک ایسی شخصیت پیدا ہوئی جس نے علی پور کا نام روشن کردیا۔ یہ شخصیت سید گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ ان کا نام تھا ____ پِیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث ____ نہایت علمی اور نورانی شخصیت۔ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے ایک نہیں دو نہیں، لاکھوں مرید ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے۔ تحریکِ پاکستان میں سید جماعت علی شاہ صاحب کا جو حصہ ہے، اس سے بر صغیر پاک و ہند کا کوئی پڑھا لکھا شخص نا واقف نہیں۔ خصوصاً آپ کا ایک کارنامہ تو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری دین کی خدمت کرتے کرتے نہایت لاغر ہو چکے تھے۔ عمر مبارک ایک سو دس کے لگ بھگ تھی۔ جب آپ نے اس بات کو محسوس کیا کہ اب محبوبِ حقیقی جل جلالہ کی طرف سے بلاوا آنے والا ہے اور تحریکِ پاکستان کے لئے کسی نئے قائد کی ضرورت ہے تو آپ نے اپنی نظرِ ولایت سے محمد علی جناح کا نام اس تحریک کے قائد کی حیثیت سے پیش کردیا اور پھر دنیا والوں نے دیکھا کہ مسٹر جناح پونجا کا لڑکا ____ محمد علی جناح ____ جِسے کل تک کوئی اِس حیثیت سے جانتا تک نہ تھا، آج لاکھوں مربع میل کے احاطے میں پھیلی ہوئی سلطنت کے مسلمانوں میں یکایک "قائدِ اعظم" کی حیثیت اختیار کر گیا۔ دوسرے قائد صرف قائد تھے۔ مگر پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کا چُنا ہوا فرد عام قائد نہیں بلکہ قائدِ اعظم بن گیا۔

بچہ بچہ اِس قیادت پر فخر کر رہا تھا اور اپنی تتلاتی ہوئی زبان میں گویا یہ کہہ رہا تھا:

لے کے رہیں گے پاکستان

بٹ کے رہے گا ہندوستان

ہندوستان کی ساری کی ساری امت ِ مسلمہ ایک قائدِ اعظم کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی۔ محمد علی جناح نے اپنے اِس عہدے کو اِس حسن و خوبی سے نبھایا کہ با شعور افراد بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

ملت ہے جسم و جاں ہے محمد علی جناح


وقت گزرتا رہا، نئی پود اسکولوں سے نکل کر کالجوں میں آگئی۔ نیلم نے خاندان والوں کی ہزار رکاوٹوں کے باوجود کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب لڑکیوں کا پڑھنا باعثِ عار سمجھا جاتا تھا۔ مگر نیلم نے یہ کہہ کر سب کا منہ بند کردیا کہ فرنٹئیر کالج مسلمانوں کا کالج ہے۔ اس میں کسی ہندو یا سکھ کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ نیز یہ کہ اس کالج میں لڑکوں اور لڑکیوں کی الگ کلاسیں لگتی ہیں۔

کالج کا ماحول نیلم کو بہت پسند آیا۔ انجان لڑکیاں ایسی گھل مل گئیں جیسے ایک ہی گھر کی فرد ہوں۔ اور یہ تو اسے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کی خالہ زاد بہن کنول نے بھی اِسی کالج میں داخلہ لے لیا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ ایک اکیلا ہوتا ہے لیکن دوسرے ایک کے ساتھ مل جائے تو گیارہ کا ہندسہ بنا لیتا ہے۔ وہ دونوں بھی مل کر گیارہ ہو گئیں۔

 کنول اور نیلم یک جان دو قالب ہو گئیں۔ فارغ پیریڈ میں ہمیشہ ایک ساتھ دکھائی دیتیں۔ کینٹین میں ساتھ، لائبریری میں ساتھ، گیمز میں ساتھ، غرض ان کا یہ ساتھ مثالی بن گیا۔ وہ اِس بات سے نا واقف نہیں تھیں کہ لڑکے انہیں "نیل کنول" کہنے لگے تھے۔ لیکن انہیں اس کی کیا پرواہ تھی؟ کہنے والوں کی زبان کون روک سکتا ہے؟

نیلم کے والد بہت فکر مند رہنے لگے تھے۔ اگرچہ وہ تعلیم کے مخالف نہیں تھے لیکن زمانہ کی اونچ نیچ سے گزر کر آئے تھے اِس لئے زمانے کی نبض سے خوب واقف تھے۔ ہندوؤں کی شورشیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ سکھ بھی خاموش نہیں بیٹھے تھے۔ جِس کا جب داؤ لگتا ، وار کر جاتا۔ وہ ایک ایسے علاقے میں رہتے تھے جس میں ہندوؤں کی بہتات تھی۔ اگرچہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ اُن کا اخلاق ہی ایسا تھا کہ کوئی دشمن ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ مگر اِن بد ذات اور نیچ ہندوؤں کا کیا بھروسہ تھا؟ جو ہندو ایک جیتی جاگتی لڑکی کو پتی کی چِتا کے شعلوں میں جبرا قہراً دھکیل دیں، ان سے انسانی سلوک کی توقع فضول تھی۔ یہی سوچ کر وہ فیصلہ کرتے کہ کسی مسلم اکثریت والے علاقے میں شفٹ ہو جائیں مگر ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے ان کا پروگرام ملتوی ہو جاتا۔ شاید اِس میں بھی خدا کی کوئی مصلحت تھی۔


  1. لیلیٰ کا ساگر

چنچل تو وہ پہلے سے ہی تھی۔ اور پھر اُس کا حسن اور حسن پر معصومانہ انداز اور بھولپن ادائیں۔ وہ تو چلتی پھرتی سہہ آتشہ [3]( ٹرپل ایکس) شراب تھی جس کا ایک قطرہ پینے والے کے ہوش اڑا دیتا تھا۔ باتیں کرنے میں لا جواب تھی۔ ایسی پیاری باتیں کرتی تھی کہ سننے والے کے ہوش اڑا دیتی تھی۔ اِس کی حماقت بھری باتوں میں بڑی مٹھاس تھی۔ وہ سر سے پیر تک رس بھری تھی۔

عقیل فائنل ائیر میں تھا۔ اُسے پڑھائی کے علاوہ کسی دوسری بات سے کوئی سروکار نہ تھا اور لڑکیوں سے تو وہ کوسوں دور بھاگتا تھا۔ پھر لڑکی بھی فرسٹ ائیر کی۔ فرسٹ ائیر کی لڑکیوں کو بات تک کرنے کی تمیز نہیں ہوتی۔ کالج آکر خود کو جانے کیا سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ کم عقل چھوکریاں جو اپنے آپ کو دو دِن میں ملکۂ وکٹوریا کی بھانجیاں گمان کرنے لگتی ہیں۔ مگر اُس فرسٹ ائیر کی لڑکی میں نہ جانے ایسا کیا تھا کہ عقیل جیسا عقلمند آدمی اُسے دیکھنے پر مجبور ہوگیا۔

ہوا یوں کہ عقیل اپنے فری پیریڈ میں نوٹس تیار کرنے لائبریری جا رہا تھا۔ کاریڈور میں کئی لڑکے اور لڑکیاں ادھر سے اُدھر آجا رہے تھے۔ عقیل اپنی نوٹ بُک بغل میں دابے سر جھکائے کسی سوچ میں گُم چل رہا تھا کہ اچانک ایک رس بھری آواز نے اُس کے کانوں میں شہد سا گھول دیا۔

"سُنیے۔ مجھے آپ سے ذرا کچھ کام ہے۔" کسی لڑکی نے نہایت لجاجت سے اُسے مخاطب کر کے کہا۔

وہ رک گیا، پھر پلٹ کر مخاطب کرنے والی لڑکی کو دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ لڑکی واقعی رس بھری تھی۔ گُلابی ہونٹ ، بے داغ رخسار اور شوخ اور چمکدار آنکھیں۔

"فرمائیے۔ میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔" عقیل نے شائستگی سے کہا تھا۔

رس بھری لڑکی، پھولوں سے لدی ڈالی کی طرح لچکتی ہوئی اُس کے قریب آنے لگی۔ عقیل حیران تھا کہ اس اجنبی لڑکی کو اس سے کیا کام ہو سکتا ہے۔ ابھی وہ اسی خیال میں محو تھا کہ رس بھری لڑکی اِس کے قریب سے بادِ صبا کی طرح گزر گئی۔ وہ پہلی بار ہونقوں کی طرح منہ پھاڑ کر رہ گیا۔ اُسے مخاطب کرنے والی لڑکی اس کے پاس سے گزرتی ہوئی کسی دوسری لڑکی کہ پاس جا کر کہہ رہی تھی۔" آپ کے پاس ورڈز ورتھ کی کتاب ہو گی؟ مجھے صرف تین دن کے لئے درکار ہے۔" لڑکی جواب میں اُس سے کچھ کہنے لگی۔

عقیل بُری طرح جھینپ گیا۔ کاریڈور میں کئی لڑکوں کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹیں کھیل گئیں تھیں اور کئی لڑکیاں دبی دبی آواز میں ہنسنے لگی تھیں۔ اس کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جو وہ اس طرح بے وقوف بنا تھا۔

"عقیل میاں، تم احمق ہو، احمق ہو، احمق ہو۔" وہ دل ہی دل میں خود کو کوستا ہوا واپس پلٹ گیا۔ سرِ راہ اس کی زبردست توہین ہوئی تھی۔ وہ لائبریری میں آگیا اور ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ کاریڈور والا واقعہ اس کے ذہن پر نقش ہو گیا تھا، رہ رہ کر اُس لڑکی پر غصہ آ رہا تھا، آخر اس طرح مخاطب کرنے کی کیا تُک تھی۔

"بدلہ ۔ عقیل میاں بدلہ۔" بے اختیار اس کی بھنچی ہوئی مٹھی میز سے جا ٹکرائی۔ کئی طالب علم چونک کر اسے دیکھنے لگے۔ لائبریرین اُسے دیکھ کر نہ جانے کیوں مسکرایا تھا۔

عقیل کو ایسا لگ رہا تھا جیسے سب اُس پر ہنس رہے ہوں۔ اب وہ زیادہ دیر تک وہاں نہیں رک سکتا تھا۔ اُس نے اپنی نوٹ بُک اٹھائی اور لائبریری سے نکل گیا۔ وہ اِسی طرح سر جھکائے چلتا رہا مگر ایک رس بھری آواز نے اُس کی محویت کو توڑ دیا۔

"نام سے کچھ نہیں ہوتا۔" رس بھری کہہ رہی تھی۔" وہ تو بالکل عقل سے پیدل ہے۔"

"عقل سے پیدل ____ عقیل" وہ غصے میں زیر لب بڑبڑایا۔" وہ لڑکی یقیناً میرے بارے میں کہہ رہی ہے۔"

وہ عقل سے پیدل نہیں تھا اس لئے جلد ہی اُس کا غصہ دبی دبی مسکراہٹ میں تبدیل ہو گیا۔

"ٹھیک ہے رس بھری۔" اُس نے ایک طویل سانس خارج کرتے ہوئے جیسے خود سے کہا۔" اگر تمہیں بھی فرسٹ ائیر کا سبق نہ پڑھایا تو میرا نام بھی عقیل نہیں"


عقیل نے زندگی سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اُس کی اکیلی ذات میں کئی خوبیاں تھیں۔ وہ کم گو ضرور تھا مگر علم المنطق میں یدِ طولیٰ رکھتا تھا۔ لوگوں کے چہروں کو کُھلی کتاب کی طرح پڑھ لیتا تھا۔ لوگوں کی تحریر پڑھ کر اُن سے ملے بغیر اُن کے بارے میں سو فیصد درست رائے دینا اُس کے لئے معمولی سی بات تھی اور تحریر بدل بدل کر مختلف انداز میں لکھنا تو اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ دونوں ہاتھوں سے لکھنا بھی اُس کے لئے معمولی سی بات تھی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی خوبیاں اس کی ذات میں چمک رہی تھیں جن پر اس کی کم گوئی کی عادت نے پردہ ڈالا ہوا تھا۔

عقیل اس چکر میں تھا کہ کسی طرح اس رس بھری لڑکی کی کوئی تحریر اُس کے ہاتھ لگ جائے۔ رس بھری کا تو نام اسے پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا۔ اکثر لڑکے اس کا نام جانتے تھے۔ وہ نیلم تھی۔ مگر اُس کی رائٹنگ نہیں مل سکی تھی۔ اس لئے عقیل متواتر اسی فکر میں تھا کہ اُسے نیلم کی لکھائی کہیں سے مل جائے۔

اور پھر ایک دن اسے موقع مل ہی گیا۔ نیلم کی کلاس کا کوئی "چیک آؤٹ" ہوا تھا ۔اُن کی لیکچرار چیک آؤٹ کی کاپیاں سنبھالے اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ عقیل بھی ان کے پیچھے لگ گیا۔ پھر نیلم کی کاپی اڑا لینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ اس کے بعد وہ وہاں سے اتنی تیزی کے ساتھ رفو چکر ہوا کہ سیدھا اپنے ہاسٹل کے کمرے میں جا کر ہی سانس لیا۔ ہاسٹل کا ایک کمرہ دو لڑکوں کے لئے الاٹ تھا۔ عقیل کے روم میٹ کا نام عمران تھا۔ عقیل نے شکر ادا کیا کہ اس وقت اس کا دوست عمران کمرے میں نہیں تھا۔

عقیل جوتوں سمیت اپنے پلنگ پر چڑھ گیا اور قمیض کے بٹن کھول کر چیک آؤٹ کی کاپی نکال کر اُسے خوشی میں چوم لیا۔

"اب میں دیکھوں گا کہ کون عقل سے پیدل ہے ____ احمق لڑکی!" وہ خلا میں دیکھ کر بڑبڑایا۔" اگر تمہیں فرسٹ ائیر کا سبق نہ پڑھایا تو میرا نام بھی عقیل نہیں۔


عمران شام سے پہلے نہیں آیا۔ اِس دوران عقیل بھی اپنی ساری تیاریاں مکمل کر چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کسی کو راز دار بنائے بغیر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا اِس لئے اس نے عمران کو سب کچھ بتا دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ عمران سے بہتر راز دار اسے نہیں مل سکتا تھا۔

ساڑھے پانچ بجے عمران کمرے میں داخل ہوا۔" خیریت تو ہے؟" وہ آتے ہی اسے سر سے پاؤں تک دیکھتا ہوا بولا۔" کیا اب انڈے بھی دینے شروع کر دئیے ہیں؟" وہ خاصا بے تکلف تھا۔

"کوئی بات تو ڈھنگ کی نکال دیا کرو۔" عقیل بھی بے تکلفی سے بولا۔ عمران دنیا کا وہ واحد شخص تھا جس سے عقیل جیسا سنجیدہ لڑکا بھی بے تکلف ہو جاتا تھا۔

"ڈھنگ کی بات کہاں سے نکالوں؟ مجھے ڈھنگ سکھانے والی ابھی پیدا نہیں ہوئی۔" وہ کرسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گیا۔

"تم ہمیشہ کسی لڑکی سے شروع ہو تے ہو اور لڑکی پر ہی ختم ہوتے ہو۔ کوئی دوسرا موضوع نہیں ہے تمہارے پاس؟"

"جس کے پاس جو چیز نہیں ہوتی وہ اسی کا رونا روتا ہے برخوردار۔ دوسرا موضوع کہاں سے لاؤں؟"

"خیر خیر، آج مجھ تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔" عقیل نے راز داری سے کہا پھر ساری روداد اس کے گوش گزار کردی۔

عمران نے سب کچھ سُن کر ایک زور دار قہقہہ لگایا تھا اور بہت دیر تک ہنستا رہا تھا۔

"کچھ بکو گے بھی یا یونہی جنّوں کی طرح ہنستے رہو گے؟" عقیل کو غصہ آگیا۔

"ہاہ،ہاہ،ہا،ہا" وہ پیٹ پکڑ کر بُری طرح سے ہنس رہا تھا، پھر بڑی مشکلوں سے بولا تھا،" عقیل بیٹا! آج تو تم بھی کسی لڑکی سے شروع ہوگئے ہو اور اللہ نے چاہا تو اسی طرح ختم بھی ہو جاؤ گے۔"

"اس کا مطلب ہے تم میرے کام نہیں آؤ گے۔"

"بسرو چشم، خادم تیار ہے۔ مگر میں اس معاملے میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟"

"ایک بار تم نے کہا تھا کہ تمہاری منگیتر بھی اسی کالج میں پڑھتی ہے۔"

پڑھتی تو ہے۔ کیا تم اسی پر نظریں گاڑے بیٹھے ہو؟" عمران اچھل پڑا

"سن تو لیا کرو حرام خور۔" عقیل برہم ہوگیا۔

"سنائیے۔"

"مجھے اسی کی مدد کی ضرورت ہے۔"

"اسی کی؟"

"ہاں۔ وہ تمہاری وجہ سے اپنی زبان بند ہی رکھے گی"

"کیا غضب کا دماغ پایا ہے تم نے بھی۔" عمران ہنس پڑا۔ "اگر نیوٹن کو یہ دماغ مل جاتا تو کبھی کا پکا کر چٹ کر گیا ہوتا۔"

" تو پھر تم اسے تیار کر لو گے ناں؟" عقیل اپنے مطلب پر آگیا۔

"اسے تیار کرنا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بس تم وقت پر پیچھے مت ہٹ جانا۔"

"سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"

" بس تو پھر تیل کی دھار دیکھنے کے لئے تیار رہو۔" عمران اٹھ گیا۔ عقیل بھی اٹھ گیا۔ اس کا منصوبہ بے داغ تھا مگر اسے کیا معلوم تھا کہ اُس کا یہ بے داغ منصوبہ کسی کو داغدار کردے گا۔


انگلش کے استاد فرنٹئیر کا لج کا ہوا تھے۔ چنگیز خانی مزاج تھا اور انداز بھی ظالم بادشاہوں کے سے تھے۔ کالج کے تمام لڑکے ان کے آگے چوں تک نہ کر سکتے تھے۔ دبدبہ بھی اتنا تھا کہ جہاں سے گزر جاتے تو وہاں کچھ دیر کے لئے سناٹا چھا جاتا۔ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھنے والے۔ نام بھی سکندر مرزا تھا۔

آج سکندر مرزا فائنل ائیر کی کلاس لے رہے تھے۔ موڈ بہت خراب معلوم ہو رہا تھا اور سنجیدگی میں بھی اضافہ دکھائی دے رہا تھا۔ لڑکے سمجھ رہے تھے آج کسی اشتہاری ملزم کی کھنچائی ضرور ہو گی۔ بدنام اونٹوں میں عمران کا نام سر فہرست تھا، جبکہ عقیل کو سکندر مرزا بے حد سراہتے تھے۔ شاید وہ بھی انہی کی مانند تھا۔ خود دار، ضدی اور اپنے کام سے کام رکھنے والا۔

اِس وقت سکندر مرزا اپنی روایتی سنجیدگی میں کہہ رہے تھے"

"YOU KNOW ONLY WHAT YOU CAN EXPRESS EASILY"

ابھی وہ یہیں تک کہہ پائے تھے کہ ایک عجیب و غریب بات وقوع پذیر ہوئی۔ ایسی عجیب بات جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کلاس روم کی کھڑکی سے ایک خوبصورت نسوانی ہاتھ نمودار ہوا۔ لڑکوں نے سانس روک لیا۔ ایک لمحے کے لئے چوڑیاں کھنکیں اور پھر ہاتھ غائب ہوگیا۔

کھڑکی سے کاغذ کا بنا ہوا ایک جہاز اڑتا ہوا اندر آیا۔ سکندر مرزا کا منہ حیرت سے کُھل گیا۔ جہاز ان کی حیرت سے بے نیاز کلاس میں اڑتا رہا۔ جہاز تھوڑی دیر تک دندناتا ہوا کلاس کا چکر کاٹتا رہا۔ اور پھر پوری کلاس کا اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد نہایت بے خوفی سے سکندر مرزا کی ناک سے جا ٹکرایا۔ اُن کا کھلا ہوا منہ ایک جھٹکے سے بند ہوگیا۔

لڑکے سناٹے میں آگئے۔ آگئی کسی غریب کی شامت۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ سکندر مرزا نے جہاز اٹھایا اور ڈسٹ بن کی طرف بڑھے۔ لڑکے حیران تھے۔ ایسا رویہ انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

ابھی کاغذ کے پرچے کا جہاز اُن کے ہاتھ میں ہی تھا کہ پچھلی رو کے کسی لڑکے نے آواز لگائی۔" سر! شاید اس پر کچھ لکھا ہوا بھی ہے۔"

سکندر مرزا نے پرچے کو سیدھا کیا۔ واقعی اس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ وہ تحریر پڑھنے لگے۔ لڑکے اتنے بھی ناسمجھ نہیں تھے کہ سکندر مرزا کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے سے کچھ اندازہ نہ لگا سکتے۔ یقیناً کوئی غیر معمولی تحریر تھی۔ یک بیک انہوں نے دروازے کا رخ کرلیا اور تیزی کے ساتھ کلاس روم سے باہر نکل گئے۔

چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ عمران اور عقیل کے لئے یہ باتیں ناقابلِ برداشت تھیں اس لئے وہ کلاس روم سے باہر نکل آئے۔ لڑکوں کے بے ہودہ مذاق سے پوری کلاس گونج رہی تھی۔

وہ سیدھے لان میں آئے اور لکڑی کی بینچ پر بیٹھ گئے۔ عمران بہت اپ سیٹ دکھائی دے رہا تھا۔ چند لمحوں تک تو وہ سر جھکائے بیٹھا رہا پھر سر گوشی کے انداز میں بولا۔" یہ تو ساری فلم الٹی ہوگئی۔ اگر میری منگیتر کا نام بدنام ہوا تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا عقیل کے بچے۔"

عقیل پریشانی سے اپنی ٹھوڑی مسلے جا رہا تھا۔" غلطی بھی تو اس کی ہی تھی۔ آخر اسے ہاتھ نمایاں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر کسی نے اس کی انگوٹھی پہچان لی تو یقیناً ہم مفت میں مارے جائیں گے۔"

"وہ کوئی عادی مجرمہ نہیں ہے۔ میرے کہنے پر یہ کام کر گزری ہے۔ اُسے تو یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ اس پرچے میں کیا لکھا ہے۔ میں نے اسے یہ کہہ کر راضی کیا تھا کہ سکندر مرزا سے کچھ شغل کرنا چاہتا ہوں۔"

عقیل خاموش رہا اب تو جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ نکلا ہوا تیر کمان میں واپس نہیں آ سکتا تھا۔

سکندر مرزا کی شخصیت کا اثر طالب علموں پر ہی نہیں تھا، کالج کے پورے اسٹاف پر بھی تھا۔ دو روز تک اسٹاف میں کھلبلی مچی رہی۔ کوئی فیصلہ کن بات سامنے نہ آئی۔ مگر ایک روز تو حد ہو ہوگئی۔ کسی شریر لڑکے نے اس کاغذ کی ایک نقل کالج کے نوٹس بورڈ پر لگا دی۔ وہ دن کالج میں عجیب گہما گہمی کا دن تھا۔ ہر لڑکا نوٹس بورڈ پر جھکا پڑ رہا تھا۔ کسی من چلے نے بلند آواز کے ساتھ کاغذ کا متن پڑھنا شروع کردیا ۔

ساگر جی!

سنیے! مجھے آپ سے ذرا کچھ کام ہے۔ آپ عقل سے ہر گز پیدل نہیں ہیں۔ میں جانتی ہوں۔ اب ہماری محبت زیادہ عرصے چُھپی نہیں رہ سکتی۔ ہم کب تک کینٹین کے پیچھے والے چھپر تلے ملتے رہیں گے؟ اب مجھ سے درد جدائی برداشت نہیں ہوتا۔ منگل وار کو چھپر تلے ملنا۔ میں تم سے فیصلہ کن بات کرنا چاہتی ہوں۔

 تمہاری لیلیٰ

                        نیلم

خط میں سب سے اہم چیز نیلم کے دستخط تھے۔ نقل میں بھی دستخط نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔

لڑکے معنی خیز مسکراہٹوں میں تبادلۂ خیال کر رہے تھے:

" اچھا تو وہ رس بھر ی ساگر کی جھولی میں آ گری ہے۔"

"مگر یہ ساگر کون ہے؟"

"ہوگا کوئی۔"

"ہم تو سمجھے تھے سکندر مرزا سے پھنسی ہے"

"ہو سکتا ہے ان کا تخلص ہو"

"وہ تو شاعر ی ہی نہیں کر تا۔"

"پھر بھی ساگر کو تلاش تو کرنا چاہئے۔"

"کوئی ضرورت نہیں۔ نیلم کی نگرانی کرتے رہو۔ وہ خود ہی تمہیں ساگر تک پہنچا دے گی۔"

"ہو سکتا ہے کسی نے بے چاری کے ساتھ مذاق کیا ہو۔"

"بے چاری کے سائن بھی تو دیکھو۔"

" ہاں یہ تو ہے، معاملہ کافی الجھا ہوا ہے۔"

"اور پانی بھی سر سے اونچا ہو گیا ہے۔ اب وہ ساگر سے فیصلہ کن بات کرنا چاہتی ہے۔"

"اور منگل وار بھی آج ہی ہے۔"

"کینٹین کے پیچھے والا چھپر خالی نہیں ملے گا۔"

"چلو چلو ____ چھپر میں چلو۔"

لڑکوں کے غول نے کینٹین کے پیچھے والے چھپر کا رخ کیا۔ فائنل ائیر کے طلبا بہت پر جوش نظر آ رہے تھے۔ ہر ایک کو انگلش کی کلاس کے واقعے کی تفصیل مع مرچ مصالحہ بتا رہے تھے۔

چھپر کے نیچے نیلم اور کنول دور سے ہی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ اُن کا روٹین تھا۔ پانچ منٹ ضرور اس چھپر تلے کھڑی ہو کر دنیا جہان کی باتیں کر لیتی تھیں۔ مگر اُن کا یہ روٹین آج اُن پر مصیبت لے آیا تھا۔

"وہ دیکھو!" کسی لڑکے نے کہا تھا۔" ساگر کا انتظار ہو رہا ہے۔"

"آج تیرا ساگر نہیں آئے گا ____ ساگر کی لیلیٰ" کسی نے پھبتی کَسی۔

"کیوں نہیں آئے گا؟" کوئی دھم سے چھپر تلے آ کودا۔" ساگر اپنی لیلیٰ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا"

"کیا مذاق لگا رکھا ہے یہ؟" کنول چیخ اٹھی تھی۔ نیلم البتہ سوچتی ہوئی نظروں سے صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"یہ مذاق نہیں ہے کنول۔ آج میں اپنی لیلیٰ سے فیصلہ کن بات کروں گا۔" ساگر بن کر آنے والے نے کہا۔

"زبان سنبھال کر بات کرو نادان" ایک دوسرا لڑکا آن کودا تھا۔

" تم کون ہو کل کے چھوکرے؟" ساگر بن کر آنے والے نے مضحکہ اڑانے والے انداز میں پوچھا تھا۔

"لیلیٰ کا ساگر!" بڑا ٹھوس جواب تھا اور وہ گھونسا بھی بڑا ٹھوس تھا جو نئے ساگر کے جبڑے پر پڑا تھا۔ پھر تو دونوں ساگروں میں مقابلہ شروع ہوگیا تھا۔ نیلم اور کنول دونوں موقع پاتے ہی بھاگ نکلیں۔ اُن کی سمجھ میں خاک کچھ بھی نہیں آیا تھا۔


نیلم کو اس خط کی ایک نقل مل گئی جسے پڑھ کر وہ سکتے میں آگئی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی اس کے ساتھ ایسی گھٹیا حرکت بھی کر سکتا ہے۔ ہو بہو خود اس کی رائٹنگ تھی اور کمال یہ تھا کہ سائن میں بھی سر مُو فرق نہیں تھا۔ اب وہ اساتذہ سے لاکھ کہتی پھرتی کہ اُس کے خلاف سازش کی گئی ہے مگر اس کی ایک نہ سنی جاتی۔

"تمھارا کیا خیال ہے کنول؟" وہ خط کی نقل پر نظر جماتے ہوئے کنول سے پوچھنے لگی۔" یہ کس کی حرکت ہو سکتی ہے؟"

"ساگر کی۔" کنول نے نہایت سادگی سے جواب دیا۔

"مگر ساگر کے پیچھے اصل لڑکا کون ہے؟"

"یہ تو ساگر ہی بتا سکتا ہے۔" اس نے لا پرواہی سے شانے اچکائے۔

 "مجھے تو اُسی کی حرکت معلوم ہوتی ہے۔" نیلم اپنے ذہن پر زور دیتی ہوئی بولی تھی۔

"غالباً تمہارا اشارہ فائنل ائیر کے عقیل کی طرف ہے۔"

"یقیناً وہی ہے۔" نیلم اس بار پر جوش لہجے میں بولی تھی۔" شروع کے دو جملے اس نے مجھے چڑانے کے لئے لکھے ہیں۔"

"کیا مطلب؟" کنول نے حیرانگی سے پوچھا۔ جواب میں اُس نے چند روز پہلے والا سارا واقعہ دہرایا۔ کنول نے سب کچھ سن کر کہا، " تمہیں ضرورت کیا تھی اسے اس طرح مخاطب کرنے کی؟"

" بس اس کی معصوم شکل دیکھ کر میری زبان میں کھجلی ہونے لگی تھی۔" نیلم نے ایک طویل سانس لیا۔

"زبان کی ذرا سی کھجلی نے تمہیں پورے کالج میں بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ لیکن عقیل کا تو صرف امکان ہے۔ کوئی ثبوت نہیں چھوڑا ہے لکھنے والے نے۔ تم کسی کو یقین نہیں دلا سکو گی کہ یہ کسی کی شرارت ہے۔ مدمقابل جو بھی ہے، نہایت ہوشیار ہے۔"

"یہ تو ہے۔" نیلم نے آہستگی سے کہا تھا۔ کنول خاموش رہی۔ نیلم کے ساتھ وہ بھی بدنام ہو رہی تھی۔ اب تک نیلم کے پا کئی "ساگروں" کے خطوط آگئے تھے۔ مگر نیلم کو اصلی ساگر کی تلاش تھی۔ یکلخت نیلم نے ہسٹریائی انداز میں مٹھیاں بھینچ کر کہا تھا۔" ساگر کے بچے! تم ایک بار مجھے مل جاؤ تو تمہارا خون چوس لوں گی۔"

نقلی ساگر محبت جتا رہے تھے اور وہ اصلی ساگر کی نفرت میں خون کے گھونٹ پی رہی تھی۔


  1. انوکھی قربانی

حالات نازک ہو چکے تھے۔ ہندوستان پر غاصب حکم رانوں کی حکومت کا چراغ تھر تھرا رہا تھا۔ ہندو مسلم فسادات میں بہت اضافہ ہوگیا تھا اور اب تو گورے بھی لپیٹ میں آگئے تھے۔ ہر روز کوئی مشہور یا غیر مشہور گورا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا تھا۔ ہندو تو مسلمانوں کے ازلی دشمن تھے۔ اب مسلمان رہنماؤں کی مسلسل کوششوں نے دو قومی نظریئے کو مُلک بھر میں پھیلا دیا تھا۔ ہر مسلمان الگ مملکت کا خواہاں تھا۔

یہ سب کچھ بلا وجہ نہیں تھا۔ انگریزوں نے ہر جگہ اپنی مکارانہ پالیسی کے تحت ہندوؤں کو ہر قسم کی مراعات دی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دولت مند ہوگئے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی جائیدادیں چھین لیں۔ بنگال میں مسلمان زمینداروں کا تناسب ۹۵ فیصد کے بجائے صرف ۵ فیصد رہ گیا۔ ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر بند کر دئیے گئے۔ ہندوؤں کی فطری تنگ نظری سب کے سامنے آگئی۔ حتیٰ کہ سنگھٹن تحریک کے بانی ڈاکٹر مونجے نے یہ تک کہہ دیا:

"جس طرح انگلستان انگریزوں کا ہے، فرانس فرانسیسیوں کا ہے اور جرمنی جرمنوں کا ہے، اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ہے۔"

تنگ نظری کی کوئی انتہا تھی! ہزار سال تک مسلمانوں کے غلام رہنے والے ہندو اچانک سب کچھ بھول کر ہندوستان کے ٹھیکے دار بننا چاہتے تھے۔ ہندوستان کو ہندوؤں کا ملک سمجھنے لگے تھے۔ ان دنوں مغرب میں "ون نیشن ون اسٹیٹ" یعنی ایک قوم ایک ریاست کا نعرہ عام ہو چکا تھا۔ اس لئے مسلمان رہنماؤں نے مغرب کے اسی اصول کی بِنا پر ، مغربی قوم انگریز سے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کردیا۔ محمد علی جناح نے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ میں لاہور کے تاریخی اجلاس میں فرمایا:

"قومیت کی تعریف چاہے جِس طرح کی جائے، مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔"

الگ قومیت کا تصور آپ نے یہ کہہ کر بڑے پیار سے سب کے سامنے واضح کیا کہ"

پاکستان اسی روز وجود میں آگیا تھا جِس دِن ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا ____ جب ہندوستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا، ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔

اِس سے بھی کافی پہلے علامہ اقبال نے واشگاف لفظوں میں یہ بات کہہ دی تھی کہ" قوم مذہب سے ہے۔" ____ چونکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا مذہب جدا ہے اس لئے وہ مِن حیث القوم بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ یہ سیدھی سی بات تو کوئی فاتر العقل بھی سمجھ سکتا ہے کہ جن کا مذہب الگ ہو، رسومات الگ ہوں، رہن سہن الگ ہو، ثقافت الگ ہو، زبان الگ ہو، لباس الگ ہو ،اٹھنا بیٹھا الگ ہو، غرض ہر چیز الگ ہو تو وہ ایک قوم نہیں ہو سکتے۔ مگر ہندو اپنے انگریز آقاؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف تھے کہ جو ہندوستان میں ہے وہ ہندوستانی ہے اِس لئے اس میں صرف ہندو قوم رہتی ہے۔ کتنی اوندھی منطق پڑھتے ہیں بے چارے ہندو۔

یہ اسی اوندھی منطق کا نتیجہ تھا کہ دو قومی نظریے کہ نفوذ سے گھبرا کر کانگریس نے، جو اب خالصتاً ہندو تنظیم بن چکی تھی، مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کو مٹانے کے گہرے منصوبے بنانا شروع کر دئیے تھے۔ اِس لئے جہاں جہاں کانگریس کا راج قائم تھا وہاں اذان، نماز، عید، بقر عید اور محرم کے موقعوں پر سخت حملے کئے۔ ہندو غنڈوں اور ان کے اوباشوں نے مسجدوں کے سامنے باجے بجانے شروع کر دئیے۔ بزدل ہندو قوم کے لچے لفنگے ہندوؤں نے مساجد میں جا کر نمازیوں پر حملوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔ مسلمان بھی سر پر کفن باندھ کر میدان میں آگئے اور اُن کو منہ توڑ جواب دینا شروع کیا تو ایک جگہ جگ دیو پٹیل نامی ہندو زخموں کی تاب نہ لا کر مارا گیا۔ اُس ایک حملہ آور جگ دیو پٹیل کے قتل کے الزام میں ۴۳ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور ۲۴ افراد کو عمر قید کی سزا کا حکم ملا۔ یہ کون سا اندھا قانون تھا، یہ کس جنگل کا قانون تھا؟

کانگریس حکومت نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ جن صوبوں پر اس کا راج قائم تھا وہاں تعلیمی اداروں میں ہندی کو لازمی مضمون قرار دے دیا۔ اردو زبان کو مٹانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دے دیا گیا۔ ہر تعلیمی ادارے میں کانگریس کے جھنڈے کو سلامی دینے کا حکم بھی دیا گیا۔ غرض ہر جگہ ہندو مسلمانوں کو پیس رہے تھے۔

یہ وہ مظالم تھے جو مسلمان قوم کے ساتھ کئے جا رہے تھے۔ مگر کچھ مظالم وہ تھے جو انفرادی طور پر مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے تھے۔ قتل، ڈکیتی، آبرو ریزی ہندوؤں کا خاصہ تھیں۔ ایسے ہی سانحے کا عقیل بھی شکار ہوگیا تھا۔ واہ ری بدنصیبی!

عقیل بقر عید کی چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا۔ والد صاحب گو بہت بیمار تھے لیکن اسلامی رسُومات کی ادائیگی کا انہیں خاص خیال رہتا تھا۔ بیٹوں کی مخالفت کے باوجود اس سال بھی قربانی کے لئے گائے لے آئے تھے۔ ہندو گائے کو "گئو ماتا" مانتے تھے اور ان مسلمانوں کو سخت نظروں سے دیکھتے تھے جو گائے کی قربانی کیا کرتے تھے۔ گائے کی قربانی کی اہمیت ہر مسلمان سمجھتا ہے۔ گائے کو عربی میں "بقرہ" کہتے ہیں اور اس نام کی پوری ایک سورہ قرآن پاک میں موجود ہے۔ مگر ہندوؤں سے دب کر بہت سے کانگریس نواز ملاؤں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کون کر سکتا ہے ، اس لئے گائے کی قربانی نہ کی جائے اور اس کے بدلے دوسرے جانوروں کی قربانی کی جائے۔ کانگریسی ملاؤں نے چند ٹکوں کی خاطر شعائرِ اسلام کو زبردست نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی اور گائے کی قربانی نہ کرنے کا فرمان جاری کردیا تھا۔ عقیل کے والد ان کانگریس نواز ملاؤں سے سخت بیزار تھے۔ اُن کے پاس احمد رضا کے قلم کی طاقت تھی اور وہ فتویٰ بھی موجود تھا جس میں انہوں نے سورۃ البقرہ کی اس آیت ،جس میں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ: ' اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو' سے استدلال کرتے ہوئے گائے کی قربانی کی تاکید کی تھی۔ عقیل کے والد صاحب گو بہت زیادہ مذہبی آدمی نہیں تھے لیکن شعائرِ اسلام کی تعظیم و توقیر کرنا تو گویا ان کے خمیر میں تھا۔ ہر ایک سے کہتے کہ میاں ! ہندو نا ہنجاروں کے ڈر سے کیا ہم شعائرِ اسلام کو ترک کردیں؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

پہلی بقر عید کے دن قربانی کا ارادہ نہیں تھا۔ اِس لئے شکیل تو اپنی بیوی کو لے کر سسرال گیا ہوا تھا اور عقیل اپنی خالہ کو سلام کرنے چلا گیا تھا جو دوسرے گاؤں میں رہتی تھیں۔ والدہ کے انتقال کے بعد عقیل کی یہ عادت تھی کہ تہوار والے دن والدہ کی قبر پر حاضری دینے کے بعد خالہ کی یہاں ضرور جاتا تھا۔ خالہ کی شکل اس کی والدہ سے بہت ملتی تھی۔

عقیل گھر واپس آیا تو اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ لوگوں کا ہجوم اس کی حویلی کے سامنے جمع تھا۔ وہ حیران تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ لوگوں کی سوگوار سوگوار نظریں کسی اندوہ ناک واقعے کی خبر دے رہی تھیں۔

"کیا بات ہے غلام جیلانی ؟" وہ اپنے ہم عمر لڑکے سے مخاطب ہوا۔ جو اس کا بچپن کا ساتھی تھا۔

"لال حویلی سچ مچ لال ہوگئی ہے عقیل بھائی۔" غلام جیلانی بلک اٹھا تھا۔" تمھاری حویلی خون سے لال ہو گئی ____ تمہارے اپنے خون سے۔"

"تیرے باپ کی دعا قبول ہوگئی میرے بچے، قبول ہوگئی۔" سفید داڑھی والے ایک عمر رسیدہ شخص نے اسے گلے لگا لیا۔" بلاشبہ تیرا باپ بیماری کے باوجود ہم سے زیادہ بہادر نکلا۔"

عقیل کچھ سمجھ کر بھی نہیں سمجھنا چاہتا تھا مگر حویلی کے صحن میں ترتیب سے رکھے ہوئے چار کفنائے ہوئے لاشوں نے اسے سب سمجھا دیا۔ پہلا لاشہ اُس کے باپ کا تھا۔ زخموں سے چور، خون میں نہایا ہوا۔ دوسرا لاشہ وکیل کا تھا، اُس کے جوان بھائی کا، تیسرا بوڑھی ملازمہ کا تھا۔ وہ خاموشی سے سب دیکھتا گیا۔ مگر چوتھا لاشہ دیکھ کر اُس سے صبر نہ ہو سکا۔ بے اختیار چیخ اُٹھا۔" نجمہ! ____ نجمہ! میری پیاری بہن نجمہ"

 پھر اس کی زبان خاموش ہوگئی مگر آنسوؤں کی ایک نہ ٹوٹنے والی جھڑی آنکھوں سے لگ گئی۔ اس جھڑی میں اس نے اپنے عزیزوں کو دفنا دیا۔ عقیل کی ایک ذات کتنے لاشوں کا بوجھ اٹھاتی؟ بوڑھے باپ کا یا جوان بھائی کا یا کھلی ہوئی معصوم سی کلی جیسی بہن کا؟

مسجد کے پیش امام نے دُعا کے بعد اس کے کاندھے پر ہمدردی سے ہاتھ رکھا اور فرمانے لگے، "عقیل بیٹا، بستی والوں کو موردِ الزام نہ ٹھہرانا۔ ہندو تعداد میں کئی تھے اور اچھی طرح مسلح ہو کر آئے تھے۔ ہم نے اِس کے باوجود مقابلہ کرنا چاہا مگر وہ بزدل بھاگ نکلے۔ تمہاری حویلی بھی بستی کہ پہلے سرے پر ہے اس لئے ہمیں دیر سے اطلاع ہوئی اور وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ تو گھوڑوں پر آئے تھے۔ گھوڑے انہوں نے بستی کے باہر ہی کہیں چھپا دئیے تھے۔ بھاگتے وقت وہ بار بار گئو ماتا کی جَے بولاتے تھے۔ تمہارا باپ شہید ہے بیٹا۔ شعائرِ اسلام کی خاطر اپنی جان بھی دے دی۔"

برابر والے گاؤں میں بھی اس واقعے کی خبر پہنچ چکی تھی۔ اس واقعے کے بعد صرف دو دن میں دونوں گاؤں والوں نے پوری پچاس گائیں ذبح کیں۔ یہ ہندو غنڈوں کے منہ پر کُھلا طمانچہ تھا۔ ہندو غیرت مند تھے، گئو ماتا کی قربانی کرنے والے ایک خاندان کو موت کی نیند سُلا گئے تھے۔ ہندو نہایت بے غیرت تھے، پچاس گئو ماتاؤں کی قربانی کو شیرِ مادر سمجھ کر پی گئے تھے۔ جھوٹا مذہب ایسی ہی جھوٹی غیرت سکھاتا ہے۔ ____ ایسی غیرت جو فوراً بے غیرتی میں ڈھل جائے۔ حقیقتاً ہندو ایسی گیدڑیں ہیں جو تنہا مسافر کو دیکھ کر دانت نکالتے ہیں اور زیادہ لوگوں کو دیکھتے ہیں تو دُم دبا کر بھاگ جاتے ہیں۔ گیدڑ کہیں کے!


عقیل واپس ہاسٹل میں آگیا۔ کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ اُس کے ساتھ کتنا بڑا حادثہ ہوگیا تھا۔ سب یہی سمجھتے تھے کہ عید کی چھٹیاں گزارنے گیا تھا، چھٹیاں گزار کر واپس آگیا۔ قیامت خاموشی سے آئی تھی اور خاموشی سے گزر گئی تھی۔ خود عقیل نے بھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ بتانے کی ضرورت بھی کیا تھی؟ اس طرح اس کے باپ بھائی واپس تو نہیں آ سکتے تھے۔ البتہ اب عقیل میں اتنی تبدیلی ضرور آگئی تھی کہ اُس کی سنجیدگی ایک نہ ختم ہونے والی افسردگی میں بدل گئی تھی۔ ہول ناک قیامت نے اس کی زبان بند کردی تھی۔

کچھ عرصے بعد اُسے معلوم ہوا کہ نیلم نے کالج سے ایک ہفتے کی چھٹی حاصل کی ہے۔ اُس کے والد کی طبیعت سخت خراب تھی۔ اُس کی غیر موجودگی میں کالج والوں نے ایک فیصلہ کیا تھا۔ اسے کالج سے ہمیشہ کے لئے خارج کرنے کا فیصلہ۔ اساتذہ کالج کے ماحول پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے۔ کالج کا ماحول آلودہ ہوتا جا رہا تھا۔ نیلم والے واقعے نے ہر طالب علم کو کچھ نہ کچھ متاثر ضرور کیا تھا۔ ایک مچھلی سارے تالاب پر بُرا اثر دال رہی تھی۔ اس لئے اس کو فارغ کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ یہ تمام انتظامیہ کا متفقہ فیصلہ تھا۔

عقیل کمرے میں بیٹھا دل ہی دل میں کڑھ رہا تھا۔ بے چاری نیلم کو اُس کی غلطی کی سزا دی جا رہی تھی۔ اس میں نیلم کا کوئی قصور نہ تھا۔ سارا کیا دھرا تو عقیل کا تھا۔

نیلم کو ناکردہ جرم کی سزا سے بچانے کے لئے عقیل نے اپنی ساری صلاحیتیں وقف کردیں۔ اپنے تمام تعلقات اور تمام وسائل بروئے کار لا کر اُس نے ایڑی چوٹی کا زار لگا دیا۔ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ اس کے لئے فرداً فرداً انتظامیہ کے ہر رکن سے ملا تھا۔ لکچررز کو زبردست دلیلیں پیش کی تھیں۔ اور انگلش کے استاد سکندر مرزا پر تو اس نے اپنی منطق دانی کے ترکش کے تمام تیر چلا دئیے تھے۔ بالآخر وہ بڑی مشکل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا تھا۔ نیلم کو کالج سے خارج کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔ اُسے ایسا لگا جیسے اس نے اپنے گناہ کی تلافی کردی ہو۔

کوئی بات چھپ نہیں سکتی، کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جاتی ہے۔ اس لئے نیلم کی یہ بات بھی سامنے آگئی۔ وہ کالج آئی تو کنول نے اسے ساری باتوں سے آگاہ کردیا۔

نیلم سب کچھ سننے کے بعد بولی، "یقین نہیں آتا کہ ہمارے کالج کے پرنسپل نے ایسا فیصلہ کیا ہوگا۔"

"صرف پرنسپل کا نہیں، یہ تمام انتظامیہ کا متفقہ فیصلہ تھا۔ جس میں سکندر مرزا پیش پیش تھے۔"

"پھر یہ فیصلہ کس طرح واپس لیا گیا؟"

"اڑتی اڑتی سی خبر سنی ہے کہ فائنل ائیر کا کوئی لڑکا دلچسپی لے رہا تھا"

"اوہ، اوہ!" نیلم نے بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔" اگر ہمیں اس لڑکے کے بارے میں معلوم ہوجائے تو یقیناً ہم ساگر تک پہنچ سکتے ہیں۔ بلکہ مجھے تو یقین ہے کہ وہ لڑکا خود ساگر ہوگا۔"

"اِس بارے میں سکندر مرزا صاحب سے شاید کچھ مدد مل سکے۔ سُنا ہے اس نے سکندر مرزا کو بھی لا جواب کردیا تھا۔"

"جانے کیوں فائنل ائیر کے حوالے پر وہ منحوس عقیل یاد آتا ہے۔ پتا نہیں کیوں میرا دل اندر سے کہتا ہے کہ ساگر ہی عقیل کا دوسرا روپ ہے۔"

"میری نظریں اتنی دور تک نہیں دیکھ سکتیں اِس لئے میں اس بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنا چاہتی ہوں۔"

'آخر ہو ناں تنگ نظر، محدود سوچ رکھنے والی لڑکی۔" نیلم ہنس پڑی تھی۔

"یہ وسعتِ نظری آپ ہی کو مبارک ہو۔" کنول نے کہا۔

نیلم فائنل ائیر کے اُس لڑکے کے بارے میں کھوج لگا رہی تھی جس نے اس کی غیر موجودگی میں اس پر احسان کیا تھا۔ یہ کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ تیسرے ہی دن اُس لڑکے کا پتا چل گیا۔ نیلم کا اندازہ سو فیصد درست نکلا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں عقیل تھا۔

وہ بڑے پُر جوش انداز میں کنول سے کہہ رہی تھی۔" میرا اندازہ ٹھیک تھا کنول۔ وہ عقیل ہی تھا۔"

"واقعی؟" وہ حیرت سے بولی

"واقعی!"

"پھر تو آگئی شامت بے چارے کی۔"

"وہ بے چارا کہاں سے ہوگیا؟"

"میرا مطلب ہے کہ اب تم اُس کو ساگر سمجھ کر اس کے ساتھ جو سلوک کرو گی وہ بے چارہ خود بخود بے چارہ ہوجائے گا۔ سمجھیں ساگر کی لیلیٰ۔ ویسے یہ لقب تُم پر بُری طرح چپک گیا ہے۔ میرے خیال سے اب میں بھی یہی کہا کروں۔ کیا خیال ہے ساگر کی لیلیٰ؟"

"بکواس مت کرو۔" نیلم نے تیوری چڑھا کر کہا تھا۔" عن قریب وہ اپنی حرکت کا اچھی طرح مزہ چکھے گا۔"

"اچھا۔ تو اب تم اسے مزہ بھی چکھاؤ گی۔" کنول نے شرارت بھری آواز میں کہا تھا۔ زیادہ زور "چکھانے" پر تھا۔

"کنول!" نیلم نے اسے آنکھیں دکھائیں۔ مگر کنول شاید موج میں تھی ۔ پہلے کی ہی طرح شرارت بھرے لہجے میں بولی تھی۔" "اور یہ تو اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ اُس بے چارے نے تمہارے ساتھ کوئی حرکت بھی کی ہے۔" اِس بار کنول کا سارا زور حرکت پر تھا۔

"پلیز کنول"! نیلم نے گھگیا کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے تھے کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ کنول ایک بار اسٹارٹ ہوگئی تو نان اسٹاپ ہوجائے گی۔ کنول کی معنی خیز کھی کھی شروع ہوگئی۔

دوسرے دن نیلم کو موقع مل گیا۔ وہ لیکچر روم میں جا رہی تھی۔ کالج اس وقت سنسان ہی تھا۔ اچانک مردانہ جوتوں کی کھٹ کھٹ پر اُس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ سامنے سے عقیل آ رہا تھا۔ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ چہرہ لئے ہوئے۔ مگر نیلم نے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں کی کہ آج اس کی سنجیدگی میں بے پناہ افسردگی بھی شامل تھی۔

وہ گہری نظروں سے اُس کا جائزہ لے رہی تھی۔ پھر جب دونوں ایک دوسرے کو کراس کرنے والے تھے ، نیلم نے دھیمی سی آواز میں پکارا "ساگر!"

ساگر کا جھکا ہوا سر ایک لمحے کو اٹھا تھا۔ مگر نیلم نے اُسی ایک لمحے میں اس کی آنکھوں میں تیرتی ہوئی مایوسیوں کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔

وہ رُکا نہیں۔ نیلم بھی نہیں رکی۔ آج کے مختصر سے لمحاتی تجربے نے اس کے یقین کو اور پختہ کردیا تھا کہ عقیل ہی ساگر ہے۔ وہ سوچتی رہ گئی کہ عقیل اور ساگر میں کتنا فرق ہے۔ کوئی اس لڑکے کو دیکھ کر کبھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ ساگر بن کر کسی لڑکی کو ذلتوں کے سمندر میں ڈبو بھی سکتا ہے۔ ایک شخص کے دو روپ کس قدر مختلف ہو تے ہیں۔


 منگل وار کی شام عمران اپنے ہاسٹل کے کمرے کی طرف آیا تو حسبِ معمول کمرے کا دروازہ کُھلا ہوا ہی ملا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ عقیل اپنی پڑھائی میں مگن ہوگا۔ ابھی وہ دروازے پر ہی تھا کہ اُسے حیرت کا ایک جھٹکا سا لگا۔ سامنے ہی طاق پر ایک مورتی رکھی ہوئی تھی ____ ہندوانہ مورتی۔

"عقیل کے بچے! یہ کیا ہے؟" وہ کمرے میں آتے ہی چلاّیا تھا۔ عقیل نے کتاب بند کی اور سوالیہ نظروں سے عمران کی طرف دیکھنے لگا۔ عمران نے طاق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ عقیل نے بھی طاق کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں دنیا جہاں کی حیرت سما گئی۔ وہاں ایک آدھ بالشت کی مٹی کی بنی ہوئی ہندوانہ مورتی رکھی ہوئی تھی۔

عمران نے ہاتھ بڑھا کر مورتی اٹھائی اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ مورتی کے دائیں ہاتھ پر انگلش کا چودھواں الفا بیٹ چمک رہا تھا۔

"میں نہیں جانتا یہ یہاں کیسے آگئی؟" عقیل نے زبان کھولی۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ میں دن بھر کمرے کا دروازہ لاک نہیں کرتا۔ نہ ہی ہمارے کالج میں چور آ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی ایسا سامان ہے جِس کے چوری ہو جانے کا خدشہ ہو۔"

"مگر یہ کس کی حرکت ہو سکتی ہے؟ اگر کوئی دیکھ لیتا تو مار مار کر ہمارا بھرکس نکال دیتا۔ یہ مسلمانوں کی درس گاہ ہے۔"

"نیلم کی۔ این فار نیلم۔ سمجھے؟" عمران نے مورتی کے ہاتھ پر لکھے ہوئے این کی طرف اشارہ کیا۔ عقیل کے حلق سے ہلکی سی غراہٹ محسوس ہوئی۔" اِس کا مطلب ہے کہ اسے سیکنڈ ائیر کا سبق بھی سکھانا ہی پڑے گا۔"

"فی الحال تو لیلیٰ نے اپنے ساگر کو پہلی کلاس کا سبق پڑھا دیا ہے ۔ " عمران مسکرایا تھا۔" وہ لڑکی تمہارے بس کی معلوم نہیں ہوتی لیلیٰ کے ساگر۔"

"اپنی منگیتر کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟"

"کون کہتا ہے کہ میں اس کے بس کا نہیں" عقیل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی، عمران کا جملہ ہی ایسا تھا۔


نیلم نے پرس کھولا تھا قلم نکالنے کے لئے تاکہ اردو کا لیکچر نوٹ کر سکے مگر اس کے ہاتھ مٹی کی بنی ہوئی کسی ٹھوس چیز سے جا ٹکرائے۔ اس نے بے خیالی میں پرس کے اندر نظر دوڑائی اور سُن ہو کر رہ گئی۔ موسم گرم نہیں تھا اس کے باوجود بھی اس کی حسین پیشانی پر پسینے چمکنے لگے تھے۔ پرس میں آدھ بالشت کی ایک چھوٹی سی مورتی پڑی تھی۔ ہندوانہ مورتی۔ وہ دن اس نے جیسے کانٹوں پر گزارا تھا۔

گھر آکر اس نے مورتی کو غور سے دیکھا۔ اِس مورتی کو وہ اچھی طرح پہچانتی تھی لیکن اس بار مورتی کے ہاتھ پر کسی نوک دار چیز کی مدد سے کھرچ کر ایل لکھا گیا تھا اور دوسرے ہاتھ پر ایس بنا ہوا تھا۔ اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ ساگر کون ہے۔ یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی تھی۔ اس نے غصے سے مورتی کو فرش پر پٹخ دیا۔ ہندوؤں کی پوجی جانے والی مٹی کی مورتی ریزہ ریزہ ہوگئی۔

"لیلیٰ کے ساگر! میں تمہیں جان سے ماردوں گی۔" اس نے دانت پیس کر کہا تھا۔ وہاں اور کون تھا جو اس کی بات سن سکتا۔ چیلنج کر کے وہ اس طرح مطمئن ہو گئی جیسے سچ مچ ہی جیت گئی ہو۔ لڑکیاں پڑھ لکھ کر بھی کتنی بھولی ہوتی ہیں۔


  1. خون کا بدلہ خون

۱۹۳۹ میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی دیگر یورپی ملکوں کی طرح برطانیہ بھی اس کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ ایک طرف تو وہ جنگ لڑ رہا تھا تو دوسری طرف ہندوستان سے ہندوستانی فوجی بھی حاصل کر رہا تھا جو جنگِ عظیم میں اُس کے کام آ رہے تھے۔ برطانیہ کئی سمتوں سے بٹ گیا تھا۔

کانگریس نے اِن حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً برطانوی حکومت سے یہ مطالبہ کردیا کہ برطانوی حکومت اگر ہندوستان سے جنگ میں تعاون چاہتی ہے تو اسے ہندوستان کو ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اعلان کرنا ہوگا۔ اس مطالبے سے کانگریس کا مقصد صرف یہ تھا کہ انگریز جنوبی ایشیا کا اقتدار کانگریس کے حوالے کردیں۔ حکومتِ برطانیہ نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔

کانگریس نے اس موقعے پر غلط پالیسی اختیار کی اور بطورِ احتجاج کانگریسی وزارتوں نے ۲۲ اکتوبر کو استعفیٰ دے دیا۔ محمد علی جناح نے اس دن مسلمان قوم سے یومِ نجات منانے کی اپیل کی۔ چناں چہ ۲۲ اکتوبر کو مسلمانوں نے بھر پور طریقے سے یومِ نجات بنایا۔

کانگریس کے دورِ حکومت میں ____ جو تقریباً دو سال کا تھا ____ مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے ان کی بدولت مسلمانوں میں اتحاد کا جذبہ بیدار ہوا اور نہایت تیزی سے فروغ پانے لگا۔ محمد علی جناح نے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنے کے لئے پورے ملک کے تنظیمی دورے کئے۔ انہی دنوں میں پٹنہ میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں ایک مخلص مسلم لیگی کارکن فیروز الدین نے محمد علی جناح کے لئے پہلی بار 'قائدِ اعظم زندہ باد' کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ یہ نعرہ مسلمان کی زبان پر چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ مسلمان کی مضبوط ترین نمائندہ جماعت بن گئی۔

۲۲ اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو اقبال پارک، لاہور میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع تھے۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے ایک قرارداد تھی ____ قرارداد لاہور ____ مگر بیگم محمد علی جوہر نے اس قرارداد کو قراردادِ لاہور کے بجائے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔ اُن کے اس نام کو مقبولیت ِ عامّہ حاصل ہوئی۔ اِس سے پہلے ہی چوہدری رحمت علی پاکستان کان تجویز کر چکے تھے۔

قراردادِ پاکستان میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی اس قرارداد میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ:

"آل انڈیا مسلم لیگ ____ ملک میں صرف اسی آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتی ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل ریجنوں کی صورت میں حد بندی کا حامل ہو اور بوقتِ ضرورت اِس طرح کی رد و بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے ۔ "

لفظ ریاستوں" سے ایک غلط فہمی پیدا ہوئی کہ اس جمع لفظ سے مسلم لیگ نے دو مملکتوں کے قیام کا تصوّر پیش کیا ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں تھا۔ بعد ازاں اس ابہام کو دور کرنے کے لئے ۱۰ اپریل ۱۹۴۶ کو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں نے ایک اجلاس دہلی میں منعقد کیا۔ اِس میں واضح طور پر لفظ 'اسٹیٹ' کی تفصیلاً شرح پیش کی۔ یہ قرارداد جس سے تمام غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے، بنگال کے وزیرِ اعلیٰ حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھی۔

اِس قرارداد کے منظور ہوتے ہی برِّ عظیم میں ہندوؤں اور ان کے پریس نے مسلمانوں کے خلاف جی بھر کر زہر اگلنا شروع کردیا۔ ہندوؤں نے اسے طنزاً قراردادِ پاکستان کا نام دیا تھا۔ یہ وہی مشرکوں والی عادت تھی۔ جنگِ قادسیہ میں بھی یزد گرد نے مسلمان قاصدوں کے سروں پر مٹّی کے ٹوکرے لاد کر اپنی دانست میں اُن کی توہین کی تھی مگر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نیک شگون سمجھ کر کہا تھا، "یزد گرد نے اپنا ملک خود ہمارے حوالے کر دیا۔" اِسی طرح ہندو اور ان کا پریس بھی قراردادِ لاہور کو قراردادِ پاکستان کہہ رہا تھا۔ وہ طنزاً کہہ رہے تھے مگر یہ مسلمانوں کے لئے نیک شگون تھا۔ ہندوؤں کی زبانوں نے نفرت سے ہی سہی ، پاکستان کا نام لینا شروع کردیا تھا۔

ہندوؤں نے قراردادِ پاکستان کی سخت مخالفت کی۔ پریس زہر اگل رہا تھا۔ زبانیں لمبی ہوتی جا رہی تھیں۔ حتیٰ کہ راج گوپال اچاریہ نے یہ کہا:

"جناح کا یہ مطالبہ (مطالبۂ پاکستان) اِس طرح کا ہے جیسے دو سگے بھائیوں میں ایک گائے پر جھگڑا ہوا اور جو اسے دو حصوں میں بانٹ لیں۔"

گاندھی جی چھاتی پیٹ کر بولے تھے ،"ہندوستان کو میرے جیتے جی ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔"

راج گوپال اچاریہ اور گاندھی کی منطق نہایت اوندھی تھی۔ گائے زندہ ہوتی ہے اُسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ، کیا جائے گا تو گائے کسی کو نہیں ملے گی، ہاں گئو ماتا کے بدن کا گوشت ضرور مل جائے گا۔ جبکہ ملک کو بانٹا جاسکتا ہے۔ آخر صوبے بھی تو ملک کا حصہ ہی ہوتے ہیں۔ گاندھی کی منطق تو اور بھی غلط تھی۔ کیا ہندوستان گاندھی کہ باپ دادا کی جاگیر تھی جسے کوئی اور تقسیم کرنے کا حق نہ رکھتا ہو؟ یا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے تو سکون سے زندگی گزار لینے دو۔ میں صرف اپنا بھلا چاہتا ہوں، میرے بعد بھلے سارے ہندو نرکھ میں چلے جائیں۔ بہر حال محمد علی جناح نے انہیں زبردست جواب دیا تھا۔

قراردادِ پاکستان نے بہت سے لوگوں کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ انگریز اور ہندو قوم تو پہلے ہی مسلمانوں سے خار کھائے بیٹھی تھیں، اب سکھ بھی مسلمانوں کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ تینوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ مسلمان اپنے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگرچہ تینوں قومیں آپس میں ایک دوسرے کو بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھتی تھیں مگر مسلمانوں کے خلاف فوراً اتحاد کر لیتی تھیں۔ کتنی سچی بات ہے کہ "تمام کافروں کا ایک ہی مذہب ہے۔"

مسلمان گھرانوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا۔ راہ گیروں کو بے دردی سے لوٹا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کے گھروں میں ڈاکے ڈالے جا رہے تھے۔ قتل و غارت گری میں صرف ہندو ہی شامل نہیں تھے ، اب اُن کے ساتھ سکھ بھی مل گئے تھے۔ مسلم کش فسادات میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا تھا۔ اور مسلمانوں کی جان و مال اور عزّت و آبرو کی حفاظت نہایت کٹھن مرحلہ بن چکا تھا۔ کٹھن مرحلے لوگوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں اور ایسا ہی انقلاب عمران کے اندر بھی پیدا ہو چکا تھا۔

 کالج کے فرسٹ ائیر کے امتحانات ہو چکے تھے۔ اب رزلٹ باقی تھا اس لئے تمام طلبہ و طالبات کا راوی عیش ہی عیش لکھ رہا تھا۔ عمران کی منگیتر نرگس بھی کالج آکر کیا کرتی۔ عمران نرگس سے ملنا چاہتا تھا۔ اگرچہ ان کے درمیان ابھی محبت کا ابتدائی اسٹیج تھا مگر اس کے باوجود بھی عمران سے اس کی جدائی کا یہ ایک ماہ بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ نرگس اس کے چچا کی اکلوتی اولاد تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے اسے ماں باپ کا خصوصی پیار ملا تھا۔

عمران نے بڑی مشکلوں سے دو ہفتے گزارے۔ پھر ایک روز وہ اپنے چچا کے یہاں جا دھمکا۔ مکان کی شاندار عمارت مکینوں کے ذوق اور امارت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ مکان گو زیادہ بڑا نہیں تھا لیکن شیشے کی طرح چمکتا تھا۔ نرگس کے خوب صورت ہاتھوں نے مکان کی زیبائش اور دلکشی میں چار چاند لگا دئیے تھے۔

آج خلافِ توقع دروازہ کھلا ہوا ملا تھا۔ عمران کا ماتھا ٹھنکا۔ مکان جس محلے میں تھا اگرچہ اس کی اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر ہندو بھی کم نہیں تھے۔ ہندوؤں کے علاوہ محدود تعداد میں سکھ بھی رہتے تھے۔ نرگس ایک بوڑھے باپ کی جوان لڑکی تھی۔ کوئی بھائی نہیں تھا۔ اس لئے کسی نا خوش گوار حادثے سے بچنے کے لئے کھڑکی دروازے بند رکھ جاتے تھے۔ مگر اسے شاید معلوم نہیں تھا کہ ایسا ہی نا خوش گوار حادثہ پیش آ چکا تھا۔

وہ دھڑکتے دل کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ نرگس ہمیشہ اس کے استقبال کے لئے دروازے پر آتی تھی مگر آج ایسا نہیں ہوا۔ وہ طرح طرح کے وسوسوں کا شکار ہوگیا۔

"چچی جان ____ چچی جان! کہاں ہیں بھئی آپ سب لوگ؟" اس نے بلند آواز سے پکارا۔

اندر سے کسی بوڑھی عورت کے کھانسنے کی آواز آئی۔ وہ تیزی سے اندر کی طرف لپکا۔ ایک پلنگ پر کپڑوں کی ایک گٹھڑی سی پڑی تھی۔ "کون ہے رے؟ ____ اب کون آگیا ہے رے۔" کپڑوں کی گٹھڑی سے آواز آئی۔

"میں ہوں، عمران۔ " وہ پلنگ پر جُھک گیا ۔ چچی بخار میں پھنک رہی تھی۔" اب کیوں آیا ہے عمران بیٹے ۔ اب کیوں آیا ہے؟" چچی رو پڑیں۔ عمران کا دل دھڑک اٹھا تھا۔

"چچا جان اور نرگس کہاں ہیں؟" اس نے کپکپاتی آواز میں سوال کیا تھا۔ چچی روتی رہیں اور کوئی جواب نہیں دیا۔

"نرگس کہاں ہے چچی جان؟" عمران نے چبھتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ مگر بخار زدہ چچی جان کی آنکھیں بند ہونے لگی تھیں۔ عمران کا سوال جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں تھا۔

" نرگس کہاں ہے چچی جان؟ میں پوچھتا ہوں نرگس کہاں ہے؟" اس نے چچی کے شانے پکڑ کر بُری طرح جھنجھوڑ دیا۔

 " نرگس بھاگ گئی بیٹا۔ اپنی پھوٹی قسمت کے ساتھ بھاگ گئی۔" وہ رو پڑیں۔ ان کی آنکھیں ایک بار پھر بند ہونے لگی تھیں۔

"حوصلہ رکھیں چچی جان اور مجھے سکون کے ساتھ سب بتا دیں۔" اس بار عمران نے اپنے اوپر قابو پا لیا تھا اس لئے اطمینان سے بولا تھا۔ اسے خود اپنے اطمینان پر حیرت ہوئی تھی۔

چچی ایک بار پھر کراہنے لگیں۔ عمران نے انہیں پانی کا پیالہ پیش کیا اور ان کی گردن کے نیچے ہاتھ ڈال کر انہیں اٹھایا اور سیدھے ہاتھ سے پانی پلانے لگا۔ چچی نے تھوڑا سا پانی پیا اور پھر لیٹ گئیں۔ ان کی آنکھیں آنسو برسانے لگیں۔

" نرگس امتحانوں سے فارغ ہوئی تو میں نے سوچا اسے اس کی خالہ سے ملا لاؤں۔ تیرا چاچا بھی ہمارے ساتھ تھا۔ دو دن ہم وہیں رہے۔ واپسی میں اپنے شہر کی طرف آتے ہوئے میلی میلی سی پگڑیوں اور گھنی گھنی ڈاڑھیوں والوں نے ہم پر حملہ کردیا۔ وہ تعداد میں چار تھے۔ ظالموں نے ہمیں پکڑ کر درختوں سے باندھ دیا۔ تیرا چاچا بوڑھا ہو گیا تھا۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ ان کا مقابلہ کر سکتا، ہمارے پاس تھا ہی کیا جو وہ لوٹتے۔ ہماری ساری دولت تو نرگس تھی۔ وہ کتّے نہایت ہی بے غیرت تھے عمران۔ شرم و حیا تو اُن کو چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ وہ وحشی درندے تھے۔ اُن چاروں نے کوئی اوٹ بھی نہ کی، کوئی پردہ بھی نہیں کیا۔ ہماری اٹھارہ سال کی کمائی کو خوب دل بھر کر لوٹا۔ ہماری دولت کو ان کمینوں نے ہمارے ہی سامنے مٹی میں ملا دیا۔ اس لمحے کا اَلم اور درد ناکی تم کبھی نہیں جان سکتے عمران۔ ہم اپنی آنکھوں سے اپنی کلی کو پامال ہوتا دیکھتے رہے۔ اس کی ساری پتیاں بکھر گئی تھیں۔ وہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی عمران بیٹا ____ آدھی رات تک وہ ہماری بے بسی پر جشن بناتے رہے۔ ہم درختوں سے بندھے ہوئے تھے۔ آدھی رات کے بعد وہ چاروں ہی بھونڈا مذاق اور گندے جملے اچھالتے ہوئے دفعان ہوگئے۔ ایک پہر رات باقی تھی۔ مرجھائے ہوئے پھول نے اپنی بکھری ہوئی پتیوں کو جمع کیا اور مجھے کھول دیا۔ میں تیرے چاچا کی طرف بڑھی اور اس کو کھول دیا۔ اس میں تھا ہی کیا۔ رسیاں کُھلتے ہی غیرت مند باپ کی لاش دھم سے زمین پر آ گری۔ وہ سچ مچ غیرت والا تھا۔ اپنی آنکھوں سے بے غیرتی کا منظر نہ دیکھ سکا۔ میں بے غیرت زندہ رہ گئی۔ ارے مجھے موت کیوں نہ آگئی۔ میں بے غیرت اس وقت کیوں نہ مر گئی ؟" ان کی آواز پھٹ گئی۔

"اور نرگس ؟" عمران کے منہ سے بڑی مشکلوں سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔

"جب تک تیری نرگس مجھے کھولتی رہی میں تب تک اس کے ارادے نہ پہچان سکی تھی۔ ابھی رات کا ایک پہر باقی تھا۔ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ مجھے کھولتے ہی وہ ایک طرف بھاگ گئی تھی۔ میں سمجھی کہ وہ مجھ سے چھپ رہی ہے مگر وہ رات کے اندھیرے میں کہیں غائب ہوگئی۔ رات کا اندھیرا کالا ہوتا ہے، کالے چہروں کو چھپا لیتا ہے۔ اس نے اپنا چہرہ کالے اندھیرے میں چھپا لیا۔ میں اس کی ماں ہوں۔ اس کی آنکھوں کو پہچانتی ہوں۔ آخری لمحوں میں بھی اس کی آنکھوں میں تمھاری تصویر تھی عمران۔ وہ اپنے منگیتر کے پاس داغ دار ہو کر نہیں جانا چاہتی تھی۔ پھر وہ بھاگ گئی، اپنی پھوٹی قسمت کو لے کر جنے کہاں نکل گئی۔"

"وہ حملہ آور کون تھے ؟" عمران نے دھیمے لہجے میں سوال کیا تھا۔ مگر اس کی آواز میں زخمی شیر کی دھاڑ تھی۔

"سکھ تھے وہ"

"کوئی نام وغیرہ۔"

"ان کے سرغنہ کے ماتھے پر بائیں آنکھ سے اوپر ایک موٹا سا کالا مسّہ تھا۔"

"کوئی نام؟"

"جگ ____ جگ ____ جی ____ جیت۔" چچی نے نہایت نحیف آواز میں کہا تھا۔

"جگ جیت ۔" عمران نے دانت پیس کر کہا تھا۔

"ہاں! وہ اسے اسی نام سے مخاطب کر رہے تھے۔"

"آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟"

"بس ٹھیک ہے۔ "

"میں ابھی ڈاکٹر کو لے کر آتا ہوں ۔ "

"نہیں عمران بیٹے۔ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ میں صرف یہ کہانی سنانے کے لئے زندہ تھی، کسی ایسے شخص کو سنانے کے لئے جو میرا انتقام لے سکے۔ تم سے بہتر اور کون ہوگا جسے میں یہ کہانی سناتی؟"

مگر عمران ڈاکٹر کو لانے روانہ ہوگیا۔ وہ ڈاکٹر کو واپس لایا تو اسے دیر ہو چکی تھی۔ چچی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ اب کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اجل اپنا کام کر چکی تھی۔


سیکنڈ ائیر کی کلاسز شروع ہو چکی تھیں۔ فائنل ائیر کے ایگزامز کوئی تین مہینے بعد ہونے تھے۔ عقیل حیران تھا کہ عمران کہاں غائب ہو گیا ہے۔ دو ہفتوں سے اس کا کوئی پتا نہیں تھا۔

دو ہفتوں بعد وہ دکھائی دیا تو عقیل کو اس میں بڑی تبدیلیاں محسوس کیں۔ پہلے وہ کھلنڈرا تھا، اب وہ سنجیدہ ہوگیا تھا۔ فالتو باتیں کرنا ختم کردی تھیں۔ اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی اور آنکھیں اس طرح سرخ رہنے لگی تھیں جیسے رات بھر جاگتا رہتا ہو۔ عقیل نے اسے بہت کریدنے کی کوشش کی مگر وہ تو جیسے کچھ بتانا ہی نہیں چاہتا تھا۔

ایک دن عقیل اور عمران لان میں مہندی کی باڑھ کے قریب ہی ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک عمران کی نظر کاریڈور کی طرف اٹھ گئیں۔ لان کے اس گوشے سے کاریڈور صاف نظر آتا تھا۔ وہاں نیلم اپنی سہیلیوں کے ہمراہ ہنستی مسکراتی آر ہی تھی۔ ساگر والا واقعہ دب گیا تھا اِس لئے نیلم کا چنچل پن دوبارہ لوٹ آیا تھا۔ نیلم کی ہنسی کی کھنک سنائی دی تو عقیل نے بھی گردن گھمائی۔ وہ واقعی نیلم تھی۔ پھول دار نیلے لباس میں ملبوس۔ وہ سچ مچ شعلۂ جوّالہ لگ رہی تھی۔ بالکل نیلے شعلے کی طرح بھڑک رہی تھی۔

"خدا اس لڑکی کو نظرِ بد سے بچائے۔" عمران کی زبان سے بے ساختہ دعا نکلی۔ اس کی دعا میں پوشیدہ سسکی عقیل سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ سچ مچ لرز کر رہ گیا۔ "کہیں اس کے ساتھ بھی تو کوئی بھیانک حادثہ پیش نہیں آگیا جس طرح میرے ساتھ پیش آیا ہے؟ "عقیل اس سے آگے سوچنے سے کترا گیا۔

"تمہاری منگیتر کہاں رہ گئی؟" عقیل نے سرسری لہجے میں پوچھا۔ مگر اس کے لہجے کی سرسراہٹ عمران کو تڑپا گئی۔

"تم کسی جگ جیت سے واقف ہو؟" اس نے جان بوجھ کر عقیل کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔

"میں نے تم سے تمہاری منگیتر کے بارے میں پوچھا تھا۔" عقیل کا لہجہ سخت ہوگیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ عمران کچھ چھپا رہا ہے۔

"اور میں نے اس جگ جیت کے بارے میں۔" عمران کا لہجہ بھی ٹھوس تھا۔

"جگ جیت کا نام پہلی مرتبہ سنا ہے۔ میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ مگر تمھیں اس کی تلاش کیوں ہے؟" وہ عمران کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا تھا۔

"یہ قاتل ہے میرے چچا اور چچی جان کا" عمران پھٹ پڑا۔ نرگس کا نام آیا تو عمران کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو ٹپکے تھے اور لان کی گھاس میں جذب ہوگئے تھے۔ عمران نے ساری روداد اسے سنا دی۔ عقیل اس کی داستان سن رہا تھا اور اس کا اپنا غم تازہ ہو رہا تھا۔

وہ کہہ رہا تھا، "پھر نجانے میری نرگس کہاں چلی گئی۔ وہ نجانے کس حال میں ہو گی؟ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں اس حال میں اسے قبول کرنے سے انکار کردوں گا۔ یہ اس کی کتنی بڑی بھول ہے۔ وہ مجھے ہر حال میں قبول ہے عقیل بھائی، ہر حال میں قبول ہے، ہر حال میں۔" وہ بلک پڑا تھا۔

عقیل اسے کیا حوصلہ دیتا۔ وہ تو خود زخم خوردہ تھا۔ مگر پھر بھی اس نے عمران کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا " نرگس کو ڈھونڈنا ہے تو تہیں اپنی ہمت کو جوان رکھنا ہوگا۔ کیا تم اسے پسند کرو گے کہ وہ پھر کسی جگ جیت کے ہتھے چڑھ جائے؟"

یکایک عمران کی آنکھوں میں انتقام کا دریا جوش مارنے لگا اور وہ اپنی دونوں مٹھیاں شدت کے ساتھ بھینچ کر بولا تھا۔" اس جگ جیت کو تومیں کتے کی موت ماروں گا۔ اپنی نرگس کو لوٹنے والے درندوں کو میں زندہ نہیں رہنے دوں گا۔ ہر قانون میں خون کا بدلہ خون ہے اور جان کا بدلہ جان۔"

پھر عمران کا روٹین بدل گیا۔ اس کی دوستی آوارہ مزاج لڑکوں سے ہونے لگی۔ وہ ان لڑکوں کا لیڈر بن گیا۔ لیڈر بھی بہت پر جوش۔ اب وہ ہر وقت گریبان کھولے کالج میں گھومتا پھرتا۔ چوبیس گھنٹوں ایک سرخ رنگ کی پٹّی اس کے سر پر بندھی رہتی تھی۔ وہ باقاعدہ ایک ٹیم بنا رہا تھا۔ اس لئے پڑھائی لکھائی سے اس کی دلچسپی ختم ہوتی چلی گئی۔ ٹیم بنانے کے لئے اس نے زیادہ تر ان لڑکوں کا چناؤ کیا تھا جو ہندوؤں، انگریزوں یا سکھوں کے ستائے ہوئے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کی ٹیم میں افرادی قوّت بڑھتی گئی۔ عقیل نے اس کو بہت سمجھایا کہ یہ طریقہ مناسب نہیں مگر عمران اب نصیحتوں کی طرف سے اپنے کان بند کر چکا تھا۔

اور پھر وہی ہوگیا جس کا عقیل کو خدشہ تھا۔ عمران کو کالج سے خارج کردیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی اور لڑکے بھی تھے۔ مگر اب عمران کو اس کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں تھی۔ تعلیم نے اسے دیا ہی کیا تھا؟

آخری دن وہ عقیل سے ملنے آیا تھا۔" میں صرف یہ کہنے کے لئے آیا ہوں کہ ____ " وہ دروازے سے ہی بولا تھا، "نیلم اچھی لڑکی ہے۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک دوسرے سے شدید لڑائی ہونے کے باوجود تمہارے دل میں اس کے لئے نرم گوشہ موجود ہے۔ اگر وقت ملے تو اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا۔ اور کبھی جگ جیت کی اطلاع ملے تو میرے ڈیرے پر آکر مجھے اطلاع کرنا۔"

وہ چلا گیا۔ عمران کے جانے کے بعد عقیل دروازے تک آیا تھا اور دور تک اسے دیکھتا رہا تھا۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو بے اختیار عقیل کے منہ سے نکلا تھا "فی امان اللہ میرے دوست! فی امان اللہ۔"


اور پھر عمران کی ٹیم کا کام شروع ہوگیا۔ شروع شروع میں انہوں نے ایسے ہندو ساہوکاروں کو تاکا تھا جو مسلمانوں کا خون چوس رہے تھے۔ سُود دَر سود کے بہانے مسلمانوں کو ان کی جائیدادوں سے محروم کر رہے تھے۔ ان مہاجنوں میں زیادہ تر ایسے بھی تھے جن سے خود ہندو جاتی بھی تنگ تھی۔ ٹیم نے اپنا کام اس مہارت سے کرنے کی عادت بنائی تھی کہ کوئی سراغ پیچھے نہیں چھوڑتی تھی۔ نتیجتاً ٹیم کی معاشی حیثیت مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی گئی۔

ٹیم کا دوسرا نشانہ ایسے با اثر ہندو تھے جو مسلمانوں کے خلاف ہر موقعے پر زہر اگل رہے تھے۔ ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے مسلمان ظُلم پر بھی خاموش رہتے تھے۔ ایسے افراد کا زندہ رہنا مسلمانوں کی لئے سخت نقصان دہ تھا۔ اس لئے اس کو اس طرح راستے سے ہٹا دیا گیا کہ مسلمان سر پھروں کی طرف کسی کا دھیان نہ گیا۔ فی الحال اس تنظیم کی سرگرمیاں محدود پیمانے پر تھیں۔

یہ سب کچھ تھا مگر اس کے باوجود ان سر پھروں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے کسی مسلمان کا سر جھک جاتا۔ ان سر پھروں نے ہمیشہ ایسے افراد کو نشانہ بنایا جو حقیقتاً معاشرے کا ناسور تھے۔ دیکھا جائے تو یہ سر پھرے وہ کام کر رہے تھے جو ملک کی کوئی دوسری مذہبی یا سیاسی جماعت نہیں کر رہی تھی بلکہ کر ہی نہیں سکتی تھی۔ ہر جماعت کا کوئی قاعدہ ہوتا ہے جس پر وہ عمل کرتی ہے مگر عمران قانونی اصولوں کو توڑ رہا تھا۔ اس کے اپنے اصول تھے۔ اور اس کا سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ جو مسلمانوں سے زندہ رہے کا حق چھیننے کی کوشش کرے اسے جینے کا کوئی حق نہیں۔


  1. ہاتھوں کی محبت

ساگر کی لیلیٰ کو ساگر کی لیلیٰ ہونے پر اعتراض تھا۔ خدا جانے یہ اعتراض ساگر پر تھا، لیلیٰ پر تھا، یا ساگر کی لیلیٰ پر۔ ویسے لیلیٰ ہونے پر کوئی لڑکی اعتراض نہیں کر سکتی۔ بلکہ شاید سبھی لڑکیاں لیلیٰ بننے کی پوری پوری کوشش کرتی ہیں۔ نیلم تو ویسے ہی لیلیٰ نما تھی، سر سے پیر تک لیلیٰ تھی۔ اسے لیلیٰ بننے پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ بلکہ اسے تو زبردستی لیلیٰ بنائے جانے پر بھی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ ہاں اعتراض تھا تو ساگر کی لیلیٰ ہونے پر تھا۔ گویا صاف لفظوں میں کہا جائے تو ساگر پر تھا۔

ساگر پر اعتراض ہونے کی وجہ بھی ظاہر ہی تھی۔ اسے بدنام کرنے والا خط ساگر ہی نے لکھا تھا۔ اس سے مقابلہ ساگر ہی کر رہا تھا۔ محبت میں محبوب کی خاطر قربانیاں دی جاتی ہیں ، محبوب کو نیچا نہیں دکھایا جاتا۔ جب کہ ساگر ہر موڑ پر اسے نیچا دکھا رہا تھا، ہر بار جیت رہا تھا۔ اس کی لیلیٰ اپنی ہار اور ساگر کی جیت پر ہر بار ہی تلملا جاتی۔ اور ہر بار ہی ساگر کے لئے لیلیٰ کے دل میں موجود نفرت پہلے سے کچھ اور بڑھ جاتی۔ جبکہ ساگر اس کی نفرت سے بے نیاز اسے صرف چڑا رہا تھا، جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہا تھا۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو دل لگی کر رہا تھا مگر وہ بھی اس بات سے نا واقف تھا کہ یہ دل لگی دل کو لگ جائے گی اور ایسی لگے گی کہ چھٹائے نہیں چھوٹے گی۔

ساگر کی لیلیٰ اگرچہ جوانی میں قدم رکھ چکی تھی مگر اس کے ذہن سے اتنی پختگی نہیں جھلکتی تھی۔ کہیں کسی گوشے میں بچپن موجود تھا۔ یہ اس کا بچپن ہی تھا جس کے زیرِ اثر وہ اٹھی تھی اور اپنی مختصر سی لائبریری میں سے ایک کتاب نکال لائی تھی۔ وہ اِس کتاب سے بڑی محبت کرتی تھی۔ کتاب بھی محبت ہی کی تھی اور اس کا نام تھا لو اسٹوری۔ یہ کتنا اتفاق تھا کہ لو اسٹوری کی ترکیب بالکل "لیلیٰ کی ساگر" کی سی تھی۔ وہ اس کتاب کو بار بار پڑھتی تھی اور اس میں رکّھے ہوئے ایک کاغذ کو بار بار چومتی تھی۔ کاغذ، جس پر مٹی سے دو ہاتھ بنے ہوئے تھے۔ ہاتھوں کو چومتے چومتے ہوئے اسے وہ لال حویلی کا وہ خود دار بچہ ضرور یاد آتا تھا جو ان کی سفید چمچماتی کار سے ٹکرا کر کار کے بونٹ پر اپنے نشان چھوڑ گیا تھا۔ ہاتھوں کا نقش کاغذ پر دھندلا پڑ گیا تھا۔ اس لئے اس نے پنسل کی مدد سے اس کی لے آؤٹ واضح کر دی تھی۔

نیلم نے کاغذ کی پشت پر اس حادثے کی تاریخ اور مختصر حوالہ بھی لکھا ہوا تھا۔ ان ہاتھوں کو دیکھ کر اس کے والد جو ریمارکس دئیے تھے وہ بھی لکھ دئیے تھے۔ وہ نا دانستہ طور پر اس بچے سے ذہنی طور پر قریب ہوگئی تھی۔ یہ ذہنی قربت اتنی بڑھ گئی تھی اسے کوئی بھی بجا طور پر محبت کہہ سکتا تھا۔

 یہ کیسی ستم ظریفی تھی قسمت کی کہ وہ ہاتھوں سے سخت محبت کرتی تھی اور ہاتھ والے سے سخت نفرت۔ اس کی نفرت اور محبت کا محور ایک ہی شخص تھا ____ عقیل ____ جس کی صورت سے وہ نفرت کرتی تھی اور ہاتھوں سے محبت۔

لیلیٰ نے کتاب کھولی، اپنے پیارے ہاتھوں کا دیدار کیا، آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ پھر وارفتگی سے اسے چوم لیا۔ اس پر بھی صبر نہ آیا تو ہاتھوں کو کتاب میں رکھا اور کتاب کو اپنے سینے سے لگا لیا۔" لوا سٹوری" کتنی خوش قسمت تھی ، لیلیٰ کے دل سے لگی ہوئی تھی۔ ساگر کے دونوں ہاتھ بھی کیسے با مقدر تھے۔ لیلیٰ کا دل انہی ہاتھوں میں تھا ۔ ہاتھوں کی محبت میں لیلیٰ گم تھی کہ اچانک قدموں کی چاپ سن کر چونک پڑی۔ اس نے جلدی سے ہاتھوں والی کتاب کو اپنے سینے سے دور کیا۔ اور اسے ریک میں واپس اس کی جگہ پر سلیقے سے رکھ دیا۔

کرسی پر بیٹھ کر اس نے جلدی جلدی اپنا آنچل درست کیا اور پکار کر بولی:" آئیے ابو جی۔"

" آپ ابھی تک جاگ رہے ہو بیٹا؟" والد کمرے میں آکر بولے

"جی ابو جی! بس۔"

"پڑھ رہی تھیں؟"

"کتاب کھول کر بیٹھی تو تھی ____ " وہ اس بار قدرے بشاشت سے بولی تھی۔" چائے بناؤں ابو جی؟"

"نہیں بیٹا۔"

"کافی؟"

"اس وقت کسی چیز کا موڈ نہیں۔ میں صرف چند باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔"وہ صوفے پر بیٹھ گئے۔

"ضرور ابو جی!"

"بیٹا ____ ہو سکتا ہے ہمیں ایک ہفتے کے اندر اندر یہ کوٹھی چھوڑنا پڑ جائے۔"

"کیوں ابو جی؟" نیلم حیران رہ گئی۔

"جب سے قائدِ اعظم نے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا ہے پورے ہندوستان میں عجیب سی کھلبلی سی مچ گئی ہے۔"

"قائدِ اعظم نے؟" وہ نہ سمجھنے والے انداز میں بولی۔

"ہاں بیٹے، محمد علی جناح کو مسلمانوں نے اپنا قائد اعظم مان لیا ہے۔ کچھ سیاست بھی پڑھ لیا کرو۔ اپنے ملک کی سیاست سے اتنی غفلت بھی کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی۔"

"بس پتا نہیں کیوں مجھے اس میں دلچسپی نہیں۔"

"خیر ۔ تو قائدِ اعظم کے اس مطالبے سے ہندو مشرک سخت ناراض ہیں۔ وہ علاقے جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے ، مسلمانوں کے لئے ریڈ الرٹ ایریاز بن گئے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں ہندو مزے سے رہتے ہیں کیوں کہ مسلمان فسادی نہیں ہوتے۔ مگر ہندو اکثریتی علاقوں سے کچھ اچھی خبریں موصول نہیں ہو رہیں۔"

"اوہ!"

"اور ہم بھی چاروں طرف سے ہندوؤں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل کہ کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آئے ، میں چاہتا ہوں کہ کسی مسلم اکثریتی علاقے میں شفٹ ہو جاؤں۔"

"ہمارے یہاں کے ہندو فسادی تو معلوم نہیں ہوتے۔"

"ہندو نہایت چالباز قوم ہے بیٹا۔ تم نہیں سمجھ سکتیں۔ یہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدل لیتی ہے۔"

"مگر ابو جی ____ " نیلم نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کے والد نے اس کی بات کاٹ کر کہا، " میں جانتا ہوں تمہیں اپنی پڑھائی کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ مگر تم اس کی فکر مت کرو۔ تمہارا کالج نہیں چھوٹے گا۔ فی الحال ہم کسی دوسرے شہر میں شفٹ نہیں ہوں گے۔"

"شکریہ ابو جی۔"

"ویسے بیٹے بائی دا وے تمہارا کہاں تک پڑھنے کا ارادہ ہے؟ سیکنڈ ائیر تک کی تعلیم کافی ہوتی ہے ، خصوصاً لڑکیوں کی۔"

نیلم سمجھ گئی تھی کہ اس کے والد کیا کہنا چاہتے ہیں۔ آج زندگی میں پہلی بار احساس ہوا تھا کہ لڑکی آخر لڑکی ہی ہوتی ہے، بے بس، کمزور اور کسی مضبوط سہارے کی محتاج۔ وہ حقیقت پسند تھی اسی وجہ سے اپنی کمزوری کو تسلیم کرنے میں ملال نہ تھا۔ حقیقت پسندی بھی کتنی بہترین چیز ہے، لیکن ہر ایک کے لئے حقیقت پسند ہونا مشکل ہے۔

"سیکنڈ ائیر تک تعلیم بہت کافی ہوتی ہے ابو جی ۔" نیلم اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی۔

"تو ٹھیک ہے کل سے یہ کوٹھی چھوڑنے کی تیاریاں شروع کرو۔" انہوں نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔


لیلیٰ کا ساگر بالکل ہی نا سمجھ نہیں تھا۔ اس میں کم از کم اتنی تو سمجھ تھی کہ رائے کبیر کی پُر اسرار سرگرمیوں کو نوٹ کر سکتا۔ رائے کبیر تھرڈ ائیر کا طالب علم تھا۔ اس کی دلچسپی غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ تھی۔ بھاری تن و توش کا لڑکا تھا اور دوسروں پر رعب جمانے کے لئے اپنی چند ماہ کی مونچھوں کو بڑے چاؤ سے تاؤ دینا اس کی عادت تھی۔ رکھ رکھاؤ سے وہ غریب گھرانے کا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ چلتا بھی اس طرح تھا جیسے رستم کا بھی باپ ہو۔

عقیل کا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب رائے کبیر نے نیلم کو کسی وجہ سے کاریڈور میں روکا۔ نیلم کوئی اوباش لڑکی نہیں تھی لیکن رائے کبیر کے لچھن کو کسی حد تک اوباشانہ کہا جاسکتا تھا۔ نیلم ہی کی وجہ سے عقیل نے رائے کبیر میں دلچسپی لینا شروع کی تھی۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کے رائے کبیر نے نقلی ساگر بن کر نیلم کو خطوط بھی لکھے تھے جنہیں نیلم نے اس کے سامنے ہی پھاڑ دیا تھا۔ ساگر والا کھیل خود عقیل نے ہی شروع کیا تھا جس سے رائے کبیر فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ حالاں کہ خود نیلم پر بھی یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ اصلی ساگر کون ہے۔

عقیل کی رائے کبیر میں دلچسپی بے جا نہیں تھی۔ چھان بین کرنے پر پتا چلا کہ رائے کبیر کے کئی ہندوؤں سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اب عقیل کا چونکنا ایک لازمی امر تھا۔ رائے کبیر کا نام بھی ایسا تھا کہ اس سے بالکل یہ واضح نہیں ہوتا تھا کہ وہ مسلمان ہے یا ہندو۔ یہ نام ہندوؤں میں بھی ہوتا ہے۔ اب تو عقیل کو رائے کبیر کے مسلمان ہونے پر بھی شبہ تھا۔ اگر وہ ہندو تھا تو اس نے بہت بڑا رسک لیا تھا۔ فرنٹئیر کالج مسلمان شیروں کا تھا اور وہ شیر کی کچھار میں گھس آیا تھا۔

عقیل کا تجسس بڑھتا رہا۔ پھر ایک دن اسے رائے کبیر کے انداز میں پراسرار سی بے چینی نظر آئی جیسے وہ کسی واقعے کا انتظار کر رہا ہو۔ عقیل تو موقع کی تلاش میں تھا، آج شاید وہ موقع آگیا تھا۔

رائے کبیر اندھیرا چھا جانے کے بعد ہاسٹل کے کمرے سے نکلا تھا اور انداز ایسا ہی تھا جیسے باہر جا رہا ہو۔ عقیل بھی تیار ہوگیا۔ رائے کبیر کالج کے ہاسٹل کے احاطے سے باہر آ چکا تھا اور عقیل چھپ چھپ کر اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ رائے کبیر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنی دھن میں چلتا رہا۔ راستے میں وہ کئی افراد سے ملا بھی تھا جو عقیل کے اندازے کے مطابق سو فیصد ہندو تھے۔ اندھیرا پوری طرح چھا گیا تھا مگر رائے کبیر کی رفتار میں کمی نہیں آئی تھی۔

رائے کبیر اب ایک ایسے علاقے میں داخل ہو چکا تھا جو ہندو اکثریت والا علاقہ تھا۔ عقیل ایک لمحے کے لئے ٹھٹھکا مگر پھر تجسس خوف پر غالب آگیا۔ قدرت کی طرف سے قسمت اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ محلّے میں ایک خاموشی طاری تھی اور صرف چند گھروں میں روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ رائے کبیر ایک گھر میں داخل ہو گیا تھا۔

 عقیل بہت دیر اس کے انتظار میں ایک محفوظ جگہ پر کھڑا سوکھتا رہا۔ غالباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہاں سے دوبارہ برآمد ہوا تھا۔ اب عقیل کو پکّا یقین ہوگیا تھا کہ رائے کبیر ہندوؤں کا جاسوس ہے۔ تعاقب ایک بار پھر شروع ہو گیا۔

آدھے گھنٹے بعد عقیل کی آنکھوں کے سامنے ایک کوٹھی کھڑی تھی۔ جس پر 'رحمان منزل' کھدا ہوا تھا۔ عقیل کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔ 'رحمان منزل' کسی ہندو کا گھر نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ یقیناً کسی مسلمان ہی کا گھر تھا جس میں رائے کبیر عقبی جانب سے کود چکا تھا۔

 عقیل سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ رائے کبیر تو اندر گھسا جانے کیا کر رہا تھا۔ آخر عقیل نے فیصلہ کر ہی لیا۔ اس نے اپنے چہرے کو رومال کی مدد سے نقاب کے سے انداز میں چھپایا اور پھر اللہ کا نام لے کر وہ بھی عقبی جانب سے رحمان منزل میں کود پڑا۔ ہلکی سی دھم کی آواز آئی جسے جھینگروں کی ریں ریں نے اپنے اندر جذب کرلیا۔ دور ایک سایہ کوٹھی کے رہائشی حصے کی طرف دبے قدموں جاتا دکھائی دے رہا تھا۔

عقیل نے بھی تیزی دکھائی مگر وہ سایہ بھاری تن و توش کے باوجود عقیل سے زیادہ تیزی دکھا رہا تھا۔ نجانے آج کس کی شامت آئی ہوئی تھی۔ عقیل جب اس کے قریب پہنچا تو رائے کبیر کے سائے نے ایک پر وقار آدمی کی طرف ریوالور تانا ہوا تھا۔

"تمہیں زیادہ کیش نہیں مل سکے گا بیٹے۔" پر وقار شخص کی آواز بھی پر وقار تھی۔" میں اپنی کوٹھی میں زیادہ کیش رکھنے کا عادی نہیں۔"

"تجوری کی چابیاں ____ " رائے کبیر سانپ کی طرح پھنکارا تھا۔ اب عقیل کو پورا پورا یقین ہو چکا تھا کہ رائے کبیر کی اصلیت کیا ہے۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو انگریزی ریوالور مسلمان کے سینے کی طرف نہ تانتا۔ وہ یقیناً ہندوؤں اور انگریزوں سے ملا ہوا تھا۔

"چابیاں میرے بیڈ کی دراز میں ہیں۔"

"چلو ____ " رائے کبیر نے ریوالور کو جنبش دی۔ پر وقار شخص متانت سے چلتا ہوا کمرے میں آگیا۔ پھر بیڈ کی دراز سے تجوری کی چابیاں رائے کبیر کی طرف بڑھائیں۔ رائے کبیر کی ساری توجّہ اس وقت اسی طرف تھی اسی وجہ سے وہ عقیل کو نہ دیکھ سکا جس نے بر وقت چھلانگ لگائی تھی۔

رائے کبیر کے ہاتھ سے ریوالور نکل گیا۔ کراٹے کا دوسرا ہاتھ اس کی گردن پر پڑا تھا۔ پھر تو وہ زخمی سانڈ کی طرح بپھر گیا۔ ادھر عقیل پر بھی دیوانگی طاری تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔ دو پتھر جب ایک دوسرے سے رگڑتے ہیں تو چنگاریاں نکلتی ہیں، دو چٹانیں ٹکراتی ہیں تو بجلیاں کڑکتی ہیں۔ دونوں گرج اور چمک کے ساتھ لڑنے لگے۔

لڑتے لڑتے دونوں کمرے سے باہر نکل گئے۔ عقیل کی پوری کوشش تھی کہ رائے کبیر نکل کر جانے نہ پائے مگر وہ کسی چکنی مچھلی کی طرح اس کی گرفت سے نکل گیا۔ وہ شاید لڑنا نہیں چاہتا تھا اس لئے واپس آنے کے بجائے سیدھا بھاگتا چلا گیا۔

عقیل نے ہاتھ جھاڑے اور تأسف سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی وقت فضا میں ایک زور دار غرّاتی ہوئی سیٹی کی آواز گونج اٹھی۔ عقیل چونک اٹھا مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ کوٹھی کے باہر درجنوں آدمیوں کا شور سنائی دے رہا تھا۔

اسی وقت صدر دروازے کی طرف سے روشنی ابھری۔ عقیل نے سر اٹھا کر دیکھا۔ دروازہ دھڑا دھڑ جل رہا تھا۔

"کیا ہوا ہے ابو جی؟" کوٹھی کے اندر سے کسی لڑکی کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔ عقیل چونک اٹھا تھا۔ وہ شاید قیامت کے شور میں بھی یہ آواز پہچان لیتا۔ وہ نیلم کی آواز تھی۔ ساگر کی لیلیٰ کی!


مذاق تو اکثر لوگ کرتے ہیں مگر ہر ایک کو مذاق کا ذوق نہیں ہوتا۔ کسی کے مذاق پر تو کوئی نہیں ہنستا۔ کسی کسی کو مذاق کے بدلے گالیاں سننی پڑتی ہیں۔ کسی کا مذاق دو کوڑی کا بھی نہیں ہوتا۔ لیکن قسمت ایسا مذاق کرتی ہے کہ انسان سن ہو کر رہ جاتا ہے۔

لیلیٰ کا ساگر دم بخود تھا۔ قسمت نے اسے نقاب پوش دولہا بنا کر، بہادری کا سہرا اس کے سر باندھ کر درجنوں دشمنوں کی بارات کے ساتھ لیلیٰ کے گھر بھیج دیا تھا۔ یہ کیسا حسین مذاق تھا قسمت کا۔ حسین بھی اور سنگین بھی۔

لیلیٰ اپنے والد سے پوچھ رہی تھی، "کیا ہوا ہے ابو جی؟"

"ہندوؤں نے حملہ کردیا ہے بیٹے، جلدی سے میری شکار والی بندوق نکال لاؤ ۔"

لیلیٰ گھبرا کر اندر کی طرف دوڑ گئی۔ اس کے والد نے عقیل کی طرف رخ کیا ، "تم کون ہو بیٹے؟"

"ساگر ____ ایک ہمدرد"

"کیا تم بھی مسلم لیگی کارکن ہو؟"

"یہی سمجھ لیں ۔" عقیل نے کہا۔ اس وقت صدر دروازہ جلتے جلتے دھڑام سے گر پڑا۔ کئی ہندو چیختے چلاتے ہاتھوں میں مشعلیں لئے کوٹھی کو جلا کر راکھ کرنے کے لئے اندر آگئے تھے۔

ہندو جنونی تھے، جو چیز بھی ان کے سامنے آر ہی تھی اسے آگ لگا رہے تھے۔ نیلم کے والد نے اسے اندر کھینچ لیا اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند کردیا۔ عقیل نے پہلی فرصت میں اس ریوالور پر قبضہ جما لیا جو رائے کبیر چھوڑ کر بھاگا تھا۔

نیلم کے والد اسے مختلف کمروں سے گزارتے ہوئے نسبتاً ایک بڑے کمرے میں لے آئے تھے۔ یہاں نیلم موجود تھی۔ جو ایک رائفل دیوار سے اتار رہی تھی۔ ان کے قدموں کی چاپ سن کر نیلم پلٹ پڑی تھی۔

نیلم نے عقیل کو دیکھا تو حیرت زدہ سی رہ گئی پھر اس کے منہ سے بے اختیار نکلا، "ساگر !" تب عقیل کو اندازہ ہوا کہ اس کہ منہ پر بندھے ہوئے رومال کی گرہ کھل گئی ہے۔ اور رومال اس کی گردن میں لٹک رہا ہے۔

"ہاں ____ میں۔" عقیل نے رائفل اتار لی۔

"ہم بری طرح گھر چکے ہیں۔ عنقریب ہندو جنونی ہم تک پہنچ جائیں گے ساگر بیٹا۔"

"ہم ان کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوں گے۔"

"انشاء اللہ عزوجل۔" نیلم کے والد نے شکار کی رائفل ہاتھ میں تھام لی۔

کوٹھی میں ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ اب تو دھواں اس کمرے میں بھی آ رہا تھا جہاں وہ تینوں ایک چھت تلے موجود تھے۔ عقیل تیزی سے ٹیلی فون کی طرف لپکا اور بڑی عجلت سے کسی کے نمبر گھمائے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا تھا۔ وہ عمران کے ڈیرے فون کر رہا تھا۔

"عمران، میں عقیل ہوں۔" عقیل نے جلدی جلدی کہنا شروع کیا ۔" ہندو غنڈوں نے رحمان منزل میں آگ لگا دی ہے۔"

"رحمان منزل میں ؟ کیا تم لیلیٰ کے گھر پہنچ گئے ہو؟ " عمران نے چونک کر پوچھا تھا۔

" ہاں ! رائے کبیر ہندو نکلا۔ باہر پچاس ساٹھ ہندو ہوں گے، زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ تیار ہو کر آنا۔"

"پندرہ منٹ ان کو روک لو" عمران کی آواز سنائی دی۔

"صرف پندرہ منٹ۔ اگر دیر ہوگئی تو ہم میں سے کوئی زندہ ____ " عقیل کا جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا، کسی عیار ہندو نے تار کاٹ دئیے تھے۔

"ہم بری طرح گھر گئے ہیں۔" نیلم کے والد کی پیشانی پر پسینہ چمکنے لگا۔ آگ تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی۔

"نیلم کو ہمارے حوالے کردے مسلم لیگی چمچے۔" باہر سے رائے کبیر کی منحوس آواز سنائی دی ۔" وہ کرنل برنارڈ کی دلہن بنے گی۔" بے ڈھنگے قہقہے سنائی دئیے تو نیلم کے والد سے صبر نہ ہو سکا۔ وہ کھڑکی کے پاس آئے اور ڈل بیرل کی بندوق سے ایک فائر کیا۔ زور دار دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی کسی ہندو غنڈے کی چیخ سنائی دی تھی۔ باہر ایک دم خاموشی چھا گئی۔

"زینہ ____ چھت کا زینہ کہاں ہے؟" عقیل کو اچانک عقل آگئی

"نیلم بیٹا ____ زینہ بتاؤ۔" اس کے والد نے جلدی سے نیلم کو اشارہ کیا۔

"مم ____ میرے پیچھے آؤ۔" نیلم نے گھبراہٹ میں عقیل کا ہاتھ تھام لیا اور اسے کھینچتی ہوئی اندر کی طرف بھاگی۔ اس وقت نیلم کے والد نے ایک اور فائر کیا تھا۔ کسی کی آخری چیز چھناکے کے ساتھ ٹوٹ گئی تھی۔ یہ آخری چیز سانس کی ڈور ی تھی۔

"جلدی آؤ ساگر ۔ " وہ زینے پر اسے کھینچنے لگی۔" میں نہیں سمجھتی تھی کہ رائے کبیر اتنا کمینہ ہوگا۔"

ساگر نے جلدی جلدی زینے طے کئے۔ باہر رائے کبیر کی منحوس آواز آر ہی تھی جو نیلم کا مطالبہ کر رہا تھا۔

"کرنل برنارڈ کون ہے ساگر؟"

"ہوگا کوئی انگریز کا پِلّا۔" عقیل کے لہجے میں دو جہان کی نفرت سما گئی

"اب کیا ہوگا ساگر؟"

"خاموش رہو، مجھے کچھ سوچنے دو۔"

"مجھے ڈر لگ رہا ہے ساگر ____ ابو جی نیچے بالکل اکیلے ہیں۔"

"لیلیٰ پلیز!"

لیلیٰ نے عجیب سی نظروں سے ساگر کی طرف دیکھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ساگر نے اسے لیلیٰ کہا تھا۔ ساگر کو بھی اس لفظ کے وزن کا احساس ہوگیا تھا۔ مگر وہ کرتا بھی کیا؟ اس کے احساسات اس وقت عجیب سے ہو رہے تھے۔ سامنے موت نظر آر ہی تھی، برابر میں لیلیٰ قیامت بن کر کھڑی تھی۔ موت اور قیامت کا تصور اچھے اچھوں کے قدم ڈگمگا دیتا ہے۔ مگر وہ بھی ساگر تھا، اپنے قدموں پر تنا کھڑا تھا۔ ہندو کوٹھی کو آگ لگا رہے تھے اور ایک آگ اس کے اندر بھی جل اٹھی تھی۔ یہ عجیب سی آگ تھی دھیمی دھمی سی۔ لیلیٰ کو اتنے قریب سے پہلی مرتبہ دیکھ کر وہ سب کچھ بھول گیا تھا۔ صرف لیلیٰ ہی آنکھوں کے سامنے تھی۔

"لیلیٰ ____ " اس کی جذبات میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری۔

"ہوں؟"

"ایک بات کہوں؟"

"کہو۔"

"مانو گی ناں۔"

"کہہ بھی چکو۔"

"اپنی آنکھیں بند کر لو پلیز"

لیلیٰ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ساگر نے اس کے بائیں ہاتھ کو تھاما اور پھر اپنے ہونٹ تک لے گیا۔ بڑی دیوانگی تھی اس کے پیار میں۔ لیلیٰ نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ ساگر گڑبڑا گیا تھا۔

"تم پر پھر 'ساگر پن' کا دورہ پڑا ہے۔" لیلیٰ نے غصہ دکھایا۔ اب اپنے غصے کی حقیقت تو وہی جانتی تھی۔ ساگر بے چارہ کیا جانتا۔ وہ تو صرف اتنا جانتا تھا کہ جذبات میں آکر اس نے اپنی لیلیٰ کے ہاتھوں پر اپنے پیار کی نشانی ثبت کردی ہے۔ یہ کیسا حسین اتفاق تھا، بالکل لیلیٰ کی طرح حسین، کہ بچپن میں وہ لیلیٰ کے پاس اپنے ہاتھوں کی نشانی چھوڑ آیا تھا اور آج اس نے خود لیلیٰ کے ہاتھوں پر اپنے پیار کی مہر لگا دی تھی۔ ہاتھوں کی محبت بھی کتنی پیاری تھی۔ لیلیٰ ساگر کے ہاتھوں سے محبت کرتی تھی، چوم کر سینے سے لگاتی تھی۔ ساگر لیلیٰ کے ہاتھوں سے محبت کرتا تھا، اپنے ہونٹوں سے لگا کر چومتا تھا۔

ہاتھوں کی محبت زیادہ دیر نہ چل سکی۔ کوئی ہندو منمناتا ہوا دوسری منزل پر آگیا تھا۔ لیلیٰ نے چوڑیوں والا ہاتھ کھینچ لیا۔ ساگر نے ریوالور والا ہاتھ اٹھایا اور فائر کردیا۔ جنونی ہندو کی آخری چیخ سنائی دی۔ پھر ہندو لاش بن کر اپنے مردہ ساتھیوں میں جا گرا

لیلیٰ خوف سے لرز رہی تھی۔ اس نے ایسا خونی ڈرامہ آج تک نہیں دیکھا تھا۔ عقیل کا تیسرا روپ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ اس روپ میں وہ معصوم سا طالب علم عقیل تھا، نہ ہوشیار ساگر۔ وہ کوئی بھیڑیا لگ رہا تھا، شکار کرنے والا اور شکار کو پھاڑ کھانے والا۔ اس کے کتنے روپ تھے۔ لیلیٰ سوچ رہی تھی کہ ابھی ساگر کے روپ میں پھول کی طرح مہکنے والا اچانک ہی بھڑکتا ہوا شعلہ کیسے بن گیا؟ لیکن لیلیٰ کو اس کا یہ روپ بہت پسند آیا تھا کیوں کہ وہ لیلیٰ کی خاطر شعلہ فشانی کر رہا تھا۔

ایک ہندو کی موت کے بعد دوسرا ہندو چڑھ آیا۔ یہ پہلے والے سے زیادہ چالاک تھا۔ گولی کھا کر گرنے سے پہلے اس نے مشعل اندر اوپری پردوں کی طرف پھینک دی تھی۔ پردے جلنے لگے۔ آگ تیزی سے پھیلی جا رہی تھی اور پوری کوٹھی کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ صرف اندرونی حصہ ہی ایسا بچا تھا جو آگ سے محفوظ تھا۔

"ہمارا بچنا بہت مشکل ہے ساگر ۔" لیلیٰ گھبرا کر رونے لگی۔

"نہیں لیلیٰ ، ہم زندہ رہیں گے۔" ساگر پورے یقین سے کہہ رہا تھا ، "ہمیں ابھی تھوڑی ہی دیر میں کمک ملنے والی ہے۔"

اسی وقت نیلم کے والد لڑکھڑاتے ہوئے اوپری منزل کی طرف آگئے۔" انہوں نے نچلی منزل کی طرف قبضہ کرلیا ہے بیٹا۔"

"ابو جی ۔ " نیلم دوڑ کر اپنے والد صاحب کے پاس گئی جن کی کہنی خون سے تر بتر تھی۔

"زینہ۔ ساگر بیٹے زینہ!"

عقیل نے بر وقت ایکشن لیا تھا۔ کئی ہندو دھپ دھپ کرتے زینہ طے کر رہے تھے۔ عقیل کے ریوالور نے ایک شعلہ اگلا۔ ایک منمناتی ہوئی چیخ سنائی دی۔ باقی ہندو بوکھلاہٹ میں الٹے قدموں نیچے گر گئے تھے۔

"ساگر بیٹا، اگر تمہیں موقع مل سکے تو میری فکر مت کرنا۔ فوراً یہاں سے نکل جانا۔ پٹنہ میں میری ایک کوٹھی نیلم کے نام ہے۔ یہ تمہارا ایک اور احسان ہوگا میری ذات پر۔"

"ابو جی۔" نیلم چیخ پڑی۔

"نیلم کو ہمارے حوالے کردے لیگی چمچے۔" نیچے سے ایک بار پھر رائے کبیر نے دھمکی دی۔" ورنہ کرنل برنارڈ کے آدمی تیرا نام و نشان تک مٹا دیں گے۔"

"موت تیری طرف بڑھ رہی ہے رائے کبیر۔" عقیل نے بھی طیش میں جواب دیا۔" عنقریب تیری چِتا کو بھی جلا دیا جائے گا۔"

"رائے کبیر کو تو نیلی چھتری والا بھی نہیں مار سکتا۔" اس کے زہریلے قہقہے آگ میں بلند ہونے لگے۔

رائے کبیر نے کلمۂ غرور کہا تھا۔ غرور نہ تو اللہ کو پسند ہے نہ بندوں کو۔ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ اس کا سر نیچا ہونے کا وقت بھی آگیا تھا۔ کسی نامعلوم سمت سے زور دار آواز میں گولی چلی ، رائے کبیر کے ایک کان میں داخل ہو کر اتنی آسانی سے دوسرے کان میں سے نکل گئی جیسے دونوں کان کے درمیان کچھ نہ ہو۔

رائے کبیر کی کھوپڑی خالی تھی، اگر نہیں تو اب ہوگئی تھی۔ غرور کرنے والے کی کھوپڑی اسی طرح خالی ہوتی ہے۔ اس کے غرور کا سر ہمیشہ کے لئے نیچے ہوگیا۔ وہ کٹے ہوئے شہتیر کی طرح دھم سے زینوں کے نیچے گر گیا۔ مغروروں کا سر نیچے کرنے والا آگیا تھا۔

چاروں طرف سے گولیاں چلنے لگیں۔ نیلم کی آگ میں گھری ہوئی کوٹھی سچ مچ میدانِ جنگ بن گئی تھی۔ آگ، خون، چیخیں ، لاشیں ____ ہر طرف میدانِ کار زار کا سماں تھا۔

اسی وقت زینوں پر کسی کے دوڑنے کی آواز آئی۔ عقیل تیزی سے اس کی طرف لپکا تھا۔

"خبردار گولی مت چلانا۔ یہ میں ہوں___ عمران۔" عمران نے چیخ کر کہا تھا۔ ذرا دیر بعد وہ بھی اوپر تھا۔ وہ اپنے ساتھ پانی میں بھیگے ہوئے چند کمبل بھی لایا تھا۔" جلدی کرو۔" اس نے عقیل کی طرف کمبل اچھالتے ہوئے کہا۔" ہمارے پاس وقت کم ہے۔ ان کو کمک ملنے والی ہے۔" عقیل نے جلدی جلدی بھیگے ہوئے کمبل نیلم اور اس کے والد کو اوڑھائے اور خود بھی تیار ہوگیا۔

"میرے پیچھے آؤ۔" عمران نے چلاّ کر کہا۔" میں اپنی ٹیم کے لڑکوں کو سب کچھ سمجھا کر آیا ہوں۔ وہ ہمارے لئے راستہ بنا چکے ہوں گے۔"

وہ تینوں اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ واقعی اس نے درست کہا تھا کہ وہ اپنی ٹیم کے لڑکوں کو سمجھا کر آیا ہے۔ وہ اس انداز سے فائرنگ کر رہے تھے کہ کوٹھی کا عقبی حصہ بالکل صاف ہوگیا تھا۔ چاروں بہ حفاظت کوٹھی سے نکل آئے۔ وہاں حق و باطل کی جنگ اب تک جاری تھی بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ دوڑتے رہے یہاں تک کہ ہندوؤں کا علاقہ ختم ہوگیا تھا۔ اب وہ خطرے سے باہر تھے۔

"یہ سڑک سیدھی میرے ڈیرے جاتی ہے۔" عمران نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔" وہاں مظفر نام کا ایک لڑکا تیار ہوگا۔ آپ جہاں کہیں گے وہ آپ کو پہنچا دے گا۔ اب میں واپس جاؤں گا۔ میرے بغیر میری ٹیم زیادہ دیر تک نہیں لڑ سکتی۔ ایک لڑکا پہلے ہی شدید زخمی ہو چکا ہے۔"

وہ رکا نہیں، فوراً ہی چلا گیا۔ نیلم نے مڑ کر ایک نظر اپنی کوٹھی کو الوداعی نظروں سے دیکھا پھر منہ پھیر لیا۔ ہندوؤں نے کتنی جلدی اپنا رنگ بدل لیا تھا۔ گرگٹ کہیں کے!


  1. گستاخِ رسول ﷺ کو قتل کرو

وقت گزر رہا تھا۔ یہ کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا، ہاں مناسب وقت کا انتظار کرتے کرتے لوگ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔

عمران اُن دونوں کو دیوانوں کی طرح تلاش کر رہا تھا___ اپنی منگیتر کو اور اسے زندہ درگور کرنے والے لعنتی سکھ جگ جیت کو۔ مگر وہ اپنے تمام ذرائع استعمال کرنے کے باوجود بری طرح ناکام رہا تھا۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں ڈھونڈنے کے باوجود اسے اپنی نرگس کی کوئی اطلاع نہیں مل سکی تھی۔ خدا جانے اسے زمین نکل گئی تھی یا وہ خود ہی زمین میں چلی گئی تھی۔ نرگس کا خیال اسے تڑپا دیتا تھا۔ جدائی محبت میں ڈھل گئی تھی۔

'پیر پور' میں عمران کے ننھیالی رشتہ دار رہتے تھے۔ ان میں کئی جوان لڑکے بھی تھے۔ ایسے لڑکے جو عمران کی ٹیم کے لئے موزوں تھے۔ عمران اپنی ٹیم کو پھیلانا چاہتا تھا اس لئے ایک طویل سفر کرنے کے بعد پیر پور پہنچا تھا۔ دو دن تو رشتہ داروں سے ملتا رہا پھر اپنے عم زادوں(کزنز) کو لے کر لسّی پلانے کے بہانے اپنی جیپ میں بٹھا کر گھر سے باہر لے آیا تھا۔

 روڈلا لسی فروش کے چھپر تلے جب اس کی جیپ رکی تو کئی آنکھیں ان کی طرف اٹھ گئیں۔ باہر کی چار پائیوں پر بیٹھے کئی افراد ان کو گھورنے لگے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ ہر نئی چیز کو لوگ گھورا ہی کرتے ہیں۔

لسّی فروش کا چھپر روڈ کے کنارے پر تھا۔ سڑک کے دوسرے کنارے پر کچھ دور ہٹ کر بارش کا پانی پڑا تھا اور پانی سے ذرا کچھ اور دور ہٹ کر کچرے کا ایک ڈھیر بھی تھا۔ اہمیت کچرے کے ڈھیر کی نہیں تھی جس کا ذکر کیا جائے۔ اہمیت اس دیوانی کی تھی جو روز کی طرح آج بھی کچرے کے ڈھیر پر آئی ہوئی تھی۔

دیوانی کا لباس میلا چیکٹ تھا، زلفیں پریشان تھیں، رنگ جھلس گیا تھا اور لباس میں درجنوں پیوند لگے ہوئے تھے۔ دیوانی کے ہونٹ خشک اور آنکھیں ویران تھیں۔ شاید کئی روز سے بیمار بھی تھی مگر علاج نہیں کرایا تھا۔ کراتی بھی کہاں سے؟ علاج کرانے کے لئے کرارے نوٹ اس کے پاس نہیں تھے۔ وہ روزانہ کچرے کے مختلف ڈھیروں کے پاس آتی ، گھنٹوں بد بو دار کوڑے کے کرکٹ میں کوئی کام کی چیز تلاش کرتی رہتی کوئی چیز مل جاتی تو کچھ آسرا ہو جاتا، اسے بیچ کر دو وقت کا کھانا مل جاتا۔ نہ ملتی تو سڑی بُسی چیزیں ہی کھا لیتی۔

عمران انجن بند کر کے جب جیپ سے اترا تو دور کھڑی کچرے والی دیوانی کی ویران نظریں اور اداس چہرہ اس کی طرف اٹھا۔ آہ! ساری کائنات اس دیوانی کی نظر میں گھوم گئی۔ بیتی ہوئی یادوں کی ساری فلم ایک ہی لمحے میں چل گئی۔ اس نے نہایت دھیمی آواز میں پکارا، "عمران۔ عمران" مگر اس کی آواز صرف اسی کے کانوں نے سنی تھی۔

عمران ٹیم ورک کو بڑھانے کی تجاویز پیش کر رہا تھا۔ اور دیوانی کے دونوں ہاتھ بڑی بے تابی سے اپنے دل کو مَسل رہے تھے۔ یہ کیسی بے بسی تھی۔ اس کا منگیتر اس کے سر کی مانگ کی سیدھ میں بیٹھا تھا۔ مگر ان دونوں کے بیچ میں کالے مسّے والا جگ جیت حائل تھا۔ وہ اپنے ہی منگیتر کو اپنا نہیں کہہ سکتی تھی۔ عمران ہی سے منہ چھپانے کے لئے اس نے اپنا شہر چھوڑا تھا۔ پھر گردشِ زمانہ نے کسی بھنورے کی طرح اس کا سارا رس چوس لیا تھا۔ اب اس کے پاس تھا ہی کیا سوائے جھلسی ہوئی رنگت اور دکھتی ہوئی ہڈیوں کے؟ اب وہ عمران کے پاس جا کر کیا کرتی۔ وہ تو نرگس کا پھول تھی جسے شاید ہزاروں سال اپنی بے نور آنکھوں پر رونا تھا۔

عمران اٹھا تو نرگس کا اٹھا ہوا سر جھک گیا۔ وہ جیپ میں بیٹھا تو نرگس کے دونوں ہاتھ اٹھ گئے ____ دعا کے انداز میں۔ جیپ کا انجن اسٹارٹ ہوا تو نرگس کی آواز بھرّا گئی۔ جیپ کے پہیے حرکت میں آئے تو دیوانی کی آنکھوں کے بادل برس اٹھے۔ وہ بہت دن بعد رو رہی تھی۔ جب کوئی اپنا بچھڑتا ہے تو رونا آ ہی جاتا ہے۔

"یا اللہ! میرے عمران کو سلامت رکھنا، اسے ہر پریشانی سے بچانا، اسے ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھنا۔ یا اللہ! اس پر آنے والی ہر بلا کو مجھ پر نازل کرنا۔"

عمران چلا گیا، دیوانی ہنس پڑی۔ یہ کوئی ہنسنے کا موقع نہیں تھا۔ مگر وہ دیوانی تھی، دیوانی کیا جانے کب کیا کرنا ہے؟ البتہ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب وہ اپنے آپ کو سنبھال کر رکھے گی ، تاکہ وہ اپنے عمران کو دوبارہ دیکھ سکے!


ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے، کالے مسّے والا خبیث جگ جیت کیوں نہ ملتا۔ اس کی ٹیم کے بھی کامیابی کا سہرا بندھ گیا۔ مظفّر نے رام پور میں اسے دھونڈ نکالا۔ جگ جیت اپنے علاقے کا مشہور غنڈہ تھا۔

وہ منگل کی ایک خون آشام رات تھی۔ جب عمران اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ اس کے گھر میں کودا تھا۔ آدھی رات کے وقت کون جاگتا ہوا ملتا، سب ہی خوابِ خرگوش میں خرّاٹے بلند کر رہے تھے۔

اس گھر میں صرف پانچ افراد تھے، دو بوڑھے میاں بیوی، دو جوان لڑکیاں اور ایک کالے مسّے والا منحوس جگ جیت۔ عمران نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا۔ فوراً ہی بڈھا بڈھی اور دونوں جوان لڑکیوں کو باندھ دیا گیا۔ جگ جیت دوسرے کمرے میں تھا۔

بوڑھا آدمی اور اس کی عمر رسیدہ بیوی حیرت سے منہ بند کئے یہ کاروائی دیکھ رہے تھے۔ زبان کھولنے کی ممانعت تھی۔ صحن میں ستونوں کے ساتھ انہوں نے دونوں کو باندھ دیا۔ لڑکیوں کے صرف ہاتھ باندھے گئے۔ پھر عمران جگ جیت کے کمرے میں داخل ہوا اور سوتے ہوئے جگ جیت کو ایک زور دار ٹھوکر مار کے بولا " موت کا استقبال کر جگ جیت!"

"کون ہے؟" جگ جیت غرّاتا ہوا اٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ سرہانے دھری ہوئی پگڑی کی طرف گئے مگر عمران کو ریوالور بدست دیکھا تو اس کے ہاتھ سے میلی پگڑی چھوٹ گئی۔

"کون ہو تم؟" اس نے کڑک دار آواز میں پوچھا۔

"ایک لٹنے والی کا انتقام!" وہ اس سے بھی زیادہ کڑک دار آواز میں دہاڑا۔" میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔"

عمران ریوالور کے زور پر اسے صحن میں لے آیا۔ اسے دیکھتے ہی ایک لڑکی تڑپ کر بولی تھی، "چھوڑ دو جگ جیت بھیّا کو۔"

"یہ کسی کا بھائی بننے کے قابل نہیں ہے ۔" عمران پھنکارا تھا۔" باندھ دو اس خبیث کو بھی۔"

جگ جیت کو بھی ایک ستون سے باندھ دیا گیا۔ اس نے مزاحمت کے لئے بہت ہاتھ پیر مارے تھے مگر عمران نے ریوالور اس کی بہن طرف تان لیا تھا۔

اس کی آنکھوں میں لٹی ہوئی نرگس کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ خدا جانے وہ کہاں تھی، کس حال میں تھی۔ اگر آج وہ وہاں ہوتی تو اپنی تباہی کا انتقام خود لیتی۔

"جگ جیت کو کھول دو پلیز !" دوسری لڑکی گھگیائی تھی، " اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟"

"اس نے تو جو بگاڑنا تھا بگاڑ لیا۔ اب تو ہم آئے ہیں جگ جیت کی ہر چیز بگاڑنے کے لئے۔" عمران نے لڑکیوں کی طرف قدم بڑھائے۔

"کمینے اگر میری بہن ، میرے باپ اور میری منگیتر کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو میں تمہاری آنکھیں پھوڑ دوں گا۔" وہ دہاڑا تھا

"منگیتر ____ ؟" عمران نے قہقہہ لگایا تھا۔" وہ بھی میری منگیتر ہی تھی۔"

"کون؟"

"نرگس!"

"نرگس؟"

"ہاں ____ اور اسے لوٹنے والے بھی ہماری طرح چار ہی تھے۔" وہ ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔

"ٹھہر جاؤ ، میرے آدمی تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔"

"اور ہاں ____ انہوں نے بھی میری منگیتر کے ماں باپ کو درختوں سے باندھا تھا جیسے آج تم بندھے ہوئے ہو۔" وہ ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔

"میں تمہاری تکّہ بوٹی کردوں گا۔"

"ان چاروں نے بھی میری منگیتر کے پاک دامن کو چاک کیا تھا۔"

"رک جا خبیث ، کیوں موت آئی ہے؟"

"تم نے بھی اس کے ماں باپ کو یہ گندا منظر دیکھنے کے لئے مجبور کیا تھا جگ جیت خبیث۔" عمران دہاڑ رہا تھا ، "آج ہم تمہیں مجبور کریں گے۔"

"رک جاؤ ____ میری منگیتر کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، مُسلے ____ ملیچھ۔" اس کی بانچھوں سے کف بہنے لگا۔

"تم نے بھی میری منگیتر کو ہاتھ لگایا تھا ، تم چاروں نے اس لئے ہم بھی چار ہی آئے ہیں۔"

"میں تمہیں جان سے مار دوں گا حرام کے پلّے !!" جگ جیت کی آواز پھٹ گئی۔

"حرام کا پلاّ وہ حرامی تھا جس نے میری نرگس کو زندہ درگور کیا تھا۔" عمران اس کی زمین پر گری ہوئی منگیتر کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا۔ لڑکی کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹی ہوئی تھیں۔ وہ عمران سے بھیک مانگ رہی تھیں، اپنی سلامتی کی بھیک۔

"اپنے کالے کرتوت اپنی زبان سے بتا جگ جیت، بتا ان سب کو کہ تو نے اپنے تین گُرگوں کے ساتھ مل کر میری منگیتر کے ساتھ کیا ظلم کیا تھا۔" عمران دہاڑ رہا تھا۔ برسوں سے جس آگ میں وہ جل رہا تھا آج وہ آگ ہر چیز کو جلانے پر تلی ہوئی تھی۔ یہ کیسا بھیانک اتفاق تھا کہ جگ جیت کی منگیتر آج صبح ہی آئی تھی اور آج رات ہی عمران اپنی منگیتر کا انتقام لینے پہنچ گیا تھا۔

"کیا نام ہے ری تیرا؟ " عمران نے اس کی منگیتر سے سوال کیا۔ اس کا انداز اس قصائی کا سا تھا جو ذبح سے پہلے جانور کو پانی پلا رہا ہو۔

"اس نے تیرا کیا بگاڑا ہے مردود ؟" جگ جیت کی آواز بھیک مانگنے لگی تھی۔" تیرا مجرم میں ہوں۔"

"دنیا کے ہر قانون میں آنکھ کا بدلہ آنکھ ہے، کان کا بدلہ کان، خون کا بدلہ خون ہے، جان کا بدلہ جان۔" عمران کہہ رہا تھا۔" تو نے میری منگیتر کی عزّت اور پارسائی کا خون کیا ہے جگ جیت۔ میں اس کی عزّت کا بدلہ لینے آیا ہوں۔"

جگ جیت کی شقاوت بھری پیشانی پر ذلّت کا پسینہ چمکنے لگا۔ اس کی دانست میں عزّت کا بدلہ عزّت تھا مگر وہ اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن اگر عمران کے ساتھی اسے بے عزت کرنے پر تُل جاتے تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے۔

عمران اس لڑکی کی طرف بڑھا۔ اس کی کلائی کی رسی پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔ جگ جیت زخمی کتے کی طرح کف اڑا رہا تھا، مگر عمران اس سے بے نیاز لڑکی کی بندھی ہوئی رسیاں کھول رہا تھا۔ لڑکی کا چہرہ خوف سے سفید پڑ گیا تھا۔ عمران پر اگرچہ جنون طاری تھا مگر اس جنون میں بھی اس نے اس نے اُس آواز کو سن لیا تھا جو اس کے دل کی گہرائیوں سے اٹھی تھی۔ کوئی قوّت اس کے رحمت والے پیارے نبی کا رحمت بھرا فرمان یاد دلا رہی تھی "بیٹی سب کی بیٹی ہوتی ہے؛ چاہے یہودی کی ہی کیوں نہ ہو۔"

اچانک اس کی حالت میں بہت بڑا تغیر رونما ہوا وہ کمرے میں گیا ور وہاں سے دو چادریں لے آیا۔ ایک جگ جیت کی بہن کے بدن پر ڈال دی اور دوسری اس کی منگیتر کے سر پر اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

"میرے نبی نے تجھے بچا لیا جگ جیت، وہ آنسوؤں کے درمیان بولا تھا " میرا نبی سب کے لئے رحمت بن کر آیا ہے۔ میرے نبی نے فرمایا ہے کہ "بیٹی سب کی بیٹی ہوتی ہے چاہے یہودی کی ہی کیوں نہ ہو۔" تیری منگیتر بھی تو کسی کی بیٹی ہے جگ جیت۔"

جگ جیت کا دل چوٹ کھا گیا۔ تھوڑی دیر پہلے جس شخص کو وہ شیطان سمجھ کر گالیاں دے رہا تھا وہ تو فرشتہ نکلا۔ مسلمان کتنے با عظمت ہوتے ہیں کبھی اپنے نبی کو نہیں بھولتے۔ جگ جیت سوچ رہا تھا ابھی جو بات عمران نے کہی ہے ایسی پیاری بات تو کبھی میرے گرو نے بھی نہیں کہی۔ واقعی مسلمانوں کا نبی ساری کائنات کے لئے نجات دہندہ بن کر آیا ہے۔

"تیری منگیتر کی خاطر میں تجھے معاف کرتا ہوں جگ جیت۔ شاید اسی نیکی کے صلے میں مجھے میری منگیتر واپس مل جائے۔" وہ اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ گیا۔" چلو۔ اذان کا وقت ہونے والا ہے۔" وہ سب رام پور سے واپس ہو لئے۔

اس رات پہلی مرتبہ جگ جیت کے سمجھ میں آیا کہ مسلمان ہر روز پانچ مرتبہ اشہدُ انَّ مُحَمَّدً الرّسُول اللہ کیوں کہتے ہیں۔


انہی دنوں ایک ہندو نے اپنا ازلی کمینہ پن دکھایا۔ اس کا نام راج پال تھا۔ راج پال نے ایک منحوس کتاب لکھی۔ کتاب کا نام ہی راج پال کی ہندوانہ طبیعت کا آئینہ دار تھا۔ رنگیلا رسول (معاذ اللہ) نامی اس کتاب میں اس کمینے ہندو راج پال نے ہندوؤں کا گویا نمائندہ بن کر اپنی خباثت کا اظہار کیا تھا۔ کتاب میں گستاخی اور بے ادبی کی انتہا کردی تھی۔

برّ عظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے سینے اس کتاب نے چھلنی کر دئیے تھے۔ ایک زمانے میں علامہ اقبال مرحوم نے مسلمانوں کی اپنے نبی کی والہانہ محبت اور عقیدت کے بارے میں ان کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا؛

"جو قوم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی ان کے پیارے نبی کے جِسم کے کپڑوں کو میلا کہے، وہ مسلمان اپنے پیارے نبی کی توہین اور گستاخی کب برداشت کر سکے گی۔"

علامہ نے بڑی پیاری بات کہی تھی۔ مسلمان اپنی جان تو دے سکتا ہے، اپنے نبی کی ذرا سی توہین برداشت نہیں کر سکتا، وہ اپنے نبی کے نام پر مٹ تو سکتا ہے مگر ان کے نام کو بٹّا لگتے نہیں دیکھ سکتا۔

پورا ہندوستان سراپا احتجاج بنا ہوا تھا۔ ہر مسلمان غیض و غضب کی تصویر بنا ہوا تھا۔ ہندو خوفزدہ تھے کیوں کہ پورے ملک میں ہر طرف مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے:

رسول کے گستاخ کا ____ تلوار سے سر کاٹ دو

گستاخِ نبی کو ____ قتل کرو

گستاخِ رسول ____ واجب القتل

راج پال گستاخِ رسول ____ گستاخِ رسول کو قتل کرو

شاتمِ رسول کو ____ موت کی سزا ملے ( ﷺ )

راج پال ان نعروں سے خوفزدہ تھا۔ ہندو بھی لرز رہے تھے اور مسلمان ___ اللہ کے شیر ___ہر طرف دھاڑ رہے تھے۔ عمران سخت طیش میں تھا۔ وہ راج پال کا سر کاٹنا چاہتا تھا۔ اس کی ٹیم بھی اپنی ساری سرگرمیاں چھوڑ کر راج پال کو ٹھکانے لگانے کے چکر میں تھی۔ عمران نے اپنے پاس ایک خنجر رکھنے کی عادت بنا لی تھی تاکہ جیسے ہی راج پال سے سامنا ہو ، وہ اس کی گندی زبان کو کاٹ کر پھینک دے۔

راج پال جانے کہاں چھپ گیا تھا۔ عمران کی ٹیم اسے دیوانوں کی طرح تلاش کر رہی تھی۔ اور عمران یہ دعا مانگ رہا تھا کہ یہ سعادت اسے ملے۔ وہ سر عام راج پال کا سر کاٹنا چاہتا تھا، ہندوؤں کے سامنے، مسلمانوں کے سامنے، ہر ایک کے سامنے تاکہ ساری دنیا ____ مشرق سے لے کر مغرب تک کا ہر فرد جان لے کہ مسلمانوں کے نبی کی توہین کی سزا موت ہوتی ہے۔

وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے راج پال کو قتل کردیا تو انگریز گورنمنٹ اسے پھانسی پر چڑھا دے گی۔ مگر اسے پھانسی سے خوف نہیں تھا، کیوں کہ

غلامانِ محمد ﷺ جان دینے سے نہیں ڈرتے

یہ سر رہ جائے یا کٹ جائے وہ پرواہ نہیں کرتے

اس کی آرزو تھی کہ راج پال کو قتل کر کے پھانسی پر چڑھ جائے۔ مگر یہ اس کے نصیب میں نہیں تھا۔ شہادت اللہ کی دین ہے، اسے ہی ملتی ہے جسے پروردگار یہ رتبہ دینا چاہتا ہے۔

چند دنوں بعد اطلاع ملی کہ علم الدین نامی کسی دیوانے نے راج پال اس کی کو گستاخی کی سزا دے دی۔ عِلَم دین ایک عام سا لڑکا تھا مگر مسلمانوں نے اسے سر کا تاج بنا لیا تھا۔ انگریز گورنمنٹ نے اسے گرفتار کرلیا تھا اور مختصر سے مقدمے کے بعد پھانسی کی سزا سنائی تھی۔

علم دین پہلے کوئی پکا مسلمان نہیں تھا، اس کے تو پہلے داڑھی بھی نہیں تھی۔ مگر واہ ری قسمت! رسول کریم اس کے خواب میں تشریف لے آئے تھے۔ پروردگار کس کس بہانے سے لوگوں کو نوازتا ہے۔ جیل میں اس کی عزّت اور بڑھ گئی۔ وہ بے قصور تھا مگر اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ کہتے ہیں پھانسی والے دن بھی وہ کسی کے جلووں میں گم مسکرا رہا تھا۔ اور پھانسی کا پھندا بھی اس نے اپنے ہاتھوں سے گلے میں ڈالا تھا۔ جانے کس سے ملنے کی جلدی تھی۔ اسی کو تو محبت کہتے ہیں، اسے پھانسی ہو گئی۔

وہ شہید تھا مگر اس نے غازیوں کی طرح میدان مارا تھا اس لئے کچھ مسلمان اسے غازی کہتے تھے اور کچھ شہید، دونوں ہی سچے تھے اس لئے اسے غازی علَم دین شہید کہا جانے لگا۔ اے علَم دین! تو اپنے مقدّر پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔

جس روز علم دین کو پھانسی ہوئی اس دن عمران کا عجیب عالم تھا۔ پہلے تو وہ بے حد خوش ہوا تھا کہ کسی جیالے نے گستاخِ رسول کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ پھر اس کی آنکھوں سے اپنی محرومی پر دو آنسو ٹپکے تھے۔ اس نے شہادت کی دعا مانگی تھی، راج پال کو قتل کرنے کی دعا مانگی تھی مگر یہ دعا علم دین کے حق میں قبول ہو گئی تھی۔

یہ اس کی دَین ہے، جسے پروردگار دے


  1. ہجرت بہت کٹھن

لیلیٰ پٹنے میں آگئی۔ پٹنے میں اس کی ایک زبردست کوٹھی تھی۔ کئی ملازم بھی تھے۔ علاقہ بھی مسلمانوں کا تھا۔ یہاں کوئی ایسا خوف نہیں تھا کہ ہندو اکیلا سمجھ کر حملہ کردیں گے۔ پٹنہ میں بڑے جی دار مسلمان رہتے تھے۔

عقیل بھی پٹنے آگیا۔ اَلور میں اس کا اب تھا ہی کون۔ والد، بھائی اور بہن تو شہید ہوگئے تھے۔ شکیل اپنے بیوی بچوں کو لے کر دوسرے شہر چلا گیا تھا۔ اسے اپنے چھوٹے بھائی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ لال حویلی کے دروازے میں بڑا سا تالا پڑ گیا تھا۔ عقیل نے اپنی مسجد کے پیش امام کے نام ایک خط لکھا کہ وہ لال حویلی کو مسجد کے لئے وقف کردے۔ در حقیقت وہ حویلی اسی کے نام تھی۔ اس طرح لال حویلی ایک بڑے مدرسے میں تبدیل ہوگئی۔

پٹنے میں اس نے ایک چھوٹا سا مکان حاصل کر لیا۔ اس کے گھر سے لیلیٰ کی کوٹھی صاف نظر آتی تھی۔ کبھی کبھار لیلیٰ کسی کام سے دوسری منزل پر آتی تو عقیل اس کے دیدار کا موقع مل جاتا۔ وہ روز بروز حسین ہوتی جا رہی تھی۔ وہ تو خوب صورتی میں پہلے ہی لیلیٰ جیسی تھی۔ اب شاید لیلیٰ کو بھی مات دینا چاہتی تھی۔

عقیل ہندوستان کی سیاست سے بے خبر نہیں تھا۔ مسلم لیگ عروج پر تھی۔ ۱۹۴۵ میں عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی تمام نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اس نے کانگریس کے اس نظریئے کو غلط ثابت کر دیا کہ وہ پورے ہندوستان کی نمائندہ جماعت ہے۔ حکومت برطانیہ نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا کہ مسلمانوں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ عبوری حکومت کی تشکیل میں وائسرائے نے قائد اعظم نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ کابینہ میں وزرا کی تعداد ۱۲ ہو گی جس میں مسلم لیگ اور کانگریس کو برابر نمائندگی دی جائے گی۔ بعد ازاں وائسرائے نے کانگریس کی ایما پر ۱۴ نمائندوں پر مشتمل کابینہ کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی وائسرائے نے یہ بھی کہہ دیا کہ دونوں بڑی جماعتوں میں جو اس تجویز کو قبول کرے گا اسے کابینہ بنانے کی دعوت دی جائے گی۔ کانگریس نے سکھ عیسائی وزرا کی مخالفت کی۔ مسلم لیگ نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور وائسرائے سے اپنا وعدہ پورا کرنے کو کہا مگر وہ اپنے وعدے پر قائم نہ رہا۔

مسلم لیگ نے برطانیہ کی اس غیر منصفانہ اور مکمل جانب دارانہ پالیسی کے خلاف ۱۶ اگست ۱۹۴۶ کو راست اقدام کا آغاز کیا۔ مسلمانوں نے پورے ہندوستان میں ہڑتال کی، جلسے کئے اور جلوس نکالے۔ کلکتہ میں ہندوؤں نے ان جلسے جلوسوں پر حملے کئے۔ ان حملوں میں پانچ ہزار افراد ہلاک ہوئے، پندرہ ہزار زخمی ہوگئے۔ حالات کی ابتری سے وائسرائے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر اس کے باوجود ۲ دسمبر کو کانگریسی حکومت قائم ہوگئی۔ برطانیہ میں چرچل نے اسے جانب دارانہ قرار دیا۔ اور کُھل کر کہا کہ اگر کانگریسی حکومت کی سرپرستی کی گئی تو اس سے ہندوستان میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ پھر ہر ایک نے یہ دیکھ ہی لیا کہ کانگریسی حکومت نے ان چند دنوں میں مسلمانوں کو بری طرح کچلنا شروع کر دیا ہے۔ چناں چہ مذکورہ حالات کے باعث مسلم حکومت نے عبوری حکومت میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ چناں چہ مسلم لیگ کی طرف سے لیاقت علی خان، آئی آئی چند ریگر اور سردار عبد الرّب نشتر نے بالترتیب وزرائے خزانہ ، وزرائے تجارت، اور وزارتِ مواصلات کے قلمدان سنبھالے۔

فروری ۱۹۴۷ کو وزیرِ اعظم لارڈ ٹیلی نے دا العوام میں یہ اعلان کیا تھا کہ جون ۱۹۴۸ سے پہلے پہلے ہندوستان کو تقسیم کر کے اقتدار مستقل کردیا جائے گا۔ انہی دنوں عقیل کو اپنی خالہ کے مرنے کی اطلاع ملی۔ وہ فوراً ہی اَلور روانہ ہوگیا۔ وہ کئی سال بعد اَلور آیا تھا۔ ان چند سالوں میں اَلور بہت بدل چکا تھا۔ خالہ کے پُرسے میں آیا تو تین ماہ تک پٹنے نہیں جا سکا۔ پھر جس دن وہ پٹنے کے لئے روانہ ہوا اسی دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک منصوبہ کا اعلان کیا۔ یہ تقسیم ہند کا تین جون کا منصوبہ تھا۔

وقت گزرتا رہا۔ جولائی کے دوسرے عشرے میں رمضان المبارک آگئے۔ رمضان المبارک کی اپنی الگ ہی نورانیت ہوتی ہے۔ اور اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی مسلمان اس کی نورانیت کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کی نورانیت تاریک سے تاریک دل کو بھی جگمگا دیتی ہے۔ یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قران پاک نازل ہوا۔ اسی مہینہ میں غزوۂ بدر ہوا جس نے کافروں کے دانت کھٹے کر دئیے اور کفر کا زور ٹوٹ گیا۔ یومِ بدر کو قران پاک نے یوم الفرقان کہا ہے یعنی مسلمان اور کفّار کے درمیان فرق کا دن۔ رمضان المبارک ہمیشہ مسلمانوں کے لئے خوشیوں کی زبردست نوید لے کر آتا ہے۔ یہ رمضان بھی کوئی پیاری نوید لے کر آیا تھا۔

دیکھا جائے تو دیکھا جائے تو رمضان، قرآن اور یوم الفرقان ہم قافیہ الفاظ ہیں اگر ان الفاظ کو ترتیب میں لا کر جملہ بنائیں تو ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اللہ پاک نے رمضان میں قرآن اور یوم الفرقان عطا فرمائے۔ لیکن بر عظیم پاک و ہند کے مسلمانوں پر اللہ عزوجل کا ایک اور عظیم احسان تھا کہ ان کو پاکستان کی نعمت سے سرفراز کیا تھا۔ یعنی خدائے رحمن نے مبارک رمضان میں مقدس قرآن ، یوم الفرقان اور پاکستان عطا کیے تھے۔

 یہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ تھا۔ جمعۃ الوداع۔ رمضان المبارک کا 27 واں روزہ تھا۔ ستائیسویں شب گزر چکی تھی۔ ستائیسویں شب کے بارے میں اکثر علماء اولیاء حتی کے بہت سے صحابہ کرام سے منقول ہے کہ یہ رات لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ لیلۃ القدر کی قدر کرنے والے مسلمانوں نے اس رات پاکستان کی خوب خوب دعائیں مانگیں تھیں۔ ان کی دعائیں قبول ہو گئیں۔

جمعۃ الوداع کے دن اچانک سارے ہندوستان کی فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر نعرہ رسالت یا رسول اللہ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ساری عید ہی جمع ہو گئی ہو ایک تو رمضان، پھر 27 واں روزہ، پھر جمعۃ الوداع اور پھر پاکستان۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مملکت خدا داد کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا۔

عقیل نے پاکستان بننے کی خبر سنی تو فوراً روانہ ہوگیا وہ چاہتا تھا کہ وہ سب سے پہلے یہ خبر لیلیٰ کو سنائے وہ تقریباً چھ ماہ بعد پٹنے جا رہا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ لیلیٰ سب سے پہلے یہ خبر عقیل کی زبانی سنے۔ وہ بھی کتنا دیوانہ تھا یہ کوئی معمولی خبر نہیں تھی جو کوئی غافل رہتا۔ خود لیلیٰ کے والد بہت باخبر رہتے تھے مگر محبت میں تو بڑے بڑے عاقل دیوانے ہو جاتے ہیں وہ بھی ہو گیا۔ واہ ری محبت!

وہ جب لیلیٰ کے محلے میں داخل ہوا تو اس کے قدموں کو ایک جھٹکا سا لگا۔ سارے گھر سونے پڑے تھے۔ لیلیٰ کی خوبصورت کوٹھی بھی ویران تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب لوگوں نے اجتماعی ہجرت کر لی ہو۔ اس کے قدم من بھر کے ہوگئے۔ پھر دوسرے ہی لمحے وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر گیا۔ آج پہلی بار اسے اندازہ ہوا تھا کہ وہ لیلیٰ سے محبت کرتا ہے، شدید محبت۔ یہ محبت اس کے گمان سے بھی زیادہ کہیں زیادہ تھی۔

"لیلیٰ! " اس کے ہونٹوں سے لیلیٰ کا نام ایک آہ بن کر نکلا۔" تم تو بہت جلد باز نکلیں۔"

" کیا بات ہے بابو؟ اس طرح زمین پر کیوں پڑے ہو؟" ایک بوڑھی عورت نے وہاں سے گزرتے ہوئے پوچھا۔

"یہ سب لوگ کہاں چلے گئے ہیں؟" اس نے بڑی مشکل سے کھڑے ہو کر پوچھا تھا۔

"یہ سب لوگ پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔" بڑھیا نے جواب دیا۔" آج تو انہیں تیسرا دن ہے۔"

"تیسرا دن؟" وہ جیسے خود سے بولا تھا، " اب تک تو ان کا قافلہ جانے کہاں پہنچ گیا ہوگا۔"

بوڑھی عورت چلی گئی۔ عقیل کی حالت اس چکور کی سی تھی جو اڑتے اڑتے چاند سے مل جانا چاہتا تھا مگر جس کے پر اس کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔ چاند چکور کی پہنچ سے بہت دور تھا۔ چکور بھی کتنا پاگل ہوتا ہے، چاند سے دل لگا لیتا ہے۔ ساگر بھی کتنا پاگل تھا ، لیلیٰ کا دیوانہ تھا۔ چکور نے اڑنا شروع کر دیا۔

ساگر نے اپنی اڑان کی ابتدا اپنے گاؤں سے کی، اپنے آبائی گاؤں، رسول پور سے۔ وہ سب سے پہلے اپنی ماں کی قبر پر آیا تھا۔ ماں کے قدموں میں بیٹھا تو اس کے بے قرار دل کو قرار آگیا۔" اماں میں جا رہا ہوں۔ میں پاکستان جا رہا ہوں۔" وہ کہتا رہا۔ جانے کتنی دیر تک اماں سے باتیں کرتا رہا۔ آخر میں بولا تھا، "اماں آج میں آخری سلام کرنے آیا ہوں، شاید آج کے بعد میں تیری قبر کی مٹی کو بھی نہ چوم سکوں۔ میرے لیے دعا کرنا ____ خدا حافظ ____ اماں خدا حافظ۔" اس نے ماں کے پیروں کی مٹی اٹھائی اور چوم کر پیروں میں واپس رکھ دی۔

 ہجرت کتنی کٹھن ہوتی ہے! مہاجر اپنی ساری دولت جائیداد، گھر بار اور ساری چیزیں قربان کرتا ہے تو مہاجر بنتا ہے۔ وہ قبرستان آیا تو اسے احساس ہوا کہ یہ قبرستان اس کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ یہاں اس کے ماں باپ اور بہن بھائی کی قبریں تھیں۔ ہجرت کرنے والوں کے دلوں سے پوچھو وہ کس دل سے اپنے پیاروں کی بوسیدہ ہڈیوں سے جدا ہوتے ہیں۔

وہ قبرستان سے باہر آ گیا۔ لیلیٰ کے تصورات نے ایک بار پھر اس کے دل پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یکایک اس کی چشم تصور نے لیلیٰ کو جاتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اس طرح ہاتھ قافلے کی طرف بڑھایا جیسا لیلیٰ کو جانے سے روک لے گا۔ لیلیٰ تو خیر کیا رکتی، قافلہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے لبوں پر کسی گمنام شاعر کی ایک غزل کے اشعار آگئے جو شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے لکھے گئے تھے۔ وہ زخمی دل سے گنگنانے لگا۔

اپنے ہاتھوں کو چھڑا کر میرے دلبر مت جا

اک نیا زخم لگا کر میرے دلبر مت جا

تیری آنکھوں میں بھی کاجل نہ سنبھل پائے گا

میری آنکھوں کو بجھا کر میرے دلبر مت جا

تجھ کو جانا ہی اگر تھا تو محبت کیوں کی؟

پیار کا دیپ جلا کر میرے دلبر مت جا

تو بھی تڑپے گا کبھی یاد جو میں آؤں گا

پیار کی جوت جگا کر میرے دلبر مت جا

پھول تو ڈال دئیے میری لحد پر لیکن

رسمِ دنیا کو نبھا کر میرے دلبر مت جا

اے میری ڈوبتی نبضوں کے مسیحا سن لے

مجھ کو بیمار بنا کر میرے دلبر مت جا

اس کی آواز میں بڑا سوز تھا۔ لیلیٰ اگر سن لیتی تو یقیناً رک جاتی۔ مگر اس تک آواز نہیں گئی تھی۔ انسان بھی کتنا مجبور ہوتا ہے۔ وہ سب اپنوں سے مل کر ہجرت کرنا چاہتا تھا اس لئے سب سے پہلے بریلی شریف آیا۔ بریلی کے بے تاج بادشاہ کا مزار اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ یہ ایسی متبرک ہستی کا مزار تھا جس کے انگریز دشمن تھے۔ ایک زمانہ تھا جب ڈاک کے ٹکٹوں پر ملکہ برطانیہ کی تصویر ہوتی تھی۔ احمد رضا خان ہمیشہ ٹکٹ الٹا لگاتے اور فرماتے تھے کہ میں نے انگریز حکومت کا سر نیچا کر دیا ہے۔ کسی حاسد نے یہ خبر انگریز گورنمنٹ کو پہنچا دی کہ احمد رضا اس واسطے الٹا ٹکٹ لگاتا ہے تاکہ حکومت کو ذلیل کر سکے۔ بس پھر کیا تھا انگریز حکومت نے ان کی گرفتاری کے آرڈرز جاری کر دئیے۔ وہ دن بریلی کی تارخ کا یادگار دن تھا۔ سرکاری پولیس کی گاڑیاں جب بریلی پہنچیں تو انہوں نے ایک حیرت ناک منظر دیکھا۔ احمد رضا کے گھر تک پہنچنے کا ہر راستہ بند تھا۔ لوگ سڑکوں پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہر سڑک پر احمد رضا کے چاہنے والوں کا قبضہ تھا۔ گاڑیاں کہاں سے جاتیں۔ زبردستی جانے کی کوشش میں ہزاروں افراد کچلے جاتے۔ ہر مسلمان زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ احمد رضا تک پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ اس کے لئے تمھیں ہماری لاشوں پر سے گزرنا ہوگا۔ بہرحال گاڑیاں واپس ہو گئیں اور انگریز حکومت کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ بریلی پر انگریزوں کی نہیں بلکہ ایک بے تاج بادشاہ کی حکومت ہے۔ احمد رضا کی حکومت جس کا سکّہ لوگوں کے دلوں پر چلتا ہے۔

وہ مزار پر آیا تو درجنوں افراد ادب سے ہاتھ باندھے مشہور سلام پڑھ رہے تھے۔ مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام۔ وہ بھی شریکِ سلام ہوگیا۔ سلام کے بعد وہ وہیں ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اس کے دل پر ایک ہیبت سی چھا گئی۔ ہیبت کی وجہ سے اس کی زبان گنگ ہوگئی تھی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ کسی جلالی ولی کے دربار میں حاضر ہے۔

وہ بریلی کے تاجدار کو آخری سلام کر کے رخصت ہوا تو اس کی منزل دہلی تھی۔ دہلی میں نظام الدین اولیاء کا مزارِ پُر انوار تھا۔ امیر خسرو فرماتے ہیں کہ جس روز میں حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے دل میں یہ نیت تھی کہ آپ کے آستانے پر بیٹھ جاؤں گا۔ اگر خواجہ صاحب نے مجھے خود ہی بُلایا تو بیعت کروں گا۔ الغرض آپ کے خدمت گار بشیر نے باہر آکر سلام کیا اور کہا کہ خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ باہر ایک ترک بیٹھا ہے اسے اندر بلا لو۔ میں فوراً اٹھ کر گیا ور سر زمین پر رکھ دیا۔ فرمایا اٹھاؤ، اٹھایا۔ پھر ان سے بیعت ہوا۔

عقیل ان کے مزار پر حاضر ہوا۔ عجیب سکون کی دولت تھی۔ جو اس کے ہاتھ لگی تھی۔ اسے رہ رہ کر خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یاد آ رہا تھا: عشق کا سرمہ ایسا ہے کہ جس کی آنکھ میں ڈالا جاتا ہے، وہ عرش سے فرش تک سب کچھ دیکھتی ہے۔ "یہ سرمہ میری آنکھ میں بھی دال دو خواجہ صاحب!" عقیل رو رو کر التجا کر رہا تھا، "یہ سرمہ میری آنکھوں میں بھی دال دو۔ "

خواجہ صاحب نے جس سرمے کا ذکر کیا تھا وہ عشقِ حقیقی کا سرمہ تھا۔ عقیل اپنی لیلیٰ کے تصور میں گم تھا اس لئے اسی کے عشق کا سرمہ مانگ رہا تھا۔ ایک بات کے کئی مطلب ہوتے ہیں، ہر سننے والا اپنا مطلب نکال لیتا ہے۔

اب عقیل کی منزل اجمیر شریف تھا۔ اجمیر شریف میں سلطان الہند،  ہند الولی ، خواجۂ خواجگان ، خواجۂ اجمیر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار تھا۔ ہر روز ہزاروں آدمی یہاں حاضری دیتے تھے۔ ان میں ہندو بھی تھے، سکھ بھی تھے، عیسائی بھی تھے۔ اور مسلمانوں کا تو یہ مرکز ہی تھا۔

انگریز جب شروع شروع میں ہندوستان آئے تو انہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ معین الدین چشتی ایک نہایت ہی طاقتور ہستی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے حکومتِ برطانیہ کو ایک رپورٹ بھی بھیجی تھی جس میں اس بات کا بر ملا اعتراف کیا گیا تھا کہ "پورے ہندوستان پر ایک قبر حکومت کرتی ہے، خواجہ معین الدین چشتی کی قبر!"

اجے پال ہندو جوگی کو آپ نے ہی مسلمان کیا تھا۔ انا ساگر تالاب کا واقعہ بھی آپ ہی کی کرامت ہے۔ آپ کی بے شمار کرامتیں ہیں۔ یہ کرامت کیا کم ہے کہ آپ نے نوّے لاکھ ہندوؤں کو اسلام سے روشناس کرا دیا تھا۔ پاکستان دراصل آپ ہی جیسے لوگوں کا فیضان ہے۔ سچ کہتے ہیں پاکستان میں رہنے والے: اولیاء کے فیضان سے یہ ملک پاکستان ہے۔

عقیل ان کے مزار پر پہنچا تو آنسوؤں کو نہ روک سکا۔ وہ آنسوؤں اور ہچکیوں کے درمیان کہہ رہا تھا، "خواجہ صاحب آپ نے ہندوستان میں اپنی محبت کی چادر پھیلائی ہے۔ آپ نے ہر ایک کو محبتیں بانٹی ہیں۔ آپ کے دربار سے آج تک کوئی خالی نہیں گیا۔ محبت کا مارا آج آپ کے دربار میں آیا ہے۔ مجھ کو محبت درکار ہے خواجہ صاحب۔ مرنے سے پہلے میں ایک بار اپنی محبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔

وہ محبت مانگ رہا تھا۔ مسلمان بہت محبت والے ہوتے ہیں۔ محبت کی یاد گاریں قائم کر جاتے ہیں۔ وہ محبت کی ایسی ہی یادگار کے پاس آگیا جو شاہ جہاں نے قائم کی تھی۔ شاہ جہاں جو کہ ایک سلیم المزاج بادشاہ تھا۔ شریفانہ جذبات رکھنے والا، فن دوست تھا۔ نور الدین جہانگیر کا تیسرا بیٹا تھا، شاہ جہاں جس کا اصل نام خرم تھا۔

عقیل آگرے میں آگیا تھا۔ آگرہ جسے پہلی بار ۱۵۰۴ میں دوسرے لودھی بادشاہ نے بسایا تھا۔ اسی نے اس کی تعمیر کی تھی اور اپنا دار السلطنت بنایا تھا۔ سکندر لودھی جس کا دور عدل و انصاف کا دور تھا۔ رعایا امن و امان سے اپنے پیشوں میں مشغول تھی۔ سکندر لودھی ایک نیک دل انسان تھا۔

آگرے کو ایک نیک دل سلطان نے تعمیر کیا تھا اور ایک دوسرے سلیم المزاج بادشاہ نے اس میں تاج محل کے نام سے اپنی محبت کی یادگار قائم کردی تھی۔ تاج محل جو اس کی ملکہ ارجمند بانو کی وفات کے ایک سال بعد بننا شروع ہوگیا تھا۔ ارجمند بانو کا لقب ممتاز محل تھا۔ ممتاز محل کو تاج محل کی صورت میں جو انعام ملا تھا وہ واقعی سب سے ممتاز تھا۔ سب سے ممتاز محل، تاج محل۔

عقیل دل میں سوچ رہا تھا، "تاج محل میں ہر طرف محبت کرنے والے جوڑے نظر آ رہے ہیں۔ کوئی بڑے دروازے کے پاس ہے، کوئی صحن میں ہے، کوئی شفاف فواروں کے تالاب پر ہے۔ ایک میں ہی اکیلا ہوں۔ میری لیلیٰ مجھ سے بچھڑ گئی ہے۔ تاج محل میں اکیلا آنا کوئی جرم نہیں۔ مگر میں اپنے آپ کو مجرم لگ رہا ہوں۔ آہ میری لیلیٰ کہاں ہے تو؟ مجھ کو پکارتی کیوں نہیں؟ مجھ کو پکار میری لیلیٰ، یا میری پکار کا جواب دے ۔ لیلیٰ ____ آآ ____ آ "


لیلیٰ لاہور میں تھی۔ لاہور بڑا محبت والا شہر ہے۔ اسے داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور میں بہت سے مقامات قابلِ دید ہیں۔ قابلِ دید، دیدہ ور کو دعوتِ نظّارہ دیتا ہے۔ دیدہ ور اپنے اپنے دیدوں سے دیکھتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی الگ ہی نظر ہوتی ہے اور ہر نظر کی اپنی الگ تلاش ہوتی ہے۔ محبت کی نظر محبوب کو تلاش کرتی ہے، پیاسی نظر ساگر کو۔ وہاں بادشاہی مسجد بھی تھی، داتا صاحب کا مزار بھی تھا، شاہی قلعہ بھی تھا، بارہ دری بھی تھی اور موچی دروازہ بھی تھا۔ ہر جگہ قابلِ دید تھی، مگر لیلیٰ کہاں تھی؟

لیلیٰ بھی اپنے ساگر کی طرح ایک مقبرے کی عمارت میں تھی۔ یہ مقبرہ بھی ایک لازوال محبت کی یاد گار تھی۔ اس مقبرے کو نور الدین جہانگیر نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ مقبرہ لاہور میں تھا جو کسی زمانے میں جہاں گیر کا دار السلطنت تھا۔ ہاں ہاں ____ وہ انار کلی کا مقبرہ تھا۔

یہ کیسا حسین اور سنگین اتفاق تھا کہ لیلیٰ اور ساگر دونوں ایک ہی وقت میں لازوال محبت کی یادگاروں کے پاس تھے۔ لیلیٰ انار کلی کے مقبرے میں تھی ، ساگر تاج محل میں تھا۔ لیلیٰ جس مقبرے پر تھی اسے باپ نے تعمیر کروایا تھا، ساگر جس مقبرے میں تھا وہ تاج محل بیٹے نے بنوایا تھا۔ جدائی کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ اتفاق بہت سنگین تھا۔

تاج محل میں عقیل پکار رہا تھا "آہ میری لیلیٰ! کہاں ہے تو؟ مجھ کو پکارتی کیوں نہیں؟ مجھ کو پکار میری لیلیٰ۔ یا میری پکار کا جواب دے۔ لیلیٰ ____ آ آ آ ____ آ"

 انار کلی کے مزار پر لیلیٰ تڑپ اٹھی۔ انار کلی بھی اسی طرح تڑپتی ہو گی جب کوئی اسے پکارتا ہوگا۔ آج لیلیٰ تڑپ رہی تھی۔ تاریخ چاہے اپنے آپ کو دہرائے یا نہ دہرائے محبت اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے۔ چہرے بدل جاتے ہیں نام بدل جاتے ہیں مگر کہانی وہی رہتی ہے۔ آج وہاں انار کلی نہیں، لیلیٰ تھی۔ اسے پکارنے والا شہزادہ سلیم نہیں ، ساگر تھا۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے؟ نام اور چہرے بدلنے سے حقیقت تو نہیں بدلتی[4]۔ اور محبت تو اپنی حقیقت آپ منواتی ہے۔                                                        

لیلیٰ تڑپ رہی تھی۔ دو ہاتھ اسے تڑپا رہے تھے۔ ان ہاتھوں کی حفاظت اس نے بالکل اپنی جان کی طرح کی تھی۔ اس کی کوٹھی میں آگ لگی تھی تو اس نے سب سے پہلے اس کاغذ کی حفاظت کی تھی۔ پٹنے میں آئی تو ہاتھوں کو ساتھ لائی تھی۔ ہجرت کر کے پاکستان آئی تو یہ ہاتھ اس کے ساتھ تھے۔ ہاتھ ساتھ تھے تو لو اسٹوری بھی ساتھ تھی۔ ان ہاتھوں نے اس پر جادو کردیا تھا۔ انار کلی کے مزار میں وہ دونوں ہاتھوں کو چوم رہی تھی۔ دونوں ہاتھوں کو چومتے ہوئے وہ بھول گئی تھی کہ اس کا اپنا ہاتھ بھی کسی نے بڑی دیوانگی سے چوما تھا۔

کاغذی ہاتھوں سے آواز آر ہی تھی ، "مجھ کو پکارتی کیوں نہیں لیلیٰ؟ مجھ کو پکار میری لیلیٰ۔ یا میری پکار کا جواب دے۔ لیلیٰ ۔ آ آ ____ آ"

اس نے حیرت سے ہاتھوں کو اپنے دل سے الگ کیا اور گھورتے ہوئے سوچنے لگی، " کیا یہ آواز ان ہاتھوں سے آر ہی ہے یا یہ میرے دل کی آواز ہے۔ یہ بیسویں صدی ہے۔ کیا اس میں معجزوں کی توقع کی جا سکتی ہے؟"

وہ بھول گئی تھی۔ محبت کسی معجزے سے کم نہیں ہوتی۔ جب تک انسان محبت کرتے رہیں گے ایسے معجزے جنم لیتے رہیں گے چاہے کوئی سی بھی صدی کیوں نہ ہو۔

وہ ہاتھ لیلیٰ کو پکار رہے تھے اور لیلیٰ سوچ رہی تھی کہ ان ہاتھوں سے لیلیٰ لیلیٰ کی صدائیں کیوں بلند ہو رہی ہیں۔ اسے یا آگیا کہ پہلی بار اسے ساگر نے لیلیٰ کہا تھا، قلم کے ذریعے کہا تھا۔ ان ہاتھوں کو کیا معلوم کہ میں لیلیٰ ہوں؟ ان سے تو نیلم نیلم کی آوازیں آنا تھیں۔

اسے بے اختیار ساگر یاد آگیا۔ اس کے ہونٹوں کا لمس یاد آگیا جو اس کے ہاتھوں پر اپنی محبت کی مہر لگا کر چلا گیا تھا۔

وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔ محبت کی مہر ابھر آئی تھی۔ اس کے بائیں ہاتھ پر دو ہونٹ چمکنے لگے تھے۔ پھر وہ ہونٹ پکارنے لگے "مجھ کو پکار میری لیلیٰ یا میری پکار کا جواب دے۔ لیلیٰ آآ ____ آ"

اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ اپنی بغل میں چھپا لیا جیسے ان ہونٹوں کو بولنے سے روک رہی ہو۔ دروازوں کو بند کرنے سے آوازیں رک تو نہیں جاتیں۔ وہ ہونٹ پھسلنے لگے۔ اس کی کلائی پر آگئے۔ اس نے کلائی بھی چھپا لی۔ ہونٹ اس کے خوبصورت بدن پر پھسلتے رہے۔ اس کے بدن کا ہر عضو چیخ رہا تھا، "لیلیٰ ____ لیلیٰ ____ لیلیٰ!" صرف ایک ہی دل تھا جو لیلیٰ کو نہیں پکار رہا تھا کیوں کہ وہاں سے آواز آر ہی تھی "ساگر ____ ساگر ____ ساگر"

انار کلی مقبرے میں مسکرا رہی تھی۔ بہت عرصے بعد اسے اپنی ہی جیسی کسی چاہنے والی سے واسطہ پڑا تھا۔


 

  1.  آگے آگے دیکھئے ____

ساگر کشمیر آگیا۔ کشمیر ہندوستان میں اس کی آخری منزل تھی۔ وہ ہجرت سے پہلے حضرت بل کی درگاہ کی زیارت کرنا چاہتا تھا۔

کشمیر کا مسئلہ بہت گھمبیر تھا۔ ہندوؤں اور انگریزوں کی ملی بھگت نے مسلمانوں کو تقسیم ِ ہند کے وقت بھی بہت نقصان پہنچایا تھا۔ صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ ہو یا سرحدوں کے تعین کا مسئلہ، اثاثوں کی تقسیم کا مسئلہ ہو یا ریاستوں کے الحاق کا مسئلہ، مسلمانوں کے ساتھ دیدہ و دانستہ ناانصافیاں کی گئیں تھیں۔

ریاستوں کا الحاق بھی ایک بڑا مسئلہ تھا۔ متحدہ ہندوستان میں دیسی ریاستوں کہ کُل تعداد ۵۶۲ تھی۔ ان میں سب سے بڑی ریاست حیدر آباد کی تھی۔ تقسیمِ ہند کے منصوبے کے تحت ان ریاستوں کو تین میں سے ایک فیصلے کا اختیار دیا گیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں یا پھر اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں۔ ان میں زیادہ تر خالص ہندو ریاستیں تھیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ۱۵ ،اگست سے قبل ہی ان کا الحاق بھارت سے کردیا۔ اسی طرح پاکستان سے متصل چند ریاستوں نے پاکستان سے الحاق کر لیا تھا۔

جونا گڑھ ، مناد اور منگرول کی ریاستوں نے پاکستان کے الحاق کا اصولی فیصلہ کر لیا۔ یہ ریاستیں سمندری راستے کے ذریعے پاکستان سے مضبوط تعلقات پیدا کر سکتی تھیں ۔حکومتِ پاکستان نے ان کے الحاق کا فیصلہ منظور کر لیا مگر بھارتی حکومت نے شدید احتجاج کیا اور انتشار پیدا کر کے وہاں فوجی مداخلت کا جواز پیدا کر لیا اور بزور طاقت ان پر قبضہ کر لیا۔ جونا گڑھ کی ایک با رونق بندر گاہ ویراول (بلاول) کراچی سے صرف تین سو بحری میل کے فاصلے پر ہے۔

جونا گڑھ پر سب سے پہلے سلطان محمود غزنوی نے حملہ کیا اور یوں یہ علاقہ ۱۰۲۵ میں مسلمانوں کے پاس آگیا۔ سومنات کا مندر بھی اسی علاقے میں تھا جسے محمود غزنوی نے ہی مسمار کیا تھا۔ وہ مشہور بت بھی یہیں توڑا گیا تھا جس کی وجہ سے محمود غزنوی اسلامی تاریخ میں بت شکن کہلایا۔ ہندو راجپوت بیرونی حکومت کے خلاف مسلسل سازشیں کر رہے تھے اس لئے اس بار سلطان محمود بیگڑا نے ۱۴۶۷ میں راجپوتوں کے آخری فرماں روا کو شکست سے کر جونا گڑھ کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔

جونا گڑھ کے معزول کردہ راجہ نے سازشوں سے اپنا کافی علاقہ واپس لے لیا تھا۔ اس لئے سلطان محمود بیگڑا نے ۱۴۷۰ میں کامیاب حملہ کیا اور ایک سال تک سخت لڑائی کے بعد جونا گڑھ پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اس کامیابی کے بعد ہندوؤں کی حکومت جونا گڑھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی اور شہر کا نام مصطفیٰ آباد رکھا گیا۔ جونا گڑھ کو بعد میں عبد الرحیم خان خاناں نے فتح کر کے سلطنتِ مغلیہ میں شامل کر لیا۔ ۱۹۴۳ ء میں ریاست جونا گڑھ سے سردار گڑھ، بانٹوہ کی باج گزار ریاستیں اور دیگر بہت سے تعلقے ملحق ہوگئے۔

ریاست جونا گڑھ کا سب سے بڑا شہر بھی جونا گڑھ ہے۔ یہ شہر ہندوستان کے سب سے خوشنما اور خوبصورت شہروں میں سے ہے۔ یہاں ایک وسیع اور گھنا جنگل ہے جو گر جنگل کے نام سے مشہور ہے۔ اس شہر میں متعدد اعلیٰ درجے کی عمارتیں موجود ہیں۔ ان میں کچھ مقبرے بھی ہیں۔ ان مقبروں کی خصوصیت ان کے پہلوؤں کے دو دو منارے ہیں جن پر چڑھنے کے لئے گھومتے ہوئے زینے باہر کی طرف بنے ہوئے ہیں۔ پورے بر عظیم پاک و ہند میں اسی طرح کے زینوں کا نمونہ کہیں اور نہیں ملتا۔

ریاست جونا گڑھ [5]نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو اسی سال نومبر ۱۹۴۷ میں ہندوستانی فوجوں نے ریاست پر ناجائز طور پر قبضہ کر لیا۔ نواب آف جونا گڑھ نے مع اہل و عیال کراچی میں پناہ لی اور یہیں ۱۹۶۰ میں وفات پائی۔ جونا گڑھ کے مسلمان آج بھی پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور ابھی تک جونا گڑھ کے الحاق اور قبضے کا جھگڑا پاکستان اور بھارت میں چل رہا ہے۔ یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں چلا آریا ہے۔

جونا گڑھ کے برعکس ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست حیدر آباد نے اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تو بھارتی حکومت بوکھلا گئی۔ پہلے تو بھارت نے یہاں فرقہ وارانہ فسادات کرائے پھر بھارتی فوج نے باقاعدہ حملہ کردیا۔ حیدر آباد کے مسلمانوں نے مسلسل تین دن تک بھارتی فوج کا مقابلہ کیا ۔ آخر کار بزورِ طاقت بھارت نے اس ریاست پر بھی قبضہ جما لیا۔

ساگر کشمیر میں تھا۔ کشمیر حسن و خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ نیلم دیگر لڑکیوں میں حسن کی زیادتی کی وجہ سے لیلیٰ تھی تو کشمیر دیگر ریاستوں میں بالکل لیلیٰ ہی کی طرح حسین تھا۔ دریائے جہلم کشمیر ہی کی ایک وادی سری نگر سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ دریائے سندھ بھی کشمیر ہی کے راستے سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔

تقسیم ہند کے وقت معاہدے کے تحت اس علاقے کو پاکستان سے الحاق کرنا تھا۔ کیوں کہ یہاں مسلم اکثریت ہے بلکہ بھاری اکثریت ہے۔ کشمیری عوام بھی یہی چاہتے تھے مگر یہاں کا ہندو راجہ ہری سنگھ مسلمانوں سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی رائے معلوم کئے بغیر ہی بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔ یہ سراسر بد دیانتی اور معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔

معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا ڈرتا ہے۔ ہری سنگھ بھی مسلمان مجاہدین سے ڈر کر دہلی بھاگ گیا۔ وہاں اس نے بھارتی حکومت کو ریاست ِ کشمیر پر قبضہ کرنے کی دعوت دی۔

رقبے کے لحاظ سے کشمیر ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تھی اور حسن و خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا کی نمبر ون ریاست تھی۔ بھارت تو موقع کی تلاش میں تھا۔ موقع ملتے ہی بھارتی فوجیں طیّاروں کے ذریعے سری نگر میں اتر گئیں اور کشمیر پر قبضہ جما لیا۔ پاکستان کے قبائلی مسلمانوں نے یہ صورتِ حال دیکھی تو فوراً اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کو پہنچے اور بہت سا علاقہ آزاد کرا لیا۔

یہ علاقہ اب آزاد کشمیر یا صرف کشمیر کہلاتا ہے۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر کو جمّوں کشمیر کہا جاتا ہے۔ فی الوقت پاکستان کے پاس ایک تہائی کشمیر ہے۔ باقی دو تہائی پر بھارت کا قبضہ ہے۔

مسلمان مجاہدین سے بھارتی فوج کی جھڑپیں مسلسل جاری تھیں۔ آخر ۱۹۴۸ میں اقوامِ متحدی کی مداخلت سے جنگ بند ہوئی۔ مگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا۔ اقوامِ متحدہ فیصلہ نہ کرا سکی۔ کراتی بھی کیسے؟ اقوامِ متحدہ مسلمانوں کی ہمدرد نہیں۔ ہمدرد ہوتی تو اب تک مسلمانوں کے حق میں کشمیر کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ اقوامِ متحدہ در حقیقت ایک ایسی ملازمہ ہے جس کو تنخواہ تو بہت سی قومیں دیتی ہیں مگر یہ صرف یورپی اقوام کے جوتے چمکاتی ہے۔ آج تک اقوامِ متحدہ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے مسلمانوں کو کوئی نفع ملا ہو۔ خدا جانے ان حکمرانوں کو عقل کب آئے گی۔

ساگر کشمیری حسن کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ کشمیر کی دلکشی بیان سے باہر ہے۔ لوگ اسی لئے تو کشمیر کو جنت نظیر کہتے ہیں۔ برف پوش پہاڑوں کی سفیدی پر سبزہ چمکتا ہے۔ یہاں کے پہاڑ خشک اور ننگے نہیں تھے۔ یہاں کوئی نانگا پربت نہیں تھا۔ سارے پربت سبز لباس میں ملبوس تھے۔ پہاڑوں کی وادیوں میں جھرنے قلقلاتے تھے۔

کشمیر میں ایک قدیم درگاہ بھی تھی۔ درگا بَل شریف[6]۔ کشمیری زبان میں بَل شریف کا مطلب ہے بال شریف۔ اس درگاہ میں لوگ جوق در جوق زیارت کے لئے آتے ہیں۔ یہاں یہ بات مشہور ہے کہ اس درگاہ میں رحمتِ دو عالم نورِ مجسم ہادئ اعظم جناب رسولِ اکرم کا موئے مبارک ہے۔

کشمیر میں بھارتی فوج قابض تھے۔ ساگر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ بھارتی فوجی کشمیر کے انمول حسن کو فوجی بوٹوں سے روند رہے ہیں۔ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اور کر بھی کیا سکتا تھا؟ بھارتی فوج اس طرح سارے کشمیر میں دندناتے پھر رہے تھے۔ جیسے کشمیر ان کے باپ کی جاگیر ہو۔ کشمیر کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھنے والوں سے کوئی پوچھے، "کیا تمہیں اپنے باپ کا نام بھی معلوم ہے؟"

عقیل کشمیر کے خطے کو دیکھ رہا تھا، دیکھتے دیکھتے سوچ رہا تھا، " یہ خطہ بہت حسین ہے، بالکل میری لیلیٰ کی طرح حسین۔ کیا میں اپنی لیلیٰ کو ڈھونڈ پاؤں گا؟ یا اسی طرح اس کی تلاش میں پھرتا ہوا مر جاؤں گا؟"

مایوس عقل کہنے لگی "راستہ بہت لمبا ہے، لیلیٰ کی کوئی خبر نہیں، ایسے میں لیلیٰ کو ڈھونڈنا حماقت ہے۔ "

پُر امید عشق بولا، " ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ لیلیٰ تو پھر لیلیٰ ہے۔ مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔ لیلیٰ اپنے ساگر کو خود ہی کھینچ لے گی۔"

عشق اور عقل میں لڑائی ہونے لگی۔ عقل مادی دلیلیں دے رہی تھی، عشق دل کے مسئلے پیش کر رہا تھا۔ ایسا ہر محبت کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ کوئی عقل کے پیچھے چل پڑتا ہے کوئی عشق کو اپنا راہنما بنا لیتا ہے۔

اس کا نام عقیل تھا___ اسے عقل کے پیچھے چلنا چاہیے تھا۔ وہ لیلیٰ کا عاشق تھا ___ اس حساب سے اسے عشق کو اپنا راہنما مان لینا چاہیے تھا۔ وہ عجیب کشمکش کے دو راہے پر کھڑا تھا۔ فیصلہ کر رہا تھا کہ کہاں جائے مگر کر نہیں پا رہا تھا۔ ایسے میں اس کے دماغ میں لیلیٰ کے دو جملوں کی گونج سنائی دی:

(نام سے کچھ نہیں ہوتا ____ وہ تو بالکل ہی عقل سے پیدل ہے)

لیلیٰ کے دو بول کام آگئے۔ اس نے عقل کو ایک زور دار لات ماری اور عشق سے کہنے لگا "چلو لیلیٰ کا راستہ دکھاؤ۔"

عشق نے اپنا ہاتھ عقیل کی طرف بڑھایا۔ عقیل نے عشق کی انگلی تھامی اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ عشق گلی گلی نچاتا ہے۔ وہ تیار تھا۔ خوف کس کا؟ سیّاں بنے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟


لیلیٰ نے معاشیات پڑھی تھی۔ معاشیات بظاہر ایک خشک مضمون ہے مگر بعض اوقات خشک مضمون بھی آنکھوں کو گیلا کر دیتا ہے۔ وہ معاشیات کی ایک غیر درسی کتاب تھی جو لیلیٰ کو رلا گئی۔ طلب اور رسد کا قانون تھا جس کی تشریح کی گئی تھی۔ طلب اور رسد کا قانون معاشیات کا ایک بنیادی قانون ہے۔ یہ قانون معاشیات کا ہر طالب علم پڑھتا ہے اور اپنے ذہن کے مطابق سمجھتا ہے۔ کتاب کہہ رہی تھی:

 " سونا قیمتی ہے، پر اس کی قیمت اور بڑھ جاتی ہے جب اس سے زیورات بنائے جاتے ہیں کیوں کہ زیورات کی صورت میں سونے کی طلب بڑھ جاتی ہے۔

ایک پتھر بہت کم قیمت رکھتا ہے لیکن اس پتھر کو تراش کر خوبصورت مجسمہ بنایا جائے تو اس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور قیمت بھی۔

طلب کو بڑھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو چیز انسان کی ضرورت بن جائے اور اس کی زندگی میں اہمیت اختیار کر لے، اسے بازار سے غائب کردیا جائے۔ اس کی طلب میں اتنی شدت پیدا ہوجائے گی کہ جب وہ دوبارہ بازار میں آئے گی تو اس کی قیمت بے انتہا بڑھ چکی ہو گی۔"

طلب لیلیٰ کو تڑپا رہی تھی۔ دو ہاتھوں کی طلب، دو ہونٹوں کی طلب۔ طلب کے بھی کتنے روپ ہوتے ہیں۔ وہ تو سر سے پیر تک طالبہ تھی، اپنی ہی طلب اسے گھبرا گئی تھی۔ جب طلب ہی طلب ہو، رسد کا نام و نشان بھی نہ ہو تو انسان گھبرا ہی جاتا ہے۔

کتاب اسے ساگر کی صورت دکھا رہی تھی مگر اس تک پہنچنے کا راستہ نہیں بتا رہی تھی۔ اس نے جھلّا کر کتاب کو دیوار پر دے مارا۔ طلب سے پیچھا چھڑا نے کے لئے انگریزی نکال لی۔ گرامر معاشیات سے بھی زیادہ خشک ہوتی ہے۔ اس نے اپنی بھیگی پلکوں کو خشک کرنے کے لئے یہ کتاب نکالی تھی مگر نہیں جانتی تھی کہ رات جتنی کالی ہوتی ہے ستارے اتنا ہی اس کے گرد چمکتے ہیں۔

کتاب اسے بتا رہی تھی:

"Conjunction is a joining-word; It joins words to words, phrases to phrases and sentences to sentences. But while doing so, it can also express certain ideas and notions. Such as time, choice, conclusion etc.

(ترجمہ: کن جنکشن ایک ملانے والا لفظ ہے۔ یہ لفظوں کو لفظوں سے ملاتا ہے، نا مکمل جملوں کو نا مکمل جملوں سے ملاتا ہے اور مکمل جملوں کو مکمل جملوں سے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ کچھ تصورات اور خیالات کی بھی وضاحت کرتا ہے مثلاً وقت، انتخاب اور نتیجہ وغیرہ)

اس کا دھیان کتاب میں نہیں تھا۔ سامنے کسی کا چہرہ نظر آ رہا تھا اس لئے ترجمہ اور صورت آپس میں مدغم ہوگئے۔ اس کا دماغ اپنی پسند کا ترجمہ کرنے لگا"

" لَو (پیار) ایک ملانے والا لفظ ہے۔ یہ ہاتھوں کو ہاتھوں سے ملاتا ہے، ہونٹوں کو ہونٹوں سے ملاتا ہے۔ اور دل کو دل سے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ کچھ خیالات اور تصوّرات کی وضاحت بھی کرتا ہے مثلاً ظالم سماج، دوری اور رسوائی وغیرہ"

اسے ہوش آیا تو گرامر کی کتاب زور سے زمین پر پٹخ دی۔ ایسے جیسے آئندہ کبھی گرامر کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گی۔ لیلیٰ کتنی بھولی تھی، بھول گئی تھی کہ ابھی اسے اور پڑھنا ہے۔

وہاں الجبرے کی کتاب بھی تھی۔ لیلیٰ نے اسے ہاتھ میں لے لیا۔ کتاب ابھی کھلی نہیں تھی مگر کھلنے سے پہلے بول رہی تھی: سب سے پہلے ایک ہے۔ ایک کی ذات اکیلی ہوتی ہے۔ اس کی اکیلی ذات میں اگر دوسرا ایک مل جائے تو دونوں جمع ہو کر دو بن جاتے ہیں۔ دو ۲ بننے کے لئے دونوں کو ایک بننا پرتا ہے۔ اس کے لئے ایک جگہ جمع ہونا ضروری ہے۔"

لیلیٰ نے جلدی سے کتاب ریک میں واپس رکھ دی۔ مگر اب تو ہر کتاب چیخ چیخ کر اپنا سبق دہرا رہی تھی۔ ہر کتاب کا سبق الگ تھا مگر الگ ہونے کے باوجود لیلیٰ کو ایک ہی سبق مل رہا تھا۔ محبت کا سبق۔

"افّوہ نیلم! ابھی تک جاگ رہی ہو؟" کنول نے کمرے میں آکر حیرت سے پوچھا تھا۔ دونوں گھرانوں نے ایک ساتھ ہی ہجرت کی تھی اور اب لاہور میں بھی ایک ہی ساتھ رہ رہے تھے۔

"بس یوں ہی ____ " اس کی حسین پیشانی اس طرح پسینے میں تر ہوگئی جیسے سچ مچ چوری پکڑی گئی ہو۔" نیند نہیں آر ہی تھی۔"

"ساگر جگا رہا تھا؟" کنول مسکرائی۔

لیلیٰ نے دائیں بائیں گردن ہلا کر ایک افقی لکیر سی ہوا میں بنائی اور پھر اور پھر اوپر نیچے سر ہلا کر اس خیالی لکیر کو کاٹ دیا۔ بڑا ہی پیارا انداز تھا اقرار کرنے کا۔ ہلکا ہلکا سا، دھیما دھیما سا اقرار، جیسے اسے اپنے اقرار پر خود بھی یقین نہ آ رہا ہو۔

کنول نے میرؔ کی مٹی پلید کرتے ہوئے کہا۔" ابتدائے عشق ہے روتی ہے کیا۔ دوسرا مصرعہ مجھے یاد نہیں۔"

"آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا" لیلیٰ مسکرا اٹھی تھی۔

"آگے کچھ نہیں ہوگا، سمجھیں تم۔" کنول نے اس کا کان پکڑ کر اسے بستر پر لٹا دیا ۔" شرافت سے سو جاؤ، اور ہاں! اگر اب تم اس کے لئے جاگیں تو میں تمہارا کان ہی جڑ سے اکھاڑ دوں گی، چلو سو جاؤ۔"

وہ سوتی بن گئی۔ کنول نے تھوڑی دیر تک انتظار کیا اور پھر کمرے سے نکل گئی۔

لیلیٰ نے اس کے جانے کے بعد کچھ دیر تک انتظار کیا پھر اٹھی، ریک سے لو اسٹوری نکال لائی۔ یہ کتاب اسے اپنی جان کی طرح پسند تھی۔ وہ دوبارہ بستر لیٹ گئی اور کتاب سینے پر رکھ لی۔

"کیا میں واقعی ایک سائے سے محبت کرنے لگی ہوں ؟" اس نے جیسے خود سے سوال کیا تھا۔" یا کوئی پرچھائیں مجھ سے محبت کرتی ہے؟ جو مل نہ سکے اس سے محبت کرنا فضول ہے۔ ساگر نے اپنے ہونٹوں کی مہر اس اعتماد سے لگائی تھی جیسے اب اس لفافے کو صرف وہی کھولے گا۔ آخر میں اس کو بھول کیوں نہیں جاتی؟ میرے بدن کے لفافے پر ساگر کی مہر تو لگی ہوئی ہے مگر اس کا پتا نہیں لکھا۔ بغیر پتے کا خط اس کے پاس کیسے پہنچے گا؟ ایسا کون سا ڈاکیا ہے جو بغیر پتے کا خط بھی پہنچا دیتا ہے؟"

وہ بلا وجہ الجھ رہی تھی۔ گلاب کا پھول ہزاروں میں پہچانا جاتا ہے۔ لیلیٰ لاکھوں میں ایک ہوتی ہے۔ خط والا خود اپنے خط کی طرف آ رہا تھا۔


 

  1.  گرم گرم ____ آہ

عشق عاشق کو معشوق سے ملاتا ہے۔ عشق کا کام ملانا ہے، چلانا نہیں۔ چاہے وہ سیدھے راستے پر چلا کر ملائے یا بھٹکا کر۔

عقیل راستہ بھٹک گیا تھا مگر اپنی لیلیٰ سے کچھ اور قریب ہو گیا تھا۔ جو محبوب سے قریب ہو وہ راہ پر ہوتا ہے، بھٹکا ہوا نہیں ہوتا۔

۱۹۴۷ میں ہندوستان کی تاریخ میں انسانوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہوا تھا۔ ایک کروڑ انسانوں نے ہجرت کی تھی۔ ایک کروڑ انسان گھر سے بے گھر ہوگئے تھے۔ اب بھی اکاّ دکاّ قافلے ہجرت کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ایسے ہی ایک قافلے کے ساتھ عقیل بھی ہولیا تھا۔

قافلے کا راستہ طویل تھا اس لئے عشق نے عقیل کو بھٹکا کر لیلیٰ سے قریب کردیا۔ راستہ شارٹ کٹ تھا مگر پُر خطر تھا۔ وہ بھارت کی سرحدوں کے پاس آگیا تھا۔

اکثر سرحدی علاقے غیر آباد ہوتے ہیں۔ وہ بھی کسی ایسے ہی غیر آباد علاقے میں تھا۔ کہیں کہیں مٹی کے ٹیلے موجود تھے۔ خود رو پودے تیز ہوا کے جھکڑوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اڑتی ہوئی مٹی میں آنکھیں کھولنا بھی دشوار تھا۔ عقیل کی آنکھیں بھی بند تھیں مگر اس کا عشق تو دیکھ رہا تھا۔

عقیل کی ایڑیاں دکھ رہی تھیں۔ بائیں ایڑی میں ببول گھس گیا تھا۔ ببول کا کانٹا بہت تکلیف دیتا ہے۔ کچھ زہریلا بھی ہوتا ہے۔ جہاں گھستا ہے آس پاس کی جلد کو سجا دیتا ہے۔ وہ تو ایڑی تھی جو ببول کو اپنی سخت جانی سے برداشت کر گئی تھی۔ اگر ذرا آگے پنجے میں گھستا تو کام ہو جاتا۔

اس نے ریتیلی زمین پر بیٹھ کر بائیں ایڑی کو ران پر رکھا۔ آدھا کانٹا باہر تھا۔ اس نے ایڑی کو انگلیوں اور انگوٹھے کی مدد سے بھینچا اور ایک جھٹکے سے کانٹا کھینچ لیا۔ لال خون ایڑی پر چمکنے لگا۔

اس نے کانٹے کو ایک نظر دیکھا۔ آدھا سرخ اور آدھا خشک تھا۔ دوسری نظر اپنے دل پر ڈالی جیسے وہاں بھی کوئی کانٹا تلاش کرنا چاہتا ہو۔ دل میں کانٹا تھا مگر وہ نظر نہیں آتا تھا، البتہ محسوس ہو رہا تھا۔ وہ ببول کی طرح آدھا اندر اور آدھا باہر نہیں تھا۔ دل کے آر پار تھا۔ دوسری طرف سے نکل آیا تھا۔

 اس نے پھر دوبارہ چلنا شروع کردیا۔ ایڑی اگرچہ تکلیف دے رہی تھی مگر وہ قابلِ برداشت تھی۔ وہ کمزوری محسوس کر رہا تھا۔ نتھنوں سے گرم سانس خارج ہو رہی تھی اور آنکھیں جل رہی تھیں۔

اس کے قدم چیخ رہے تھے، " آرام ساگر آرام، تم اس حالت میں زیادہ دیر دور نہیں جا سکتے۔"

"اب تو تمھیں لیلیٰ کے پاس جا کر ہی آرام ملے گا میرے دوستو!" اس نے پیار سے اپنی ٹانگوں کو تھپتھپایا۔ وہ چلتا رہا، سورج بھی اس کے ساتھ چلتا ہوا آگ برسا رہا تھا۔ موسم بہت شدید تھا۔ دن میں خوب گرمی پڑتی تھی اور راتیں نہایت سرد تھیں۔ گرم گرم موسم اس پر اثر انداز ہو رہا تھا۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی کمزوری کا شکار ہوتا جا رہا تھا۔ عاشق بھی انسان ہوتا ہے، پتھر نہیں۔ پتھر بھی آگ میں چٹخ جاتے ہیں، وہ تو پھر انسان تھا۔

اسے بخار تھا۔ بدن ٹوٹ رہا تھا۔ آنکھوں سے چنگاریاں سی نکل رہی تھیں۔ سامنے کا منظر دھندلا رہا تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔ لڑکھڑاتی ٹانگیں کب تک اس کا بوجھ سہارتیں۔ ایک ٹیلے کے قریب اس کی دونوں ٹانگیں ایک دوسرے میں الجھ گئیں۔ شاید وہ ایک دوسرے سے لپٹ کر اپنا اپنا دکھڑا سنا رہی تھیں۔ وہ منہ کے بل زمین پر آگیا۔ اس کا چہرہ مٹی میں اَٹ گیا۔

وہ لیٹے لیٹے ہی کھسکنے لگا۔ ٹانگیں حیرت سے اس کی جرات کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ بڑا ضدی تھا اس لئے نہیں رک رہا تھا۔ وہ خود دار بھی بہت تھا اس لیے چلتے رہنے کے لیے اپنی ٹانگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا رہا تھا۔ اسے ٹانگوں کی بھیک نہیں چاہیے تھی۔ وہ کھسکتا رہا۔

بخار کی شدّت بڑھ رہی تھی۔ اب تو آنکھوں سے بھی پانی جاری ہو گیا تھا۔ یہ بخار کی تیزی کی علامت تھی۔ جیسے جیسے بخار بڑھتا جا رہا تھا اس کے کھسکنے کی رفتار بھی کم ہوتی جا رہی تھی۔ بدن کھسکنے سے انکار کر رہا تھا مگر حوصلہ بدن کو مجبور کر رہا تھا۔ وہ چیونٹی کی رفتار سے کھسکتا رہا۔ مگر کب تک؟ ایک چھوٹے سے گڑھے میں گرنے کے بعد حوصلے نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔

وہ بخار میں پھنک رہا تھا۔ بدن سے آگ نکل رہی تھی۔ وہاں کوئی تھرمامیٹر نہیں تھا جس سے بخار ناپا جا سکے۔ قدرت نے اس کے بدن میں خود ہی ایک تھرمامیٹر لگایا ہوا تھا۔ وہ تھرمامیٹر بہت ہی حساس تھا۔ اس کی ریڈنگ بتا رہی تھی کہ ایسا بخار اسے زندگی بھر کبھی نہیں ہوا ____ ہاں وہ طبیعت کا تھرمامیٹر تھا۔ اس کی طبیعت کہہ رہی تھی کہ بخار خطرناک ہے۔ تھرمامیٹر جھوٹ بول سکتا ہے۔ آئے دن تھرمامیٹروں کی ریڈنگ غلط ثابت ہوتی رہتی ہے مگر طبیعت جھوٹ نہیں بولتی کیوں کہ یہ قدرت کا دیا ہوا تھرمامیٹر ہے۔

"لیلیٰ !" اس کے ہونٹوں سے گرم گرم آہ نکلی۔ دو قطرے بند آنکھوں کے گھیرے کو توڑ کر اس کے کان کی لوؤں پر ٹپک گئے۔" اس بار جلد بازی مت کرنا لیلیٰ ____ میرا انتظار کرنا ____ میں آؤں گا لیلیٰ ۔ میں ضرور آؤں گا۔"

اسے غشی آگئی۔ غش میں بھی اس کے ہونٹ نیم وا تھے۔ زبان بار بار تالو تک جاتی تھی اور پھر واپس آ جاتی تھی۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا۔ کوئی کان لگا کر سنتا تو سمجھ لیتا۔ مگر سنتا کون؟ وہ بھی کسی کو سنانے کی غرض سے نہیں کہہ رہا تھا۔

بند آنکھوں کے پیچھے لیلیٰ کا چہرہ تھا۔ وہ اپنے ساگر کی تیمار داری کے لیے آگئی تھی۔" اٹھو ساگر ____ دیکھو، میں ہوں ____ تمہاری لیلیٰ۔"

ساگر بند آنکھوں کے پیچھے مسکرایا۔ اس کے بیمار چہرے پر رونق آگئی تھی۔ وہ آنکھیں نہیں کھولنا چاہتا تھا کیوں کہ وہ لیلیٰ کی شرم سے واقف تھا۔ وہ واقعی بہت شرمیلی تھی۔ ساگر اسے آنکھ کھول کر دیکھتا تو وہ منہ چھپا کر بھاگ جاتی۔ حیا اور ادا مل جائیں تو بجلی گرنے میں وقت نہیں لگتا۔

حیا سے سر جھکا لینا ، ادا سے مسکرا دینا

حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا

 وہ کہہ رہی تھی، " آنکھیں کھولو ساگر ، دیکھو میں آگئی ہوں۔" وہ اس کا بازو پکڑ کر اٹھانے لگی۔

ساگر کمزور ذہن سے سوچ رہا تھا :آج لیلیٰ کے ریشمی ہاتھ سنگین کی طرح کیوں چبھ رہے ہیں۔ جو حسین ہوتا ہے وہ کبھی کبھی سنگین بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے بازو سے گرم گرم خون بہنے لگا تو اس نے کمزوری سے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ جو اس کے بازو سے لگی ہوئی تھی وہ واقعی سنگین تھی۔


ساگر نے آنکھیں کھولیں تو شرمیلی لیلیٰ منہ چھپا کر بھاگ گئی۔ وہ جس گڑھے میں لیٹا ہوا تھا اس کے کنارے پر چار خوں خوار فوجی کھڑے تھے۔

"کون ہے بے تو؟" ایک فوجی نے ٹھیک اسی جگہ سنگین چبھوئی جہاں سے پہلے ہی گرم گرم خون بہہ رہا تھا۔ ساگر نے جواب دینا چاہا مگر ہونٹوں نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ اس پر ایک بار پھر غشی طاری ہوگئی تھی۔

سنگین ایک بار پھر چبھوئی گئی۔ وہ ہوش میں آگیا۔ سوال کڑک دار آواز میں دہرایا جا رہا تھا۔

"سس ____ سس ____ ساگر۔" اس کے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بڑی مشکل سے نکلی ہوئی آواز خود بھی لرزنے لگی۔

"یہاں کیسے آگئے؟ جانتے نہیں یہ بارڈر کا علاقہ ہے؟"

"یہ تو پاکستانی جاسوس لگتا ہے ۔" ایک دوسرا بولا۔

"تم چپ رہو رام لال۔ جاسوس ایسے معصوم نہیں ہوتے۔" سنگین والے نے جھک کر اس کے گال پر ہاتھ پھیرا اور پھر فوراً ہی واپس کھینچ لیا۔

"یہ تو پہلے ہی بیمار ہے۔ بخار میں جل رہا ہے۔" وہ حیرت سے بولا تھا۔

"ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔" رام لال معنی خیز آواز میں بولا تھا۔" گھونپ دو اس کے سینے میں سنگین۔"

وہ کتنے سنگین مزاج تھے۔ بلا وجہ قتل کر رہے تھے۔ سنگین فضا میں بلند ہوئی۔

"ٹہرو! ____ اسے نہ مارو۔" ایک بھارتی فوجی بولا۔ یہ دوسروں سے کچھ نرم دل دکھائی دے رہا تھا۔" یہ تو خود ہی مر رہا ہے۔ اگر اس کا ساز و سامان چھین لیا جائے تو یہ بھوک سے خود ہی مرجائے گا۔ ہم اس کے گندے خون میں اپنے ہاتھ کیوں سانیں؟"

اس کا تھیلا چھین لیا گیا۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس میں تھا ہی کیا۔ کوئی قیمتی چیز نہیں تھی۔ ہوتی بھی تو فوجیوں سے کون لڑتا؟

وہ چاروں چلے گئے۔ جاتے جاتے ایک فوجی نے اپنی سنگین سے اس کے دوسرے بازو میں بھی چرکا لگا دیا تھا۔ چور چوری سے چلا جاتا ہے، ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا۔ انہوں نے چوری بھی کی تھی اور ہیرا پھیری بھی۔

وہ جانے کتنی دیر وہاں پڑا رہا۔ عجیب بے بسی اس پر طاری تھی۔ ایسی بے بسی میں لوگ موت کی تمنا کرتے ہیں۔ مر جانے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ مگر وہ خاموش تھا۔ موت کی تمنا نہیں کر رہا تھا۔ لیلیٰ سے ملے بغیر مر جاتا تو اس کی روح تڑپتی رہتی۔ ادھوری موت اسے پسند نہیں تھی۔

اس کے دونوں بازو زخمی تھے۔ ایک بازو سے اب تک خون رس رہا تھا۔ پیاس الگ پریشان کر رہی تھی۔ ٹمپریچر البتہ گر گیا تھا۔ بخار کی شدت میں کمی ہوگئی تھی مگر اندرونی بخار بڑھ گیا تھا۔ عشق کے بخار کا درجۂ عشق بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ بدن کے بخار میں غشی چھاتی ہے، عشق کا بخار بڑھتا ہے تو دیوانگی چھا جاتی ہے۔ وہ سچ مچ دیوانگی کی منزل میں تھا۔

" لیلیٰ ____ " یکلخت اس نے بلند آواز سے نعرہ لگایا۔ اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹانگیں ایک مرتبہ پھر حرکت میں آ گئیں۔ اس بار وہ دوڑ رہا تھا۔ کوئی غیبی قوّت تھی جو اسے دوڑا رہی تھی۔" لیلیٰ ____ " اس نے دوڑتے دوڑتے اسے پکارا۔ وہ اپنی آواز سے پہلے لیلیٰ تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔

ابھی سائنس بھی اس قابل نہیں ہوئی تھی کہ آواز کے خول (ساؤنڈ بیرئیر) کو توڑ سکے۔ طیارے کسی جگہ حملہ کرنے جاتے تھے مگر ان سے پہلے طیّاروں کی آواز دشمن کو چوکنا کر دیتی تھی۔ آواز پہلے پہنچتی تھی، طیارے بعد میں پہنچتے تھے اس لئے بڑی آسانی سے ان کو مار گرایا جاتا تھا۔ اگر آواز سے پہلے پہنچنے والے طیارے بنا لیے جاتے تو حملہ کرنا آسان ہو جاتا۔ آواز کے خول سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ سُپر سانک طیارے ابھی تک تیار نہیں ہوئے تھے۔ البتہ آواز کا خول توڑ دیا گیا تھا۔ دنیا میں پہلی بار چودہ اگست ۱۹۴۷ میں ایک سائنسدان نے ساؤنڈ بیرئیر توڑا تھا۔ اس تاریخ میں پہلی بار انسان نے سپر سانک رفتار حاصل کی تھی۔ لیکن ابھی تک سپر سانک طیارے نہیں بنے تھے۔ سپر سانک طیاروں کی آواز اس وقت آتی ہے جب وہ کام کر کے چلے جاتے ہیں۔ مگر اس وقت تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ کوئی سپر سانک طیارہ نہیں تھا جو اپنی آواز کے خول کو توڑتا ہوا لیلیٰ کے پاس چلا جاتا۔ اس کی آواز اس کے آگے آگے جا رہی تھی اور وہ آواز کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ سرحدی ماحول گونج رہا تھا۔ دیکھا جائے تو لیلیٰ آگے کی طرف تھی، ساگر پیچھے تھا۔ آگے آگے آواز تھی اور پیچھے پیچھے آواز والا۔


اس کی آواز اس سے پہلے پاکستان پہنچ گئی۔ وہ ابھی تک ہندوستان میں تھا۔

لیلیٰ ____ اس نے ہندوستان سے آواز لگائی۔ پاکستان والی اس طرح چونک اٹھی تھی جیسے سچ مچ اس نے آواز سن لی ہو۔ لیکن پاکستانی بارڈر پر متعین فوجی آواز سن کر ہی چونکے تھے۔

"ہالٹ! ____ " ایک فوجی نے زور سے آواز لگائی۔ ہالٹ ایک فوجی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے حرکت بند کردو۔ رک جاؤ۔ کچھ مت کرو۔ مگر آواز لگانے والا فوجی نہیں تھا۔ وہ جو کر رہا تھا وہ کرتا رہا۔ نتیجتاً اس کی آواز اور زیادہ قریب آنے لگی۔

فوجیوں نے اپنی رائفلیں سیدھی کرلیں۔ آواز ایک مرتبہ پھر آئی۔ وہ منع کرنے کے باوجود مان کر نہیں دے رہا تھا۔ پھر وہی ہوگیا جو ہونا چاہیے تھا۔

"لیلیٰ ____ آ ____ آ آ"

"دھائیں ____ "

اس ماحول میں آواز کا انعکاس ہوتا تھا اس لیے بہت دیر تک دونوں آوازیں گونجتی رہیں، لیلیٰ ____ دھائیں ____ لیلیٰ ____ دھائیں ۔ آہستہ آہستہ دونوں آوازیں غائب ہو گئیں۔

دیوانہ غصے میں خاموش تھا۔ رائفل کی آواز لیلیٰ کے نام سے بلند کیوں تھی؟ یک بیک اس پر دورہ پڑ گیا۔ اس نے منہ کھولا اور پوری قوّت سے اپنی لیلیٰ کو پکارتا چلا گیا۔

اس بار کوئی گولی نہیں چلی۔ فوجی آواز پر اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کوئل کوکتی ہے تو کوکتی ہی چلی جاتی ہے۔ وہ بھی کوئل کی طرح کوکتا ہی جا رہا تھا۔ عجیب دیوانہ تھا۔ ڈرتا نہیں تھا۔ فوجی اسے تلاش کر چکے تھے۔ وہ ایک ٹیلے کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور کوئل کی کوک کی طرح کسی کو پکار رہا تھا، اس طرح جیسے گولیوں کا جواب گولیوں سے ہی دے رہا ہو۔

ایک فوجی اس کے سر پر کھڑا حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا حلیہ عجیب تھا۔ پراگندہ بال، میلے کپڑے، بڑھی ہوئی شیو اور زخمی بازو۔ آنکھوں سے وحشت اور دیوانگی ٹپک رہی تھی۔

"کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟" ایک فوجی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر با رعب آواز میں سوال کیا۔

"لے ____ لا ____" اس نے ایک سسکی لی۔ زخمی بازو تکلیف کر رہا تھا۔

"لیلیٰ کون ہے؟" دوسرا سوال کیا گیا۔

"لے ____ لا ____ " اس کا سیدھا سا جواب تھا۔

"یہ بخار میں پھنک رہا ہے۔ شاید اس کے حواس کام نہیں کر رہے۔ اسے اٹھا کر لے چلو۔" اسی فوجی نے کہا۔ دو سپاہی اس کی طرف بڑھے اور اس کے دونوں بازو تھام لیے۔ درد کی ایک تڑپا دینے والی لہر اٹھی اور وہ ایک بار پھر سسک کر رہ گیا۔

"اوہ ۔ یہ شاید زخمی بھی ہے۔" ایک فوجی نے اندھیرے کے باوجود خون کے ان سرخ دھبوں کو پہچان لیا جو اس کے کپڑوں پر تھے۔

دیوانہ خود ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا، دونوں فوجی اسے سہارا دیتے ہوئے کیمپ تک لے آئے تھے۔

وہ پاکستانی فوجی تھے۔ پاکستانی فوج کبھی بھی نورانی ہستیوں سے خالی نہیں رہی۔ بہت سے اللہ کے بندے اس فوج میں شامل تھے۔ اس کیمپ میں ایک ایسی ہی ایک بزرگ ہستی تھی جن کی نورانیت پورے کیمپ پر حاوی تھی۔ اس بزرگ ہستی کا نام قاری غلام رسول تھا۔ ان کی پاکیزہ سوچ کا اثر ہر فوجی پر تھا۔ اگرچہ فوج میں ان کا عہدہ زیادہ بڑا نہیں تھا مگر بڑے بڑے عہدیدار ان کی بات مانتے تھے۔ انہوں نے ہر بار ثابت کیا تھا کہ عقل اللہ کی دین ہے عہدوں کی عطا کردہ نہیں۔

اسے خیمے میں لایا گیا۔ قاری غلام رسول اس وقت کسی نقشے میں منہمک تھے۔ اسے خیمے میں لایا گیا تو انہوں نے سر اٹھا کر شمع کی روشنی میں اسے دیکھا۔ اس کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا اور سر جھکا کر کچھ سوچنے لگے۔ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتے رہنے کے بعد اٹھ کر عقیل کے پاس آئے اور آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیا۔

عقیل نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ وہ ایک طویل القامت شخص تھے۔ سیاہ داڑھی میں کہیں کہیں سفید بال چمک رہے تھے۔ چہرے پر ملائمت تھی اور آنکھوں میں ایسی چمک جو کسی کسی کو ملتی ہے۔

"وہ تجھے آسانی سے نہیں ملے گی دیوانے۔" بالآخر انہوں نے اپنی پاٹ دار آواز میں کہا۔" بہتر تو یہ ہے کہ اس کا خیال دل سے نکال دے اور اللہ اللہ کر۔ یہی تیری زندگی کا مقصد ہے۔"

وہ خاموش کھڑا رہا۔ کہتا بھی کیا؟ قاری غلام رسول نے ایک فوجی کو اشارہ کیا۔ وہ جلدی سے قریب آگیا۔

"اسے فرسٹ ایڈ کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کے پاس کپڑوں کا فالتو جوڑا ہو تو اس پر ایثار کردے۔" انہوں نے کہا اور پھر نقشے کی طرف متوجہ ہوگئے۔

اسے نہلایا گیا۔ فرسٹ ایڈ دی گئی۔ کپڑوں کا ایک نیا جوڑا دیا گیا۔ اسے رہ رہ کر اپنا بھائی وکیل یاد آ رہا تھا۔ اگر آج وہ ہوتا تو اس سے زیادہ خدمت نہ کر پاتا جتنی خدمت فوجی بھائی کر رہے تھے۔ فوجی بھائی واقعی بھائی تھے۔

 اس کے دونوں بازوؤں میں سرخ رنگ کا کوئی گاڑھا سا محلول لگا یا گیا تو اس کے منہ سے بے اختیار سسکی نکل گئی۔ زخموں سے ٹیس اٹھی تھی۔

"گھبراؤ نہیں ____ یہ جلن ابھی دو منٹ میں ختم ہوجائے گی۔ پھر تم ٹھنڈک اور آرام محسوس کرو گے۔" فوجی بھائی نے اس کا گال محبت سے تھپتھپایا۔ اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ دو منٹ کے اندر اندر جلن ختم ہوگئی اور اب ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی۔ اسے سکون ملا تو اس نے پہلی مرتبہ زبان کھولی۔

"تمہارا نام کیا ہے فوجی بھائی؟"

"عبد الوکیل!"

"عبد الوکیل شہید ؟" بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔

"خدا تمہاری زبان مبارک کرے۔ مجھے شہادت کی بہت آرزو ہے۔ میں عبد الوکیل شہید کی داستان ضرور سنتا مگر ____ ڈیوٹی از ڈیوٹی۔" وہ اس کا کندھا سہلا کر چلا گیا۔

"فوجی بھائی ____ خدا تمہاری آرزو پوری کرے۔" عقیل بول اٹھا ۔" اور تمہارے ساتھ ساتھ میری بھی۔"

وہ خیمے میں پڑا رہا۔ آدھی رات گزر گئی تھی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ آدھی رات کے بعد اسے خیمے کے باہر چند آوازیں آئیں۔ اسے ایسا لگا جیسے کوئی لیلیٰ کو پکار رہا ہو۔ وہ بھی لیلیٰ کو پکارتے ہوئے باہر آگیا۔

فوجیوں کی ایک نشست لگی ہوئی تھی۔ اللہ کا ذکر ہو رہا تھا۔ غلام رسول حقیقتاً ان کی روحانی تربیت کا حق ادا کر رہا تھا۔

عقیل بھی دور ہی سے کلمۂ طیبہ کا ذکر کرتا رہا۔ مختصر سا ذکر تھا۔ پھر اس کے بعد غلام رسول کی پر سکون آواز ابھری۔ دور سے بھی اس کا ایک ایک لفظ سنائی دے رہا تھا:

"آدمی اسی کے ساتھ شمار ہوتا ہے جس سے محبت کرتا ہے۔ مقصد کی بات یہ ہے کہ یہ راستہ نہایت طویل ہے۔ اور مطلوب کمالِ بلندی پر ہے۔ اور ہم نہایت پست اور کوتاہ بین ہیں اور درمیانی منازل مطلب نما سراب ہیں۔ ہمت کو بلند کرنا چاہیے اور کسی بھی حاصل ہونے والی شئے پر کفایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے مطلوب کو نہایت بلندیوں پر تلاش کرنا چاہیے۔

اعمالِ صالحہ کا بجا لانا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ پوری نمازیں ہمیشہ پابندئ وقت کے ساتھ ادا کرتے رہو۔ کام وہی ہے جو خطرے میں بھی جاری رکھا جائے۔ سپاہی غلبۂ دشمن کے وقت اگر تھوڑا سا بھی تردد کریں تو اس کی نہایت قدر و قیمت ہوتی ہے۔ جوانوں کی خوبی اس وجہ سے ہے کہ شہوتِ نفسانی کے باوجود اپنے آپ کو درست پر قائم رکھیں۔"

محفل دعا کے بعد برخاست ہوگئی۔ عقیل واپس خیمے میں آگیا۔ اس نے اپنے کام کی بات تلاش کرلی تھی۔ ہمّت کو بلند کرنا چاہیے۔ اس نے بھی اپنی ہمّت بلند کرلی تھی۔


وہ لاہور آگیا۔ سب سے پہلے اس نے داتا دربار میں حاضری دی تھی اور بڑے وثوق سے کہا تھا کہ "داتا صاحب! میں اسی نگری میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔" وہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ اس کی دعا قبول ہوگئی۔

وہ کسی عوامی ہوٹل کے باہر بینچ پر بیٹھا تھا۔ سامنے ہی بازار تھا۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو خریداری میں مصروف تھا۔ سب ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔

اس نے بھوکے پیٹ کے لئے لسی کا آرڈر دیا تھا۔ گلاس آدھا ہو چکا تھا کہ اچانک اسے بازار کی طرف سے محبت کی خوشبو آئی۔ یہ لیلیٰ کے بدن کی مہک تھی جو اس کی روح کو مہکا گئی تھی۔ وہ تیزی سے باہر کی طرف لپکا۔

ایک برقعہ پوش خاتون کسی بچی کے ہمراہ وہاں سے گزر رہی تھی۔ اس زمانے میں ایک برقعے کے دو نقاب ہوتے تھے۔ خاتون نے ایک جالی والا نقاب ڈالا ہوا تھا۔ پھر جب اس کی نظر ہوٹل سے نکلتے ہوئے جوان پر گئی تو اس نے تیزی سے دوسرا نقاب بھی چہرے پر ڈال لیا جیسے کسی سے چھپنا چاہتی ہو۔

"لیلیٰ ____ لیلیٰ ____ " عقیل اس کے قریب آکر سر گوشی میں بولا۔ اس کی آواز مسرت سے لرز رہی تھی۔

برقعہ پوش جو بھی تھی ، تھوڑی دیر کے لئے اس طرح رک گئی جیسے اس کے پیروں میں سے کسی نے زنجیر ڈال دی ہو۔

ساگر اس طرح لیلیٰ کو دیکھ رہا تھا جیسے انار کلی کو برقعہ کی دیوار میں چن دیا گیا ہو۔

"آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے انکل ____ " بچی کہہ رہی تھی، "میری آنٹی کا نام لیلیٰ نہیں ہے۔"

برقعہ پوش خاتون نے بھی سر ہلا دیا جیسے بچی کی بات کی تائید کر رہی ہو۔ مگر وہ بھی ساگر تھا، اپنی دھن کا پکا۔ جس کی خاطر اتنے دکھ جھیلے تھے اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ، "چاند کو چھپایا تو جاسکتا ہے ، بجھایا نہیں جاسکتا۔ چاند کی پھیلی ہوئی چاندنی چیخ چیخ کر اعلان کرتی ہے کہ چاند یہاں ہے، چاند یہاں ہے۔ برقعہ چہرہ تو چھپا سکتا ہے مگر لیلیٰ کو نہیں چھپا سکتا۔ وہ کون سا برقعہ ہے جس میں میری لیلیٰ کے حسن کی کرنیں چھپ سکیں؟"

"باؤ جی ____ لسّی کے پیسے؟" ہوٹل کا بیرا قریب آکر بولا تھا۔ عقیل نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور چند نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دئیے۔

"باقی تمہارے ۔ " اس نے کہا۔ لیلیٰ اتنی دیر میں دور جاچکی تھی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ برقعہ والی کے قریب پہنچ چکا تھا۔

"میری بات سنو لیلیٰ۔ "

"تم کون ہو خبیث آدمی؟ کیوں مجھے بھرے بازار میں ذلیل کرنا چاہتے ہو؟" برقعہ والی اچانک پھٹ پڑی۔

عقیل کا منہ حیرت سے کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔ وہ لیلیٰ نہیں تھی۔ تو پھر لیلیٰ کہاں تھی؟ اس نے بچی کی طرف دیکھا پھر برقعہ کی طرف، دونوں وہی تھے مگر برقعہ کے اندر لیلیٰ بدل گئی تھی۔ یہ ایک ایسا معمّہ تھا جسے عقیل حل نہیں کر سکتا تھا۔


لیلیٰ برقعہ میں لرز رہی تھی۔ آنکھیں اچانک ہی برسنے لگی تھیں۔ برقعہ نے اسے سب کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا تھا ورنہ ایک جوان لڑکی کو روتے دیکھ کر لوگ باتیں بنانے میں دیر نہیں کرتے۔

جذبات کا ایک سیلاب تھا جو اس کی آنکھوں میں امنڈ آیا تھا۔ آج پورے دو سال بعد اس کی جھلک دیکھی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ سب بندھنوں کو توڑ کر وہ ساگر کے گلے سے لپٹ جائے اور خوب روئے۔ وہ اس کے گلے سے لگ کر ساری شکایتیں اور شکوے کرنا چاہتی تھی مگر مجبوری آڑے آرہی تھی۔

اس سے کچھ ہی دوری پر کنول ساگر کو ڈانٹ رہی تھی اور ساگر نے مایوسی سے اپنا سر جھکا لیا تھا۔ اس کا جھکا ہوا سر دیکھ کر لیلیٰ کا کلیجہ کٹ رہا تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ساگر نے کتنے اعتماد سے کہا تھا کہ چاند کو چھپایا جاسکتا ہے، بجھایا نہیں جاسکتا۔ لیلیٰ نے نہ تو اسے مشکل دکھائی تھی اور نہ ہی آواز سنائی تھی مگر وہ پھر بھی اپنے چاند کو پہچان گیا تھا۔ کتنا سچا تھا اس کا عشق۔ مگر چاند نے اس کو کتنی ہوشیاری سے دھوکا دے دیا تھا۔ اپنی ہوشیاری پر اس کامل ماہ کی پیشانی خود ہی ندامت سے پسینہ آلود ہوگئی۔

ساگر نجانے کس گلی میں کھو گیا تھا۔ ادھر لیلیٰ بھرے بازار میں خود کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔ بے بسی کی انتہا تھی۔

"امی جان ____ کون تھا وہ آدمی؟ " بچی نے گھر آتے ہی کنول سے پوچھا تھا۔

"چپ ____ ایسی باتیں نہیں پوچھتے۔" کنول نے پیار سے اسے ڈانٹا۔ سمجھدار بچی خاموش ہوگئی۔

لیلیٰ سیدھی اپنے کمرے میں گئی تھی اور لو اسٹوری نکال کر بیٹھ گئی تھی۔ دل کا غبار وہ ہاتھوں پر نکالتی تھی۔ ابھی تک اسے یہ سمجھ نہیں آیا تھا کہ ساگر اور ان ہاتھوں میں کیا تعلق تھا؟ ساگر کے ذکر پر اسے ہاتھ یاد آتے تھے۔ اور ہاتھوں کو دیکھ کر ساگر کی صورت یاد آتی تھی۔

"تم کتنے ظالم ہو ساگر۔" وہ لو اسٹوری کو سینے سے لگا کر بھینچنے لگی۔ "بھرے بازار میں میرے پاس دوڑتے آئے تھے۔ کتنی دیوانگی تھی تمہارے انداز میں۔ اگر تم بھرے بازار میں مجھ سے لپٹ جاتے تو میں کیا کرتی۔ مجبوراً میں نے تمہیں دھوکا دیا تھا۔ تم مجھے اتنا کیوں چاہتے ہو ساگر؟ اتنی گہرائی کیوں ہے تمہارے عشق میں۔ میں نے تمہیں کیا دے دیا جس کی وجہ سے تم میرے اتنے دیوانے ہوگئے ہو؟"

"بس کرو میری جان ____ وہ کتاب ہے ۔" کنول نے کمرے میں داخل ہو کر شرارت سےکہا تھا۔ لیلیٰ ذرا سا جھینپی تھی پھر اس نے کتاب کو سینے سے ہٹا لیا تھا۔

" اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کنول۔ اب مجھ سے بالکل برداشت نہیں ہوتا۔" وہ کنول کے کاندھے پر سر رکھ کر رونے لگی۔ رکا ہوا طوفان اچانک بہہ نکلا تھا۔ آج وہ دل بھر کر روئی تھی۔ کنول نے بھی اسے چپ نہیں کرایا تھا۔ وہ بھی چاہتی تھی کہ برسوں کا بوجھ لیلیٰ کے دل اے اتر جائے۔

"یقین نہیں آتا تم وہی فرنٹئیر کالج والی نیلم ہو۔" کنول اس کے بالوں کو سہلاتی ہوئی کہہ رہی تھی۔" ضدی سرکش اور مغرور لڑکی، جس نے عقیل کو شکست دینے کی قسم کھا رکھی تھی۔"

"کالج میں بھی وہ ہر بار مجھ سے جیت جاتا تھا کنول ۔" وہ یادوں میں بھیگے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھی۔" تم چھی طرح جانتی ہو میں ہر بار اس سے شکست کھا جاتی تھی۔ آج بھی وہ میری ساری محبت جیت کر لے گیا ہے اور مجھے یہ ہارنا بہت پسند ہے۔ میں اپنا آپ اس کے سامنے ہار گئی ہوں۔"

اس کے ہونٹوں سے ایک گرم گرم آہ نکلی۔ گرم آہ اس کے سارے وجود کو جلا رہی تھی۔


  1. دیوانے کا عشق

لیلیٰ لاہور کی سڑکیں چھان رہی تھی۔ اس کی چمکتی ہوئی کار ہر موڑ پر اس طرح آہستہ ہو جاتی جیسے اس موڑ پر ساگر ملے گا۔ برقعے میں کار ڈرائیو کرنا اسے مشکل لگتا تھا اس لئے اس نے ایک ہلکی سی پھول دار چادر سے کام چلایا تھا۔ برابر والی سیٹ پر کنول بیٹھی تھی۔ وہ اس کی دیوانگی سے واقف تھی اس لئے خاموش تھی۔ کنول آنا نہیں چاہتی تھی مگر یہ سوچ کر اس کے ساتھ آگئی تھی کہ لیلیٰ اپنے آپ میں نہیں ہے۔ خدا نخواستہ کوئی الٹی سیدھی حرکت کر کے اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے۔

"میرا خیال ہے وہ اب نہیں ملے گا۔" کنول نے خیال ظاہر کیا۔" ہم سارا شہر چھان چکے ہیں۔"

"وہ ملے گا اور آج ہی ملے گا۔" نیلم نے پورے اعتماد سے کہا تھا۔" وہ اپنی لیلیٰ کا شہر چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔"

"گویا تم نے تسلیم کرلیا کہ تم اس کی لیلیٰ ہو؟"

کنول نے ایک ساتھ دو سوال پوچھ لئے تھے۔ تم اس کی لیلیٰ ہو بظاہر ایک جملہ تھا مگر اس کا مطلب تھا ____ تم اس کی ہو ____ تم لیلیٰ ہو۔ دونوں سوال کتنے خوبصورت تھے۔

وہ خاموش رہی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموشی آدھی ہاں ہوتی ہے۔ اس نے خاموش رہ کر ہاں کرلی تھی۔ آدھی ہاں۔

وہ نواحی علاقے میں تھیں۔ یہاں اینٹوں کو پکانے کے لئے کئی بھٹّے لگے ہوئے تھے۔ کئی مزدور کام کر رہے تھے۔ اور پھر لیلیٰ کی پیاسی نگاہوں نے ساگر کو تلاش کرلیا۔ وہ مٹی کو گارا بنا رہا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گارے میں سنے تھے۔

لیلیٰ نے کار کی رفتار تیز کی اور رخ ساگر کی طرف کردیا۔ وہ کوئی عام راستہ، سڑک یا پگڈنڈی نہیں تھی اس لئے ساگر اطمینان سے اپنے کام میں مصروف تھا۔ کار کی رفتار میں کوئی کمی نہ آئی تو وہ چونک کر کھڑا ہوگیا مگر اسے دیر ہو چکی تھی۔ کار اس کے سر پر آ گئی تھی۔ وہ شاید ہٹ جاتا مگر کار کی ڈرائیور اسے نظر آگئی تھی۔ دیوانہ، دیوانہ ہی ہوتا ہے۔ وہ بچنے کے بجائے کار کی سیدھ میں ہی آگیا۔" لیلیٰ ____ "

وہ تو اس سے مذاق کرنا چاہتی تھی مگر لیلیٰ کے تو سان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسی حماقت کر گزرے گا۔ اس نے پھرتی سے بریک لگائے مگر دیر ہو چکی تھی۔ مٹی گارے سے بھرے ہوئے دو ہاتھ اس کی کار کے بونٹ پر چھپ گئے تھے۔ اگر وہ کار چلانے کہ ماہر نہ ہوتی تو کوئی حادثہ ہو جاتا۔

وہ کار سے ٹکرا کر گر گیا۔ آج وہ بچہ نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں برسوں پہلے والا واقعہ گھوم گیا۔ لال حویلی کا واقعہ۔ تاریخ کس کس طرح اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ وہ دل تھام کر کراہتا ہوا اٹھ گیا۔

کنول حیرت سے لیلیٰ کو دیکھ رہی تھی۔ کیا اس لئے وہ سارا شہر چھان رہی تھی؟ وہ لیلیٰ کو بالکل سمجھ نہ پائی۔

کار اب ایک کچے راستے پر دوڑ رہی تھی۔ دیوانہ پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ لیلیٰ نے بھی کار کی رفتار زیادہ نہیں رکھی تھی۔

کچے راستے پر کانٹے بھی ہوتے ہیں اور پتھر بھی۔ وہ اسی کچے راستے پر ننگے پاؤں دوڑ رہا تھا۔

"رک جاؤ لیلیٰ ____ " اس نے پھیپھڑوں کی پوری قوت سے آواز لگائی۔ کار کی رفتار کم ہوگئی۔ وہ خوشی سے دوڑتا ہوا ہوا کار کے قریب جانے لگا مگر جیسے ہی کار کے قریب ہوا، کار دُھول اڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

 اس نے حیرت سے دور جاتی ہوئی کار کو دیکھا جیسے کچھ سمجھ نہ آیا ہو، پھر اپنی رفتار میں اضافہ کردیا۔ کنکر، پتھر، کانٹے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ناکام ہو رہے تھے۔ وہ اتنا کچا نہیں تھا۔

کنول حیرت سے لیلیٰ سے پوچھ رہی تھی۔" کیا پاگل ہوگئی ہو؟"

"نہیں کنول، میں بالکل ہوش و حواس میں ہوں۔" نیلم مسکرائی تھی۔" میں تمہیں اپنے دیوانے کا عشق دکھانا چاہتی ہوں۔" اس نے ایک مرتبہ پھر کار کی رفتار بڑھا دی۔ دیوانہ قریب آگیا تھا۔ رفتار بڑھی تو وہ پھر پیچھے رہ گیا ۔

"رک جاؤ لیلیٰ ____ " دور سے دیوانے کی آواز آر ہی تھی۔ لیلیٰ نے ایک مرتبہ پھر رفتار کم کردی ۔

کنول نے بیک ویو مرر میں جھانک کر دیکھا۔ دیوانہ لنگڑاتا ہوا دوڑ رہا تھا۔ شاید کوئی پتھر یا کانٹا اپنا کام کر چکا تھا۔

"اس پر رحم کرو لیلیٰ ____ وہ گر جائے گا۔"

"نہیں کنول ____ ابھی نہیں ____" اس نے کار کو پکی سڑک پر موڑ لیا۔

جذبۂ عشق سلامت ہے تو انشاء اللہ

 کچے دھاگے سے کھنچے آئیں گے سرکار بندھے

وہ گرمیوں کی دوپہر تھی۔ سڑکیں چل رہی تھیں۔ اتنی گرمی میں تو کار کے پہیوں میں بھی ہوا کچھ کم بھری جاتی ہے تاکہ برسٹ نہ ہو جائیں اور وہ اس گرمی میں تپتی ہوئی سڑک پر ننگے پیر دوڑ رہا تھا۔

"لیلیٰ ____!" اس کی دور ہوتی ہوئی آواز سنائی دی تو لیلیٰ نے کار روک دی۔ وہ قریب آنے لگا۔

"لیلیٰ یہ میں ہوں ساگر ۔ " وہ کھڑکی کے قریب آتے ہوئے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بولا تھا۔

لیلیٰ کے ہاتھ کپکپائے مگر اس سے پہلے کہ وہ کھڑکی تک آتا، کار ایک زنّاٹے سے اس کے قریب سے نکل گئی۔ اس بار کار کی رفتار کم نہیں ہوئی تھی۔ دیوانے پر بھی دورہ پڑ گیا۔ وہ اپنی پوری رفتار سے دوڑنے لگا۔ اور پوری ہی آواز سے پکارتا رہا۔" لیلیٰ رک جاؤ، لیلیٰ ____ "

لوگ حیرت سے دیکھنے لگے۔ راہ گیروں کے لیے یہ تماشہ بہت دلچسپ تھا۔ ہر کوئی ہنس رہا تھا۔ یہ کسی فلم کی شوٹنگ نہیں تھی اس لئے کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ بھلا آج کے دور میں اتنا احمق کون ہوتا ہے۔؟

کنول دیکھ رہی تھی۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیوانے کی دیوانگی کا منظر دیکھ رہی تھی۔ وہ بہت دیر سے دوڑ رہا تھا اور اب دوڑتے دوڑتے تھک گیا اس لئے لڑکھڑا رہا تھا، بار بار دائیں بائیں جھوم رہا تھا۔ ہر بار ایسا لگتا تھا جیسے وہ اب گرے گا اور کسی ٹرک کے بے رحم پہیے تلے آکر کچلا جائے گا۔ مگر دیوانہ بھی دیوانگی میں پورا تھا۔ ہار نہیں مان رہا تھا۔ جانتا تھا کہ آج رک گیا تو عشق پر حرف آجائے گا، محبت رسوا ہو جائے گی اور پیار اور سچائی دو الگ الگ راہیں بن جائیں گی۔

لیلیٰ کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ وہ ہسٹریائی انداز میں قہقہہ لگاتے ہوئے کنول سے کہہ رہی تھی۔" تم نے دیکھا کنول ؟ تم نے دیکھا ساگر کو؟ ایسا ہوتا ہے عشق۔ ایسے ہوتے ہیں چاہنے والے۔ وہ مر جائے گا مگر اپنی لیلیٰ کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دے گا۔ وہ اپنی لیلیٰ کو لے کر ہی جائے گا۔ ساگر کی لہریں لیلیٰ کو لینے آر ہی ہیں۔ آؤ میرے ساگر آؤ اور اپنی لیلیٰ کو بانہوں میں اٹھا کر لے جاؤ۔"

ساگر ہانپتا کانپتا آ رہا تھا۔ لیلیٰ نے پھر رفتار کم کردی تھی۔ کنول جانتی تھی کہ وہ پھر کیا کرے گی۔ بہت دیر سے یہ کھیل ہو رہا تھا۔

"پاگل ہوگئی ہو لیلیٰ؟" وہ چلا کر کہہ رہی تھی ۔" وہ مر جائے گا۔ تم پاگل ہوگئی ہو لیلیٰ ____ رفتار بڑھاؤ ____ میں کہتی ہوں رفتار بڑھاؤ۔" اس نے لیلیٰ کے شانے پکڑ کر اسے جھنجھوڑ دیا۔

"اسے آنے دو کنول ____ آج وہ مجھے لے کر جائے گا۔" لیلیٰ کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی۔ اس نے کار بند کردی۔

کنول نے جلدی سے اسے کھینچا اور ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹا دیا اور پھر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ساگر ابھی کافی دور تھا۔ اس نے یکایک کار اسٹارٹ کی اور پھر فل اسپیڈ پر دوڑانے لگی۔ بیک ویو مرر میں دیوانہ نظر آ رہا تھا جس کے دونوں ہاتھ کار کی طرف پھیلے ہوئے تھے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک چھوٹے سے نقطے میں بدل گیا پھر نقطہ بھی غائب ہوگیا۔ لیلیٰ کی سسکیاں کار میں گونج رہی تھیں۔


"تم ظالم ہو لیلیٰ ، نہایت ظالم۔ اس پر ستم کے کتنے پہاڑ توڑو گی؟" کنول اس کے کمرے میں چیخ رہی تھی۔

"ظالم تو ساگر ہے کنول، آج پورے دو سال بعد شکل دکھائی تھی۔ اس نے مجھے کتنا تڑپایا ہے۔"

"اور دو سال کی کسر تم نے ایک ہی دن میں نکال لی۔ ہیں؟" وہ اس کے خوبصورت بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر بولی ۔" آج کے بعد وہ تمہاری صورت پر بھی تھوکنے نہیں آئے گا۔"

"ایسا مت کہو کنول۔" لیلیٰ نے تڑپ کر اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔" اب میں اس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔"

"لیکن اسے جان سے مار سکتی ہو۔" کنول کا لہجہ بڑا تلخ تھا۔ لیلیٰ خاموش رہی۔

کنول کا غصہ کچھ کم ہوا تو لیلیٰ نے کہا، "جانتی ہو ساگر کون ہے؟"

"کون ہے؟"

"وہی ہاتھ والا۔ برسوں پہلے رسول پور میں ایک بچہ ہماری گاڑی سے ٹکرا گیا تھا۔ اس کے ہاتھوں کا نقش اب تک میرے پاس موجود ہے۔" وہ اٹھ کر ریک سے لو اسٹوری نکال لائی۔

"یہ دیکھو" اس نے دو کاغذ اس کے سامنے پھیلا دئیے۔ دونوں کاغذوں پر مٹی سے ہاتھوں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ ایک کاغذ بالکل نیا تھا اور دوسرا بہت پرانا دکھائی دے رہا تھا۔

وہ کہہ رہی تھی۔" دیکھو ان دونوں ہاتھوں میں اس کے سوا اور کیا فرق ہے کہ ایک مردانہ ہاتھ ہے اور دوسرا بچکانہ۔"

وہ غور سے دیکھنے لگی۔ واقعی دونوں ہاتھ ایک ہی جیسے تھے صرف چھوٹے بڑے کا فرق تھا۔ دونوں ہاتھوں میں چار لکیریں واضح نظر آر ہی تھیں۔

درمیانی لکیر بڑے ہاتھ میں کچھ شکستہ دکھائی دے رہی تھی۔

"یہ ہاتھ تو نہایت ہی ضدی اور سرکش مرد کا ہاتھ ہے۔" اس نے تبصرہ کیا۔

"تمہیں بھی پامسٹری آتی ہے؟ "

"انکل ہی سے چند باتیں سیکھی ہیں۔"

"وہ واقعی نہایت ضدی اور سرکش ہے۔ بالکل اپنی لیلیٰ کی طرح۔ اگر وہ ضدی اور سرکش نہ ہوتا تو اب تک لیلیٰ کا پیچھا چھوڑ چکا ہوتا۔ دس سال کوئی کم تو نہیں ہوتے کنول۔ ان دس سالوں میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ ہزاروں افراد قتل ہوگئے، پاکستان بن گیا، ایک کروڑ انسان بے گھر ہوگئے۔ مگر ان دس سالوں میں وہ بالکل بھی تو نہیں بدلا۔" لیلیٰ بڑے فخر سے کہہ رہی تھی۔ یکایک اس کے والد صاحب کے جملے گونجے جو انہوں نے اس وقت کہے تھے جب وہ سات برس کی تھی۔

"سچ ایک سا رہتا ہے نیلم بیٹا۔ جھوٹ بدلتا رہتا ہے۔ سچ جو کل تھا، سچ جو آج ہے، سچ جو کل بھی رہے گا۔ سچ کبھی نہیں بدلتا۔ زمانہ سچائی کو نہیں مٹا سکتا ____ "

لیلیٰ سوچ رہی تھی ساگر جیسا بھی ہے اپنے عشق میں سچا ہے۔ وقت بدل گیا، گھر بدل گیا، حتیٰ کہ ملک بھی بدل گیا مگر وہ جیسا کل تھا ویسا ہی آج بھی ہے۔ اس سفر میں کتنی لیلاؤں سے واسطہ پڑا ہوگا مگر وہ آج تک اپنی لیلیٰ کے لئے وہی ساگر ہے جو پہلے دن تھا۔ کتنا عظیم ہے ساگر! کتنا گہرا اور کتنا با وقار!

"ویسے تم نے سخت حماقت کی ہے لیلیٰ۔" کنول کہہ رہی تھی، "اگر آج ساگر سے دو باتیں کر لیتی تو اسے معلوم ہو جاتا کہ تم کراچی شفٹ ہو رہی ہو۔ کچھ آسرا تو ہو جاتا ملاقات کا۔ اب تمہارا دیوانہ لاہور کی سڑکیں ہی ناپتا پھرے گا۔"

"تم ٹھیک کہتی ہو کنول ۔" لیلیٰ نے ایک طویل سانس خارج کی تھی۔" اب مجھے واقعی احساس ہو رہا ہے کہ مجھ سے واقعی غلطی سر زد ہوئی ہے۔ تم ساگر کو دیوانہ کہتی ہو، جبکہ اصل دیوانی تو میں ہوں ____ میں ____ لیلیٰ دیوانی۔"

کنول خاموش رہی۔ لیلیٰ چند لمحوں تک دونوں کاغذوں کو بڑی حسرت کے سے تکتی رہی پھر انہیں کتاب میں بند کر کے لو اسٹوری کو ایک ریک میں رکھ دیا۔ محبت انسان کو کتنا تڑپاتی ہے!


دیوانہ سارا لاہور چھان چکا تھا لیکن لیلیٰ کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ وہ اس طرح غائب ہو چکی تھی جیسے پھول میں سے خوشبو۔ لاہور بے شک ایک پھول کی طرح خوبصورت تھا مگر اس پھول میں سے لیلیٰ کی خوشبو نکل چکی تھی۔ یہ گل اب ساگر کے لیے بے کار ہو چکا تھا۔ اس لئے اس نے لاہور چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔

دیوانہ دیوانگی میں بھی بڑے عاقلانہ فیصلے کرتا ہے۔ اس نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تہیّہ کیا تھا کہ اب وہ کراچی جائے گا۔ ان دنوں کراچی پاکستان کا دار الحکومت تھا اس لئے اس کی رونق نرالی تھی۔ مگر ساگر کی رونق تو لیلیٰ تھی۔ وہ لیلیٰ کی تلاش میں کراچی آ رہا تھا۔

اس نے کراچی کا ٹکٹ لیا اور ٹرین میں سوار ہوگیا۔ ٹرین کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ "یہ اتنے سارے لوگ آخر جاتے کہاں ہیں؟" اس نے سوچا۔ "ہر ایک کسی نہ کسی لیلیٰ کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ ہر ایک کسی نہ کسی لیلیٰ پر جان چھڑکتا ہے۔ کسی کی لیلیٰ دولت ہے، کسی کی لیلیٰ شہرت ہے اور کسی کی لیلیٰ کاروبار۔ اب مجھے بھی کوئی ڈھنگ کا کاروبار کر لینا چاہیے۔ لیلیٰ نے مجھے مزدوری کرتے دیکھا تھا اس لیے دور چلی گئی تھی۔ بار بار کار کی رفتار کم کر کے بتاتی تھی کہ دیکھو میں ہی تمہاری لیلیٰ ہوں اور بار بار رفتار بڑھا کر بتاتی تھی کہ دیکھو اگر مجھ کو پکڑنا ہے تو تمھیں کار حاصل کرنا ہو گی ورنہ میں بہت آگے نکل جاؤں گی۔"

وہ بہت دیر تک سوچتا رہا۔ ٹرین اس کی سوچ سے بے نیاز چلتی رہی۔ ہرے بھرے باغات، نہریں کھیت اور دریا گزرتے رہے۔ ایک کھیت کے کنارے بنی پگڈنڈی پر کوئی الھڑ دیہاتی دوشیزہ اپنے سر پر رکھی گاگر کو ایک ہاتھ سے پکڑے، دوپٹہ کاندھے سے گزار کر کمر سے باندھے جھومتی، مٹکتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی چال غضب کی تھی، بالکل ایسی جیسے رقص کر رہی ہو۔

 انسان کی چال کے دس انداز ہوتے ہیں جن میں سے ایک چال کا نام ہے رقص۔ عربی میں رقص کے معنی ہیں جھوم جھوم کر چلنا، بے فکری سے لہراتے ہوئے چلنا۔ کلی جب کھلتی ہے تو کھلنے سے پہلے دور دور تک اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے اسی طرح جب لڑکی کو اپنے اندر چھپے ہوئے حسن کے خزانے کا احساس ہوتا ہے تو اس کی چال میں سچ مچ لیلیٰ کا سا غرور آ جاتا ہے۔ وہ لچک کر، مٹک کر، جھوم کر، لہرا کر رقص کرتے ہوئے چلتی ہوئی زبان حال سے یہ کہتی ہے کہ ہو سکے تو اپنی آنکھوں کو روک لو۔ ساگر نے اپنی آنکھیں روک لیں۔ بند آنکھوں کے پیچھے لیلیٰ جلوہ نما تھی۔ جن آنکھوں میں لیلیٰ کا سورج چمک رہا ہو ان آنکھوں میں کسی اور کے حسن کا چراغ نہیں جل سکتا۔ سورج کو کون چراغ دکھا سکتا ہے؟

"ٹکٹ پلیز!" ٹی ٹی کی کرخت آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے اپنی جیب سے ٹکٹ نکالا اور ٹی ٹی کی طرف بڑھا دیا۔ ایسا کرتے وقت اس کی نظر ٹی ٹی کے چہرے پر پڑی۔ چند لمحوں تک تو وہ ششدر رہ گیا پھر اس کے حلق سے سرسراتی ہوئی آواز نکلی، " تم جگ جیت ہو ناں؟"

کالے مسّے والے ٹی ٹی نے اسے چونک کر دیکھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔

"تم جگ جیت ہو ناں؟ تم یقیناً جگ جیت ہو۔" عقیل نے اٹھ کر اس کا گریبان پکڑ لیا۔ ٹی ٹی کے چہرے پر پھیلی ہوئی ندامت بتا رہی تھی کہ وہ واقعی جگ جیت ہے۔ عقیل کی آنکھوں میں نرگس کی بےبسی کا منظر گھوم گیا اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے ایک ہاتھ سے اس کا گریبان کھینچا اور دوسرے ہاتھ سے پے درپے کئی گھونسے جڑ دئیے۔ ٹی ٹی خاموشی سے پٹتا رہا۔

عقیل کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اور دوسری طرف ٹی ٹی تھا جس نے اس کا ہاتھ نہ روکنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ بالآخر دوسرے مسافروں نے مداخلت کی۔ عقیل بھی اسے مارتے مارتے تھک گیا تھا اس لئے بیٹھ گیا۔

"یا اللہ مجھے ایک جرم کی سزا کتنی بار ملے گی؟" ٹی ٹی ٹرین کی چھت کی طرف دیکھ کر بڑے دکھ سے بولا تھا۔

"تیرا جرم ہی اتنا بڑا ہے کہ تجھے اس کی جتنی سزا ملے کم ہے۔" عقیل نفرت سے بولا تھا۔

"اتنی نفرت کا اظہار مت کرو میرے بھائی۔" ٹی ٹی آہستگی سے بولا تھا۔" اب میں جگ جیت نہیں، جہاں گیر ہوں۔"

جگ جیت اور جہاں گیر میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ دونوں ہی کا مطلب ہوتا ہے فاتح عالم۔ مگر اس کے باوجود جگ جیت اور جہاں گیر میں زمین آسمان کا فرق ہوگیا تھا۔ جگ جیت سکھ تھا اور جہاں گیر مسلمان۔

"تت ۔ تم مسلمان ہو چکے ہو؟" عقیل کی زبان لڑکھڑانے لگی ۔" کیا تم واقعی مسلمان ہو چکے ہو؟ "

ٹی ٹی نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ عقیل نے دونوں ہاتھ اس کی طرف بڑھائے اور گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا تھا، "مجھے معاف کر دینا جہانگیر بھیّا! میں اب تک یہی سمجھتا رہا کہ تم سکھ ہو۔"

"ابھی تھوڑی دیر پہلے تو تم مجھے مجرم کہہ رہے تھے؟"

"ہمارے دین میں سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ اسلام ان تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو اسلام سے پہلے کیے گئے ہوں۔"

"تم نے بہت اچھی بات کی ہے۔ میرے سینے پر ایک بھاری بوجھ تھا جس نے مجھے ہلکان کر رکھا تھا۔ آج تم نے اس بوجھ سے نجات دلا کر میری ذات پر ایک بہت بڑا احسان کیا ہے۔" جہاں گیر خوش ہو کر بولا تھا۔" میں روہڑی ریلوے کالونی میں رہتا ہوں۔ کبھی آنا۔ تمہاری خدمت کر کے مجھے بہت خوشی ہو گی۔ وہاں کسی سے بھی پوچھ لینا۔ وہ تمہیں مجھ تک پہنچا دے گا۔"

ٹی ٹی چلا گیا۔ سارے مسافر عقیل سے استفسار کر رہے تھے کہ ٹی ٹی نے کون سا جرم کیا تھا مگر عقیل نے سب کو ٹال دیا تھا۔ وہ اتنا نادان نہیں تھا کہ اپنے مسلمان بھائی کا راز فاش کر دیتا۔

سفر کٹتا رہا۔ عقیل آنکھیں بند کئے سوچ رہا تھا، "سفر انسانی زندگی سے کس قدر مشابہت رکھتا ہے۔ سفر خواہ کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو، اس میں ہزاروں تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی میں خواہ انسان ہیروں کے مکان میں رہے، سکھ بھی نہیں پا سکتا۔ ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کی طلب انسان کو تڑپاتی رہتی ہے۔ پھولوں کی طلب، خوشبو کی طلب، زیور کی طلب اور سب سے بڑھ کر لیلیٰ کی طلب۔ لیلیٰ کی طلب ہر طلب پر حاوی ہوتی ہے۔ اور جب لیلیٰ مل جاتی ہے تو ہر طلب ماند پڑ جاتی ہے۔ خدا جانے میری لیلیٰ کی طلب کب پوری ہو گی!"

کراچی آگیا تھا۔ ہزاروں لوگ ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔ یہاں ہر ایک مصروف تھا۔ سب زندگی کی دوڑ میں مصروف تھے۔ ہر ایک اس دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ یہاں بلند و بالا عمارتیں آسمان کو چوم رہی تھیں۔ مشینوں کو یہاں عروج حاصل تھا۔ انسان ہمیشہ عروج کی تلاش میں رہتا ہے اس لئے یہاں کے انسانوں میں بھی مشینی مزاج آگیا تھا۔ کام، کام، اور صرف کام کا مفہوم لوگوں نے کچھ غلط سمجھ لیا تھا۔ اس کا مطلب مشین بننا نہیں بلکہ اس کا مطلب انسان بننا ہے۔

عقیل نے اولڈ ایریا میں کرائے پر ایک مکان حاصل کرلیا تھا۔ خرچ کے لیے اس کے پاس کافی رقم تھی۔ وہ اگر چاہتا تو کئی مہینے آرام سے کھا سکتا تھا مگر بیکاری سے اسے شروع ہی سے نفرت تھی اس لئے وقت گزاری کے لیے ایک چھوٹا سا مکان کاروبار کیلئے حاصل کرلیا۔ اس نے سفید اور کالے زیرے کی سپلائی شروع کردی تھی۔ بہترین قسم کا زیرہ لے کر وہ شفاف پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند کرتا تھا اور پھر شہر بھر کی چھوٹی بڑی دکانوں میں سپلائی کرتا تھا۔

ابتدا میں اسے کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی کیوں کہ سپلائی تو تھی مگر لوگوں کی طرف سے ڈیمانڈ نہیں تھی۔ شروع کے دو مہینے نقصان ہی میں گزرے لیکن اس کے بعد لوگوں کو پیک زیرے کی کوالٹی کا اندازہ ہوگیا۔ یہ سب سے بہترین زیرہ تھا اور دوسروں کی نسبت زیادہ مہنگا نہیں تھا۔

دو مہینے بعد پیک زیرے کی طلب میں اضافہ ہوا۔ ہر پروویژن اسٹور پر اس کا مال سپلائی ہونے لگا۔ لوگ آنکھ بند کر کے اس کی ساکھ پر اعتماد کرتے۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسے تنہا لوگوں کی ڈیمانڈ پوری کرتے ہوئے دقت ہونے لگی تو اس نے ایک ملازم رکھ لیا۔ پھر ملازموں کی تعداد بڑھنے لگی۔ پھر ایک دوکاندار کے کہنے پر اس نے گرم مصالحے کی ترسیل کرنا شروع کردی۔ اپنا معیار اس نے یہاں بھی سب سے بلند ہی رکھا۔ اس کے گرم مصالحے میں کوئی ملاوٹ نہیں تھی نہ ہی کوئی آئٹم آؤٹ آف ڈیٹ تھا اس لئے کھلے مصالحے کی بہ نسبت پیک مصالحہ زیادہ فروخت ہونے لگا۔ اس کی ساکھ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا اس لئے اسے مزید آدمیوں کی ضرورت پیش آئی۔ آدمیوں کا چناؤ وہ خود کرتا تھا اور فرض شناس، محنتی، دیانت دار اور جسمانی طور پر قوی آدمیوں کا انتخاب کرتا تھا۔ اگر کوئی آدمی چالاکی یا عیاری دکھاتا تو پہلی فرصت میں اس کی چھٹی کر دیتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے گرد قابلِ اعتماد لوگ جمع ہوتے گئے۔ یہ لوگ کہنے کو ملازم تھے مگر ان کے ساتھ عقیل کا رویہ دوستانہ تھا۔ عقیل کے اس مشفقانہ رویّے نے ان میں کام کرنے کی ایک اسپرٹ بھر دی تھی۔ جہاں ایسے دیانت دار لوگ موجود ہوں وہاں ترقی ضرور ہوتی ہے۔ وہ بھی ترقی کی منازل طے کرنے لگا۔ سچ ہے کہ انسان کی مستقل محنت رنگ ضرور لاتی ہے۔


  1. زیرے سے ہیرے تک

لیلیٰ نے ایک بار پھر کالج میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ مسلمانوں کے ملک میں تھے۔ اپنے پاکستان میں، اس لئے والد صاحب نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس وقت کراچی میں گنتی کے چند ڈگری کالج تھے۔ جن میں سے خواتین کے لئے ایک ہی تھا۔ وہ بھی کچھ زیادہ بڑا نہیں تھا۔ ہر مضمون میں محدود نشستیں تھیں، لیلیٰ نے تاریخ لی تھی۔ تاریخ بڑا سبق آموز مضمون ہے۔ اقوامِ عالم کے عروج و زوال میں درسِ عبرت ہے مگر اسے اس نظریئے سے نہیں پڑھایا جاتا۔

ڈگری کالج میں لڑکیوں کو خانہ داری بھی سکھائی جاتی تھی۔ یہ اس کالج کی خوبی تھی کہ طالبات کو ایک مکمل انسان بننے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ اس مقصد کے لیے مہینے میں ایک یا دو مرتبہ ایسی کلاسیں ہوتیں جو خالصتاً خانہ داری کی ترغیب دلاتی تھیں۔ سب لڑکیوں کو مساوی سہولتیں اور مساوی وقت دیا گیا تھا۔ اول آنے والی کو خصوصی انعام بھی دیا جانا تھا اس لئے ہر لڑکی کی پوری کوشش یہی تھی کہ وہ خصوصی انعام حاصل کر سکے۔

نیلم کلاس میں داخل ہوئی تو کلاس شروع ہونے میں چند ہی منٹ باقی تھے۔ ایک بڑی سی ٹیبل پر برنر وغیرہ سیٹ کئے ہوئے تھے۔ باقی سامان بھی ترتیب سے رکھا ہوا تھا۔ ہر لڑکی پہلے سے ہی تیار تھی۔ وہ بھی اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ گئی۔ بیل اسٹارٹ ہوئی تو سب لڑکیوں نے برنر آن کئے اور چھوٹی پتیلیوں میں گھی ڈال کر گرم کرنا شروع کیا۔ نیلم نے بھی یہی کیا تھا۔

پھر اس نے گرم مسالے کا پیکٹ اٹھایا اور پلاسٹک کی شفاف تھیلی کو قینچی کی مدد سے کھولا۔ تیز خوشبو اس کی حسِ شامہ سے ٹکرائی۔ اس نے حیرت سے تھیلی کی طرف دیکھا۔ وہ بچپن ہی سے کچن اور پکوان سے واقف تھی مگر گرم مسالے کی اتنی تیز خوشبو پہلی مرتبہ سونگھ رہی تھی۔

خوشبو چیخ چیخ کر نیلم سے کچھ کہہ رہی تھی۔ اس نے بے خود ہو کر پیکٹ اٹھا لیا۔ پیکٹ سب لڑکیوں نے دیکھا تھا مگر نیلم کی طرح دیوانی کوئی لڑکی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو پہلے سے ہی دیوانی تھی اب پیکٹ کو دیکھ کر اور دیوانی ہوگئی تھی کیوں کہ وہاں صاف لفظوں میں لکھا ہوا تھا "ساگر ۔"

وہ پیکٹ کو اس طرح سے سونگھنے لگی جیسے اپنے ساگر کی خوشبو کو روح میں رچا بسا رہی ہو۔ ادھر پتیلی میں موجود گھی کڑکڑا کر دھواں بن کر غائب ہوگیا تھا۔ اس کی انسٹرکٹر حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ سارا گھی غائب ہو چکا تھا مگر نیلم بے خود سی ہو کر پیکٹ کو ہی سونگھے چلی جا رہی تھی۔ اس کا تو بس نہیں چل رہا تھا ورنہ اس کاغذ کے پیکٹ کو دل میں اتار لیتی۔

"بغیر گھی کے اب تم اس میں اپنا سر پکاؤ گی؟" برابر کھڑی فریدہ نے حیرت سے کہا تھا۔

نیلم چونک پڑی۔ واقع پتیلی خالی ہو چکی تھی۔ اس نے جلدی سے برنر بند کردیا تھا۔ اور انسٹرکٹر کو دیکھنے لگی۔

"تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نیلم؟" انسٹرکٹر قریب آکر ہمدردی سے بولی ، "میں تو سمجھ رہی تھی کہ اس بار بھی تم خصوصی انعام حاصل کر لوگی۔"

"طبیعت تو ٹھیک ہے میڈم بس ذرا دل ____ بس ذرا دل ____ گھبرا رہا ہے۔" وہ اس سے زیادہ کچھ اور نہ کہہ سکی۔

"اوہ! تمہیں آرام کی ضرورت ہے ۔مقابلے کے وقت ذہنی طور پر فٹ ہونا بہت ضروری ہے۔"

" جی جی۔" اس نے جلدی سے سر ہلایا۔ اب وہ میڈم سے کیا کہتی کہ صرف ذہنی ہی نہیں قلبی طور پر بھی فٹ ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ خاموشی سے مقابلے سے دستبردار ہو گئی۔ اس نے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔ کلاس سے باہر نکلتے وقت وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی، "ساگر کے بچے! ہمیشہ کی طرح آج بھی تم جیت گئے۔ ہار جیت کی آنکھ مچولی کب تک کھیلتے رہو گے؟ میں نے اپنی آنکھوں پر تمہارے پیار کی جو پٹی باندھی ہے اس میں تمہارے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا۔ یہ پٹی کب کھولو گے ساگر؟ یا اسی طرح تڑپتے اور تڑپاتے رہو گے؟"


تڑپانے والا خود بھی تڑپ رہا تھا۔ لیلیٰ کو بھلانے کی خاطر وہ بری طرح اپنے کاروبار میں جت گیا تھا۔

 ہر روز 15، 16 گھنٹے کاروبار کو دیتا تھا کہ شاید اسی بہانے لیلیٰ کا جوش کم ہوجائے مگر اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ اب تو لیلیٰ کے خیالات اور مضبوط ہوگئے تھے۔ کبھی کبھار تو اسے بالکل ایسا لگتا تھا جیسے لیلیٰ اس کے سامنے ہی آ کھڑی ہوئی ہو۔

 اس نے لیلیٰ کے خیال سے بچنے کے لئے کاروبار کی طرف ساری توجہ لگا دی تھی۔ لیلیٰ تو اس کے دل سے کیا نکلتی البتہ اس کی توجہ سے کاروبار چمکنے لگا۔ اسے جو منافع حاصل ہوتا اس کا اکثر حصہ وہ کاروبار میں لگا دیتا اور جو باقی بچ رہتا اسے ورکرز میں بانٹ دیتا۔

خود اسے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں تھی۔ دنیا میں اس کا تھا ہی کون جس کے لیے اس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی؟ اب تو اس نے سستے صابن کی دو فیکٹریاں بھی خرید لی تھی اور پہلی فرصت میں ادنیٰ کو اعلیٰ درجے تک لے گیا تھا۔ ابتدا میں اسے کچھ نقصان اٹھانا پڑا پھر نتیجہ حسبِ سابق اس کے حق میں ہو گیا۔ لوگ اعلیٰ اور ادنیٰ میں خود تمیز کر لیتے ہیں۔ محض چند ہفتوں میں فیکٹری نفع دینے لگی۔

 وہ دولت میں کھیل رہا تھا مگر اس کے باوجود زندگی خالی خالی سی تھی۔ دل میں لیلیٰ کی محبت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اس کی حالت کا نقشہ بالکل ان اشعار کے مطابق تھا؛

سچی محبت جھوٹ ہے پیارے شاعر تو بھی سیکھ فراڈ
ایک کی خاطر اتنی ساری لیلاؤں کو کھوتا ہے

شاعر کو سمجھانا لیکن بچوں کا کچھ کھیل نہیں
لیلیٰ لیلیٰ کرتے کرتے روتے روتے سوتا ہے

 وہ واقعی لیلیٰ لیلیٰ کرتے سوتا تھا۔ کبھی کبھار اسے خیال آتا ہے کہ کاش اس کے پاس لیلیٰ کی کوئی تصویر ہی ہوتی تو تصویر ہی سے اپنے دل کی باتیں کرتا رہتا۔" تم بڑی ظالم ہو لیلیٰ اپنی کوئی تصویر ہی مجھے دے دو ،تم نہ سہی تمہاری تصویر ہی میرے سینے سے لگ جائے گی۔" وہ بلک اٹھتا۔

پھر ایک روز اس نے اپنے منیجر سے کہا تھا کہ وہ پچیس بہترین آرٹسٹوں کا انتظام کریں۔ منیجر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تھا کیونکہ اس کی سمجھ میں اس حکم کا مقصد نہیں آ سکا تھا۔" جتنی جلدی ان کا انتظام ہو جائے بہتر ہے۔"

"او کے سر ! میں آج ہی ملک کے نامور مصوروں کو مدعو کرتا ہوں۔ لیکن سر آپ تو جانتے ہی ہیں یہ مصور من موجی ہوتے ہیں۔ اس لئے کچھ وقت تو لگے گا۔ ویسے بائے دا وے، انہیں کتنے دن کے لئے مدعو کرنا ہے؟"

"شاید ایک مہینے تک ____ ورنہ کم از کم ایک ہفتہ۔"

"او کے سر! میں اپنی پوری ہی کوشش کروں گا۔" منیجر اٹھ گیا

ٹھیک ایک ہفتے بعد اس کی رہائش گاہ پر ملک کے پچیس بہترین مصور جمع تھے۔ ایک جوان مصور پوچھ رہا تھا، "ساگر صاحب ! ہمیں یہاں کس سلسلے میں مدعو کیا گیا ہے؟ "

"ایک پورٹریٹ بنوانی ہے۔"

"پورٹریٹ بنوانی ہے؟ " کئی مصور چیخ اٹھے تھے۔" مگر اس کے لئے آپ کو ہمارے اسٹوڈیو تشریف لانا چاہیے تھا۔"

"وہ پورٹریٹ اسٹوڈیو میں نہیں بن سکتی۔"

"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟"

"اسٹوڈیو میں آپ پورٹریٹ کس طرح بناتے؟"

"آپ کو سامنے بٹھا کر آپ کی پورٹریٹ بناتے۔"

"مجھے اپنی پورٹریٹ نہیں بنوانی۔"

"ہر ایک کے لئے یہی طریقہ ہے جناب۔" ایک مصور کے لہجے سے ناگواری ٹپک پڑی تھی ۔" آپ بے شک ایک بڑے آدمی ہیں مگر ہم مصوروں کا وقت بھی بہت قیمتی ہوتا ہے۔"

"بے شک آپ لوگوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے مگر اس لئے آپ کو یہاں زحمت دی ہے کہ میں ایک حیرت انگیز پورٹریٹ بنوانا چاہتا ہوں۔ اس مصوری میں آپ کی قوتِ تصور کا اندازہ ہوگا۔ آپ کو بغیر دیکھے ، بغیر نمو نے کے ایک پورٹریٹ تیار کرنا ہو گی۔ میں حلیہ بتاؤں گا اور آپ اسے کینوس پر ڈھالتے جائیں گے۔ میں منہ مانگا معاوضہ دینے کے لیے تیار ہوں۔"

"یہ نہایت مشکل کام ہے ساگر صاحب! جو تصویر آپ کے دل میں ہے ہم اسے کینوس پر کیسے منتقل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک نظر ہی اسے دکھا دیں تو ہمارا کام آسان ہو جائے گا۔" ایک عمر رسیدہ مصور نے کہا تھا۔ وہ غالباً اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا تھا۔

"ایک نظر تو میں خود بھی نہیں دیکھ سکتا، آپ کو کیسے دکھا دوں؟" ساگر صاحب نے بڑی حسرت سے کہا تھا۔

"ٹھیک ہے ہم کوشش کریں گے۔" عمر رسیدہ مصور نے کہا تھا۔" مگر اس حقیقت کو آپ بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں ____ "

"اوہ! اس میں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ معاوضہ ہر ایک کو پورا پورا دیا جائے گا اور کامیاب پورٹریٹ بنانے والے کو اس کے علاوہ بھی دیا جائے گا۔ تو پھر آپ کب سے کام شروع کر رہے ہیں؟"

"کل سے۔"

"ٹھیک ہے۔ آج آپ لوگ آرام کریں۔ کسی قسم کا تکلف کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ یہاں میرے اور میرے نوکروں کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا۔" وہ اٹھ گیا۔


دوسرے دن پچیس مصور اپنے سامان سمیت تیار کھڑے تھے۔ عقیل حلیہ نوٹ کرا رہا تھا۔

"چاند جیسا چہرہ، ستاروں جیسی آنکھیں، یاقوتی قاشوں جیسے ہونٹ، سونے جیسی رنگت، کمان جیسی ابرو ____ " وہ کہتا رہا

سارے مصور حیرت سے منہ پھاڑے اس کی شکل دیکھ رہے تھے۔ غالباً سب ہی کی سمجھ میں آ چکا تھا کہ وہ یہ پورٹریٹ کیوں بنوانا چاہتا ہے۔

"مسٹر ساگر۔ ہم شاعر یا عاشق نہیں ، مصور ہیں۔" ایک آرٹسٹ بھنا کر بولا تھا۔" ہمیں تو لمبائی چوڑائی میں حلیہ چاہیے۔"

"لمبائی چوڑائی میں حلیہ چاہیے؟" ساگر گڑبڑا گیا۔ اس نے اپنی لیلیٰ کو ہمیشہ محبت کی نظر سے دیکھا تھا۔ محبت کی نظر ایسی ہی ہوتی ہے۔ حساب کتاب اور لمبائی چوڑائی تو بیگانے لوگ دیکھتے ہیں۔

اسے شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر عمر رسیدہ مصور اس کے پاس آیا۔ اس کا نام جاوید رانا تھا۔

"اگر آپ حلیہ نہیں بتا سکتے تو ہمارے چند سوالوں کے جوابات دے دیں۔" جاوید رانا نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

"پوچھیں"

"آنکھیں کیسی ہیں؟"

"چمکیلی ____ سفید حصہ بہت خوبصورت اور کالا بہت چمک دار۔"

"نوٹ کریں۔" جاوید رانا نے اپنے ساتھیوں سے کہا اور پھر دوبارہ عقیل کی طرف مڑ گیا۔

"آنکھیں بڑی ہیں، چھوٹی ہیں یا درمیانی؟" اس نے سوال کیا۔

"بڑی سے کچھ چھوٹی اور درمیانی سے کچھ بڑی"

"پلکیں؟"

"گھنی اور لمبی۔"

"ناک ____ ؟"

"خوبصورت اور بے داغ اور معمولی سی (up-turned) اٹھی ہوئی جو اس کے حسن میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔"

"چہرہ لمبا، گول، چوکور یا نوکیلا؟"

"کسی حد تک بیضوی"

"بھاری ہلکا یا درمیانہ؟"

"درمیانہ۔"

عمر رسیدہ مصور جاوید رانا کرید کرید کر اس سے سوال کرتا رہا۔ بعض سوالات بے حد نازک تھے۔ اسے بہت سوچنا پڑا تھا۔ بہر حال اس کا بیان کردہ حلیہ نوٹ کر لیا گیا۔ مصوروں کا کام شروع ہوگیا تھا۔

دوسرے دن عقیل نے ان کے کام کا جائزہ لیا۔ اس کے سامنے پچیس چہروں کے لے آؤٹ تھے۔ ایک مصور کسی حد تک کامیاب ہوگیا تھا۔ عقیل اسی کے پاس جا کر رک گیا۔

"شاباش ____ تمھارا تصور کافی واضح ہے۔ لیکن یہ ٹھوڑی کچھ زیادہ بڑی ہوگئی ہے، اسے کچھ کم کرو۔"

وہ روزانہ اسی طرح ان کی کارکردگی چیک کرتا رہا۔ آرٹسٹ ہر روز اس سے کئی سوالات کرتے تھے اور وہ یاد داشت کے بھروسے پر جوابات دیتا رہتا تھا۔ اب اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ لیکن اس نے بھی ہار نہیں مانی تھی۔ اور پھر ٹھیک پندرہ دن بعد ایک عمر رسیدہ مصور کامیاب ہوگیا۔ اس نے ہو بہو لیلیٰ کی قد آدم پورٹریٹ بنادی تھی۔ یہ آرٹسٹ جاوید رانا تھا۔ اس کا لوہا سب مان گئے۔

"دیکھو، تم بھی دیکھو۔ "عقیل آرٹسٹوں سے خوشی بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔" میں نے پہلے ہی کہا تھا، سچ بتاؤ کیا یہ چاند جیسا چہرہ نہیں، کیا یہ ستاروں جیسی آنکھیں نہیں ہیں؟ کیا یہ ہونٹ یاقوت کی ترشی ہوئی قاشوں کی طرح نہیں ہیں اور کیا اس کی رنگت سونے جیسی نہیں ہے؟"

"بالکل ہے ساگر صاحب ____ " ایک آرٹسٹ نے کہا، "مگر آرٹسٹ کا ان خوبصورت تشبیہات سے کام نہیں چل سکتا تھا۔"

"میں نے منہ مانگے معاوضے کا وعدہ کیا تھا۔ ساگر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا، مانگو ____ مانگو۔"

"ہمیں شرمندہ مت کریں ساگر صاحب ۔"جاوید رانا نے کہا۔

"کیا مطلب؟"

"ہم آرٹسٹ ہیں ساگر صاحب۔ ہمارا معاوضہ کاغذ کے نوٹ نہیں، آرٹ کے دلدادہ لوگوں کی خوشی ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے ہماری زندگی کا سب سے بڑا معاوضہ دے دیا ہے۔ شاید ہمارے فن سے کوئی اور اس قدر خوش نہ ہوتا جتنا آپ خوش ہوئے ہیں۔ یہی ہمارا معاوضہ ہے۔" جاوید رانا نے کہا۔

"آپ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی شامل کر رہے ہیں۔ ٹھیک ہے، آپ لوگ ایسے نہیں مانیں گے۔ اگلے ہفتے لندن آرٹ گیلری میں مشہور مصوروں کے فن پاروں کی نمائش لگ رہی ہے۔ میری طرف سے آپ سب لوگوں کو آنے جانے کا ہوائی ٹکٹ اور ضروریات کا خرچ قبول کرنا ہوگا۔ اگر آپ واقعی آرٹسٹ ہیں تو کبھی میرے آرٹسٹک تحفے کو نہیں ٹھکرائیں گے۔"

جاوید رانا ہنس پڑا۔" آخر آپ نے ترکیب نکال ہی لی۔ یقیناً ہم میں سے کوئی بھی انکار کی جرات نہیں کر سکتا۔"

آرٹسٹوں کو رخصت کر دیا گیا۔ عقیل نے لیلیٰ کی پورٹریٹ اپنے بیڈ روم میں سجا دی۔ دن بھر اس نے بڑی مشکل سے اپنے دل پر قابو کیا۔ رات کو سونے کے لیے وہ اپنے کمرے میں آیا تو اپنے آپ میں نہ رہا۔ وہ دروازہ بند کر کے لیلیٰ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ نیلے رنگ کا نائٹ بلب لیلیٰ کے حسن میں چار چاند لگا رہا تھا۔ آرٹسٹ نے بھی کمال ہی کردیا تھا۔ پورٹریٹ میں اس نے گویا اپنی جان ڈال دی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ابھی پورٹریٹ میں سے نکل آئے گی۔

"لیلیٰ ____ لیلیٰ ۔" وہ بڑی حسرت سے پورٹریٹ کو چھونے لگا۔" میں نے کتنی مشکلوں سے تمھاری تصویر حاصل کی ہے۔ اب میں تمہیں کس طرح سے حاصل کروں؟ مجھے بتاؤ نا میری لیلیٰ، مجھے بتاؤ، مجھے راستہ سمجھاؤ، مجھے بلاؤ ناں۔" وہ ساری پورٹریٹ پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگا۔ پورٹریٹ پر ہاتھ پھیرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ سچ مچ کی لیلیٰ نہیں تھی بلکہ اس کی تصویر تھی۔ تصویر کبھی اصل نہیں ہوتی ہاں اصل جیسی ہوتی ہے۔ وہ اصل پر نہیں اصل جیسی پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ یہ اس کا اظہار محبت تھا۔ جب تصویر کے ساتھ اس کی محبت کا یہ عالم تھا تو تصویر والی کے ساتھ اس کی محبت کا عالم کیا ہوتا؟ وہ اسی طرح پورٹریٹ سے سر ٹکائے جانے کب سو گیا۔


ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو لیلیٰ نے فورا ً ہی ریسیور اٹھا کر کان سے لگا لیا تھا۔

"ہیلو۔"

"ہیلو، یہ میں ہوں لیلیٰ! ____ کنول۔"

"کیسی ہو کنول؟" لیلیٰ کھل اٹھی

"بالکل ٹھیک تم۔ سناؤ"

"ٹھیک ہوں۔ یاسمین کیسی ہے؟"

"نزلے سے شوں شوں کر رہی ہے۔"

"آج کل موسم ہی کچھ ایسا چل رہا ہے۔"

"تمہیں معلوم ہے میں نے فون کیوں کیا ہے؟"

"میں کیا جانوں؟"

دوسری طرف کنول نے اس طرح اپنا گلا صاف کیا تھا جیسے کوئی بہت افسوس ناک بات سنانے کی تیاری کر رہی ہو۔ تھوڑی دیر تک دوسری طرف خاموشی رہی پھر کنول کی دھیمی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہی تھی، "تمہیں شاید علم نہ ہو کہ انکل نے مجھ سے اور یاسمین کے ابو سے تمہارے لیے مناسب رشتہ ڈھونڈنے کی درخواست کی تھی۔"

لیلیٰ کے سر پر گویا ایٹم بم پھٹ گیا تھا۔ اس نے ریسیور کو کان سے ہٹا کر چہرے کے سامنے کر لیا اور اسے ایسے گھورنے لگی جیسے کوئی بھوت اس میں سے نکل کر اس پر حملہ کرنے والا ہو۔

 ریسیور سے کنول کی آواز نکل رہی تھی، "میری بات تو سنو نیلم۔ دیکھو فون بند مت کرنا، تمہیں میری قسم!"

لیلیٰ نے تھکے تھکے سے انداز میں ریسیور کو کان سے دوبارہ لگا لیا۔

"ہیلو۔ ہیلو لیلیٰ ۔ " کنول چیخ رہی تھی

" ہیلو!" لیلیٰ نے سپاٹ لہجے میں کہا

"او تھینکس گاڈ! میں ڈر رہی تھی کہ تم کہیں فون ہی بند نہ کردو۔ ویسے ہی بڑی مشکلوں سے لائن ملی ہے۔"

"پوچھو گی نہیں وہ خوش نصیب کون ہے؟"

"کون ہے؟" لیلیٰ نے بے دلی سے پوچھا۔

"رنگ پور کا نواب ____ نواب یار شاکر شہر یار"

"رنگ پور کا نام تو کچھ سنا ہوا سا لگتا ہے۔"

"ضرور سنا ہوگا۔ یہ ہیر رانجھا کا شہر ہے۔ اگر تم ہاں کردو تو رنگ پور کا رانجھا اپنی ہیر کو کراچی سے واپس رنگ پور لے جائے گا۔ رنگ پور مظفر گڑھ کے پاس ہے۔"

نیلم کی آنکھیں تصور میں عقیل کو دیکھنے لگیں۔ عقیل نے اسے لیلیٰ بنا دیا تھا۔ اور خود اس کی خاطر ساگر بن گیا تھا۔ اب کوئی رانجھا اسے زبردستی ہیر بنانے پر تل گیا تھا۔

"ابو جی کیا کہتے ہیں؟"

"انکل کو یاسمین کے ابو پر پورا بھروسہ ہے۔ بات صرف تمھاری ہے۔"

"تم بہت کمینی ہو کنول۔ نہایت ہی بےدرد ہو۔ تم سب کچھ جاننے کے باوجود یہ سب کچھ پوچھ رہی ہو۔"

"میں تمھیں اور تمھاری دیوانی محبت کو اچھی طرح سمجھتی ہوں نیلم۔ لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رکھ لو کہ زندگی سہانے خوابوں کے سہارے بسر نہیں کی جا سکتی۔ ساگر ایک سہانا خواب ہے نیلم اور سہانے سپنوں کی تعبیر اکثر بھیانک ہی نکلتی ہے۔"

"یہ تم کہہ رہی ہو کنول؟ تم اسے اچھی طرح جانتی ہو۔ ساگر کوئی خواب نہیں حقیقت ہے۔ ایک زندہ حقیقت۔"

"اگر وہ واقعی حقیقت ہے تو ذرا سچ سچ بتانا کہ اس نے تم سے کتنی بار کہا ہے کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے اور جلد ہی شادی بھی کرلے گا؟ "

"تم اچھی طرح سے جانتی ہو کنول کہ اس نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں ____ لیکن۔"

"لیکن ویکن کچھ نہیں۔ اس نے ایک مرتبہ بھی تم سے اقرارِ محبت نہیں کیا۔ اور تم ہو کہ اس کے پیچھے مری جا رہی ہو۔"

"کنول ، میں قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ وہ مجھ سے شدید، شدید بلکہ بہت شدید محبت کرتا ہے۔"

"احمق لڑکی۔ اس کا بھوت اپنے سر سے اتار دے۔ عقل سے سوچ، کراچی انسانوں کا سمندر ہے۔ سمندر میں ایک قطرہ گر جائے تو کبھی نہیں ملتا۔ وہ انسانوں کے سمندر میں گم ہوگیا ہے اور اب وہ تجھے کبھی نہیں ملے گا۔"

"یو شٹ اپ کنول۔ آئی سے یو شٹ اپ۔" وہ اتنی زور سے چلائی کہ اسے کھانسی آنے لگی۔ پھر اس سے پہلے کہ کنول اس سے کوئی اور بات کرتی لیلیٰ نے ریسیور دھائیں سے کریڈل پر پٹخ دیا۔

اس رات وہ بستر پر پڑی بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی۔ کسی پل قرار نہیں آ رہا تھا۔ کنول کے جملے تیر بن کر اس کے کانوں کو چھید رہے تھے۔" اب وہ تجھے نہیں ملے گا، کبھی نہیں ملے گا۔" وہ ہڑبڑا کر بستر پر اٹھ بیٹھی۔" تم کہاں کھو گئے ہو ساگر" وہ دھیرے دھیرے سسک رہی تھی۔ "میں اب مزید نہیں لڑ سکتی۔ آؤ میرے ساگر، جلدی آؤ۔ مجھے آ کر لے جاؤ ساگر۔ اپنے اندر چھپا کر کہیں دور لے جاؤ۔ آؤ ساگر خدا کے لئے آ جاؤ ____ "


سلور کواٹرز کے قریب ہی نہایت وسیع و عریض رقبے پر ایک سولہ منزلہ عمارت تعمیر ہو رہی تھی۔ ساگر انڈسٹریز میں اب کئی انڈسٹریاں شامل ہو چکی تھیں۔ سولہ منزلہ وہ عمارت بھی ساگر ہی کی ملکیت تھی۔ کروڑوں کا پراجیکٹ تھا۔ عمارت نہایت جدید تعمیراتی ڈیزائن کے مطابق تیار ہو رہی تھی۔ ساگر خود اس پراجیکٹ کی نگرانی کر رہا تھا۔

اب ساگر نے قیمتی پتھروں کا کاروبار بھی شروع کردیا تھا۔ خوش نصیبی اس کے قدم چوم رہی تھی۔ اس کے ہیرے واقعی انمول تھے۔ وہ بہترین چیز ہی کو ہاتھ لگاتا تھا اور یہی اس کی کامیابی تھی۔ پچھلے دنوں ہی ڈنمارک کی شہزادی نے ہیرے دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ اور جب اس نے ہیروں کو دیکھا تو مسرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ ساگر کی پسند کوئی معمولی نہیں تھی۔ اس نے منہ مانگی قیمت ادا کی تھی۔ ساگر نے ڈنمارک کی شہزادی کے لباس کو غور سے دیکھا تھا۔ کئی ہیرے تو اس کے لباس میں ہی جڑے ہوئے تھے مگر وہ ہیرے ساگر کے ہیروں کے مقابلے کچھ بھی نہیں تھے۔

 اس کے منیجر نے برطانیہ کی شہزادی سے سودا کیا تو واپسی پر اس کے لباس کی بہت تعریف کی تھی۔ اس برطانوی شہزادی کا ڈریس دس ہزار امریکی ڈالرز کی مالیت کا تھا۔[7] اور پھر ساگر کو بھی ضد ہی چڑھ گئی تھی۔ وہ بھی ایک لباس کے لئے دنیا بھر کا چکر کاٹ رہا تھا۔ اس لباس میں وہ ہیرے لگوانا چاہتا تھا مگر کچھ خیال کر کے ہیروں کی جگہ نیلم جڑنا گوارا کرلیا۔

وہ محبت والا تھا۔ محبت قیمت نہیں دیکھتی، نسبت دیکھتی ہے۔ ہیروں کو اس کی لیلیٰ سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ جبکہ نیلم کو اس کی لیلیٰ کے نام سے نسبت تھی۔ جلد ہی اس نے ایک نہایت قیمتی اور بھاری لباس تیار کروا لیا۔ اس لباس میں ساری کڑھائی نیلم سے ہی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ نیلے نیلے نیلم جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔ خدا ہی جانتا تھا کہ اس نے اس لباس کے لئے کتنے پاپڑ بیلے تھے۔ خوبصورتی میں بلاشبہ یہ لباس ڈنمارک کی شہزادی کے لباس کو بھی شرما رہا تھا۔

ابھی دو دن پہلے ہی نواب آف رنگ پور سے ٹیلی فون پار بات ہوئی تھی۔ وہ ہیروں کا شوقین تھا۔ اور ہر قیمتی ہیرا خریدنا اس کی ہابی تھی۔ ٹیلی فون پر سودا نہیں ہو سکا تھا اس لئے یہ طے پایا کہ وہ ہیروں کو ایک نظر دیکھے گا۔ ساگر نے پہلے تو سوچا کہ اپنے کسی کارندے کو بھیجے گا مگر پھر بعد میں اپنا فیصلہ بدل دیا تھا۔ اس کے آدمیوں میں کچھ کالی بھیڑیں بھی آگئی تھیں۔ کئی بار تو اس کی ساکھ بھی داؤ پر لگ گئی تھی۔ سنگا پور سے برقیات کا سامان لانے والوں نے کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تھی۔

ان کی سازش کامیاب ہونے سے پہلے ہی عقیل کو خبر ہوگئی تھی۔ عقیل نہایت باخبر رہتا تھا۔ کاروبار نام ہی اس کے نزدیک پراپر انفارمیشن کا تھا لیکن اپنے ہی اندر گھسی ہوئی کالی بھیڑوں کو پہچاننا آسان کام نہیں ہوتا۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب ہیرے جواہرات کا سارا کام وہ خود ہی کرے گا۔

اس رات وہ بیش قیمت لباس لے کر خواب گاہ میں داخل ہوا تھا۔ سامنے ہی لیلیٰ کی قدِ آدم پورٹریٹ تھی۔ اس نے لباس کو پورٹریٹ پر پھیلا دیا۔ نیلے رنگ کے نائٹ بلب کی روشنی میں نیلم ثریّا ستاروں[8] کی طرح جھلملا رہے تھے۔ پورٹریٹ پر لباس جگمگا رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ ڈنمارک کی شہزادی زیادہ خوبصورت ہے یا لیلیٰ؟ دیوانے کا فیصلہ سب عقل مند جانتے ہیں۔

یکایک لیلیٰ کے ہونٹ ہلنے لگے۔ کوئی آواز بھی آ رہی تھی۔ ساگر نے کان لگا دئیے۔ لیلیٰ اسے پکار رہی تھی۔" آؤ میرے ساگر ! جلدی آؤ۔ مجھے آکر لے جاؤ ساگر، اپنے اندر چھپا کر مجھے کہیں دور لے جاؤ ۔ آؤ ساگر خدا کے لئے آؤ ____ "

"لیلیٰ ____ لیلیٰ تم کہاں ہو ؟ کہاں ہو لیلیٰ؟" اس نے دونوں ہاتھوں سے پورٹریٹ کو اس طرح ہلایا جیسے لیلیٰ کے شانے پکڑ کر اسے جھنجھوڑ رہا ہو۔ عقل مندوں کو کبھی اس پر یقین نہیں آ سکتا۔ ادھر لیلیٰ بول رہی تھی اِدھر ساگر سن رہا تھا۔ اُدھر وہ تڑپ رہی تھی اِدھر یہ تڑپ رہا تھا۔ کل مجنوں کو چوٹ لگتی تھی تو زخم لیلیٰ کو آتا تھا۔ آج لیلیٰ اُدھر بول رہی تھی اور ساگر اِدھر سن رہا تھا۔ اسی کو کہتے ہیں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ اسی کا نام محبت کی ٹیلی پیتھی ہے۔ محبت کی ٹیلی پیتھی کے آگے ہزاروں دیواریں بھی کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔

"میں آؤں گا لیلیٰ ____ ضرور آؤں گا۔" اس نے بڑے عزم سے کہا تھا۔ پھر رات کے جانے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔

دوسرے دن وہ رنگ پور میں تھا۔ نواب اسے اپنی حویلی میں ہی ملا تھا۔ اس نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی تھی۔ لیکن ساگر ایسی کاروباری مہمان نوازی سے خوب واقف تھا۔

"ہم نے آپ کی بڑی تعریف سنی ہے ساگر میاں۔" نواب کہہ رہا تھا، " بڑی کم عمری میں آپ نے ایک اعلیٰ مقام حاصل کر لیا ہے۔"

"شکریہ۔"

"ہیرے بھی ساتھ ہی لائے ہو؟"

"جی ہاں۔" ساگر نے تھیلی آبنوسی میز پر الٹ دی۔ کئی ہیرے جگمگانے لگے تھے۔

نواب کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ساگر کا انتخاب نہایت بہترین تھا۔ نواب نے ایک ہیرا اٹھایا اور اسے اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا۔ یہ سب سے بڑا ہیرا تھا۔

"ٹھیک ہے، ہیرے خوبصورت ہیں۔" وہ ہیرے کو لا پروائی سے انگلیوں سے گھمانے لگا تھا۔" کیا لو گے ان سب کے بدلے؟"

"صرف سات لاکھ۔" اس نے خوش روئی سے کہا تھا۔

"ساتھ لاکھ بہت زیادہ ہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ چار لاکھ دے سکتا ہوں۔ میرا خیال ہے یہ ایک مناسب قیمت ہے۔" وہ دو انگلیوں میں ہیرے کو گھماتا رہا۔ ہیرا اسے پسند آگیا تھا اسی لئے تو چھوڑنے کو اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔

"آپ جیسے نوابوں کے لئے سات لاکھ کیا اہمیت رکھتے ہیں شاکر صاحب۔" وہ اس بار بھی خوش اخلاقی سے بولا تھا۔" قیمت کو نہ دیکھیں ، چیز دیکھیں۔"

بازار میں ان کی قیمت چار لاکھ سے زیادہ نہیں ہو گی۔" نواب نے اس کا دام گرانے کی کوشش کی تو ساگر کو طیش آگیا۔

"آپ تو چار لاکھ کی بات کر رہے ہیں شاکر صاحب۔ اگر بازار میں ایسے ہیرے دیکھنے کو بھی مل جائیں تو میں یہ سارے ہیرے آپ کی کتیا کے پٹے میں ٹانک جاؤں گا۔"

اس نے بہت بڑا دعویٰ کیا تھا لیکن وہ اپنے دعوے میں سچا تھا اس لئے نواب تلملا کر رہ گیا۔

"تم نواب آف رنگ پور کی بات کاٹنے گستاخی کر ہے ہو۔ نواب یار شاکر شہر یار کی۔" وہ بھی غصے میں آگیا۔

"نہیں نواب صاحب، میں نے آپ کی بات نہیں کاٹی بلکہ آپ کے سامنے اپنی بات پیش کی ہے۔" ساگر نے نہایت خوبصورتی سے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی۔" ان ہیروں کی اصل قیمت نو لاکھ روپے ہے مگر رنگ پور کے ہیر رانجھا کا خیال کر کے پہلے ہی سات لگا چکا ہوں اب سات لاکھ سے ایک پیسہ بھی کم نہیں کر سکتا۔ آپ کی مرضی ہے ورنہ بہترین چیزوں کے خریدار کہاں نہیں ہوتے۔"

"تم نقصان اٹھاؤ گے ساگر۔" نواب تلملا کر بولا تھا

"ساگر اپنی زبان کا سچا اور اصولوں کا پکا ہے۔ باقی رہی نقصان اور فائدے کی بات تو یہ کاروبار میں چلتا ہی رہتا ہے۔ میں وقتی نفع حاصل کرنے کے لئے اصولوں کا سودا نہیں کر سکتا۔"

"میں تمہیں پانچ لاکھ دے سکتا ہوں۔" وہ کچھ نرم پڑ گیا۔

"شکریہ !" ساگر نے ہیرے سمیٹ لئے۔

"چھ لاکھ" نواب نے بولی بڑھائی۔

"میرا خیال ہے اب آپ مجھے اجازت دیں۔ زندگی بخیر، آئندہ پھر کبھی ملاقات ہو گی۔" ساگر اٹھ گیا۔

"میں تمہاری اصلیت اچھی طرح جانتا ہوں ساگر۔ تم وہی ہو جو کل تک گلی گلی زِیرے کی تھیلیاں فروخت کرتے تھے۔" نواب ذاتیات پر اتر آیا۔

"زیرے سے ہیرے تک کا سفر پوشیدہ صلاحیتوں کی نشاندہی کرتا ہے نواب صاحب!" ساگر مسکرایا۔" اچھا خدا حافظ۔"


  1.  آئی لو یو

پی آئی اے کا طیارہ کراچی جانے کے لئے فضا میں بلند ہوا تو ساگر کی نظر سامنے بیٹھے ہوئے ایک مسافر پر پڑی جو اپنی سیفٹی بیلٹ میں الجھا ہوا تھا۔ ساگر کو وہ مسافر جانا پہچانا محسوس ہو رہا تھا۔ پرواز ہموار فضا میں ہونے لگی تو ساگر سیفٹی بیلٹ کھول کر فوراً ہی اس مسافر کی طرف لپکا تھا۔ اور جب وہ اس مسافر کے قریب پہنچا تو حیرت کے مارے اس کا منہ کھل گیا تھا۔

"عمران ____ میرے دوست!" خوشی سے عقیل کی آواز کپکپانے لگی۔ اب مسافر نے بھی اس کی طرف دیکھا۔ اور اس کا وہی حال ہوا جو عقیل کا ہوا تھا۔ اس کا ستا ہوا چہرہ اچانک ہی کھل اٹھا تھا۔ پھر اس نے جلدی سے بیلٹ کھولی اور فوراً ہی عقیل کے گلے لگ گیا تھا۔

"ساگر ____ میرے پیارے دوست ۔ آئی لو یو مائی ڈئیر، آئی لو یو ____ " اس نے بڑی گرم جوشی سے ساگر کی پیشانی چوم لی۔

طیارے کے مسافر حیرت سے دو دوستوں کی دوستی کو دیکھ رہے تھے۔ عمران نے اپنے پڑوسی مسافر سے درخواست کی تھی کہ وہ اگر برا نہ مانے تو ساگر کی سیٹ پر چلا جائے۔ برا ماننے کی کوئی بات نہیں تھی اس لئے مسافر نے خوشی خوشی سیٹ بدل لی تھی۔ اب عمران ساگر کے برابر میں ہی بیٹھا تھا۔

"اور سناؤ دوست۔ آج کل کیا ہو رہا ہے؟" ساگر نے بے تکلفی سے سوال کیا تھا۔ عمران دنیا کا واحد شخص تھا جس کے سامنے ساگر بھی بے تکلف ہو جاتا تھا۔

"کراچی میں گارمنٹس کا ایک چھوٹا سا کارخانہ چلا رہا ہوں ۔"

"کراچی میں؟" ساگر چونک اٹھا۔" کدھر؟"

"صدر میں۔ زیب گارمنٹس۔"

"زیب گارمنٹس۔" عمران کی بات پر چونک کر اس نے اپنے لباس کو دیکھا۔ جیب کے ساتھ ہی زیب گارمنٹس کا ایک ٹیگ لگا ہوا تھا۔

"یہ سلائی میرے ہی کارخانے کی ہے۔" عمران مسکرا رہا تھا۔

"مگر تم سے آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔ اور یہ زیب کون ہے؟"

"میری چھوٹی بہن کا نام ہے۔ میں ہمیشہ مال سپلائی اور قیمت وصول کرنے کے سلسلے میں کراچی سے زیادہ تر باہر ہی رہتا ہوں۔"

"نرگس ملی؟"

"نرگس!" عمران نے ایک سرد آہ کھینچی اور سیٹ کی پشت سے گردن ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ وہ اچانک ہی افسردہ ہو گیا تھا۔

"اوہ۔" ساگر نے فوراً ہی موضوع بدل دیا۔" تمہارے لئے ایک خوش خبری بھی ہے۔"

عمران آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا۔ ساگر کہہ رہا تھا ، "کچھ عرصے پہلے جگ جیت سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اب جہانگیر بن چکا ہے۔ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور روہڑی ریلوے کالونی میں رہتا ہے۔"

"اب اس کا کیا فائدہ؟ جو ہونا تھا وہ تو ہو ہی چکا۔ تم سناؤ۔ شادی وغیرہ کرلی یا اب تک کنوارے ہی پھر رہے ہو؟ ارے ہاں۔ وہ تمہاری لیلیٰ کا کیا بنا؟ کیا نام تھا اس کا؟ نیلم۔ ہاں شاید کچھ ایسا ہی خوبصورت سا نام تھا۔"

"ہجرت کے بعد صرف ایک دفعہ ہی لیلیٰ کو دیکھ سکا ہوں وہ بھی لاہور میں۔ اس کے بعد وہ انسانوں کے جنگل میں کہیں کھو گئی۔ ابھی تک اس کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔"

"تم ابھی تک وہی عقیل ہو۔ ضدی اور سرکش۔ بالکل بھی نہیں بدلے۔ اسے ڈھونڈ کر ہی دم لو گے۔ لیکن اگر وہ کسی اور کی ہوگئی تو ____ ؟"

"وہ میری لیلیٰ ہے۔" وہ بڑے فخر سے سینہ تان کر بولا تھا۔

"یہ تمہاری خوش فہمی ہے بیٹا۔" عمران ہنس پڑا۔ وہ بہت دنوں بعد کھل کر ہنسا تھا۔ پرانا دوست کیا ملا گویا تھوڑی دیر کے لئے اس کا کھلنڈرا پن لوٹ آیا۔

"بکو مت۔ کچھ دنوں بعد تم خود ہی دیکھ لو گے کہ ____ "

"کہ وہ کسی اور کی ہوگئی ۔" عمران پھر ہنس پڑا۔

"جب بھونکو گے، بے سُرا ہی بھونکو گے۔"

"معافی چاہتا ہوں سرکار۔ شاید کوئی بات بری لگ گئی۔" عمران پھر ہنسنے لگا۔ وہ آج واقعی خوش تھا۔ اس کا جگری دوست جو آن ملا تھا۔

"تمہاری ٹیم کا کیا ہوا؟ "

"ختم ہوگئی۔ ہجرت کے بعد سب موتیوں کی طرح بکھر گئے۔ ویسے بھی اب اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی تھی۔"

دو دوست محبت بھری باتیں کرتے رہے۔ کراچی آگیا۔ دونوں ہی بضد تھے کہ وہ اسے لے کر جائے گا مگر ساگر نے عمران کو اپنی طرف کھینچ لیا۔

"تمھارا کارخانہ میں دیکھ چکا ہوں۔ مگر تم میرے کاروبار سے بالکل ناواقف ہو اس لئے تمہیں میرے ساتھ چلنا چاہیے۔"

ساگر اسے اپنی سولہ منزلہ عمارت کے پاس لے آیا۔ کام مکمل ہو چکا تھا۔ جگہ جگہ شیشے چمک رہے تھے۔ پچھلا پورا ہفتہ میلاد اور قرآن خوانی بھی ہوئی تھی۔ ہر انڈسٹری کا ہیڈ کوارٹر اسی عمارت میں شفٹ ہوگیا تھا۔ گراؤنڈ فلور پر دکانیں چل رہی تھی۔ کئی فلیٹ غیر سرکاری اور نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں نے بطورِ آفس استعمال کرنے کے لئے کرائے پر لئے تھے۔ ٹاپ فلور پر ابھرے ہوئے حروف میں ساگر کا نام لکھا ہوا دور ہی سے دکھائی دے رہا تھا۔

"یہ ____ یہ بلڈنگ تمہاری ملکیت ہے؟" حیرت کی زیادتی سے عمران کی زبان لڑکھڑا گئی۔

"آف کورس۔ لوگ کہتے ہیں کہ حق حلال کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی۔ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ سچ کے قدم بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ تم نے تو سنا ہی ہوگا۔ یہ سب جو تم دیکھ رہے ہو اسی " او نیسٹ پالیسی" کا خوبصورت نتیجہ ہے۔ Honesty is the best policy

"جو کام میں ایک ٹیم بنا کر بھی نہ کر سکا وہ تم نے تن تنہا سر انجام دے دیا ہے۔ واقعی تم نے تعلیم کا بڑا صحیح استعمال کیا ہے۔"

وہ سبک رفتار لفٹ میں بیٹھ کر سولہویں منزل پر آگئے۔ اس منزل پر صرف ساگر انڈسٹریز کے آفس تھے ۔ وہ جہاں سے بھی گزرتے ہر طرف سے لوگ سلام کرنے لگتے۔

"مجھے تمہاری مدد کی ضرور ہے دوست۔" ساگر نے ایک کشادہ کمرے میں داخل ہونے کے بعد کہا تھا۔ عمران نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ شاہراہ پر چھوٹی چھوٹی گاڑیاں چلتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ ساگر کی طرف متوجہ ہو گیا تھا جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔" میرے آدمیوں میں کچھ کالی بھیڑیں آ گھسی ہیں۔ مجھے کسی سازش کا شبہ ہے۔ سازشی صرف میری ساکھ ہی کے نہیں، جان کے بھی دشمن ہیں۔ میرے سات آدمی چرس کی اسمگلنگ میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان کالی بھیڑوں کو شناخت کرنے کے لئے مجھے تمہارے ہی جیسے مخلص دوست کی ضرورت ہے۔"

"تمہارے ہاتھ تو ____ ؟"

"میرے ہاتھ بالکل صاف ہیں۔ میں کبھی دو نمبر کام کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ یوں بھی کون اپنی بنی بنائی ساکھ کو بگاڑ کر اپنے لئے ذلتیں خریدنا چاہے گا؟"

"تمہیں کس پر شبہ ہے؟"

"کوئی بھی ہو سکتا ہے۔"

"کسی سے تمہاری کوئی دشمنی تو نہیں؟ "

"کوئی بھی لالچی آدمی دولت کی خاطر میرا دشمن ہو سکتا ہے۔ زیادہ پیسوں کا لالچ دے کر میرے آدمیوں کو بھی خریدا جاسکتا ہے۔ شروع شروع میں آدمیوں کا چناؤ میں نے خود کیا تھا مگر کاروبار پھیلا تو مجھے دوسرے کاموں کی طرف زیادہ توجہ دینی پڑی۔ فی الوقت جو آدمی ہیں یہ میرے معیار کے مطابق نہیں۔ یوں بھی معیاری آدمیوں کا تلاش کرنا ایک دشوار کام ہے۔ اب مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ مجھے اپنی چادر کے مطابق ہی پاؤں دراز کرنا چاہیے تھے۔"

"انکم ٹیکس ادا کرتے ہو؟"

"بالکل باقاعدگی سے ادا کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں انکم ٹیس آفیسر پر بھی بھروسہ نہیں کرتا۔ بہت سے انکم ٹیکس آفیسر خود چور ہوتے ہیں۔"

"ٹھیک ہے میں تمہاری ہر ممکن مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔"

"شکریہ، تمہاری وجہ سے شاید میں ان کالی بھیڑوں کو شناخت کرنے میں کامیاب ہو جاؤں جو خود ساگر انڈسٹریز کی مالک بَن بیٹھنا چاہتی ہیں۔"

"میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔ دو دن سے مسلسل سفر کر رہا ہوں۔ واجبات کی وصولی بھی ایک بے ہودہ کام ہے۔"

"ضرور ضرور۔ شوق سے آرام کرو۔ یہ تمہاری ہی جاگیر ہے۔" ساگر نے سر ہلا کر کہا۔


کنول لاہور سے کراچی آگئی تھی اور دو دن سے لیلیٰ کا دماغ چاٹ رہی تھی۔ وہ مسلسل نواب آف رنگ پور کی تعریف کر رہی تھی اور لیلیٰ نواب صاحب کے نام سے الرجک ہو چکی تھی۔

اس نے تو آتے ہی کہا تھا، "سچ نیلم، وہ بڑی گریس فل شخصیت کا مالک ہے۔ تم اس کے ہاں ٹھاٹھ سے زندگی گزارو گی۔"

نیلم بپھر کر بولی تھی، "وہ گرَیس فل ہو یا گرِیس فُل۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔"

کنول نے اس کا موڈ بگڑا ہوا دیکھا تو خاموش ہوگئی تھی۔ اور اب وقفے وقفے سے اس کی تعریفیں کر رہی تھی۔ لیلیٰ نے معاشیات پڑھی تھی۔ وہ ایڈورٹائزنگ کے طور طریقوں سے واقف تھی۔ ایڈور ٹائزنگ کے ذریعے صارف کے اندر مصنوعی طور پر کسی چیز کی طلب پیدا کی جاتی ہے۔ مگر لیلیٰ حقیقی اور مصنوعی طلب کا فرق اچھی طرح جانتی تھی۔ کنول نواب آف رنگ پور کا ایڈورٹائز بن کر آئی تھی۔

آج لیلیٰ کنول کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی تو اس نے بلند آواز میں ٹیپ آن کیا ہوا تھا۔ اسپیکروں سے کسی سنگر کی آواز نشر ہو رہی تھی۔ وہ ایک سلو سونگ تھا۔ جس کے بول تھے۔

I just call to say I love you

(ترجمہ: میں تمہیں صرف اس لئے کال کرتا ہوں کہ مجھے تم سے پیار ہے)

کال کرنے کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ بلاتا ہوں، دوسرا یہ کہ ٹیلی فون کرتا ہوں۔ لیلیٰ یہ سوچ رہی تھی، "تم کسی بھی طریقے سے مجھے کال کرو ساگر، بُلا کر، ٹیلی فون پر، کال کر کے تو دیکھو، میں دوڑی چلی آؤں گی تمہاری ایک کال پر۔" وہ اپنے کمرے میں آگئی۔

"ٹرن، ٹرن ٹرن!" ٹیلیفون کا بزر بول اٹھا۔ وہ کرسی پر اچھل پڑی۔ پھر فوراً ہی دوڑتی ہوئی فون کی طرف لپکی تھی۔ ٹیلی فون کی گھنٹی کے ساتھ ہی اس کا دل بھی دھڑک اٹھا تھا۔

"ہیلو ۔ " اس نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگا لیا اور حتی المقدور دھیمی آواز میں بولی ۔

"ہیلو ____ بھٹی صاحب موجود ہیں؟" دوسری طرف سے کسی نے پوچھا تھا۔

"یہاں کوئی بھٹی صاحب نہیں رہتے۔"

"فور فائیو سیون فائیو؟" دوسری طرف سے سوال کیا گیا اور اس بار لیلیٰ نے آواز پہچان لی۔ وہ کوئی اور نہیں ساگر تھا۔ دفعتاً لیلیٰ کا دل بھر آیا۔ ساگر کتنا قریب تھا۔ مگر وہ اس کو چھو نہیں سکتی تھی۔ وہ قریب ہونے کے باوجود دور تھا۔ پھر دو آنسوؤں کے درمیان اس نے صرف تین لفظ ادا کئے، "ساری رانگ نمبر۔" لیکن اس نے رابطہ منقطع نہیں کیا۔ ریسیور کو سینے کے پاس لا کر خلا میں گھورنے لگی۔

رانگ نمبر ملانے والے نے حیرت سے ریسیور کو دیکھا تھا۔ اس نے درست نمبر ملایا تھا مگر صبح ہی سے لائنوں میں کچھ گڑ بڑ ہو رہی تھی۔ درست نمبر بار بار رانگ نمبر بن جاتا تھا۔ لائن اِدھر سے اُدھر مل جاتی تھی۔ زندگی میں اسے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ رانگ نمبر بھی کبھی کبھی رائٹ نمبر بن جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں قسمت! ملنے والے رانگ نمبر پر بھی مل جاتے ہیں۔ ساگر کی لائن لیلیٰ سے جا ملی تھی۔

"لیلیٰ ____ " ساگر نے ریسیور اٹھا کر ماؤتھ پیس میں پکارا۔ لیلیٰ ہوش میں آگئی۔

"ساگر تم کہاں ہو؟ "

"میں یہیں ہوں لیلیٰ۔ تمہارے پاس تمہارے دل کے قریب۔ ماؤتھ پیس کے ذریعے تمہارے ہونٹوں کو چوم رہا ہوں۔"

لیلیٰ نے اس طرح ماؤتھ پیس کو ہونٹوں سے دور کردیا جیسے وہ سچ مچ اس کے ذریعے اس کے ہونٹوں کو چوم رہا ہو۔ دیوانی شرم سے سرخ ہوگئی تھی۔

"تم کہاں ہو ساگر؟"

"تم پرسوں مجھ سے سلور کواٹرز کے قریب بنی ہوئی سولہ منزلہ عمارت میں مل سکتی ہو؟ اس پر لکھا ہوا ساگر انڈسٹریز دور ہی سے نظر آ سکتا ہے۔"

"تم اس بلڈنگ میں رہتے ہو؟ وہ بلڈنگ تمہاری ہے؟" لیلیٰ حیرت سے چیخ اٹھی۔

"تم نے دیکھا ہے اس کو؟"

"ہاں ایک بار وہاں سے گزر ہوا تھا۔ اس وقت وہ تعمیر ہو رہی تھی۔"

" اوہ!" ساگر نے اطمینان کی سانس لی۔" میں سوچنے لگ گیا تھا کہ اگر تم نے اس پر لکھا ہوا نام پڑھا تھا تو پھر مجھ سے ملنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔"

"لیکن پرسوں کیوں؟ آج کیوں نہیں؟ ابھی کیوں نہیں؟"

"سرپرائز مائی ڈئیر سرپرائز ۔" یکایک ساگر کے لہجے سے خوشی کے فوارے چھوٹنے لگے۔

"اچھا اب وعدہ کرو اب دور نہیں جاؤ گے؟"

"تم بھی ایک وعدہ کرو اب آنسو نہیں بہاؤ گی، صرف مسکراؤ گی۔"

"وعدہ۔"

"وعدہ!"

ساگر جذبات میں ڈوب کر کہہ رہا تھا۔" لیلیٰ آئی۔ آئی ____ آئی ____ آئی۔" وہ ہکلانے لگا۔ وہ دراصل کہنا چاہتا تھا لیلیٰ آئی لو یو۔ مگر کہہ نہ سکا۔ اس کا پیار سطحی اور ہلکا نہیں تھا۔ بھاری تھا۔ بہت بھاری۔ اسے ایسا لگا جیسے ساتوں زمینوں اور آسمانوں کا بوجھ اچانک ہی اس کے شانوں پر آ پڑا ہو۔ اسی لئے اس کی زبان اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔

ریسیور سے لیلیٰ کی خوبصورت کھنکھناتی آواز نشر ہو رہی تھی۔ وہ ساگر کی بوکھلاہٹ پر ہنس رہی تھی۔

"تمہاری کھنکھناتی ہوئی ہنسی بتا رہی ہے لیلیٰ ____ " ساگر جھینپ کر کہہ رہا تھا، "کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ تم اچھی طرح سمجھتی ہو۔"

لیلیٰ ہنستی رہی۔ اسے اپنے اندر موجود عورت کی طاقت کا اندازہ ہو چکا تھا۔

"اچھا لیلیٰ۔ اب مجھے اجازت دو۔ خدا حافظ"

"خدا حافظ!"

لیلےٰ نے ریسیور کریڈل پر نہیں رکھا تھا، بدستور کان سے لگائے رکھا تھا۔ دوسری طرف سے بھی رابطہ منقطع ہونے کی کلک نہیں سنائی دی تھی۔ چند لمحے اسی طرح خاموشی سے گزر گئے۔ خاموشی کی اپنی الگ زبان ہوتی ہے اور اس زبان کا اپنا الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔ جس کی زبان اسے آئی لو یو نہیں کہہ سکی تھی اس کی خاموشی کہہ رہی تھی۔" لیلیٰ۔ آئی لو یو، آئی لو یو ویری مچ۔"

لیلیٰ نے ماؤتھ پیس پر انگلی کی مدد سے دھیرے سے ٹھک ٹھک کی۔ دوسری طرف سے بھی ٹھک ٹھک کا جواب ٹھک ٹھک میں ہی ملا۔ لیلیٰ نے مسکراتے ہوئے ریسیور کو کریڈل پر رکھ دیا۔

اس دن لیلیٰ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ کسی تتلی کی طرح اپنے سارے بنگلے میں اڑی اڑی پھر رہی تھی۔ آج اسے ہر چیز اپنی ہی طرح حسین لگ رہی تھی۔ ٹیبل پر رکھا گلدان ، کیاری میں لگے ہوئے پودے، شاخوں پر کھلے ہوئے پھول، ہوا کے زور سے لہراتے پردے ____ سب کچھ اچانک ہی خوبصورت ہوگیا تھا۔

کنول نے حیرت سے اسے جھومتے لہراتے دیکھا۔" باؤلی ہوگئی ہو کیا؟" اس نے لیلیٰ سے پوچھا تھا۔

"باؤلی!" لیلیٰ ہنستی چلی گئی۔" کتنا اچھا لفظ ہے یہ باؤلی۔ کیوں کہ یہ کسی باؤلے کی یاد دلاتا ہے۔"

"کیا پھر کوئی باؤلا ٹکرا گیا؟"

"مجھ سے صرف ایک ہی باؤلا بار بار ٹکراتا ہے۔"

"کیا مطلب؟"

"آج رانگ نمبر پر مجھے ساگر مل گیا ہے کنول۔ کبھی کبھی رانگ نمبر بھی کتنے حسین لگنے لگتے ہیں۔"

"رانگ نمبر پھر رانگ نمبر ہے لیلیٰ۔ اگر غلطی سے کبھی رانگ نمبر ڈائل ہوجائے تو نمبر دوبارہ ملانا پڑتا ہے۔"

"جب لائن مل جاتی ہے تو نمبر ملانے کی ضرورت نہیں رہتی احمق۔" لیلیٰ نے بڑے پیار سے اس کے بالوں میں چپت لگائی۔

"مگر نواب صاحب کا کیا ہوگا؟ میں تمہارے دولہا بھائی سے بات کر چکی ہوں۔ پرسوں نواب صاحب کے گھر والے تمہیں دیکھنے کے لئے آ رہے ہیں۔"

"پرسوں؟" لیلیٰ چکرا گئی۔ پھر چلا کر بولی، "میں کوئی بھیڑ بکری نہیں ہوں، سمجھیں تم؟ کان کھول کر سن لو کہ میں کسی کے سامنے نہیں جاؤں گی۔" اس کی ساری خوشی اچانک ہی کافور ہوگئی تھی۔

"گھر آئے رشتے کو ٹھکرا کر تم سخت نادانی کر رہی ہو لیلیٰ۔" کنول بھی تیز ہو کر بولی تھی۔" میں تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہی ہوں۔"

"میرے بھلے کو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو۔ کاش کبھی میری آنکھوں سے بھی دیکھ سکو۔" وہ پیر پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔


  1. چوتھی ڈائمنشن

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں آئن اسٹائن کی تھیوری نے بہت تہلکہ مچایا تھا۔ ہر پڑھا لکھا شخص اضافیت پر بحث کرتا ہوا نظر آتا تھا۔

آئن اسٹائن کی تھیوری سے پہلے کائنات کا یہ تصور تھا کہ کائنات صرف اور صرف خلا اور اس میں موجود اشیاء پر مشتمل ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ کائنات سہہ ابعادی (یعنی تھری ڈائمن شنل) ہے لیکن اس سائنسدان نے آکر کائنات کے تصور میں ہلچل مچا دی۔ اس نے کہا کہ کائنات چار ابعادی (فور ڈائمن شنل ) ہے۔ اس چوتھے حیرت انگیز بُعد کو اُس نے وقت کا نام دیا تھا۔ یعنی ہماری کائنات کے لئے وقت بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ خلا اور کمیت۔ اس نے ثابت کیا کہ مادہ ہر چیز کو موڑ سکتا ہے، حتیٰ کہ روشنی کی کرن کو بھی۔ ۱۹۱۹ میں مکمل سورج گرہن ہوا تو اس دوران سورج کے نزدیک نظر آنے والے ستاروں کا مشاہدہ کیا گیا تو اہ اپنے اصل مقام سے ہٹے ہوئے نظر آئے تھے جہاں وہ عام طور پر ہوتے ہیں۔ ثابت ہوگیا کہ مادہ یعنی کمیت روشنی کو بھی موڑ سکتا ہے۔ اب ہماری کائنات کے تصور میں وقت بھی ایک بُعد کے طور پر شامل ہے اور وقت کو کائناتی مشاہدات میں نظر انداز کر دینا ممکن نہیں۔ چوتھی ڈائمنشن سب سے اہم ہے۔

دیکھا جائے تو پرسوں بھی وقت ہی کی ایک شکل ہے۔ پرسوں آ چکا تھا۔ یعنی لیلیٰ کے لیے کچھ کرنے کا وقت آگیا تھا۔ چوتھی ڈائمنشن لیلیٰ کے لیے آئن اسٹائن سے بھی زیادہ اہم تھی ۔

لیلیٰ اپنے کپڑوں کی الماری کے پاس کھڑی سوچ رہی تھی کہ آج کس ڈریس کا انتخاب کرے۔ ہرے، نیلے، پیلے، چمپئی ____ وہاں تو جوڑوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔ وہ شش و پنج کے پھیر میں مبتلا تھی۔ پھر اس نے کچھ سوچ کر سرخ ڈریس باہر کھینچ لیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سرخ جوڑے میں ملبوس ہو چکی تھی۔ وہ پہلے ہی لیلیٰ جیسی خوبصورت تھی، سرخ جوڑے میں تو ہر قدم پر بجلی گرانے لگی تھی۔ وہ سچ مچ شعلۂ جوّالہ بن گئی تھی۔ حسین اور سرخ شعلہ!

"یہ سرخ جوڑا کس کی آمد کی خوشی میں پہنا گیا ہے؟" کنول نے اس کے کمرے میں آتے ہی پوچھا تھا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ اس کی محنت رنگ لے آئی ہے۔

"سچ بتاؤ، کیسی لگ رہی ہوں ؟" اس نے اپنے کھلے بالوں کو ایک خوبصورت ادا سے پیچھے کی طرف جھٹکا دیتے ہوئے پوچھا۔

"یہ تو کوئی دیکھنے والا ہی بتا سکتا ہے۔" کنول نے ایک آنکھ دبا کر کہا تھا۔ اس کا اشارہ رنگ پور کے نواب کی طرف تھا۔ جبکہ لیلیٰ کے تصور میں ساگر تھا۔

"جل گئیں؟"

"ہُش ____ لیکن تم سرخ رنگ بدلو۔ یہ خطرے کا نشان سمجھا جاتا ہے۔"

"نواب تو خطروں سے کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں۔"

"خیر مجھے کیا!" وہ کندھے اچکاتی ہوئی واپس چلی گئی۔ کنول کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ لیلیٰ ذہنی طور پر تیار ہو چکی ہے۔

نواب صاحب کے گھر والوں کو چار بجے آنا تھا۔ لیلیٰ نے اس سے پہلے ہی وقت کا فائدہ اٹھا لیا۔ ٹھیک بارہ بجے وہ کار لے کر بنگلے سے نکل کھڑی ہوئی۔ اس کا شوفر اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔

وہ پہلے تو بے مقصد سڑکوں کا چکر کاٹتی رہی اور جب اسے اس بات کا پکا یقین ہوگیا کہ کنول اس کے پیچھے نہیں آ رہی ہے تو اس نے کار کا رخ سلور کواٹرز کی طرف کردیا۔ کہتے ہیں محبوب بلائے تو اس کے پاس اڑ کر جانا چاہیے۔ وہ خود تو نہیں اڑ سکتی تھی مگر کار کو اڑائے لے جا رہی تھی۔

سلور کواٹرز کے پاس ایک عظیم الشان عمارت سر اٹھائے کھلی بانہوں سے لیلیٰ کو خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ عمارت کے اوپر ابھرے ہوئے چمکیلے حروف سے لکھا ہوا ساگر دور سے بھی دکھائی دے رہا تھا۔

"میں آگئی ہوں ساگر۔" وہ ساگر کے نام سے باتیں کرنے لگی۔ سر اٹھا کر دیکھنے سے ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے وہ نام آسمان پر ہی لکھا ہوا ہو۔ "میرے دل کے آسمان پر تمہارا ہی نام لکھا ہے۔ صرف تمہارا۔ کیا تم کسی کھڑکی سے جھانک کر مجھے دیکھ رہے ہو؟ جو میرا دل قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ پلیز ساگر مجھے ابھی مت دیکھنا۔ آج میں بھی تمہارے لئے ایک سرپرائز بن کر آ رہی ہوں۔"

اس نے کار پارکنگ شید میں کھڑی کردی اور گراؤنڈ فلور پر بنے ریسیپشن کی طرف بڑھی۔

"ساگر صاحب کے نمبر پر ڈائل کر دیجیے۔" اس نے ایک آپریٹر سے کہا تھا۔ صاحب وہ کہنا نہیں چاہتی تھی مگر مجبوری تھی۔ صاحب سے اجنبیت جھلکتی ہے۔ اسے خود بہت عجیب لگا تھا ۔

"بات کیجئے۔" آپریٹر نے ٹیلیفون بڑھا دیا۔

"ہیلو ساگر ____ "

"کون لیلیٰ؟" دوسری طرف سے ایک بھاری بھرکم مردانہ آواز سنائی دی۔ جانے کیوں لیلیٰ کو اس کی آواز جانی پہچانی سی محسوس ہوئی۔

"میں ہوں ____ نیلم ____ " اس نے بڑی دقت سے کہا تھا۔

"ساگر سے ملنا چاہتی ہو؟" با رعب انداز میں پوچھا گیا۔

"جی ۔ "

"اس سے ملنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ زینوں کے ذریعے سولہویں منزل پر آ جاؤ۔ تمہارے پاس صرف سولہ منٹ ہیں۔"

"کیا کہا؟ " لیلیٰ چلا اٹھی۔

"تمہارے پاس صرف سولہ منٹ ہیں۔" ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا گیا تھا۔" سترہویں منٹ پر تمہیں ساگر کبھی نہیں ملے گا۔"

"کک ____ کون ہو تم؟" لیلیٰ رو دینے کے انداز میں بولی تھی۔

"ساڑھے پندرہ منٹ رہ گئے ہیں۔ زینے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ خبردار لفٹ کی طرف جانے کا سوچنا بھی مت ____ ورنہ ____ "

"ٹہرو، میں آ رہی ہوں ____ " اس نے دھائیں سے فون بند کیا اور جلدی سے اسٹاپ واچ میں پندرہ منٹ سیٹ کردیئے۔ آئن اسٹائن کی تھیوری اس بارے میں بالکل خاموش تھی کہ کبھی کبھی چوتھی ڈائمنشن کو الٹا بھی ناپنا پڑتا ہے۔

ادھر عمران ساگر سے کہہ رہا تھا۔" اس لڑکی پر رحم کرو ساگر۔ ہاتھ ذرا ہلکا رکھو۔ مجھے تو معصوم سی لیلیٰ پر ترس آ رہا ہے۔ وہ سینکڑوں سیڑھیاں کیسے طے کرے گی؟ کہیں راستے میں ہی نہ گر جائے۔"

"وہ میری پسند ہے عمران۔ وہ ساگر کی لیلیٰ ہے کسی نتھو کی محبوبہ نہیں۔" ساگر بڑے فخر سے سینہ پھلا کر بولا تھا۔" وہ آئے گی اور ضرور آئے گی چاہے اس کے لیے آگ پر سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔ وہ میری ہی طرح ضدی ہے اور میری ہی طرح دیوانی۔ سولہویں منزل تک میں گارنٹی دیتا ہوں کہ وہ کہیں نہیں گرے گی۔"

وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ لیلیٰ تیزی سے عمارت کے اندرونی حصے کی طرف دوڑی تھی۔ کئی افراد ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔ وہ ایسے میں کسی سے ٹکرا گئی۔

"زینہ کہاں ہے؟" لیلیٰ نے چلا کر پوچھا۔

"زینہ؟" وہ آدمی حیرت سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ وہ بھی شاید پہلی ہی بار آیا تھا۔

"جلدی بتاؤ بے وقوف آدمی۔" لیلیٰ نے اسے کالر سے جھنجھوڑ دیا۔

"شاید وہ ہے، لفٹ کے پاس۔" بے وقوف آدمی نے جلدی سے اشارہ کیا تھا۔

وہ اس طرف دوڑ گئی جس طرف بے وقوف آ دمی نے اشارہ کیا تھا۔ واقعی وہاں زینہ موجود تھا۔ اس نے الیکٹرانک رسٹ واچ کی طرف ایک نظر ڈالی جو اب اسٹاپ واچ کا کام کر رہی تھی۔ چودہ کا ہندسہ چمک رہا تھا۔ پھر اسکی عجیب و غریب دوڑ شروع ہوگئی۔ وہ سیڑھیوں پر قدم رکھ کر نہیں چڑھ رہی تھی، چھلانگ لگا رہی تھی۔ ہر چھلانگ میں وہ دو سیڑھیاں پھلانگ کر تیسری سیڑھی پر قدم رکھ رہی تھی۔

دو درجن سیڑھیاں طے کرنے کے بعد اس کی چھلانگ کم ہوگئی۔ اب وہ ہر دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھ رہی تھی۔ اس کا سانس پھول گیا تھا۔ پھول سی نازک لیلیٰ کے ہاتھ پاؤں بھی گھبراہٹ میں پھول گئے تھے۔ آہستہ آہستہ اسکی قوت میں بھی کمی آ رہی تھی۔ مگر اس کے پاؤں نہیں رک رہے تھے۔ وہ چوتھی منزل کراس کر چکی تھی۔ اس کی چھلانگ مزید کم ہوگئی تھی۔ پیر من من بھر کے ہوگئے تھے۔ اٹھائے نہیں اٹھ رہے تھے۔ مگر وہ خود پر جبر کرتے ہوئے اٹھا رہی تھی۔" مجھے ہر صورت میں یہ سیڑھیاں عبور کرنا ہے ہر صورت میں۔"

ساتویں منزل پر اس کے قدم لڑکھڑا گئے مگر وہ گری نہیں۔ اس نے ریلنگ کا سہارا لے لیا تھا۔ آج پہلی مرتبہ اسے دیوار میں لگی حفاظتی ریلنگ کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا ورنہ وہ پہلے سوچتی تھی کہ دونوں طرف کی دیواریں موجود ہوں تو ریلنگ کا کیا فائدہ۔ اس نے ایک نظر کلائی پر ڈالی۔ گھڑی میں دس کا ہندسہ چمک رہا تھا۔

"مجھ سے ملنا ہے تو ہمت کرو لیلیٰ۔ قدم اٹھاؤ۔" اس کے کانوں میں ساگر کی آواز گونجی۔

"میں آ رہی ہوں ساگر۔ آج میں خود کو تمہارے پیار کے ساگر میں ڈبونے کے لیے ضرور آؤں گی۔" اس کے پاؤں پھر حرکت میں آگئے۔

سولہویں منزل تک پہنچنا کوئی خالہ جی کا باڑا نہیں۔ جوان بھی چھ سات منزلوں کے بعد ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ بغیر لفٹ کے ایک محدود وقت میں سیڑھیوں کے ذریعے سولہویں منزل تک جانا آسان نہیں۔ سراسر حماقت ہے۔ کوئی عقلمند تو کبھی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر محبت اندھی ہوتی ہے۔ عشق عقل کے تابع نہیں ہوتا، عقل کو اپنے پیچھے پیچھے دوڑاتا ہے۔ لیلیٰ بھی یہی کر رہی تھی۔ خود اوپر جا رہی تھی اور عقل کو نیچے چھوڑتی جا رہی تھی۔

اس کا جوڑ جوڑ مارے تھکن کے فریاد کر رہا تھا۔ وہ نازک اندام لڑکی وہ کام کرنے جا رہی تھی جو کوئی پہلوان بھی نہیں کرتا۔ اس کے گھٹنوں میں گویا آگ کی کوئی بھٹی لگ گئی تھی۔ دونوں گھٹنے جل رہے تھے۔ گھٹنوں کے جوڑوں نے کھلنے اور بند ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ لیلیٰ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اپنی ٹانگوں کا سارا گودا وہ نچلی منزلوں پر بہا آئی ہو۔

دسویں منزل پر وہ سستانے کے لئے پھر رکی۔ اب اس نے باقاعدہ منہ سے سانس لینا شروع کردیا تھا۔ یہ انتہائی تھکن کی علامت تھی لیکن ابھی اس کے اور ساگر کے درمیان چھ منزلوں کا فاصلہ باقی تھا۔ چھ منزلیں اور آٹھ منٹ۔"

 اس کے جسم کے ہر مسام سے پسینہ نکل رہا تھا۔ اس نے ماتھے پر آئے ہوئے پسینے کو انگوٹھے کی مدد سے صاف کیا اور ریلنگ تھام لی۔ اب وہ ریلنگ کے سہارے اوپر چڑھ رہی تھی۔ چوتھی ڈائمنشن اپنی اہمیت کا احساس دلا رہی تھی۔ لیلیٰ کو ساری کائنات گھومتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔

لیلیٰ نے تصور کی آنکھ سے ساگر کو دیکھا۔ وہ زنجیروں میں جکڑا کہہ رہا تھا،" ہمت کرو لیلیٰ ____ ہمت کرو ۔"

"میں آ رہی ہوں ساگر! " وہ سچ مچ چیخ پڑی تھی۔ سیڑھیوں کے ذریعے آتے جاتے لوگ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک تماشہ بن گئی تھی۔ مگر اسے اب کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ بس ایک ہی دھن تھی کہ سولہویں منٹ گزرنے سے پہلے وہ سولہویں منزل تک پہنچ جائے۔ وہ پوری قوت صرف کر کے تیرہویں منزل پر آگئی تھی۔ اس کے پاس صرف تین منٹ تھے اور تین ہی منزلیں تھیں۔ اب وہ گھسٹنے لگی تھی مگر رک نہیں رہی تھی۔

چودھویں منزل پر اس کی ساری قوت دم توڑ گئی۔ اس کی ٹانگوں نے اس کے خوبصورت بدن کا بوجھ اٹھانے اسے انکار کردیا تھا۔ وہ جلدی سے بیٹھ گئی ورنہ گر ہی جاتی۔ گزرتے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے انگوٹھے کے پاس والی شہادت کی انگلی کو اپنی کنپٹی پر لاکر گھماتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اس طرح وہ اشاروں ہی اشاروں میں ایک دوسرے کہ کہہ دیتے تھے' پاگل ہے بے چاری'

لیلیٰ تو واقعی پاگل تھی۔ ساگر کے عشق میں پاگل پن پر اتر آئی تھی۔ مگر لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے؟ عقلمند ترین آدمی بھی جب کسی کو خاموشی سے پاگل کہتا ہے تو انگلی کا اشارہ اپنی کھوپڑی کی طرف کرتا ہے۔ ہے کوئی تُک؟

وہ اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر کپکپاتے ہوئے پاؤں اس کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔ اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بڑی حسرت سے زینوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا، "یہ دو زینے میرے لیے کے ٹو کیوں بن گئے ہیں؟ کیا میں اب کبھی ساگر کو نہیں دیکھ پاؤں گی؟"

اس خیال نے اسے کچھ قوت فراہم کی۔ وہ کپکپاتے ہوئے اٹھ گئی۔ مگر قدموں نے حرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یکایک اس کے کانوں میں ٹیلی فون والے کی بھاری بھرکم آواز گونجی" ____ ورنہ۔ ۔ " اس ورنہ میں جانے کیا تھا کہ اس میں جیسے بجلی سی بھر گئی اور پھر وہ حرکت میں آگئی۔ ورنہ کی قوت نے اس کی بیٹری کو اس حد تک چارج کردیا تھا کہ وہ وقت سے بھی پہلے سولہویں منزل پر تھی۔ وہ ایک کاریڈور میں تھی۔ کاریڈور میں وہ رکی نہیں۔ فرش چکنا تھا ، وہ پھسل گئی اور پھسلتی ہی چلی گئی۔ کاریڈور کے اختتام پر ساگر کھڑا تھا۔ صحیح سالم اور بالکل خیریت سے۔ اس کی ساری تھکن کافور ہوگئی۔ وہ موج میں آکر اور پھسلی۔ اب کی بار جان بوجھ کر پھسل رہی تھی۔ وہ پھسلتے پھسلتے ساگر کے پاس آگئی۔ سولہ منزلوں تک اپنی بے انتہا مستقل مزاجی سے نہ گرنے والی، منزل پر آئی تو گِر گئی۔ گرتی کیوں نہیں، سنبھالنے والا جو موجود تھا۔ ساگر کی لہروں نے اس کے پیاسے وجود کو اپنے اندر سمو لیا۔

"تت ____ تم ٹھیک ہو ساگر؟" اس نے اس کے بازوؤں میں کسمساتے ہوئے پوچھا تھا۔

"بالکل ٹھیک ہوں ۔" ساگر کی آواز بھی اس کے ہونٹوں کی طرح مسکرا رہی تھی۔ اس کی دیوانی محبت میں پہلی مرتبہ یہ مبارک لمحہ آیا تھا کہ اس کی لیلیٰ اس کی بانہوں میں جھولتی ہوئی اس کے دل سے آن لگی تھی۔ اس کا رواں رواں مسکرا رہا تھا۔

"تو پھر ۔ تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے ساگر؟" لیلیٰ نے حیرت سے پوچھا

"یہ لاہور کا بدلہ ہے میری جان۔" اس نے مسکرا کر کہا تھا۔ اور اس سے پہلے کہ لیلیٰ کچھ سمجھ سکتی ساگر نے لیلیٰ کے ہونٹ چوم لیے۔ پھر اس سے قبل کہ وہ حسن کی شان میں کچھ اور گستاخی کرتا، لیلیٰ تڑپ کر اس کے بازوؤں سے نکل گئی۔

ایک لمحے میں کیا کچھ ہوگیا تھا۔ ہونٹوں ہی ہونٹوں کے ذریعے ادھر سے ادھر کوئی چیز ٹرانسفر ہوگئی تھی۔ ساگر کا پیار لیلیٰ میں ٹرانسفر ہوگیا تھا اور لیلیٰ کی سرخ سرخ لپ اسٹک ساگر کے ہونٹوں پر ٹرانسفر ہوگئی تھی۔ یہ ٹرانسفر بھی کتنا حسین تھا۔

"تم کچھ زیادہ ہی شرارتی نہیں ہوگئے ساگر؟" شرم سے سرخ لیلیٰ نے اپنے سانسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔" لاہور کا بدلہ تم نے کراچی میں نکالا ہے۔ لاہور میں، میں نے بھی تمہیں خوب دوڑایا تھا اور آج تم نے بھی مجھے تھکا مارا ہے۔"

"لیکن دونوں میں بہت فرق ہے لیلیٰ۔" وہ کہہ رہا تھا۔" تم نے مجھے زمین پر دوڑایا تھا اور تمہارا ساگر تمہیں زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے آیا ہے۔"

اس کی بات غلط تھی۔ سولہویں منزل آسمان نہیں ہوتی۔ سولہویں منزل زمین بھی نہیں ہوتی۔ وہ نہ آسمان پر تھے نہ زمین پر تھے۔ ساگر نے اسے زمین اور آسمان کے بیچ میں لٹکا دیا تھا۔ وہ نہ ادھر کے رہے تھے نہ ادھر کے رہے تھے۔ ہوا میں معلق ہوگئے تھے۔

لیلیٰ سولہ سنگھار کر کے آئی تھی۔ مگر سولہ منزلوں نے ہر سنگھار چھین لیا تھا۔ اور جو آخری بچا تھا وہ آخری منزل پر ساگر نے لوٹ لیا تھا۔

وہ تھکن کی وجہ سے دیوار سے ٹک گئی تھی۔ ساگر کو اس پر بڑا پیار آیا۔ وہ تھکن میں بھی اپنا جواب آپ تھی۔

"آؤ لیلیٰ، چلیں۔" اس نے لیلیٰ کی طرف پھر ہاتھ بڑھائے۔

"دور ہٹو ____ جلد باز آدمی ____ گندے کہیں کے! " لیلیٰ نے بدک کر کہا تھا۔" میں خود بھی چل سکتی ہوں ، بچّی نہیں ہوں۔"

ساگر ہنس پڑا پھر ہنستے ہوئے سرگوشی میں کہا تھا، "بچّی نہیں ہو اسی لئے تو تمہاری طرف ہاتھ بڑھائے ہیں۔"

لیلیٰ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی تھی۔" چلیے!"

ساگر اسے ایک دروازے تک لے آیا۔" دروازہ کھلا ہے لیلیٰ، چلو۔"

لیلیٰ نے دروازے کے اس پٹ کو دھکیلا جس پر پُش لکھا ہوا تھا۔ اندر ہلکی ہلکی سی روشنی تھی۔ جیسے ہی وہ دونوں اندر داخل ہوئے، ساری لائٹس جل اٹھیں۔ لیلیٰ کی آنکھیں چوندھیا گئیں۔

ساگر نے دیکھا کہ عمران حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ساگر سمجھ گیا تھا کہ اس سے کیا حماقت سر زد ہو چکی ہے۔ اس کا ہاتھ تیزی سے ہونٹوں کی طرف گیا اور پھر اس نے غیر محسوس طریقے سے ہاتھ ہونٹوں پر رگڑا۔ لیلیٰ دبے دبے سے شرمیلے لہجے میں ہنس رہی تھی۔

وہ ایک طویل ہال تھا۔ درجنوں افراد کھڑے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ہر طرف سے ویلکم موسٹ ویلکم کی آوازیں آ رہی تھیں۔

"یہ سب کچھ کیا ہے ساگر؟"

"آج نئے سال کی کون سی تاریخ ہے لیلیٰ؟" وہ خوشی سے پوچھ رہا تھا۔

"پپ ____ پپ ۔ پتا نہیں۔" لیلیٰ بتاتے بتاتے ایک جھٹکے سے رک گئی۔ اسے اچھی طرح یاد آگیا کہ آج کی تاریخ کی اس کی زندگی میں کیا اہمیت ہے، جس تاریخ کو وہ آج بھول گئی تھی اسے ساگر نے یاد رکھا ہوا تھا۔ آج اس کا جنم دن تھا۔ یہ اس کی برتھ ڈے منائی جا رہی تھی۔

ساگر کہہ رہا تھا، " لوگ اپنی برتھ ڈے پر اپنی عمر کے مطابق شمعیں گل کرتے ہیں۔ جلتے چراغوں کو بجھا دیتے ہیں۔ تم اس روایت کو توڑ دو لیلیٰ۔ یہ ریت تمہارے ہی ہاتھوں سے ہی ختم ہو گی۔ یہ سب شمعیں جلادو لیلیٰ۔ اور اسی طرح چراغ سے چراغ جلاتی رہو۔ اس الٹی رسم کو مٹا دو لیلیٰ۔ ہم شمعیں جلانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، پیار کی شمعیں۔ انہیں بجھانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔"

لیلیٰ نے ایک شمع جلائی اور پھر چراغ سے چراغ روشن ہوتے چلے گئے۔

"سالگرہ مبارک ہو۔" ساگر نے جھک کر اس کے کان میں کہا تھا۔ اس کے ساتھی نے سالگرہ کے تحفوں کا ڈھیر لگا دیا۔" یہ لباس میری پوری انڈسٹری کی طرف سے ہے۔ یہ ہمارے مینیجر کی طرف سے، یہ عمران کی بہن زیب کی طرف سے، یہ فُلاں کی طرف سے، یہ فُلاں کی طرف سے ____ اور یہ ____ " وہ کہتا رہا ۔

ہر ایک کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا۔ سارے تحفے خود ساگر کی طرف سے تھے مگر وہ انہیں دوسروں کے نام سے پیش کر رہا تھا۔ یہ بھی اس دیوانے کے عشق کا نیا انداز تھا۔

"آخر میں ____ یہ تحفہ تمہارے ساگر کی طرف سے۔" ساگر نے ایک لاکٹ اس کے گلے میں ڈال دیا۔ سونے کی زنجیر میں نیلم سے بنے ہوئے دو دل اس طرح سے لٹک رہے تھے کہ ایک دل دوسرے کے اندر تھا۔ ایک بیرونی تھا اور دوسرا اندرونی۔ ایک دل نے دوسرے دل کو اپنے اندر چھپایا ہوا تھا۔

زبردست تالیاں بجنے لگیں۔ سبھی لیلیٰ کو مبارکباد دے رہے تھے۔ جبکہ عمران کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔ اس نے بہت چاہا کہ آنسو پی لے، اشکوں کا طوفان اس کی ہمّت کے بند توڑے ڈال رہا تھا۔ وہ اپنے دوست کی خوشیوں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا تھا اس لئے ایکسکیوز می کہہ کر باہر آگیا۔ اس کی آنکھوں میں نرگس کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ چوتھی ڈائمنشن کیسی کیسی کرامتیں دکھاتی ہے؟ کسی کو ملاتی ہے اور کسی کو رلا دیتی ہے!

آج ساگر کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ جس کو اس نے ساری زندگی ڈھونڈا تھا، آج اسے پالیا تھا۔ خون اس کے چہرے پر جوش مار رہا تھا۔ اور چہرہ کسی گلاب کی طرح کھل رہا تھا۔

لیلیٰ کہہ رہی تھی، " تم مجھے اتنا کیوں چاہتے ہو ساگر؟ میں نے تمہیں ایسی کون سی چیز یا کون سی خوشی دے دی جس کی وجہ سے تم میرے دیوانے ہوگئے ہو؟ میں سچ کہتی ہوں ساگر، جتنا تمہارے اندر میرے لئے عشق ہے اتنا تو میرے پاس تمہارے لئے حسن بھی نہیں ہے۔ تمہارے عشق کے سامنے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے حسن کا سارا خزانہ خالی ہوگیا ہو۔"

"حسن کا تعلق چہرے سے نہیں، دیکھنے والی آنکھ سے ہوتا ہے لیلیٰ۔" ساگر کہہ رہا تھا۔" اگر ساری دنیا کے عوض بھی تمہاری ایک جھلک دیکھنے کو مل جائے تو پھر بھی میں یہی سمجھوں گا کہ سودا سستا ہے۔"

دونوں خاموش ہوگئے۔ لیلیٰ اپنے سرخ جوڑے کے دامن سے کھیلنے لگی۔ آج وہ دلہن بن کر سرخ رنگ کے لباس میں آئی تھی۔ سرخ رنگ ساری دنیا میں خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا تو دوپٹہ بھی سرخ تھا۔ یعنی وہ تو سر سے پیر تک خطرہ بن کر آئی تھی۔ اگر وہ سبز دوپٹہ ہی ڈال لیتی تو خطرے کا کچھ توڑ ہو جاتا۔ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟

"ٹرن ۔ ٹرن ۔ ٹرن" خطرے کی گھنٹی بجی۔ ساگر نے اس طرح ٹیلیفون کو گھورا جیسے وہ اس کا رقیب بن گیا ہو۔

"ہیلو!"

"میں ہوں، عمران ____ عقیل ، ہماری پوری بلڈنگ کے قریب پولیس نے گھیرا ڈال رکھا ہے۔" گھبرائی ہوئی آواز میں کہا گیا۔

"کیا کہہ رہے ہو؟ "

"ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ ایس ڈی ایم کی گاڑی میں رنگ پور کا نواب بھی بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے دور بین سے خود دیکھا ہے۔"

"نواب یار شاکر شہر یار؟ کیا تم اسے جانتے ہو؟ "

"اس کی تو سات پشتوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ یہ نہایت دوغلا شخص ہے۔ عام طور پر نہایت معصوم سا لگتا ہے مگر بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سارا چکر اسی شخص کا چلایا ہوا ہے۔ نہایت ہی لالچی آدمی ہے۔"

"جلدی سے میرے پاس آؤ۔" ساگر نے ٹیلیفون بند کردیا۔ لیلیٰ سہمی ہوئی نظروں سے کھڑکیوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ رنگ و نور کی دنیا میں مگن تھے اور اب نواب آف رنگ پور ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے آ رہا تھا۔

ساگر سوچتی ہوئی نظروں سے لیلیٰ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ محبت کے لمحات کس قدر عارضی تھے۔

اس وقت عمران کمرے میں داخل ہوا۔ ساگر تیزی سے اس کی طرف لپکا تھا۔

"پولیس نے ہمارے کئی کار خانوں پر چھاپے مارے ہیں۔" عمران جلدی جلدی کہے لگا تھا۔" اور کچھ ایسی اشیاء برآمد کی ہیں جو تمہیں پھانسی کے پھندے تک لے جا سکتی ہیں۔"

" کالی بھیڑیں اپنا کام دکھا گئیں ہیں عمران ۔"

"تمہیں ہر طرف سے گھیرا جا چکا ہے۔ تم اپنے حق میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ سوائے فرار کے اب تمہارے پاس دوسرا راستہ باقی نہ رہا۔"

" تمہیں یہ سب کچھ ____ "

"باہر پولیس میگا فون پر اعلان کرتی پھر رہی ہے۔" عمران نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔

"اوہ نو!" عقیل نے مٹھی بھینچ کر کہا، " نواب کے بارے میں میری رائے بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔ مگر میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اس قدر اوچھا قدم اٹھا لے گا۔"

عمران کھڑکیوں کی طرف آیا اور دو انگلیوں سے سر اٹھا کر باہر جھانکنے لگا۔ پولیس اعلان کر رہی تھی۔

"پولیس انسپکٹر شاید کوئی تمہارا ہمدرد ہے۔" عمران کہنے لگا۔" میں نے پانچویں منزل سے اس کا اعلان سنا تھا، وہ آدھے گھنٹے کی مہلت دے رہا تھا۔ یہ مہلت ہر کسی کو نہیں ملتی۔ وہ تمہیں فرار کا اشارہ دے رہا ہے عقیل۔"

ساگر ٹکٹکی باندھ کر لیلیٰ کو دیکھے جا رہا تھا۔ اس کا دل اتھل پتھل ہو رہا تھا۔ لیلیٰ کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی ۔قسمت نے ملایا تھا اور قسمت ہی الگ کر رہی تھی۔

"تم لفٹ کے ذریعے چلی جاؤ لیلیٰ۔ وہ تمہارے دشمن نہیں ہیں۔ تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔" ساگر نے ایک طویل سانس خارج کی۔

"ہر گز نہیں!" لیلیٰ نے اعتماد سے کہا تھا۔" میں اپنی ساری کشتیاں جلا کر تم تک پہنچی ہوں، کیا تم نے مجھے زمین سے اٹھا کر آسمان پر اسی لئے بٹھایا تھا کہ واپس آسمان سے زمین پر پھینک دو۔"

"بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لیلیٰ۔" ساگر نے بے بسی سے کہا۔" اگر تمہیں ہلکی سی خراش بھی آئی تو میں اپنے آپ کو معاف نہیں کروں گا۔"

لیلیٰ کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔" تمہاری محبت میرے بدن پر ایک ہلکی سی خراش برداشت نہیں کر سکتی تو میری محبّت تمھیں ان بھیڑیوں کے درمیان کیسے تنہا چھوڑ سکتی ہے۔ میں نے تمہیں بہت مشکلوں سے پایا ہے ساگر۔ اب میں تمہیں آنکھوں سے اوجھل ہونے نہیں دوں گی۔"

ساگر کا جھکا ہوا سر فخر سے بلند ہوگیا مگر عمران نے دانت پیسے تھے، " بے وقوف لڑکی! جاؤ یہاں سے ____ چلی جاؤ۔"

"تم کون ہوتے ہو ہمارے بیچ میں آنے والے۔" لیلیٰ نے مضبوطی سے ساگر کا ہاتھ تھام لیا۔ "ہم اب کبھی جدا نہیں ہوں گے۔"

"میں کہتا ہوں چلی جاؤ۔" عمران اس بار دھاڑا تھا۔

"اور میں کہتی ہوں کہ میں نہیں جاؤں گی۔" لیلیٰ بھی تیز ہو کر بولی۔

"تم جاؤ گی لیلیٰ ۔ میرے ساتھ جاؤ گی ____ " عقیل نے لیلیٰ سے کہا۔ لیلیٰ خوش ہوگئی۔

"تم پولیس کی توجہ کو دوسری طرف لگا دو عمران۔" ساگر کہہ رہا تھا۔" چاہے اس کے لیے تمہیں آگ لگانی پڑے یا پستول اٹھنا پڑے۔ ہم پچھلی طرف سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ جتنے آدمی تمہارا ساتھ دے سکتے ہیں لے لو۔ میرا مینیجر تمہاری مدد کرے گا۔ مگر خبردار، کوئی پولیس والا زخمی نہ ہونے پائے۔ وہ بے چارے اپنا فرض پورا کر رہے ہیں اور حقیقت سے قطعاً لاعلم ہیں۔"

"او کے۔ فی امان اللہ!"

ساگر نے لیلیٰ کی بائیں کلائی مضبوطی سے تھام لی۔" آؤ لیلیٰ!"

"میری کلائی چھوڑو۔ میں چل رہی ہوں۔"

ساگر نے اس کی کلائی چھوڑ دی اور تیزی سے کمرے کی شمالی دیوار کی طرف بڑھا۔ وہاں کوئی پوشیدہ بٹن تھا جسے ساگر نے دبایا تھا۔ یکایک دیوار میں دروازہ کھل گیا۔

"یہ میری خفیہ لفٹ ہے۔ اسے میرے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جلدی آؤ۔" وہ لفٹ میں داخل ہوگیا۔ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آئی ، دروازہ بند ہوگیا۔ یہ ایک چھوٹی سی لفٹ تھی جسے ایک خاص مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ ساگر نے پھر بٹن دبایا۔ معمولی سا جھٹکا لگا اور بس۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور جھٹکا لگا۔ یہ بھی معمولی سا تھا۔ ساگر نے پھر بٹن دبایا دروازہ کھل گیا۔ سامنے ہی ایک کار کھڑی تھی۔ دونوں اس میں سوار ہوگئے۔

"اسٹیرنگ پر مجھے بیٹھنے دو ساگر۔ کار میں چلاؤں گی۔" لیلیٰ نے مضبوط لہجے میں کہا تھا۔

"نہیں۔" ساگر کا جواب مختصر سا تھا۔ اس کی نظریں سامنے دیوار پر لگے ٹیلیفون پر جمی ہوئی تھیں۔ پھر جیسے ہی گھنٹی سنائی دی، ساگر نے کار اسٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔ عمارت کا خود کار سلائیڈنگ دروازہ خود بخود کھل گیا۔ اس کی کار تیزی سے نکلتی چلی گئی۔ اس طرف کوئی پولیس والا نہیں تھا۔ سب ہی دوسری طرف چلے گئے تھے۔

وہ کار کو تیزی سے نکالتا ہو الے گیا۔ فائرنگ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ سمجھا کہ عمران نے پولیس کی توجہ بھٹکانے کے لیے یہ کھیل شروع کیا ہے مگر دوسرے ہی لمحے اس کی ساری غلط فہمی دور ہوگئی۔ ایک گولی کار کی باڈی سے ٹکرائی تھی اور اندر تک گھس گئی تھی۔

"اب بھی وقت ہے لیلیٰ۔ میری بات مان لو۔ وہ تمہارے دشمن نہیں ہیں۔ وہ صرف مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔" وہ رفتار بڑھاتا ہوا بولا۔

"میں عورت ہو کر نڈر ہوں مگر تم مرد ہو کر ڈر رہے ہو۔"

"مجھے اپنی جان کی پرواہ نہیں ہے لیلیٰ۔ میں تمہارے لیے ڈر رہا ہوں۔ اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا۔"

اس وقت زور دار آواز میں گولی چلی۔ اس کے ساتھ ہی لیلیٰ اس طرح چلائی جیسے گولی لگ گئی ہو۔ اس کی سسکی بڑی درد ناک تھی۔

"لیلیٰ ۔ ۔آ ____ " عقیل بری طرح چلایا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پوری قوت سے بریک لگا دیا۔ لیلیٰ کا سر ڈیش بورڈ سے جا ٹکرایا۔

"تت ____ تم ٹھیک تو ہو لیلیٰ؟" اس نے بے تابی سے پوچھا تھا۔

"ارے ارے ____ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ گاڑی چلاؤ۔ پیچھے ایک پولیس کی گاڑی آ رہی ہے۔" لیلیٰ نے جلدی جلدی کہا تھا۔" یہ میں نے آج کا حساب برابر کیا تھا۔"

کار ایک بار پھر فراٹے بھرنے لگی۔ دیوانہ مسکرا رہا تھا۔ ان کی محبت عجیب محبت تھی۔ سر پر موت کھڑی تھی اور وہ آپس میں حساب برابر کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ لاہور کا بدلہ ساگر نے کراچی میں لیا تھا اور لیلیٰ نے آج ہی حساب برابر کردیا تھا۔

آدھے گھنٹے تک تعاقب جاری رہا۔ وہ اب ایک بے آباد علاقے میں تھے۔

"ہم کہاں آگئے؟" لیلیٰ نے سوال کیا

"یہ ساحلی علاقہ ہے۔"

"تم یہاں کیوں آگئے؟"

"میں تو آبادی کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر تعاقب کرنے والے بھی نادان نہیں ہیں۔ اگر ہم اُدھر نکل جاتے تو ہمارا بچ نکلنا آسان ہوتا۔"

وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ وہاں کیوں آگیا۔ جس جگہ کشتی کی قسمت میں ڈوبنا لکھا ہوتا ہے ، موجیں گھیر گھار کر کشتی کو اسی جگہ لے آتی ہیں۔ ڈوبنے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔

 اسی وقت ایک فائر ہوا۔ ساگر کی کار لہرا گئی۔ اس نے نہایت پھرتی سے بریک لگاتے ہوئے کار کو قابو میں کیا تھا ورنہ یقیناً کار الٹ جاتی۔ گولی نے کار کا پچھلا ٹائر پھاڑ دیا تھا۔

وہ فوراً کار سے اتر گیا، لیلیٰ نے بھی یہی کیا تھا۔ ان کے دونوں اطراف دو گاڑیاں آکر رک گئیں تھیں۔ مگر وہ پولیس کی گاڑیاں نہیں تھیں۔ یہ بات ساگر کے لیے حیران کن تھی۔

"لیلیٰ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ ہمارے ساتھ زبردست دھوکا ہوا ہے۔ ہم شدید خطرے میں ہیں۔"

لیلیٰ بھی پریشان ہوگئی تھی۔ پولیس کی گاڑیوں کا اس طرح اچانک غائب ہو جانا اس کے لیے بھی حیرت انگیز تھا۔ گاڑیوں کے دروازے کھلے اور کئی افراد ہاتھوں میں گنیں لیے اتر پڑے۔ سب سے آخر میں ایک لمبا تڑنگا شخص ہاتھ میں شیر کے شکار والی بندوق لے کر اترا تھا۔ ساگر اسے دیکھتے ہی چونک اٹھا۔ وہ رنگ پور کا نواب شاکر شہر یار تھا۔


"ارے نواب صاحب آپ؟" ساگر نے حیرت سے پوچھا۔

"ہاں میں۔" نواب نے اپنی آواز کو با رعب بنانے کی پوری کوشش کی تھی۔" اس دن تم جو ہیرے واپس لے کر گئے تھے وہ تمہارے تھے ، مگر آج تم ہمارا ہیرا چوری کر کے بھاگ رہے ہو۔"

"میں سمجھا نہیں۔"

"تم اتنے ناسمجھ نہیں ہو کہ میری بات نہ سمجھ سکو۔ لیلیٰ کو شرافت سے میرے حوالے کردو۔"

"میں اب بھی نہیں سمجھا۔"

"اسے سمجھاؤ بھئی۔" نواب اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ گیا۔ غنڈوں نے اپنی گنوں کا رخ اس کی طرف کردیا۔ وہ اسلحہ کی زبان میں اسے سمجھا رہے تھے۔" نواب صاحب خاندانی بڑے آدمی ہیں۔ نچلی ذات کو کوئی آدمی بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے تو جان کھو بیٹھتا ہے۔" ایک نے کہا۔

"لیلیٰ میرے پاس آ جاؤ۔ ورنہ میں صرف تین تک گنتی جانتا ہوں۔" نواب نے ڈبل بیرل کی بندوق اٹھا لی۔" میں نہیں چاہتا کہ ساگر کے ساتھ تم بھی ماری جاؤ۔"

"تم اس کی جان کے دشمن کیوں ہوگئے ہو؟" لیلیٰ رو پڑی۔

"مفت کی دولت کسے پیاری نہیں ہوتی۔ میں ہیروں کا رسیا ہوں اور سنا ہے ساگر کی پسند بہت عمدہ ہے۔ آج کے بعد اس کا ہر ہیرا میرا ہوگا۔ میں سارے انتظامات کر کے آیا ہوں۔"

"دولت کی خاطر تم کتنا گر گئے ہو؟ "

"صرف شہ سوار ہی گرتے ہیں جنگ میں ۔ اب آ جاؤ۔"

"میں تم پر تھوکتی بھی نہیں۔"

"ایک۔" نواب نے گننا شروع کردیا۔

"نہیں ۔"

"دو۔"

"نہیں نہیں!" لیلیٰ نے خوف سے گردن ہلائی۔ نواب نے گنتی بند کردی اور ایک بار پھر نیلم سے بولا تھا۔" لیلیٰ ، اپنی خوشی سے میرے پاس آ جاؤ۔ آئی لو یو ہنی۔ میں تمہیں ملکہ بنا دوں گا۔ ایک مرتا ہوا شخص تمہیں کچھ نہیں دے سکتا۔"

لیلیٰ بپھر کر بولی تھی۔" اور مارتے ہوئے آدمی سے بھی مجھے کچھ نہیں مل سکتا۔ بلکہ تمہیں تو آدمی کہنا بھی آدمیت کی توہین ہے۔"

ساگر سوچ رہا تھا کہ اس سے زبردست بھول ہوئی ہے۔ اسے ریوالور ہی ساتھ لے آنا چاہیے تھا۔ مگر جلدی جلدی میں وہ ہتھیار لانا بھول گیا تھا۔ یہ شاید اس کی زندگی کی آخری بھول تھی۔

نواب لیلیٰ کی بات سن کر کھول اٹھا تھا۔ اپنی ہتک برداشت کرنا اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ اس نے تین کہے بغیر ہی لیلیٰ کا نشانہ لیا اور فائر کردیا۔

وہ شیر کا شکار کرنے والی بندوق کا فائر تھا اور نشانہ شیرنی کا تھا۔ یہ سراسر نا انصافی تھی اس لئے شیر خود ہی سامنے آگیا۔ پہلی ملاقات میں آئی لو یو کہنے والے نے جان لیوا گولی چلائی تھی اور زندگی بھر آئی لو یو نہ کہہ سکنے والے نے اپنی محبّت کا آخری ثبوت گولی کھا کر دیا تھا۔

گولی رکی نہیں، ساگر کا سینہ پھاڑتی ہوئی کندھے سے پار نکل گئی۔ پیچھے لیلیٰ تھی۔ گولی ساگر کے دئیے ہوئے تحفے پر لگی۔ نیلم کے دونوں دل ایک ہی لمحے میں کرچی کرچی ہوگئے۔ گولی مزید آگے بڑھی اور نیلم کا سینہ چیر دیا۔ گولی کی حد ختم ہو گئی تھی۔ اس کا قیام لیلیٰ کے سینے میں ہوا تھا۔

دو لاشے تڑپنے لگے۔ تڑپتے تڑپتے ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ ابھی زندگی کی کچھ رمق باقی تھی۔ خون بہتا ہوا زمین پر دو لکیریں بنا رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں لکیریں مل گئیں۔ ساگر نے ڈوبتی ہوئی آنکھوں سے نواب کی طرف دیکھا اور اس کے ہونٹ پھیل گئے۔ وہ اس طرح مسکرایا تھا جیسے کہہ رہا ہو ، "تم میری ساری دولت لوٹ کر بھی مجھے کنگال نہیں کر سکے۔ میری دولت تو لیلیٰ ہے۔" اس نے مضبوطی سے لیلیٰ کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اس کے ساتھ ہی ان کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ فرشتہ دو روحوں کو لے کر جا رہا تھا۔

دنیا کی کوئی گھڑی اس قابل نہیں ہوتی جو چوتھی ڈائمنشن کو بغیر خطا کے ناپ سکے۔ ہر گھڑی میں ایرر ہوتا ہے۔ تو پھر چوتھی ڈائمنشن کون درست ناپ سکتا ہے؟ یہ بتانا آئن اسٹائن بھول گیا تھا۔ ہاں ہاں ____ وہ گھڑی صرف اور صرف موت کے فرشتے کے پاس ہے۔ ہزار ہا سال بھی گزر جانے کے باوجود بھی ملک الموت کی گھڑی میں مائیکرو سیکنڈ کا فرق تک نہیں آیا۔ چوتھی ڈائمنشن صرف ملک الموت لینا جانتا ہے(علیہ الصّلوات والسلام) یہ فرشتہ زبانِ حال سے کہہ رہا تھا۔

آنے والی کس سے ٹالی جائے گی

جان ٹہری جانے والی جائے گی

روح رگ رگ سے نکالی جائے گی
تجھ پہ
ایک دن خاک ڈالی جائے گی

ایک دن
مرنا ہے آخر موت ہے
کرلے جو
کرنا ہے آخر موت ہے


  1. قبریں مہکتی ہیں

داستان ختم ہوگئی۔ اس دوران مجھے کئی بار اپنی کاشی یاد آئی تھی۔ میں کئی بار اشکبار بھی ہوا تھا۔ کئی سوالات بھی ذہن میں پیدا ہوئے تھے جو میں اس عمر رسیدہ بوڑھے سے پوچھنا چاہتا تھا۔

بوڑھا کہہ رہا تھا ، "ہاں بالک !یہ انہی محبّت کرنے والوں کی قبریں ہیں۔ وہ کونے والی قبر نیلم کی ہے اور اس کے ساتھ عقیل سو رہا ہے۔ صبح و شام یہ قبریں مہکتی ہیں۔ کوئی نہ کوئی پھولوں کی چادر روز ہی ڈال جاتا ہے۔"

"مم ۔ مگر ایک سوال رہ رہ کر میرے ذہن میں ابھر رہا ہے۔ آپ ان قبروں کے پاس مجاور بن کر کیوں بیٹھے ہیں؟" میں نے ہمّت کر کے پوچھا۔

"میں ؟" بوڑھا ہنس پڑا۔" کیا واقعی مجھے نہیں پہچان سکے؟"

"مجھے افسوس ہے۔"

"یہ میرے دوست کی قبر ہے ____ کیاسمجھے؟"

"آپ ____ آپ عمران ہیں؟" حیرت کی زیادتی سے میں زمین سے اچھل پڑا۔" تت ____ تو کیا آپ کو ابھی تک نرگس نہیں ملی؟"

"ہاں بالک! پچپن سال کوئی کم تو نہیں ہوتے۔ میری عمر پچھتر ۷۵ سال سے زائد ہو گئی ہے۔"

"پچپن سال؟" میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں پھر میں نے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہا تھا ، "دیکھ ابری ۔ یہ ہے عشق، ایک تو ہے کہ یہ سمجھتا ہے کہ تجھ سے زیادہ عشق کسی کے دل میں نہیں ہوگا۔"

بوڑھے عمران نے اٹھ کر دروازے کو دونوں پٹ کھول دئیے۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اندر آیا تو میں تصورات کی دنیا سے نکل آیا۔

شام کے چار بج چکے تھے۔ میرے دوست میرا انتظار کرتے کرتے یقیناً مایوس ہو کر کیپ ماؤنٹ جا چکے تھے۔

بوڑھا چار دیواری سے نکل کر نرسلوں سے بنی جھونپڑی میں داخل ہو چکا تھا۔ میں بھی جھونپڑی میں آگیا۔ بوڑھے نے چار دیواری کا دروازہ بند کرلیا۔ بارش میں اچانک شدّت آگئی تھی۔ کالے کالے بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ لیا تھا۔ ابھی سورج غروب ہونے میں کافی دیر باقی تھی مگر اندھیرا اس طرح چھا گیا تھا جیسے غروبِ آفتاب کو کافی دیر ہو گئی ہو۔ بوڑھا لالٹین جلا رہا تھا۔ چھت ٹپک رہی تھی۔ میں نے جھونپڑی سے باہر قدم نکالا۔ موسلا دھار بارش نے ایک بار پھر مجھے بھگو دیا۔

"اندر آجا بالک! کیوں بارش میں بھیگتا ہے؟"

"بارش میرے بدن میں آگ لگا رہی ہے محترم بزرگ۔" میں اندر آکر دو پٹا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا۔" ایسا کیوں ہوتا ہے؟"

بوڑھا پیار بھرے انداز میں ہنسنے لگا۔" لیلیٰ اور ساگر کی کہانی سے تم نے کیا سبق حاصل کیا ہے؟" اس نے میرا سوال اَن سنا کر دیا۔

"صرف ایک سبق کہ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔" میں نے یقینِ کامل سے کہا تھا۔

"بالکل! میں تمہارے اندر سچّے عشق کی جھلک دیکھ رہا ہوں۔ ورنہ آج کل کے چھوکرے تو عشق کا ع بھی نہیں جانتے۔ بد کاری کو محبّت کا نام دے دیا ہے۔ ان پچاس سالوں میں پاکستان بہت بدل گیا ہے۔ بہت بدل گیا ہے بیٹا۔ ہم نے اس لئے تو یہ پاکستان حاصل نہیں کیا تھا۔ ہماری سب قربانیاں مٹّی میں ملتی نظر آ رہی ہیں۔ اسے کون سنوارے گا؟"

"کیا آپ نرگس کے ملنے سے مایوس ہو گئے ہیں؟"

"خدا نہ کرے!"

"پھر پاکستان کی طرف سے بھی مایوس نہ ہوں۔ ہماری زمین بنجر نہیں ہے محترم بزرگ۔ اسے صرف ذرا سی نمی کی ضرورت ہے۔"

بوڑھا مسکرانے لگا۔" ہمیں ایسے ہی بلند حوصلہ انسانوں کی ضرورت ہے ابری بیٹا جو اس مٹی کو نرم کر سکیں۔"

"بارش رک گئی ہے۔ کیا اب میں جاسکتا ہوں؟"

"کبھی کبھی چکّر لگاتے رہنا۔ مجھے امید ہے کہ تم ایک دن کاشی کو ضرور پالو گے۔" بوڑھے نے کہا تھا۔ میں جھونپڑی سے نکل آیا۔


ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان ہمّت نہ ہارے۔ لیلیٰ اور ساگر کی داستان نے مجھے ایک نہ ختم ہونے والا جذبہ دیا تھا۔ تلاش کا جذبہ، طلب کا جذبہ، ہمّت بلند کرنے کا جذبہ۔ میری نگاہوں کے سامنے سے پردے ہٹ گئے۔ میں پہلے اپنی کاشی کے غم میں مغموم رہتا تھا اب میں اسے ایک جذبے کے ساتھ تلاش کر رہا تھا۔ میری کوشش کامیاب ہوگئی۔ کاشی کراچی ہی میں ایک بڑی سوسائٹی میں رہتی تھی۔

میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ میرے والدین کاشی کے یہاں سے کامیاب لوٹے تھے۔ دو تین ملاقاتوں کے بعد شادی کی تاریخ ٹھہر گئی تھی۔ ہمّت سلامت رہے تو ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے۔

میں نے بوڑھے عمران کو ڈھیروں دعائیں دیں جس کی بدولت مجھے جینے کا سلیقہ مل گیا تھا۔ پھر ان دوستوں کو دعائیں دیں جو مجھے زبردستی پیراڈائز پوائنٹ کھینچ کر لے گئے تھے۔

موسم ِ بہار اپنے جوبن پر تھا۔ پاکستانی مسلمان قراردادِ پاکستان کی تیاری کی گولڈن جوبلی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ عیسائی لیڈی ڈے کی تیاریوں میں مگن تھے۔ عیسائیوں کے نزدیک پچیس ۲۵ مارچ کو فرشتے جبرائیل علیہ السلام نے حضرت مریم علیہ السلام کو انسانی صورت میں آکر ایک پیارے لڑکے کی پیدائش کی خوش خبری دی تھی اور اس خوش خبری کے ٹھیک نو مہینے بعد پچیس دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اس لئے عیسائی پچّیس مارچ کو لیڈی ڈے مناتے ہیں۔ رنگ برنگے پرندے ہر طرف چہچہا رہے تھے۔ موسمِ بہار کے دن بھی کتنے پیارے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک خوشیوں بھرے دن ایک پیاری اپنے پیارے کی ہوگئی۔ جی ہاں ! وہ میری شادی کا دن تھا۔ میری کاشی کی شادی کا دن!

اپنی شادی کے دن میں نے بوڑھے عمران کو بھی مدعو کیا تھا۔ وہ بے حد خوش تھا۔ بے چارے نے ڈھیر ساری دعائیں دی تھیں۔

میری شادی کو چند مہینے گزر چکے تھے اس کے باوجود گھومنے پھرنے کا سلسلہ لگا ہوا تھا۔ تیرہ اگست کو ہم نے پیراڈائز پوائنٹ کا پروگرام بنایا۔ اس بار میرے دوست میرے ساتھ نہیں تھے، بلکہ کاشی تھی اس لئے میں نے اپنی بوڑھی ملازمہ صغرن کو بھی ساتھ لے لیا۔ کھانے پینے کا انتظام اسی کے ذمّے تھا۔ بہت اچھی وفا دار ملازمہ تھی اور بچپن ہی سے ہمارے ساتھ تھی۔ کاشی سے میری محبّت کی کہانی شروع ہوئی تو صغرن میری راز دار تھی۔ اپنا نام ٹھیک سے نہیں لے سکتی تھی اور صغرن کے بجائے سِگرن کہتی تھی۔

واپسی پر میں نے چاہا کہ کاشی بھی اس عظیم بوڑھے کو ایک نظر دیکھ لے جس کی وجہ سے میں نے نئی زندگی شروع کی تھی۔ اس لئے میں نے کار پیراڈائز پوائنٹ والے روڈ سے کچّے میں اتار لی۔ دور سے بانسری کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہی پرانی درد بھری لےَ تھی۔ کاگا سب تن کھائیو، سو چن چن کھیّو ماس۔ دو نیناں مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس۔

اس کی جھونپڑی کے پاس کار روک کر میں اتر پڑا۔ ایک لمحے بعد ہی میں دروازے پر دستک دے رہا تھا۔

"کون ہے؟"

"میں ہوں۔ ابری ، محترم بزرگ۔" میں نے بلند آواز سے کہا۔" دیکھیے تو سہی، باہر کون آیا ہے آپ سے ملنے۔"

دروازے کا ایک پٹ کھلا۔ اس وقت کاشی اپنا کام دار لباس سنبھالتی ہوئی کار سے اتر رہی تھی۔ بوڑھا عمران کار کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا تو یہ دیکھ کر کچھ ناگواری سی محسوس ہوئی کہ وہ کاشی کی طرف متوجّہ نہیں تھا بلکہ بوڑھی ملازمہ کو دیکھ رہا تھا۔

ایک لمحے کو میرا دل چاہا کہ بوڑھے عمران کو بتا دوں کہ یہ ہے میری محبوبہ، میری بیوی، اور میری کاشی۔ لیکن پھر دوسرے ہی لمحے میرے منہ سے ہنسی کا زور دار فوارہ چھوٹ پڑا۔ بھلا یہ بھی کوئی بتانے والی بات تھی۔ نئی نویلی دلہن کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ یہ میری دلہن ہے۔ دلہن اپنا تعارف آپ ہوتی ہے۔ میں اپنے احمقانہ خیال پر ہنستا چلا گیا۔

ادھر بوڑھے عمران کی حالت میں کچھ تبدیلی ہوئی تھی۔ اس نے اپنا سیدھا ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ شاید اسے کھانسی آ رہی ہے مگر وہ جھکتا ہی چلا گیا اور جھکتے جھکتے زمین پر ڈھیر ہوگیا۔

"محترم بزرگ کیا ہوا؟" میں حیرت سے کہتا ہوا بوڑھے عمران کی طرف لپکا۔ وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کہہ نہ پایا۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ ہونٹ بھی تھر تھرا کر ساکن ہوگئے تھے۔

میں پریشان ہوگیا۔ شاید بوڑھے کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی۔

"کاشی ____ عمران صاحب کی طبیعت اچانک ناساز ہو گئی ہے۔ ہمیں ان کو فوراً اسپتال لے جانا ہوگا۔"

میری کاشی کار کی طرف مڑی اور بوڑھی ملازمہ سے کہنے لگی۔" صغرن مائی! پچھلی سیٹ خالی کر دو۔ ایمرجنسی میں ہمیں فوراً ان صاحب کو میڈیکل ایڈ کے لیے ہسپتال لے جانا ہوگا۔ تم اگلی سیٹ پر آ جاؤ۔"

صغرن کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ وہ اسی طرح زمین پر پڑے ہوئے بوڑھے عمران کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔

"صغرن مائی! جلدی کرو۔" اس بار میں نے بوڑھے کی گردن میں اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ ڈال دیا تھا۔ صغرن ہماری کوئی بات ہی نہیں سن رہی تھی۔ شاید کار کے شیشے چڑھے ہونے کی وجہ سے ہماری آواز نہیں سن پا رہی تھی۔

میں عمران کو چھوڑ کر کار کی طرف لپکا اور اس کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ صغرن کپڑوں کی بے جان گٹھڑی کی طرح میرے قدموں میں آن گری۔ میں ایک حیرت ناک خیال کے زیرِ اثر لرز کر رہ گیا اور پھر اسی تجسس کی حالت میں صغرن مائی کی نبض چیک کی۔ صغرن مر چکی تھی۔

میں دیوانوں کی طرح دوڑتا ہوا عمران کی طرف آیا اور اس کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا۔ ساری نبضیں ساکت ہو چکی تھیں۔ میں نے ڈوبتی نظروں سے ایک نظر عمران کی جانب دیکھا اور پھر صغرن کی طرف۔ اور پھر مجھ پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ صغرن ہی نرگس تھی!


قبریں مہکتی ہیں۔ چار دیواری میں وہ چار قبریں آج بھی مہکتی ہیں۔ اب وہاں صرف چار دیواری ہے۔ وہاں پہلی قبر نیلم کی ہے، دوسری عقیل کی۔ عقیل کے برابر میں اس کے جگری یار عمران کی قبر ہے اور اس کے برابر میں اس کی منگیتر نرگس کی قبر ہے۔ چاروں قبریں محبت کی خوشبو سے مہکتی ہیں۔ چار دیواری میں ابھی دو قبروں کی گنجائش باقی ہے۔ وہاں کوئی عام آدمی دفن نہیں ہو سکتا۔ کوئی ایسا فرد دفن نہیں ہو سکتا جو محبّت اور جسمیت میں فرق نہیں کر سکتا۔ وہاں تو کوئی سچی محبّت کرنے والا ہی جگہ پا سکتا ہے۔ ان چاروں جیسا! ویسے مجھے کوئی امید نہیں کہ سو پچاس سالوں تک وہاں کوئی آباد ہو سکے۔

آج بھی جب کبھی میں اس علاقے سے گزرتا ہوں تو لیلیٰ اور ساگر کی ساری داستان میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے اس کے ساتھ ہی بانسری کی ایک درد بھری لے پر وہی گیت سنائی دیتا ہے:

کاگا سب تن کھائیو، سو چن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو، انہیں پیا ملن کی آس

اس کے ساتھ ہی میرے تصور میں چار مہکتی قبریں آ جاتی ہیں اور دیر تک مجھے مسحور کئے رکھتی ہیں۔ مہکتی قبریں مہکتی رہتی ہیں۔ اب کوئی مجھ سے یہ کہتا ہے کہ قبروں والے مر کر مٹّی میں مل گئے تو میں کبھی اس کا یقین نہیں کرتا کیوں کہ مجھے یقینِ کامل ہے کہ :

قبریں مہکتی ہیں!

The End


  1. آخری چند باتیں ____ عین ٹینگلمنٹ

ناول لکھتے وقت چند حیرت انگیز اتّفاقات بھی ہوئے جنہیں میں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرتے وقت خوشی محسوس کر رہا ہوں۔

  1. ناول ساون کے مہینے میں شرع ہوا تھا ختم بھی ساون کے مہینے میں ہوا۔ یہ محض اتفاق ہے۔
  2. ناول محبّت کے موضوع پرتھا اور اس میں تقریباً وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن سے مجھے محبّت ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر قاری کو محبّت ہوگی۔ مثلاً مسلک، ماں باپ، بہن بھائی ، گھر والی، وطن کتابیں، شاعری ، موسم، دوستی ، محبّت، لیلیٰ ، کاشی، ابری ساگر، کالج، مدرسہ، وغیرہ وغیرہ، وغیرہ۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ساری محبّتیں جمع ہوگئیں۔
  3.  ناول میں پاکستان کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ یہ ناول ۹۶ میں شروع کیا گیا تھا۔ میرے حساب سے اسے ستمبر ۹۶ میں مکمل ہوجانا تھا۔ مگر نہ ہوا اور پاکستان کے حوالے سے گولڈن جوبلی سالگرہ کے موقعے پر مکمل ہوا۔ جبکہ ۱۴ اگست میں صرف ۹ دن باقی ہیں۔ محض اتفاق ہے۔
  4. ناول کا قلمی نسخہ ۱۳ مہینوں تک لکھا گیا ہے۔ برطانوی شہزادی پرنسس ڈیانا کے بارے میں اس کا ایک فٹ نوٹ اس وقت لکھا گیا تھا جب وہ زندہ تھی۔ کچھ دن بعد ہی ایک کار ایکسیڈینٹ میں دنیا سے گزر گئی۔
  5.  بریلی شریف کا تذکرہ اس وقت آیا جب بریلی میں شاہِ بریلی کا عرس منایا جارہا تھا۔ صفر المظفر میں۔ یہ بھی محض اتفاق ہے۔
  6.  داتا کی نگری کا تذکرہ اس وقت آیا جب لاہور میں ان کا عرس منایا جارہا تھا۔
  7. حضرت مجدّد صاحب کے مکتوبات سے اقتباس ان دنوں پیش کیا گیا جب سرہند میں ان کا عرس ہورہا تھا۔
  8.  چوتھی ڈائمنشن میں وقت کا ذکر ہے۔ یہ باب ۲۱ جولائی کو پیر کے دن شروع کیا گیا تھا۔ اس رات بعد نماز عشاء ڈرگ کالونی میں مین بازار روڈ ایک نمبر میں عصرِ حاجر کے مشہور روحانی بشرگ الیاس قادری تشریف لائے تھے۔ چوتھی ڈائمنشن کے حوالے سے اس کی ایک کرامت دیکھی جسے میں محفوظ رکھنا چاہتا ہوں ۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ اس باب میں آنے والے چند اشعار آپ بے حد پڑھتے ہیں۔
  9. یہ ناول پچیس برس پہلے لکھا گیا تھا۔ پھر مختلف لوگ اسے پڑھنے کے لئے لے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ میں بھول گیا کہ یہ ناول کس کے پاس ہے۔ آخرش فیس بک پر اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ جس کے پاس ہو وہ مجھے واپس کر دے۔ وجاہت علی مخدومی کے پاس تھا، لیکن انہوں نے بھی کمال کیا تھا کہ بیس سال تک اس کی ایسی حفاظت کی کہ میرا بھی دل خوش ہو گیا۔ حتیٰ کہ کسی شاگرد نے (شاید نوشین یا مہہ جبین نے) اس پر جو خوبصورت کور چڑھایا تھا، وہ تک بھی سلامت تھا۔ اسی کور کی تصویر سر ورق پر دی گئی ہے جس پر ان کی تحریر کا انداز بھی نمایاں ہے۔
  10. یہ ناول میں نے لکھا نہیں ہے، کسی طاقتور روح نے مجھ سے لکھوایا گیا ہے۔ میری تربیت اس ناول کے ذریعے بھی کی گئی ہے[9]۔

کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضا

بول بالے میری سرکاروں کے

جی ہاں یہ سب محض اتفاقات ہیں جن میں میرے ارادے کو دخل نہیں۔ اور اتفاق کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کسی چیز کی وجہ نہیں ہوتی۔ بلکہ اتفاق کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم کسی واقعے کی وجہ سے ناواقف ہیں۔ وجہ ضرور ہوتی ہے۔

آپ سب کا بہت بہت شکریہ

  1. شماریات

  1. ناول کے کل حروف ایک لاکھ چھیاسی ہزار بنتے ہیں۔ یہ بات قلمی نسخہ لکھے جانے کے 25 سال بعد کھلی جب اسے کمپیوٹر پر ٹائپ کیا گیا۔ یہ رفتارِ نور کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور اسے ایک نوری نے تخلیق کیا اور عین نوری نے اسے کمپیوٹر پر منتقل کیا۔
  2. یہ ناول جون سے اگست تک ۱۳ مہینوں میں لکھا گیا ہے (ٹھیک ایک سال، ایک مہینہ، دو ہفتے اور تین دن میں یا کل ۴۱۲ دن میں) ۔ اس کے ایک صفحے پر اوسطاً 360 کلمات ہیں اور روزانہ لکھنے کی اوسط 130 الفاظ ہیں، یعنی آدھ صفحہ یا اس سے بھی کم۔
  3. اس ناول میں چار بڑے کلمات وہ ہیں جن کے تمام کے تمام حروف نورانی ہیں یعنی وہ قرآنی مقطعات پر مبنی ہیں؛ وہ الفاظ یہ ہیں: اصطلاح، السلام، المنطق اور مسلمان۔ یہ چاروں کلمات 6،6 حروف پر مبنی ہیں۔
  4. ناول کا سب سے طویل لفظ جس میں کوئی حرف نورانی نہیں: پھیپھڑوں ہے۔ اس میں 8 حروف ہیں۔
  5. اردو کے دو کلمات اس ناول کے سب سے بڑے الفاظ ہیں: فرانسیسی، ناانصافی۔ ان میں آٹھ آٹھ حروف ہیں۔
  6. دو کلمات اس ناول کے سب سے بڑے اور طویل الفاظ ہیں لیکن یہ انگریزی کے ہیں؛ ایڈورٹائزنگ، تھرمامیٹروں۔ ان میں گیارہ گیارہ حروف ہیں۔
  7. اعداد کے اعتبار سے سب سے بڑا کلمہ الغرض ہے۔ اس کے اعداد 2031 بنتے ہیں۔
  8. سب سے زیادہ آنے والے کلمات کی، میں، کے، تھا، سے، اس ہیں۔ ان میں سے ہر ایک لفظ ہزار سے زائد بار آیا ہے۔
  9. سب سے بڑے لفظ جن میں کوئی نقطہ نہیں، ساہوکاروں، مسکراہٹوں ہیں۔ ہر ایک میں 9 حروف ہیں۔
  10. ناول کے کسی کلمے پر 9 سے زائد نقاط موجود نہیں۔ صرف ایک کلمے پر 9 نقاط آئے ہیں اور وہ ہے بشاشت۔ سب سے مختصر کلمات جن پر 6 نقاط ہیں وہ؛ شش، ثبت اور نقش ہیں۔ اور سب سے بڑے کلمات جن پر 6 نقطے ہیں وہ؛ انتظامات، بالترتیب ہیں۔
  11.  ناول میں 55 ہزار سے زائد کلمات ہیں۔ لیکن مفرد کلمات کی تعداد صرف 6010 ہے اور اردو کے صرف 4729 کلمات ہیں۔ یعنی اردو لغت کے 6 ہزار کلمات سے یہ پورا ناول تیار ہوا ہے۔ آسانی کے لئے یہ سادہ فارمولا یاد رکھیں کہ مفرد کلمات کل کلمات کا عموماً پانچواں حصہ ہوتے ہیں۔ تاہم اس ناول میں یہ نواں حصہ ہیں۔
  12. اگر اس ناول کو لغت کی صورت میں لکھا جائے تو اس کا پہلا کلمہ اب ہوگا اور آخری یونہی۔
  13. ناول کے 1514 کلمات میں عین وارد ہوا ہے جن کی مفرد تعداد 275 ہے۔ 824 کلمات عین سے شروع ہوتے ہیں جن کی مفرد تعداد 102 ہے۔حرف عین ۱۵۴۶ بار اس ناول میں استعمال کیا گیا ہے۔
  14. حرف سین 7409 کلمات میں آیا ہے جن کی مفرد تعداد 849 بنتی ہے۔ 3347 کلمات حرف سین سے شروع ہوتے ہیں جن کی مفرد تعداد 354 بنتی ہے۔ کل 7628 بار حرفِ سین اس ناول میں استعمال ہوا ہے۔ سانس اور سائنس اس ناول کے وہ دو کلمات ہیں جو سین سے شروع اور شین پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ اور ستائیسویں کا کلمہ سین سے شروع ہونے والا سب سے بڑا لفظ ہے۔
  15. 1505 کلمات میں حرف قاف آیا ہے، جن کی مفرد تعداد 286 بنتی ہے۔ 465 کلمات حرف قاف سے شروع ہوتے ہیں جن کی مفرد تعداد 91 بنتی ہے۔ کل 1570 بار حرف قاف اس ناول میں استعمال ہوا ہے۔
  16. اگر صرف ناول کی اسٹوری اور ابتدائیہ کو مد نظر رکھیں تو اس میں 53144 کلمات ہیں جن کی مفرد تعداد 5690 بنتی ہے اور کل حروف کی تعداد 178205 بنتی ہے۔

تصویر 1 : قلمی نسخے کا ایک صفحہ


  1. سچے تبصرے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مگر تبصرہ کرنا نہایت دشوار فن ہے۔ اگر آپ نے مہکتی قبریں پڑھ لیا ہے تو میں آپ سے تبصرہ کرنے کی درخواست کروں گا۔ کھرے تبصرے کی۔ مختصر اور جامع تبصرے کی۔ صاف اور واضح تبصرے کی[10]۔ ناول پڑھنا آپ کا حق ہے اور تبصرہ پڑھنا مصنف کا۔ تو پھر آئیے۔

  1.  محبت کی جھلکیاں ____ محمد سلیم قادری

پرانا موضوع ہے۔ آپ کی محبت اور محنت کی چند جھلکیاں ہیں۔ اور بس!

محمد سلیم قادری


  1. شاندار کاوش ____ محمد عابد قادری

ناول، مہکتی قبریں، مصنف سلیم قادری کی ایک بہترین اور شاندار کاوش ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ ناول مصنف کے دوسرے ناولوں سے مختلف ہے۔ جس میں پاکیزہ اور سچی محبت کو اجاگر کیا گیا ہے جو کہ اس زمانے کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستانی تاریخ کو اس ناول میں بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے جو کہ صرف ایک اچھے مصنف کا خاصہ ہوتا ہے۔اس ناول میں اسلامی تعلیمات کو بھی عام کیا گیا ہے اور بعض بزرگان دین کے بارے میں لکھا بھی گیا ہے جس کو پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ یہ ناول محبت، دوستی، عزم، حوصلے، ہمت، خوداری، صبر اور محبت کا سبق دیتا ہے۔ عرض یہ کہ یہ ناول بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔

محمد عابد قادری


  1. یہ ناول ضرور پڑھیں ____ محمد صادق قادری

ناول مہکتی قبریں بہت اچھا ناول ہے۔ جتنا اچھا نام ہے اس سے بھی اچھی کہانی ہے۔ جو لوگ پاکستان کا خیال نہہں کرتے اور پاکستان سے بے خبر رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ یہ ناول ضرور پڑھیں۔ اس سے انھیں احساس ہوگا کہ پاکستان کتنی مشکلوں اور بزرگوں کی قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔ ویسے بھی اس ناول میں پاکستان کی تاریخ کا پورا نچوڑ ہے۔ اس ناول میں ''ہیرے سے زیرے تک' میں جو اشعار لکھے ہیں وہ تو مجھے بہت ہی پسند آئے۔ ساگر اور لیلیٰ کا حساب تو بڑا ہی دلچسپ تھا۔ پاکستانی تاریخ میں یہ ایک زبردست کہانی 'ساگر اور لیلی' کی بھی چھپی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کہانی میں چار چاند لگ گئے عرض یہ کہ ہر لحاظ سے ناول بہت ہی اچھا تھا۔

آپ کا بھائی

محمد صادق قادری


  1. تعریف کے لئے الفاظ کی کمی محسوس کر رہا ہوں ____ سید محمد جسیم قادری

 مہکتی قبریں موضوع کے لحاظ سے قابل تعریف اور لائق تحسین و آفرین ناول ہے۔ کہانی میں محبت کی پاکیزگی کو بلند ترین مقام پر دکھایا گیا ہے۔ پورے ناول میں ابن صفی کے بجائے محی الدین نواب کا انداز جھلکتا رہا۔ جو نہایت دلکش اور دلچسپی کا باعث بنا۔ طویل ترین عرصہ کے بعد ایسے تحریر پڑھنے کو ملی۔ جس کی مزید خواہش کی جاسکتی ہے۔

اس ناول میں آزادی کی جنگ کی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔ جو کہ معلومات میں اضافے کا باعث بنی۔ دور جدید کے لیلیٰ مجنوں نے عشق و محبت کی تمام کہانیوں کو مات دے دی ہے۔ اس ناول کی تعریف کے لیے الفاظ کی کمی محسوس کر رہا ہوں۔ اور پھر تبصرہ کے آخر میں یہ کہتا ہوں چلوں کہ اس ناول کی تعریف کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سورج کو چراغ دکھانا ۔

والسلام

سید محمد جسیم قادری


  1. خوب صورتی اور مہارت ____ مہہ جبین

 ناول نام کے لحاظ سے تو کافی ڈراونا لگتا ہے لیکن ناول بہت عمدہ ہے۔ اس کی شاعری تو بہت ہی اچھی ہے اگرچہ مجھے شاعری سے دلچسپی کم ہے لیکن اس کے باوجود اس میں اس میں لکھی ہوئی شاعری اچھی لگی۔ ناول میں ساگر اور لیلیٰ کے کردار کو بہت ہی خوبصورتی اور بڑی ہی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

اس ناول میں پاکستان کی تحریک بے مثال تحریک لگی۔ نرگس اور عمران کا کردار بھی جاندار کردار ہے۔ ناول میں سب سے اچھی بات لیلیٰ اور ساگر کا ایک دوسرے سے بدلہ لینا سونے پہ سہاگے والی بات ہے۔ اس میں تاریخ بھی اچھی لگی، جب کہ پڑھنے سے پہلے بوریت سی ہورہی تھی۔ ابری کو مبارک ہو کہ اس کی کاشی اس کو مل گئی۔ اس میں صبر، روشنی، محبت، ہمدردی، اور جدوجہد کی طرف لوگوں کو مائل کیا گیا ہے۔ اس میں بہت سے سبق آموز بزرگان دین کے واقعات ہیں جو زبردست لگے۔ ناول کی تعریف کے لیے وقت بہت زیادہ ہے لیکن الفاظ بہت کم۔

آپ کی شاگردہ

مہہ جبین


  1. جان توڑ محنت ____ سید وجاہت علی مخدومی ساگر قادری

 مہکتی قبریں، بس نام ہی سے باطن عیاں ہوگیا۔ کیا خوب مہکا مہکا، دلفریب ناول تھا۔ محبت وہی اچھی ہوتی ہے جو کہ مسکائے مسکائے چوری چھپے آنکھوں ہی آنکھوں میں، روم ہی روم میں پیغامِ عشق پہنچائے ۔ مصنف نے بالکل اسی طرح پاکیزہ اور خوبصورت محبت کو الفاظ کے سرحد سے حقیقی عشق کا زائچہ بنایا ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر اس انداز میں لکھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، مگر مصنف بڑی ہی خوبی کے ساتھ اس فریضے کو سر انجام دیا۔ پہلے یہ معلومات میرے ذہن میں تشنہ تھیں لیکن ناول کے مطالعے سے تشنگی جاتی رہی۔ الٹا ڈھیر ساری پیاری پیاری باتوں کو جس انداز میں مصنف نے تحریر کیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ ناول لکھنے کے لیے مصنف نے کتنی جان توڑ محنت کی ہے۔ بالکل ایسالگا جیسے مصنف بذات خود کردار بن کر کہانی میں محبت اور عشق کو بیدار کرتا رہا ہے۔

اس بات پر جتنا خوش ہوا جائے کم ہے کہ مصنف نے ہمارے اولیائے کرام کے بارے میں کتنی پیاری پیاری اور دلکش معلومات سامنے لائی ہیں۔ بسا اوقات بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسے تمام کی تمام کہانی میری آنکھوں کے سامنے سے حقیقت بن کر گزر رہی ہو۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ آج کل آپ جیسے مصنف عشق کی چاشنی پرکھتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مصنف کا دماغ کتنا زر خیز اور میٹھے مدینے کی اتھاہ سوچوں میں ہے۔

امید ہے کہ آئندہ بھی اچھے ناول پڑھنے کو اور سحر انگیز تحریروں چکھنے کے لیے آپ مجھ پر کرم فرمائیں گے۔

انشاء اللہ

الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ

ایک انتہائی عجیب اور گناہ گار شخص جو کہ ہر بات جانتے ہوئے بھی نہیں جانتا۔

سید وجاہت علی مخدومی ساگر قادری

Swam Sagar


  1. روح کو تسکین ملی ____ محمد عزیر بن عباس

 السلام علیکم! عشق و محبت کے دھاگوں میں لپٹی ایسی ہوش ربا داستان پڑھی کہ ایسا محسوس ہوا کہ ساگر کی جگہ میں خود لیلیٰ کے عشق میں تڑپتا رہا ہوں۔ لیکن یہ صرف چند ساعتوں کے لیے تھا۔ داستانِ عشق کچھ اور آگے بڑھی تو مدینے کے پیارے آقا کا ذکر آیا اور ایسے موڑ پر آیا کہ دل بے قابو ہونے لگا اور احساس ہوا کہ واقعی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف ہم مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے ہیں۔ کچھ من موہنی سی تاریخ پڑھنے کو ملی جو نہایت لذیذ تھی، بالکل ہلکی پھلکی سی جو آسانی سے ہضم ہوگئی۔ تاریخ میں ایک بڑا پہلو بزرگان دین کی کوششوں اور جدجہد پر مبنی تھا۔ جسے پڑھ کر ایسی دلی تاثیر ملی کہ جنہیں الفاظ کی مالا میں پرونا مجھ جیسے کم عقل کے بس کی بات نہیں۔

خیر کہانی نے ہر موڑ پر ایک نیا رنگ دکھایا اور ایس اکہ عقل حیران رہ گئی اور یقین ہو چلا کہ واقعی یہ تین نہیں تیرہ مہینوں کی محنت کا سر چشمہ ہے۔ پہلی بار ایسی کہانی پڑھنے کو ملی جس کا تانہ بانہ عشق پر مبنی تھا۔ اس کہانی کو پڑھنے سے پہلے میری نظر میں ایسی کہانیوں کانقشہ بے حیائی، بے غیرتی اور بے شرمی پر مبنی تھا۔ لیکن اسے پڑھ کر روح کو تسکین ملی کہ کوئی ایسا لکھنے والا بھی موجود ہے۔ جو ان چیزوں سے ہٹ کر سچا عشق پھیلانا چاہ رہا ہے۔ کچھ بھی کہیے ایک ہلکا پھلکا تاریخی اور عشق پر مبنی ناول پڑھا درحقیقت لطف آیا۔

اجازت دیجیے۔

محمد عزیر بن عباس

I am so sorry for making your neat and clean story book dirty. Pardon me if there is any mistake. A stupid student of yours.

M. Uzair bin Abbas



  1. اجازت و التماس

اجازت نامہ

  1. یہ کتاب نوری آستانے کی ملکیت ہے۔ اسے یا اس کے کسی حصے کو (بعینہٖ یا تبدیلی اور خورد برد کر کے) تجارتی یا دیگر کسی بھی مادّی مقاصد و مالی منفعت کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی، اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
  2. اس تحریر کو جو پڑھے اور لوگوں کے لئے کارآمد جان کر نیک نیتی کے ساتھ اسے یا اس کے کسی باب یا حصے کو بنا کسی ذاتی مالی منفعت کے چھپوانا چاہے یا اپنی کسی تحریر میں (Verbatim) پیش کرنا چاہے، یا اس کی وربیٹم نقول (جیسے کمپیوٹر کاپی) تیار کرنا چاہے تو اسے اس کی پوری اجازت ہے۔

التماس

  1. میں نے اپنی تمام تر کوششیں کی ہیں کہ متن میں کہیں کسی قسم کی کوئی کوتاہی اور کمی بیشی نہ ہو اور تحریر ہر قسم کی اغلاط سے پاک ہو۔ لیکن پھر بھی انسان ہونے کے ناطے کوئی بھول چوک ہو سکتی ہے۔ اگر کہیں بھی کوئی املا/حوالہ/متن وغیرہ کی غلطی دیکھیں تو اس سے مؤلف کو ضرور مطلع کریں تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کی جا سکے۔

الفاظِ تہنیت

  1. میری اس تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے آپ کی کوششوں اور آپ کے قیمتی وقت کا بہت شکریہ۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


[1] پہلے تو یہ عمارت واحد اور اکلوتی ہی تھی لیکن یہ اعزاز زیادہ عرصے قائم نہ رہا۔ اب خدا کے فضل و کرم سے ایسے کئی اٹمی پلانٹ پاکستان میں قائم ہو چکے ہیں۔ تاہم دمِ تحریر اس کا اعزاز قائم تھا۔ (سلیم نوری)

[2] اب یہ علاقہ عوام الناس کیلئے ممنوعہ قرار دیا جا چکا ہے۔

[3] دواؤں یا نشے کی طاقت کیلئے آتشہ (ایکس) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ (سلیم نوری)

[4] یہ کوئی جنم ونم کا قصہ نہیں۔ آگ کا دریا میں قرۃ العین نے جنم کے قصے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے ایسی کوئی لعنتی کوشش کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا۔ یہ صرف لفظی جادوگری ہے۔ (سلیم نوری)

[5]۔ ریاست جونا گڑھ اور شہر جونا گڑھ کا یہ تفصیلی تعارف بظاہر تو ناول میں بے جوڑ سا لگتا ہے مگر اس تفصیلی تعارف کی دو وجوہات ہیں۔ الف: امیر دعوتِ اسلامی کے آباؤ اجداد کا تعلق جونا گڑھ سے ہے۔ ب۔ پاکستانی طالب علم صرف کشمیر کی ریاست پر بھارت کا ناجائز قبضہ جانتے ہیں جبکہ جونا گڑھ اور دیگر بہت سی ریاستوں پر بھارت کا جبری قبضہ ہے۔ (سلیم نوری)

[6] آہ! یہ تصور بھی کرتے ہوئے دل کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ____ درگاہِ بل شریف کو ____ شہید کردیا گیا ہے۔ ہندو غنڈوں نے بہت ظلم ڈھایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اب قدیمی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہو چکا ہے۔ ہمیں اور کس بڑے حادثے کا انتظار ہے؟

[7] یہ کافی پرانی بات ہے۔ ورنہ آج کل برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا جو لباس پہنتی ہے اس کی کم از کم مالیت چالیس ہزار امریکی ڈالر ہوتی ہے۔ ۳۱۔۸۔۹۷ کو یہ شہزادی آئفل ٹاور کے قریب کار حادثے میں ہلاک ہوگئی۔ اس نوٹ کا ابتدائی حصہ اس وقت تحریر کیا گیا تھا جب وہ زندہ تھی۔ (سلیم نوری)

[8] ثریا کے ستارے رات کے آسمان کا حسن ہیں۔ یہ نیلے رنگ کے ستارے ہوتے ہیں۔ عام طور پر سات ستاروں کو انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ (سلیم نوری)

[9] آستانہ بھی تحریر برائے تربیت کا قائل ہے۔ لکھنے سے جو راز انسان پر منکشف ہوتے ہیں، وہ کسی اور چیز سے نہیں ہوتے۔ جو نوری اس تربیت کے لئے تیار ہے وہ اپنا نام پیش کر سکتا ہے۔ جب تک لکھا نہیں جاتا، تعویذات میں اثر پیدا نہیں ہوتا۔ بعض تعویذات کو کئی کئی مہینے لکھنا پڑتا ہے۔ (سلیم نوری)

[10] ان میں سے اکثر تبصرے اور کمنٹس پچھلی صدی کے ہیں، یعنی نوے کی دہائی کے۔ (سلیم نوری)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں