تعارف عائشہ بنتِ طلحہ (راویہ)

حضرت عائشہ بنتِ طلحہ

حضرت عائشہ بنت طلحہ کا تعارف اور آپ کی وہ احادیث جنہیں آپ نے سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روایت کیا۔

سید محمد سلیم قادری نوری نقشبندی

Updated on: Jun 15, 2022

آستانۂ نوری کی پیشکش


فہرست

حضرت عائشة (بنت طلحة بن عبيد الله)

تعارف

مرویات (29 احادیث)

چہرے کا پردہ اور عائشہ بنت طلحہ

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

مہر کی رقم اور منہ دکھائی

رمی جمرات کے دوران

عائشی

حضرت عائشہ کے والد گرامی کی عجیب شان

چار افراد چار خواہشیں

احادیثِ مبارکہ

روزے کی احادیث

نفلی روزوں کا بیان

سبق

روزہ اور بوسہ

عورتوں کے جہاد کی احادیث

سبق

معصوم جنتی

سبق

اکرامِ حضرت بی بی فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

سبق

قیامِ تعظیم سنت سے ثابت ہے

سخاوتِ حضرت زینب (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

سبق علمِ غیب کا

سخاوت کا سبق

حضرت اسامہ سے اظہارِ محبت

حلیۃ الاولیاء سے ایک حدیث شریف

عربی احادیثِ مبارکہ

عددی خلاصہ

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا نفلی روزہ

روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ

عورتوں کا جہاد

چھوٹے بچے کی موت

اکرامِ حضرت بی بی فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

متفرق احادیث


حضرت عائشة (بنت طلحة بن عبيد الله)

تعارف

تاریخ میں کئی عظیم ہستیوں کے نام پوشیدہ ہیں۔ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی، بصرہ کی شہزادی، حضرت عائشہ بنتِ طلحہ بھی ہیں۔ آپ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی سگی بھانجی ہیں اور اپنے دور کی حسین ترین شہزادیوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ نے زندگی بھر کسی سے اپنا چہرہ نہیں چھپایا۔

آپ کا دیگر مختصر تعارف یہ ہے:

نام: عائشہ بن طلحہ

کنیت: ام عمران

نسب: التیمیہ، القریشیہ، المدنیہ

والد: طلحہ بن عبید اللہ

والدہ: ام کلثوم بن ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

خالہ: حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

نانا: حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

پہلے شوہر: عبد اللہ بن عبد الرحمان بن ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

دوسرے شوہر: مصعب بن الزبیر (والئ بصرہ)

تیسرے شوہر: عمر بن عبید اللہ

تاریخ وفات: 100 ہجری کے بعد اور بعض روایات کے مطابق 110 ہجری میں

صاحبزادے: طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق

مرویات (29 احادیث)

حضرت عائشہ بنت طلحہ سے سننِ نسائی میں ۸، بخاری شریف، مسلم شریف اور ابو داؤد شریف کی تینوں کتابوں میں پانچ پانچ، ترمذی شریف میں ۴، جبکہ موطا امام مالک اور مسند ابو داؤد شریف میں ایک ایک حدیث منقول ہے۔ یہ کل ۲۹؍ احادیثِ مبارکہ بنتی ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ عائشہ بنتِ طلحہ نے صرف اور صرف حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے احادیث روایت کی ہیں، کسی اور صحابی یا صحابیہ سے روایت نہیں کیں۔ اسی لئے آپ سے مروی احادیث میں کلمات کی یہ ترکیب لازمی دکھائی دیتی ہے کہ «عَنْ ‌‌عَائِشَةَ (بِنْتِ طَلْحَةَ) عَنْ ‌عَائِشَةَ» یعنی روایت کی عائشہ نے حضرت عائشہ ؓ سے۔

وکی پیڈیا سے اقتباس

آپ کی ہستی کے بارے میں وکی پیڈیا کی یہ معلومات آپ کیلئے یقیناً کارآمد ہوں گی۔

A'isha bint Talhah (Arabic: عائشة بنت طلحة) was, according to a Sunni source, the daughter of the prominent Muslim general Talha ibn Ubayd-Allah and Umm Kulthum bint Abi Bakr. Umm Kulthum was the daughter of the first Rashidun Caliph, Abu Bakr.1

Her first husband was her cousin Abdullah, son of Abdul-Rahman ibn Abi Bakr. She then married Mus'ab ibn al-Zubayr, governor of Basra, who was killed. Her third husband was Umar ibn Ubaydullah al-Taymi.2

The following words are attributed to her about veil, widely recognized dress code for women in Islam.

"Since the Almighty hath put on me the stamp of beauty, it is my wish that the public should view the beauty and thereby recognized His grace unto them. On no account, therefore, will I veil myself."3

دیگر

انٹرنیٹ اردو سائٹ "ریختہ" پر آپ کی شخصیت سے منصوب ایک کتاب موجود ہے جس کا لنک یہ ہے۔

عائشہ بنت طلحہ | ریختہ (rekhta.org)

اسی طرح "متیم جمال" کی کتاب "أميرات منسّيات یا بھلائی گئی شہزادیاں" یا "فارگوٹین پرنسسز" بھی اس موضوع پر موجود ہے جسے آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں:

LAU | Events | Launch of novel "Forgotten Princesses"

چہرے کا پردہ اور عائشہ بنت طلحہ

اصفہانی بیان کرتے ہیں کہ عائشہ بنت طلحہ اپنا چہرہ کسی سے نہیں چھپاتی تھیں تو ان کے شوہر مصعب ابن الزبیر نے انہیں اس بات پر ڈانٹا تو آپ نے کہا: خدائے بزرگ و برتر اس نے مجھے ایک خوبصورت نشانی قرار دیا ہے مجھے پسند ہے کہ لوگ اسے دیکھیں اور ان پر میری فضیلت جانیں، اس لیے میں نے اسے چھپایا نہیں۔ خدا کی قسم مجھ پر کوئی ایسا داغ نہیں جو کوئی مجھے یاد دلائے۔''

"Since the Almighty hath put on me the stamp of beauty, it is my wish that the public should view the beauty and thereby recognized His grace unto them. On no account, therefore, will I veil myself."3

چونکہ اللہ (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) نے مجھ پر خوبصورتی کی مہر کر رکھی ہے تو یہ میری خواہش ہے کہ عوام الناس مجھے دیکھیں اور میری فضیلت جانیں۔ میں ہرگز اپنا چہرہ نہ چھپاؤں گی۔

مندرجہ ذیل الفاظ آپ کے حجاب کے بارے میں منسوب کیے جاتے ہیں۔ جو اسلام میں عورتوں کے لیے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ "اللہ تعالی نے مجھے حسن و جمال عطا کیا ہے، میں چاہتی ہوں کہ لوگ میرے حسن و جمال کو دیکھیں اور میرے رتبے کو پہچانیں، اس وجہ سے میں تو اپنا چہرا نہیں چھپاؤں گی۔"

[أخبرني الحسن بن يحيى قال قال حماد قال أبي قال مصعب : كانت عائشة بنت طلحة لا تستر وجهها من أحد. فعاتبها مصعب في ذلك فقالت: إن الله تبارك وتعالى وسمني بميسم جمال أحببت أن يراه الناس ويعرفوا فضلي عليهم، فما كنت لأستره۔]

 ابو الفراج الاسبہانی (متوفی 356 ہجری) کی کتاب الاغانی ہے۔

ابو الفراج الاصبہانی (اصفہانی جس نے آپ کے چہرے سے پردے کی بابت قول اپنی کتاب "الاغانی" [1]میں نقل کیا ہے) کو علماء نے قابل قبول قرار دیا ہے جبکہ بعض علماء نے اسے اپنی تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

ایک بار صحابئ رسول حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی نظر عائشہ بنتِ طلحہ پر پڑی جب کہ وہ اپنے شوہر سے ناراض، چادر اوڑھ حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے پاس (چار مہینے کیلئے) حاضر ہوئی تھیں تو بے ساختہ آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی زبانِ مبارک سے نکلا کہ "سبحان اللہ! معلوم ہوتا ہے کہ جنت سے کوئی حور اتر آئی ہے۔" اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ سوائے منبرِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے چہرے سے عائشہ بنتِ طلحہ کا چہرہ سب سے حسین ہے۔[2]

مہر کی رقم اور منہ دکھائی

جب آپ کا نکاح حضرت عبد اللہ بن زبیر کے بھائی یعنی مصعب بن زبیر (والئ بصرہ) سے ہوا تو شہزادی عائشہ کا مہر پانچ لاکھ درہم رکھا گیا اور پھر رُو نمائی (یعنی منہ دکھائی) میں بھی انہوں نے پانچ لاکھ درہم آپ کو پیش کئے۔

ایک بار جب آپ کے شوہر نے سونے چاندی کے کثیر زیورات آپ کو پیش کرنے کیلئے آپ کی نیند سے جگایا تو آپ نے زیورات کو ٹھوکر مار کر کہ "تم نے اب (بے قیمت) چیزوں کیلئے میری نیند خراب کی ہے؟ واپس لے جاؤ انہیں اور کسی ضرورت مند کو دے دو"

رمی جمرات کے دوران

عرب کا ایک مشہور قریشی شاعر الحارث بن خالد بن العاص بن هشام المخزومي ضرت عائشہ بنت طلحہ کیلئے دل میں شدید محبت کا گوشہ رکھتا تھا اور آپ کے ساتھ ہی پلا بڑھا تھا۔ ۔ ایک بار حج کے دوران اس کی نظر اتفاق سے حضرت عائشہ بنت طلحہ کے چہرے پر پڑی تو وہ رمی کرنا اور گنتی بھول گیا اور بے ساختہ اس کی زبان سے یہ شعر نکلا

فوالله ما أدري وإن كنتُ دارِياً

بسبعٍ رَمَيْنَ الجمر أمْ بِثَمانِ

یعنی اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ میں گھر (اپنی جگہ) میں ہوں یا نہیں، اور یہ کہ میں نے سات کنکریاں ماری ہیں یا آٹھ کنکریاں مار چکا ہوں (تیرے حسن نے مجھے سب بھلا دیا ہے۔)

عائشی

ابن حجر (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں کہ ثقہ اور سخی راوئ حدیث جناب حضرت عبيد اللَّه بن محمد بن عائشة کو آپ کی ذریت ہونے کی وجہ سے ابنِ عائشہ یا عائشی یا عیشی کہا جاتا ہے۔

آپ عہد تابعین کی بڑی شریف النسب، زندہ دل ، پارسا اور صاحب جمال خاتون تھیں، ان کا پہلا شرف یہ تھا کہ وہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی صاحبزادی تھیں جن کا عشرہ مبشرہ میں شمار ہے، دوسرا شرف یہ ہے کہ ان کی والدہ محترمہ ام کلثوم حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی تھی جن کے وسیلے سے وہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی نواسی تھیں، تیسرا فخر ان کا یہ ہے کہ وہ حضرات حسنین علیہما السلام کی سالی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ عبد اللہ بن زبیر کے بھائی حضرت معصب بن زبیر کی زوجہ تھی جو کسی زمانے میں کوفہ کے گورنر تھے ۔

حضرت عائشہ کے والد گرامی کی عجیب شان

حضرتِ عائشہ کے والد حضرت طلحہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بھی خوب شان ہے۔

آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) عشرہ مبشرہ میں جلیل القدر صحابی رسول ہیں، اور سسرالی رشتہ میں چار نسبتوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےخاص تعلق کے حامل منفرد اور یکتا صحابی ہیں۔

حضرت نے چار شادیاں کیں اور ہر زوجۂ محترمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطھرات میں سے کسی نہ کسی زوجۂ محترمہ کی بہن ہیں۔

چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:

حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے چار شادیاں کیں جسکی ترتیب یہ ہے:

پہلی زوجہ حضرت ام کلثوم بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن۔۔۔۔

دوسری زوجہ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا جو ام المومین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن۔۔۔۔

تیسری زوجہ حضرت فارعہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما جو ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی بہن۔۔۔۔

اور چوتھی زوجہ حضرت رقیہ بنت ہند رضی اللہ عنہا جو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں۔۔۔۔۔ رضی اللہ عنہم وعن جمیع الصحابۃ اجمعین

چار افراد چار خواہشیں

حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن ابی زناد (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا مصعب بن زبیر، حضرتِ سیِّدُنا عروه بن زبیر، حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن زبیر اور حضرتِ سیِّدُناعبداللّٰہ بن عمر (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) حجر اسود کے پاس جمع ہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے اپنی اپنی خواہش کا اظہار کرو۔

حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کہا: ''میری خواہش ہے کہ مجھے خلافت ملے۔''

حضرتِ سیِّدُنا عروہ بن زبیر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا : ''میں چاہتا ہوں کہ مجھ سے علم حاصل کیا جائے۔''

حضرتِ سیِّدُنا مصعب بن زبیر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا: ''میری تمنا ہے کہ عراق کی خوبصورت عورت اور قریش کی دو عورتیں عائشہ بنت طلحہ اور سکینہ بنت حسین میرے عقد میں آجائیں۔''

حضرت سیِّدُناعبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: ''میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میری مغفرت فرما دے۔''

راوی بیان کرتے ہیں کہ ''ان میں سے ہر ایک کی تمنا پوری ہوئی اور امید ہے کہ حضرت سیِّدُنا عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی تمنا بھی پوری ہوگئی ہوگی(یعنی ان کی بخشش ہو گئی ہوگی)۔''

آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جس خاتون سے نکاح کی آرزو حجر اسود کے سامنے کی جائے وہ کس قدر حسن و جمال والی ہوں گی۔

احادیثِ مبارکہ

حضرت عائشہ بنت طلحہ کی حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے جو 29؍ روایات ہیں ان کا عددی خلاصہ یہ ہے کہ

  1. نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے نفلی روزے کے بارے میں 11 احادیث
  2. عورتوں کے جہاد کے بارے میں 6؍ احادیث
  3. کمسن بچے کی موت کے بارے میں 5؍ احادیث
  4. حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے اکرام کے بارے میں ؍2 احادیث
  5. حضرت زینب (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی سخاوت کے بارے میں ایک حدیث شریف
  6. مہندی کے ساتھ غسل کے بارے میں ایک حدیث شریف
  7. احرام کی حالت میں خوشبو کے استعمال پر ایک حدیث شرید
  8. رمئ جمرات کے بارے میں ایک حدیث شریف
  9. حضرت اسامہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی محبت کے بارے میں ایک حدیث شریف

روزے کی احادیث

حضرت عائشہ بنتِ طلحہ نے حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روزے کے متعلق جو گیارہ احادیث روایت کی ہیں ان میں سے دس حدیثوں کا تعلق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے نفلی روزہ رکھنے سے ہے اور ایک حدیث میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینے کے جائز ہونے کا بیان ہے۔

نفلی روزوں کا بیان

عائشہ بنت طلحۃ نے ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے حدیث سنائی، کہا: ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے مجھ سے فرمایا: "اے عائشہ !کیا تمھارے پاس(کھانے کی) کوئی چیز ہے؟" تو میں نے عرض کی! اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ! ہمارے پاس کوئی چیز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تو (پھر) میں روزے سے ہوں۔"

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو ہمارے پاس ہدیہ بھیجا گیا یا ہمارے پاس ملاقاتی (جو اپنے ساتھ ہدیہ لائے تھے) آگئے۔ کہا: جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) واپس تشریف لائے، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہمیں ہدیہ دیا گیا ہے۔ یا ہمارے پاس مہمان آئے۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ محفوظ کرکے رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"وہ کیا ہے؟" میں نے عرض کی: وہ حیس (کھجور، گھی اور پنیر سے بنا ہوا کھانا) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے لایئے" تو میں اسے لے آئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے اسے کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے ر وزے کی حالت میں صبح کی تھی۔"

طلحہ نے کہا:میں نے یہ حدیث مجاہد کو سنائی تو انھوں نے کہا: یہ (نفلی روزہ) اس آدمی کی طرح ہے جو ا پنے مال سے صدقہ نکالتا ہے، اگر وہ چاہے تو دے دے اور اگر وہ چاہے تو اس کو روک لے۔

سبق

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے، یعنی مہینے میں آٹھ دن تو یہ ہو ہی جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایامِ بیض (ہر مہینے چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ ) کے روزے۔ اور رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) شعبان کے مہینے میں رکھا کرتے تھے۔

حضرت عائشہ بنت طلحہ کی احادیث سے کچھ سیکھنا چاہتے/چاہتی ہیں تو کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھا کریں۔ روزے میں تقویٰ بھی ہے اور صحت بھی۔ اور یہ کثیر نیکیوں کو اپنے ساتھ لاتا ہے۔ یاد رکھو کہ بھوک (روزہ) دنیا کے تمام مذاہب میں پسندیدہ ہے۔ تو سیکھو ناں حضرت عائشہ سے اور آج سے ہی کثرت سے روزہ رکھنا شروع کردو۔

روزہ اور بوسہ

اور روزے کی حالت میں بوسے سے متعلق یہ حدیث شریف ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں سیدہ عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے پاس ہی موجود تھی جب میرے شوہر (حضرت ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پوتے) داخل ہوئے۔ ان سے حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے کہا کہ تمہیں کس چیز نے اس بات سے روکا ہے کہ تم اپنی بیوی کے پاس جا کر اس (عائشہ بنت طلحہ) کا بوسہ لو؟ انہوں نے عرض کیا کہ کیا میں روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لوں (وہ اس وقت صائم تھے)؟ آپ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے فرمایا کہ ہاں۔

سبحان اللہ! کس قدر شاندار روایت ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی اعلیٰ درجے کی دینی فقاہت اور حضرت عائشہ بنت طلحہ کی شرم و حیا کے بیان پر مشتمل ہے۔

عورتوں کے جہاد کی احادیث

حضرت عائشہ بنت طلحہ نے بی بی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے جو روایات کی ہیں ان میں سے چھے روایات عورتوں کے جہاد میں شمولیت پر مشتمل ہیں۔

بخاری شریف میں جو پانچ احادیث آپ سے مروی ہیں وہ سب جہاد کے بارے میں ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ بی بی عائشہ صدیقہؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد سب سے افضل عمل ہے۔ تو کیا ہم (خواتین) آپ ﷺ کے ہمراہ غزوات اور جہاد میں شرکت کیا کریں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں۔ تمہارا (عورتوں کا) جہاد حج ہے، حج مبرور۔

آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے جہاد کے بارے میں مروی ایک حدیث شریف سننِ نسائی کی بھی ہے۔

سبق

جہاد کو اسلام کا چھٹا رکن سمجھا جاتا ہے۔ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت مسلمان کی میراث ہے۔ ہر نماز کے بعد دعا مانگی جاتی ہے کہ یا اللہ! مجھے اپنے رستے میں شہادت عطا فرما۔

جہاد میں عظمت و رفعت ہے۔ جہاد کثیر نیکیوں کا سبب ہے۔ مسلمان مرد تو مسلمان مرد ہیں، مسلمان خواتین کے دل میں بھی جذبۂ جہاد موجزن رہتا ہے۔ اسی لئے بی بی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے جہاد کی اجازت چاہی۔

اس سے وہ خواتین ضرور سبق لیں جنہیں زندگی میں ذرا سی کوئی تکلیف آجائے تو گھبرا کر رونا شروع کردیتی ہیں اور ہمت ہار بیٹھتی ہیں۔ خواتین سے بھی کہتا ہوں کہ مرد بنو، حوصلہ جوان رکھو۔ کیسا ہی معاملہ کیوں نہ درپیش ہو، ہمیشہ اللہ پر بھروسہ رکھو اور حج بیت اللہ کی آرزو ضرور رکھو کہ یہی خواتین کا جہاد ہے۔

معصوم جنتی

حضرت عائشہ نے بی بی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے ایک کمسن بچے کی موت کے بارے میں بھی پانچ احادیث مروی ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ

روایت ہے حضرت عائشہ بنت طلحہ سے، وہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک انصاری بچہ کے جنازے کی دعوت دی گئی میں نے عرض کیا اسے خوش خبری ہو کہ وہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے جس نے نہ تو گناہ کیا نہ گناہ کا وقت پایا، فرمایا: اے عائشہ اس کے سوا بھی ہوسکتا ہے۔ اللہ (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) نے کچھ جنت والے پیدا کیئے ہیں جنہیں ان کے باپ کی پیٹھوں میں جنت کے لیئے بنایاکچھ آگ والے پیدا کیئے جنہیں ان کے باپ کی پیٹھوں میں دوزخ کے لیئے بنایا (مسلم)

سبق

جو جنت میں پہنچ جائے، اس پر رشک آنا ہی چاہیئے۔ اسی لئے جب ایک انصاری بچے کے جنازے سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) واپس تشریف لائے تو تو بی بی عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے اس بچے کی خوش نصیبی پر رشک کیا کہ اس معصوم نے زندگی میں نہ تو کوئی گناہ کیا، نہ اس کا وقت پایا اور نہ اسے گناہ کی سمجھ تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے۔ جنت اللہ کا فضل ہے۔ جب اللہ نے جنت کو پیدا فرمایا تو اس کے ساتھ جنت والوں کو بھی پیدا فرمایا، اور وہ اب تک اپنے باپوں کی صلب میں ہی ہیں۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے جہنم کے بارے میں بھی فرمایا۔

جو سعید اور مبارک ہے وہ اپنی ماں کے شکم میں (بلکہ اپنے باپ کی صلب میں) ہی مبارک ہے۔

اپنے انجام کے بارے میں ہمیشہ لرزتے رہیں اور اللہ پاک سے عافیت کی دعا کرتے رہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کس طرف ہیں۔ اس لئے اللہ کے حضور عاجزی سے گڑگراتے رہیں اور اس سے جنت کے طلبگار ہوں۔


اکرامِ حضرت بی بی فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

حضرت عائشہ بنتِ طلحہ نے حضرت بی بی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے دو احادیث اس باب میں بھی روایت کی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنے جگر کے ٹکڑے یعنی خاتونِ جنت حضرت سیدہ بی بی فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کا کس طرح پر تپاک استقبال اور کیسا شاندار اکرام فرماتے تھے۔

حضرت عائشہ بی بی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روایت کرتی ہیں کہ حضرت سيدتنا فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی خدمتِ اقدس ميں حاضر ہوتيں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کھڑے ہو جاتے، ان کی طرف متوجہ ہو جاتے، پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں لے ليتے، اسے بوسہ ديتے پھر ان کو اپنے بيٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے ۔ اسی طرح جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے ہاں تشريف لے جاتے تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو ديکھ کر کھڑی ہو جاتيں، آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں لے ليتيں پھر اس کو چُومتیں اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو اپنی جگہ پر بٹھاتيں۔''

(سنن ابی داؤد، کتاب الادب ،باب ماجاء فی القیام، الحدیث ۵۲۱۷، ج۴، ص۴۵۴)

سبق

اس حدیث شریف سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے آمدِ فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) پر تین اعمال ثابت ہوتے ہیں:

  1. خاتونِ جنت کیلئے آپ ﷺ کا قیام فرمانا،
  2. ان کی طرف متوجہ ہونا
  3. ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں لے لینا
  4. اسے (ہاتھ کو) بوسہ دينا
  5. پھر ان کو اپنے بيٹھنے کی جگہ پر بٹھانا۔

اور یہی پانچ باتیں حضرت خاتونِ جنت حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) آمدِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر فرماتیں۔

قیامِ تعظیم سنت سے ثابت ہے

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کیلئے حضرت فاطمہ اور حضرت خاتونِ جنت کیلئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) قیام فرماتے تھے۔ یہ قیامِ تعظیمی کہلاتا ہے۔

حضرت عائشہ بنتِ طلحہ کی حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روایت کردہ اس حدیث شریف ہی کو ٹھیک سے سمجھ لیں تو قیامِ تعظیمی کی بات دل میں اتر جائے گی۔ ان لوگوں پر افسوس جو قیامِ تعظیمی اور دست بوسی کو بدعت بلکہ بعض اوقات تو شرک تک کہہ بیٹھتے ہیں۔ اللہ پاک سمجھ عطا کرے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور تمام دینی ہستیوں کے لئے ہمیں قیامِ تعظیم کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دینی لطائف کی لطیف ترین سمجھ عطا فرمائے۔ ؎

نورِ عَینِ لَطافَت پہ اَلْطَف درود

زیب و زَینِ نَظافَت پہ لاکھوں سلام

سخاوتِ حضرت زینب (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

  1. حدیث

101 - (2452) حَدَّثَنَا ‌مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا ‌الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى السِّينَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ‌طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا. قَالَتْ: فَكُنَّ يَتَطَاوَلْنَ أَيَّتُهُنَّ أَطْوَلُ يَدًا. قَالَتْ: فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يَدًا زَيْنَبُ؛ لِأَنَّهَا كَانَتْ تَعْمَلُ بِيَدِهَا وَتَصَدَّقُ ».

[«صحيح مسلم» (7/ 144 ط التركية)]

حضرت عائشہ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روایت فرماتی ہیں کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم میں سے پہلےمجھے وہ ملے گی جو لمبے ہاتھ والی ہو۔ فرماتی ہیں کہ ازواج پاک جھگڑتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ فرماتی ہیں ہم سب میں لمبے ہاتھ والی زینب ہی ہیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرتی تھیں اور خیرات کرتی تھیں۔

واقعہ اس کا یہ ہے کہ بعض بیویوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ وفات کے بعد ہم سب میں پہلے آپ سے کون ملے گی؟ فرمایا تم میں لمبے ہاتھ والی؛ انہوں نے بانس لے کر ہاتھ ناپنے شروع کردیئے تو حضرت سودہ دراز ہاتھ نکلیں، بعد میں معلوم ہوا کہ درازیٔ ہاتھ سے مراد صدقہ خیرات تھی ہم سب میں پہلے حضور کے پاس زینب سدھاریں اور وہ سرکار خیرات بہت پسند کرتی تھیں۔

سبق علمِ غیب کا

سبحان اللہ! حدیث کیا ہے گویا کہ علمِ دین کا زبردست خزانہ ہے۔ ازواجِ مطہرات کا عقیدہ تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو ان تمام باتوں کا علم ہے۔ اسی لئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے براہِ راست دریافت کیا جا رہا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بھی جواب میں تمام تر اشارات دے رہے ہیں جسے انہوں نے بعد میں جان لیا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی غیب کی خبر ہو بہو پوری ہوتی ہے۔ اگر اب بھی کوئی اپنے اسی فرسودہ عقیدے سے چمٹا رہے کہ "محمد (مَعَاذَ اللَّهِ) غیب کیا جانیں" تو وہ خود اس کا جواب دہ ہوگا۔ ہمارا تو وہی عقیدہ ہے جو علامہ بوصیری (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کا تھا

فَإِنَّ مِنْ جُودِكَ الدُّنْيَا وَضَرَّتَهَا

وَمِنْ عُلُومِكَ عِلْمُ اللَّوْحِ وَالقَلَمِ

اے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) لوح و قلم کا سارا علم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے جملہ علوم کا صرف ایک قطرہ ہے۔

اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں

اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا

جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروروں درود

سخاوت کا سبق

یہ بھی یاد رکھیں کہ نبی مکرم نورِ مجسم اور اللہ کی بارگاہ میں ہمارے وسیلۂ اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اپنی ذات میں بہت سخاوت تھی۔

اتنا دیتے ہیں بھر دیتے ہیں جھولیاں

ان کے جود و سخٓاوت پہ لاکھوں سلام

حضرت عائشہ کی حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روایت کردہ اس حدیث شریف میں یہی ذکر تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی ازواج میں جو سب سے زیادہ سخاوت کرے گی وہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے سب سے پہلے ملاقات کرے گی۔

حضرتِ عائشہ سے سیکھو بھی، اور پھر بھی رہو کنجوس؛ ایسا کس طرح ممکن ہے؟ جس سے جتنا ممکن ہو، سخاوت کرے۔ اور نہ صرف یہ کہ لوگوں کو خود کھانا کھلائیں بلکہ اوروں کو بھی اس سخاوت کی ترغیب دیں۔

حضرت اسامہ سے اظہارِ محبت

3818 - عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: «أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَحِّيَ مُخَاطَ أُسَامَةَ»، قَالَتْ عَائِشَةُ: دَعْنِي حَتَّى أَنَا الَّذِي أَفْعَلُ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ أَحِبِّيهِ فَإِنِّي أُحِبُّهُ.

[«سنن الترمذي» (6/ 145 ت بشار)]

حضرت عائشہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے اسامہ کی ناک صاف کرنے کا ارادہ کیا تو جناب عائشہ نے عرض کیا مجھے اجازت دیجئے کہ یہ کام میں کروں فرمایا اے عائشہ ان سے محبت کرو کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں (ترمذی)

حضرت اسامہ ابن زید بچے تھے حضور کی گود میں تھے کہ ناک آگئی حضور انور نے اپنے دستِ اقدس سے ناک صاف کرنا چاہی جیسے عمومًا گود کے بچوں کے لیے کیا جاتا ہے۔

حضور کی محبت رکن ایمانی ہے اور محبت رسول الله (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی علامت یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)  کے ہر محبوب سے محبت ہو حتی کہ مدینہ منورہ کی گلی کوچوں سے دوستی کرے، گوشت سے، چھوٹے کدو سے محبت کرے۔ شعر ؎

ومن مذھبی حب الدیار لا ھلھا

وللناس فیما یعشقون مذاھب

باقی احادیث کا تعلق چونکہ احرام کی حالت میں خوشبو وغیرہ لگانے، رمی جمرات کرنے اور مہندی کے ساتھ غسل کا تذکرہ ہے جو خالصتاً فقہ سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کی تفصیل کیلئے علماء سے رجوع کریں۔

حلیۃ الاولیاء سے ایک حدیث شریف

صحاح ستہ کے علاوہ حضرت عائشہ کی حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روایت کردہ ایک اور حدیث شریف بھی مجھے ملی ہے۔

کتاب "حلیۃ الاولیاء" میں ہے کہ حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ بنت طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے حدیث بیان کی کہ ام المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے ایک سانپ مارا تو انہوں نے خواب دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے: ''بخدا! آپ نے ایک مسلمان (سانپ یعنی جنّ) کو قتل کیا ہے۔''

آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے فرمایا: ''اگر وہ سانپ مسلمان ہوتا تو حضور نبی ٔپاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواج کے پاس نہ آتا۔''

کہا گیا کہ وہ آپ کے پاس اس وقت آیا جب آپ پردہ نشین تھیں۔ چنانچہ، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا صبح جب بیدار ہوئیں تو گھبرائی ہوئی تھیں، لہٰذا آپ نے 12؍ ہزار درہم راہِ خدا میں خیرات کرنے کا حکم دیا۔


عَنْ ‌‌عَائِشَةَ عَنْ ‌‌عَائِشَةَ

حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی وہ احادیث جنہیں آپ کی بھانجی حضرت عائشہ بنت طلحہ نے آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کیا

سید محمد سلیم قادری نوری نقشبندی

Updated on: Jun 15, 2022

آستانۂ نوری کی پیشکش


عربی احادیثِ مبارکہ

عددی خلاصہ

حضرت عائشہ بنت طلحہ کی حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے جو 29؍ روایات ہیں ان کا عددی خلاصہ یہ ہے کہ

  1. نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے نفلی روزے کے بارے میں 11 احادیث
  2. عورتوں کے جہاد کے بارے میں 6 احادیث
  3. کمسن بچے کی موت کے بارے میں 5 احادیث
  4. حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے اکرام کے بارے میں 2 احادیث
  5. حضرت زینب (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی سخاوت کے بارے میں ایک حدیث شریف
  6. مہندی کے ساتھ غسل کے بارے میں ایک حدیث شریف
  7. احرام کی حالت میں خوشبو کے استعمال پر ایک حدیث شرید
  8. رمئ جمرات کے بارے میں ایک حدیث شریف
  9. حضرت اسامہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی محبت کے بارے میں ایک حدیث شریف

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا نفلی روزہ

  1. حدیث

2327 - أَخْبَرَنَا ‌إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ‌وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا ‌طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: «دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟ قُلْنَا: لَا، قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ».

[«سنن النسائي» (4/ 195)]
  1. حدیث

169 - (1154) وَحَدَّثَنَا ‌أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ، حَدَّثَنَا ‌عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا ‌طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللهِ حَدَّثَتْنِي ‌‌عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: « قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: يَا عَائِشَةُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟ قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ، قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَتْ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، أَوْ جَاءَنَا زَوْرٌ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، أَوْ جَاءَنَا زَوْرٌ، وَقَدْ خَبَأْتُ لَكَ شَيْئًا، قَالَ: مَا هُوَ؟ قُلْتُ: حَيْسٌ، قَالَ: هَاتِيهِ، فَجِئْتُ بِهِ فَأَكَلَ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ كُنْتُ أَصْبَحْتُ صَائِمًا» قَالَ ‌طَلْحَةُ : فَحَدَّثْتُ مُجَاهِدًا بِهَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: ذَاكَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يُخْرِجُ الصَّدَقَةَ مِنْ مَالِهِ، فَإِنْ شَاءَ أَمْضَاهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا.

[«صحيح مسلم» (3/ 159 ط التركية)]
  1. حدیث

2330 - أَخْبَرَنِي ‌صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنَا ‌أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ‌إِسْرَائِيلُ، عَنْ ‌سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي ‌رَجُلٌ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: «جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ طَعَامٍ؟ قُلْتُ: لَا. قَالَ: إِذًا أَصُومُ. قَالَتْ: وَدَخَلَ عَلَيَّ مَرَّةً أُخْرَى فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ! فَقَالَ: إِذًا أُفْطِرُ الْيَوْمَ وَقَدْ فَرَضْتُ الصَّوْمَ».

[«سنن النسائي» (4/ 195)]
  1. حدیث

170 - (1154) وَحَدَّثَنَا ‌أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ‌وَكِيعٌ، عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ:

« دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟ فَقُلْنَا: لَا، قَالَ: فَإِنِّي إِذَنْ صَائِمٌ ثُمَّ أَتَانَا يَوْمًا آخَرَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ فَقَالَ: أَرِينِيهِ، فَلَقَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا، فَأَكَلَ ».

[«صحيح مسلم» (3/ 159 ط التركية)]
  1. حدیث

2455 - حَدَّثَنَا ‌مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَنَا ‌سُفْيَانُ. (ح) وَنَا ‌عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، نَا ‌وَكِيعٌ جَمِيعًا عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ قَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ طَعَامٌ؟ فَإِذَا قُلْنَا: لَا قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ» زَادَ وَكِيعٌ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا يَوْمًا آخَرَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ، فَحَبَسْنَاهُ لَكَ، فَقَالَ: أَدْنِيهِ فَأَصْبَحَ صَائِمًا وَأَفْطَرَ.

[«سنن أبي داود» (2/ 305 ط مع عون المعبود)]
  1. حدیث

733 - حَدَّثَنَا ‌هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌وَكِيعٌ، عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: «دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ».

[«سنن الترمذي» (2/ 103 ت بشار)]
  1. حدیث

734 - حَدَّثَنَا ‌مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ ‌سُفْيَانَ، عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي فَيَقُولُ: أَعِنْدَكِ غَدَاءٌ؟ فَأَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: إِنِّي صَائِمٌ قَالَتْ: فَأَتَانِي يَوْمًا فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ قَدْ أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، قَالَ: وَمَا هِيَ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: حَيْسٌ، قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا،» قَالَتْ: ثُمَّ أَكَلَ.

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

[«سنن الترمذي» (2/ 103 ت بشار)]
  1. حدیث

2325 - أَخْبَرَنَا ‌أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ‌قَاسِمٌ قَالَ: حَدَّثَنَا ‌سُفْيَانُ، عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: «أَتَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقُلْنَا: أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ قَدْ جَعَلْنَا لَكَ مِنْهُ نَصِيبًا! فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، فَأَفْطَرَ».

[«سنن النسائي» (4/ 194)]
  1. حدیث

2326 - أَخْبَرَنَا ‌عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا ‌يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا ‌طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَتْنِي ‌‌عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهَا وَهُوَ صَائِمٌ، فَقَالَ: أَصْبَحَ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ تُطْعِمِينِيهِ؟ فَنَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ جَاءَهَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ! فَقَالَ: مَا هِيَ؟ قَالَتْ: حَيْسٌ! قَالَ: قَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا، فَأَكَلَ».

[«سنن النسائي» (4/ 194)]
  1. حدیث

2328 - أَخْبَرَنِي ‌أَبُو بَكْرِ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا ‌نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: أَخْبَرَنِي ‌أَبِي، عَنِ ‌الْقَاسِمِ بْنِ مَعْنٍ، عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ ‌وَمُجَاهِدٍ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهَا فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ طَعَامٌ؟ فَقُلْتُ: لَا. قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ جَاءَ يَوْمًا آخَرَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا قَدْ أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ! فَدَعَا بِهِ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا، فَأَكَلَ».

[«سنن النسائي» (4/ 195)]

روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ

  1. حدیث

«1023 - ‌مَالِكٌ، عَنْ ‌أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ ؛ أَنَّ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتَ طَلْحَةَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ ‌‌عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ. فَدَخَلَ عَلَيْهَا زَوْجُهَا هُنَالِكَ. وَهُوَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ. وَهُوَ صَائِمٌ. فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَدْنُوَ مِنْ أَهْلِكَ، فَتُقَبِّلَهَا؟ فَقَالَ: أَأُقَبِّلُهَا وَأَنَا صَائِمٌ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ».

[«موطأ مالك - رواية يحيى» (3/ 417 ت الأعظمي)]

عورتوں کا جہاد

  1. حدیث

1520 - حَدَّثَنَا ‌عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ: حَدَّثَنَا ‌خَالِدٌ: أَخْبَرَنَا ‌حَبِيبُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: «يَا رَسُولَ اللهِ، نَرَى الْجِهَادَ أَفْضَلَ الْعَمَلِ، أَفَلَا نُجَاهِدُ؟ قَالَ: لَا، لَكِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ».

[«صحيح البخاري» (2/ 133 ط السلطانية)]
  1. حدیث

1861 - حَدَّثَنَا ‌مُسَدَّدٌ : حَدَّثَنَا ‌عَبْدُ الْوَاحِدِ: حَدَّثَنَا ‌حَبِيبُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ قَالَ حَدَّثَتْنَا ‌‌عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: «قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا نَغْزُوا وَنُجَاهِدُ مَعَكُمْ؟ فَقَالَ: لَكِنَّ أَحْسَنَ الْجِهَادِ وَأَجْمَلَهُ الْحَجُّ، حَجٌّ مَبْرُورٌ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَا أَدَعُ الْحَجَّ بَعْدَ إِذْ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.».

[«صحيح البخاري» (3/ 19 ط السلطانية)]
  1. حدیث

2784 - حَدَّثَنَا ‌مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا ‌خَالِدٌ: حَدَّثَنَا ‌حَبِيبُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ ‌‌عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: «يَا رَسُولَ اللهِ تَرَى الْجِهَادَ أَفْضَلَ الْعَمَلِ أَفَلَا نُجَاهِدُ؟ قَالَ: لَكِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ.».

[«صحيح البخاري» (4/ 15 ط السلطانية)]
  1. حدیث

2875 - حَدَّثَنَا ‌مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ: أَخْبَرَنَا ‌سُفْيَانُ عَنْ ‌مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتِ: «اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجِهَادِ فَقَالَ: جِهَادُكُنَّ الْحَجُّ».

[«صحيح البخاري» (4/ 32 ط السلطانية)]
  1. حدیث

2876 - حَدَّثَنَا ‌قَبِيصَةُ: حَدَّثَنَا ‌سُفْيَانُ عَنْ ‌مُعَاوِيَةَ بِهَذَا. وَعَنْ ‌حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَلَهُ نِسَاؤُهُ عَنِ الْجِهَادِ فَقَالَ: نِعْمَ الْجِهَادُ الْحَجُّ.».

[«صحيح البخاري» (4/ 32 ط السلطانية)]
  1. حدیث

2628 - أَخْبَرَنَا ‌إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ‌جَرِيرٌ، عَنْ ‌حَبِيبٍ - وَهُوَ ابْنُ أَبِي عَمْرَةَ -، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ قَالَتْ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ ‌‌عَائِشَةُ قَالَتْ: «قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا نَخْرُجُ فَنُجَاهِدَ مَعَكَ، فَإِنِّي لَا أَرَى عَمَلًا فِي الْقُرْآنِ أَفْضَلَ مِنَ الْجِهَادِ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّ أَحْسَنَ الْجِهَادِ وَأَجْمَلَهُ حَجُّ الْبَيْتِ؛ حَجٌّ مَبْرُورٌ».

[«سنن النسائي» (5/ 114)]

چھوٹے بچے کی موت

  1. حدیث

30 - (2662) حَدَّثَنِي ‌زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا ‌جَرِيرٌ، عَنِ ‌الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ ‌فُضَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: « تُوُفِّيَ صَبِيٌّ فَقُلْتُ: طُوبَى لَهُ عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَ لَا تَدْرِينَ أَنَّ اللهَ خَلَقَ الْجَنَّةَ، وَخَلَقَ النَّارَ فَخَلَقَ لِهَذِهِ أَهْلًا، وَلِهَذِهِ أَهْلًا .».

[«صحيح مسلم» (8/ 54 ط التركية)]
  1. حدیث

31 - (2662) حَدَّثَنَا ‌أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ‌وَكِيعٌ، عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: « دُعِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِنَازَةِ صَبِيٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلِ السُّوءَ، وَلَمْ يُدْرِكْهُ قَالَ: أَوَغَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا، وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ .».

[«صحيح مسلم» (8/ 54 ط التركية)]
  1. حدیث

1947 - أَخْبَرَنَا ‌مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا ‌سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا ‌طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ خَالَتِهَا أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ‌‌عَائِشَةَ قَالَتْ: «أُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ مِنْ صِبْيَانِ الْأَنْصَارِ فَصَلَّى عَلَيْهِ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: طُوبَى لِهَذَا، عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَلَمْ يُدْرِكْهُ قَالَ: أَوَغَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ خَلَقَ اللهُ - عَزَّ وَجَلَّ - الْجَنَّةَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ النَّارَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ».

[«سنن النسائي» (4/ 57)]
  1. حدیث

1679 - حَدَّثَنَا ‌يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ ‌يَحْيَى بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِصَبِيٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ طُوبَى لَهُ، عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ، لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا قَطُّ، وَلَمْ يَدْرِ بِهِ. فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَوَلَا تَدْرِينَ أَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ الْجَنَّةَ، وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا، خَلَقَهَا لَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ النَّارَ، وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا، خَلَقَهَا لَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ».

[«مسند أبي داود الطيالسي» (3/ 152)]
  1. حدیث

4713 - حَدَّثَنَا ‌مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَنَا ‌سُفْيَانُ، عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: «أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ يُصَلِّي عَلَيْهِ، قَالَتْ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ طُوبَى لِهَذَا لَمْ يَعْمَلْ شَرًّا وَلَمْ يَدْرِ بِهِ، فَقَالَ: أَوَغَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللهَ خَلَقَ الْجَنَّةَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهَا لَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ النَّارَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهَا لَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ.».

[«سنن أبي داود» (4/ 365 ط مع عون المعبود)]

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کا ایک بچہ نماز پڑھنے کے لیے لایا گیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زندگی کے مزے تو اس بچے کے لیے ہیں، اس نے نہ کوئی گناہ کیا اور نہ ہی وہ اسے (گناہ کو) سمجھتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ! کیا تم ایسا سمجھتی ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا اور اس کے لیے لوگ بھی پیدا کئے اور جنت کو ان لوگوں کے لیے جب بنایا جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے، اور جہنم کو پیدا کیا اور اس کے لیے لوگ بھی پیدا کئے گئے اور جہنم کو ان لوگوں کے لیے پیدا کیا جب کہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے" ۔

اکرامِ حضرت بی بی فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

  1. حدیث

5217 - حَدَّثَنَا ‌الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ‌وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا: نَا ‌عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ أَنَا ‌إِسْرَائِيلُ، عَنْ ‌مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ ‌الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ‌‌عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَدَلًّا وَهَدْيًا. وَقَالَ الْحَسَنُ حَدِيثًا وَكَلَامًا، وَلَمْ يَذْكُرِ الْحَسَنُ السَّمْتَ وَالْهَدْيَ وَالدَّلَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَةَ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهَا، كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَقَبَّلَهَا وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ إِلَيْهِ فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا».

[«سنن أبي داود» (4/ 523 ط مع عون المعبود)]
  1. حدیث

3872 - حَدَّثَنَا ‌مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ‌إِسْرَائِيلُ، عَنْ ‌مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ ‌الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشْبَهَ سَمْتًا» وَدَلًّا وَهَدْيًا بِرَسُولِ اللهِ فِي قِيَامِهَا وَقُعُودِهَا مِنْ ‌فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ.

وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِهَا فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا. فَلَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَأَكَبَّتْ عَلَيْهِ فَقَبَّلَتْهُ ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا، فَبَكَتْ. ثُمَّ أَكَبَّتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا فَضَحِكَتْ، فَقُلْتُ: إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنَّ هَذِهِ مِنْ أَعْقَلِ نِسَائِنَا، فَإِذَا هِيَ مِنَ النِّسَاءِ! فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ حِينَ أَكْبَبْتِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ فَبَكَيْتِ، ثُمَّ أَكْبَبْتِ عَلَيْهِ فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ فَضَحِكْتِ، مَا حَمَلَكِ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَتْ: إِنِّي إِذًا لَبَذِرَةٌ، أَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَيِّتٌ مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي أَسْرَعُ أَهْلِهِ لُحُوقًا بِهِ، فَذَاكَ حِينَ ضَحِكْتُ.

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ.

[«سنن الترمذي» (6/ 175 ت بشار)]

متفرق احادیث

  1. حدیث

101 - (2452) حَدَّثَنَا ‌مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا ‌الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى السِّينَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ‌طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا. قَالَتْ: فَكُنَّ يَتَطَاوَلْنَ أَيَّتُهُنَّ أَطْوَلُ يَدًا. قَالَتْ: فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يَدًا زَيْنَبُ؛ لِأَنَّهَا كَانَتْ تَعْمَلُ بِيَدِهَا وَتَصَدَّقُ ».

[«صحيح مسلم» (7/ 144 ط التركية)]

حضرت عائشہ حضرت ‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیبیوں سے) فرمایا: "تم میں سب پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔" تو سب بیبیاں اپنے اپنے ہاتھ ناپتیں تاکہ معلوم ہو کس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم سب میں زینب رضی اللہ عنہا کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور صدقہ دیتیں۔

  1. حدیث

254 - عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ قَالَتْ: «كُنَّا نَغْتَسِلُ وَعَلَيْنَا الضِّمَادُ وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحِلَّاتٌ وَمُحْرِمَاتٌ.».

[«سنن أبي داود» (1/ 105 ط مع عون المعبود)]

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم غسل کرتے تھے اور ہمارے سروں پر لیپ[3] لگا ہوتا تھا خواہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت احرام میں ہوتے یا حلال (احرام سے باہر)۔

  1. حدیث

1830 - حَدَّثَنَا ‌الْحُسَيْنُ بْنُ جُنَيْدٍ الدَّامَغَانِيُّ، نَا ‌أَبُو أُسَامَةَ أَخْبَرَنِي ‌عُمَرُ بْنُ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَتْنِي ‌‌عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ : أَنَّ ‌‌عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ حَدَّثَتْهَا قَالَتْ: «كُنَّا نَخْرُجُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ فَنُضَمِّدُ جِبَاهَنَا بِالسُّكِّ الْمُطَيَّبِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ، فَإِذَا عَرِقَتْ إِحْدَانَا سَالَ عَلَى وَجْهِهَا، فَيَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا يَنْهَاهَا.».

[«سنن أبي داود» (2/ 104 ط مع عون المعبود)]

عائشہ بنت طلحہ کا بیان ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نکلتے تو ہم اپنی پیشانی پر خوشبو کا لیپ لگاتے تھے جب پسینہ آتا تو وہ خوشبو ہم میں سے کسی کے منہ پر بہہ کر آ جاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھتے لیکن منع نہ کرتے۔[4]

  1. حدیث

3818 - حَدَّثَنَا ‌الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ ‌طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: «أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَحِّيَ مُخَاطَ أُسَامَةَ»، قَالَتْ عَائِشَةُ: دَعْنِي حَتَّى أَنَا الَّذِي أَفْعَلُ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ أَحِبِّيهِ فَإِنِّي أُحِبُّهُ.

[«سنن الترمذي» (6/ 145 ت بشار)]
  1. حدیث

3066 - أَخْبَرَنَا ‌عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيُّ، عَنْ ‌عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي ‌‌عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ، عَنْ خَالَتِهَا ‌‌عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ إِحْدَى نِسَائِهِ أَنْ تَنْفِرَ مِنْ جَمْعٍ لَيْلَةَ جَمْعٍ، فَتَأْتِيَ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَتَرْمِيَهَا وَتُصْبِحَ فِي مَنْزِلِهَا، وَكَانَ عَطَاءٌ يَفْعَلُهُ حَتَّى مَاتَ».

[«سنن النسائي» (5/ 272)]

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کو حکم دیا کہ وہ مزدلفہ کی رات ہی میں مزدلفہ سے کوچ کر جائیں، اور جمرہ عقبہ کے پاس آ کر اس کی رمی کر لیں، اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر صبح کریں۔ اور عطا اپنی وفات تک ایسے ہی کرتے رہے۔




[1] یعنی گیتوں کی کتاب

[2] «قال: (ونظر أبو هريرة إلى ‌عائشة ‌بنت ‌طلحة … ، فقال: … والله ما رأيت وجهًا أحسن منك إلا وجه معاوية على منبر رسول الله)» [الأنوار الكاشفة لما في كتاب «أضواء على السنة» (12/ 289 ضمن «آثار المعلمي»)]

[3] لیپ یعنی ضماد۔ یہ غالباً مہندی کی طرف اشارہ ہے۔ (سلیم نوری)

[4] یہ خوشبو احرام سے پہلے کی ہوتی تھی اس لئے منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔


تبصرے

  1. https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vQ5QlOQa3snz33qowBwyWOmja51--wYouJHtOR2u_q1u17qXPjk3KLPy_nRAoY6YN9MKg5lh-UdsiAm/pub

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع