اَلشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ

اَلشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ

ایک حدیث شریف کی تشریح اور ذاتِ شیخ کا تعارف

سید محمد سلیم قادری نوری نقشبندی

Updated on: Jun 17, 2022

آستانۂ نوری کی پیشکش

 


فہرست

پیش لفظ

نوٹ :

لفظِ شیخ کے معنیٰ

قرآنِ پاک میں لفظ شیخ

ش ی خ :

لفظ شیخ کے معنی:

شیخ و شاب

شیخین اور شیخ الشیوخ

شیخ الحدیث

شیخ الاسلام کا لقب

شیخ بمعنی مسلمان

شیخ بمعنیٰ بوڑھا شخص

شیخ کی تعریف :

بدھسٹ شاؤلن کی اپنے بزرگوں کی قدر :

توقیرِ شیخ ہماری اقدار سے ہے :

مقام شیخ :

اَلشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ

روحانی پیدائش:

وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً:

مقام شیخ :

رسول کی پکار :

معلم الخیر:

روحانی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ :

عقل پیر :

زمین کے تارے اور پہاڑ :

تعظیم بزرگان :

عورتوں سے بیعت لینا:

شاندار عورت

ریاکاری :

شیخ کون ہوتا ہے؟

ضعیف و موضوع :

پیر و مرشد کا مرتبہ :

معصومیت یا حفاظت؟

امامت اور معصومیت

بزرگوں کے منکرین

دریدہ دہن :

انجینئر کا طریقۂ واردات :

باسی یو ٹیوب کا :

انجینئر کا کنگ فو :

خود کارانہ عددی تجزیہ (Mar 24, 2022)

پیش لفظ

ظَهَرَ الشَّيبَ، وَلَم يَذْهَبُ الْعَيْبَ، وَلا أدْري مَا في الغيبِ

بڑھاپا آگیا لیکن میرے عیب (برائیاں اور گناہ) نہیں گئے

اور میں نہیں جانتا کہ آگے کیا ہے

میری یہ تحریر ایک حدیث شریف (اَلشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ) کا کچھ تفصیلی بیان ہے۔ اسے انٹرنیٹ پر شائع کرنے سے پہلے میرے جسم میں عظیم تغیر واقع ہوا۔ شدید ضعف اور پیری اچانک لاحق ہوگئی، دل لرزنے لگا، جیسے اٹیک ہو گیا ہو، اور ایسا ہو گیا جیسے اس میں سے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ آنکھوں سے آنسو برسنے لگے۔ آسمان کی طرف نظریں اٹھانے سے خوف آنے لگا۔ حتیٰ کہ نماز میں کھڑا ہونے سے بیحد شرم آنے لگی۔ بلکہ اپنے ہونے پر نہایت شرمندگی ہونے لگی۔ لیکن

تجھ سے چھپاؤں منہ تو کروں کس کے سامنے

کیا پرسش اور جا بھی سگ بے ہنر کی ہے؟؟؟

نوٹ :

کبھی کبھی میرے جسم پر اچانک اس قدر ضعیفی (بظاہر بلا وجہ) طاری ہوجاتی ہے کہ بزرگ ترین حضرات بھی جوان معلوم ہوں، اور کبھی اس کے بالکل برعکس بھی ہوتا ہے۔ میں آج تک اس کی وجہ نہیں سمجھ پایا تھا۔ میں نے اپنے حضرت میاں ظفر صاحب سے اس بارے میں دریافت کیا کیونکہ میں اپنے حضرت صاحب میں بھی اس کو پاتا ہوں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اس کیفیت سے گزرتے ہیں۔ جسے میں بخوبی جان سکتا ہوں۔ تاہم اب جاکر اس کیفیت کا تعلق میں انس اور ہیبت سے جوڑنے کے قابل ہوا ہوں۔ بلا شبہ دنیا اللہ ہی چلاتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ اسے دنیا کس طرح چلانی ہے۔

(سلیم نوری)


لفظِ شیخ کے معنیٰ

شیخ کا لفظ ہمارے ہاں کئی معنیٰ پر بولا جاتا ہے۔ کبھی بہ اعتبارِ عمر، کبھی بہ اعتبارِ فضل اور کبھی بہ اعتبار نسب اور کبھی بہ اعتبارِ عموم۔ اشرافِ قوم کو بھی شیخ کہا جاتا ہے۔ اور کبھی کریم شخص کو بھی شیخ کہہ دیتے ہیں۔ عجمی (پاکستانی، ہندوستانی، بنگلہ دیشی وغیرہ) لوگ عربی افراد کو بالخصوص مال و دولت رکھنے والے عربی کو بھی عموماً شیخ ہی کہتے ہیں۔

قرآنِ پاک میں لفظ شیخ

قرآنِ پاک میں بھی یہ کلمہ وارد ہوا ہے۔ ربّ العزّت (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) ارشاد فرماتا ہے:

قَالُوا يَٰأَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَىٰكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ

وہ بولے: اے عزیزِ مصر! اس کے والد بڑے معمر بزرگ ہیں، آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیں، بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں پاتے ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں شیخ کبیر کے کلمات اپنے ظاہری اور باطنی معنوں میں حضرت یعقوب علیہ السلام کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔ عزیز مصر سے مراد حضرت یوسف ہیں۔ { لَهُ } کی ضمیر متصل حضرت بنیامین کی طرف لوٹتی ہے۔ اور { أَحَدَنَا } کی ضمیر دس بھائیوں کی طرف لوٹتی ہے۔

ش ی خ :

پورے قرآن پاک میں روٹ [ش ی خ] کے مادّے سے بننے والے یہ تین مشتقات چار بار وارد ہوئے ہیں: شَيْخًا شَيْخٌ شُيُوخًا جن میں سے ایک اوپر کی آیت بھی ہے۔

یہ کلمہ (شیخ) قرآنِ پاک میں حضرت ابراہیم (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کیلئے [هود: 72]، حضرتِ یعقوب (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کیلئے [يوسف: 78]، حضرتِ شعیب (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کیلئے [القصص: 23] اور عام معمر انسانوں کیلئے[1] [غافر: 67] استعمال ہوا ہے۔ ہاں حضرتِ یعقوب اور حضرت شعیب (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہم الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کیلئے شیخِ کبیر کے کلمات آئے ہیں۔

لفظ شیخ کے معنی:

لفظ شیخ کے دو معنی ہیں۔ شیخ اسے کہتے ہیں جس کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر گئی ہو۔ یعنی معمر۔ اور بزرگی کی اعتبار سے شیخ اسے کہتے ہیں جو اپنی ٹھوکر سے مردوں کو زندہ کردے۔ کئی بزرگوں سے یہ کرامت منقول ہے۔ ؎

دل کو تھی فکر کس طرح مردے جلاتے ہیں حضور

اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں

اور جس کے پاس یہ کرامت نہ ہو، تو یہ لفظ مردہ دلوں کو زندگی دینے والے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور بلا شبہ شیخ اپنے مریدین میں حیات باطنی کی روح پھونک دیتا ہے اور حیات ثانی کا باعث ہے ۔ جو یہ نہ کر سکے اور نہ ہی ساٹھ سال سے عمر میں متجاوز ہو، اس پر شیخ کا لفظ صادق نہیں آتا۔

شیخ و شاب

یہ یاد رہے کہ ہمارے پیارے آقا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر کبھی بڑھاپا طاری نہ ہوا۔ سیرت کی تقریباً سبھی کتابوں میں منقول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے سر اور ڈاڑھی شریف میں بیس سے زیادہ بال سفید نہ تھے۔ اسی لئے اہل عرب حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو شاب یعنی جوان کہتے تھے اور ان سے کم عمر حضرت ابوبکر صدیق کو شیخ کہتے تھے۔

شیخین اور شیخ الشیوخ

یہ بھی یاد رہے کہ حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو شیخین (یعنی امت کے دو بڑے عظیم بزرگ) کہا جاتا ہے اور ان کی افضلیت پر اجماع ہے۔

اسی طرح حضرت شیخ محی الدین ابنِ عربی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کو شیخِ اکبر (بڑی بزرگ ہستی) گنا جاتا ہے اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کو شیخ الشیوخ (پیرانِ پیر یعنی تمام شیخوں کے شیخ) مانا جاتا ہے اور اس پر بھی امت کا اجماع ہے۔

شیخ الحدیث

مسلمانوں میں شیخ الحدیث مدارسِ اسلامیہ میں حدیث شریف کے استاد کیلئے استعمال کی جاتی ہے، بالخصوص بخاری شریف پڑھانے والے کو۔ دیوبندی حضرات اس ترکیب کے اولین استعمال کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اس کی کوئی اصل نہیں۔ یہ ترکیب قرونِ اولیٰ سے ہی مستعمل ہے۔

شیخ الاسلام کا لقب

اسی طرح شیخ الاسلام کا لقب مسلمانوں کے اعلیٰ پائے کے چوٹی کے علمائے کرام کیلئے مخصوص ہے جو اپنے علمی کارناموں کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہوں۔ فی زمانہ ڈاکٹر طاہر القادری کو شیخ الاسلام کہا گیا ہے۔ ان کے سیاسی پس منظر سے قطعِ نظر ان کے اعلیٰ پائے کے دینی و اسلامی علمی کاموں اور علوم و فنون کے دریا بہاتے بیانات سے کسی کو انکار نہیں۔

بعض لوگوں نے ابنِ تیمیہ کو بھی شیخ الاسلام کہا ہے (بد قسمتی سے ان میں علامہ سیوطی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) بھی شامل ہیں)۔ ابنِ تیمیہ کے بعض فتاویٰ ایسے ہیں کہ باقی لوگوں کو ان کیلئے اس لقب کے استعمال پر شدید تحفظات ہیں۔ بالخصوص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی عظمت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی مسجد شریف تک سفر کرنے کے بارے میں ان کے فتوے پر لوگ آج بھی کرب اور اضطراب کا شکار ہیں۔

شیخ بمعنی مسلمان

شیخ بنظر عمر ہر بوڑھا ہے اور بنظر فضل ہر عالم وصالح اگر چہ جوان ہو اور بنظر نسب ہندوستان میں دو محاورے ہیں: ایک یہ کہ سید، مغل، پٹھان کے سوا باقی ہر قوم کا مسلمان شیخ ہے، یوں اس کا اطلاق عام ہے؛ جیسے ابتداء ہند میں ہر مسلمان کو ترک کہتے تھے، اسی محاورے پر مولانا قدس سرہ فرماتے ہیں: ؎

گفت من آئینہ ام مصقول دوست

ترک و ہند و در من آں بیند کہ اوست

(اس نے کہا اے دوست ! میں صاف شیشہ ہوں کہ ترک (مسلمان) اور ہندوستان کے لوگ مجھ میں اسے دیکھتے ہیں۔)

شیخ بمعنیٰ بوڑھا شخص

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں:  

قَلْبُ ‌الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ؛ طُولِ الْحَيَاةِ وَكَثْرَةِ الْمَالِ. [«سنن الترمذي»]

'دو چیزوں کی محبت میں شیخ (بوڑھے آدمی) کا دل جوان ہوتا ہے: جینے کی ہوس اور مال کی کثرت۔'

اس حدیث شریف میں لفظِ شیخ اپنے لغوی معنوں پر ہے، یعنی عمر رسیدہ بوڑھا۔

شیخ کی تعریف :

حضرت سیِّدُنا عبد الغنی نابلسی حنفی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) حدیقہ ندیہ میں شیخ یعنی پیر و مرشد کی تعریف کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس سے اس کے بیان کردہ احکامِ شرع کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال کے ذریعے مریدوں کے حالات اور ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل ہمیشہ مراتب ِ کمال کی طرف متوجہ رہے ۔

شیخ کون ہوتا ہے؟

کتاب شرح نخبة الفكر للقاري میں ہے کہ شیخ وہ ہے جو اپنے فن میں کامل ہو، خواہ وہ جوان ہی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ بعضوں نے کہا ہے کہ شیخ وہ ہے جس کی عمر 50 سے 80 سال کے درمیان ہو۔ اس سے مراد شیخ الاسلام ہے جو مرجع الاحکام ہوتا ہے۔ اور اس پر دلیل یہ حدیث ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ پس شیخ وہ ہے جو عمر اور رتبے میں بڑا ہو۔ اور اس ضمن میں حضرت عباس (عم رسول اللہ) کا قول کیا ہی حسین اور پیارا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہیں یا حضور تو آپ نے فرمایا کہ بڑے تو حضور ہی ہیں، میری تو صرف (ظاہری) عمر ہی زیادہ ہے۔

بدھسٹ شاؤلن کی اپنے بزرگوں کی قدر

چین کے بدھسٹ شاؤلن اپنے معمر ٹیچر کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ ان کے کہنے پر شادی بھی نہیں کرتے، اور اپنی ساری زندگی پہاڑوں اور جنگلوں میں گزار دیتے ہیں۔ شاؤلن ٹیچر کی بات حرف آخر سمجھی جاتی ہے جس سے کوئی رو گردانی نہیں کرتا۔ اگرچہ آج بھی ان کی تعلیمات شرک اور زندگی کے بارے میں شدت پسندی پر مبنی ہوتی ہیں لیکن اپنے معمر ٹیچر کی قدر جس طرح وہ کرتے ہیں، کہیں دکھائی نہیں دیتی۔

توقیرِ شیخ ہماری اقدار سے ہے

بڑے بوڑھوں کی قدر کرنا شاؤلن کی نہیں، بلکہ ہماری اسلامی تعلیمات ہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں۔

کتنا واضح فرمان ہے ہمارے پیارے آقا (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا کہ برکت تمہارے بڑوں میں رکھی گئی ہے۔ اس فرمان کے ہوتے ہوئے بھی ہماے ہاں اولڈ ہاؤسز کا قیام قیامت نہیں تو اور کیا ہے؟ جہاں بوڑھے والدین کی نظر ہر وقت دروازے کی طرف لگی رہتی ہے کہ اب ان کا بیٹا آئے گا اور اولڈ ہاؤس کی جیل سے انہیں رہائی دلائے گا۔

خطیب نے اپنی جامع میں حضرت انس سے روایت کی کہ {مِنَ الْإِجْلَالِ تَوْقِيرُ الشَّيْخِ مِنْ أُمَّتِي} یعنی میری امت کے شیخ کی توقیر کرنا اجلال (خداوندی کی وجہ) سے ہے۔

مقام شیخ :

حدیث پاک میں ہے کہ {اتقوا أذى المجاهدين فى سبيل الله فان الله تعالى يغضب لهم كما يغضب للرسل} یعنی راہ خدا کے مجاہدین کو ایذا پہنچانے سے باز رہو، کیونکہ اللہ پاک ان کیلئے اسی طرح غضب فرماتا ہے، جیسے رسولوں کیلئے غضب فرماتا ہے۔ اور یہ مقام شیخ ہے کہ وہ اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ اور مریدین کے نفسوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ شیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے کہ نبی اپنی امت میں ہوتا ہے۔ شیخ سے بات کرنے میں اس کی عظمت کریں، اور ان کی خدمت کرتے رہنے کے ادب کی حفاظت کریں اور ان کی ہیبت اور توقیر کی رعایت میں ان کی اطاعت کو خود پر لازم کرلیں۔

مولا روم فرماتے ہیں ؎

گفت پيغمبر كه شيخى رفته پيش

چون نبى باشد، ميان قوم خويش

تفسیر نیشاپوری (غرائب القرآن و رغائب الفرقان) میں سورۂ نور کی تفسیر (آیت 51 تا 64) میں لکھا ہے کہ مرید صادق کو چاہیئے کہ شیخ کے حکم کے بغیر سانس بھی نہ لے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے اس کے مال، مرتبے، قبولیت خلق، نکاح یا سفر میں کوئی فتنہ پہنچے۔ کیونکہ شیخ اس کیلئے بمنزلۂ نبی کے ہوتا ہے۔ اور شیخ کی ولایت کے نور کا عکس مرید کے دل کے آئینے پر پڑتا ہے اور وہ ان مراتب کو پا لیتا ہے جو صرف اعمال کے بجا لانے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔

اَلشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ

لفظِ شیخ کی تعریف تشریح کے بعد اب ہم اس حدیث شریف کی طرف آتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ اَلشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ۔ یہ حدیث شریف مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے، جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

  1. الشَّيْخُ ‌في أهْلِهِ (گھر والوں میں) ‌‌كَالنَّبِيِّ في أُمَّتِهِ 
  2. الشَّيْخُ ‌في أهْلِهِ ‌‌كَالنَّبِيِّ في قَوْمِهِ 
  3. الشَّيْخُ ‌في بَنِيْهِ ‌‌(بیٹوں میں) كَالنَّبِيِّ في قَوْمِهِ
  4. الشَّيْخُ ‌في بَيْتِهِ ‌(گھر میں) كَالنَّبِيِّ في قَوْمِهِ
  5. الشَّيْخُ ‌في جَمَاعَتِهِ (جماعت میں) ‌‌كَالنَّبِيِّ في أُمَّتِهِ
  6. الشَّيْخُ ‌في جَمَاعَتِهِ ‌‌كَالنَّبِيِّ في قَوْمِهِ
  7. الشَّيْخُ ‌في قَرِيْبِهِ ‌‌(اقربا میں) كَالنَّبِيِّ في أُمَّتِهِ
  8. الشَّيْخُ ‌في قَوْمِهِ ‌‌(قوم میں) كَالنَّبِيِّ في أُمَّتِهِ
  9. العالم في قَوْمِهِ ‌‌كَالنَّبِيِّ في أُمَّتِهِ

ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ نبی اپنی امت کے درمیان ہوتا ہے۔

(حوالوں کیلئے یہاں کلک کریں)

غوثِ اعظمؒ در میانِ اولیاء

چوں جنابِ مصطفیٰ در انبیاء

یعنی پیرانِ پیر شیخِ جیلانی ولیوں کے درمیان ایسے ہیں جیسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) انبیائے کرام میں امتیازی شان رکھتے ہیں۔

کتاب الحبائك في أخبار الملائك[2] میں فرشتوں کے افضل ہونےیا نہ ہونے پر بحث کی گئی ہے۔ اس میں فرمایا کہ جو ان کے افضل ہونے کا گمان کرتے ہیں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ

  1. فرشتوں کی عبادت دائمی ہے۔ اور دائمی عبادت مشکل ہے اس لئے وہ انسان سے افضل ہیں۔
  2. دوم یہ کہ ان کی عمریں طویل ہیں اور حدیث میں ہے کہ افضل عبادت یہ ہے کہ عمر طویل ہو اور اعمال نیک ہوں۔
  3. اور تیسرے یہ کہ حدیث میں فرمایا کہ شیخ (عمر رسیدہ) اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ نبی اپنی امت میں۔اور وہ طویل عمروں کے باعث شیخ ہیں۔اس لئے وہ انسان سے افضل ہیں۔

لیکن یہ قول درست نہیں (کہ فرشتے افضل ہیں) کیونکہ حضرت نوح کی عمر طویل تھی لیکن ہمارے نبی ان سے افضل ہیں۔

چون گزيدى پير نازك دل مباش

سست و ريزيده چو آب و گل مباش

چون گرفتى پير هين تسليم شو

همچو موسىٰ زير حكم خضر رو

گر تو سنگ و صخره و مرمر شوى

چون بصاحب دل رسى گوهر شوى

نار خندان باغ را خندان كند

صحبت مردانت از مردان كند

روحانی پیدائش:

روح البيان میں زیر آیت يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ[3] فرمایا کہ ان آیات میں پیروں کیلئے اشارہ یہ ہے کہ شیخ اپنے مریدین کیلئے ایسا ہوتا ہے جیسے کہ والد۔ ان میں روحانی وراثت جاری ہوتی ہے۔ اور یہ کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ اور اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انا لكم كالوالد لولده[4] یعنی میں تمہارے لئے اس طرح ہوں جیسے کہ باپ اپنی أولاد کیلئے ہوتا ہے۔ اور ان آیات میں اللہ پاک نے شیخ اور مریدین کی دینی قرابت اور وراثت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ جیسا کہ اس نے فرمایا کہ أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ[5] یعنی یہ لوگ (آپس میں ایک دوسرے کے اور جنت کے ) وارث ہیں۔

جس طرح دنیا میں وراثت جاری ہوتی ہے اسی طرح دینی أمور میں بھی جاری ہوتی ہے۔دنیاوی وراثت سبب اور نسب سے ہوتی ہے۔ اور اسی طرح دینی وراثت بھی۔ پس سبب تو فهو الارادة ولبس خرقتهم والتبرك بزيهم والتشبه بهم[6] اور وہ ان کی مریدی اختیار کرنا اور ان کا خرقہ پہنانا اور ان کی اشیاء اور طور طریقوں سے برکت حاصل کرنا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ اور نسب، تو وہ ان کی صحبت ہے کہ صدق نیت سے ظاہر و باطن میں ان کی ولایت کے تصرفات کو دل و جان سے مانے۔

جسمانی ولادت میں انسان شکم مادر سے عالم شہادت میں آتا ہے اور اس دوسری اور روحانی ولادت سے انسان رحم قلب سے عالم غیب (عالم ملکوت ) میں آتا ہے۔جیسا کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ نے فرمایا کہ لن يلج ملكوت السموات والأرض من لم يولد مرتين[7] یعنی جو دو بار پیدا نہ ہو تو وہ آسمان و زمین کی بادشاہت میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ پس شیخ روحانی باپ ہوتا ہے اور مرید اس کی صلب ولایت کی روحانی أولاد ہوتے ہیں۔ اور اسی لئے سرکار علیہ السلام نے فرمایا کہ سب حسب نسب منقطع ہوجائیں گے سوائے میرے۔ کیونکہ آپ کا نسب دین سے ہے۔ اسی لئے جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ کی آل کون ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہر مؤمن متقی میری آل ہے۔ اور اسی لئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں تمہارے لئے اس طرح ہوں جیسے کہ باپ اپنی أولاد کیلئے ہوتا ہے۔

 وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً:

روح البیان میں ہے کہ نبی اور شیخ دونوں ہی دوسری ولادت کا سبب ہیں کہ نبوت و ولایت کے نطفے کا امت اور مریدین اور زیر تربیت شاگرد کے قلوب میں القاء فرماتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ روح اللہ فرماتے ہیں کہ جو دوبارہ پیدا نہ ہو وہ آسمان کی بادشاہت میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔ والدین اسفل سافلین کے مقام بعد میں اور نبی و شیخ اعلی علیین کے مقام قرب میں اس کی ولادت کا سبب ہیں۔ اسی راز کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک میں تمہارے لئے ایسا ہوں جیسا کہ بچے کہ لئے اس کا والد (بڑا بھائی سمجھنے والے غور فرمائیں) اور فرمایا کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔

امت پر واجب ہے کہ ہر حال میں نبی کی تعظیم و توقیر کو واجب جانے، آپ کی حیات ظاہری میں اور اس کے بعد بھی۔ بے شک تعظیم و توقیر کی زیادتی دل میں نور ایمان کی زیادتی کا باعث ہے۔ اور مریدین اپنے شیخ کی تعظیم و توقیر کریں کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ نبی اپنی امت میں۔

مقام شیخ :

حدیث پاک میں ہے کہ اتقوا أذى المجاهدين فى سبيل الله فان الله تعالى يغضب لهم كما يغضب للرسل [8]

یعنی راہ خدا کے مجاہدین کو ایذا پہنچانے سے باز رہو، کیونکہ اللہ پاک ان کیلئے اسی طرح غضب فرماتا ہے، جیسے رسولوں کیلئے غضب فرماتا ہے۔ اور یہ مقام شیخ ہے کہ وہ اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ اور مریدین کے نفسوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ شیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے کہ نبی اپنی امت میں ہوتا ہے۔

مولا روم فرماتے ہیں

گفت پيغمبر كه شيخى رفته پيش

چون نبى باشد ميان قوم خويش

رسول کی پکار :

قرآنِ پاک میں ربّ العزّت (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) ارشاد فرماتا ہے:

{ لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } [النور: 63]

ترجمہ: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے بیشک اللہ جانتا ہے جو تم میں چپکے نکل جاتے ہیں کسی چیز کی آڑ لے کر تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا ان پر دردناک عذاب پڑے۔

ندائے رسول کے دو معنی کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم رسول کو پکاریں تو اس پکارنے کو عام سا نہ سمجھیں۔ ان کے در پر کھڑے ہوکر باہر سے یا محمد اور اے ابن عبد اللہ اور اے ابن ابی کبشہ کہہ کر نہ پکاریں۔ نہایت ادب و احترام سے دھیمی آواز میں یا رسول اللہ، یا نبی اللہ ، یا حبیب اللہ اور اے اللہ کے محبوب کہہ کر پکاریں۔ جیسا کہ خود پروردگار نے پیار سے يا أَيُّهَا النَّبِيُّ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ کے پیارے القابات سے پکارا ہے۔

يا آدمست با پدر انبیا خطاب

يا ايها النبي خطاب محمد است

یعنی جب انبیاء کے باپ کو پروردگار نے پکارا تو فرمایا کہ اے آدم! اور جب اپنے محبوب کو پکارا تو فرمایا کہ اے بڑی شان والے پیارے نبی

اور ندائے رسول کے ایک معنی یہ کئے گئے ہیں کہ جب وہ رسول تمہیں پکارے تو ان کی پکار اور دعوت کو ایک دوسرے کی پکار کی طرح معمولی مت سمجھنا۔ فورا دوڑ کر حاضر خدمت ہونا اور جو حکم وہ فرمائیں، فی الفور بجا لانا۔

معلم الخیر:

حضرت فقیہ ابو اللیث سمر قندی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم معلم الخیر ہیں اس لئے ان کی تعظیم و توقیر کا حکم فرمایا۔ اور اسی سے استاد کا حق اور اہل معرفت کا حق سمجھ میں آ سکتا ہے۔ کہ احترام رسول در حقیقت احترام خدا ہے۔ اور معرفت رسول، معرفت خدا ہے۔ اور آپ کا ادب اللہ کے ادب کی وجہ سے ہے۔

روح البیان میں ہے کہ وفى التأويلات النجمية يشير الى تعظيم المشايخ فان الشيخ فى قومه كالنبى فى أمته اى عظموا حرمة الشيوخ فى الخطاب واحفظوا فى خدمتهم الأدب وعلقوا طاعتهم على مراعاة الهيبة والتوقير

یہ شیخ کی تعظیم کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ شیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں ہوتا ہے۔ یعنی شیخ سے بات کرنے میں اس کی عظمت کریں، اور ان کی خدمت کرتے رہنے کے ادب کی حفاظت کریں اور ان کی ہیبت اور توقیر کی رعایت میں ان کی اطاعت کو خود پر لازم کرلیں۔

روحانی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ :

روح البیان میں ہے

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ

اس آیت میں بعض سالکین و قاصدین اور مریدین کی روحانی رکاوٹ کی طرف اشارہ ہے کہ جو اپنے حجاب اور حرمان کی وجہ سے مقصود تک نہ پہنچ سکے کیونکہ یہ حجاب و حرمان اپنے شیخ (یا کسی دوسرے شیخ) پر اعتراض کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور قلب کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یہ ایسا اعتراض ہے جس کا تدارک توبہ و انابت سے نہ کیا گیا ہو اور توبہ سے یہ بھی دور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ شیوخ مریدین کیلئے انبیاء کی مانند ہیں، جیسا کہ خبر میں آیا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ کیونکہ اللہ پاک اپنے اولیاء (دوستوں) کے دشمنوں سے شدید انتقام لیتا ہے۔ اور وہ اس میں انتقام لینے میں قوی ہے۔

عقل پیر :

دیکھا گیا ہے کہ عربی اور ترکی لوگ اپنے بزرگوں کی بہت تعظیم و توقیر کرتے ہیں۔ آثار میں وارد ہوا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ یہ اس کے جسمانی حسن و جمال اور جسمانی قوت و شوکت و ثروت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ قوت علم و عقل کی وجہ سے ہے۔

كشتى بي لنگر آمد مرد شر

كه ز باد كژ نيابد او حذر

لنگر عقلست عاقل را أمان

لنگرى دريوزه كن از عاقلان

یعنی عقلمندوں کی عقل ان کیلئے امان ہے۔ اور میرا لنگر تو عقلمندوں کیا بھکاری بننا ہے۔

تفسیر نیشاپوری (غرائب القرآن و رغائب الفرقان) میں سورۂ نور کی تفسیر (آیت 51 تا 64) میں لکھا ہے کہ مرید صادق کو چاہیئے کہ شیخ کے حکم کے بغیر سانس بھی نہ لے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے اس کے مال، مرتبے، قبولیت خلق، نکاح یا سفر میں کوئی فتنہ پہنچے۔ کیونکہ شیخ اس کیلئے بمنزلۂ نبی کے ہوتا ہے۔ اور شیخ کی ولایت کے نور کا عکس مرید کے دل کے آئینے پر پڑتا ہے اور وہ ان مراتب کو پا لیتا ہے جو صرف اعمال کے بجا لانے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔

زمین کے تارے اور پہاڑ :

تفسیر القشیری (لطائف الاشارات) میں ہے کہ قرآنِ پاک میں ربّ العزّت (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) ارشاد فرماتا ہے: { وَ أَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَ أَنْهَارًا وَ سُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ } [النحل: 15].

یعنی اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے کہ کہیں تمہیں لے کر نہ کانپے اور ندیاں اور رستے کہ تم راہ پاؤ۔

اور فرمایا کہ ظاہری لنگر تو پہاڑ ہیں اور باطنی لنگر شیوخ ہیں کہ اس میں اشارہ اولیاء اللہ کی طرف ہے کہ وہ خلق خدا کی مدد اور داد رسی فرماتے ہیں، انہی کی وجہ سے ان پر رحم کیا جاتا ہے، انہی کی وجہ سے بارشیں نازل ہوتی ہیں، انہی میں ابدال و اوتاد اور قطب ہوتے ہیں۔ اور خبر میں ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ نبی اپنی امت میں۔ اور پھر فرمایا کہ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ یعنی اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب! تم ان میں تشریف فرما ہو۔

اور فرمایا کہ { وَ عَلَامَاتٍ وَ بِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ } [النحل: 16].

 اور علامتیں اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں۔ یعنی کواکب نجوم آسمانی ہیں کہ ان کے ذریعے شیطان کو مارا جاتا ہے اور اولیاء (بزرگان دین اور شیوخ)زمین کے تارے ہیں، جن کے ذریعے کفار اور ملحدین کو مارا جاتا ہے۔

شرح السنہ میں طاؤس فرماتے ہیں کہ چار اشخاص کی تعظیم کرنا سنت سے ہے، عالم کی، شیخ (بزرگ عمر رسیدہ) کی، سلطان کی اور والد (اور والدہ) کی۔ اور اگر والد بوڑھے بھی ہوں، عالم اور حامل قرآن بھی اور سلطان بھی ہوں تو ان کی تعظیم و توقیر میں اضافہ ہوگا کہ اب کئی وجوہ جمع ہوگئیں۔

خطیب نے اپنی جامع میں حضرت انس سے روایت کی کہ

مِنَ الْإِجْلَالِ تَوْقِيرُ الشَّيْخِ مِنْ أُمَّتِي

میری امت کے شیخ کی توقیر کرنا اجلال (خداوندی کی وجہ) سے ہے۔

اور بلاشبہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے جامع کلمات میں سے ہے۔ کیونکہ لفظ شیخ مطلق ہے اور کسی بھی عمر رسیدہ، شیخ، عالم اور رئیس یا سلطان، سب کیلئے بولا جاسکتا ہے۔ اور انہی جامع کلمات میں سے آپ کا یہ کلمہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ الشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ

تعظیم بزرگان :

مقاصد الحسنہ میں یہ احادیث ہیں جو بزرگوں کی تعظیم پر قرب معنی سے دلالت کرتی ہیں۔

1- الشيخ في قومه كالنبي في أمته

یعنی شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔

2- البركة مع أكابركم

یعنی برکت تمہارے بڑوں میں رکھی گئی ہے۔

3- ليس منا من لم يوقر كبيرنا

یعنی جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

4- ما أكرم شاب شيخا إلا قيض اللَّه له عند سنه من يكرمه

یعنی کوئی جوان کسی بوڑھے شیخ کی تعظیم نہیں کرتا مگر اللہ اسے وہ (لمبی) عمر عطا فرماتا ہے جس میں اس کی عزت و تعظیم کی جائے۔(لمبی عمر کے حصول کیلئے کتنا بہترین اور سستا نسخہ عطا فرمادیا میرے نبی نے۔ ان پہ لاکھوں کروڑوں درود و سلام)

کشف الخفاء میں ہے کہ و روى الديلمي عن أنس مرفوعا بجلوا المشايخ فإن تبجيل المشايخ من إجلال الله عز وجل فمن لم يبجلهم فليس منا.

دیلمی نے حضرت انس سے روایت کی کہ مشائخ کی تعظیم بجا لاؤ۔ کیونکہ ان مشائخ کی تعظیم اجلال خداوندی سے ہے۔ جس نے مشائخ کی تعظیم نہ کی وہ ہم میں سے نہیں۔

اسی میں ہے کہ ابی زید (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) نے آئینہ دیکھا تو فرمایا

ظَهَرَ الشَّيبَ، وَلَم يَذْهَبُ الْعَيْبَ، وَ لا أدْري مَا في الغيبِ

یعنی بڑھاپا آگیا لیکن (میرے) عیب (برائیاں اور گناہ) نہیں گئے اور میں نہیں جانتا کہ آگے کیا ہے۔

اس کے بعد کشف الخفاء میں یہ حدیث نقل فرمائی کہ الشيخ في قومه كالنبي في أمته

تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس میں ہے کہ مرشد کامل کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر آن خلق کی ہدایت میں مصروف رہے۔ اور اسے ہر وقت تائید الہی حاصل ہو تاکہ وہ مریدوں اور فائدہ حاصل کرنے والوں کو فائدہ پہنچا سکے۔ اور وہ عالم اور ولی اور شیخ ہوتا ہے، اسی طرف سرکار نے اشارہ فرمایا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ شیخ کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کا ولی (اس کا دوست اور قریب) ہو۔ اور ولی کیلئے لازمی ہے کہ وہ عالم ہو، کیونکہ اللہ کسی جاہل کو اپنا دوست نہیں بناتا۔

عورتوں سے بیعت لینا:

تفسیر بحر المدید میں ہے کہ حضرت امیمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ہم سے مصافحہ فرمائیں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ

ما مست يدُ رسولِ الله (صلى الله عليه وسلم) يدَ امرأةٍ قط، إنما بايعهن كلامًا

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی عورتوں کے ہاتھوں سے مس نہیں ہوا۔ ان کی بیعت صرف کلام سے تھی۔ اور کہا گیا ہے کہ ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانی کے برتن میں ہاتھ ڈال کر تھی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خواتین۔

پھر فرمایا کہ اشارہ ہے کیونکہ شیخ اپنی قوم میں یوں ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔ (یعنی نبی کی پیروی کرے اور یونہی بیعت کیا کرے۔ بیعت کیلئے خواتین سے مصافحہ نہ کیا کرے۔ یاد رکھیں کہ پردہ کے باب میں پیرو غیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے۔ راقم)

صدر الشریعہ، بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَـیْہ فرماتے ہیں :''اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کو دیکھنا اگرچہ جائز ہے مگر چھونا جائز نہیں ، اگرچہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ نظر کے جواز کی وجہ ضرورت اور بلوائے عام ہے چھونے کی ضرورت نہیں ، لہٰذا چھونا حرام ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان سے مصافحہ جائز نہیں اسی لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بوقت بیعت بھی عورتوں سے مصافحہ نہ فرماتے صرف زبان سے بیعت لیتے۔ ہاں اگر وہ بہت زیادہ بوڑھی ہو کہ محل شہوت نہ ہو تو اس سے مصافحہ میں حرج نہیں۔ یونہی اگر مرد بہت زیادہ بوڑھا ہو کہ فتنہ کا اندیشہ ہی نہ ہو تو مصافحہ کر سکتا ہے۔''

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عورتوں کی بیعت کے متعلق فرمایا کہ حضور علیہ ا لصلوۃ و السلام یٰاَۤ یُّھَا ا لنَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الْمُؤمِنَاتُ سے عورتوں کاامتحان فرماتے تھے جو عورت اس آیت کا اقرار کرلیتی تھی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اس سے فرماتے تھے کہ میں نے تجھ سے یہ بیعت لے لی۔ یہ بیعت بذریعہ کلام ہوتی تھی۔ خدا کی قسم کبھی بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے بیعت کے وقت نہیں لگا۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں: عورت کے لئے اجازتِ شوھر کی حاجت نہیں۔

شاندار عورت

روایت ہے حضرت سعد سے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے عورتوں سے بیعت لی تو ایک شاندار عورت، شاید وہ مضر کی عورتوں سے تھی، اٹھی اور بولی یا نبی اللہ ہم تو اپنے باپ، دادوں، اولاد اور خاوندوں پر بوجھ ہیں ہمیں ان کے مالوں سے کس قدر درست ہے فرمایا تر کھانا جسے تم کھالو اور ہدیہ دے سکو (ابوداؤد)

اولیائے کرام کا اجماع ہے کہ داعی الی اللہ کا مرد ہونا ضرور ہے لہذا سلف صالحین سے آج تک کوئی عورت نہ پیر بنی نہ بیعت کیا۔ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :

لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ

یعنی ہر گز وہ قوم فلاں نہ پائے گی جنھوں نے کسی عورت کو والی بنایا۔ اس کو ائمہ کرام احمد وبخاری و ترمذی اور نسائی نے ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔

اولیائے کرام فرماتے ہیں: ایک شخص کے دو باپ نہیں ہو سکتے، ایک عورت کے دو شوہر نہیں ہو سکتے، ایک مرید کے دو شیخ نہیں ہو سکتے۔

ریاکاری :

کتاب بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية میں ہے کہ ریاکاری کی ایک وجہ تکبر ہے کہ آدمی نیک اعمال کا اظہار اس لئے بھی چاہتا ہے کہ لوگ اسے اپنے سے افضل سمجھیں۔

اللہ پاک ہر ایک کو ریاکاری سے بچائے۔ تاہم دینی معظم ہستیوں کیلئے کافی چیزوں کے اظہار کی رعایت ہے۔ تاکہ حلق خدا ان سے نفع اٹھا سکے۔ اسی لئے امام اعظم فرماتے ہیں اپنے عماموں کو خوبصورت اور آستینوں کو وسیع رکھو۔ اور اسی لئے خطیب جمعہ کیلئے جائز ہے کہ وہ جسم و لباس کی زینت میں اضافہ کرے۔ یہ اظہار اس کیلئے ہے جس کے نیک عمل کی اقتداء کی جاتی ہو۔ پھر صاحب کتاب نے یہ نقل کیا کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے، جیسے نبی اپنی امت میں۔(یعنی ایسا شخص اگر اپنی نیکیوں کا اظہار اس غرض سے کرے کہ اس کی اقتدا کی جاتی ہے تو لوگوں کو نفع ہوگا۔ راقم)

نزہت المجالس میں ہے کہ اللہ پاک صبح شام شیخ کے چہرے کو دیکھتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ تیری عمر زیادہ ہوگئی، تیری ہڈیاں کمزور ہو گئیں، تیری کھال نرم پڑ گئی، اور تیری موت قریب آگئی۔ پس اب تو مجھ سے حیا کر اور میں تجھ سے۔

امام غزالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے، جس طرح اپنی امت میں نبی ہوتا ہے۔ اور یہ اس لئے نہیں کہ وہ مال اور بڑائی اور قوت میں زیادہ ہوتا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ تجربے میں زیادہ ہوتا ہے جو کہ عقل کا ثمرہ ہے۔

ضعیف و موضوع :

بعض حضرات نے اس حدیث شریف کو ضعیف یا موضوع کہا ہے۔ وہ یہ ہیں: ابن تیمیہ، امام ابن حجر، امام سخاوی، ، ابن حبان وغیرہ

تاہم جنہوں نے اسے کسی وجہ سے ضعیف یا موضوع کہا ہے وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ علمائے اسلام کا قول ہے اور العلماء ورثۃ الانبیاء (حدیث) سے اس حدیث کی تائید بھی ہوتی ہے۔

اپنے ذخیرۂ کتب میں مجھے اس حدیث کے 43 حوالے ملے جن میں سے 9 جگہ اسے ضعیف یا موضوع بھی کہا گیا ہے۔ تاہم جنہوں نے اس پر صحیح ہونے کا اعتبار کیا ہے ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور وہ نام اتنے بڑے ہیں (جیسے امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ ) کہ آپ نہایت اطمینان سے اس حدیث کا حوالہ دے سکتے ہیں۔

امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:

'بے شک ہم جان چکے ہیں، کہ جسم کی بیماری کا علاج اس کی ضد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح مرضِ دل کا معاملہ ہے۔ اور یہ چیز لوگوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اور شیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے نبی اپنی اُمّت میں، وہ مرید کا حال دیکھتاہے اوراس پر غالب آنے والی صفات کو جانتاہے اور ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جن سے مُرید کا علاج ممکن ہوتا ہے، لہٰذا وہ اسے ابتدائی مرحلے میں عبادات، کپڑوں کو پاک و صاف رکھنے، نمازوں پر پابندی اختیار کرنے اور تنہائی میں اللہ جَلَّ جَلالُہٗ کا ذکر کرنے میں مشغول رکھتا ہے۔ پس اس طرح اس کے پوشیدہ عیوب اس طرح ظاہر ہوجاتے ہیں جس طرح پتھر میں چھپی آگ (ایک پتھر کو دوسرے پر مارنے سے) ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر اس کے پاس زائد مال ہو تو شیخ اسے لے کر محتاجوں میں بانٹ دیتا ہے تاکہ اس کا دِل فارغ ہوجائے اور اس کے دِل کا فارغ ہونا ہی اصل چیز ہے۔'

کسی نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں لکھ دیا کہ آپ ہم لوگوں میں مثل رسول و نبی کے ہیں آپ خاکسار وں کی عرض سن کر جواب روانہ فرمائیں۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان الفاظ کے ساتھ انہیں تنبیہاً جواب ارشاد فرمایا:

تنبیہ: 'مولانا! یہ لفظ (مثل) بہت سخت ہے لا الٰہ الا اللہ یہ فقیر ذلیل سیاہ کار نابکار کیا چیز ہے؟ ہاں اکابر کے لئے یہ لفظ حدیث میں آیا ہے کہ الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ (شیخ اپنی قوم میں مانند نبی کے ہیں اپنی امت میں) مگر مثل اور مانند میں بہت فرق ہے مثل معاذ اللہ مساوات کا ایہام کرتا ہے اور مانند صرف ایک مشابہت چاہتا ہے، اس لئے سیدنا امام اعظم رضی اللہ عنہ نے ایمانی کایمان جبریل (میرا ایمان جبرائیل (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کے ایمان کی مانند ہے۔) فرمایا نہ کہ مثل ایمان جبریل (مثل ایمان جبریل۔)'

آپ نے دیکھا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی اس حدیث شریف کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ عاشقوں کے سردار کے بعد اب اور کسی دلیل کی کیا ضرورت؟

نیز آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں کہ

'حدیث : الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ (شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسا کہ نبی اپنی امت میں)۔

جسے ابن حبان نے کتب الضعفاء اور دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت ابورافع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ایسا فرمایا۔ اگرچہ امام ابن حجر عسقلانی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اور ان سے پہلے ابن تیمیہ نے موضوع اور امام سخاوی نے باطل کہا مگر صنیع امام جلیل جلال سیوطی سے ظاہر کہ وہ صرف ضعیف ہے باطل وموضوع نہیں انھوں نے یہ حدیث دو وجہ سے جامع صغیر میں ایراد فرمائی۔ جیسے فرمایا کہ شیخ اپنے اہل یعنی اپنی قوم میں ایسے ہے جیسا کہ نبی اپنی امت میں، اسے ذکر کیا خلیل نے اپنی کتاب مشیخت میں اور ابن نجار نے ابو رافع سے روایت کی، شیخ اپنے بیت میں جیسے نبی اپنی قوم میں، ابن حبان نے ضعفاء میں اور شیرازی نے القاب میں حضرت ابن عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی۔'

پیر و مرشد کا مرتبہ :

حضرت سیدنا داتا گنج بخش ہجویری (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اپنی شہرۂ آفاق کتاب کشف المحجوب میں اور حضرت سیدنا علامہ مُلّا علی قاری (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) مرقاۃ المفاتیح میں نقل فرماتے ہیں کہ اَلشَّیخُ فِی قَومِہ کَالنَّبِیِّ فی اُمَّتِہ یعنی شیخ اپنی قوم میں ایسے ہوتا ہے جیسے نبی اپنی اُمت میں۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فتاویٰ رضویہ شریف میں امام جلال الدین سیوطی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کے حوالے سے مذکورہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہاں شیخ سے مراد ہادیانِ راہِ خدا ہیں: یعنی وہ لوگ جو اللہ (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) کی راہ کی جانب ہدایت دینے والے ہیں اور قرآنِ کریم میں ایسے لوگوں کی اطاعت کو لازم قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں ربّ العزّت (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) ارشاد فرماتا ہے:

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ … } [النساء: 59]

ترجمہ: حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا؛ اور ان کا جو تم میں حکومت (حکم) والے ہیں۔

یہاں اولی الامر سے مراد علمائے شریعت و طریقت دونوں ہیں۔

معصومیت یا حفاظت؟

بہت سے لوگ وہ بھی ہیں جو اپنے شیوخ کے بارے میں غیر ضروری مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتے ہیں اور جب تک انہیں قطب الاقطاب کے منصب پر فائز نہ کردیں، انہیں چین ہی نہیں آتا اور ان کی محبتِ شیخ کی تکمیل ہی نہیں ہوتی۔

ایک صاحب کو میں نے دیکھا (قبلہ حضرت اعظم صاحب (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اس وقت حیات تھے اور یہ واقعہ بھی ان کے لیہ والے گھر "ہیرا مائنر" کا ہے) کہ وہ جلالی طبیعت کے تھے اور نبیوں پر بھی (معاذ اللہ) حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کی فضیلت ثابت کر رہے تھے۔ یہ لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں اور کم علمی اور محبت کے باعث آنکھیں چوندھیا جانے کی وجہ سے راستہ گم کر بیٹھنے والے ہیں۔ اللہ پاک انہیں بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین!

امامت اور معصومیت

یاد رکھیں کہ اہلِ سنت و جماعت اماموں کی عظمت اور بزرگی کے قائل ہیں لیکن ان کی معصومیت کے ہرگز قائل نہیں۔ بعض لوگوں کے ہاں ان کے امام کا ہر ظاہری و باطنی رزائل و فواحش سے پیدائش سے موت تک عمداً و سہواً معصوم ہونا واجب ہے۔ صرف ایک حوالہ یہاں پیش کرتا ہوں:

«فالإمام ‌كالنبى يجب أن يكون معصوما من جميع الرذائل والفواحش، ما ظهر منها وما بطن، من سن الطفولة إلى الموت، عمدا وسهوا». [«منهج الإمام الطاهر بن عاشور في التفسير»]

اہلِ سنت اپنے اماموں اور بزرگوں اور علما و مشائخ کیلئے حفاظت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ انہیں گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے، نہ کہ یہ کہ شرعی طور پر وہ ارتکابِ گناہ کر ہی نہیں سکتے۔

بیشک ہم اپنے اکابرین کیلئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے بعد معصومیت کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ امام مہدی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بھی ہم محفوظ مانتے ہیں۔

ہمارے کسی کو معصوم مان لینے سے وہ معصوم نہیں بن جاتا۔ معصوم وہی ہے جسے اللہ نے معصوم بنایا ہے۔ ہم اپنے نبی کو خدا (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) کے مقام پر، یا غیرِ نبی کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے مقام پر ہر گز نہیں رکھتے۔

حفاظت کیا ہے؟

جو معصوم نہ ہو، اس سے یہ لازم نہیں ہوجاتا کہ وہ گناہ گار ہے۔ اللہ کے ولیوں کے بارے میں ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے انہیں خطاؤں اور گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ زندگی بھر گناہ کا صدور نہیں کرتے، لیکن اگر ان سے کبھی گناہ ہوجائے تو یہ نا ممکن بھی نہیں۔

حفاظت اور معصومیت نبی اور ولی میں حدِ فاصل ہے۔ اگر ولیوں کو بھی معصوم مان لیا جائے تو نبی اور ولی میں فرق ہی اٹھ جائے گا۔

ہم اپنے شیوخ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) اپنے فضل و کرم سے انہیں لغزشوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

بزرگوں کے منکرین

دریدہ دہن :

ہر دور میں بزرگوں کے عقیدت مند بھی رہے ہیں اور تہذیب نو کے انڈوں سے پھدک کر برآمد ہونے والے گستاخ بھی۔ انہی بد زبانوں میں ایک نام انجینئر علی مرزا کا بھی ہے۔ ہر وقت گدھے کی طرح کتابیں لادے وہ اپنے چیلوں کے اذہان کو نہایت چالاکی سے اپنا معتقد اور بزرگوں کا گستاخ بنانے کی سعئ لا حاصل میں لگا ہوا ہے۔ شیطان کے گلے میں پڑے طوق کو بڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ جیسے وہ کوئی خوشنما ہار ہو۔ چاہے اب وہ کتنی ہی کوششیں کرلے، وہ طوق تو جس کو ملنا تھا، مل گیا، اسے تو اس کا بس ایک آدھ لنک ہی مل سکتا ہے۔

انجینئر کا طریقۂ واردات :

بزرگوں کی ہزار سالہ پرانی کتابیں لے کر وہ ان میں سے کوئی بات اپنے بے تکے ذہن سے سمجھ کر انہیں کافر و مشرک گردان رہا ہے۔ ایک بات سیاق و سباق سمجھے بغیر اسے اپنے تئیں قرآن و حدیث پر پیش کرتا ہے اور یک طرفہ فیصلہ صادر فرما دیتا ہے کہ غوث پاک کو مان لو یا قرآن کو مان لو۔ داتا صاحب کی سن لو یا اللہ کی سن لو، بابا فرید کے جنتی دروازے یا اللہ کی جنت کے دروازے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلو، وغیرہ وغیرہ۔

باسی یو ٹیوب کا :

تم کون ہوتے ہو ایسا آپشن رکھنے والے؟ ہر وقت یو ٹیوب کی گٹر لائن میں گھسے رہو گے تو ایسی ہی مت ماری جائے گی۔ دنیا یو ٹیوب سے کہیں زیادہ وسیع ہے مرزا جی! آپ کے ماننے والے مرزائی تو آپ کے بل (یو ٹیوب) میں گھس کر آپ پر یقین کر سکتے ہیں، کوئی دوسرا شخص تو ماننے سے رہا۔ چار کتابیں پڑھ کر عالی مرتبہ شیوخ اور ولیوں کو تم ہی گمراہ سمجھ سکتے ہو، ہم نہیں۔

ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

نئی تہذیب کے اتنے پرستار نہ بنو کہ بعد کو تمہارے ہی لوگ تمہیں کو دنیا کا سب سے بڑا گمراہ شخص سمجھنے لگیں۔ جن عظیم المرتبت لوگوں کی محنتوں اور کاوشوں سے دین ہر دور میں زندہ رہا اور ہم تک پہنچا، غضب خدا کا کہ انہی کو تضحیک کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایسی نئی تہذیب کس کام کی؟ شاید اسی لئے حکیم امت پہلے ہی ارشاد فرما گئے کہ ؎

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں

نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

انجینئر کا کنگ فو :

ہماری بات تو تمہاری سمجھ میں آنے سے رہی، شاؤلن مشرکوں کی بات تو خوب سمجھ آئے گی۔ انہیں سے اپنے اساتذہ و شیوخ کی تعظیم و توقیر کا درس لے لو۔ بس اتنا کہتا ہوں کہ قرآن و حدیث سے کنگ فو مت کھیلو۔ یہ عظیم چیزیں کنگ فو مناظروں اور مذہبی مقابلوں کیلئے نہیں، انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے ہیں۔




اجازت نامہ

  1. یہ متن نوری آستانے کی ملکیت ہے۔ اسے یا اس کے کسی حصے کو (بعینہٖ یا تبدیلی اور خورد برد کر کے) تجارتی یا دیگر کسی بھی مادّی مقاصد و مالی منفعت کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی، اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
  2. اس تحریر کو جو پڑھے اور مسلمانوں کے لئے کارآمد جان کر نیک نیتی کے ساتھ اسے یا اس کے کسی باب یا حصے کو صرف اور صرف تبلیغِ اسلام کے لئے چھپوانا چاہے یا اپنی کسی تحریر میں (Verbatim) پیش کرنا چاہے، یا اس کی وربیٹم نقول (جیسے کمپیوٹر کاپی) تیار کرنا چاہے تو اسے اس کی پوری اجازت ہے۔

خود کارانہ عددی تجزیہ (Mar 31, 2022)

Aadad

1786854

Alphabets (Arabic/English/Urdu))

25605

Characters (Excluding Spaces)

28356

Characters (With Spaces)

35487

Dot-free Words (Longest)

الاحکام

الملائك

العلماء

Dotted Words (Most Dots)

مشتقات

اثْنَتَيْنِ

الْأُنْثَيَيْنِ

Frequent Nouns

امت

اللہ

شیخ

Longest Words

المفاتیح

ہندوستانی

المجاهدين

Non-alphabets (Symbols etc.)

9882

Reading Ease

69 %

Reading Time

30 Minutes

Sentences

1557

Words (Total)

7417

Words (Unique)

1875

Mar 24, 2022 Aastana-e-Noori Page  of


[1] { هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَ مِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ وَ لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ }  [غافر: 67].

[2] فرشتوں کے وجود کے بارے میں یہ کتاب علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیفِ لطیف ہے اور بے حد شاندار کتاب ہے۔

[3] { يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَ إِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَ لِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَ وَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَ أَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا } [النساء: 11].

[4] یہ حدیث شریف روح البیان میں چار جگہ موجود ہے۔ کنز العمال اور نامع الاحادیث میں بھی منقول ہے۔ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله - صلى الله عليه وسلم - إِنَّما ‌أَنَا ‌لكُم ‌كَالَوالِدِ ‌لِوَلَدِهِ أعلمكُمْ إِذَا أَتَى أَحَدكُم الغَائطَ فَلَا يَسْتَقْبل الْقِبْلَةَ، وَلَا يَسْتَدْبرهَا، وَإِذَا اسْتَطابَ فَلَا يَسَتطب بِيمينه، وَكَان يَأْمُرُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، وَيَنْهَى عَنِ الرَّوْثِ وَالرَّمَّةِ وَهِيَ الْعَظمُ"

[5] { أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ } [المؤمنون: 10].

[6] «اما السبب ‌فهو ‌الارادة ‌ولبس خرقتهم والتبرك بزيهم والتشبه بهم. واما النسب فهو الصحبة معهم بالتسليم لتصرفات ولايتهم ظاهرا وباطنا بصدق النية وصفاء الطوية». [«روح البيان» (2/ 174)]

[7] Jesus answered and said unto him, Verily, verily, I say unto thee, Except a man be born again, he cannot see the kingdom of God. John 3:3 (KJV)

[8] «اتقوا ‌أذى ‌المجاهدين ‌فى ‌سبيل ‌الله فإن الله يغضب لهم كما يغضب للرسل ويستجيب لهم كما يستجيب لهم». [«جامع الأحاديث» (1/ 310 بترقيم الشاملة آليا)]

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں