نوری رموز اوقاف

نوری رموزِ اوقاف

فہرست

تحریروں میں استعمال ہونے والی علامات اور ان کے نام:

سکتہ(،) کم از کم ٹھہراؤ

وقفہ(؛)، تعلیلیہ یا Semicolon

اصول و ضوابط

رابطہ (:)وقفِ لازم Colon

تفصیلیہ (:-) علامت ذیل

ختمہ (۔/․) وقف مطلق ،وقف تام ، وقفِ کامل، فُل اسٹاپ

ختمہ (۔) کا مفہوم

نوٹ: (۔)

واوین ( ' ', " " ) علامت اقتباس، اقتباسیہ یا انورٹڈ کاماز

علامتِ تعجب (!) فجائیہ، ندائیہ، اور استعجابیہ

علامتِ ندا (!) ندائیہ

فجائیہ (!)

سوالیہ (؟/?)علامت استفہام و استدلال

خط (---، ـــــــــــ)

قوسین (( ))علامت قوسین, خطوط وحدانی

نقطے (․․․․․) علامت ترک

علامت علامت شعر (؎) کا مفہوم

علامت مصرع (؏) کا مفہوم

علامت ایضا( //) ۔

خطِ فاصل (/)

علامات

مخففات

ان رموز کو لکھنے کا صحیح طریقہ

مضمون کیسے لکھیں؟

اجازت نامہ


رموز اوقاف(Punctuation) کی اہمیت

تحریر میں رموزِ اوقاف کی ضرورت و اہمیت پر ایک جامع رسالہ


انسان جب گفتگو کرتا ہے، تو اس کے مختلف اسلوب و انداز ہوتے ہیں، بات کبھی مثبت ہوتی ہے، تو کبھی منفی، کوئی لمحہ غم کا ہوتاہے، تو کوئی خوشی کا، لہجہ کبھی سخت ہوتا ہے، تو کبھی نرم، کوئی بات اسے تعجب میں ڈالتی ہے، تو کبھی اسے خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. غرض کہ روز مرہ میں نرمی، سختی، خوشی، غم، تعجب، استفہام، خوف، غصہ. اس طرح کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ پائے جاتے ہیں اور یہی حال قلم کابھی ہے، اس لیے کہ قلم بھی انسان کی خاموش زبان ہے اور زبان کے زریعے سے نکلنے والے دلی احساسات وجذبات کا ترجمان بھی۔

انسان جہاں اپنی گفتگو کوموٴثر بنانے کے لیے اس کے آداب کی مکمل رعایت کرتاہے، وہیں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زبان کے ساتھ اپنے قلم سے نکلی ہوئی تحریر میں بھی اسے ملحوظ رکھے، اس لیے کہ ایک قلم کار اپنی تحریر کے ذریعے دنیا کو عظیم پیغام دیتاہے اور اپنے طبقے کو ترقیات کے بامِ عروج پر دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کہ آلہ کو آلہ کے اصول کے مطابق نہ چلایا جائے، یعنی قلم بھی ایک آلہ ہے، بلکہ ابلاغ کا ایک موٴثر ذریعہ ہے اور اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جن کی رعایت ناگزیر ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اپنے زمانہ کا سب سے بڑا فصیح وبلیغ ہوا کرتا تھا جس کی شہادت قرآن میں صراحتاً موجود ہے۔

قلم کے مسافر کے لیے جس طرح دیگر اصول وضوابط کی ہم رکابی ضروری ہے، اسی طرح اپنی تحریر میں "رموز اوقاف" کا توشہ بھی ناگزیر ہے اور نہ صرف رموز اوقاف کی محض معلومات بلکہ ان کا برمحل استعمال مقصود ہے۔

کلام یا جملوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھنے اور جدا کرنے کے لئے جو علامات استعمال کی جاتی ہیں انہیں رموز اوقاف کہتے ہیں۔ جملے کے درست مطلب کے لئے ان کا جاننا اور استعمال کرنا اشد ضروری ہوتا ہے۔

آج ایک طبقہ تو شاید "رموز اوقاف" کے رموز سے واقف ہی نہیں اور اگر ہے بھی، تو ان کی رعایت "آٹے میں نمک" کے برابر ہے. ہاں ادبی تحریروں میں تو ان کی رعایت کی جاتی ہے، لیکن رموز اوقاف کا تعلق محض ادبی تحریروں ہی سے نہیں ہے بلکہ مطلق اس کا تعلق کسی زبان کے تحریری مواد سے ہے۔

اسی جذبے کے پیش نظر رموز اوقاف سے متعلق مختلف کتابوں اور انٹرنیٹ پر موجود مواد اور اردو گرامر کی بہت سی دیگر کتب کو سامنے رکھ کر چند باتیں سپرد قرطاس کی جاتی ہیں۔

تحریروں میں استعمال ہونے والی علامات اور ان کے نام:

  1. سکتہ (،)
  2. وقفہ (؛)
  3. رابطہ (:)
  4. تفصلیہ (:-)
  5. ختمہ (۔/․)
  6. سوالیہ (؟/?)
  7. فجائیہ،ندائیہ (!)
  8. قوسین (( )/())
  9. خط (ـــــــ), علامت خط
  10. واوین (" ")

آئیے اب ان کی کچھ تفصیل ملاحظہ کرتے ہیں:


  1. سکتہ(،) کم از کم ٹھہراؤ

یہ چھوٹا سا اور مختصر وقفہ ہوتا ہے، جس میں ہلکا سا توقف کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس کو انگریزی میں کوما (،) کہتے ہیں۔ اس کے استعمال سے عبارت کی صحیح طور پر وضاحت ہوجاتی ہے۔

یہ ان چھوٹے چھوٹے جملوں یا ان کے الفاظ یا مرکبات کے درمیان استعمال ہوتا ہے جن سے مل کر ایک بڑا جملہ بنتا ہے اورایک بات مکمل ہوجاتی ہے۔ ایک جملے کے تحریر میں کم از کم ٹھہراؤ کے لیے سکتہ(وقفِ خفیف) کی علامت لگائی جاتی ہے۔ یہ کبھی تو ناموں اور کبھی چھوٹے چھوٹے جملوں کے درمیان استعمال ہوتا ہے۔

تحریر میں سکتہ یا کامہ ایک سے زائد کاموں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے؛ جیسے:

  1. دو سے زائد مختصر جملوں کے درمیان
  2. ان چھوٹے چھوٹے جملوں کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے جن سے مل کر ایک بڑا جملہ بنتا ہے اورایک بات مکمل ہوجاتی ہے۔
  1. مثال: استاذ محترم آئے، درس گاہ میں داخل ہوئے، کرسی پر بیٹھے اور سبق پڑھایا۔
  2. ميں گھر سے بازار گيا، بازار سے مدرسے آيا، اب مدرسے سے گھر واپس جاتا ہوں۔
  1. دو یا دو سے زيادہ ايک ہی درجے کے جملوں کے درميان
  1. نہ نو من تيل ہوگا، نہ رادھا ناچے گي۔
  2. جس شخص نے مجھ سے، آپ سے کل باتيں کی تھيں۔
  3. سارا زمانہ آيا، پر وہ نہ آيا۔
  1. دو سے زائد اسماء کے درمیان
  2. مختلف اسما کو جوڑنے کے لیے بطور حرف عطف کے بھی استعمال ہوتا ہے، خواہ وہ معطوف، معطوف علیہ ہوں۔
  1. مثال: حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی ایک ہی شمع کے چار پروانے تھے۔
  1. دو سے زائد اسمائے مصادر کے درمیان
  1. مثال : لڑنا، جھگڑنا اور گالی دینا بری بات ہے۔
  1. دو یا دو سے زائد صفات (اوصاف) کےدرمیان
  1. راست گوئی، دیانت داری اور فرض شناسی بہترین صفات ہیں۔
  1. ایک موصوف کی متعدد صفات کے درمیان
  1. عادل ذہین، محنتی، با ادب اور خوش خلق طالب علم ہے۔
  2. عمران خان جیسا مدبر ،ذہین اور دیانت دار کوئی سیاست دان نہیں ۔
  1. دو سے زائد منادیٰ (جسے پکارا جائے) کے درمیان
  1. میرے بھائیو!، بزرگو! اور دوستو!
  2. جنابِ صدر، خواتين و حضرات!
  3. جنابِ من، تسليم!!
  1. شرط وجزا کے درمیان
  1. جب حق آیا، تو باطل خود بخود چھٹ گیا۔
  1. صلہ وموصول کے درمیان
  1. انسان وہ ہے، جس کے اندر انسانیت ہو۔
  1. مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ کے درمیان
  1. آج کا دور، ترقیاتی دور کہلاتا ہے، لیکن سکون مفقود ہے۔
  2.  انگریز ہندوستان سے تو گئے، مگر دو ٹکڑے کرکے۔
  3. درس گاہ پابندی سے آؤ، پر موبائل نہ لاؤ۔
  1. دو یا دو سے زائد اسم ِ ضمائرکے درمیان
  1. وہ ، آپ اور ہم سب پاکستانی ہیں۔
  1. دو یا دو سے زائد اشیاء کےدرمیان
  1. گھر کی تعمیر کے لیے سیمنٹ ، بجری ، ریت اور اینٹیں درکار ہیں۔
  1. کسی جملے میں چیزوں یا اجزا کی تفصیل بیان کرتے وقت
  1. سال میں چار موسم ہوتے ہیں مثلاً: سردی، گرمی، خزان، بہار…… وغیرہ۔
  1. مبتدا اور خبر کے درمیان
  1. مثلاً: اردو زبان میں سیرت کی سب سے شاہ کار کتاب، سیرت النبی ﷺ ہے۔
  1. ايسے ضمائر کے درميان جو ايک دوسرے کے بدل کا کام ديتے ہوں
  1. "جہانگير، ابن اکبر، شہنشاہ ہندوستان نے جب………………. "
  1. ايک ہي قسم کے کلمے کے ان تين یا تين سے زائد لفظوں کے درميان جو ساتھ ساتھ استعمال کيے گئے۔ اس حالت ميں پہلے دو کے درميان سکتہ اور آخری دو کے درميان حرف عطف یا حرف ترديد ہو گا۔
  1. حيدر آباد، ميسور اور سرنگا پٹم
  2. حميد، اصغر یا اکبر نے یہ کام کيا ہو گا۔
  3. اکبر بہت عقل مند، وسيع النظر اور ہمدرد بادشاہ تھا۔
  1. تعقيد کے اظہار کے ليے
  1. ديوار، بار منتِ مزدور سے، ہے خم۔
  2. صدر نے، جو بہت مصروف تھے، مجھے وقت ديا۔
  1. مختلف جوڑوں کے درمیان
  1. صبح ہو کہ شام، سفر ہو کہ حضر، سردی ہو کہ گرمی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہیے۔
  1. وقفہ(؛)، تعلیلیہ یا Semicolon

مفرد جملہ کے اختتام پر یہ علامت (؛) لگائی جاتی ہے۔ سکتہ (وقفِ خفیف) کی نسبت یہاں زیادہ ٹھہرتے ہیں۔ وقفہ(؛)، نصف وقف(۔ یا فل اسٹاپ) کے برابر ہوتا ہے۔

جب سکتے سے زيادہ ٹھہراؤ کي ضرورت ہو یا جملوں کے لمبے لمبے اجزا جو ايک سے معاني دے رہے ہوں تو انہيں عليحدہ کرنے کے ليے وقفہ (؛) کا نشان ضروري ہوتا ہے۔

اصول و ضوابط

  1. طویل جملوں کے اجزا کو علیحدہ کرنے اور زور دینے کے لیے
  1. لاہور پنجاب کا؛کراچی سندھ کا؛ کوئٹہ بلوچستان کا اور پشاور سرحد کا دارالخلافہ ہے
  1. محاورات کے درمیان جو دو حصوں پر مشتمل ہوں ۔
  1. جو کرے گا ؛ سو بھرے گا
  1. اس کا استعمال جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ہوتا ہے، جہاں سکتہ کے (،) بالمقابل زیادہ ٹھہراؤ کی گنجائش ہو۔جیسے:
  1. " سرخیاں بنانے کے طریقے؛ سرخیوں کی قسموں؛ ان کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں؛ اخبار کی زینت کاری وغیرہ کے مسائل کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری کو کسی خشکی کا احساس نہیں ہوتا۔"
  1. جملوں میں ربط دینے والے الفاظ جیسے "ورنہ"، "اس لیے"، "لہٰذا"، "اگرچہ"، "لیکن" وغیرہ سے پہلے وقفہ کی علامت ہوگی۔ جیسے:
  1. مشک کی تعریف کرنا خود اپنی قیمت کو بڑھانا ہے؛ ورنہ مشک تعریف و توصیف سے اعلیٰ اور کہیں برتر وبالا ہوتا ہے۔
  2. مستقل مزاجی سے تھوڑا کام بھی بہتر ہے اس کام سے جو مستقل مزاجی سے نہ ہو؛ اس لیے کسی بھی فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے استقلال ضروری ہے۔
  3. ادب و احترام، پابندی وقت انسان کو آگے بڑھانے والی چیزیں ہیں؛ لہٰذا: ادب کے ساتھ وقت کی انمول دولت کی حفاظت کرو!
  4. محنت اور جدوجہد کو نہ چھوڑو؛ اگرچہ بھوک کی تکلیف برداشت کرنا پڑے اور رات کی نیند قربان کرنا پڑے۔
  5. دنیا روشن پیدا کی گئی ہے؛ لیکن یہی روشنی کبھی تاریکی میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔
  1. طویل جملوں کے اجزا کو علیحدہ کرنے اور زور دینے کے لیے اور جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے، جہاں سکتہ کے بالمقابل زیادہ ٹھہراؤ کی گنجائش ہو۔
  1. ہم اردو زبان پر ایسے مضامین لکھا کریں گے؛ جنھیں آپ پڑھیں گے تو یقینا آپ کا فائدہ ہوگا ۔
  2. آج ہم مسلمان ہیں، روحانی ترقی سے تو محرم ہیں ہی؛ مادی ترقی سے بھی دور ہیں۔
  1. جہاں جملوں پر زیادہ تاکید دینا مقصود ہو جیسے:
  1. جو کرے گا، سو پائے گا؛ جو بوئے گا، سو کاٹے گا۔
  2.  کرسیوا؛ کھا میوا۔
  1. جن جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ربط پیدا کرنے والے الفاظ آئیں، وہاں ذہن کو سمجھنے کا موقع دینے کے لیے ان لفظوں سے پہلے وقفے کی علامت لگائی جاتی ہے جیسے:
  1. چوں کہ فرحان کو اپنی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل ہی دوسری اچھی ملازمت مل گئی؛ اس لیے پہلی ملازمت چھوڑنے میں دِقت نہ رہی۔
  1. جس جملے کے بعض ایسے حصوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑے جن میں اندرونی طور پر سکتہ موجود ہو، ایسی صورت میں وقفہ لایا جاتا ہے۔ مثلاً:
  1. پشاور، مردان، مانسہرہ اور سوات، صوبہ خیبر پختونخوا؛ لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور ساہیوال، پنجاب کے بڑے شہر ہیں۔
  2. حالی کی مسدس، یادگارِ غالب، مقدمہ شعر و شاعری؛ شبلی کی الفاروق، موازنہ انیس و دبیر، سیرۃ النبی ؐ پڑھنے اور بار بار پڑھنے کے قابل ہیں۔
  1. اعراب ملفوظی میں متبادل اعراب درج کرنے سے پہلے .
  2. قواعدی حیثیت درج کرنے کے بعد ، لفظ کی متبادل شکل کے اندراج سے پہلے .
  3. ایک قواعدی حیثیت درج کرنے کے بعد دوسری قواعدی حیثیت درج کرنے سے پہلے (مثلاً : اسم مذکر لکھنے کے بعد ، جمع لکھنے سے پہلے) .
  4. تشریح میں کسی شق کے وہ معنی درج کرنے سے پہلے جن میں اور سابق معنی میں نازک سا فرق ہو ، یا جو پہلے معنی سے مختلف ہوں .
  5. اشتقاق میں ایک زبان سے لفظ کا تعلق ظاہر کرنے کے بعد ، دوسری زبان سے اس کا تعلق درج کرنے سے پہلے .
  6. ایک ہی معنی کی تشریح میں ایک کتاب کا حوالہ درج کرنے کے بعد ، دوسری کتاب کا حوالہ درج کرنے سے پہلے.
  7. یہ عبارت میں کسی بات کی دلیل اور اس کی وجہ کو بیان کرنے کے لئے لکھا جاتا ہے۔ عام طور پر کیونکہ وغیرہ سے پہلے اسے لکھتے ہیں۔
  1. رابطہ (:)وقفِ لازم Colon

وقفہ سے زیادہ ٹھہراؤ کے لیے رابطہ کی علامت لگائی جاتی ہے۔

  1. قول لکھنے سے پہلے رابطہ کی علامت لگائی جاتی ہے۔
  1. نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "نماز مومن کی معراج ہے۔"
  1. کہاوت ،محاورے،ضرب المثل اورحکایات لکھنے سے پہلےرابطہ کی علامت لگائی جاتی ہے۔
  1. مشہور کہاوت ہے: نا نو من تیل ہوگا ، نا رادھا ناچے گی
  1. سُرخیاں لگانے کے لیے
  1. مثلاً سبق کا نام : اور مصنف کا نام: وغیرہ
  1. الفاظ معنی لکھنے کے لیے
  1. سکتہ : مختصر وقفہ اور وصل : ملاقات، ملنا
  1. مقولہ یا کہاوت وغیرہ کو بیان کرنے کے لیے اسے استعمال کیاجاتا ہے۔ جیسے:
  1. علامہ اقبال نے کہا: " بریلوی نہ فرقہ ہے نہ مذہب، ہر معقولیت پسند، دین دارآدمی کا نام بریلوی ہے"۔
  2. سچ ہے: "وقت ایک ان مول سرمایہ ہے"۔
  3. کہتے ہیں: "زبان شیریں ملک گیری"۔
  1. تفصیل ، اقتباس ، مثال یا بیان سے پہلے .
  1. مثال کے حوالے میں صفحہ نمبر سے پہلے جب کہ وہ کسی ایسی کتاب یا رسالے سے ماخوذ ہو جو دو یا زائد مجلدات پر مشتمل ہو(جیسے : کلیات اکبر ، ۲:۲۷).
  1. ۔ جب کسي تشريح یا تصديق کي ضرورت ہو تو رابطہ (:) کي علامت استعمال کي جاتي ہے۔ مثلاً:
  1. سچ ہے: گيا وقت پھر ہاتھ آتا نہيں۔
  2. سچ ہے: اپنا کيا ہي سامنے آتا ہے۔
  1. اس کا استعمال وہاں ہوتا ہے جہاں جملے کی سابق بات یا خیال کی تشریح یا تصدیق کی ضرورت ہو، مثلاً:
  1. بقولِ شاعر: آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
  1. کسی مختصر مقولے یا کہاوت کو بیان کرنا ہو، یا تمہیدی جملے کے بعد یہ علامت لگائی جاتی ہے۔ جیسے،
  1. کسی نے کیا خوب کہا ہے: ''تندرستی ہزار نعمت ہے۔''
  1. ٭ دو ایسے جملوں کے درمیان جو ایک دوسرے کی ضد ہوں لیکن دونوں مل کر جملہ پورا کریں، مثلاً،
  1. انسان چل سکتا ہے: اُڑ نہیں سکتا……
  2. سچ ہے: گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔
  1. تفصیلیہ (:-) علامت ذیل

  1. یہ لفظ تفصیل سے نکلا ہے جس کے معنی تشریح یا فہرست کے ہیں۔ عبارت میں تفصیل بتانے سے پہلے تفصیلیہ کی علامت لگائی جاتی ہے۔ یہ علامت کسی چیز کی تفصیل یا وضاحت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ علامت وہاں لگائی جاتی ہے جہاں مثال، فہرست یا کوئی تفصیل بیان کرنی ہو، مثلاً:
  1. لائبریری کے لیے خریدی گئی کتابوں کی تفصیل یہ ہے:۔ دیوانِ غالب، کلیاتِ اقبال، نسخۂ ہائے وفا، آبِ گم وغیرہ۔
  1. کسی لمبے اقتباس یا کسی فہرست کو پیش کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال اب متروک سا ہوگیا ہے ؛ لیکن پرانی تحریروں میں اس کا استعمال کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ جیسے:
  1. ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں:- مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی وغیرہ۔
  2.  اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:۔ (۱) اللہ کی الوہیت اور رسول اللہ ﷺ رسالت کا اقرار۔ (۲) نماز قائم کرنا (۳)زکوۃ دینا (۴)رمضان کے روزے رکھنا (۵)حج کرنا۔
  1. اسی طرح جملوں میں "خلاصہ کلام یہ ہے"، "مختصر کلام یہ ہے"، "غرض کہ" کی جگہ بھی یہ کام آتا ہے۔ جیسے:
  1. ہندوستان میں مسلمان آئے، یہاں کی زمین ہموار کی، خونِ جگر سے اسے سینچا، بے شمار خوب صورت عمارتیں تعمیرکرائیں:- آج بھی بڑے بڑے فن کار محوِحیرت ہیں۔
  2. ورزش کے درج ذیل فائدے ہیں:۔
  3. علامہ اقبال فرماتے ہیں:۔
  4. ایک عمدہ غزل میں حسب ذیل خوبیاں ہونی چاہئیں:-
  5. علم کے بے شمار فائدے ہیں مثلاً :۔
  1. ایسے ہی "مثلاً" یا "جیسے" کی جگہ بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
  1. صرف علم ہی کار آمد نہیں ہے:- ابلیس ہی کو لے لیجیے!
  1. درج ذیل، مندرجہ ذیل ، مندرجہ بالا اور حسب ذیل کے الفاظ کے بعد تفصیلیہ کی علامت لگائی جاتی ہے
  1. پاکستان کے صوبائی دارلخلافوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:-لاہور، کراچی،کوئٹہ اور پشاور
  2. پاکستانی اجناس درج ذیل ہیں:- گندم ،کپاس ، چاول اور تل۔
  1.  کسی عبارت میں مثال پیش کی جائے
  1. مثلاً:۔ حروفِ عطف سے ملنے والے مرکبات کو مرکبِ عطفی کہتے ہیں۔ـ
  2. مثلاً:۔ شب و روز، ہم اور تم وغیرہ۔
  1. جب کسی عبارت میں تفصیل لکھنی ہو۔ تب بھی تفصیلیہ کی علامت لگاتے ہیں، جیسے،
  1. ذرا میری روداد غور سے سنو:۔ میں ٹھیک نو بجے گھر سے نکلا، بس سٹاف پر کھڑا ہوا……
  1. اس علامت کا استعمال کسی لفظ کے بعد اس کی تفصیل بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔
  1. اس مضمون کے لکھنے کا مقصد:۔ آپ دوستوں کو رموز اوقاف کے بارے میں آگہی اور اردو زبان سے واقفیت فراہم کرنی ہے ۔
  1. جب طويل اقتباس یا تشريحات ہوں تو تفصيليہ (:۔) کي ضرورت پيش آتی ہے۔ کسی جملے کے مفہوم کو واضح کرنا ہو تو یہ علامت استعمال کی جاتی ہے۔ مثلا
  1. یہ وقت: جو گزر رہا ہے اسے واپس نہیں لایا جاسکتا۔

  1. ختمہ (۔/․) وقف مطلق ،وقف تام ، وقفِ کامل، فُل اسٹاپ

ختمہ (۔) کا مفہوم

ختمہ علامت ایک پورے جملے کے خاتمے پر ایک چھوٹی سی لکیر کی صورت میں لگائی جاتی ہے جہاں کچھ دیر ٹہرنا ہوتا ہے۔ یہ عبارت ایک جملے کو دوسرے جملے سے جدا کرتی ہے۔ اسے وقف کامل، وقف تام اور انگریزی میں فل سٹاپ (.) بھی کہتے ہیں۔ ہر جملے کے اختتام پر ختمہ (۔) کا نشان لازم ہے۔

  1. ختمہ کی علامت بھرپور اور مکمل ٹھہراؤ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جب بات کی مکمل وضاحت ہو جائےتوختمہ کی علامت لگاتے ہیں۔ اس علامت کو وقف تام بھی کہا جاتاہے۔ اس کا استعمال بات یا جملہ کے مکمل ہوجانے پر کیا جاتا ہے۔ یہ علامت مکمل جملے کے خاتمے پر لگائی جاتی ہے۔ مثلاً:
  1. یہ دنیادارالعمل ہے۔
  2. مَیں نے آج کا کام پورا کرلیا ہے وغیرہ۔
  3. مذہبِ اسلام امن عالم کا عَلَم بردار ہے۔ ہندستان گنگا جمنی تہذیب کا عظیم گہوارہ ہے۔
  4. آج خوب بارش ہوئی ہے، اس لیے موسم بڑا خوشگوار ہو گیا ہے۔
  5. آج عید کا دن ہے۔ ہر طرف چہل پہل ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے میلا لگا ہوا ہو۔
  6. آج میری طبیعت خراب ہے، آپ کل تشریف لائیں۔
  7. علامات اردو کے لیے لکھا جانے والا یہ مضمون سب سے بہترین ہوگا لہذا اسے اول تا آخر ضرور ملاحظہ کیجیے۔

نوٹ: (۔)

یہ علامتِ ختمہ عام (ڈیش) طور پر اردو زبان میں مستعمل ہے؛ لیکن عربی و انگریزی زبان میں اس کیلئے نقطے (․) کی علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔

  1. پیراگراف یا فقرے کے اختتام پر وقفِ تام کی علامت لگائی جاتی ہے۔
  1. سعد ، حماد اور علی سکو ل گئے۔
  1. مخففات کے درمیان وقفِ مطلق کی علامت لگائی جاتی ہے۔
  1. پی ۔ آئی ۔اے
  2. ایم ۔بی۔بی۔ایس
  3. پی۔ ایچ۔ ڈی،
  4. ایل۔ ایل۔ بی وغیرہ۔
  1. جب ایک سے زیادہ مخففات ایک ہی سلسلے میں لکھے جائیں، تو ہر مخفف کے بعد سکتے کی علامت لگائی جاتی ہے، مثلاً:
  1. ڈاکٹر حسن خان ایم۔ اے، پی۔ ایچ۔ ڈی، ایل۔ ایل۔ بی وغیرہ۔

  1. واوین ( ' ', " " ) علامت اقتباس، اقتباسیہ یا انورٹڈ کاماز

  1. کسی مضمون میں موضوع کی مناسبت سے بعینہ کسی مصنف و ادیب کے قول یا کسی کتاب کے اقتباس کو نقل کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جب عبارت واوین میں دی جائے تو اُسے ہو بہو نقل کرنا چاہیے۔ جیسے:
  1. "شورش لکھتے ہیں: ایک نورانی جزیرہ ہے، جس میں فضیلتوں کے آبشار بہ رہے ہیں، احد سونے کا پہاڑ ہے، اس کے دامن میں شہدا کی جھیل ہے، اس جھیل میں چاندی کا پانی بہ رہا ہے اور سونے کی موجیں اچھل رہی ہیں۔"
  2. ٹیپو سلطان فرماتے ہیں: "گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔"
  1. اسی طرح جملوں کے درمیان میں، اہمیت کے پیش نظر، کسی خاص نام و مقام کو بھی واوین میں لکھاجاتا ہے۔ جیسے:
  1. "عصری علوم سے مسلمانوں کو آراستہ کرنے میں "سرسید احمد خاں" کا اہم کردار رہا ہے، جو "علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی" کی شکل میں آج "ہندستان" میں قائم ہے"۔
  1. یہ علامت کسی تحریر کا اقتباس (ٹکڑا) پیش کرتے وقت یا کس کا قول پیش کرتے وقت اُس قول یا اقتباس کے شروع اور آخرمیں لگائی جاتی ہے۔
  1. رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: "تم میں سے بہتر وہ ہے جوقرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔"
  2. نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: "تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔"
  3. کسی نے کیا خوب کہا ہے: ''ہمتِ مرداں، مردِ خدا'' وغیرہ۔
  4. مشہور مقولہ ہے: " خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں"
  5. قائد اعظم نے فرمایا:"کام،کام اور کام" ۔
  6. میں نے اپنے ملازم کو آواز دی: "انور خان!" اُس نے جواب دیا "جی میرے آقا!"
  7. کھجل سائیں کہتے ہیں : "کہ میاں محمد شاہد صاحب فورم کے ٹیم لیڈر ہیں "۔

  1. علامتِ تعجب (!) فجائیہ، ندائیہ، اور استعجابیہ

  1. کسی خاص کیفیت اور جذبے کے اظہار کے وقت یہ علامت لگائی جاتی ہے۔ جیسے تعجب یا حیرانگی یا (کسی بھی قسم کے) جذبات کے اظہار کے بعد یہ علامت استعمال کی جاتی ہے۔ حیرت، خوف، غصہ اور حقارت وغیرہ کے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے، ایسے ہی جذبے کی شدت میں کمی و بیشی کے اعتبار سے ایک سے زیادہ علامتوں کا استعمال بھی ہوتا ہے۔جیسے:
  1. سبحان اللہ!
  2. بہت خوب!
  3. معاذ اللہ!
  4. اللہ پناہ!
  5. خبر لیتا ہوں!
  6. بس کرو!
  7. رہنے دو!!
  8. فرقہ واریت اور ملک کی ترقی!!! محال ہے.

  1. علامتِ ندا (!) ندائیہ

  1. خطاب کے وقت اسی علامت کو ندائیہ کہا جاتاہے۔ جیسے:
  1. بچو! محنت، مشقت، ادب اور وقت کی قدر تمھیں ستاروں سے آگے پہنچاسکتی ہے۔
  2. سہیلیو! آنکھیں ترسیں گی ساری عمر ساتھ کی جھولا جھولنے والیوں کو، دل ڈھونڈے گا زندگی بھر پاس بیٹھ بیٹھ کر اور لیٹ لیٹ کر کہانی سننے والیوں کو!۔
  1. صدا اور آواز دینے یا پکارنے کے بعد جو علامت لگاتے ہیں اس کو ندائیہ کہتے ہیں مثلاً :
  1. بھائی جان ! میاں صاحب ! عزیزطلباء! عزیزم! وغیرہ
  2. خواتین وحضرات! قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہو جائیں۔
  1. یہ علامت کسی کو آواز دینے یا پکارنے کے وقت استعمال کی جاتی ہے یا اس علامت کو ایسے الفاظ یا جملوں کے آخر میں لگایا جاتا ہے جن میں کسی جذبے جیسے جوش، غم، نفرت، غصہ، تعجب، حیرانی، خوشی، افسوس، خوف، تنبیہ، تحسین اور تحقیر کا اظہار پایا جاتا ہو۔
  1. آہا! بس آگئی۔
  2. ہائے! یہ کیا ہو گیا؟
  3. خبردار! اب ایسی حرکت نہ کرنا۔
  4. صدر ذی وقار! خواتین و حضرات۔
  5. افسوس! میرا دوست حادثے میں ہلاک ہو گیا۔
  1. کسی کو مخاطب کرنا ہو، تو یہ علامت لگائی جاتی ہے، مثلاً:
  1. اے بھائی!
  2. اے لڑکے!
  3. اے لوگو! وغیرہ۔
  1. جمع کی صورت میں نون غنہ (ں) نہیں لگایا جاتا جیسے:
  1. اے مسلمانو!
  2. اے بھائیو! وغیرہ ۔
  1. فجائیہ (!)

  1. فقرات میں دکھ یا سکھ جیسی کیفیات کے اظہار کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کے بعد
  1. اُف ! کتنا حبس ہے؟
  2. آہا ! ہم میچ جیت گئے۔
  1. فقرات میں تمنا ،دعائیہ ،حیرت اورحسرت جیسی کیفیات کے اظہار کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کے بعد
  1. کاش !ہم میچ جیت جاتے۔
  2. اے خدایا! ہماری دعاؤں کو قبول فرما۔
  1. یہ علامت کسی کو آواز دینے یا پکارنے کے وقت استعمال کی جاتی ہے یا اس علامت کو ایسے الفاظ یا جملوں کے آخر میں بھی لگایا جاتا ہے جن میں کسی جذبے جیسے جوش، غم، نفرت، غصہ، تعجب، حیرانی، خوشی، افسوس، خوف، تنبیہ، تحسین اور تحقیر کا اظہار پایا جاتا ہو۔
  1. :مثالیں ملاحظہ کیجیے
  2. آہا! رموز اوقاف پر بھی میں نے مضمون ترتیب دے دیا۔
  3. معزز خواتین و حضرات! ۔
  4. کتنا بلند مینار ہے!اللہُ اکبر
  1. فجائيہ یا ندائيہ (!) کي علامت جذبے اور طلب کے اظہار کے ليے لگائی جاتی ہے۔
  1. اے لڑکے! ادھر آؤً
  1. جب کسی جذبے، محبت، نفرت، حقارت، خوف، تعجب، غصہ، خوشی، تنبیہ یا تحسین کا اظہار مقصود ہو، تو یہ علامت بہ طورِ فجائیہ لگائی جاتی ہے، مثلا:
  1. اُف!
  2. اُوہو!
  3. خبردار!
  4. شاباش!
  5. واہ!، واہ واہ!
  6. افسوس! وغیرہ۔
  1. سوالیہ (؟/?)علامت استفہام و استدلال

  1. کچھ پوچھنے یا دریافت کرنے کے وقت اس علامت کا استعمال ہوتا ہے۔ اس علامت کو وقف کامل بھی کہتے ہے یہ علامت سوالیہ جملے کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ اس علامت کے استعمال سے ایک عام جملے اور سوالیہ جملے میں واضح فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ جن جملوں میں کوئی سوال پوچھا جا رہا ہو ان جملوں میں یہ علامت استعمال ہوتی ہے۔ اِن جملوں کے آخر میں اگرسوالیہ نشان استعمال نہ کیا جائے تو ان جملوں کا مفہوم صحیح طور پر واضح نہیں ہوتا۔ اسے علامت استدلال بھی کہتے ہیں۔ سوالیہ یا مشتبہ اور تحقیق طلب مقامات پر ، جیسا کہ عموماً جدید رسم تحریر میں رائج ہے (اس کا کھلا ہوا حصہ یا منھ دریافت طلب بات کی جانب رکھا گیا ہے)۔ مثلاً:
  1. آپ کا نام کیا ہے؟
  2. عقابی روح آپ کے اندر بے دار ہے؟
  3. کبھی آپ نے سوچا؟ کہ آپ کی منزل آسمانوں میں ہے؟
  4. کیا آپ کراچی جا رہے ہیں؟
  5. کیا ہم میچ جیت چکے ہیں؟
  6. آپ کو کون سا پھل پسند ہے؟
  7. آپ لاہور سے کب واپس آئیں گے؟
  8. پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا نام کیا ہے ؟
  9.  تم کہاں رہتے ہو؟
  10. تمہارا بھائی کیا کام کرتا ہے؟
  11. وہ تمہارا کیا لگتا ہے؟
  1. خط (---، ـــــــــــ)

  1. جملہ معترضہ کے لیے اسے کام میں لایا جاتا ہے ۔جیسے:
  1. جگن ناتھ آزاد اور فراق گورکھپوری کا کہنا ہے- اگرچہ ان کی اپنی رائے ہے کہ علامہ اقبال شاعر اسلام نہیں؛ بلکہ شاعر اعظم تھے۔
  2. پاکستان کے اکثر سیاسی شخصیات کا ماننا ہے – اگرچہ یہ ان کی اپنی رائے ہے- کہ مولانا فضل الرحمان صرف ملکی سیاست کے نہیں ؛ بلکہ عالمی سیاست کے بھی اچھے کھلاڑی ہیں ۔
  1. جملہ معترضہ ایسےالفاظ یا جملے کو کہتے ہیں جو وضاحت اور طنز کے لیے استعمال ہو لیکن اصل عبارت سے اس کا تعلق نہ ہوبلکہ حوالے کے طور پر اس کا ذکر آئے مثلاً
  1. شاعر مشرق ـــــــــ علامہ محمد اقبال ــــــــــ عظیم شاعر ہیں۔
  2. کراچی ــــــــــــ روشنیوں کا شہر ـــــــــــ سندھ کا دارالخلافہ ہے۔
  3. میری رائے میں- اگر چہ میں ماہرِ تعلیم تو نہیں ہوں۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں بہت سی خامیاں ہیں۔
  1. جب ایک لفظ کی وضاحت میں کئی دیگر الفاظ استعمال ہوں، تو لفظ کے بعد یہ نشان لگاتے ہیں، مثلاً:
  1. سارا مکان- دیواریں، فرنیچر، پردے اور بجلی کا سامان۔ سب جل کر راکھ ہوگیا۔
  2. امجد – بلکہ اس کے سب دوست۔ آج کالام چلے گئے۔

  1. قوسین (( ))علامت قوسین یا خطوط وحدانی

  1. اس کا کام بھی تقریباً وہی ہے، جو خط کا ہے؛ ہاں کسی غیر مانوس لفظ کی وضاحت کے لیے عام طور پر قوسین ہی کااستعمال ہوتا ہے۔ اسے خطوط وحدانی بھی کہتے ہیں۔ اس کی نشانی یہ تین خطوط [{()}] ہیں۔ کسی شے کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔جیسے:
  1. وہ "انار" (دارالعلوم دیوبند) استعماریت سے آزادی کی جنگ کا اعلان بھی تھا اور اپنے قومی مذہبی، تہذیبی تشخص کی بقا کی جدوجہد کا آغاز بھی۔
  2. عبدالرحمان (صدر سجاد لائبریری دارالعلوم دیوبند) ذہین وفطین، محنتی اورانتہائی فعال شخص ہے.
  1. جملہ معترضہ ایسے الفاظ یا جملے کو کہتے ہیں ۔ جس کے بغیر بات تو مکمل ہوجائے گی مگر بات میں تشنگی یا کمی رہ جاتی ہے۔اور جملہ معترضہ ایسےالفاظ یا جملے کو کہتے ہیں جو وضاحت اور طنز کے لیے استعمال ہو لیکن اصل عبارت سے اس کا تعلق نہ ہوبلکہ حوالے کے طور پر اس کا ذکر آئے۔ عام طور پر یہ علامت مکالموں اور ڈراموں میں استعمال کی جاتی ہے۔
  1. شاعر مشرق (علامہ محمد اقبال) عظیم شاعر ہیں۔
  2. مشتاق احمد یوسفی (اردو مزاح نگار) کی نئی کتاب بازار میں آگئی ہے۔
  1. قوسین یا خطوط واحدانی میں عبارت کے ایسے حصے لکھے جاتے ہیں جو جملہ معترضہ کے طور پر آتے ہیں۔ جملہ معترضہ ایسے جملے کو کہتے ہیں جو عبارت میں آجائے لیکن اصل عبارت سے اس کا تعلق نہ ہو بلکہ حوالے کے طور پر اس کا ذکر آئے۔ عام طور پر یہ علامت مکالموں اور ڈراموں میں استعمال کی جاتی ہے۔
  1. چوہدری اسلم (جو میرے ہم جماعت تھے) آج کل ڈاکٹر ہیں۔
  2. عوا م نے اسے (اگرچہ وہ نااہل تھا) اپنا نمائندہ چن لیا۔
  3. اشرف علی (جو میرے بچپن کے دوست تھے) آج وہ مجھے اچانک بازار میں مل گئے۔
  4. ڈاکٹر عبد القدیر خان (جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ہیں ) ایک ذہین سائنس دان تھے۔
  1. نقطے (․․․․․) علامت ترک

  1. کسی محذوف عبارت کی جگہ اس کا استعمال ہوتا ہے؛ یعنی کسی لمبی عبارت کو نقل کرتے وقت، اختصار کے پیش نظر عبارت کا کچھ حصہ نقل کرتے ہیں اور بقیہ عبارت کی جگہ ان نقطوں کا استعمال کرتے ہیں. عام طور پر قلتِ جگہ یا قلتِ وقت کی بنا پر ایسا کیا جاتا ہے۔ جیسے:
  1. اردو شعراء کے مشہور تذکرہ نویس "محمدحسین آزاد" نے "ولی دکنی" کو شعراء کا "باوا آدم" کہا ہے اور ․․․․․
  1. اسی طرح جب کسی شعر وغیرہ کو مضمون کی سرخی بنانا ہو اور مقصد صرف آدھے مصرع ہی سے پورا ہورہا ہو، تو بھی نقطے کا استعمال کرتے ہیں. ہاں اگر مصرع کے جزو اول کو لینا ہے، تو جزو آخر کی جگہ نقطے لگائیں گے اور جزو آخر کو لینا ہو، تو جزواوّل کی جگہ اس کا استعمال ہوگا۔ جیسے:
  1. ع- ․․․․․․لوح وقلم تیرے ہیں۔
  2. ع- من اپنا پرانا پاپی ہے․․․․․․
  1. علامت علامت شعر (؎) کا مفہوم

  1. یہ علامت عبارت میں کسی شعر کا حوالہ دینے کہ موقع پر شعر کے شروع میں لگائی جاتی ہے۔ جیسے
  1. ؎ آ تجھ کو بتاؤںتقدیر امم کیا ہے
  2. شمشیر و سنان اول طاؤس و رباب آخر
  1. علامت مصرع (؏) کا مفہوم

  1. یہ علامت عبارت میں کسی مصرعے کا حوالہ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جیسے
  1. ؏ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
  1. علامت ایضا( //) ۔

  1. یہ علامت اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب ثانی یا ثالث جملہ بھی اول کی طرح لکھنا ہو۔
  1. پاکستان ایک بہت پیارا ملک ہے۔
  2. (//)کے پڑوس میں افغانستان ،ایران ،چین اور بھارت واقع ہے ۔
  1. خطِ فاصل (/)

  1. یہ علامت ترچھی لکیر کی صورت میں لکھی جاتی ہے۔ اس کا استعمال حسبِ ذیل موقعوں پر کیا جاتا ہے۔
  2. ٭ دفتری مراسلات کے حوالہ نمبر میں عموماً سال کے عدد اور مراسلات نمبر میں فرق واضح کرنے کے لیے جیسے:
  1. نمبر 73535/49/6583، مورخہ 10؍ اپریل 2020ء۔
  1. ٭ مختلف قسم کے بیانات، سندات اور فارمولوں کے اندراج میں متبادل اسما، الفاظ اور افعال کے درمیان خطِ فاصل لکھا جاتا ہے، جیسے:
  1. تصدیق کی جاتی ہے کہ مسمی؍ مسمات…… بن؍ بنت…… میں؍ ہم…… اقرار کرتا؍ کرتے ہیں کہ…… (پڑھنے میں غلطی نہ ہو اور 5؍ اکتوبر 15؍اکتوبر نہ سمجھا جائے)۔
  1. ماہِ اپریل، اگست اور اکتوبر سے قبل تاریخ لکھ کر خطِ فاصل لگایا جاتا ہے، تاکہ پڑھنے میں غلطی نہ ہو مثلا: 5؍اپریل، وغیرہ باقی مہینوں کے ساتھ خط فاصل لگانا ضروری نہیں، لیکن اگر استعمال کیا جائے، تو کوئی حرج نہیں۔
  1. علامات

چند علامات اور جن کاتحریروں میں کثرت سے استعمال ہے۔

  1. ؎ ۔۔۔ علامت شعر وہندسہ
  2. ؏ ۔۔۔ علامت مصرع
  3.  ؔ ۔۔۔ تخلص جیسے غالبؔ: یہ علامت تخلص کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے تاکہ نام اور تخلص میں تمیز ہوسکے ۔
  4.  ۔ ۔۔۔ علامت ہندسہ.
  5. // ۔۔۔ علامت ایضاً (بھی)
  6. ۱۲ ۔۔۔ بات ختم ہونے کی علامت
  7. / ۔۔۔ تاریخ یااعداد شمار کے اختتام پر
  8. (؂) ۔۔۔ علامت حاشیہ: کسی جملے یا لفظ کا مطلب حاشیہ میں لکھنا ہو تو یہ (؂) علامت استعمال کی جاتی ہے۔
  9. (°) ۔۔۔ علامت حذف و درجہ: اس کی علامت یہ (°)ہے، اگر عبارت میں کسی چیز کا ذکر نہ کرنا ہو تو اس علامت کا استعمال کرتے ہیں۔
  10. (.) ۔۔۔ علامت ترک: اس کی نشانی یہ (.) ہے، عبارت میں کسی لفظ کے چھوٹ جانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ عموماً تین نقطوں سے حذف کو ظاہر کیا جاتا ہے۔
  1. مخففات

  1. ص ۔۔۔ صفحہ کا مخفف
  2. ج ۔۔۔ جلد کا مخفف
  3.  ق م ۔۔۔ قبل مسیح کا مخفف
  4. م ۔۔۔ متوفی کا مخفف
  5. ف ۔۔۔ فوت کا مخفف
  6. ر ۔۔۔ (وفات) رخصت کا مخفف
  7. پ ۔۔۔ پیدائش کا مخفف
  8. ء ۔۔۔ عیسوی کا مخفف
  9. ھ ۔۔۔ ہجری کا مخفف
  10. الخ ۔۔۔ الیٰ آخرہ (آخر تک) کا مخفف: یہ علامت الی آخرہ کا مخفف ہے، عبارت کے کچھ الفاظ لکھ کر کچھ نقطے ڈال کر آخر میں الخ(۔۔۔۔الخ) لکھ دیتے ہیں۔
  11. اہ ۔۔۔ انتہی کا مخفف
  12. صلعم ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخفف: واضح رہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پورا ﷺ ہی لکھنا ضروری ہے، اس میں تخفیف درست نہیں ہے، اس لئے''ص' یا ''صلعم'' وغیرہ سے بچنا لازم ہے۔
  13. ؑ۔۔۔ علیہ السلام کا مخفف
  14. ؓ ۔۔۔ رضی اللہ عنہ کا مخفف
  15. ؒ ۔۔۔ رحمة اللہ علیہ کا مخفف
  16. ج/ص ۔۔۔ جلد و صفحہ کا مخفف

رموز اوقاف سے مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں ان کا لحاظ کرنے لگیں۔ تحریر کے لیے جہاں تحسین خط اور صفائی ستھرائی ضروری ہے، وہاں رموز اوقاف کی پابندی بھی انتہائی ناگزیر ہے؛ ایک قلم کار کی تحریر اپنی معنویت کے ساتھ ساتھ ظاہری خوبیوں سے بھی معمور ہو، تو پڑھنے والے کا ذہن و دماغ فطری طورپر متاثر ہوتا ہے اور وہ مصنف کی بات کو لیتا ہے، اس کے پیغام سے ملنے والے لعل وجواہر سے اپنا دامن دل بھرتا ہے؛ گویا لکھنے والا جس مقصد کے پیش نظر کچھ لکھتا ہے اس میں اسے بھرپور کامیابی ملتی ہے اور ایک قلم کے شہسوار کے لیے اس سے بڑھ کرکوئی فتح نہیں ہوسکتی۔

ان رموز کو لکھنے کا صحیح طریقہ

 ان رموز کو تحریر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے اس کلمہ کے فوری بعد بغیر فاصلہ کے لکھا جائے جس کے بعد اسے ذکر کرنا ہے، وہاں فصل کرنا بہتر نہیں ہے اس سے بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کلمہ ایک سطر میں اور نشان دوسری سطر میں منتقل ہوجاتا ہے، مثال کےطور پر:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔

اس طرح لکھنے کے بجائے اسے اس طرح لکھنا فنی اعتبار سے بہتر ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

اسی طرح دیگر علامات: قوسین، واوین، وغیرہ کو بھی فصل کے بغیر لکھنے کا اہتمام کرنا بہتر ہے۔

مضمون کیسے لکھیں؟

  1. مضمون ٹائپ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ہر لفظ کے بعد ایک سپیس ڈال رہے ہیں۔ فارمل رائٹنگ میں کومے کے بعد ایک اور فل سٹاپ کے بعد دو سپیس ڈالی جاتی ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا میں ان دونوں کے بعد ایک ایک سپیس بھی روا ہے۔
  2. ہر جملے کے اختتام پر فل اسٹاپ یا دیگر موزوں علامت ضرور ڈالیں۔
  3. ایک سے زیادہ رموز اوقاف استعمال مت کریں، ایک ہی کوما، فل اسٹاپ یا دیگر علامت لکھیں اور ،،، یا ۔۔۔۔ یا ؟؟؟ یا !!!! وغیرہ لکھنے سے گریز کریں۔
  4. استعجاب کی علامت (!) بہت کم استعمال کی جاتی ہے۔ اگر آپ یہ استعمال کر رہے ہیں تو رک کر ایک مرتبہ سوچیں کہ کیا آپ کا جملہ استعجابیہ ہے؟
  5. اسی طرح عنوان میں اسے استعمال کرنے والے کئی ہیں۔ ادھر بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ اسے استعمال نہ کیا جائے۔

اجازت نامہ

  1. یہ متن نوری آستانے کی ملکیت ہے۔ اسے یا اس کے کسی حصے کو (بعینہٖ یا تبدیلی اور خورد برد کر کے) تجارتی یا دیگر کسی بھی مادّی مقاصد و مالی منفعت کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی، اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
  2. اس تحریر کو جو پڑھے اور مسلمانوں کے لئے کارآمد جان کر نیک نیتی کے ساتھ اسے یا اس کے کسی باب یا حصے کو صرف اور صرف تبلیغِ اسلام کے لئے چھپوانا چاہے یا اپنی کسی تحریر میں (Verbatim) پیش کرنا چاہے، یا اس کی وربیٹم نقول (جیسے کمپیوٹر کاپی) تیار کرنا چاہے تو اسے اس کی پوری اجازت ہے۔
  3. میں نے اپنی تمام تر کوششیں کی ہیں کہ متن میں کہیں کسی قسم کی کوئی کوتاہی اور کمی بیشی نہ ہو اور تحریر ہر قسم کی اغلاط سے پاک ہو۔ لیکن پھر بھی انسان ہونے کے ناطے کوئی بھول چوک ہو سکتی ہے۔ اگر کہیں بھی کوئی املا/حوالہ/متن وغیرہ کی غلطی دیکھیں تو اس سے مؤلف کو ضرور مطلع کریں تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کی جا سکے۔

Aastana-e-Noori


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں