Positive thought
مثبت سوچ
عروج کا راستہ مثبت سوچ
دنیا میں دو طرح کی سوچ کے انسان پائے جاتے ہیں ایک وہ جن کی سوچ اور خیالات مثبت اور اعلیٰ ہوتی ہیں ان کی تعداد تو کم ہوتی ہے لیکن انہی لوگوں کی وجہ سے دنیا میں عروج و ترقی اور خوشحالی ہے۔ دوسرے وہ لوگ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی منفی سوچ اور برے خیالات کے مالک۔ ان کی زندگی تنقید اور برائیوں میں گزرتی ہے اور ان ہی کی وجہ سے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں سلطنت الٹ جاتی ہیں۔ رشتے برباد ہو جاتے ہیں اور دنیا میں زوال آتا ہے۔
منفی سوچ والا ساری دنیا سے بیزار نظر آئے گا وہ حالات سے بیزار، دوستوں سے بیزار،گھر والوں سے بیزار یہاں تک کہ وہ اپنی ذات سے بھی شدید بیزار نظر آئے گا اور اپنے آپ کو ہی گالیاں بکتا پایا جائے گا۔ منفی سوچ والے کے حساب سے سب کچھ خراب ہے جو ہو رہا ہے وہ بھی اور جو ہونے والا ہے وہ بھی یعنی ان کے مطابق حال بھی برباد ہے اور مستقبل تو ہی تباہی کی جانب۔ ایسے لوگ کبھی بھی خوش نظر نہیں آئیں گے۔
مثبت سوچ والا ہر وقت خوش نظر آئے گا اسے آس پاس تمام لوگوں میں کوئی نہ کوئی اچھائی کا پہلو نظر آ ہی جائے گا وہ لوگوں کی خامیوں پر نہیں بلکہ ان کی خوبیوں پر نگاہ رکھے گا اور اپنی خامیوں پر نظر رکھتا ہے تاکہ انہیں درست کر سکے اس کے مطابق دنیا میں تقوی اختیار کر کے آخرت میں اور یہاں پر بھی شادابی و کامرانی پائی جا سکتی ہے۔
مثبت سوچ کی مثال آپ شہد کی مکھی سے سمجھیں۔ شہد کی مکھی معطر فضا میں رہتی ہے۔ پھولوں اور پھلوں پر بیٹھتی ہے ان کا رس کشید کر کے شہد کے چھتے میں ڈالتی اور شہد کے چھتے کو دیکھیں تو کتنی خوبصورتی اور ایک سسٹم کے تحت بنا ہوا ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی کا بائی پراڈکٹ دیکھیں کتنا میٹھا اور رسیلا ہوتا ہے لوگ اسے ہنی کے نام سے یاد کرتے ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے کتنی شفا موجود ہوتی ہے۔ لوگ پیار سے اپنی پیاری بیوی کو ہنی بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور یہ شہد(حسنِ اخلاق) صرف اور صرف مثبت سوچ والا ہی بنا سکتا ہے۔
دوسری جانب وہ کالی مکھی جو گندگی میں رہنا پسند کرتی ہے۔ اکثر کوڑے کرکٹ اور کچرے کے پاس پائی جاتی ہے۔ جسم میں بھی جہاں پیپ بھرا دانہ ہو وہاں بیٹھتی ہے سارے بدن کو چھوڑ کر۔ اکثر باتھ روموں میں پاخانے کے پاس براجمان نظر آئے گی یعنی اسے گندگی پسند اور وہ اسی میں رہتی ہے اس کا بائی پراڈکٹ سوائے گند اور بیماری کے اور کچھ نہیں ہے۔
مثبت سوچ کو اپنائیں اور یہ صرف اور صرف اسی وقت حاصل ہوگی جب آپ کی صحبت پوزیٹو لوگوں میں ہوگی۔ شیخ کامل کی ذات سے زیادہ مثبت سوچ کس کے پاس ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ساتھ اپنا وقت گزاریں ان کی سنگت آپ کو شہد کی مکھی کی طرح شہد تیار کرنے والا بنا دے گی آپ ہر بات میں کوئی نہ کوئی بہترین پہلو ڈھونڈ کر کچھ نہ کچھ حل نکال ہی لیں گے۔
ایک تربوز والے نے تربوز کا سودا کیا ایک دو تربوز چیک کیے وہ صحیح نکلے لیکن جب گھر لے آیا سارا مال پھیکا نکل آیا اب کوئی بھی اس سے پھیکے تربوز خریدے نہیں۔ گرمیوں کا موسم تھا اور تربوز خراب ہونے کا اندیشہ الگ تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے پریشان ضرور ہوا پھر اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور مدد چاہی اس کے دل میں ایک آئیڈیا آیا اور وہ بازار پرنٹنگ پریس سے ایک بینر بنوا کر لے آیا اس بینر کے لگتے ہی اس کے سارے تربوز ڈبل قیمت میں بک گئے اس نے اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا۔ وہ شخص مثبت سوچ کا حامل تھا اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین رکھتا تھا۔ بینر پر اس نے لکھوایا تھا کراچی میں پہلی بار شوگر فری تربوز پہلے آئیے اور پہلے پائیے۔ لوگوں نے جب یہ بینر دیکھا تو اپنے بوڑھے ماں باپ کے لئے دھڑا دھڑ خرید لیا۔منفی سوچ سوائے تنزلی اور زوال کے اور کچھ نہیں۔ مثبت اور اعلی سوچ عروج اور ترقی کی جانب لے جانا والا شاندار عمل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے خیالات کو پاکیزہ بنائے ہمارے سوچ کو مثبت بنائے اور ہمیں نیک لوگوں کی صحبت نصیب فرمائے آمین یارب العالمین۔
چمک رہے تھے اندھیرے میں سوچ کے جگنو
سید وجاہت علی
فلسفہ اچھا ہے۔
جواب دیںحذف کریں