یہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ چونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تمام انبیاء میں بلند ترین درجے پر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی امت کے اولیاء کی ولایت بھی تمام گزشتہ امتوں کے اولیاء کی ولایت پر حاوی ہے۔ اس لئے ولایتِ محمدی سب ولایتوں پر فائق ہے۔
اور حضرت خضرؑ بنی اسرائیل کے اولیائے کاملین میں سے ہیں جیسا کہ قصۂ موسیٰؑ و خضر سے واضح ہے۔ اور سرکارِ بغداد امتِ مسلمہ کے ولی ہیں اسی لئے آپ نے حضرت خضرؑ کو او اسرائیلی کہہ کر مخاطب کیا۔
حضور سرکارِ بغداد مسندِ ارشاد پر رونق افروز تھے۔ دورانِ بیان اچانک انہوں نے فرمایا کہ او اسرائیلی! ایک محمدی کا کلام سنتا جا۔ حاضرین حیران تھے کہ یہ آپ کس سے ارشاد فرما رہے ہیں۔ جب آپ کا خطاب مکمل ہوا تو حاضرین نے دریافت فرمایا کہ حضورؒ۔ آج کوئی خاص بات ہوئی ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ جس وقت میں خطاب فرما رہا تھا اس وقت حضرت خضرؑ پاس سے گزر رہے تھے، میں ان سے مخاطب تھا۔ یہ واقعہ آپ کی ابتداء کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ بعد میں تو آپ نے واضح ارشاد فرمایا ہے کہ میرے درس میں نہ صرف تمام اولیاء، بلکہ تمام انبیاء بھی حاضر ہوتے ہیں۔
اب اگر کسی شخص میں گندی تاویل کے جراثیم اور وائرس موجود ہوں اور اس نے میری بات کے دوران یہ کلمہ (او اسرائیلی! ایک محمدی کا خطاب سنتا جا۔) سنا اور اس کے جراثیم خوردہ (یا وائرس زدہ) ذہن میں یہ بات پیدا ہو ئی کہ قادری صاحب مجھے اسرائیلی کہہ رہے ہیں اور خود کو غوثِ پاک کی جگہ دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ تو بتائیے کہ اس میں قادری صاحب کا کیا قصور ہے؟ سوال تو یہ ہے کہ آپ نے خود کو اسرائیلی کیوں سمجھا؟
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ سمجھنے والا بات کے اصلی اور واضح طور پر ظاہری معنوں کے بجائے تاویلی معنی لے رہا ہوتا ہے اور اسے اس بات کی خبر بھی نہیں ہوتی۔{ اس پوسٹ میں ہم اسی پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔ امید ہے کہ بات ٹھیک سے سمجھ میں آ جائے گی۔ }
تاویل اور تعبیر میں فرق
سچ پوچھیں تو یہ تاویل نہیں بلکہ تعبیر ہے۔ تاویل اور تعبیر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ لیکن عوام چونکہ تاویل کے لفظ سے تو واقف ہیں لیکن تعبیر کے لفظ کے ان معنوں میں استعمال سے واقف نہیں اس لئے وہ دونوں ہی کو تاویل کہتے ہیں۔
ایک آیتِ مبارکہ سے اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
﷽ { وَ لَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَى } [الضحى: 4]
ترجمہ: اور بیشک پچھلی تمہارے لیے پہلی سے بہتر ہے۔
یہاں دو کلمات ملاحظہ فرمائیں: آخرۃ اور الْأُولَى۔ آخرت کا لفظ بہت عام ہے اور ہر خاص و عام اس کے معنی جانتا ہے۔ یعنی حیاتِ اخروی یا دنیا کے بعد کی زندگی۔ یہ اس کلمے کی تفسیر ہے۔ لیکن یہ کلمہ آخرت وسیع مفہوم رکھتا ہے اور ہر بعد میں آنے والی شئے کو بھی اس نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی ہر بعد میں آنے والی ساعت، پہلی والی ساعت سے بہتر ہے۔ یہ اس کلمے کی تاویل ہے۔
قرآنی کلمات کی تشریح و تاویل کیلئے چند باتوں کا ضرور خیال رکھیں:
- شریعت ان معنوں کی اجازت دیتی ہو۔
- کلمے کے لغوی و عرفی معنی بھی اس کی اجازت دیتے ہوں۔
تاویل میں بعید معنی بھی لئے جا سکتے ہیں جبکہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہو اور لفظ میں بھی اتنی وسعت موجود ہو۔
اب جبکہ آپ نے تفسیر اور تاویل کو جان لیا تو یہ بھی جان لیں کہ تعبیر کا کلمے کے لغوی معنی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ آپ کے ذہن کی چھلانگ ہے کہ وہ کس طرف جمپ لگاتا ہے۔
مثلاً کوئی پاکستانی اسرائیلی کا کلمہ سنے تو اس کو خود پر محمول کرے تو اسرائیلی کا لفظ چونکہ اس معنی کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسرائیل اور پاکستان دو الگ ملک ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے کیلئے اچھے جذبات نہیں رکھتے تو یہ تاویل نہیں کہلائے گی بلکہ یہ سننے والے کے ذہن کی چھلانگ ہے جو اس نے اسرائیلی کا کلمہ سن کر لگائی۔ آپ اسے معنی پہنانا بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تعبیر کہلاتی ہے جہاں آپ کسی لفظ یا بات اور واقعے کو سن کر اسے اپنے ڈھب پر ڈھال لیتے ہیں اور اسے لغت کے بجائے اپنے ذاتی معنی عطا کرتے ہیں۔
تفسیر شارع (علیہ السلام) کے کلام اور تشریح سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، تاویل لفظ کے معنی (بعید ہی سہی) سے جڑی ہوئی ہوتی ہے جبکہ تعبیر خاص آپ کے خیالی معنی سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔
جیسے کوئی حضرت عزیر کا سو برس سوتے رہنے کا قصہ سنے اور گدھے کو جسم سے، عزیر کو روح سے، بیت المقدس کو جنت سے، کھانے کو نیک اعمال سے اور پانی کو اچھے عقائد سے تشبیہ دے تو چونکہ لفظ کے معنی اس کی اجازت نہیں دیتے اس لئے یہ تاویل نہیں، تعبیر کہلائے گی۔ اسی طرح "اچھے سنگترے" کے کلمات سن کر کوئی یہ معنی کرے کہ نیکو کاروں کی صحبت میں رہنے والا فلاح پا جاتا ہے تو یہ تعبیر کہلائے گی۔ کیونکہ قائل سنگترے بیچنے کیلئے یہ صدا لگا رہا تھا لیکن سننے والے نے اپنے باطنی احوال پر اسے قیاس کر لیا۔
انسان اپنے ہی احوال پر قیاس کرتا ہے اس لئے ہر ایک کا قیاس مختلف ہو سکتا ہے کیونکہ لوگوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں۔
غوثِ پاک کے بارے میں بعض اکابرین نے فرمایا ہے کہ آپؒ کے کلام کی باتیں سکر کے غلبے کی وجہ سے تھیں۔ لیکن اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلویؒ فرماتے ہیں:؎
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس
نشے والوں نے بھلا سکر نکالا تیرا
یعنی ان بزرگوں پر سکر کا غلبہ تھا اس لئے جب انہوں نے شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے ارشادات سنے تو اسے اپنی حالت پر قیاس کرتے ہوئے سکر کا غلبہ کہا جبکہ آپؒ کی ہر بات صحو پر مبنی تھی۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھیں کہ تعبیر اچھی بھی لے سکتے ہیں اور بری بھی۔ اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے اپنا خواب ہر ایک کو سنانے سے منع فرمایا ہے، بلکہ اپنا خواب اسے سنائیں جو اچھی تعبیر لینا جانتا ہو۔
جس کا حال اور اعتبار درست نہ ہو اسے تعبیر نہیں لینا چاہئے۔ اگر وہ اعتبار کرے گا تو برا اعتبار ہی کرے گا۔
برے اعتبار (بات کی بری تعبیر) کے جراثیم قومِ نوحؑ میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے اس لئے جب حضرت نوحؑ انہیں تبلیغ فرماتے تو وہ برا گمان کرتے، جیسا کہ کلامِ پاک میں فرمایا:
{ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَ لَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ } [المؤمنون: 24]
ترجمہ: تو اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کیا بولے یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی چاہتا ہے کہ تمہارا بڑا بنے اور اللہ چاہتا تو فرشتے اتارتا ہم نے تو یہ اگلے باپ داداؤں میں نہ سنا۔
برا اعتبار کرنا کافروں کا طریقہ ہے
یہ بھی یاد رکھیں کہ باتوں کا برا اعتبار کرنا مسلمانوں کا نہیں بلکہ کافروں کا طریقہ ہے۔
حضرتِ نوحؑ نے تبلیغ کی تو کافروں نے اسے سب لوگوں پر فوقیت اور برتری حاصل کرنے کا ذریعہ کہا اور انہیں اپنے جیسا بشر کہا، اور ان کے سمجھانے کو جھگڑا کہا۔
سامری نے برا گمان کرتے ہوئے بچھڑے کو موسیٰ اور قومِ موسیٰ کا خدا کہا، قومِ موسیٰ نے اپنے نبی کی سنجیدہ بات کو مذاق کہا، قومِ موسیٰ نے برا اعتبار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تم اور تمہارا خدا جبارین کو اس شہر سے نکال دے تو ہم شہر میں داخل ہوں ، یہودیوں نے بچھڑے کو پوجنے والی قوم کے جھوٹے خدا پر سچے خدا کو قیاس کیا، فرعون نے حضرت موسیؑ کو مسحور (جس پر جادو کیا گیا ہو) کہا، فرعون نے خود کو خدا کہا، ، یہودیوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
جب حضرت مسیحؑ نے انجیل پیش کی اور مردوں کو زندہ کر دکھایا تو کافروں نے اسے جادو کہا، عیسائیوں نے اپنے پیغمبر پر خدا ہونے کا اعتبار کیا، اور کہا کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے، بی بی مریم پر بنا دیکھے برا گمان کیا۔
کافروں نے زمین میں فساد پھیلانے کو اصلاح کہا، اور اپنے دل پر پڑے ہوئے اللہ کی لعنت کے پردے کو مضبوط حفاظتی غلاف کہا، پاک باز اور بہترین عقل والے صحابہ کرام کو احمق کہا، اپنے ذاتی نفع کی غرض سے سود کو خرید و فروخت کی مثل کہا، اور کافروں میں کچھ بد اعتبار وہ بھی تھے جنہوں نے اللہ کو فقیر کہا اور خود کو بے نیاز کہا، کافروں نے زندگی کو صرف دنیا کی زندگی پر اعتبار کیا، کفار نے پیغمبروں کی بات پر اپنی بات کی طرح جھوٹ کا اعتبار کیا، عزیز مصر کے درباریوں نے اس کے خواب کو پریشان خیالی کا نام دیا، کافروں نے انبیاء کی مستقل مزاجی کو جنون کہا، کفار نے نیک لوگوں کی باتوں کو اساطیر الاولین کہا، کافروں نے زندگی کے تسلسل اور دوبارہ اٹھائے جانے کو تخلیقِ نو (خلق جدید) کہا ، کافروں نے زمانے کو بنا دیکھے کہا کہ یہ ہمیں مارتا ہے۔
یہ سب باتیں یہ بتا رہی ہیں کہ برا اعتبار مسلمانوں کا نہیں بلکہ کافروں کا طریقہ ہے۔ مسلمان ہمیشہ بہترین گمان کرتا ہے۔
برے اعتبار کی چند وجوہات
برے اعتبار کی چند وجوہات ہیں:
1. اپنا نفع کسی اور بات میں دیکھنا
2. کسی برے حال میں ہونا
3. جسمانی یا ذہنی مریض ہونا
4. شکی مزاج ہونا
5. کسی عام بات کو کسی خاص وقت سے جوڑ دینا
6. کسی عام بات کو کسی خاص جگہ سے جوڑ دینا
7. کسی بات میں الفاظ کی ترتیب یعنی تقدیم و تاخیر پر بہت غور کرنا اور پھر غلط نتیجہ نکالنا
8. درست بات تک نہ پہنچ سکنا یا باریک باتوں کو نہ سمجھ سکنا
9. اصلی مفہوم کے بجائے تاویل کا عادی ہو جانا
10. ڈیڑھ ہشیار ہونا یعنی دوسروں کو احمق سمجھنا
11. مستقل کسی برے ماحول سے وابستہ ہونا
تاویل کے رسیا
کچھ حضرات وہ بھی ہوتے ہیں جو تاویل (تعبیر) کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ ہر بات میں شگون اور فال نکالتے ہیں۔ وہ کسی بات کا سیدھا اور عام سا مطلب لینا ہی نہیں چاہتے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ کئی بار اس سامنے کے مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں جو عام سی عقل رکھنے والا انسان بہت آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ بات اگر صرف سمجھ کی ہو تو پھر بھی نقصان سے بچا جا سکتا ہے لیکن اگر سمجھنے کے بعد عمل کی بات آجائے تو نقصان کا درجہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
ڈیڑھ ہشیاری
کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور ہر بات میں ڈیڑھ ہشیاری دکھاتے ہیں۔ یہ دوسروں کو بے وقوف سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ جو بات میری سمجھ میں آئی ہے، ایسی تو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا۔
کچھ لوگ اپنی جلدی کی وجہ سے بات کو غلط مفہوم پہناتے ہیں۔ شطرنج کے اکثر انجن ساری ہی چالوں کو سوچتے ہیں۔ لیکن بعض انجن بعض چالوں کو بیکار سمجھ کر ان پر غور کرنا ہی گوارا نہیں کرتے۔ اس طرح وہ انجن کم چالوں پر غور کر کے تیز تو ہو جاتا ہے لیکن اس کی درستگی کا لیول بہت کم رہ جاتا ہے، خاص طور پر جب اس کا مقابل انسان کے بجائے مشین یا دوسرا انجن ہو تو اس کی خامی جلد ہی سامنے آ جاتی ہے۔ چالوں کو بیکار سمجھ کر نظر انداز کرنا پروننگ (Pruning)کہلاتا ہے۔ یہ تھنکنگ کی ضد ہے۔ پروننگ بڑھ جائے تو رفتار تو شاید بڑھ جائے، لیکن درستگی اور معیار ختم ہو جاتا ہے۔
ایسے تمام ڈیڑھ ہشیار اپنی جلد بازی، خود کو عقلِ کل سمجھنا اور دوسروں کو احمق سمجھنے کی وجہ سے بات اور کلمات کو غلط تعبیر (رنگ) دیتے ہیں اور حقیقی مفہوم سے دور ہو جاتے ہیں۔ بزرگانِ دین اسی لئے تو فرماتے ہیں کہ جلدی کا کام شیطان کا۔
اوور رائڈ مت کریں
بعض افراد جلد بازی کی وجہ سے چیزوں اور ان کے اصولوں کو اوور رائڈ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی فیلڈ کے ماہر ہوتے ہیں لیکن مثل مشہور ہے کہ تیز رفتار گھوڑا بھی ٹھوکر کھاتا ہے۔ یہ اپنے انداز میں ڈیڑھ ہشیاروں سے ملتے جلتے ہیں لیکن دوسروں کو بے وقوف نہیں سمجھتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں اپنی ضرورت کی وجہ سے چیزوں یا اصولوں کو اوور رائڈ یا بائے پاس کر رہا ہوں۔ مجھے جلد پہنچنا ضروری ہے اس لئے یہ سب کر رہا ہوں۔ سبحان اللہ! نہ پہنچنے سے بہتر ہے کہ ذرا تاخیر سے ہی سہی، لیکن پہنچ تو جائیں۔
تشکیک کا مرض
کچھ لوگوں میں جلد بازی تو نہیں ہوتی لیکن وہ وہم اور شک کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ رسی کو سانپ سے تعبیر کرتے ہیں اور آپ ہی ہلکان ہوتے اور ہولتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اعتبار ہر چیز پر غلط ہوتا ہے۔ یہ خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور اپنی پریشانی کو دوسروں میں منتقل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ بالخصوص خوف کا مریض اپنے اطراف کو بھی متاثر کرتا ہے، جیسے والدین یا بھائی بہن وغیرہ۔ ایسے افراد کو ہر وقت لا حول شریف کا ورد کرنا چاہئے۔
رای العلیل علیلٌ
جسمانی مرض یا کمزوری کے باعث بھی بات کے اصل مفہوم کے بجائے لوگ بعید از کار معنی لے لیتے ہیں۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ رای العلیلِ علیلٌ یعنی بیمار شخص کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔ تاہم اگر مرض زیادہ نہ ہو اور فرد کسی فیلڈ کا ماہر ہو تو اس فیلڈ میں درست مفہوم تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن جسمانی مرض تعبیر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ صحت بہت بڑی نعمت ہے۔
جراثیم اور وائرس
بد اعتباری (تعبیر کا غلط ہونا) کبھی تو بیکٹیریا (جرثومہ) ہوتا ہے اور کبھی وائرس۔ اکثر بیکٹیریا درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے مر جاتے ہیں یا صدمے کی وجہ سے مکمل ان ایکٹو ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اگر بری تعبیر کا جرثومہ کسی شخص میں موجود ہو تو اسے چاہیے کہ خود کو کڑے مجاہدات کی بھٹی میں تپائے۔ اس کیلئے پیر و مرشد سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جس کی نگرانی میں کڑے مجاہدات کئے جاتے ہیں۔ اگر آپ اب تک کسی سے بیعت نہیں ہوئے ہیں تو اب فوراً اللہ کی خاطر کسی پیرِ کامل کے مرید ہو جائیں۔ کیونکہ قلب کی فوری اصلاح اور نفس کی سرکشی کا مکمل اور فوری علاج شیخ کامل کے سوا کچھ نہیں۔ شیخ کامل اپنی قوی روحانیت سے اپنے عقیدت مند کے قلب اور روح میں جلا پیدا کرتا ہے۔
پھر جب ۔۔۔
{ يَٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا ٱتَّقُوا ٱللَّهَ وَ ٱبْتَغُوا إِلَيْهِ ٱلْوَسِيلَةَ وَ جَٰهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ } [المائدة: 35]
اور
{ وَ ٱلَّذِينَ جَٰهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَ إِنَّ ٱللَّهَ لَمَعَ ٱلْمُحْسِنِينَ } [العنكبوت: 69]
کے ذریعے اس پر باطنی راہ کھلنے لگتی ہے تو کلامِ الٰہی کے مفہوم کی کائنات اسے خود پکارنے لگتی ہے۔
طب میں وائرس متعدی امراض کا سبب بننے والا زہر یا جراثیم سے بھی نہایت چھوٹا ایک عنصر ہے جو عام خورد بین سے بھی نظر نہیں آتا ۔ جبکہ سوشیالوجی میں یہ کوئی بڑا جذبہ یا احساس اور سوچنے کا انداز ہے جس سے شخصیت اور معاشرے وغیرہ میں اجتماعی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔
بد اعتباری (برا اعتبار کرنا) اگر کسی وائرس کی وجہ سے ہو تو یہ بد ترین مہلک مرض ہوتا ہے۔ جرثومے تو حرارت سے مر جاتے ہیں لیکن بد اعتباری کے وائرس حرارت اور درجۂ حرارت سے آزاد ہوتے ہیں، انہیں کتنا ہی پکائیں اور گرم کریں، یہ مرتے نہیں۔ کیونکہ وائرس عام طور پر مردہ اور غیر فعال ہوتے ہیں، لیکن مخصوص ماحول ملتے ہی سر گرم ہو جاتے ہیں۔
{ وَ إِذَا لَقُوا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا قَالُوا ءَامَنَّا وَ إِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَٰطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُونَ } [البقرة: 14]
ترجمہ: اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو یونہی ہنسی کرتے ہیں۔
سورت البقرہ کی مندرجہ بالا آیتِ مبارکہ میں غالباً ایسے ہی وائرسی مرض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جیسے ہی منافقین کفار سے ملتے تھے، ویسے ہی ان کی اسلام دشمنی ظاہر ہو کر اپنے مہلک نتائج پیش کرنے لگتی تھی۔
یہ بہت خطرناک مرض ہے۔ جسے لگ جائے، اس کی ساری تدبیریں الٹی ہو جاتی ہیں اور دوا کچھ کام نہیں آتی۔ ایسا شخص ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لیتا ہے اور اسے اس کا ذرا بھی ادراک نہیں ہوتا۔ جس چیز کے ذریعے اور لوگوں کو ہدایت ملتی ہے، اسے اسی چیز سے گمراہی ملتی ہے۔ بلکہ یہ ایسا کیریئر بن جاتا ہے جو یہ مرض دوسروں میں بھی ٹرانسمٹ کرنے لگتا ہے۔
{ إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا وَ صَدُّوا عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلَٰلًا بَعِيدًا } [النساء: 167]
{ مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَ يَذَرُهُمْ فِي طُغْيَٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ } [الأعراف: 186]
{ ۔۔۔ وَ مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ } [الرعد: 33]
ایسے شخص کیلئے اللہ سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اسے ہدایت نصیب کرے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے کرم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ آپ ﷺ اسے راہِ ہدایت پر لگائیں جیسا کہ ذیل کی آیتِ مبارکہ میں ہے؛
{ ۔۔۔ وَ إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ } [الشورى: 52]
ترجمہ: ۔۔۔ اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔
حسنِ ظن
اللہ سے حسنِ ظن رکھیں، لوگوں سے حسنِ ظن رکھیں، اور کتاب کی باتوں میں بہترین سمجھ پر عمل کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ بد اعتباری کے مرض سے چھٹکارا نہ ملے۔ ارشاد ربانی ہے؛
{ ٱلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ ٱلْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَٰئِكَ ٱلَّذِينَ هَدَىٰهُمُ ٱللَّهُ وَ أُولَٰئِكَ هُمْ أُولُوا ٱلْأَلْبَٰبِ } [الزمر: 18]
{ وَ ٱتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم ۔۔۔ } [الزمر: 55]
آیاتِ قرآنیہ تو سب کی سب احسن ہیں، کوئی غیر احسن نہیں۔ یہاں اس سے یہی مراد ہے کہ کلامِ الٰہی کو سن کر جتنے معنی بھی سمجھ میں وارد ہوں ان میں سے سب سے بہترین معنی کی اتباع کریں۔ {احسن سے مراد قرآنِ پاک بھی لیا گیا ہے}
اللہ سے حسنِ ظن رکھنے کے متعلق گیارہ احادیث پیش کرتا ہوں ان تمام کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے اس گمان کے نزدیک ہوتا ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے۔ ؛
1. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، إِنْ ظَنَّ بِي خَيْرًا فَلَهُ، وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَهُ
2. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، إِنَّ ظَنَّ خَيْرًا فَخَيْرٌ، وَإِنَّ ظَنَّ شَرًّا فَشَرٌّ
3. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، إِنْ ظَنَّ خَيْرًا فَخَيْرًا، وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَشَرًا
4. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، إِنْ ظَنَّ خَيْرًا، وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا
5. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَإِنْ ظَنَّ بِي خَيْرًا فَلَهُ الْخَيْرُ فَلَا تَظُنُّوا بِاللَّهِ إِلَّا خَيْرًا
6. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْيَظُنَّ بِي مَا شَاءَ
7. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْيَظُنَّ ظَانٌّ مَا شَاءَ
8. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي
9. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي
10. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَدْعُونِي
11. أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي
یہ گیارہ احادیث کافی ہیں اس بات کیلئے کہ اللہ پاک سے ہمیشہ اچھا گمان رکھے۔ سب سے پہلا حسنِ ظن تو اللہ پاک کے ساتھ ہوتا ہے، باقیوں کی باری تو بعد میں ہے۔ بلکہ جس کے ساتھ بھی گمان رکھا جاتا ہے در حقیقت وہ اللہ پاک کے ساتھ گمان سے کہیں نہ کہیں تعلق ضرور رکھتا ہے۔ اس گیارہویں شریف کا پیغام یہ ہے کہ اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں اور اس کے ساتھ ہمیشہ کامل حسنِ ظن رکھیں۔ آپ سب کی محبتوں اور آپ سب کے گیارہ گیارہ منٹس کا بہت شکریہ
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
اچھی کوشش ہے
جواب دیںحذف کریں