کوانٹم فیلڈز

کوانٹم فیلڈز

کوانٹم فیلڈز کی روحانی تشریح۔ ایک مبسوط رسالہ

سید محمد سلیم قادری نوری نقشبندی

Updated on: Mar 24, 2022

آستانۂ نوری کی پیشکش

فہرست

بس پیار ہی پیار

دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ

فیلڈ کا تصور

محبت کی نوری فیلڈ:

چادر تنی نور کی

سادہ ترین چیز:

مادّے کی پیدائش:

دعا برائے نور:

لفظ نور کی تشریح:

اسرار الکون اور بزرگوں کا انداز

مکان کثیف (ٹھوس):

مکان لطیف (سیال):

مکان الطف (مکان نور):

مکان روحانیت (فرشتوں کا مکان):

مکان روح انسانی:

مقام رب:

محبت کا پیرایہ:

تیراکی کا فیض

1- لفظ كُلٌّ (ہر ایک):

2- فَلَكٍ (آسمان):

3- يَسْبَحُونَ (تسبیح کرتے ہیں):

مجھے کب فیض ملے گا؟َ

تونے دل دیا، تیرا شکریہ (مرآۃ الاسرار)

شخصی فیلڈز:

نوٹ:

قلب، فئد اور نفس

کلمۂ نفس بمعنی دل

درود شریف

دوام درود پاک

درود پاک کی ہمہ گیریت:-

کیفیت درود !

جڑ جاؤ درود پاک کی فیلڈ سے

مسئلہ حل ہو جائے گا

چند آداب درود شریف

اے اللہ! درود نازل فرما !

جڑ جاؤ فیلڈ سے

خود کارانہ عددی تجزیہ

بس پیار ہی پیار

اہل عقل اور سائنسدان ہمیشہ اس کھوج میں رہے ہیں کہ ہماری کائنات کس شئے سے بنی ہے۔ ڈھائی ہزار سال پہلے یونانی فلسفی دیمقراط یا دی مقراطیس (Democritus) نے یہ کہا کہ ہر چیز چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر بنی ہے، انہیں اس نے ایٹاموس (Atomos) کا نام دیا جنہیں اجزائے دیمقراطیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ ناقابل تقسیم ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ سوا دو ہزار سال تک من و عن مانا جاتا رہا۔ جان ڈالٹن نے انیسویں صدی میں اس کے کام کو آگے بڑھایا مگر وہ بھی اس پر قائم رہا کہ کائنات کا بلڈنگ بلاک ناقابل تقسیم ایٹم ہی ہیں۔

1906 میں جے جے تھامسن نے ایٹم میں الیکٹران دریافت کرلئے۔ پھر ردر فورڈ نے ایٹم کے اندر مرکزہ دریافت کرلیا۔ اور نیلز بوہر نے نیوکلیئس میں پروٹان دریافت کیا۔ 1932 میں جیمز چیڈوک نے پروٹان کا پڑوسی نیوٹران دریافت کر لیا۔ یوں کائنات کے بلڈنگ بلاک کی تلاش جاری رہی۔

پھر پارٹکل ایکسیلریٹر وجود میں آگئے اور ذرات کو آپس میں ٹکرانا شروع کیا گیا تو درجنوں ذرات دریافت ہوگئے۔ اور نیوٹران اور پروٹان میں کوارکس دریافت ہوگئے۔ اتنے پارٹکلز دریافت ہوئے کہ سائنسدانوں کے پاس ان ذرات کو نام دینے کیلئے حروف بھی کم پڑگئے۔ اب تک 80 سے زیادہ سب ایٹامک پارٹکلز دریافت کئے جا چکے ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ

1998 اور 2008 کے درمیان سرن[1] نے دنیا کے 100 ممالک کے دس ہزار سے زائد سائنسدانوں کی مدد سے (جن میں مایہ ناز پاکستانی سائنسدان بھی شامل ہیں) ایٹمی ذرات کو ٹکرانے کی ایک مشین (لارج ہیڈران کولائیڈر یا ایل ایچ سی[2]) بنائی۔ یہ فرانس اور سوٹزرلینڈ کے بارڈر پر (جینیوا کے قریب) دنیا کا سب سے بڑا پارٹکل ایکسلریٹر ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کا سب سے بڑا اور مہنگا تجربہ بھی۔ یہ تقریباً 27 کلومیٹر (17 میل) لمبی دائرے کی شکل کی سرنگ میں واقع ہے جو کہ لگ بھگ 600 فٹ کی گہرائی میں زمین کے اندر بنائی گئی ہے۔

کچھ احمقوں نے اسے بگ بینگ تجربے کی مشین سمجھا اور اسے خدائی کاموں می‍ں مداخلت تصور کرکے اس کی ناکامی کی شدید دعائیں کی اور جب مشین کو 19 ستمبر 2008 (چلنے سے کچھ ہی پہلے) ایک زبردست حادثہ (magnet quench) پیش آیا جس میں 6 ٹن مقناطیسی کولینٹ (مائع ہیلیئم) ضائع ہو گیا اور اس کے دھماکے سے 50 سے زائد سپر کنڈکٹنگ مقناطیس بھی تباہ ہوگئے تو علم و عقل کے ان دشمنوں نے خوشی سے بغلیں بجائیں کہ دیکھ لو خدائی کاموں میں مداخلت کا انجام۔ لیکن اس وقت اس کی پاور 3 ٹی ای وی تھی جو بعد میں بڑھا کر 13 ٹی ای وی کردی گئی جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ اور یوں یہ پہلے سے بھی زیادہ طاقت اور طمطراق اور نئے عزم کے ساتھ خم ٹھونک کر میدانِ عمل میں آیا۔ اور پھر جب یہ چلا تو اس کی ناکامی کی دعائیں مانگنے والوں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔

کوارکس سے بننے والے ذرات (پروٹان اور نیوٹران) کو اجتماعی طور پر ہیڈران (Hadron) کہا جاتا ہے۔ اس کولائیڈر میں ہیڈران (مثلاً پروٹان) کو روشنی کی رفتار سے زیرِ زمین ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرایا جاتا ہے جس کے باعث یہ ٹوٹتے ہیں اور مزید چھوٹے پارٹکلز میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ اور یوں ذرات پر ذرات دریافت ہوتے گئے۔

آخر کار 4 جولائی 2012 کو سرن نے اعلان کردیا کہ انہوں نے ہگز بوزان نامی نظریاتی ذرے کو دریافت کر لیا ہے۔ یہ بلا شبہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اور 2013 میں پیٹر ہگز اور ان کے ساتھی کو نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ ہگز بوزان کسی ذرے کو اس کی کمیت دیتا ہے۔

بات پھر وہیں آگئی جہاں سے چلی تھی۔ ساری دنیا اٹم سے بنی ہے، لیکن ایٹم کے اندر درجنوں ذرات ہیں تو آخر کس چیز سے دنیا بنی ہے؟ وہ ایک شئے کیا ہے؟

کائنات کا بلڈنگ بلاک

آخر کار کوانٹم فزکس کی فیلڈ والے سائنسدان فیلڈ تک جا پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر شئے فیلڈ سے وجود پاتی ہے، ہر ذرہ فیلڈ (قوت کا دائرۂ کار یا قوت کے اثر کا رقبہ) سے وجود پاتا ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں فیلڈ موجود نہ ہو۔ اگر کسی شئے (برتن وغیرہ) میں سے کسی طریقے سے ہر شئے کو نکال دیا جائے یہاں تک کہ ایک ایک ذرے کو بھی تو جو خلا باقی ہوگا اس میں بھی فیلڈ موجود ہو گی اور اس کی لہریں (Fluctuations) بھی۔ نظر نہ آنے والی یہ فیلڈز کوانٹم فیلڈ کہلاتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوانٹم فیلڈ تھیوری میں پارٹکلز کو فیلڈ کوانٹا (جیسے روشنی کے کوانٹا) تصور کیا جاتا ہے۔

کمپیوٹرز کے ذریعے تیار کردہ ویکیوم میں کوانٹم فیلڈز پارٹیکلز کے تصور کا متحرک خاکہ

کچھ فیلڈز سے ہم پہلے ہی واقف ہیں: مقناطیسی فیلڈ، برقی فیلڈ، گریوٹی کی فیلڈ، ریڈی ایشن فیلڈ (جیسے گاما فیلڈ) وغیرہ وغیرہ۔ جہاں کوئی فیلڈ ہوتی ہے، وہاں کسی نا دیدہ قوت کا اثر لازمی موجود ہوتا ہے۔ موبائل سے دنیا بھر میں بات چیت کا ہونا فیلڈ ہی کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔ تاہم فیلڈ انسانی جسم کیلئے نقصان دہ بھی ہوتی ہے جیسے گاما اور لیزر فیلڈ وغیرہ۔

سائنسدان اس نظریے پر پہنچے ہیں کہ پارٹکلز پر انحصار نہ کیا جائے کیونکہ ساری کائنات 12 مختلف قسموں کی فیلڈ سے بنی ہے۔ الیکٹران کی دو، کوارکس کی چھے، نیوٹرینو کی تین اور میون اور ٹاء کی فیلڈز سے۔ یہ 12 فیلڈز ہی پارٹکلز کو جنم دیتی ہیں جن سے ساری دنیا بنی ہے۔ اور چار فیلڈز چار قوتوں کی اور ہیں، یہ کل سولہ فیلڈز ہوئیں جو کائنات کا بلڈنگ بلاک کہلاتی ہیں۔ اور اگر ان کی قسموں سے صرف نظر کریں تو کائنات کا بلڈنگ بلاک صرف ایک ہی ہے۔۔۔۔ یعنی فیلڈ۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اب تک کوارکس اور الیکٹران سے زیادہ چھوٹا ذرہ دریافت نہیں ہو سکا۔ اور ہر چیز الیکٹران، کوارکس اور نیوٹرینو سے بنی ہے۔ لیکن یہ بنیادی ذرات بھی فیلڈز سے بنتے ہیں۔

اس وقت نظری فزکس کا دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ[3] (جو اپنے بلیک ہول سے لگاؤ کی وجہ سے بھی مشہور ہے) جو شدید معذوری کا شکار ہے، اپنے بیمار اور مفلوج جسم سے خود بھی کسی تباہ شدہ سیارے کا آخری پسماندہ ایلین معلوم ہوتا ہے۔ اور اپنی معذوری کی وجہ سے فطری طریقے سے بات بھی نہیں کرسکتا اور اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کو مشین کے ذریعے آواز کی لہروں میں کنورٹ کرکے گفتگو کرتا ہے، اور بہت اعلی لیکچرز ڈیلیور کرتا ہے، لیکن وہ آخر میں ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ کائنات میں خدا کے وجود کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں۔ ہم اس کے اعلی لیکچرز کی ضرور قدر کرتے ہیں لیکن اسے یا کسی دوسرے کھلنڈرے کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ سائنس کی آڑ میں ہمارے مذہبی نظریات بالخصوص نظریۂ خدا سے کھلواڑ کرے۔

آخر فیلڈ ہے کیا؟ جب ہر چیز فیلڈ سے پیدا ہوئی ہے تو فیلڈ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

فیلڈ کا تصور

سائنسدانوں کے مطابق فیلڈ ایک سیال قسم کی شئے ہے جو ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں عجیب قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی شئے ہے جس کی اسپیس کے ہر مقام پر ایک مخصوص قیمت اور قدر ہوتی ہے اور یہ ویلیو وقت کے اندر تبدیل ہوتی ہے۔ فیلڈ ایک ایسا سمندر ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ بہتا ہے۔ جس کی لہروں نے ساری کائنات کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

محبت کی نوری فیلڈ:

بھولے بھالے مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ سائنسدانوں کی بتائی ہوئی فیلڈ پر تو یقین کرتے ہو، اس فیلڈ پر کیوں یقین نہیں جس نے اس کوانٹم فیلڈ کو بھی پیدا کیا ہے۔ جس کی لہروں نے ازل سے ابد تک کا احاطہ کر رکھا ہے۔ جو ہر جگہ موجود ہے، وہاں بھی جہاں کسی کا گمان تک نہیں جا سکتا۔ ہاں وہی۔۔۔۔ جس نے لولاک کہہ کر اپنی محبت کا اظہار فرمایا اور ساری کائنات کو پیدا فرما دیا۔ اس کی محبت اور رحمت کی فیلڈ جو ہر شئے کو محیط ہے۔ اس فیلڈ کے آثار ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ ارے وہ تو پہلے ہی فرما رہا ہے کہ میری رحمت اور محبت کے ہر سو پھیلے آثار کو دیکھو، { فَانظُرْ إِلَىٰ ءَاثَٰرِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا … } [الروم: 50].

 ارے اس کی محبت اور رحمت کی فیلڈ کے آثار تو دیکھو کہ کیسے مردہ زمین کو زندہ فرما دیتا ہے۔ یہ رات اور دن کیا ہیں؟ سب اسی کی محبت و رحمت (کی فیلڈز) نے پیدا فرمائے ہیں۔ { وَ مِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ … } [القصص: 73]۔ اور اسی کی رحمت کی فیلڈ ٹھنڈی ہواؤں کو اپنی چاہت کا پیغامبر بنا کر بھیجتی ہے: { وَ مِنْ ءَايَٰتِهِ أَن يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَٰتٍ وَ لِيُذِيقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِ …} [الروم: 46].

اس کی رحمت و محبت اور اس کے علم کی فیلڈ کے سمندر نے ہر شئے کو گھیر رکھا ہے، زمین والے تو زمین والے، آسمانوں والے حاملین عرش بھی اس فیلڈ کا احساس و ادراک رکھتے اور بر ملا اس کا اظہار کرتے ہیں کہ { … رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَ عِلْمًا …} [غافر: 7].

 یعنی اے ہمارے پروردگار، تیری رحمت اور علم (کی فیلڈز) نے اپنے اندر ہر شئے کو سمو رکھا ہے۔

وہ پاک پروردگار اس محبت و رحمت کے بارے میں خود ارشاد فرماتا ہے کہ { وَ رَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ … } [الأنعام: 133].

 اور فرماتا ہے کہ میری محبت (کی فیلڈ کے سمندر کی لہروں) نے ہر شئے کا یوں احاطہ کر رکھا ہے کہ { … وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ … } [الأعراف: 156].

 نہ صرف یہ کہ اس نے خود فرمایا بلکہ ہمیں بھی حکم دیا کہ جب کوئی جھٹلائے تو اسے واشگاف کہہ دو کہ { … قُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَٰسِعَةٍ … } [الأنعام: 147].

 تمہارے پروردگار کی (محبت اور ) رحمت (کی فیلڈ) لا متناہی ہے، دریائے ناپیدا کنار ہے۔ جب ہر طرف اسی کی محبت اور رحمت کی فیلڈز کے جلوے بکھرے ہیں اور موجودات میں سے ہر شئے اس کی محبت و رحمت کی فیلڈ کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اس سے محروم رہ جائے؟ اس کے باوجود بھی کوئی اس پاک پروردگار کی اسی بیکراں رحمت سے مایوس ہو جس کی فیلڈ میں وہ سدا رہا ہو تو یہ گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی لئے تو فرمایا کہ { … وَ مَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ } [الحجر: 56].

 اپنے رب کی رحمت سے تو وہی مایوس ہوتے ہیں جو راہ بھول بیٹھے ہوں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ نوری چہرہ تو ہمیشہ اپنے پروردگار کی محبت اور رحمت (کی فیلڈ) میں ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے تو فرمایا کہ { وَ أَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ } [آل عمران: 107].

 جن کے چہرے ایمان سے سفید اور نوری ہوں وہ ہمیشہ اس محبت کی فیلڈ میں ہی رہتے ہیں۔

پیٹر ہگز نے کہا تھا کہ کوئی پارٹکل ہگز فیلڈ کو جتنا ڈسٹرب کرتا ہے اسی قدر میسیو (Massive) اور وزنی ہوجاتا ہے (اسی مقصد کیلئے سرن نے ایل ایچ سی شروع کیا تھا کہ اس ہگز بوزان کو تلاش کیا جاسکے جو ہگز فیلڈ پیدا کرتا ہے جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی)۔ کیا اب بھی سمجھ نہیں آیا؟ پروردگار کی محبت اور رحمت کی فیلڈ کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کئے بغیر اس میں بہتے چلے جاؤ، خبردار ! ڈسٹرب کرنے کی کوشش مت کرنا۔ اسے ڈسٹرب کرنے اور اس سے ٹکرانے کی کوشش کرو گے (صرف کوشش ہی) تو بوجھل (گناہگار) ہوتے چلے جاؤ گے۔ اور کیا ہوتا ہے ثقل؟ گناہوں کا بوجھ اور بھاری پن ہی تو ہے۔ سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ اے جن و انس کے دونوں بوجھو، عنقریب ہم تمہارے لئے فارغ ہوا چاہتے ہیں۔

اس کا ہر نام حسین اور خوبصورت ہے اور ایک فیلڈ ہے، علم ہو یا قدرت، احدیت ہو یا صمدیت، محبت ہو یا رحمت سب فیلڈز ہیں اور سب سے اسٹرانگ اور سب پر حاوی فیلڈ محبت اور رحمت کی ہے۔

محبت کی فیلڈ سمجھ آگئی ہو تو ایک دینی سائنسدان کا شعر پیش کرتا ہوں اور سائنسدانوں کو اس پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ ساری کوانٹم فزکس (QFT) اس ایک شعر میں موجود ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے۔ ؎

وہی جلوہ شہر بہ شہر ہے، وہی اصل عالم و دہر ہے

وہی بحر ہے، وہی لہر ہے، وہی پاٹ ہے وہی دھار ہے

چادر تنی نور کی

(طالب علموں کیلئے کوانٹم فیلڈ کی کچھ تشریح)

سادہ ترین چیز:

ایک برتن (ظرف) جس میں سے ایک ایک چیز باہر نکال دی گئی ہو۔ یہ دنیا کی سب سے سادہ ترین چیز ہوگی سمجھنے کیلئے۔ اس سے زیادہ سادہ چیز کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ عدم سے زیادہ سادہ چیز اور ہو بھی کیا سکتی ہے؟ خالی برتن کا یہ خلا، جسے دنیا کی سب سے سادہ ترین چیز سمجھا جاتا ہے، شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ اس کی کیلکولیشنز کو حل کرنے کیلئے دنیا کے سپر کمپیوٹرز بھی ناکافی ہیں[4]۔

وہ خلا جس میں کچھ نہیں ہوتا، اس میں بھی کچھ ہوتا ہے۔ یعنی فیلڈز۔ کائنات میں ہر طرف فیلڈز جلوہ گر ہیں، حتی کہ دور دراز خلاؤں میں بھی۔ پارٹکلز کی 12 فیلڈز (کوارکس کی چھے، نیوٹرینو کی تین، الیکٹران، میوآن اور ٹاء کی تین)۔ ہر طرف فیلڈز کے دریا خالی خلاؤں میں موجزن ہیں۔ ہر طرف فیلڈز ہیں، ایک دوسرے میں مدغم اور ایک دوسرے کے ساتھ انٹریکٹ کرتی ہوئی فیلڈز۔ ایک پارٹکل ایک سے زیادہ فیلڈ سے انٹریکٹ کر سکتا ہے، اور ایک فیلڈ بھی دوسری فیلڈ سے۔

مادّے کی پیدائش:

الیکٹران کی فیلڈ کو انرجی دو، الیکٹران پیدا ہوجائے گا، کوارکس کی فیلڈ کو انرجی دو گے تو کوارکس پیدا ہوکر پروٹان اور نیوٹران بنا لیں گے۔ کیونکہ پارٹکل فیلڈ کی انرجی کا ایک ڈھیر اور مجموعہ (فیلڈ کوانٹا) ہی تو ہوتے ہیں۔

پیٹر ہگز کوانٹم فزکس اور بگ بینگ کی مساواتوں میں الجھا ہوا تھا لیکن سارے جوابات غلط آرہے تھے۔ کوئی چیز تھی جو ان مساواتوں کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اس نے ایک ایک کرکے اجزا کو صفر کرنا شروع کیا۔ اور جب اس نے کمیت (ماس) کو صفر رکھا تو ساری مساواتوں نے درست جواب دینا شروع کردیا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ پارٹکلز کا کوئی ماس نہیں ہوتا۔ لیکن ماس کو صفر کرنا ایک اور بڑی پرابلم تھی۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ پارٹکلز کا ماس ختم ہوجائے تو وہ سب روشنی کی رفتار سے دوڑنا شروع کردیں گے۔ اور یوں ایٹم بلکہ کائنات کا ڈھانچہ قائم نہیں رہ سکے گا۔ ہر چیز بکھر کر منتشر ہو جائے گی، جیسے بگ بینگ سے پہلے تھی۔ اس کا صرف ایک ہی حل تھا کہ ماس پارٹکلز کی ذاتی پراپرٹی نہیں ہوتی۔ پارٹکلز تو ماس لیس ہی ہوتے ہیں، کوئی بیرونی شئے ہے جو پارٹکلز کو کمیت فراہم کرتی ہے۔ وہ چیز فیلڈ کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس فیلڈ کو اس نے اپنے نام پر ہگز فیلڈ کا نام دیا۔ اور کہا کہ جو پارٹکل ہگز فیلڈ کو جتنا ڈسٹرب کرتا ہے، اس کی کمیت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لئے کوارکس کی کمیت الیکٹران کی کمیت سے 300 گنا زیادہ ہوتی ہے، اگرچہ سائز دونوں کا ایک سا ہوتا ہے۔

اب سوال یہ تھا کہ اس فیلڈ کو عملی طور پر کیسے ثابت کیا جائے۔ ایک بات معلوم تھی کہ فیلڈ کو اگر انرجی دی جائے تو اسی فیلڈ سے تعلق رکھنے والا پارٹکل پیدا ہو جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے سرن نے 2008 میں ساری دنیا کی مدد سے ایل ایچ سی نامی پروجیکٹ تیار کیا۔ یہ بظاہر تو ایک پارٹکل ایکسلریٹر ہے۔ لیکن پارٹکل ایکسلریٹر تو 1932 میں ہی بن چکے تھے یہ صرف ایک کولائیڈر نہیں تھا۔ یہ تو پارٹکل (مادّہ یا مادّی ذرّات) پیدا کرنے کی مشین تھی۔ اسی لئے کچھ لوگوں نے اسے بگ بینگ مشین کا نام بھی دیا۔ اور وہ اس میں کچھ غلط بھی نہ تھے۔ اب اگر ہگز فیلڈ کا سراغ مل جاتا تو بگ بینگ کے ابتدائی لمحات میں پیدا ہونے والی فیلڈز کی تصدیق ہوجاتی اور یہ بھی ثابت ہو جاتا کہ ایک فیلڈ ایسی بھی ہوتی ہے جو بے کمیت ذرات کو ماس عطا کرتی ہے۔ اور ساری کائنات میں ہر جگہ موجود ہے

ایل ایچ سی اسٹارٹ ہوا تو چار کروڑ کولیزن (8 کروڑ ذرات کو) فی سیکنڈ کے حساب سے پارٹکلز کو ٹکرایا گیا۔ اور دو سال کے بعد ہگز پارٹکل کی موجودگی کا ثبوت ملا۔ یہ پارٹکل دریافت نہیں ہوا تھا، پیدا ہوا تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ روشنی کی رفتار سے ٹکراتے پروٹانز نے بالآخر ہگز فیلڈ میں ہلچل پیدا کی ہے جس کی وجہ سے ہگز بوزان نامی ذرہ پیدا ہو گیا۔ جسے اس کی خصوصیات سے پہچانا گیا۔ پیدا ہوتے ہی فورا تحلیل ہو جانے والے ہگز بوزان کی موجودگی نے ثبوت فراہم کردیا کہ ہمارے اطراف میں ہر جگہ ہگز فیلڈ موجود ہے جو اشیاء کو ان کی کمیت عطا کرتی ہے۔ اور یہ فیلڈ ہر جگہ موجود ہے۔

ہمارے چاروں طرف فیلڈز (قوتوں کے میدان) موجود ہیں۔ ہم اپنے جسم سے انہیں محسوس نہیں کر سکتے۔ انہی میں سے ایک ہگز فیلڈ بھی ہے۔ 12 فیلڈز ذرات کی ہیں اور 4 قوتوں کی۔

اگر فیلڈ کو آپ تصور میں دیکھ سکیں تو یہ ہر طرف پھیلی ہوئی نور کی ایک چادر کی مانند دکھائی دے گی۔ جیسے چاند کی چاندنی۔ ہر فیلڈ نور ہی کی تو ہوتی ہے۔ یہ نور ہی تو ہے جو ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ لوگ مادے اور نور میں الجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ جن اشیاء پر آپ کلاسیکل فزکس کے قوانین نہ لگا سکیں، وہ سب نور ہی تو ہے۔ جیسے روشنی اور فیلڈز۔

جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے موجودات کو پیدا فرمانے کا ارادہ کیا اور زمین کو بچھانے اور آسمان کو بلند فرمانے کا قصد فرمایا تو اپنے فیض ذات سے مُٹھی بھر لے کر اس سے ارشاد فرمایا: ''اے نور! محمد بن جا۔'' اُس نور نے ایک نوری ستون کی صورت اختیار کرلی۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس نور کے چار حصے کرکے ایک حصے سے لوحِ محفوظ اور دوسرے سے قلم کو پیدا فرمایا۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیسرے حصے سے عرش کو پیدا کیا۔ پھر چوتھے حصے کے مزید چار حصے کرکے پہلے حصے سے عقل، دوسرے سے معرفت، تیسرے سے سورج، چاند اور آنکھوں کا نور اور دِن کی روشنی پیدا فرمائی۔ اس کے بعد اللہ جَلَّ جَلالُہٗ نے نور کی اس چوتھی قسم کے چوتھے حصے کو بطورِ امانت عرش کے نیچے رکھ دیا۔ پھر جب اللہ جَلَّ جَلالُہٗ نے حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ عَلیٰ نبیّنا و علیہ الصلٰوۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو وہ نور ان کی پشت مبارک میں رکھا۔ (یہ حدیث شریف طوالت کی غرض سے پوری درج نہیں کی گئی۔ لیکن آپ اسے مکمل متن کے ساتھ اس لنک پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ شکریہ

Noori Blog

اب میں اپنے معصوم مسلمان طالب علموں سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہوں کہ میرے عزیز طالب علم ساتھیو! سائنسدانوں نے بتایا تو سب کچھ مان لیا، یہ بھی کہ یہ فیلڈز ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کوئی گوشہ ان سے خالی نہیں۔ تو جس کے نور کی فیلڈ چاندنی بن کر سارے جہان پر چھائی اسے منور کر رہی ہے، اور اسے حقیقت میں وجود بخش رہی ہے اسے مان لینے میں کیا قباحت ہے؟ جس کی رحمت سارے عالم پر محیط ہے، سورج اور چاند نے اپنا نور جس کے نور سے مستعار لیا ہے، جسے اللہ پاک نے خود ساری کائنات کو چمکاتا سورج بنا کر بھیجا ہے، اور وہ ذات پاک خود اپنے مبارک ہونٹوں سے اعلان فرما رہی ہے کہ اے جابر، اللہ پاک نے سب سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر اسی نور سے ساری کائنات پیدا فرمائی۔

سائنسدانوں نے بھی تو 12 ہی فیلڈز کہا ہے، نور نبی کے بھی تو 12 حصے ہی کئے گئے اور ہر حصے سے ایک قسم کی اشیاء کو پیدا فرمایا۔ سائنس کے میدان میں بارہا دھوکہ کھاجانے والے سائنسدانوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، اس کی بات کیوں سمجھ نہیں آتی جس کے بارے میں پروردگار اعلان فرماتا ہے کہ میرا حبیب تو اپنی خواہش نفس سے کچھ بولتا ہی نہیں، یہ جو فرماتے ہیں وہ ہماری ہی تو وحی ہے۔

سائنسدان نہیں بتا سکتے کہ نور کی بھی جنریشنز ہیں، لیکن اس حدیث پاک نے واضح کردیا کہ نور کی جنریشنز ہیں۔ پہلی جنریشن میں نور کے چار حصے کئے گئے، پھر دوسری جنریشن کیلئے چوتھے حصے کے مزید چار حصے کئے گئے، پھر تیسری جنریشن کے نور کیلئے دوسری جنریشن کے نور کے چوتھے حصے کے پھر چار حصے کئے گئے۔ یہ کل 12 حصے بنتے ہیں۔ لیکن ان کے نور کی شدت پہلے 1/4 ہے، دوسرے میں 1/16 ہے اور تیسرے میں 1/64۔ اتنی تفصیل تو کوئی امی ہی بتا سکتا ہے، وہی امی جس کے نور سے ہر نور پیدا کیا گیا ہو۔

میرے طالب علم ساتھیو! نور کی اس فیلڈ کی معرفت اور حصول کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ ہمیں صرف تقوی اختیار کرنا ہے اور اس کے محبوب پر غیر متزلزل یقین رکھنا ہے۔ یہ نور اور اس کا ادراک تمہیں بھی حاصل ہوجائے گا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:

{ يَٰأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ ءَامِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَ يَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ } [الحديد: 28].

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ اپنی رحمت کے دو حصے تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور کردے گا جس میں (دنیا و آخرت میں) چلو گے اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

عزیز طالب علمو! سچی توبہ اس نور تک پہنچنے کا واحد زینہ ہے۔ اللہ کی جناب میں گناہوں اور غلط نظریات سے سچے دل سے توبہ کرو، وہ ہماری توبہ کو قبول فرمائیں گے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:

{ يَٰأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّءَاتِكُمْ وَ يُدْخِلَكُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَٰرُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَ الَّذِينَ ءَامَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَٰنِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ } [التحريم: 8].

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے، قریب ہے تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے اتار دے اور تمہیں باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہیں، جس دن اللہ رسوا نہ کرے گا نبی اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں کو، ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے آگے اور ان کے دہنے، عرض کریں گے، اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے، بیشک تجھے ہر چیز پر قدرت ہے۔

دعا برائے نور:

صرف یہی نہیں بلکہ اللہ پاک سے اس نور کی دعا کرتے رہو۔ خود نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اللہ جَلَّ جَلالُہٗ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہر دعا کی طرح یہ دعا بھی قبول فرمائی۔

اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَأَعْظِمْ لِي نُورًا

یعنی اے اللہ ! میرے دل میں نور کردے، میرے کانوں میں نور کردے، میرے دائیں بائیں اور اوپر نیچے نور کردے اور میرے آگے پیچھے نور کردے اور مجھے سراپا نور کردے۔ (اور کیسی ہوتی ہے نور کی فیلڈ؟)

لفظ نور کی تشریح:

امام اجل امام اہلسنت سید نا أبو الحسن اشعری قدس سرہ (جن کی طرف نسبت کر کے اہل سنت کو اشاعرہ کہا جاتا ہے ) ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ جَلَّ جَلالُہٗ نور ہے، نہ اور نوروں کی مانند اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح پاک اسی نور کی تابش ہے اور ملائکہ ان نوروں کے ایک پھول ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرا نور بنایا اور میرے ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی۔

علامہ سید شریف جرجانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: نور ایک ایسی کیفیت ہے جس کا ادراک قوت باصرہ پہلے کرتی ہے پھر اس کے واسطے سے تمام مبصرات کا ادراک کرتی ہے۔

اور حق یہ کہ نور اس سے اجلٰی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ یہ جو بیان ہوا تعریف الجلی بالخفی ہے۔ نور بایں معنٰی (ان معنوں میں تو) ایک عرض و حادث ہے اور رب جَلَّ جَلالُہٗ اس سے منزہ۔

محققین کے نزدیک نور وہ کہ خود ظاہر ہو اور دوسروں کا مظہر۔

بایں معنی اللہ جَلَّ جَلالُہٗ نور حقیقی ہے بلکہ حقیقۃً وہی نور ہے اور آیہ کریمہ اللہ نور السمٰوٰت والارض (اللہ تعالٰی نور ہے آسمانوں اور زمین کا) بلا تکلف و بلا دلیل اپنے معنی حقیقی پر ہے۔ کیونکہ اللہ جَلَّ جَلالُہٗ بلاشبہ خود ظاہر ہے اور اپنے غیر یعنی آسمانوں، زمینوں، ان کے اندر پائی جانے والی تمام اشیاء اور دیگر مخلوقات کو ظاہر کرنے والا ہے۔

حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلاشبہ اللہ جَلَّ جَلالُہٗ کے نور ذاتی سے پیدا ہیں۔

حدیث شریف میں وارد ہے: اے جابر! بیشک اللہ جَلَّ جَلالُہٗ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ (اس کو عبد الرزاق نے روایت کیا اور بیہقی کے نزدیک اس کے ہم معنٰی ہے۔)

علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں: (من نورہٖ) ای من نور ھو ذاتہ یعنی اللہ جَلَّ جَلالُہٗ نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس نور سے پیدا کیا جو عین ذات الٰہی ہے، یعنی اپنی ذات سے بلاواسطہ پیدا فرمایا۔

امام احمد قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مواہب شریف میں فرماتے ہیں: جب اللہ جَلَّ جَلالُہٗ نے مخلوقات کو پیدا کرنا چاہا تو صمدی نوروں سے مرتبہ ذات صرف میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ظاہر فرمایا، پھر اس سے تمام علوی و سفلی نکالے۔

شیخ محقق مولانا عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں: انبیاء اللہ جَلَّ جَلالُہٗ کے اسماء ذاتیہ سے پیدا ہوائے اور اولیاء اسمائے صفاتیہ سے، بقیہ کائنات صفات فعلیہ سے، اور سید رسل صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ذات حق سے، اور حق کا ظہور آپ میں بالذات ہے۔

ہاں عین ذاتِ الٰہی سے پیدا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ ذاتِ الٰہی ذاتِ رسالت کیلئے مادہ ہے جیسے مٹی سے انسان پیدا ہو، یا عیاذاً باللہ ذات الٰہی کا کوئی حصہ یا کُل، ذاتِ نبی ہو گیا۔ اللہ جَلَّ جَلالُہٗ حصے اور ٹکڑے اور کسی کے ساتھ متحد ہو جانے یا کسی شَئے میں حلول فرماتے سے پاک و منزہ ہے۔ حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، خواہ کسی شے، جزء ذاتِ الٰہی خواہ کسی مخلوق کو عین و نفس ذاتِ الٰہی ماننا کفر ہے۔

اس تخلیق کے اصل معنی تو اللہ و رسول جانیں، جل وعلا و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ عالم میں ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تو کوئی پہچانتا نہیں۔ حدیث میں ہے: "یا ابا بکر لم یعرفنی حقیقۃ غیر ربی" یعنی اے ابُو بکر! مجھے جیسا میں حقیقت میں ہوں میرے رب کے سوا کسی نے نہ جانا۔

اسرار الکون اور بزرگوں کا انداز

مکان کی پانچ قسمیں کی گئی ہیں: مکان کثیف، مکان لطیف، مکان الطف، مکان روحانیات اور مکان روح انسانی۔ پھر جس طرح مکان پانچ ہیں اسی طرح ان کی رفتاریں بھی پانچ ہیں۔ ان مکانات کا ذیل میں مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مکان کثیف (ٹھوس):

مکان کثیف زمین ہے، جس کی دشواری اور تنگی ظاہر ہے کہ جب تک ایک شخص اٹھ نہ جائے، دوسرا اس کی جگہ بیٹھ نہیں سکتا۔ اس کی دوری اور نزدیکی بھی معلوم ہے۔ اس مکان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا ممکن ہی نہیں جب تک قدم نہ اٹھائے جائیں۔ اور یہ ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا دشوار ہو۔

مکان لطیف (سیال):

مکان لطیف ہوا ہے۔ اس مکان میں بھی تنگی ہے۔ اس لئے کہ چمڑے کا وہ تھیلا (یا جیسے ایئر سلنڈر وغیرہ) جو ہوا سے خوب بھرا ہوا ہے، اس میں مزید ہوا اس وقت تک نہیں جاسکتی جب تک کہ اس کو اندر کی ہوا سے خالی نہ کیا جائے (یا بہت زیادہ قوت صرف نہ کی جائے)۔ ہاں اتنی بات یاد رکھنے کی ہے کہ مکان کثیف کا بعد، اس مکان کا قرب ہے۔ اس لئے کہ مکان کثیف میں جتنی دور ایک مہینے میں پہنچا جا سکتا ہے، مکان لطیف میں وہ مسافت ایک دن میں طے ہو سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت، جسے ہوا اڑاتی تھی، ہر دن اور ہر رات میں ایک مہینے کی مسافت طے کرتا تھا۔ خود قرآن پاک میں ہے کہ { … غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَ رَوَاحُهَا شَهْرٌ … } ،[سبأ: 12].

 یعنی اس کی صبح کی منزل ایک مہینے کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ۔ البتہ دوری اس مکان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس لئے کہ ہوا اگر مشرق سے مغرب کو جانا چاہے تو اس میں کچھ مدت ضرور لگے گی۔

مکان الطف (مکان نور):

یہ انوار صوری کا مکان ہے۔ اور جو کچھ مکان لطیف میں دور ہے، یہاں نزدیک۔ سورج جب مشرق سے اپنا سر اٹھاتا ہے، تو اسی آن میں اس کی روشنی مغرب تک پہنچتی ہے۔ اگر اس کی روش ہوا کے مکان کی طرح ہوتی تو مغرب تک پہنچنے میں کچھ مدت لگتی۔ یہی حال آگ اور اس کی مانند چیزوں کا ہے۔ جب تک ان کی روشنی منقطع نہ ہو۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ روشنی کو ہوا میں ایک علیحدہ مقام حاصل ہے۔ ہاں اس مکان میں دشواری اور تنگی نہیں۔ اس لئے کہ جب تم ایک مشعل ایک مکان میں روشن کرو، تو اس کی روشنی مکان کے کونوں میں پہنچتی ہے۔ اور اگر تم سو مشعلیں اور روشن کرلو تو بھی ان سب مشعلوں کا نور اسی ایک مکان میں سما جائے گا۔ بے اس کے کہ پہلی مشعل کا نور باہر نکالا جائے۔ مگر دوری اس مکان کیلئے بھی ہے۔ اس لئے کہ سورج کی روشنی کثیف پردوں کے باہر نہیں جا سکتی۔ اور جب دوری زیادہ بڑھتی ہے تو روشنی بالکل مدھم اور تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔

[نوٹ: یہی مکان ہے جس کیلئے پوری کوانٹم فزکس اور اس کے پیچیدہ ترین قوانین وضع کئے گئے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس مکان کو مکان نور صرف مشابہت کی بنا پر کہا گیا ہے۔ یہ حسی نور کا مکان ہے جسے نور صوری (وہ نور جو مادّی اشکال اختیار کرلے) کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ راقم}

مکان روحانیت (فرشتوں کا مکان):

مکان روحانیت اس مکان الطف (مکان نور) سے بھی ما وراء ہے۔ اور وہ فرشتوں کا مقام ہے۔ کہ ان کی سیر کیلئے بڑی سے بڑی روک مانع نہیں ہو سکتی۔

نقل ہے کہ جبرائیل علیہ السلام سدرہ کے مقام سے آنکھ جھپکتے زمین پر آ جاتے۔ چنانچہ جب یوسف عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام ، کے بھائیوں نے حضرت یوسف (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کو کنوئیں میں ڈالا تو خطاب ہوا کہ اے جبریل! یوسف (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام)  تک پہنچو۔ تو جیسے ہی آپ کے بھائیوں نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے چھوڑا، حضرت جبریل (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام)  آپ تک پہنچ گئے اور آہستگی سے کنوئیں میں اتار دیا کہ آپ کو کوئی تکلیف اور گزند نہ پہنچے۔ مگر ان کے مکانوں میں بھی خفیف سی دوری ہے اس لئے کہ انہیں (پروں کی) حرکت کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پلک جھپکنے سے کم وقفے میں منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن یہی حرکت کی ضرورت کمال روحانی کے منافی ہے۔

مکان روح انسانی:

مکان روح انسانی کمال لطافت رکھتا ہے۔ اس لئے کہ وہ کسی حرکت کا محتاج نہیں۔ جہاں اسے تلاش کرلو گے، پالو گے۔ عرش سے لے کر تحت الثری تک کوئی ذرّہ، اس سے اور اس کے مکان سے دور نہیں ہے۔ مگر پھر بھی اس میں کچھ دوری ہے کہ اسے بھی کسی جگہ پہنچنے کیلئے ارادہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مقام رب:

واحد حقیقی ان تمام مکانوں سے منزہ، مقدس اور متعالی ہے۔ نہ اس کا حلول ان مکانوں میں جائز، نہ ان کا مس ہونا اس سے متصور۔ اور نہ ان مکانوں کا اس کے محاذات میں ہونا روا۔ اس برگزیدہ کی منزلت ان تمام چیزوں سے بالا تر ہے۔ وہ منزلت قرب در قرب ہے، اس میں کسی اعتبار سے کوئی بعد ممکن ہی نہیں۔ تمام غیر متناہی امور اس کیلئے ایک نقطہ ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جس کیلئے کہا گیا ہے کہ علم تو بس ایک نقطہ ہے جسے جاہلوں نے پھیلا لیا ہے۔ اس نقطے میں ازل سے ابد تک سب سمایا ہوا ہے اور تمام غیر متناہی اشیاء کو اس کے احاطے میں پاؤ گے۔

یہ نقطہ اور یہ لمحہ (Singularity) اسرارِ وحدانیت کا مظہر اور واحد حقیقی کے انوارِ فردانیت کا مشہد ہے۔ وہ اس نقطے سے بھی پاک اور منزہ ہے۔ ہاں اسے اللہ کا مکان یا اللہ کا زمان کہنا اختصاص و شرف افزائی کی بنا پر ہے۔ جیسا کہ بیت اللہ، ناقۃ اللہ اور روح اللہ کہا جاتا ہے۔ اور انتہائی قرب کے باعث اسے مقام رب بھی کہہ سکتے ہیں۔ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ سے اسی مقام کی جانب اشارہ ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی مقام نہیں۔

ترا خود عقل تو، اول عقیلہ ست

عجائب حالتے، ایں را چہ حیلہ ست

تیرے لئے خود تیری عقل سب سے بڑی رکاوٹ ہے، احوالِ عجیبہ کو اس میں کیا حیلہ بناتا ہے۔

محبت کا پیرایہ:

سبع سنابل شریف حضرت میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیف ہے اور یہ کتاب بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں مقبول ہے۔ آپ کا انتقال ۱۰۱۷ ہجری میں ہوا۔ گویا کہ یہ تمام حقائق آپ نے ساڑھے چار سو سال قبل بیان کئے تھے۔ کس قدر سادہ اور سہل انداز ہے۔ یہ انہوں نے اس وقت تحریر کیا تھا جب آئن اسٹائن اور بگ بینگ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یہی ماضی کے تمام بزرگوں کا طریقہ تھا۔ سائنسی حقائق کو بھی تصوف کے رنگ میں بیان کرتے تھے۔ ہمارے ان بزرگوں کے انداز بیان کا خلاصہ کچھ یوں ہے

  1. سائنسی حقائق پر عبور حاصل کرنا۔
  2. تصوف میں کمال حاصل کرنا۔
  3. سائنسی حقائق کو تصوف کے پیرائے میں بالکل آسان کرکے بیان کرنا۔
  4. اور ہر سائنسی حقیقت کو محبت، عشق، تصوف، توحید اور معرفت کے ضمن میں اختصار سے بیان کرنا۔

ہمارے بزرگوں نے سائنسی حقائق اور روحانیت کے راز بھی اپنی کتابوں میں درج کر رکھے ہیں۔ ضرورت صرف ان کے پیرائے اور انداز بیان کو سمجھنے کی ہے۔ امام غزالی، ابن عربی، ابن سینا، داتا گنج بخش علی ہجویری اور دیگر تمام بزرگوں نے یہی انداز اپنایا ہے جو ہر دور میں پسندیدہ رہا ہے۔ اپنے خزانوں کی عظمت پہچان لو گے تو سمجھ میں آجائے گا کہ فی زمانہ یوروپی اقوام کا انداز بیان کس قدر مشکل اور سر دکھانے والا ہے۔ اور اب تو ایسے مسخرے بھی پیدا ہوگئے ہیں جو علم کی بات کو بھی کھیل کود اور کارٹونوں کے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہو چکے ہیں جو ماضی کے بزرگوں کا بھی پیرایہ (انداز بیان) جدیدیت کے نام پر بدل دیتے ہیں اور ان کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے انہیں اپنے رنگ میں رنگنے کی سعئ لا حاصل میں مصروف ہیں۔

یاد رکھیں کہ بہترین پیرایہ (انداز) علم کی خوشبو ہے۔ پھول پتے تو کوئی بھی تلاش کرسکتا ہے، ہاں گلاب کی خوشبو کسی کسی کا نصیب ہوتی ہے۔

ہم نے خزانے کا پتا اور نقشہ تجھے دے دیا ہے، اس امید پر کہ جس خزانے تک ہم نہ پہنچ پائے، ہو سکتا ہے کہ تو اسے حاصل کرلے۔

تیراکی کا فیض

کوانٹم فزکس یہ بتاتی ہے کہ کائنات میں جہاں کچھ نہیں ہوتا، وہاں فیلڈز ہوتی ہیں، مختلف قسم کی کوانٹم فیلڈز۔ انہیں آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ لیکن ان کے ہونے کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن پاک میں سورۂ ذاریات، مرسلات اور نازعات کی ابتدائی آیتوں میں جن چیزوں کی قسمیں ارشاد فرمائی گئی ہیں، وہ اگرچہ مفسرین کے مطابق مبہم اور غیر متعین ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ فیلڈز کی طرف کامل اشارہ کرتی ہیں۔ اگرچہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا تاہم کچھ جدید مفسرین نے ان سے مراد توانائی بھی لی ہے۔

ایک آیت مبارکہ ایسی بھی ہے جس کا مفہوم مختلف ادوار میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جاتا رہا۔ وہ یہ آیت مبارکہ ہے؛

{ …وَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ } [يس: 40].

یعنی ہر ایک، ایک گھیرے میں پیر (تیر) رہا ہے۔

اس میں تین لفظ ہیں جو مفہوم کے اعتبار سے ہر بار نئی تشریح کے ساتھ سامنے آتے رہے۔

1- لفظ كُلٌّ (ہر ایک):

کبھی صرف چاند سورج کیلئے، کبھی دن رات بھی اس میں شامل ہوئے، کبھی سارے سیارے، کبھی زمین شامل اور کبھی مستثنی۔ اور کبھی سارے اجرام فلکی خواہ وہ ہمارے نظام شمسی کے علاوہ (ساری کائنات کے) ہی کیوں نہ ہوں۔ تاہم اتنا یاد رہے کہ اس کے ہر مفہوم کیلئے دلائل موجود ہیں۔

2- فَلَكٍ (آسمان):

کبھی اسے آسمان سمجھا گیا، کبھی مدار، کبھی فرضی دائرہ۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ لفظ فلک، کوانٹم فیلڈ ہی کی تشریح کرتا ہے۔ یہ اقوال بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

قال الضحاك: فلكها مجراها وسرعة سيرها.

(یعنی فلک ان کا راستہ اور چلنے کی سرعت ہے)

وَقَالَ الْكَلْبِيُّ: الْفَلَكُ اسْتِدَارَةُ السَّمَاءِ (فلک آسمان کی گولائی ہے)

وَقَالَ آخَرُونَ: الْفَلَكُ مَوْجٌ مَكْفُوفٌ دون السماء تجري فيه الشمس والقمر والنجوم (فلک آسمان نہیں بلکہ ایک موج مکفوف یعنی لپٹی ہوئی یا بہنے سے روکی ہوئی موج ہے جس میں چاند، سورج اور ستارے چلتے ہیں۔)

وَرُوِيَ عَنْ كَعْبٍ أَنَّهُ قَالَ: السَّمَاءُ الدُّنْيَا مَوْجٌ مَكْفُوفٌ (کعب فرماتے ہیں کہ آسمان دنیا موج مکفوف ہے)

3- يَسْبَحُونَ (تسبیح کرتے ہیں):

ابتدا میں اس کا صرف ایک مفہوم تھا، یعنی سبحان اللہ کہنا۔ پھر مفہوم ہوا کہ اپنا کام کرنا اور طلوع و غروب ہونا۔ اور اب اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے تیرنا یا گھومنا۔

غور طلب بات ہے کہ چاند سورج کے طلوع و غروب اور سفر کیلئے قرآنِ پاک نے تیرنا کا لفظ اختیار کیا ہے۔ یسبحون کا مادہ سبح ہے جس کے ایک معنی ہیں پانی یا ہوا میں تیز چلنا (تیرنا یا اڑنا)۔ سبح سے ہی تسبیح کا لفظ بنا ہے۔ چاند اور سورج نہایت تیز چلتے ہیں اور ان کی حرکت تیرنے کے مشابہ ہے۔ تیرنا یا اڑنا کسی سیال (Fluid) میں ہی ممکن ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خلا میں تو کوئی سیال نہیں ہوتا، تاہم کوانٹم فزکس یہ ضرور بتاتی ہے کہ خلا میں بھی نادیدہ فیلڈز موجود ہوتی ہیں جنہوں نے کسی نادیدہ سیال کی طرح کائنات کو بھر رکھا ہے۔ حتی کہ ایک چھوٹے سے ایٹم میں بھی جتنی خالی جگہ ہوتی ہے اس میں بھی الیکٹرک، میگنیٹک اور دوسری کئی قسم کی کوانٹم فیلڈز موجود ہوتی ہیں۔

بڑے حضرت صاحب فرماتے تھے کہ "ڈوب کر اللہ کو یاد کیا کرو۔" تو کوئی چیز تو ہوگی جس میں ڈوبا جائے۔ بس وہی فیلڈ ہے۔

مجھے کب فیض ملے گا؟َ

میرے فیض نامی ایک دوست اکثر اپنے پیر و مرشد سے (جو امام احمد رضا بریلوی کے نواسے بھی ہیں اور صاحبِ کرامت بزرگ بھی) شکایت کیا کرتے تھے کہ حضرت جی، آخر مجھے فیض کب ملے گا؟ آپ فرماتے تھے کہ بتاؤں گا کبھی۔ ایک دن میں حسبِ عادت مغرب بعد مسجد میں سورۂ یاسین کی تلاوت میں مصروف تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ بیرونی دروازے پر کون ہے اور کیا گفتگو ہو رہی ہے۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد میں تلاوت سے فارغ ہوا اور باہر آیا تو فیض صاحب دروازے پر میرا انتظار فرما رہے تھے۔ میں آیا تو کہنے لگے کہ "آج حضرت صاحب سے میں نے وہی سوال کیا تو انہوں نے یہیں کھڑے کھڑے آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ جب اس طرح اللہ کا ذکر کرنے لگ جاؤ گے تو فیض خود بخود تمہاری طرف آنے لگے گا۔ بھائی بتا دو کہ تم کس طرح ذکر کرتے ہو؟ میں نے تو صرف اتنا دیکھا ہے کہ تمہیں اطراف کی خبر نہیں ہوتی"۔ میں بھلا کیا کہتا؟ عاجزی کا اظہار کرتا ہوا واپس ہولیا۔ جو راز کو پالے، اسے کسی تفصیل کی کیا ضرورت۔ جس کے سامنے مثال موجود ہو، اسے لفظوں کی کیا حاجت۔ اور پھر کئی سال بعد میری ان سے ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ عمرے پر جارہے تھے، میرے پاس آئے تھے۔ حسن اتفاق سے میں اس وقت عمرے سے ہی لوٹا تھا۔ میں نے دیکھا کہ فیض صاحب اسم با مسمیٰ ہوگئے ہیں۔ ان کا فیض واقعی دیدنی تھا۔ مجھ سے پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ درود خضری کا تحفہ لے جاؤ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پیش کرنے کیلئے۔ بولے کہ حضرت اسی مقصد کے تحت حاضر ہوا ہوں، مہربانی کرکے مجھے لکھا ہوا درود خضری عطا کردیں۔ میں نے انہیں درود شریف کا چھپا ہوا کارڈ دیا اور سوا لاکھ پڑھنے کی تاکید بھی کی۔

میں حضرت صاحب کی بات کو بڑا کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ہاں، ڈوب کر اللہ کو یاد کیا کرو، پہلے ڈوب کر خوب اچھی طرح سے غوطہ لگاؤ، پھر لذت، سرور اور عاجزی کے ساتھ دریائے وحدت (کی اومنی پریزنٹ فیلڈ) میں تیرتے رہو۔ جسے تیرنا نہیں آتا، اسکی بھلا کیا تسبیح اور کیا ذکر؟ کیونکہ تسبیح صرف الفاظ کا نہیں، بلکہ احساس کا نام ہے۔ یہ کوئی کوانٹم فیلڈ نہیں، بلکہ اس کریم و قیوم کے، اس سبحان و قدوس کے کرم کی ہے جس نے ساری کائنات کو تھام رکھا ہے۔ جو ہر شریک سے پاک ہے۔ جو ہر عیب سے پاک ہے۔ کوئی اس کے جیسا نہیں۔

وہی جلوہ شہر بہ شہر ہے، وہی اصل عالم و دہر ہے

وہی بحر ہے، وہی لہر ہے، وہی پاٹ ہے، وہی ہی دھار ہے

یاد رکھو، تسبیح صرف تیرنے کو نہیں بلکہ اڑنے کو بھی شامل ہے۔ تم تیرو گے تو تسبیح تمہیں اڑائے گی، تمہارا مقام بلند کرے گی۔ چونکہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے، اس لئے تسبیح کرنے والا کائنات سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک میں آتا ہے

{ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَٰوَٰتِ وَ الْأَرْضِ وَ الطَّيْرُ صَٰفَّٰتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَ تَسْبِيحَهُ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ } [النور: 41].

ترجمہ: کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے سب نے جان رکھی ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح، اور اللہ ان کے کاموں کو جانتا ہے،

جسے تیرنا آتا ہو وہ طوفان نوح میں بھی غرق نہیں ہوتا۔ غرق ہونا تو کجا، اسے طوفان محسوس ہی نہیں ہوتا، کب آیا، کب گیا۔ جو تیرنے سے غافل ہو وہ ڈوب ہی جاتا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کو حکم تسبیح تھا، لیکن وہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں، انہیں سب کے ساتھ تیرنا تھا۔ وہ کشتی میں بیٹھے تو طوفان نے انہیں خبردار کیا کہ کشتی تو وہ خود ہیں ایک لاکھ یا اس سے بھی زائد انسانوں کی۔ انہیں ایک مچھلی نے نگل لیا اور دریا کی تہہ میں لے گئی۔ وہ دریائے وحدت کی مثال تھا کہ ڈوب کر اسے یاد کرنا ہے۔ نون مچھلی کو کہتے ہیں۔ ذوالنون نے جب اس کا ادراک کیا تو بے اختیار پکارے:

{ …_فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَٰتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَٰنَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّٰلِمِينَ } [الأنبياء: 87].

ترجمہ: تو اندھیریوں میں پکارا کوئی معبود نہیں سوا تیرے پاکی ہے تجھ کو، بیشک مجھ سے بے جا ہوا۔

جو تیرنے لگتا ہے، تسبیح اسے بلند کر دیتی ہے۔ وہ بھی بلند ہوگئے۔ اگر وہ تسبیح میں مشغول نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔

{ فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (143) لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (144) } [الصافات:143-144].

ترجمہ: تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا، ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے

اندھیریوں سے نکل کر نور میں آنا ہے تو تسبیح والوں میں شامل ہو جاؤ۔ فیلڈ تو اندھیرے کی بھی ہوتی ہے۔ جو ہر شر کو پیدا کرتی ہے۔ اور فیلڈ نور کی بھی ہوتی ہے جو ہر بھلائی کی جامع اور منبع ہے۔

تیراکی سیکھ لو، بہت کام آئے گی۔

 

تونے دل دیا، تیرا شکریہ (مرآۃ الاسرار)

وہ دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ، ایل ایچ سی، جس کا مقصد ہی فیلڈز اور پارٹکلز کی تلاش تھا، وہ بھی محبت کی فیلڈ کا سراغ نہیں لگا سکتا۔ وہی محبت جسے ایک شیرخوار بہ آسانی محسوس کر لیتا ہے بلکہ جواب میں محبت کا رد عمل یعنی محبت پیش کرتا ہے۔ یقیناً اب کچھ اندازہ ضرور ہوا ہوگا کہ کیا نعمت ہے دل، خالق کائنات کا ہمارے لئے ایک بہترین تحفہ۔

شخصی فیلڈز:

اب تک جن فیلڈز کی پوسٹ کی تھیں، وہ کوانٹم فزکس کے مطابق یونیورسل تھیں، فطرت میں ہر طرف پھیلی ہوئیں اور پہلے سے موجود۔ لیکن اب جن فیلڈز کی بات ہو گی وہ شخصی اور ذاتی اور وجود کی فیلڈز ہیں۔ آپ انہیں لوکل فیلڈز بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور چاہیں تو آسانی کیلئے انہیں فلک (فیلڈ کا گھیرا) بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ہر موجود اپنے وجود کی فیلڈ میں ہی زندگی گزارتا اور ہاتھ پیر چلاتا ہے۔

موجودات میں سے ہر شئے کے گرد اس کی اپنی فیلڈ (اشعاعِ ذاتیہ کا میدان یا وادی) موجود ہوتی ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کی اپنے وجود کی وجہ سے جو فیلڈ پیدا ہوتی ہے وہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ ذی روح اور دھڑکتے دل والے اجسام کی فیلڈ دیگر فیلڈز سے عموما طاقتور اور غالب ہوتی ہے۔

قلب انسانی کو اللہ پاک نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ یہ ہر قسم کی فیلڈ کو نہ صرف محسوس کرسکتا ہے بلکہ دنیا کی ہر قسم کی یونیورسل فیلڈ کو مقامی طور پر پیدا کرسکتا ہے۔ مقناطیسی، برقی، تجاذبی، الیکٹرانی، کوارکسی بلکہ ہگز فیلڈ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اگر آپ کچھ دشواری محسوس کر رہے ہیں تو اسے پینڈنگ (التواء Pending) کے خانے میں ڈال دیں، صرف پانسو سال کیلئے۔

یہ اس برقناطیسی فیلڈ کی بات نہیں ہو رہی جو دماغی کرنٹ کی وجہ سے ویسے ہی ہر وقت قلب انسانی میں موجود ہوتی ہے۔ سائنسدان ان کو ثابت کرچکے ہیں اور اس کی وجہ سے ہونے والی کمیونیکیشن (روحانی بات چیت) کو بھی۔ یہاں ان فیلڈز کا ذکر ہے جو اس وقت تو موجود نہیں لیکن قلب انسانی جب چاہے، ضرورت کے وقت ان کو پیدا کرسکتا ہے۔

یونیورسل فیلڈز کے علاوہ قلب انسانی درجنوں قسم کی وہ فیلڈز بھی پیدا کرسکتا ہے جس کا تعلق انسان کے جذبات و احساسات اور بے شمار کمالات سے ہے۔ سائنسدان انسانی دماغ کو حیرت انگیز کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قلب انسانی شاہکار قدرت ہے اور انسانی دماغ سے کہیں زیادہ پراسرار۔ انسانی دماغ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، ریسرچ کے ذریعے اسے ایکسپلور کیا جاسکتا ہے اور لیبارٹریز میں اس کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ جبکہ بچپن شریف اور معراج شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو سینۂ اقدس سے نکال کر اسے (زمزم شریف یا جنت کے پاک پانی سے) غسل دیا گیا، جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ یہ اس کی غیر معمولی اہمیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ اسی لئے روحانی سائنسدان (صوفیائے کرام) قلب اور سینے پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یہ نوری الہامات کی جگہ ہے۔

سائنسدان کسی فیلڈ کو اس کے منبع (سورس) سے غیر متصل (جدا) نہیں کر سکتے۔ فیلڈ اپنے منبع سے شروع ہوکر دور دراز فاصلوں تک بتدریج کمزور ہوتی جاتی ہے اور درمیان میں کہیں بھی غیر متصل (ڈس کنیکٹ) نہیں ہو سکتی۔ وہ انورس اسکوائر لاء (چورس کے معکوس کا قانون) کی مکمل پیروی کرتی ہے۔

قلب انسانی غیر متصل فیلڈ پیدا کرسکتا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ جہاں دل ہو، وہاں اس کی پیدا شدہ فیلڈ نہ ہو، اور جہاں فیلڈ ہو وہاں انسان موجود نہ ہو۔ جیسے کسی قلب کی فیلڈ چاند پر پیدا ہو اور انسان زمین پر۔ اور درمیان میں کہیں نہ ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ کمال ہے کہ ایک تربیت یافتہ قلب کسی دوسرے غیر تربیت یافتہ قلب سے (ہزاروں میل کی دوری کے باوجود) اس کی اپنی فیلڈ پیدا کرا سکتا ہے۔ اور اسے اپنی فیلڈ پیدا کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔

ٹیلی پیتھی، تھاٹ ریڈنگ، تھاٹ ٹرانسفرینس، دور بینی (telegnosis)، ہپناٹزم، مسمر ازم، چھٹی حس، نسمہ (Aura)، ٹیلی کائینیسس (telekinesis)، مستقبل بینی (precognition)، ریکی اور دیگر پراسرار علوم اور ماورائے حواس ظاہری (E.S.P) مظاہر کے کرشمے صرف متعلقہ فیلڈ سے کامیابی کے ساتھ جڑنے کا نام ہے۔

حضرت عبد العزیز دباغ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اولیاء کرام سریانی زبان میں گفتگو فرماتے ہیں۔ کیونکہ اس میں سارا مضمون صرف ایک حرف سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور شیخ اکبر، امام ہمام، امام کشف و علوم حضرت محی الدین ابن عربی نے اشبیلیہ میں اپنی کچھ خاص اولیاء سے ملاقات کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں الفاظ کے بنا ہی سارا مضمون ادا ہو جاتا تھا۔ یہ سب ایک دوسرے کی فیلڈ میں ضم ہونے ہی کی اعلی مثالیں ہیں۔ یہی سریانی زبان کا سمجھنا ہے۔

انسان تو انسان، جانور بھی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ منطق الطیر ایک وہبی (عطا کردہ) علم ہے اور قرآن پاک سے ثابت ہے۔ خود مجھے اس کا کئی بار تجربہ کرایا گيا۔ میرے بچوں نے ایک چوزہ پالا، وہ بڑا ہو گیا اور ساری چھت پر گھومتا پھرتا اور گندگی پھیلاتا۔ مجھے آستانے کے قریب اس کا گندگی پھیلانا اچھا نہ لگا تو ایک دن اسے گود میں لیا اور دھیرے سے اس کی گردن پر چپت لگائی اور پیار سے کہا،" لڑکے، آستانے کے تقدس کا خیال کیا کرو۔" اس دن کے بعد سے آستانے کے پاس اس نے کبھی گندگی نہیں پھیلائی۔ ایک بار بچوں نے کہا کہ ہمارا مرغا کئی دن سے کچھ کھا نہیں رہا اور بالکل لاغر ہو گیا ہے۔ میں نے دھیان نہ دیا۔ ایک دن میں آستانے میں مطالعہ کر رہا تھا کہ وہ باہر آکر کھڑا ہو گیا اور بزبان فصیح کہنے لگا" حضرت، آپ مجھ پر کب دم کریں گے اور توجہ فرمائیں گے؟" خیر، میں نے اس پر دم کیا، شام تک وہ بھلا چنگا ہو گیا تھا اور ساری چھت پر دوڑتا پھرتا تھا۔ اسی طرح ایک بار آفس کینٹین سے باہر نکل رہا تھا کہ کسی نے میرا نام پکارا۔ میں نے دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ آواز دوبارہ سنائی دی، "سلیم قادری، کب سے مدد کا کہہ رہا ہوں، کوئی سنتا ہی نہیں۔" غور سے دیکھا تو ایک جوان مینڈک دکھائی دیا، میں حیران تھا کہ اسے کیا ہوا۔ پتا لگا کہ کوئی صاحب بے دھیانی میں اس کی ٹانگوں پر چڑھ گئے ہیں اور وہ چھلانگ لگانے سے معذور ہوکر راستے میں پڑا ہے۔ اپنے کچلے جانے کے ڈر سے اس نے مجھے آواز لگائی تھی۔ یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ تھا۔ اس لئے اتنا حیران ہوا کہ گویا ہلنے سے قاصر، آخر اپنے ایک دوست سے کہا کہ اسے سائیڈ میں کردے۔ اسی طرح ایک بار اعظم صاحب نے فرمایا کہ کل میرے پاس ایک بلی آئی اور بھوکی ہونے کی شکایت کی۔ میں نے فورا اپنے صاحبزادے کو بازار بھیجا اور اس کیلئے گوشت منگوایا۔ یہ واقعات نہ تو قصے کہانیاں ہیں اور نہ ہی کشف و کرامت کا اظہار۔ کرامت کا اظہار تو وہ کرے جو صاحب کرامت ہو، ہم سے فقیر تو نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ اور پھر یوں بھی آیا ہے کہ

ہر کہ او لا کشف او گویند سخن !

کشف او را کفش کن بر سر وزن

یعنی جو شخص اپنے کشف کی باتیں بتانے لگے تو اس کے کشف کو کفش (جوتا) بنا کر اس کے سر پر دے مارو۔

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس کا مجھے مشاہدہ کرایا گیا۔ صاحب کرامت تو وہ ہے جس نے مجھے اس مشاہدے کیلئے چنا، جس نے میری فیلڈ کو دوسری فیلڈز سے جڑنے کیلئے قوت فراہم کی۔ ہاں جن لوگوں کیلئے میرے مشاہدات کوئی اہمیت رکھتے ہیں، ان سے عرض کرتا ہوں کہ ہر بار جب مجھے کوئی ایسا مشاہدہ کرایا گیا، میں نے اپنے آپ اور ماحول میں ایک تبدیلی محسوس کی جسے اب میں الفاظ میں بیان کرسکتا ہوں۔ وہ ایک نئی فیلڈ میں داخلے کی مانند تھا، جس میں اپنی ذاتی فیلڈ بدستور موجود ہونے کے با وجود دوسری فیلڈ کے ادراک کرنے اور اس سے جڑنے کی صلاحیت تھی۔

ٹائم ایک فیلڈ ہے: سائنسدان خلا کو تو ایک فیلڈ مانتے ہیں، لیکن وقت بھی ایک فیلڈ ہے، ابھی تک انہوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ اور نہ ہی انہیں اس کا کوئی شعور و ادراک ہے۔ بلا شبہ وقت بھی اسپیس ہی کی طرح ایک فیلڈ ہے۔ لیکن اس فیلڈ کا نور دوسرا ہے اور کافی لطیف اور دھارا الگ۔ جو ٹائم اور اسپیس کی فیلڈز سے جڑنا سیکھ لے، اس کیلئے دور اور نزدیک ایک سے ہو جاتے ہیں اور ماضی و مستقبل کو حال کی طرح مشاہدہ کرتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؛

 در راہ عشق مرحلۂ قرب و بعد نیست

 می بینمت عیاں و دعا می فرستمت

 یعنی راہِ عشق میں دوری اور نزدیکی (خواہ وہ زمین کی ہو یا زمان کی) کے مرحلے نہیں ہوتے۔ میں تجھے بر ملا دیکھتا اور دعا کرتا رہتا ہوں۔

جب ہر وجود کی ایک فیلڈ ہے، تو روح بھی وجود رکھی ہے، اگرچہ ہوا کی مانند اس کا جسم نہیں ہوتا۔ اس کی بھی ایک فیلڈ ہوتی ہے۔ جو شخص اپنے گرد روحانی فیلڈ پیدا کر لیتا ہے، وہ روحوں سے رابطہ کرسکتا ہے۔ نہ صرف موجودہ، بلکہ ایسا شخص ماضی کے اولیاء اللہ کی روحوں سے بھی اخذ فیض کرسکتا ہے۔ ہمارے شاندار ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہر شخص اس کا اہل نہیں ہوتا۔

بڑے حضرت صاحب میاں محمد مظہر احسان ڈاہر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک بار حضرت عبد اللہ شاہ اصحابی (مکلی، ٹھٹھہ) کے مزار شریف پر مراقب ہوئے۔ آپ کے ہمراہ ایک دوست تھے جن کا تعلق اس وقت جماعت اسلامی سے تھا۔ میری ان سے ملاقات ہوئی ہے اور ان سے ہی میں نے یہ سارا واقعہ سنا۔ آپ کے دوست فرماتے ہیں کہ وہ شدید سردیوں کے دن تھے۔ حضرت صاحب کافی دیر مراقب رہے۔ پھر میں نے حضرت صاحب کے چہرے پر پریشانی اور کچھ خوف کے آثار دیکھے۔ پھر آپ کا سارا بدن با وجود شدید سردی کے پسینے میں شرابور ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے آپ کے چہرے پر فرحت اور سکون کے آثار دیکھے۔ پھر آپ مسکرائے اور تھوڑی دیر بعد مراقبے سے باہر تشریف لائے۔ میں نے ان سے خیریت دریافت کی اور ماجرا پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ بزرگ جو عوام میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی مشہور ہیں، یہ دراصل غوث پاک کی اولاد میں سے ہیں۔ جب میں نے ان کی روح کو طلب کیا تو مجھے معلوم نہ تھا کہ ان کی روح بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضری کیلئے مدینۂ پاک گئی ہوئی ہے۔ میں نے انہیں طلب کیا تو انہیں شدید غصہ آیا اور وہ غصے میں بھرے ہوئے مجھ تک آئے۔ ان کے جلال کی وجہ سے میں ان کے سامنے ایسا ہوگیا جیسے کسی مہیب شہباز کے سامنے ایک ننھی سی چڑیا۔ میں سمجھا کہ آج تو گئے۔ پھر اللہ جَلَّ جَلالُہٗ کے فضل و کرم نے رہنمائی فرمائی اور میرے دل میں گنبدِ خضرا کے تصور کا القا کیا۔ جب میں نے تصور کیا تو ان کا جلال کچھ کم ہوا اور تھوڑی ہی دیر بعد کیفیت بدل گئی۔ اور وہ میرے سامنے ایسے ہوگئے جیسے میں شہباز تھا اور وہ چھوٹی سی چڑیا۔ یہ سب تصور گنبد خضرا کا فیض تھا جس کا ادب ہر ولی کی روح کرتی ہے۔

نوٹ:

عبد اللہ شاہ اصحابی کی ولادت 1521ء میں ہوئی۔ تذکرہ اولیائے سندھ میں مرقوم ہے کہ آپ کو رسول اکرم ﷺ کی ظاہری آنکھوں سے زیارت ہوئی تھی اس لئے بھی صحابی مشہور ہوئے۔ ہر سال شعبان کی 13 تاریخ سے آپ کے مزار شریف پر سہ روزہ عرس شروع ہوتا ہے۔

فرشتوں کا نور بہت ہی لطیف ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب فرماتے تھے کہ میں کراما کاتبین کو دیکھا کرتا تھا اور دیکھتا تھا کہ میرے بائیں ہاتھ والا فرشتہ بے انتہا مصروف ہے اور لکھے جا رہا ہے۔ اور دائیں ہاتھ والا فرشتہ بالکل فارغ بیٹھا ہے۔ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور کئی بزرگوں (اور صحابۂ کرام) سے ان کی رویت بارہا ثابت ہے۔ جبریل امین اور دیگر فرشتے مؤمنین سے شب قدر میں مصافحہ کرتے ہیں۔ ذکر کی محفلوں میں سیاح فرشتے آتے ہیں اور ذاکرین کو مبارکباد دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں ہم جانتے ہی ہیں۔ ہماری ظاہری آنکھیں (عام طور سے) فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتیں لیکن فرشتے (بغیر اذنِ خصوصی کے) ہماری روح کو نہیں دیکھ سکتے۔ جو شخص نورانی فیلڈ کو محسوس نہ کر پائے، اسے مؤکّلاتی وظائف دینا ایک طرح سے اس پر ظلم ہے۔ ایسا شخص نقصان ہی اٹھائے گا۔ جنات، ہم زاد اور اپنے جسم لطیف اور نسمہ کو قابو میں کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ قرآن پاک میں ہر نادیدہ اور غیر مرئی زمینی مخلوق (فرشتوں کے علاوہ) کو جنّ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

بہت سے لوگوں کو یہ جاننے کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ آخر یہ کیسے معلوم ہو کہ کسی پر جادو ہے، بندش ہے یا اسے جنات نے گھیر رکھا ہے یا یہ اس کے اپنے گناہوں کی شامت ہے یا اور کوئی وجہ ہے۔ فیلڈ کے تصور سے آگاہ ہو جانے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اب اس سوال کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لوہا کیسے جان لیتا ہے کہ سامنے مقناطیس ہے یا کچھ اور؟ جو فیلڈ کا ادراک کر لے، اسے کیا مشکل؟ { … يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ … }  [فاطر: 1]۔  پروردگار اپنی مخلوقات میں جس چیز کا چاہتا ہے اضافہ فرماتا ہے۔ کوئی خوبصورت آواز میں قرآن نہ پڑھ سکے تو کسی اور کا اس میں کیا دوش؟

جسے نہر حیات کی آگاہی حاصل ہوجائے، اسے مردے زندہ کرنے میں بھلا کیا چیز مانع ہو؟ حضرت مجدد الف ثانی رحمت اللہ علیہ ایک شعر نقل فرماتے تھے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ "اگر روح القدس میری مدد فرمائے تو میں بھی اسی طرح مردے زندہ کرسکتا ہوں جیسے حضرت مسیح زندہ کیا کرتے تھے۔" جس کی لاٹھی کا تعلق اس نہر سے جوڑ دیا جائے، تو لاٹھی میں جان دوڑ جائے، اور ہاتھ سے اس جاندار کا تعلق جوڑ دیا جائے تو پھر لاٹھی ہوجائے۔ امت مسلمہ میں غوث پاک، امیر کبیر علی ہمدانی اور دیگر بزرگوں سے مردوں کا زندہ کر دینا ثابت ہے۔ موسی علیہ السلام نے یونہی تو نہیں فرما دیا کہ یا اللہ مجھے اس نبی کا امتی بنا دے۔ آخر کوئی تو شان عظیم ہو گی اس امت کی۔ جس امت کے ولی کی کھڑاؤں میں زندگی کا احساس اور ولی اور اس کے دشمن کا ادراک ہو، بلا شبہ اسے کوئی نبی بھی دیکھے گا تو وہی کہے گا جو حضرت کلیم نے حق تعالی کی بارگاہ میں عرض فرمایا۔

قلب، فئد اور نفس

دل کوئی معمولی شئے نہیں۔ اس کیلئے قلب، فئد اور نفس کے الفاظ قرآن پاک میں استعمال کئے گئے ہیں۔ چنانچہ

لفظ قلب کے 61 مشتقات 168 بار قرآن پاک میں آئے ہیں۔

لفظ فئد کے 12 مشتقات 16 بار آئے ہیں

اور نفس کے 4 مشتقات 298 بار قرآن شریف میں آئے ہیں۔

مجھے ایک آیت مبارکہ ایسی بھی ملی جس میں قلب اور فئد دونوں الفاظ جمع ہیں اور دونوں ہی دل کیلئے آئے ہیں:

{ وَ أَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَٰرِغًا إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ } [القصص: ۱۰].

ترجمہ: اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہوگیا ضرو ر قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے اس کے دل پر کہ اسے ہمارے وعدہ پر یقین رہے۔

کلمۂ نفس بمعنی دل

قلب کیلئے نفس کا لفظ ان آیات میں آیا ہے۔

  1. { وَ مَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَٰهِمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ … }  [البقرة: ۱۳۰].

  2. { …وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ } [البقرة: ۲۳۵].

  3. { وَ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ … }  [البقرة: ۲۳۵].

  4. { وَ مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَ تَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَءَاتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ }  [البقرة: ۲۶۵].

  5. { … وَ إِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ } [البقرة: ۲۸۴].

  6. { وَ آتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا }  [النساء: ۴].

  7. { وَ إِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ وَ أُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ وَ إِن تُحْسِنُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا }  [النساء: ۱۲۸].

  8. { …إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَ لَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّٰمُ الْغُيُوبِ } [المائدة: ۱۱۶].

  9. { وَ اذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَ خِيفَةً وَ دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْءَاصَالِ وَ لَا تَكُن مِّنَ الْغَٰفِلِينَ } [الأعراف: ۲۰۵].

  10. { قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَ لَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا وَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ }  [يوسف: ۷۷].

اور اس آیت مبارکہ میں نفس اور قلب دونوں الفاظ ہی دل کیلئے آئے ہیں۔

{ …قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَٰهُنَا قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ وَ لِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَ لِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ } [آل عمران: ۱۵۴].

بے شک دل کوئی معمولی شئے نہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جب وہ سدھر جاتا ہے تو سارا بدن سدھر جاتا ہے، اور جو بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔ اسی لئے ارشاد فرمایا گيا کہ علم تو بس دو ہیں، ایک زبان پر اور ایک دل میں۔ اور جو علم دل کا ہوتا ہے وہی نفع بخشتا ہے۔

سالکینِ راہِ طریقت سے کہتا ہوں کہ اب قلبی نیکیوں کی طرف بھی آجاؤ کہ اسی میں ساری بھلائی پوشیدہ ہے۔

جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا، اس میں سے اکثر تو میرے دل میں ہی ہے۔ بس مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بھی بہتر ہوتی ہے۔ کوئی چیز تشریح طلب ہو تو آستانہ حاضر ہے۔

بے شک ہم نے خزانے کا نقشہ تجھے دے دیا ہے، اس امید پر کہ جس خزانے تک ہم نہ پہنچ پائے، ہو سکتا ہے کہ تو اسے حاصل کرلے۔

درود شریف

دوام درود پاک

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

یعنی بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پاک پر۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔

اللہ پاک ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب ساری مخلوقات فنا ہوجائے گی تو اس وقت باری تعالی کی حمد و ثنا کرنے والا کوئی موجود نہ ہوگا۔ لیکن اس وقت بھی محبوب دو عالم صلی اللہ علیہ کا چاہنے والا موجود ہوگا اور اس وقت بھی جب اللہ پاک کی تعریف کرنے والی ہر زبان خاموش ہوگی، وہ چاہنے والا اپنے محبوب کی محبت کے گن گا رہا ہوگا۔ ؎

پیارا اللہ تیرا چاہنے والا تیرا

اور اللہ تو اپنی ذات میں سراہا گیا ہے۔ وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ اسی کو تو حمید کہتے ہیں۔ کوئی تعریف کرے یا نہ کرے، وہ اپنی ذات میں خود تعریف کے لائق ہے۔

درود پاک کی ہمہ گیریت:-

جہاں اللہ جَلَّ جَلالُہٗ موجود ہے، وہیں اس کا درود موجود ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اپنے حرم میں آرام فرما ہیں، لیکن اللہ پاک ہر جگہ موجود ہے۔ جہاں اللہ جَلَّ جَلالُہٗ موجود ہے، وہیں اس کا درود بھی موجود ہے۔ یعنی درود ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ جو چیز ہر جگہ پھیلی ہوئی ہو، جس نے زمین و آسمان کو بھر رکھا ہو، سائنسدان اسے فیلڈ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ آپ درود پاک کو بھی ایک قسم کی فیلڈ ہی سمجھ لیں جو ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ ہر شخص جو اس دنیا میں موجود ہے، تھا، یا ہوگا، وہ اس فیلڈ میں ہی زندگی گزارتا ہے۔ جو چاہنے والا ہے، وہ بھی اور جو آپ کی ذات پاک سے بغض و عناد رکھتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں نقص تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے وہ کافر اور مشرک بھی۔ کون ہے جو اس فیلڈ سے باہر نکل سکے۔ کائنات جس کے گھیرے میں ہو، بھلا حقیر سا انسان اس سے کیسے باہر نکل سکتا ہے۔ اے نور خدا کے منکرو، تم تو تم ہو، سراپا ظلمت اور تاریکی، قسم بہ خدا، روشنی بھی تا قیامت اس فیلڈ سے باہر نہیں نکل سکتی۔ کیا سنا نہیں فرمان عظمت نشان؟

{ وَ مَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ }  [الأنبياء: 107].

اور اے محبوب! ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر سارے عالمین کیلئے رحمت

روشنی مختلف عالمین میں اپنے وجود کی بقا کیلئے اسی رحمت کی مرہون منت ہے۔ جس کیلئے جس کے نور سے تمام عالم کو خلق کیا گیا ہے۔

کیفیت درود !

ہمارا درود پاک صرف الفاظ نہیں۔ یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ جیسے کوئی کسی تباہ ہونے والے کو تھام لے، اور جو گردن زنی کے لائق ہو، کوئی اسے قید سے آزاد کرادے تو تباہی سے بچ جانے والے اور آزاد ہونے والے شخص کا رواں رواں اپنے محسن کیلئے سراپا عجز و نیاز ہوجاتا ہے۔ انسان کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احسانات کا کچھ ادراک ہوجاتا ہے تو وہ سراپا عجز کی کیفیت سے اپنے محسن کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ یا اللہ ان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے انبیائے سابقین پر نازل فرمائی تھیں اور ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی طرح ان پر برکات کا نزول فرما۔ یا اللہ، ان کی آل اولاد کو برکت عطا فرما۔ واقعی، جو اپنے محسن کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ ایسا ہی تو فرمان ہے کملی والے پیارے آقا کا۔

جڑ جاؤ درود پاک کی فیلڈ سے

اللہ پاک کے درود کو ایک فیلڈ کی مانند سمجھ لیں، جیسے ٹھاٹھیں مارتا دریا۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارا درود کیا ہوگا۔ یعنی ہمارا اس فیلڈ سے جڑجانا ہی درود پاک پڑھنا ہے۔ جڑ جاؤ کائنات میں ہر طرف پھیلی درود پاک کی فیلڈ سے۔ جو اس فیلڈ سے محبت کے ساتھ نہ جڑ سکا اس پر افسوس۔جب ایک بار اس فیلڈ سے جڑ جاؤ گے تو پھر ایک بار کہو گے یا اللہ ! درود نازل فرما ہمارے سید و سردار اور تیرے محبوب پر، تو سیدھا یہ درود بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے والدین کے نام کے ساتھ پہنچے گا۔

ہجر نبی میں آہ کہیں بے اثر گئی؟

تڑپے جو ہم یہاں تو مدینے خبر گئی

اور

فریاد امتی جو کرے حال زار میں

ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو

اور

فكيف تنكر حباً بعد ما شــهدتْ

به عليك عدول الدمع والســــقمِ

مسئلہ حل ہو جائے گا

یاد رکھیں کہ ہمیں درود صرف پڑھنا نہیں ہے۔ ایک صاحب قبلہ حضرت میاں محمد مظہر احسان رحمت اللہ علیہ کے پاس کسی مسئلے کیلئے آئے۔ آپ نے اسے کچھ بتایا تو کہنے لگا کہ حضرت پہلے بھی کئی لوگوں کے پاس گیا ہوں اور انہوں نے جو جو کچھ بتایا ہے وہ سب پڑھا ہے میں نے، لیکن میرا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ آپ مسکرائے اور متانت سے فرمایا کہ بھائی صرف یہ نہیں کہ پڑھنا ہے، بلکہ ایسا پڑھنا ہے، جس سے ہمارا اللہ جَلَّ جَلالُہٗ ہم سے راضی ہوجائے۔ تم ہزاروں بار نہ پڑھو، ایک بار ہی ایسا پڑھ دو کہ اللہ جَلَّ جَلالُہٗ تم سے راضی ہوجائے تو تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

واقعی، بات گنتی کی نہیں، پروردگار کو راضی کرنے کی ہے۔ اتنا اسی لئے تو پڑھتے ہیں کہ ہم اپنے عمل کی کوتاہیوں کو خوب جانتے ہیں۔ شاید ہزاروں میں ایک ہی ایسا نکل آئے کہ ہمارا پروردگار ہم سے راضی ہوجائے۔

چند آداب درود شریف

درود پاک کی اس فیلڈ سے جڑنے کیلئے اسے پورے آداب کے ساتھ پڑھیں۔ بیٹھ کر پڑھیں، تنہائی میں پڑھیں، محبت کی توجہ کے ساتھ پڑھیں۔ آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرتے ہوئے پڑھیں، خوشبو لگا کر پڑھیں، قبلہ رو ہو کر، یا سمت مدینہ کو رخ کرکے عاجزی سے پڑھیں۔ اپنے الفاظ کو یہ سمجھ کر پڑھیں کہ ہمارے الفاظ آپ کی شان کے لائق ہو ہی نہیں سکتے۔ بہترین اوقات میں جیسے نمازوں کے بعد، فجر سے پہلے، سنت فجر کے بعد، عشاء کے بعد، رات کے نوافل کے بعد، تہجد کی نماز کے بعد، الغرض ہر وقت پڑھیں۔ یاد رکھیں کہ ریا کار کا بھی درود شریف مقبول ہوتا ہے، لیکن کیا ضرورت پڑی ہے لوگوں کی نیت کرنے کی؟ ؎

تیری صورت سب سے پیاری

کیوں اوروں کو دیکھوں میں

الحمد للہ! یہ تحریر میں نے اسی اہتمام کے ساتھ لکھی ہے، جس اہتمام کے ساتھ مدینۂ پاک میں دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا کرتا تھا۔

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں جب حاضر ہوتا تھا، پہلے غسل کرتا تھا، پھر بدن پر خوشبو لگاتا تھا۔ پھر ہرہر کپڑے پر خوشبو ملتا تھا۔ خوشبو دار کپڑے زیب تن کرنے کے بعد سفید عمامہ پہنتا تھا اور اس پر بھی خوشبو لگاتا تھا۔ جیکٹ پر بھی خوشبو لگاتا تھا۔ سرمہ آنکھوں میں لگاتا تھا، بالوں میں خوشبو دار تیل ڈالتا تھا اور ہونٹوں پر ویسلین لگاتا تھا۔ تسبیح ہاتھ میں لیتا تھا اور درود تاج کا ورد کرتے ہوئے نگاہیں نیچی کئے آپ کی بارگاہ میں حاضری دیتا تھا۔

اے اللہ! درود نازل فرما !

ائذنْ لسُحب صلاةٍ منك دائمــةٍ

على النبي بمُنْهَلٍّ ومُنْسَــــــجِمِ

اے اللہ جَلَّ جَلالُہٗ! درود نازل فرما میرے محسن نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر، اتنے درود جتنے آسمان کے ستارے ہیں، اتنے درود جتنے تیری رحمت کی بارش کے قطرے ہیں، اتنے درود جتنی تیری صفات ہیں، اتنے درود جتنی جنتیوں کی سانسیں ہیں، اتنے درود جتنے تیرے حسین نام ہیں، اتنے درود جتنی تیری شانیں ہیں، اتنے درود جتنے تیرے کام ہیں، اور اس وقت تک نازل فرما جب تک ذکر کرنے والا تیرا ذکر کرتا رہے اور جب تک وجود اور عدم رہے، ہمیشہ ہمیشہ ابد الآباد تک۔

جڑ جاؤ فیلڈ سے

کل جمعے کے روز (اکتوبر ۲۰۱۸) درود خضری پڑھتے ہوئے درود پاک کی فیلڈ سے جڑا۔ اللہ اکبر۔ کیا چمکتی مہکتی فیلڈ ہے۔ دوسری فیلڈز کہیں جاتی محسوس نہیں ہوتیں لیکن درود پاک کی فیلڈ واضح طور پر مدینۂ طیبہ جاتی ہے۔ ہر طرف نور کا سماں۔ گلابوں کے پارٹکلز رب العزت کی محبت سے پیدا ہوتے اور آن کی آن میں مدینہ پہنچ جاتے۔ ایسے میں اپنا درود بہت حقیر لگتا ہے۔ جس کے درود سے ساری کائنات بھری ہو، اس پر درود؟ بس ایک خیال آیا کہ منہ چھوٹا ہے اور جس پر درود بھیجا جا رہا ہے اس کی ذات بڑی ہے۔ ہاں ایسا ضرور تھا کہ درود پاک میرے منہ سے نکلتا اور اس فیلڈ میں اس طرح گم جاتا جیسے کسی عظیم سمندر میں ایک چھوٹا سا قطرہ۔

میں ہوں قطرہ، تُو سمندر، میری دنیا تیرے اندر

سگِ داتا میرا ناتا، نہ ولی ہوں، نہ قلندر

تیرے سائے میں کھڑے ہیں، میرے جیسے تو بڑے ہیں

کوئی تجھ سا نہیں بے شک، وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

اللہ اکبر! درود پاک کتنی عظیم سعادت ہے جو کسی عاشق کو نصیب ہوتی ہے۔ ہمارے پڑھے ہوئے درود کا اس درود میں گم ہوجانا جو پروردگار کا درود ہے، ہماری کتنی بڑی سعادت ہے۔ درود وہ واحد کام ہے جو خالق اور مخلوق دونوں ہی کرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں کرتے ہیں۔ یعنی ہم جب بھی درود و سلام پڑھتے ہیں، ہمارا خالق بھی اسی آن اپنے پیارے محبوب پر درود بھیج رہا ہوتا ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ انسان ہر نیکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ سے کرتا ہے لیکن درود پڑھنا صرف اس وقت ممکن ہے جب بندے پر اللہ کی محبت کی نظر ہو۔

اس فیلڈ میں ماضی اور حال و مستقبل سب برابر ہیں۔ اسی لئے تو اللہ کے نبی نے فرمایا کہ ہم اس وقت بھی نبی تھے جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ یعنی جب آدم کی تخلیق ہو رہی تھی، ان کے علم و عظمت کی فیلڈ پیدا کی جارہی تھی، اس وقت بھی درود پاک کی فیلڈ اپنی پوری جوانی پر تھی۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق اسی درود کی فیلڈ میں ہوئی۔

اس فیلڈ میں بہت مشاہدے ہوئے۔ فرعون کو دیکھا، اسی فیلڈ (کی مخالفت) نے اسے غرق کیا تھا۔

عرش الہی کی بابت کسی نے کیا خوب کہا ہے

بہت قریب ہے عرش خدا مدینے سے

اس کا مشاہدہ پہلی بار ہوا۔ واقعی نعت گو حضرات بھی کمال کرتے ہیں۔ اللہ جَلَّ جَلالُہٗ ان کے قلم سے کیسی کیسی حقیقتیں بیان فرماتا ہے۔ اللہ ہمارے نعت گو حضرات و خواتین کو سلامت رکھے اور بہترین سے بہترین کی توفیق عطا فرمائے۔

 




اجازت نامہ

  1. یہ متن نوری آستانے کی ملکیت ہے۔ اسے یا اس کے کسی حصے کو (بعینہٖ یا تبدیلی اور خورد برد کر کے) تجارتی یا دیگر کسی بھی مادّی مقاصد و مالی منفعت کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی، اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
  2. اس تحریر کو جو پڑھے اور مسلمانوں کے لئے کارآمد جان کر نیک نیتی کے ساتھ اسے یا اس کے کسی باب یا حصے کو صرف اور صرف تبلیغِ اسلام کے لئے چھپوانا چاہے یا اپنی کسی تحریر میں (Verbatim) پیش کرنا چاہے، یا اس کی وربیٹم نقول (جیسے کمپیوٹر کاپی) تیار کرنا چاہے تو اسے اس کی پوری اجازت ہے۔

خود کارانہ عددی تجزیہ (Mar 26, 2022)

Aadad

2530916

Alphabets (Arabic/English/Urdu))

41216

Characters (Excluding Spaces)

45696

Characters (With Spaces)

57443

Dot-free Words (Longest)

ماورائے

مسکرائے

الْءَاصَالِ

Dotted Words (Most Dots)

نقشبندی

مشتقات

تَثْبِيتًا

Frequent Nouns

درود

اللہ

فیلڈ

Longest Words

ٹرانسفرینس

والســــقمِ

ومُنْسَــــــجِمِ

Non-alphabets (Symbols etc.)

16227

Reading Ease

69 %

Reading Time

48 Minutes

Sentences

1892

Words (Total)

12035

Words (Unique)

2605

Mar 24, 2022 Aastana-e-Noori


[1] CERN: European Organization for Nuclear Research

[2] the Large Hadron Collider (LHC)

[3] اس تحریر کے دوسرے یا تیسرے دن ہی اس کا انتقال ہوگیا،

[4] اس خلا کا ایک متحرک خاکہ اوپر پیش کیا جاچکا ہے۔ وہاں ملاحظہ فرمائیں۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع