Indistinct Personalities (Part 1 of 5)

مبہمات القرآن

قرآن وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ یہ جب بھی کوئی نظریاتی بات کرتا ہے یا الوہی قانون کا تذکرہ  کرتا ہے تو اسے بالکل کھول کر واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ 
 قرآن پاک فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے۔ جس طرح کسی بات کو واضح طور پر بیان کردینا فصاحت ہے، اسی طرح فصاحت کسی لفظ یا بات کے مبهم رہنے کا بھی تقاضہ کرتی ہے بالخصوص جبکہ اس کا تعلق افراد انسانی کے ساتھ ہو۔ 


اَعلام (اسمائے عَلَم)

وہ خاص لفظ جو کسی شخص کی پہچان، علامت اور نشانی بن جائے، اسم علم کہلاتا ہے۔ خطاب، تخلص، لقب، عرف، کنیت اسم علم ہی کی اقسام ہیں۔ جیسے ابن مریم، سید الشہداء، قائد اعظم وغیرہ۔  آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ قرآن پاک میں  صرف 229 (3620 بمعۂ مکررات) اسمائے علم یا نام آئے ہیں جن میں اللَّه،  مُوسَىٰ،  إِبْرَٰهِيم،  مَرْيَم،  نُوح،  فِرْعَوْن اور حضرت یوسف کے نام سر فہرست ہیں۔ 
زیر نظر مضمون میں قرآن پاک کے ان مبہمات کو واضح کیا گیا ہے جن کا تعلق انسانوں یا آدمیوں کے گروہوں سے ہے۔  231 مبھمات کو واضح کرنے میں ہمارے بزرگوں کو کس قدر کام کرنا پڑا ہوگا یہ تو وہی جان سکتے ہیں۔ ہم جیسے تو حیرت سے صرف عش عش کر سکتے ہیں کہ ان کی قرآن پاک سے کس قدر واقفیت تھی۔ اللہ ہمارے بزرگوں کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے اتنی عرق ریزی اور مغز سوزی کے بعد قرآن فہمی کو ہمارے لئے آسان کردیا۔

قرآن پاک میں مبهمات کی 7  وجوهات

قرآن میں مبہمات ہیں تو لازمی سی بات ہے کہ اس کی وجوہات بھی ہوں گی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ افراد کے ناموں کو کیوں مبہم رکھا گیا ہے؛
پہلی وجہ یہ ہے کہ مبہم کی کسی اور جگہ تشریح کردی جاتی ہے جیسے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا، میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر اللہ کا انعام ہوا اور جن کے رستے پر ہمیں چلنا ہے اور وہ جس راستے پر چلے ہیں وہی صراط مستقیم ہے۔لیکن انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ اللہ کے اس قول سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ  مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ کہ وہ انبیاء و صدیقین و شہداء اور صالحین ہیں جن پر اللہ کا انعام ہوا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مبہم کا تعین مشہور ہو جیسے وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ کہا گیا یعنی اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور براہ راست حوا نہیں کہا گیا کیونکہ وہ آپ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
یا جیسے أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ کہا گیا  (یعنی اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں) اور اس سے مراد نمرود ہے  کیونکہ آپ کو اسی کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ اللہ نے فرعون کا نام تو قرآن پاک میں ذکر کیا لیکن نمرود کا نہیں، کیونکہ فرعون زیادہ ہوشیار تھا۔ جیسا کہ اس نے حضرت کلیم کے ساتھ مکالمہ میں باتیں اخذ کیں، لیکن نمرود کند ذہن تھا کہ اس نے کہا کہ میں مارتا اور جلاتا ہوں۔ اور ایک شخص کو بلاوجہ مارا اور ایک مجرم کو رہا کردیا۔ یہ اس کی حماقت تھی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ کسی کی پردہ داری کی وجہ سے اس کا مبہم ذکر کیا گیا جیسے  وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا یعنی بعض آدمی وہ ہیں کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تجھے بھلی لگے ۔ اس آیت میں  الْأَخْنَسُ بْنُ شَرِيق کا مبهم ذکر ہے جو بعد میں اسلام لے آئے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ مبہم کی تعیین میں کوئی بڑا فائدہ نہ ہو جیسے  أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ (یعنی یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر)اور وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ (یعنی اور ان سے حال پوچھو اس بستی کا) کیونکہ یہاں اصلی مقصود کسی ذات کا تعین نہیں بلکہ سبق آموزی اور عبرت ہے۔
پانچویں وجہ یہ کہ علی العموم تنبیہ کی جائے جیسے  وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِراً (یعنی اور جو اپنے گھر سے نکلا اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتا ہوا)
چھٹی وجہ یہ کہ  وصف سے کسی کی تعظیم کی جائے جیسے   وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْل (یعنی اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے ہیں)اور وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ (یعنی اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی) اور اسی طرح إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ (یعنی جب اپنے یار سے فرماتے تھے) اور یہاں صرف حضرت صدیق مراد ہیں کیونکہ آپ ان میں سے ہر صفت کے جامع ہیں۔
ساتویں وجہ یہ کہ وصف سے کسی شخص کی تحقیر کی جائے ، جیسے  إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبْتَرُ (یعنی بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔) تو یہاں اس کی تحقیر مراد تھی، شخصی تعین مراد نہ تھا۔


دیگر وجوہات

یہ سات وجوہات تو علامہ سیوطی نے الاتقان میں بیان کیں، اب میں (سلیم قادری) ان کی بات کو بڑھاتا ہوا چند ایک مزید وجوہات بیان کرتا ہوں؛
آٹھویں وجہ یہ ہے کہ قرآن کا نزول خاص ہوتا ہے، یعنی کسی مخصوص شخص یا واقعے پر نازل ہوتا ہے لیکن اس کا حکم عام ہوتا ہے۔ اور ہر دور اور زمانے کیلئے ہوتا ہے۔ اگر اعلام لائے جائیں تو عمومی حکمت مفقود ہوجاتی ہے۔ جیسے سورت العصر میں إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ سے مراد حضرت ابو بکر اور دیگر جید صحابہ ہیں، لیکن یہ تمام ایمان والوں کو متضمن ہے۔ 
نویں وجہ یہ ہے کہ قرآن اپنے قاری میں غور و فکر اور تدبر کا مادہ پیدا کرنا چاہتا ہے، اگر اعلام استعمال کئے جائیں تو انسان میں جستجو اور تلاش کا مادہ پیدا نہیں ہوتا، جیسے مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ... بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ (یعنی اسی نے دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیں، اُن دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے وہ (اپنی اپنی) حد سے تجاوز نہیں کرسکتے)  تو یہ آیت تلاش اور جستجو کو مہمیز دیتی ہے۔ اگر یہاں براہ راست نام لے دیئے جاتے تو صرف علم ملتا، جستجو نہ ملتی۔



دسویں وجہ یہ ہے کہ اعلام میں تاویل اور تعبیر کی گنجائش کم ہوتی ہے، عمومی الفاظ کی وجہ سے یہ صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ جیسے اوپر کی نویں مثال میں البحرین اور برزخ کی کثیر تاویلات اور تعبیرات کی جاسکتی ہیں جو قرآن پاک کو ہر ایک کے دل سے قریب کرتی ہے۔
قرآن پاک میں مبہمات کا تعارف پورا ہوا۔ آئندہ پوسٹ میں ان کی مثالیں پیش کروں گا۔ 

Aastana-e-Noori

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع