Space Time Concepts

چوتھا زمانہ ---- اور اسپیس ٹائم 
زمان و مکان کے تانے بانے سے کائنات کو گوندھ کر، مکس کرکے، بنایا گیا۔ لیکن یہ ہر ایک کیلئے فکس ویلیو کی طرح نہیں۔ کچھ وہ بھی ہیں جن کیلئے زمان و مکان ایک ربڑ کی سی حیثیت رکھتے ہیں، جب چاہا، کھینچ کر بڑا کر لیا، جب چاہا دبا کر مختصر کر لیا۔ زمان و مکان ان کے ہاتھ میں ایسے ہیں، جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں میں لوہا، کہ جب آپ چاہتے تھے کہ اس سے کچھ بنائیں تو لوہا آپ کے ہاتھ میں موم ہو جاتا تھا۔ ہاتھ تو اسی ایک ہستی کے ہیں، اور ویسے ہی ہیں۔ یہ لوہا تھا جو آپ کے ہاتھوں میں کبھی موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا اور کبھی فولاد کی طرح مضبوط اور سخت۔ یہ کمال دست داؤدی کا تھا۔


مولا صفات:
داؤد علیہ السلام بادشاہ نبی تھے۔ انہیں لوہے کو نرم کرنے کیلئے کسی فولادی ہاتھ کی ضرورت نہ تھی۔ جالوت جیسا قد آور شہنشاہ آپ کے نرم ہاتھوں کی طاقت سے مغلوب ہو گیا اور مارا گیا۔ جس کے ہاتھ میں لوہا پگھل جائے، کون اس کے مقابلے پر ٹک سکتا تھا۔ فرمان ہوتا ہے؛
يَٰدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَٰكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ یعنی اے داؤد بیشک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا۔
جو اللہ کا خلیفہ ہو، اس کے اختیارات بھی من جانب اللہ ہوتے ہیں۔ وائسرائے، کنگڈم کی عظمت و شوکت اور اختیار کا مظہر ہوتا ہے، جو دوسرے نہیں کر سکتے، وہ کرسکتا ہے، نہ کر سکے تو وائسرائے کس بات کا؟ خلیفہ کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ سخت کائنات اس کیلئے موم اور ربڑ کی مانند ہو جاتی ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مؤمن کا ہاتھ
کار کشا و کارساز، مشکل کشا مولا صفات
زمان و مکان :
زمان و مکان کا فلسفہ عجیب تھا۔ عرصے تک انسان مادے کو مکان سمجھتا رہا۔ اور بہت سے تو آج بھی سمجھتے ہیں۔ مادہ مکان میں ہوتا ہے۔ مکان ایک نادیدہ شئے ہے۔ زمان اس سے بھی پر اسرار تھا۔ اور سب سے زیادہ پر اسرار ان دونوں کا آپس میں ربط تھا۔ پہلے لوگ ان دونوں کو سخت سمجھتے تھے۔ آج بھی سمجھتے ہیں۔ اتنا سخت جس میں کوئی لچک موجود نہ ہو۔ زمان و مکان کو لوگ دیکھتے رہے، دست داؤدی سے بے خبر رہے۔ بھول گئے کہ جس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے، ہر چیز اس کیلئے موم کی طرح نرم اور ربڑ کی طرح ملائم و لچک دار ہو جاتی ہے۔ جس کی سلطنت ہر سو ہے، اس سے سلطان مانگ لیا جائے تو زمان و مکان کے راز سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ یونہی تو ارشاد ہوتا ہے اس رحمان کا
يَٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَٰوَٰتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَٰنٍ
یعنی اے گروہ جن و انس، اگر استطاعت ہو تو زمین و آسمان کی حدود سے باہر نکلو، صرف سلطان کے ذریعے ہی یہ نفوذ ممکن ہے۔
زمین و آسمان کی حدود کیا ہیں؟ زمان و مکان، اور کیا۔ دست داؤدی کیا ہے؟ سلطان ہے۔ دست داؤدی (تصرف) حاصل کرو اور زمان و مکان کو پیچھے چھوڑ دو۔
آسمانوں اور زمینوں کی قطاروں سے گزرنا سالک کے صفات ناسوتیہ سے گزر جانے کی مقدار پر ہے۔ اور صفات ناسوتیہ سے گزرنا ایک اختیاری موت ہے جس کی طرف "موت آنے سے پہلے مردہ ہو جاؤ" میں اشارہ ہے۔ اور سالک جب صفات ناسوتیہ سے گزر جاتا ہے تو زمان و مکان کی وسعتیں اس کے روبرو کوتاہ ہو جاتی ہیں۔ اور کبھی ان کی کوتاہی دراز ہو جاتی ہے۔ (یعنی زمان و مکان اس کیلئے ربڑ کی مانند لچک دار ہو جاتے ہیں۔ راقم)
بے شک اللہ تعالی ایک علم سے تمام موجودات غیر متناہیہ کو جانتا ، ایک قدرت سے تمام مقدورات کو وجود میں لاتا، ایک شنوائی سے تمام مسموعات کو سنتا، ایک بینائی سے تمام مرئیات کو دیکھتا اور ایک ارادۂ قدیمہ سے تمام مرادات کو چاہتا ہے۔ ان صفات کی کامل معرفت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک سالک زمینوں اور آسمانوں کی حدود سے نہ گزر جائے۔

لچکیلا زمان :
کیا یاد نہیں جب جن و انس کے سلطان بادشاہ سلیمان نبی نے تخت منگوایا تو کتاب کا تھوڑا سا علم رکھنے والا، دست داؤدی میں ید طولی رکھنے والا شخص پلک جھپکنے سے پہلے ہزار میل دور سے وہ تخت اٹھا لایا۔ وہ راستہ جو ایک ماہ کی مدت میں طے ہوتا تھا، اس نے ایک آن میں طے کرلیا، آخر کیسے؟ ایک آن کو ایک ماہ بنا کر، زمان کو اپنے لئے ربڑ کی طرح کھینچ کر، اور کیسے؟ ویری سمپل۔ اس کیلئے زمان ربڑ کی مانند ہو چکا تھا۔
حضرت ابو الحسن خرقانی قدس سرّہ کا واقعہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک رات ہمیں ہم سے لے لیا گیا۔ تمام بڑے بڑے واردات ہم پر گزر گئے۔ اور جب ہم کو آپے میں لوٹایا گیا تو ہمارا چہرہ اور بال وضو کے پانی سے ہنوز تر تھے۔ ان کی ایک آن صدیوں پر محیط تھی۔
اور اس کی مثال کہ زمان کی وسعت کوتاہ (کم) ہو جاتی ہے، عزیر علیہ السلام کا قصہ ہے۔ اللہ نے ان پر سو برس تک نیند طاری رکھی اور پھر انہیں ہوش میں لایا تو فرمایا کہ کتنا ٹھیرے؟ عرض کیا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم۔ فرمایا کہ بلکہ تم سو سال ٹھیرے۔ جو زمان سب کیلئے سو سال تھا، دست قدرت نے اسے عزیر کیلئے ایک دن کا بنا دیا، یا اس سے بھی کم۔ اور ایسا ہی اصحاب کہف کے قصے میں ہے۔ ان کیلئے تین سو یا اس سے بھی نو سال اوپر کا عرصہ ایک دن یا اس کے کچھ حصے کی مقدار بنا دیا گیا۔ جو دوسروں کیلئے تین سو سال تھا، وہ ان سات سونے والوں کیلئے صرف ایک دن یا اس کا کچھ حصہ تھا۔
ربڑ کا مکان :
اور اس کی مثال کہ مکان کی فراخی تنگ (کوتاہ یا کم) ہو جاتی ہے، اس درویش کا قصہ ہے جو بیمار پڑے۔ تیمم سے نماز ادا کرتے تھے۔ ایک روز بولے کہ آسمان سے تیمم کرنا جائز ہے۔ حاضرین نے کہا کہ اے مخدوم، کہاں آدمی اور کہاں آسمان۔ درویش نے تیمم کی نیت سے دونوں ہاتھ دو مرتبہ آسمان پر مارے اور چہرے تک لائے اور اس کے بعد پھر دو مرتبہ دونوں ہاتھ آسمان پر مارے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک ملا۔ آسمان یونہی اپنی جگہ پر تھا۔ اور ان کے ہاتھ یونہی کوتاہ، اور اپنے حال پر۔ حاضرین نے اگرچہ یہ حال دیکھا مگر اس بزرگ درویش کے مقام کو نہ پہچانا، کہ وہ اس مقام پر تھے جہاں قرب و بعد مکانی نہیں سماتی۔

راہ عشق :
سلطان محمود سبک تگین نے ایاز کو ایک لشکر کے ساتھ کسی ولایت کی امارت سونپ دی تھی۔ ایاز وہاں چلے گئے۔ بادشاہ جب کھانا کھاتے تو اپنے معمول کے مطابق ایک چینی طباق اپنے بچے ہوئے کھانے کا سامنے سے اٹھاتے اور ایاز کو دے دیتے۔ ایاز با وجود اپنے مرتبے اور مقام کے اس طباق کو تعظیم سے لے لیتے اور سلطان کا پس خوردہ کھا لیتے۔ اس پر ایک مدت گزر گئی، اور شاہی باورچی خانے میں طباق کم ہوتے گئے۔ داروغۂ مطبخ کو اس کی تلاش ہوئی کہ وہ چینی طباق کیا ہوئے؟ سلطان نے فرمایا کہ وہ سب طباق ایاز کے پاس ہیں۔ ایک اونٹ روانہ کردیا جائے تاکہ اس پر لاد کر لائے جائیں۔
در راہ عشق مرحل‍ۂ قرب و بعد نیست
می بینمت عیاں و دعا می فرستمت
راہ عشق میں دوری و نزدیکی کے مرحلے نہیں ہوتے۔ میں تجھے برملا دیکھتا اور دعائیں کرتا رہتا ہوں۔
سوئی کے ناکے میں سے :
وہ جو کہا جاتا ہے کہ اونٹ کا سوئی کے سوراخ میں آنا جانا محال ہے، اور کہتے ہیں کہ اللہ کو اس پر قدرت ہے کہ اونٹ کو بہت چھوٹا کردے، کہ وہ سوراخ سے گزر سکے، یا سوئی کے سوراخ کو اتنا وسیع کردے جس میں اونٹ سما جائے، تو یہ درست ہے۔ ہاں اونٹ اپنی جسامت پر رہے اور سوئی کا سوراخ اپنی حالت پر، تو اس حالت میں اونٹ کے سوئی کے سوراخ سے گزرنے کو ضرور محال جانتے ہیں۔ مگر یہ بھی ان کی عقلوں کے نزدیک محال ہے، اللہ کی قدرت میں محال نہیں۔
خواجۂ  اجمیر کی کرامت:
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اس پتھر کے بت سے فرمایا تھا کہ میرا لوٹا اٹھا اور حوض کا پانی بھر کر لے آ۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ ادھر حوض خشک ہوگیا۔ تو آخر تمام حوض کا پانی لوٹے میں کس طرح سما گیا کہ حوض میں مٹی کے سوا پانی کا ایک قطرہ نہ رہا؟ حضرت کی یہ کرامت مشہور ہے۔ بالفرض اگر وہاں سات دریا بھی ہوتے تو وہ بھی اس لوٹے میں سما جاتے۔ یہ تصرف ہے بندگانِ بارگاہ الہی میں سے ایک بندۂ مقرب کا۔
بہ پرِّ پشّہ در جائے جہانے
درونِ نقطۂ ہفت آسمانے
مچھر کے ایک پر میں پوری دنیا کی گنجائش ہے۔ اور ایک نقطے میں سات آسمان سمائے ہوئے ہیں۔
حال ۔۔۔۔ چوتھا زمانہ :
جاننا چاہیئے کہ وہ حال جو ماضی اور استقبال کے درمیان ہے، وہ تین زمانوں میں سے ایک زمانہ ہے۔ اور ماضی و مستقبل کا اس زمانۂ حال میں جمع ہونا محال ہے۔ اور وہ حال جس میں ماضی و مستقبل حاضر رہتے ہیں، وہ ان تین زمانوں کے ماوراء ایک اور ہی حالت ہے۔ اس زمانے کی درازی کو دیکھو تو پلک جھپکنے سے کم معلوم ہو اور اگر اس کی کوتاہی کو خیال میں لاؤ تو ازل اور ابد کو اس لمحے میں موجود پاؤ۔ اس زمانے کیلئے گزرنا اور آنا یا جانا نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس میں تعدّد اور تجدّد اور تبعّض کا کوئی دخل ہے۔ اور وہ لمحہ (حال) جس میں گزشتہ اور آئندہ ، ازل سے لیکر ابد تک کا زمانہ موجود ہے، یہ ہے وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ یعنی اور ہمارا حکم تو فقط یک بارگی واقع ہو جاتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ہے۔ اب جو کچھ ہے وہ اسی پلک کے جھپکنے میں (یعنی اس کے دوران) ہے۔ ازل ہے تو اسی میں، ابد ہے تو اسی میں۔ ماضی، حال اور مستقبل سب اسی كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ کے لمحۂ حال  میں پوشیدہ ہے۔  یہ لمحہ اسرار وحدانیت کا مظہر اور واحد حقیقی کے انوار فردانیت کا مشہد ہے۔
حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
ماضی سا ہم کو حال دے
معراج شریف میں تمام مملکت عالم کی ایک ایک چیز تفصیل کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دکھا دی گئی۔ باقی سیر کی طوالت تو کجا، صرف جنت کی چوڑائی زمین و آسمان سے زیادہ ہے، تو اس کی طوالت کا کوئی کیا اندازہ لگا سکتا ہے؟ اور اس کی تفصیلی سیر؟ اللہ اکبر! پھر سوا لاکھ انبیاء علیہم السلام کا مسجد اقصی میں باری باری خطبہ دینا، جبریل امین علیہ السلام کا ہر آسمان کے دروازے پر دستک دینا اور ہر آسمان پر استقبال ہونا اور نبیوں سے ہم کلام ہونا۔ اللہ جل شانہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نوے ہزار کلمات (کم و بیش قرآن کے کلمات بھی اتنی ہی ہیں) ارشاد فرمانا، اور واپس تشریف لانا تو بستر کو ہنوز گرم پانا۔  یہ سب اسی ایک لمحے میں ہوا۔
غرض اس مقام پر گزرا ہوا زمانہ اور آنے والا زمانہ حال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعۂ معراج میں بیان فرمایا کہ میں نے یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ میں دیکھا۔
صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے عبد الرحمن بن عوف کو دیکھا کہ وہ ہنستے ہوئے جنت میں ٹہل رہے ہیں۔ میں نے فرمایا کہ دیر کیوں کردی؟ عرض کیا کہ یا رسول اللہ، آپ تک نہ پہنچ سکا، اور حضور کے نہ ہونے سے مجھے جو دشواریاں پیش آئیں، وہ بچے کو بوڑھا کر دیتی ہیں۔ میں تو یہ سمجھا تھا کہ اب حضور کا دیدار نہ ہوگا۔


 معلوم ہوا کہ یونس علیہ السلام کو اس حالت میں دیکھنا کہ آپ مچھلی کے پیٹ میں ہیں، حالانکہ اسے دو تین ہزار سال کا زمانہ گزر چکا ہے، اور عبد الرحمان بن عوف کو قیامت کے بعد جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے، والی حالت پر دیکھنا اور ان سے کلام فرمانا سوائے زمانۂ ماضی کے اور کسی زمانے میں نہیں ہوا، تو ہزاروں گزرے ہوئے سال اور ہزاروں آنے والے سال آپ کیلئے زمانۂ حال بن گئے۔ اور زمانۂ گزشتہ و آئندہ کے حالات آپ پر اسی وقت روشن ہوگئے۔
جب موحد اس مقام (حال) پر پہنچتا ہے تو یہ مقام موحد کی طرف منسوب ہو جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ جب اس مقام پر پہنچے تو ارشاد ہوا
فِيهِ ءَايَٰتٌ بَيِّنَٰتٌ مَّقَامُ إِبْرَٰهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ ءَامِنًا یعنی اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس (مقام) میں آئے امان میں ہو۔ اور جب محبوبوں کے محبوب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام میں آئے تو ارشاد ہوا
عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا یعنی یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔

پھر کہیں تو فرمایا کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال طول ہوگا ۔۔۔۔ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
اور کہیں فرمایا کہ جیسے ایک پلک کا مارنا بلکہ اس سے بھی قریب ۔۔۔۔ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ
یہ دونوں اسی زمانۂ حال کا بیان ہیں۔
ترا خود عقل تو اول عقیلہ ست
عجائب حالتے ایں را چہ حیلہ ست
تیرے لئے خود تیری عقل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ احوال عجیبہ کو اس میں کیا حیلہ بناتا ہے؟
زمان و مکان کا لپیٹ دیا جانا :
قرآن پاک میں آیا ہے:
1- إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ یعنی جب سورج لپیٹ (کر بے نور کر )دیا جائے گا-
2- يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ یعنی اس دن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ دیا جاتا ہے۔
3- وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ یعنی اور سارے آسمان اُس کے دائیں ہاتھ (یعنی قبضۂ قدرت) میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔
4- يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ یعنی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔
کیا چیز لپٹ سکتی ہے اور لپیٹی جا سکتی ہے؟ اور کیا ہوتا ہے ربڑ ہونا؟ ہاں آج ہماری آنکھیں بند اور بصارت کمزور ہونے کی وجہ سے ہم اس کا ادراک نہیں کر پاتے۔ کل جب قیامت کے روز پردے اٹھا دئیے جائیں گے تو نگاہ خوب تیز ہو گی۔ اس وقت سمجھ آئے گا کہ ساری کائنات ربڑ کی تھی۔ وہی حقیر دنیا، وہی ہماری کل کائنات جس پر ہم اترائے ہوئے تھے، وہ لچکیلی ربڑ سے کچھ زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہاں، ان آیات میں سورج اور آسمان مکان کا لچکیلا پن ظاہر کرتے ہیں اور دن اور رات زمان کا لچکیلا ہونا بتاتے ہیں۔
ہر چہ در طبع تو نیا ید راست
تو ندانستہ ، مگو کہ خطاست
جو بات تمہاری سمجھ کے مطابق نہ ہو، تو یہ سمجھو کہ تم جان نہ سکے، یہ نہ کہہ بیٹھو کہ غلط ہے۔
معجزے کا سفر :
وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ
موسی کو ید بیضا دیا گیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالتے تو چمکنے لگتا۔ یہ بھی آپ کا معجزہ تھا کہ لاٹھی آپ کے ہاتھ میں عصا رہتی، ڈال دیتے تو اژدھا بن جاتی۔ لاٹھی کا تعلق زمینی عناصر سے ہوتا ہے۔
داؤد علیہ السلام کو دست داؤدی کا معجزہ دیا گیا، لوہا آپ کے ہاتھ میں نرم ہو جاتا۔ لوہے کو آسمان سے نازل کیا گیا ہے، لیکن بہرحال پایا زمین پر جاتا ہے۔ یہ ید بیضا کا گویا کہ نیا ورژن تھا۔
دست مسیحا پرندے کو مٹی سے بناتے تھے۔ مٹی کا تعلق بھی زمین ہی سے ہوتا ہے۔ لکڑی، لوہا پھر مٹی۔  تینوں میں نبیوں کی طاقت کا اظہار ہوتا ہے، معجزہ ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔
اللہ کا محبوب آتا ہے۔ کفار کہتے ہیں کوئی معجزہ دکھاؤ، فرمایا، کیا دیکھنا چاہتے ہو؟ کہنے لگے اس چودھویں کے چاند کو توڑ کر دکھا دیں۔ فرمایا بس یہی یا اور کچھ؟ کہنے لگے یہی کرکے دکھا دو تو جان لیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔
ہاں ہاں، ید بیضا موسی کا خود اپنا ہاتھ تھا۔ دست داؤدی میں لوہا موم ہو جاتا تھا، دست مسیحا مٹی کی مورتوں کو چھوتا تو جان ڈال دیتا تھا، لیکن یہاں ہاتھ تو دور کی بات ہے، ہاتھ میں کوئی ایسی چیز بھی نہیں جس سے چاند کو چھوا جا سکے۔ ان سب کا معجزہ ان کے ہاتھوں کے لمس کا محتاج تھا۔ یہاں میرا نبی آسمان پر چاند کو صرف اشارہ کرتا ہے اور چاند دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ کفار اپنی آنکھیں مل مل کر حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہوا۔ محمد کا معجزہ تو آسمان پر نظر آ رہا ہے۔ صرف دوپارہ ہی نہیں کیا، دونوں ٹکڑوں کو اشارے سے پھر یک جان بھی کردیا۔ انبیاء سابقین بیشک معجزات لائے تھے، لیکن محبوب دو عالم تو سراپا معجزہ بن کر آئے تھے۔
حاملین دست داؤدی ؟
ان نبیوں کا معجزہ ان کے ساتھ رہا، کسی دوسرے کو نہ مل سکا۔ مل جاتا تو معجزہ ہی نہ رہتا۔ یہ میرے نبی کے دست مبارک کی برکت ہے، علی کے ہاتھ سے خیبر کا دروازہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے، جسے اسّی شہ زور حرکت دیا کرتے تھے۔ صرف علی ہی نہیں، صالحین امت کو بھی اس میں سے حصہ ملتا ہے۔
حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو میرے کسی ولی کو ایذا پہنچائے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا یہ بندہ (ولی) نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس کی سماعت و بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا دیکھتا ہے۔ اور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ یہ اتنی مشہور و مستند حدیث ہے کہ مجھے اس کا حوالہ بھی دینے کی ضرورت نہیں۔  یہ میرے نبی کا معجزہ اور کرم نہیں تو اور کیا ہے؟   دست داؤدی کو پوری امت مسلمہ میں پھیلا دیا۔
وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الْأَيْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ یعنی اور ہمارے بندے داؤد نعمتوں (اور بڑی قوتوں) والے کو یاد کرو بیشک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے۔
اللہ کے بندے بن جاؤ اور اوابین میں شامل ہوجاؤ۔  یہی توحید کا سبق ہے۔
انہی بندوں کیلئے علامہ نے فرمایا ہے کہ
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو مل ان سے
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں  اپنی آستینوں میں
میرے تین ہزار الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ۔ جو فیس بک پر اس پوسٹ کو پڑھنا چاہے تو اس کا ایڈریس یہ ہے

تبصرے

  1. ربڑ کی کائنات
    اپنے عنوان کی طرح ایک منفرد پوسٹ۔
    اپ نے بالکل ٹھیک فرمایا تھا بلاگ پر نہ صرف پوسٹ کرنے کا طریقہ شاندار ہے بلکہ پڑھنے میں بھی بےحد آسانی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی بیشک۔ جو چیز زیادہ نفع بخش ہوتی ہے وہ توجہ بھی خوب مانگتی ہے۔

      حذف کریں
  2. ۔اور اس پوسٹ کی خوبصورتی میں بلاگ کی نہیں بلکہ آپ کی محنت اور ذہانت کارفرما ہے

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع