غزوۂ کشمیر، غزوۂ ہند اور غزوۂ سندھ۔۔۔ ایک تجزیاتی تحریر

غزوۂ کشمیر:
غزوۂ ہند کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ آج ہم غزوۂ کشمیر کی بات کریں گے۔ ایک ممکنہ غزوہ کشمیر بھی ہے۔ کتب احادیث میں اس کا تذکرہ غزوۂ ہند سے بھی زیادہ موجود ہے۔ مشکاۃ شریف کی کتاب الفتن کے باب الملاحم میں یہ حدیث شریف موجود ہے۔ اور نہ صرف مشکاۃ شریف، بلکہ اکثر کتب حدیث میں یہ موجود ہے۔ تعداد کے اعتبار سے اس حدیث شریف کے حوالے غزوۂ ہند سے زیادہ ملے ہیں۔
مشكاة المصابيح:
5428 - وَعَن ذِي مِخبَرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " سَتُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا فَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِكُمْ فَتُنْصَرُونَ وَتَغْنَمُونَ وَتَسْلَمُونَ ثُمَّ تَرْجِعُونَ حَتَّى تَنْزِلُوا بِمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ فَيَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ النَّصْرَانِيَّةِ الصَّلِيبَ
فَيَقُولُ: غَلَبَ الصَّلِيبُ
فَيَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيَدُقُّهُ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَغْدِرُ الرُّومُ وَتَجْمَعُ لِلْمَلْحَمَةِ "
وَزَادَ بَعْضُهُمْ: «فَيَثُورُ الْمُسْلِمُونَ إِلَى أَسْلِحَتِهِمْ فَيَقْتَتِلُونَ فيكرم الله تِلْكَ الْعِصَابَة بِالشَّهَادَةِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
روایت ہے ذی مخبر سے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا کہ:
ترجمہ: تم روم سے امن و امان والی صلح کرو گے تو تم اور وہ اپنے سامنے والے دشمن سے جنگ کرو گے تو تم کو فتح دی جاوے گی اور تم غنیمت حاصل کرو گے اور سلامت رہو گے پھر تم لوٹو گے حتی کہ ٹیلوں والی چراگاہ میں اترو گے تو عیسائیوں میں ایک شخص صلیب اٹھاکر کہے گا کہ صلیب غالب آگئی تو مسلمانوں میں سے ایک شخص غضب ناک ہوکر اسے توڑ دے گا۔ اس وقت روم عہد شکنی کریں گے اور جنگ کے لیے جمع ہو جائیں گے۔
بعض راویوں نے یہ زیادہ فرمایا کہ پھر مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف جوش سے بڑھیں گے پھر جنگ کریں گے تو اللہ اس جماعت کو شہادت سے عزت دے گا (ابوداؤد)



نوٹ:
  1. ٹیلوں والی چراگاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سرسبز مرتفع وادئ کشمیر کا پورا نقشہ ہے۔ اس کیلئے {تَنْزِلُوا بِمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ} کے الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں۔
  2. "یعنی تم مسلمان اور رومی عیسائی دونوں مل کر مشترکہ دشمن سے جنگ کرو گے۔" وہ دشمن غالباً مشرکین ہوں گے ، یہ احتمال ضعیف ہے کہ وہ دشمن یہود ہوں گے۔
  3. عربوں کے روزمرہ کے محاورے میں "رومی" انگریزوں کو کہا جاتا ہے۔
  4. یہ حدیث مکتبۂ شاملہ میں موجود "مشکاۃ المصابیح" سے پیش کی گئی ہے اور حدیث نمبر اسی میں ہے۔ میرے پاس اس حدیث شریف کا صفحہ نمبر 1495ہے۔
احادیث کا خلاصہ:
سنن ابو داؤد کی اس حدیث میں یہ ہے کہ حضرت جبیر بن نفیر نے حضرت ذی مخبر رضی اللہ عنہ سے "ھدنہ" کے بارے میں دریافت فرمایا تھا تو آپ نے یہ حدیث پاک ان کے سامنے بیان کی۔ ایسا ہی سنن ابن ماجہ کی حدیث میں بھی آیا ہے۔ وہاں نصرانی کے بجائے اہل صلیب کا لفظ ہے۔ باقی تمام مفہوم وہی ہے۔ مسند امام احمد میں ، المعجم الكبير للطبراني اور السنن الكبرى للبيهقي میں بھی یوں ہی وارد ہوا ہے۔ البتہ المستدرك على الصحيحين للحاكم میں صرف سرسبز چراگاہ کا لفظ (بِمَرْجٍ) کا لفظ آیا ہے اور بلند ٹیلوں والی کا ذکر نہیں۔ اور کتاب الفتن لنعيم بن حماد میں کچھ مزید وضاحت ہے کہ وہاں فرمایا کہ نصرانی کے جواب میں مسلمان کہے گا کہ صلیب نہیں، اللہ غالب آیا ہے۔ اس پر دونوں میں لڑائی شروع ہوجائے گی جس پر مسلمان صلیب کو جو اس سے دور نہیں ہوگی، اٹھا کر توڑ ڈالے گا۔ نصرانی اس کی طرف دوڑیں گے اور اسے شہید کر ڈالیں گے۔ اس پر سارے مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف دوڑیں گے اور جنگ شروع ہوجائے گی۔ اللہ اس لشکر کو شہادت سے سرفراز فرمائے گا۔ پھر ان کا بادشاہ آکر کہے گا کہ عرب حد سے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت وہ رومی عہد شکنی کریں گے۔ اور مسند الشاميين للطبراني میں یہ لکھا ہے کہ صلح دس سال کیلئے ہوگی ، دو سال صلح رہے گی اور تیسرے سال وہ عہد شکنی کریں گے۔ یا فرمایا کہ چار سال تک صلح رہے گی اور پانچویں سال وہ عہد شکنی کریں گے۔ پھر تم دونوں لشکر تمہارے اپنے شہر (مدینتکم) میں آئیں گے (اتریں گے) اور دونوں لشکر اپنے مشترکہ دشمن سے لڑیں گے۔ تمہیں فتح و نصرت دی جائے گی اور تمہاری مراد اور بہت سی غنیمت تمہیں حاصل ہوگی۔
اسی مسند الشامین کی اگلی حدیث بھی اسی مفہوم کی ہے مختلف اسناد کے ساتھ۔ اور اس میں اس حدیث کے راوی کو نجاشی کے بھائی کا بیٹا (بھتیجا) کہا گیا ہے۔ اور صحیح ابن حبان میں یہ تشریح مزید ہے کہ رومی صلیب توڑنے والے مسلمان کی گردن مار دیں گے۔ اور یہ مزید ہے کہ پھر رومی نصرانی تمہارے سامنے اسی (ثمانین) جھنڈوں تلے آئیں گے، جس میں سے ہر جھنڈے تلے بارا ہزار ہوں گے۔ اور ایسا ہی المستدرك على الصحيحين للحاكم کی حدیث میں بھی ہے۔
مرج ذی تلول (مدینتکم):
پہلے میں نے مرج ذی تلول پر کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔ لیکن جب غور کیا تو حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ مرج اور تلول دونوں ہی نہایت کثیر المعنی الفاظ ہیں۔ ان کا سیدھا سا مطلب تو اونچے ٹیلوں والی وسیع و عریض چراگاہ ہی ہے۔ لیکن مرج بہت مشکل کو بھی کہتے ہیں، فساد کو بھی کہتے ہیں اور جب کہا جاتا ہے کہ ان کے بیچ ہرج اور مرج ہے تو اس کا مطلب ہے ان کے درمیان فتنہ اور سخت اضطراب ہے۔ مرج الامر دراصل التباس، اضطراب اور اختلاط کو کہا جاتا ہے۔ ایسے اور بھی بہت سے معنی ہیں، یہاں صرف اسی پر بس کرتا ہوں۔ اب ذرا ایک نظر کشمیر پر بھی ڈالیں، کیا بالکل ایسی ہی صورت حال کشمیر کی نہیں؟ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے پاکستان اور انڈیا کو تو کیا، اقوام عالم کو ورطۂ حیرت و اضطراب میں ڈالا ہوا ہے۔ کشمیری تو کجا، خود اقوام متحدہ کے اعلی دماغ چکرائے ہوئے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیسے کیا جائے۔ اسی طرح ذی تلول کا لفظ تل سے بنا ہے۔ اور تلہ الولد بچے کی حیرت، تحیر اور تردد کو کہتے ہیں اور تلہ العاشق اسے کہتے ہیں کہ عشق میں کسی کی عقل زائل ہوجائے۔ اور تلّی الرجل اسے کہتے ہیں جس کی زندگی کا آخری رمق ہو۔ ایسے اور بھی کئی معنی ہیں۔ ایک بار پھر آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ معروف معنی کے ساتھ ساتھ ان معنوں پر بھی غور کیا جائے تو یہ بات صاف ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ" تم ایک تلول والے مرج پر اترو گے" کا مطلب وادئ کشمیر کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ قربان جائیے میرے آقا کی فصاحت اور بلاغت پر کہ وہ سر سبز وادی بھی ہے اور ایک ڈسپیوٹڈ (متنازعہ)علاقہ بھی ؛
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے، فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
جو ان معنوں کی مزید تحقیق کرنا چاہتا ہے وہ نیچے دئیے ہوئے ان لنکس پر کلک کر سکتا ہے:
Meanings of Tall(تلول)
واقعے کی تفصیل:
ان تمام احادیث میں جو واقعہ پیش کیا گیا ہے، اگر میں اپنے الفاظ میں اور اپنی سمجھ کے مطابق بیان کروں تو یہ ہے۔
1.   ایک وقت ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی رومی نصرانیوں سے ہر وقت لڑائی ہوگی۔ یہاں تک کہ فریقین جنگ سے تنگ آگر آپس میں امن و امان کی صلح (Peace Treaty) کر لیں گے۔
2.   یہ صلح یا جنگ بندی دس سال کیلئے ہوگی۔ لیکن تیسرے یا پانچویں سال رومی اپنے عہد سے پھر جائیں گے۔
3.   رومیوں کی جنگ بندی کے معاہدے سے پھرنے سے پہلے مسلمان اور رومی نصارٰی اپنے ایک مشترکہ دشمن سے لڑیں گے۔ اور اس پر واضح برتری اور فتح حاصل کر لیں گے۔
4.   اور ایک سرسبز وادی میں اتر کر مال غنیمت کی تقسیم کریں گے۔ اس وادی کی پہچان یہ ہے کہ وہ بلند ٹیلوں والا گھاس وغیرہ کا سرسبز میدان ہوگا جہاں جانور وغیرہ خوب اچھی طرح سے چر سکیں۔ (یا ایک ایسا علاقہ جو متنازع ہو)
5.   ایک حدیث میں اسے تمہارا شہر (مدینتکم) فرمایا گیا ہے، یعنی وہ شہر مسلمانوں کا ہوگا، رومیوں کا نہیں۔
6.   فتح کے نشے میں چور رومیوں میں سے ایک نصرانی کہے گا کہ صلیب غالب آگئی۔ یا ہم صلیب کی وجہ سے غالب آگئے۔
7.   ایک مسلمان کو غصہ آئے گا اور وہ کہے گا کہ صلیب غالب نہیں آئی بلکہ اللہ غالب آیا ہے، اور ہمیں صلیب کی وجہ سے نہیں، اللہ کی وجہ سے فتح نصیب ہوئی ہے۔ اور اس مسلمان اور رومی دونوں میں کچھ دیر دو بدو لڑائی ہوگی۔ اور پھر مسلمان (اس رومی پر غالب آکر) صلیب کی طرف بڑھے گا جو پاس ہی پڑی ہوگی اور صلیب کو اٹھا کر توڑ دے گا۔ یہ اس کی دلیل ہوگی کہ صلیب تو اپنے آپ کو نہیں بچا سکتی تو ہمیں کیا بچائے گی۔
8.   یہ دیکھ کر روم کے نصارٰی غصے میں بھر جائیں گے اور صلیب توڑنے والے مسلمان کی گردن پر ضرب لگا کر اسے شہید کردیں گے۔
9.   اس پر مسلمان بھی اپنے ہتھیاروں کی طرف دوڑ پڑیں گے اور آپس میں (یعنی امن معاہدے والے مسلمانوں اور رومیوں میں) جنگ چھڑ جائے گی۔ ان تمام مسلمانوں کو اللہ شہادت سے سرفراز فرمائے گا۔ یہ اس بات کی تصریح ہے کہ مسلمان رومیوں کے مقابلے میں کم افرادی قوت والے ہوں گے۔ یعنی مسلمانوں کا لشکر ان کے مقابلے میں قلیل ہوگا اسی لئے وہ سب کو شہید کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمان جنگی ساز و سامان سے اتنا لیس نہ ہوں جتنا کہ رومی۔
10.         رومی اپنے بادشاہ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ ہم آپ کی عربوں سے حفاظت کریں گے۔ (یعنی عربوں کے بہت پر نکل آئے ہیں، ہم ان سے جنگ کرکے ان کو سبق سکھانا چاہتے ہیں)۔
11.         اجازت ملنے پر وہ اسی (بیس کم سو) جھنڈوں کے ساتھ آئیں گے اور ہر جھنڈے تلے بارا ہزار کا لشکر ہوگا۔ یعنی سارا کوئی دس لاکھ کے قریب لشکر ہوگا۔
یہ اس واقعہ کا مختصر سا خلاصہ ہے۔
میری اپنی رائے:
1.   حدیث پاک میں تم کہا گیا ہے، تم سامنے والے مخاطب کو کہا جاتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطب عرب تھے۔ اس لئے گمان غالب یہ ہے کہ رومیوں سے امن و امان کی صلح اور ان کے ساتھ مل کر مشترکہ دشمن سے لڑنا، اور پھر رومیوں سے لڑنا، یہ جنگ عربوں کی ہوگی۔ اور تمہارے شہر (مدینتکم) سے مراد ملک عرب کا کوئی شہر ہوگا۔ اگرچہ ابھی عرب والے رومیوں سے کسی جنگ کے اہل نہیں، لیکن ممکن ہے قرب قیامت میں عرب قوت پکڑ جائیں اور ان کی رومیوں سے باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوجائے۔
2.   قرآن پاک میں سورت روم موجود ہے، اور اس حدیث پاک میں بھی روم کے نصارٰی کا ذکر ہے۔ یقیناً اس کی کوئی خاص اہمیت ہوگی، جبھی تو قرآن و حدیث میں اس کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ بیشک کسی زمانے میں روم دنیا کی عظیم سلطنت تھا، لیکن موجودہ روم ایک شہر ہے جو اٹلی (اطالیہ) کے قلب میں واقع ہے۔ شہر روم بھی خصوصیت کا حامل ہے۔ اس میں ایک چھوٹا سا علاقہ ویٹیکن سٹی کے نام سے ہے جو نصارٰی کیلئے مذہبی دار الخلافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ویٹیکن سٹی کے بارے میں وکیپیڈیا میں یہ لکھا ہوا ہے:
ویٹیکن سٹی اٹلی کے شہر روم میں واقعہ ایک خود مختار ریاست ہے۔ ریاست تقریبا چاروں طرف سے دیواروں سے گھری ہوئی ہے جس کا کل رقبہ 44 ہیکٹر ہے {تقریباً آدھا مربع کلومیٹر یا 98 ایکڑ کراچی یونیورسٹی جتنا} اور یہ دنیا کی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے چھوٹی خود مختار ریاست کہلاتی ہے۔ ریاست کو 1929ء میں قائم کیا گیا اور ریاست کا سربراہ پاپائے روم ہوتا ہے اور یہاں ہی پاپائے روم کی رہائش گاہ اپوسٹالک محل ( رسولی محل ) اور رومی کریا (پاپائیت) واقع ہیں۔ ویٹیکن سٹی کو بلاشبہ کاتھولک عیسائیوں کا مذہبی دار الخلافہ کہا جا سکتا ہے۔
3.   عرب مسلمانوں کا مذہبی دار الخلافہ ہے تو ویٹیکن سٹی نصارٰی کا۔ اور اس حدیث پاک میں دونوں ہی کا تذکرہ ہے۔ یعنی یہ صرف دو گروہوں کے بارے میں بیان نہیں ہے بلکہ دو مذہبی طاقتوں کی جنگ کا تذکرہ ہے۔ اس حدیث پاک میں دو تہذیبوں کے تصادم کی خبر دی گئی ہے۔ صلیب والے قصے پر غور کر لیں تو یہ بات خوب کھل کر سامنے آجائے گی۔
4.   اس حدیث پاک سے پتا چلتا ہے کہ دشمنوں سے صلح نامہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، بالخصوص جب بیگناہ جانوں کے ضیاع کا خوف ہو۔
5.   مسلمان اپنے عہد سے نہیں پھرتا، لیکن دوسری اقوام پھر جاتی ہیں۔ این پی ٹی ہو، سی ٹی بی ٹی ہو، این ایس ایف کا معاہدہ ہو یا کوئی اور قرار داد، مسلمان حتی المقدور آخری وقت تک اس پر قائم رہتا ہے۔ اور جب کوئی فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو دوسرا خود بخود اس کی پابندی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس حدیث پاک سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی رومیوں کی طرف سے کی جائے گی۔
6.   اس حدیث پاک میں رومیوں اور مسلمانوں کے مشترکہ دشمن کا تذکرہ بھی ہے۔ مسلمان توحید پرست ہیں، رومی بھی تثلیث کے باوجود ایک خدا کی پرستش کا دعوی کرتے ہیں اور اہل کتاب ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کا مشترکہ دشمن توحید پرست یا اہل کتاب نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسی صورت میں وہ مشترکہ دشمن نہیں ہو سکتا۔۔ یعنی یہ یہود کا تذکرہ نہیں، بلکہ کسی ایسے کا ہے جو نہ ایک خدا کو مانتا ہو اور نہ ہی آسمانی کتاب کے اہل ہونے کا دعویدار ہو۔ صرف مشرکین ہی رہ جاتے ہیں جو توحید پرستوں اور اہل کتاب کے مشترکہ دشمن ہو سکتے ہیں۔ آسمانی کتاب کے دونوں حاملوں کے لشکروں نے ان کے مشترکہ دشمن سے جنگ جیتی ہے اس لئے اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت مشرکین طاقت پا چکے ہوں گے اور ان سے تنہا مقابلہ کرنا فریقین کیلئے ممکن نہ ہوگا اس لئے مل کر لڑنے میں عافیت سمجھیں گے اور اسے شکست سے دوچار کریں گے۔
7.   اگر مشترکہ دشمن مشرکین کو ہی سمجھ جائے تو فورا ہندو کا نام آتا ہے۔ ہندو تینتیس کروڑ جھوٹے خداؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ اور دوسرا نام چین کا آتا ہے جہاں بت پرستوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ اور یہ دونوں ممالک سر دست کمزور ممالک بھی نہیں ہیں بلکہ دونوں ہی ایٹمی طاقت بھی ہیں{ تو ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں لشکر (مسلمان اور نصارٰی) بھی اس مشترکہ دشمن سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایسی ہی کوئی ایٹمی طاقت رکھتے ہوں۔ } اور دونوں کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں۔ اور چائنا تو سائنسی اور معاشی محاذوں پر یورپ کا ایک بڑا حریف بھی ہے اگرچہ پاکستان کے مسلمانوں سے دوستی کا دم بھرتا ہے۔ اس لئے یہ دونوں ہی وہ مشترکہ دشمن ہو سکتے ہوں جس کا تذکرہ اس حدیث میں آیا ہے۔ یا ممکن ہے کہ اس وقت ان دونوں میں سے کوئی ایک مشرک ہی طاقت پکڑ جائے جس کا اس حدیث مبارکہ میں ذکر ہے۔ اور چائنا یا انڈیا میں سے کوئی ایک خطے کا تنہا کرتا دھرتا بن جائے۔
8.   حدیث پاک میں تم ہمیشہ عرب کو نہیں کہا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری انسانیت کے اور رہتی دنیا تک سب کے نبی ہیں۔ اس لئے آپ کی اکثر احادیث میں تم سے مراد دنیا بھر کے مسلمان ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ حدیث پاکستانی مسلمانوں پر بھی اسی طرح لاگو ہوتی ہے جس طرح عرب والوں پر۔ اور پاکستان کا مسئلہ کشمیر سے جڑا ہے۔ کشمیر کا بڑا حصہ ہندو مشرکوں کے قبضے میں ہے۔ تو پاکستانیوں کیلئے اس مشترکہ دشمن سے صرف انڈیا مراد ہوگا۔ آئندہ کا حال اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن اس وقت تو بھارتی عزائم واضح ہوگئے ہیں اور ایک بار پھر پاکستانیوں کے دل میں موذی سرکار کی نفرت بیٹھ گئی ہے۔ دو قومی نظریہ واضح ہو کر دنیا کے سامنے اجاگر ہوگیا ہے۔ یہ بھی تہذیبوں کے ٹکراؤ ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور اگر مشترکہ دشمن ہندو ہی ہو تو ایسی صورت میں امن و امان والی صلح رومیوں کی جس قوم سے ہوگی وہ صرف برطانیہ یا امریکہ ہو سکتے ہیں۔ یہ دونوں بھی عرب محاورے کی رو سے رومیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
9.   لیکن ایک شئے ہے جو اس حدیث پاک کو کشمیر پر محمول کرنے سے روکتی دکھائی دیتی ہے، اور وہ اس حدیث پاک میں لفظ عرب کا ہونا ہے کہ رومی اپنے بادشاہ سے کہیں گے کہ ہم آپ کو عربوں کیلئے کافی ہیں۔ ان کی گفتگو جنگ میں مسلمانوں کے سارے لشکر کو شہید کرنے کے بعد کی ہے۔ رومیوں کی اس گفتگو سے بھی دو مفہوم نکل سکتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ ان کی صلح عربوں کے ساتھ تھی اور انہی کے لشکر کو انہوں نے شہید کیا تھا۔ لیکن دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان مسلمانوں کو ختم کرنے کے بعد انہوں نے عربوں کا ذکر کیا ہو کیونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا روحانی مرکز تو عرب ہی ہے۔ عرب شریف سے ہی تمام مسلمانوں کو تقویت ملتی ہے۔ اس لئے جب انہوں نے اپنے آپ کو طاقتور محسوس کیا تو عربوں کی طرف رخ کرنے کا سوچنے لگے۔ ایسی صورت میں ہم اسے پاکستان اور کشمیر کی طرف محمول کر سکتے ہیں۔ یعنی مسلمانوں سے مراد بر عظیم پاک و ہند کے مسلمان اور سرسبز وادی سے مراد کشمیر اور مشترکہ دشمن سے مراد ہندو بنیا۔ اور رومیوں سے مراد برطانیہ یا امریکہ کے انگریز۔
10.         اپنے بادشاہ سے اجازت ملنے پر وہ اسّی جھنڈوں کے ساتھ آئیں گے۔ ظاہر یہی ہے کہ رومیوں میں تنہا عربوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوگی اس لئے وہ دنیا کے دیگر ممالک (جیسے یوروپی ممالک) وغیرہ کو اپنے ساتھ ملائیں گے، جیسا کہ آج کل بھی نیٹو وغیرہ کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے۔ ہر جھنڈے تلے بارا ہزار کا لشکر ہوگا۔ یعنی کل دس لاکھ کی افواج ہوں گی۔ ایک بات حیرت انگیز ہے کہ برطانیہ میں اب تک بادشاہی نظام موجود ہے۔ جبکہ یورپ کے دیگر ممالک جمہوریت کے قائل ہیں۔ یہ بات اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ مشترکہ دشمن مشرک ہندو ہی ہوگا۔ اور تاج برطانیہ کا ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساہوکاروں کی صورت میں پاکستان اور انڈیا سے اور کشمیر سے ایک گہرا تعلق رہا ہے اور آج بھی بی بی سی اور برطانیہ کا میڈیا کشمیر کی خبروں کو سرخی بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہ سب اسی تعلق کی وجہ سے ہے۔ اور بہر حال اس کا ایک حل تو نکالا ہی جائے گا۔ اسی جھنڈے یو این (اقوام متحدہ) کے ممالک کے ہی ہو سکتے ہیں۔ یہی ایک پلیٹ فارم ہے جو انہیں اتنی جلدی کسی ایک نکتے پر جمع کر سکتا ہے۔
خلاصہ:
یہ حدیث پوری طرح مسئلہ کشمیر پر لگتی ہے یا نہیں، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن اس بات کے کافی شواہد ہیں کہ سرسبز وادی سے مراد کشمیر ہی ہے۔ اور مسلمانوں سے مراد پاکستان کے مسلمان۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ غزوۂ کشمیر کی طرف واضح اشارہ ہے۔ تاہم اللہ کے نبی کا کلام جامع الکلم ہوتا ہے، جس میں الفاظ کم لیکن مفاہیم بہت ہوتے ہیں، اس لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہر خطے کے لوگ اسے اپنے احوال کے مطابق دیکھیں اور سمجھیں۔ ہم چونکہ پاکستان میں رہتے ہیں اس لئے اسے کشمیر پر محمول کر سکتے ہیں، لیکن ان معنی کو حتمی معنی نہیں کہہ سکتے۔

غزوۂ ہند :
غزوۂ کشمیر کے ساتھ ہی غزوۂ ہند کی طرف آدمی کا ذہن جاتا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ چند باتیں اس بارے میں بھی ضرور ہو جائیں۔ غزوۂ ہند کے بارے میں مستقل احادیث موجود ہیں۔ اس غزوہ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ دوسری جنگوں کی طرح اسے ایک جنگ نہیں کہا گیا بلکہ اسے باقاعدہ ایک نام دیا گیا ہے اور نام بھی غزوہ کا۔ اپنی احادیث کی کتب میں مجھے اس کے پچیس حوالے ملے ہیں۔ یاد رہے کہ غزوۂ کشمیر والی حدیث کے مجھے ستائیس حوالے ملے ہیں۔ جن میں سے غزوۂ ہند کے بارے میں ذیل کی تین احادیث اس موضوع پر تمام احادیث کا خلاصہ ہیں۔ یہ تینوں احادیث مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔ اور آپ کی آرزو تھی کہ غزوۂ ہند میں شرکت فرماتے۔
أ‌.               الفتن لنعیم بن حماد
1236 - حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ بَعْضِ الْمَشْيَخَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَيْشٌ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِينَ بِالسَّلَاسِلِ، يَغْفِرُ اللَّهُ ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ ابْنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِي وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا، فَإِذَا فَتْحَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ، يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَجِدُ فِيهَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّي قَدْ صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ»
ب‌.        السنن الكبرى للبيهقي (9/ 297)
18600 - أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ ، أنبأ أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ، وَجَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَا: ثنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثنا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ الْبَهْرَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ "
''حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اﷲ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا''۔
ت‌.        مسند إسحاق بن راهويه (1/ 462)
537 - أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو السَّكْسَكِيِّ، عَنْ شَيْخٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يوْمًا الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ جَيْشٌ لَكُمُ الْهِنْدَ فَيَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِ السِّنْدِ مُغَلْغَلِينِ فِي السَّلَاسِلِ فَيَغْفِرُ اللَّهُ لَهُمْ ذُنُوبَهُمْ فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ الْمَسِيحَ ابنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ: أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِدٍ وَتَالِدٍ لِي وَغَزَوتُهَا فَإِذَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْنَا انْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَلْقَى الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرَهُ أَنِّي صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا، وَقَالَ: «إِنَّ جَنَّةَ الْآخِرَةِ لَيْسَتْ كَجَنَّةِ الْأُولَى يُلْقَى عَلَيْهِ مَهَابَةٌ مِثْلَ مَهَابَةِ الْمَوْتِ يَمْسَحُ وَجْهَ الرِّجَالِ وَيُبَشِّرُهُمْ بِدَرَجَاتِ الْجَنَّةِ»
ث‌.        الفتن لنعيم بن حماد (1/ 409)
1237 - حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ سَيَّارِ أَبِي الْحَكَمِ، عَنْ جَبْرِ بْنِ عَبِيدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أَنْفَقْتُ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي، فَإِنِ اسْتُشْهِدْتُ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ»
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا۔ اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے''۔
ج‌.           معجم ابن الأعرابي (1/ 70)
102 - نا مُحَمَّدُ بْنُ الْجُنَيْدِ، نا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ السَّالَحِينِيُّ، نا الْبَرَاءُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْغَنَوِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ الْمُصَدَّقُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى الْهِنْدِ وَالسِّنْدِ» فَإِنْ أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَاكَ الَّذِي أُرِيدُ، وَإِنْ أَنَا رَجَعْتُ رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي اللَّهُ مِنَ النَّارِ
غزوۂ سندھ:
جس طرح احادیث میں غزوۂ کشمیر اور غزوۂ ہند کا ذکر ہے، اسی طرح غزوۂ سندھ کا بھی ذکر ہے۔ اوپر بیان کردہ آخری حدیث شریف جو معجم ابن الاعرابی سے پیش کی گئی ہے اور اس میں غزوۂ ہند کے ساتھ غزوۂ سندھ کا بھی تذکرہ ہے اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے سچے محبوب و مصدق صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ اس امت میں ہند اور سندھ پر لشکر کشی کی جائے گی (جنگیں لڑی جائیں گی)۔ پھر ابو ہریرہ اپنی آرزو بیان فرماتے ہیں کہ اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو شہید ہو جاؤں۔ میں یہی چاہتا ہوں۔ اور اگر میں (غازی بن کر زندہ) لوٹ آؤں تو میں اس حال میں لوٹوں گا کہ مجھے اللہ نے آگ سے آزاد کر دیا ہوگا۔ (یعنی اس کے غازیوں کیلئے آگ سے نجات کی نوید ہے)۔
نوٹ:
ہند اور سند دونوں ہی حضرت نوح علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں یعنی ہند (اور سندھ) بن یرقن بن یقضن بن حام بن حضرت نوح علیہ السلام (حوالہ: سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي )۔ بلکہ اس ضمن میں حضرت عبد اللہ ابن عباس کا ایک قول بھی ملتا ہے کہ اللہ نے موسی علیہ السلام کو وحی کی کہ آپ اور آپ کی قوم اور اہل جزیرہ اور اہل عال سام بن نوح کی اولاد سے ہیں۔ اور آپ ہی کا یہ بھی قول ہے کہ اہل عرب اور اہل فرس (غالباً اہل فارس) اور نبطی اور ہند اور سندھ سام بن نوح کی اولاد سے ہیں۔
اور غزوۂ ہند کی سب سے مشہور حدیث (سیکنڈ لاسٹ والی کتاب الفتن سے )یہ ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ہم سے اللہ کے رسول نے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ہے۔ اگر میں اس غزوہ کو پالوں تو اس میں تن من دھن لگا دوں، اور اگر شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل شہید کہلاؤں گا، اور اگر (غازی بن کر زندہ) لوٹ آؤں تو میں ابو ہریرہ محرر (آگ سے نجات یافتہ) ہوں گا۔
یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نہ صرف اپنی آرزوئے شہادت بیان کر رہے ہیں بلکہ آنے والوں کو ایک زبردست ترغیب بھی دے رہے ہیں کہ اگر غزوۂ ہند تمہیں نصیب ہو تو کوئی کسر مت چھوڑنا اور تن من دھن سب قربان کر دینا کہ اس میں نفع ہی نفع ہے۔ اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے۔
ہند اور سندھ سے کیا مراد ہے؟
ہند سے مراد برصغیر پاک و ہند کا علاقہ ہے ۔ مؤرخ اہل الحدیث ڈاکٹر محمد بہاؤ الدین رقم طراز ہیں:
" آریہ قوم نے جب سندھ کی وادی میں قدم رکھا تو اس کا نام سندھو رکھا کیونکہ سندھو ان کی زبان میں دریا کو کہتے تھے اور اسی دریائے سندھ کی مناسبت سے وہ پورے ملک کو سندھو ، پھر سندھ کہنے لگے ۔ پنجاب کی سرحد سے آگے بڑھ کر بھی نام میں کوئی تبدیلی نہیں ہو ئی (جب گنگا تک پہنچ کر رک گئے تو اس کا نام آریہ ورت رکھا مگر ہندوستان سے باہر اس نام سے شہرت حاصل نہیں ہوئی )۔
بتایا جاتا ہے کہ پرانی ایرانی اور سنسکرت میں "س" اور "ھ" آپس میں بدلا کرتے ہیں ، اس لیے اہل فارس نے جب برصغیر کے اس علاقہ پر قبضہ کیا تو اس دریا کو ہند کہہ کر پکارا اور اس سے اس علاقے کا نام بھی ہند پڑ گیا جس میں یہ دریا بہتا تھا ۔ یونانیوں نے اس کو قریب المخرج حرف ہمزہ سے تبدیل کرکے "اند" کر دیا ۔ رومن اور فرنچ میں "ہ" کا حرف "الف" ہو کر پہلے اند اور پھر اندیا ہو گیا اور اس کی مختلف صورتیں ہو کر تمام دنیا میں مشہور ہوگیا۔ انگریزی زبان میں چونکہ دال نہیں ہے اس لیے اندیا ، انڈیا بن گیا۔
عرب لوگ (جن کی زبان میں دریائے سندھ کا نام مہران ہے ) سندھ کے علاوہ اس برصغیر کے دوسرے علاقوں سے واقف تھے انہوں نے سندھ کو سندھ ہی کہا ، لیکن اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے شہروں پر مشتمل علاقہ کو ہند قرار دیا ۔ خیبر سے آنے والی قوموں نے اس کا نام ہندو استھان رکھا، جو فارسی تلفظ میں ہندوستان بولا جاتا ہے۔
سندھ کے حدود مختلف زمانوں میں مختلف رہے ۔ (عربوں سے پہلے ایک دور میں ) سندھ کی حدود سلطنت کے بارہ میں بتایا جاتا ہے کہ شمال میں دریائے جہلم کا منبع ، جس میں کشمیر کے نشیبی اضلاع شامل تھے ، اور کوہ کابل کا سلسلہ اسکی حد بندی کرتا تھا ۔ پھر شمال مغرب تک دریائے ہلمند پر جا کر وہ ختم ہوتا ہے اور جنوب مغرب میں ایران اور سندھ کی سرحد اس مقام پر تھی جہاں ساحل کے سامنے مکران کا جزیرہ منثور واقع ہے ۔ جنوب کی طرف بحر عرب اور جنوب مشرق میں خلیج کچھ ، مشرق میں راجپوتانہ اور جیسلمیر کی سرحدیں آکر ملتی تھیں ۔ الغرض اس وقت صوبہ سرحد ، پنجاب کا علاقہ ، افغانستان کا وہ علاقہ جو دریائے ہلمند تک ہے ، بلوچستان اور موجودہ سندھ (جودھ پور کی سرحد تک ) کا نام صوبہ سندھ تھا ۔
یعنی اس کے علاوہ بر صغیر کے باقی علاقہ کو اہل عرب ہند کہتے تھے ، اور اسی علاقہ سے جہاد کرنے والوں کے بارہ میں حدیث نبوی میں بشارت دی گئی ہے۔
چند اہم باتیں:
 جہاد دفاعی بھی ہے اور اقدامی بھی: یہ احادیث اس بات پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ غزوہ ہندوستان میں جہاد صرف دفاع تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس میں حملہ آوری اور پیش قدمی ہوگی اور دارالکفر کے اندر گھس کر کفار سے جنگ کی جائے گی۔ غزوہ اور بعث کے دنوں الفاظ اس باب میں صریح ہیں۔ غزوہ کا لغوی مفہوم 'اقدامی جنگ' ہے۔
جنگ دو طرح کی ہوتی ہے: اول دعوتی و تہذیبی جنگ یعنی غزوِ فکری؛ دوم: عسکری و فوجی جنگ، اور اسلام کی نظر میں دونوں طرح کی جنگ مطلوب ہے۔ یہ دونوں قسم کا جہاد پہلے بھی ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا، البتہ مذکورہ احادیث میں جس غزوہ اور جنگ کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے مراد عسکری اور فوجی جہاد ہے۔
 دشمنوں کی پہچان:
ان احادیث میں اسلام اور مسلمانوں کے دو بدترین دشمنوں کی پہچان کرائی گئی ہے: ایک بت پرست ہندو اور دوسرے کینہ پرور یہودی۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حضور ﷺ نے غزوہ ہند اور سندھ کا ذکر فرمایا اور ظاہر ہے کہ ایسا غزوہ صرف کفار کے خلاف ہی ہو سکتا ہے اور آج ہندوستان میں آباد کفار، بت پرست ہندو ہیں اور حدیث ثوبانؒ میں یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا عیسیٰ ابن مریم اور ان کے ساتھی دجال اور اس کے یہودی رفقا کے خلاف لڑیں گے۔ اس طرح گویا ایک طرف حدیث میں کفر اور اسلام دشمنی کی قدر مشترک کی بنا پر یہود و ہنود کو ایک قرار دے دیا گیا اور دوسری طرف مسلم اور مجاہد فی سبیل اللہ کی قدرِ مشترک کی وجہ سے مجاہدین ِہند اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو ایک ثابت کردیا گیا۔
سندھ کا وجود:
حدیث ِابوہریرہؓ اس بات کی دلیل ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں ایک ایسا خطہ ارضی دنیا میں موجود تھا جسے سندھ (تقریباً موجودہ پاکستان) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں روئے زمین پر ایک ایسا ملک بھی موجود تھا جسے 'ہند' کہا جاتا تھا۔
آخری بات:
آخری بات عرض کرکے اپنی معروضات کو تمام کرنا چاہوں گا کہ مسلمانو! غزوۂ ہند کے سرور میں سندھ سے غافل مت ہو جانا۔ کیونکہ معجم ابن الاعرابی میں پیش کی جانے والی حدیث ابو ہریرہ میں ہند کے ساتھ سندھ کا بھی ذکر ہے۔ غزوۂ ہند، غزوۂ سندھ کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ سمجھدار وہی ہے جو دشمنوں کے ارادوں اور خطروں کو پہلے سے بھانپ کر قدم اٹھائے۔
میرے ساڑھے پانچ  ہزار الفاظ کا یہ رسالہ پڑھنے کا بہت شکریہ

تبصرے

  1. https://noori11.blogspot.com/2019/08/blog-post31.html#more

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپکی یہ تحریر شاہکار ہے ، حیرت انگیز معلومات اور حدیث کے مفہوم کو بالکل ایک نئے رنگ سے دیکھا ۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع