سادات کرام، زیدی سادات اور سید مع الاضافت

سادات کرام :

أ‌.               میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا (زیدی سادات) :
سادات کرام میں سے بہت سے وہ بھی ہیں کہ وہ اپنے نام کے ساتھ واضح تشریحی نسبت تو کیا، سید لکھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ لوگ تعظیم میں مبالغہ کریں گے۔ لیکن جو لوگ اس کے اظہار میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے، وہ سادات کرام اپنے پاک اجداد (اماموں) سے اپنی نسبت کو ظاہر کرنے کیلئے ان کے نام کے آخری کلمے کے بعد یائے نسبت لگاتے ہیں۔ جیسے امام علی رضا سے جن کا نسب جڑتا ہے وہ ان کے نام کے آخری کلمے رضا کے بعد یائے نسبت لگاتے ہیں اور ان سے اپنی نسبت ظاہر کرنے کیلئے رضوی کے لفظ کا اضافہ اپنے نام کے ساتھ کرتے ہیں۔ سوائے امام زین العابدین کی اولاد کے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ زیدی کا لفظ بھی لگاتے ہیں اور عابدی کا لفظ بھی۔


ب‌.        إِنَّا آلُ مُحَمَّدٍ لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةُ :
صحیحین میں ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صدقہ کا خرما لے کر منہ میں رکھ لیا۔ اس پر حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: "چھی چھی" تاکہ وہ اُسے پھینک دیں، پھر فرمایا: کیا تمھیں نہیں معلوم کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔"
یاد رہے کہ ہاشمی فقیر کو صدقات واجبہ اور زکوٰۃ وغیرہ نہیں دے سکتے۔ یہ مال کا یا آدمیوں کا میل ہے۔ نور کی پرورش اس شئے سے نہیں کی جاتی جس میں کسی قسم کی ظلمت کی آمیزش ہو۔ نور، نور کو کھینچتا ہے اور نور ہی کی صحبت میں رہنا اسے پسند ہے۔
ت‌.        نوری زیدی سادات کا شجرہ:
بخش دے یا رب محمد مصطفی کے واسطے
اور ان سب، بندگانِ با صفا کے واسطے
۱۔ حضرت امام علی رضی اللہ عنہ
۲۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
۳۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ
۴۔ حضرت زید شہید رحمۃ اللہ علیہ
۵۔ سید حسین بن زید ذو الدمعه | ذی العبرة
۶۔ سید یحیی محدث
۷۔ سید عمرالاعلیٰ
۸۔ سید احمد محدث
۹۔ سید حسن ظفری
۱۰۔ سید علی زید
۱۱۔ سید عبداللہ ثانی
۱۲۔ سید ابو طاہر
۱۳۔ سید محمد طاہر
۱۴۔ سید عبداللہ
۱۵۔ سید ابوبکر
۱۶۔ سید عثمان
۱۷۔ سید کمال الدین ترمذی
۱۸۔ سید علیم الدین
۱۹۔ سید عبدالرحمن
۲۰۔ سید عبداللہ
۲۱۔سید عبد الوہاب
۲۲۔ سید نظام الدین
۲۳۔ سید نورالدین
۲۴۔ سید محمد شاہ
۲۵۔سید حرمت شاہ
۲۶۔ سید نذیر شاہ
۲۷۔ سید رحیم شاہ
۲۸۔ سید نصیر شاہ
۲۹۔ سید محمد ابراہیم شاہ
۳۰۔ سید مظہر علی
۳۱۔ سید عبد الحمید
۳۲۔ سید محمد حسین
۳۳۔ سید اصغر علی
۳۴۔ سید یعقوب شاہ
۳۵۔ سید حسین شاہ
۳۶۔ سید محمد شریف شاہ
۳۷۔ سید فتح علی شاہ
۳۸۔ سید غوث علی شاہ
۳۹۔ سید بہادر علی شاہ
۴۰۔ سید نور الدین شاہ
۴۱۔ سید حبیب شاہ
۴۲۔ سید صابر شاہ
۴۳۔ سید عابد شاہ (چھوٹے شاہ یا چھٹن شاہ)
۴۴۔ سید اللہ نور (رحمۃ اللہ علیہ)
سادات کرام کے یہ مبارک اور مقدس نام پڑھ کر بس نعت شریف کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
تیری معراج کہ تو رب حرم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
نوٹ : اس سنہری لڑی میں سب سے آخر میں جو نام آیا ہے وہ میرے والد محترم (رحمت اللہ علیہ) کا نام ہے۔
ث‌.        ٹھیٹ سویلین :
صوبہ راجستھان، ریاست میوات، ضلع الور کے اجمیر شریف کے قریب ایک گاؤں رسول پور سے ہمارا تعلق ہے۔ رسول پور اس کا نام اسی لئے رسول پور ہوا تھا کہ وہاں ہمارے زیدی سادات نے قیام کرنا پسند فرمایا تھا۔ پھر شاہ فیصل ٹاؤن (سابقہ ڈرگ کالونی) میں سادات کالونی کو اسی لئے یہ نام دیا گیا کہ ہجرت کے بعد ہمارے اکثر سادات اسی جگہ آکر آباد ہوئے تھے۔
سادات کرام کیلئے شجرہ کا پاس ہونا بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن تقسیم کے بعد سب کچھ تو ادھر ہی رہ گیا تھا، وہاں سے لاتا کون؟ ہم ٹھہرے سویلین اور اتنے ٹھیٹ قسم کے سویلین کہ اگر کبھی غلطی سے بھی اپنے آبائی محلے میں قدم رنجہ فرمائیں تو انڈیا والے، اور واپس آ جائیں تو پاکستان والے ہمارا ناطقہ بند کردیں۔ بھلا ہو میرے دادا مرحوم کی واحد نشانی میرے چچا جان کا کہ انہوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا، اور انڈیا جا کر وہاں موجود اس کام کے ماہر جگّوں سے رابطہ کیا۔ وہاں ہمارا سارا شجرہ پہلے سے ہی موجود تھا۔ میرے چچا جان نے اس نعمت پر ایک کتاب بھی تحریر فرمائی ہے، لیکن ابھی تک مجھے اس کے مطالعے کا شرف حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی مجھے یہ سعادت بھی ملے گی۔ اس کتاب میں انہوں نے اس سلسلۂ نوری زیدی سادات کے بزرگوں کی کئی کرامات بیان کی ہیں اور شکی مزاج راجہ کے اعتراض پر ایک نوری سید زادے کے ہاتھوں سے آگ اور انگارے اٹھانے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
یہ شجرہ مجھے حال ہی میں ملا ہے، کوئی ایک مہینہ پہلے۔ اس لئے شیئر کردیا کہ جو برادر وہاں جا نہ سکے، وہ اس شجرے سے فائدہ اٹھا لے۔ یہ خاکسار اب کوئی پیر مہر علی شاہ گولڑوی جیسا کراماتی بندہ تو ہے نہیں جو ٹوپی کے نیچے اپنا شجرہ رکھ دے اور معاندین کو چیلنج کردے کہ جس میں طاقت ہے وہ اٹھا کر دیکھ لے۔ ہم نے تو چپ چاپ خود ہی اپنی ٹوپی کے اوپر ہی رکھ دیا ہے شجرہ، جو دیکھنا چاہے، دیکھ لے۔
ج‌.           ابا جان (رحمت اللہ علیہ):
اس سنہری سلسلے میں سترہویں اور اٹھارویں نمبر پر جو دو مبارک نام آئے ہیں، یہ مشہور ولی اللہ ہوئے ہیں اپنے دور کے۔ اور غیر مشہور ولایت تو اس گھر کی لونڈی رہی ہے۔ حضرت ظفر صاحب میرے پیر و مرشد فرماتے تھے کہ آپ کے والد محترم خاموش ولی (غیر مشہور ولی) ہیں۔ ہاں ٹھیک ہی تو فرمایا تھا آپ نے۔ جسے ولایت ملے، اسے شہرت کی کیا پرواہ؟ خود میں نے سن 2000ء میں جانا کہ ابا جی میں ساری باتیں ولیوں والی ہیں، امی ولی ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر غالباً 2004 میں حضرت صاحب نے بھی ایسا ہی کچھ فرمایا۔
ابا جی نے اپنے وصال سے چار پانچ مہینوں قبل ہی ارشاد فرما دیا تھا کہ بیٹا مجھے جمعہ ملے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ صبح 11 بجے آپ نے داعی اجل کی آواز پر لبیک کہا۔ آپ کے وصال سے ایک دن پہلے (جمعرات) کو مجھے آپ پر دم کرنے کا موقع ملا تھا۔ میں نے صرف درود تاج پڑھ کر دم کیا اور اپنے لئے آپ سے دعا کی درخواست کی۔ فاروق بھائی میرے ہمراہ تھے۔ دم کے دوران والد صاحب کا سامنا تو میں نے کرلیا تھا، لیکن والدہ سے خشک آنکھیں نہ ملا سکا اور دو آنسو لڑھکا کر خاموشی میں اشارے سے اجازت طلب کی۔
ابا جان نے ساری عمر ڈاکٹروں کے پاس جانے سے مکمل پرہیز کیا۔ تاہم پیروں کے حق میں تھے لیکن فرماتے تھے کوئی پیر ایسا کامل نہیں ملا جس کی بیعت کر کے خوشی محسوس ہو۔ بلاشبہ آپ ٹھیک ہی فرمایا کرتے تھے، اس دور کی پیری مریدی بس نام کی رہ گئی ہے۔ لیکن جس بیمار کا عیسیٰ آسمان پر چلا جائے، وہ غریب جڑی بوٹیوں کا سہارا نہ لے تو اور کیا کرے۔  پھر نوے کی دہائی میں اعظم صاحب کی وساطت سے مجھے حضرت میاں مظہر احسان ڈاہر رحمت اللہ علیہ کی بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔   چند سال آپ کی صحبت ملی تو دل کا رنگ بدل گیا۔ والد نے مجھے ملاحظہ کیا تو فرمایا کہ بیٹا، تیرا پیر واقعی پیر ہے۔ وہ  اگر کراچی آیا تو میں اس کی بیعت ضرور کر لوں گا۔  لیکن بڑے حضرت صاحب کا پھر کبھی  کراچی آنا نہ ہوسکا۔ ابّاجی فرماتے تھے کہ میں بڑے پیر کا مرید ہوں۔ آپ کا اشارہ غوث پاک کے اس قول کی طرف تھا جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو اپنے آپ کو میرا مرید جانے وہ میرا ہی مرید ہے۔
ح‌.           سید و سردار دو عالم :
سید (سردار) کے لفظ کے اصل حقدار تو آقائے دو عالم ہیں کہ آپ سید العرب والعجم ہیں، سید البشر ہیں، سید ولد آدم ہیں، سید المرسلین ہیں، سید المعصومین ہیں، سید المبلغین ہیں، سید المجاہدین ہیں، سیادت کا لفظ تو صرف آپ ہی کی ذات پر سجتا اور صادق آتا ہے۔ لیکن جب کسی نے آپ کو کسی نے سید قریش کہہ کر پکارا تو آپ نے اظہار عاجزی کرتے ہوئے فرمایا کہ (اصلی) سید تو اللہ ہے۔
الأحاديث المختارة (9/ 466)
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتَ سَيِّدُ قُرَيْش فَقَالَ النَّبِي لله السَّيِّدُ اللَّهُ
لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ نے مختلف مواقع پر اپنا سید و سردار ہونا خود بیان فرمایا ہے۔ وہ احادیث تو کسی اور وقت بیان کروں گا، ابھی دیگر سیدوں کا تذکرہ کرتا چلوں جنہیں احادیث میں سرکار دو عالم یا صحابۂ کرام یا صالحین امت نے سید فرمایا۔ ان کی تعداد بہت ہے، صرف چند کا تذکرہ کرتا ہوں۔ لیکن پہلے سید مطلق اور سید اضافتی کا فرق واضح ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے۔
خ‌.           سید مطلق:
حضرت  یحیی  علیہ السلام کو قرآن پاک میں اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ  کو حدیث پاک میں مطلق سید کہا گیا ہے بنا کسی اضافت کے۔ یہ آپ کے کمال سیادت کی دلیل ہے۔
أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّٰلِحِينَ (القرآن۔ آل عمران 39)
ترجمہ:  بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔
اور امام حسن رضی اللہ عنہ کیلئے حدیث پاک میں فرمایا کہ
إِنَّ هَذَا رَيْحَانَتِي وَإِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَعَسَى اللهُ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (الحدیث۔ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء)
ترجمہ: بے شک یہ میری خوشبو ہے، اور میرا یہ بیٹا سید ہے۔ قریب ہے کہ اللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح فرمائے گا۔
بیشک سید زادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تو خوشبو رکھتا ہے۔
سید ۔۔۔۔۔ حضرت یحیی علیہ السلام کا قرآنی لقب اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا لقب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے۔
د‌.                سید مع الاضافت:
مطلق سید تو حضرت یحیی علیہ السلام اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو ہی فرمایا گیا ہے۔ لیکن اضافت کے ساتھ سید تو بے شمار لوگوں کو کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الْبَابِ
ترجمہ: اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے اس کا کر ُتا پیچھے سے چیر لیا اور دونوں کو عورت کا میاں دروازے کے پاس ملا۔(القرآن۔ یوسف 25)
یہاں سَيِّدَهَا سے مراد  "اس کا سید" یعنی اس کا شوہر عزیز مصر ہے۔ اس آیت میں سید کی اضافت بی بی زلیخا کی طرف کی گئی ہے۔  حدیث پاک میں اضافت کے ساتھ بے شمار لوگوں کو سید فرمایا گیا ہے، بلکہ نہ صرف لوگوں کو بلکہ اشیاء اور زمان و مکان کیلئے بھی اضافتی سید کا لفظ ارشاد فرمایا ہے، جیسے جمعہ ایام (دنوں) کا سید ہے وغیرہ۔ ایسے افراد و اشیاء کی ایک بہت مختصر سی فہرست ذیل میں دی جا رہی ہے:
1- سَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ ۔۔۔۔۔ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ
2- سَيِّدُ الْمُؤَذِّنِينَ ۔۔۔۔۔ حضرت بلال
3- سَيِّدَ الْعَرَبِ ۔۔۔۔۔ حضرت علی
4- سَيِّدُ الْأَيَّامِ ۔۔۔۔۔ جمعہ کا دن
سَيِّدُ الْعَمَل ۔۔۔۔۔ الْوَرَعُ یعنی تقوی
6- سَيِّدُ الْقَوْمِ ۔۔۔۔۔ قوم کی خدمت کرنے والا (آخرت میں خادم المسلمین کا لقب)
  سَيِّدُ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔ فقہ کا علم
سَيِّدُ الشُّهُورِ ۔۔۔۔۔ شہر رمضان
سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ۔۔۔۔۔ ابوبکر و عمر
10۔ سَيِّدُ طَعَامِ ۔۔۔۔۔ گوشت (دنیا و آخرت دونوں میں)
11۔ سید الآیات ۔۔۔۔۔ آیت الکرسی (اسے اعظم الآیات بھی کہا گیا ہے)۔

12۔ سيد الأعمال ۔۔۔۔۔ عقل (دنیا و آخرت میں)
13۔ َسَيِّدُ الْأَنْصَار ۔۔۔۔۔ سَعْدُ بْنُ عِبَادَةَ
14۔ سَيِّدُ بَنِي تَمِيمٍ ۔۔۔۔۔ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ
15۔ َسَيِّدُ الشَّرَاب ۔۔۔۔۔ الْمَاءُ (پانی)
16۔ َسَيِّدُ الرَّيَاحِين ۔۔۔۔۔ الْفَاغِيَةُ (يَعْنِي الْحِنَّاء)
17۔ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةَ ۔۔۔۔۔ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالَةَ
18۔ سَيِّدُ إِدَامِ ۔۔۔۔۔ الْمِلْحُ (نمک)
19۔ سَيِّدَ الْفُقَهَاءِ ۔۔۔۔۔ مُحَمَّدَ بْنِ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيِّ (امام شافعی)
20۔ سَيِّدُ الْأَبْرَارِ ۔۔۔۔۔۔ حضرت علی
21۔  سَيِّدُ الْعُبَّادِ ۔۔۔۔۔ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ الْقَرَنِيُّ (حضرت اویس قرنی)
22۔ سَيِّدُ فَتَيَانِ الْجَنَّةِ ۔۔۔۔۔ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

23۔ سَيِّدُ الْمُحَدِّثِين ۔۔۔۔۔ شُعْبَةَ
24۔ سيِّدَ بني عَجْلان ۔۔۔۔۔ عَاصِمِ بْنِ عَدِىٍّ الأَنْصَارِىِّ
25۔ سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ ۔۔۔۔۔ حضرت بلال (بحوالہ مسند بزاز)
26۔ سَيِّدُ السَّمَوَاتِ ۔۔۔۔۔ السَّمَاءُ الَّتِي فِيهَا الْعَرْشُ (جس آسمان میں عرش ہے)
27۔ سَيِّدُ الْأَرَضِينَ ۔۔۔۔۔ الَّتِي نَحْنُ عَلَيْهَا (ہماری زمین)
28۔ سَيِّدُ الشَّجَرِ۔۔۔۔۔ الْعَوْسَجُ (عصائے موسی اسی کی لکڑی سے تھا، شاید یہ جنت میں ہے۔ راقم)
29۔ سَيِّدُ رَيْحَانُ الْجَنَّةِ ۔۔۔۔۔۔ الْحِنَّاءُ
30۔ سَيِّدِ الصُّوَر۔۔۔۔۔ صورت ابْنُ آدَمَ
31۔ سَيِّدِ السِّبَاعِ ۔۔۔۔۔ الْأَسَدُ (شیر)
32۔ سَيِّدِ الْأَنْعَامِ ۔۔۔۔۔ الثَّوْرُ (بیل)
33۔ سَيِّدِ الطَّيْرِ ۔۔۔۔۔ النَّسْرُ (عقاب)

34۔ سَيِّدُ أَهْلِ الْوَبَرِ۔۔۔۔۔ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ الْمِنْقَرِيِّ
35۔ سَيِّدُ الْقَارَةِ ۔۔۔۔۔ ابْنُ الدَّغِنَةِ
36۔ سَيِّدُ الحُفَّاظِ الأَثْبَاتِ ۔۔۔۔۔  أَبُو هُرَيْرَةَ الدَّوْسِيُّ، اليَمَانِيُّ
37۔ سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ ۔۔۔۔۔ حَمْزَةُ بن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ
38۔ سيد البشر ۔۔۔۔۔ خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم
39۔ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ۔۔۔۔۔ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
40۔ سَيِّدَةُ النِّسَاءِ ۔۔۔۔۔ خَدِيجَةُ، وَفَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما
41۔ سَيِّدُ الِاسْتِغْفَارِ ۔۔۔۔۔۔ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ والا استغفار
42۔ سَيِّدَ قُرَيْشٍ ۔۔۔۔۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ
43۔ سيد القراء ۔۔۔۔۔  أُبي بن كعب كنيته أبو المنذر، وأبو الطفيل
44۔ سيد التابعين ۔۔۔۔۔ أويس القرني

45۔ سَيِّدٌ فِي الدُّنْيَا ۔۔۔۔۔ حضرت علی
46۔ سَيِّدٌ فِي الْآخِرَةِ ۔۔۔۔۔ حضرت علی
ذ‌.                منافق کو سید نہ کہو :
یہ بھی یاد رہے کہ اہل بیت پاک کی طرف منسوب نہ ہوگا مگر پاکیزہ خصال۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منافق کو سید نہ کہو۔ اگرچہ یہ سید کے عام معنی (یعنی قوم کا سردار یا اپنا سردار) میں ہے۔ لیکن بہتر ہے کہ پاکیزہ خصال لوگوں کو ہی اس طرح سے پکارا جائے۔
ر‌.               ابراہیم و اسماعیل و اسحاق (علیہم السلام) :
کیوں یاد رکھا جائے اپنے بڑوں کو؟ اس دور میں کون یاد رکھتا ہے؟ کس کے پاس اتنا وقت ہے جو نسلوں سے واقف رہ سکے۔  ہاں، آسانی تو اسی میں ہے کہ انہیں بھول جایا جائے، اپنی دنیا میں گم رہا جائے۔ لیکن کیا کریں، یہ ہمارے اجداد اور ہمارے اسلاف کی سنت نہیں۔ 
کیا سورۂ بقرہ کی آیت 133 کا سبق بھول گئے؟ جس میں فرمایا گیا کہ
أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ ءَابَائِكَ إِبْرَٰهِمَ وَإِسْمَٰعِيلَ وَإِسْحَٰقَ إِلَٰهًا وَٰحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
یعنی  بلکہ تم میں کے خود موجود تھے جب یعقوب ؑ کو موت آئی جبکہ اس نے اپنے بیٹوں سے فرمایا میرے بعد کس کی پوجا کرو گے بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا ہے آپ کا اور آپ کے آباء ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ و اسحاقؑ کا ایک خدا اور ہم اس کے حضور گردن رکھے ہیں۔
ان مقدس لوگوں کو یاد رکھنا دنیا نہیں، دین ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے بڑے ہیں جنہوں نے ہمیں توحید کے سبق سے آشنا کیا ہے۔
ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے
صرف اللہ  ان سے بڑا ہے
میرے ڈھائی ہزار سے زائد  الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ

تبصرے

  1. سیسید محمد ظفر اقبال زیدی الترمذی نہٹوری18 اکتوبر، 2023 کو 8:39 AM

    اسلام علیکم، آپ کی تشریح مکمل طور پر درست نہیں البتہ جزوی طور پر درست ہے۔ اس معامل مین مزید تحقیق کیجیئے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے لیکن اسے مذید بہتر بنایئے۔ سید محمد ظفر اقبال زیدی الترمذی نہٹوری

    جواب دیںحذف کریں
  3. اس تبصرہ میں ایڈٹ کرنے کی آپشن بھی رکھیئے۔ میں تبصرہ آیڈٹ نہیں کر سکا

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع