Roohani Catalyst

عمل انگیز (Catalyst)
ایسی شے (یا اشیاء ) جو کسی کیمیائی تعامل کی شرح میں اضافہ پیدا کردے (یعنی کیمیائی عمل واقع ہونے کی رفتار میں اضافہ کرنے کا باعث بنے)مگر تعامل کے اختتام تک خود تبدیل نہ ہو، عمل انگیز یا کیٹالسٹ کہلاتی ہے۔
یعنی کیمیا یا کیمسٹری کی دنیا میں یہ ایک ایسا مادہ ہے جو کسی بھی کیمیائی عمل کو تیزی سے مکمل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے لیکن خود اس کیمیائی عمل میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ عمل ختم ہونے کے بعد پہلی حالت ہی میں باہر نکال لیا جاتا ہے۔
یعنی اصل عمل اس کے بغیر بھی مکمل ہوجائے گا لیکن اس کی رفتار نسبتاً آہستہ ہوگی۔ انگریزی لغت میں اس سے مرادایسا انسان یا شے ہے جو کسی بھی عمل یا ایونٹ میں تیزی کا باعث بنتا ہے۔ ورڈ ویب میں اس کے ایک اور معنی بھی درج ہیں
Something that causes an important event to happen.
کوئی بھی شئے جو کسی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بنے۔

عمل انگیز صرف کیمیا میں ہی نہیں، ہر شعبۂ زندگی میں ہوتے ہیں۔ جیسے طبیعیاتی عمل انگیز، حیاتیاتی عمل انگیز، حتی کہ عام گھریلو کاموں میں بھی عمل انگیز ہوتے ہیں اور سمجھدار لوگ ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے نمک، پپیتا اور پریشر ککر اور تیز آنچ کا استعمال گوشت کو جلد گلا دینے میں عمل انگیز کا کام دیتے ہیں۔ یا جیسے والدین کی توجہ اور اساتذہ کرام کی ڈانٹ بچوں کے ہوم ورک کیلئے اکثر عمل انگیز کا کام کرتی ہے۔ اسی طرح اس کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔
فرض و واجب اعمال:
بہت سے لوگوں نے فرائض و واجبات کو اصل اعمال اور مستحب اعمال کو عمل انگیز کے درجے میں رکھا ہے۔ جیسے نماز روزہ عمل ہے اور نفلی روزے یا نفلی جہاد عمل انگیز۔ میں ان سے پوری طرح متفق نہیں۔ بیشک نوافل فرائض و واجبات کیلئے راہ ہموار کرتے ہیں لیکن یہ اصلی اعمال سے جدا اعمال ہیں۔ عمل انگیز کی شرط ہے کہ وہ عمل کے دوران موجود ہو۔ جو عمل کے دوران موجود نہ ہو، وہ عمل انگیز کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو خود ایک عمل ہے جسے خود بھی عمل انگیز کی ضرورت پڑے گی۔
روحانی اعمال کے عمل انگیز:
فرائض و واجبات سے قطع نظر کہ ان کے عمل انگیز علمائے کرام نے واضح بیان فرما دئیے ہیں، ہم یہاں روحانی اعمال کی رفتار اور قوت بڑھانے کیلئے چند عمل انگیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو اعمال روحانی کی رفتار اور ان کی قوت میں اضافے کیلئے بہت اہم ہیں۔
آپ نے اکثر لوگوں کا شکوہ سنا ہوگا کہ میں نے اتنا کچھ پڑھا لیکن سب کچھ کرنے کے باوجود نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، یہ اعمال بے فائدہ ہیں اور ان سے کچھ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔
 ایسا نہیں ہے میرے بھائی، یہ اعمال ہمارے بزرگوں نے سخت محنت اور تلاش بسیار کے بعد حاصل کئے ہیں اور اس کے بعد نہایت آسان کرکے ہم تک پہنچایا ہے۔ صرف ایک اوراد فتحیہ کو دیکھ لیں، اسے حضرت سید امیر کبیر علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ نے چار سو بزرگوں سے حاصل کیا ہے اور اس کے بعد انہیں کمال و خوبی سے جمع فرما کر ہم تک پہنچایا ہے۔ کیا چار سو اولیائے کاملین کا بتایا ہوا طریقہ بھی بے اثر ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں تو شاید کسی اور سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ بے توجہی، لا پرواہی، لالچ اور لوث کے ساتھ کئے جانے والے اعمال کا نتیجہ کیسے برآمد ہو سکتا ہے۔ ہمیں تو کثیر عمل انگیز کی ضرورت تھی لیکن ہم نے ضد عمل انگیز ڈال کر اپنے اعمال کو خود ہی برباد کیا ہے تو اس میں کسی دوسرے کا کیا دوش؟
جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامۂ اعمال دیکھ
ظاہری اور باطنی حواس:
حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛
یار یگانہ ملسی تینوں، جے سر دی بازی لائیں ھو
عشق اللہ وچ ہو مستانہ، ھو ھو سدا الائیں ھو
نال تصوّر اسم اللہ دے، دم نوں قید لگائیں ھو
ذاتے نال جاں ذاتی رلیا، تد باھو نام سدائیں ھو
یعنی تجھے یار بھی ایسا ہی حسین اور خوبصورت ملے گا، پہلے اس کیلئے سر کی بازی تو لگا۔ جو سر کی بازی لگانے سے ڈرے گا اسے اس کا محبوب (مقصود) کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ کامیابی کیلئے سچی لگن اور جوش اور جنون درکار ہوتا ہے۔ اوپری دل سے کئے جانے والے اعمال کس طرح رنگ لا سکتے ہیں؟
اللہ پاک نے انسان کو بہترین حواس عطا فرمائے ہیں۔ عام طور سے یہی کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد پانچ ہے۔ چلئے یہی سمجھ لیں کہ پانچ طاہری اور پانچ ہی باطنی حواس ہیں۔ جب بھی کوئی عمل کریں، اپنے ان دس کے دس حواسوں کے ساتھ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ صرف زبان ہی عمل کر رہی ہو اور باقی حواس آوارہ گردی میں مصروف ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو آپ کو وہی ملے گا جو کسی آوارہ گرد کو ملا کرتا ہے۔
ایک مولوی اور مجذوب کا قصہ:
میرے والد محترم حضرت اللہ نور رحمۃ اللہ علیہ اکثر ایک مجذوب ولی کا قصہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی صاحب اکثر اس مجذوب ولی سے کہتے کہ تو تو ایک ڈھکوسلا ہے۔ نماز پڑھا کر۔ مجذوب انہیں ہنس کر ٹال دیتا۔ ایک دن مولوی صاحب بضد ہوئے کہ آج تو نماز پڑھوا کر ہی چھوڑوں گا۔ مجذوب نے جب کوئی راہ نہ پائی تو وضو کرکے مولوی صاحب کے پیچھے کھڑے ہو کر ان کی اقتداء میں نماز شروع کردی۔
جب نماز اور دعاؤں سے فارغ ہوئے اور لوگ وغیرہ بھی کم رہ گئے تو مجذوب نے مولوی صاحب سے عرض کی کہ مولوی صاحب، آج تو آپ نے بندے کو تھکا مارا۔ مولوی صاحب اپنے کارنامے پر بہت خوش تھے کہ آج تو اسے بھی نماز میں کھڑا کر ہی دیا۔ انہوں نے جب سنا تو قدرے فخر سے بولے، میاں، کیا چار رکعت میں ہی تھک گئے، ساری زندگی پڑھنا ہوتی ہے نماز۔ مجذوب فرمانے لگے کہ چار رکعتوں میں آپ کے سفر نے تھکا دیا۔ مولوی صاحب حیران ہو کر کہنے لگے کہ کیسا سفر؟ مجذوب نے فرمایا کہ مولوی صاحب، آپ نے نیت باندھی تو میں نے بھی کہا کہ پیچھے اس امام کے، اللہ اکبر۔ لیکن آپ نے نیت باندھ کر گھر کا رخ کیا، وہاں سے اپنی بکری کھول کر صحن سے باہر لا کر باندھی، پھر دیکھا تو چارہ موجود نہ تھا، آپ نے سائیکل اٹھائی اور بکری کیلئے چارہ لانے کیلئے سوار ہوئے۔ آپ تو سیکل پر سوار تھے اور بندہ پیدل پیدل ہی آپ کی اقتداء کرتا رہا۔ آپ دور ایک چارے کی دوکان پر گئے، چارہ لیا اور واپس ہوئے۔ گھر پہنچ کر بکری کو چارہ ڈالا اور سیکل کھڑی کرکے پھر مسجد روانہ ہوئے۔ اور میں امام کے پیچھے پیچھے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اتنا سفر کرکے بندہ تھکے گا نہیں تو اور کیا ہوگا؟ مولوی صاحب یہ سن کر سخت شرمندہ ہوئے اور اس کے بعد ان پر اس مجذوب کا حال کھلا کہ یہ صاحب تو اولیائے کاملین سے ہیں۔
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
اس واقعے سے معاذ اللہ مولوی حضرات یا نماز کی توہین ہرگز مراد نہیں، صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ عمل برباد کیسے ہوتا ہے۔ جب ضد عمل انگیز، عمل کے دوران موجود ہو تو اس کا کامل نفع کیسے ممکن ہے؟
روحانی اعمال اور عمل انگیز:
روحانی اعمال اور وظائف کی روحانیت، نورانیت اور نفع اور طاقت بڑھانا ممکن ہے اگر آپ اپنے عمل میں عمل انگیز شامل کرلیں۔ فقہی اعمال کیلئے عمل انگیز علمائے کرام بیان کرتے ہی رہتے ہیں، لیکن آج ہم ان چند آسان عمل انگیزوں کا بیان کریں گے جو آپ کے عمل میں چار چاند لگا دیں گے اور آپ کسی بھی عمل کا کامل نفع جلد حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسے عمل انگیز ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں تاکہ آپ کو جب ضرورت محسوس ہو، انہیں پڑھ کر اپنے عمل کو چیک کر لیں۔
1.   اخلاص اور حسن نیت:
کوئی بھی عمل ہو اگر اسے اخلاص اور بہترین نیت پر نہ کیا جائے تو عمل کا فائدہ کیسے ممکن ہے؟ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے عمل کرنے والے، اخلاص پیدا کر لے ورنہ فضول مشقت ہے۔
2.   عمل کے الفاظ سے واقفیت:
اکثر اعمال اور وظائف عربی زبان میں ہوتے ہیں جیسے کہ نماز و قرآنی وظیفے۔ اگر عربی زبان سے واقفیت نہ ہو کم از کم عمل کا ترجمہ یا مفہوم عامل کے اندر ضرور موجود ہو۔ تاکہ وہ جو کہہ رہا ہے اسے دل و دماغ سے سمجھتا بھی ہو۔
3.   صحیح تلفظ کی ادائیگی:
اکثر بلکہ ہمیشہ ہی عمل سے بہت سے فرشتے اور مؤکّلات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ہر عمل، بلکہ ہر کلمے، بلکہ ہر حرف کا ایک نوری مؤکّل اور ایک لطیف روحانیت ہوتی ہے۔ یہ روحانیت عمل کرنے والے کے اطراف رہتی ہے اور اس کی مدد کرتی رہتی ہے۔ اگر تلفظ ہی درست نہ ہو تو عمل سے پیدا ہونے والی روحانیت بھی کما حقہ اس کی مدد پر کمر بستہ نہ ہوگی اور عمل میں جان باقی نہ رہے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ عمل درست تلفظ کے ساتھ کیا جائے۔
کہتے ہیں کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا عربی تلفظ درست نہ تھا۔ آپ کی زبان سے ش کا حرف س بن کر نکلتا تھا۔ تاہم آپ کو مؤذن رسول اور مؤذنوں کے سردار کا خطاب حاصل ہے۔ شین کے مختلف تلفظ کے باوجود آپ کا عمل اللہ کو بہت محبوب تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں آپ کے قدموں کی آہٹ اپنے سے آگے محسوس کی۔ اگرچہ آپ کے عمل میں ایک چیز اتنے عروج پر نہیں تھی لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عشق اتنے عروج پر تھا کہ آپ کی دوسری چیزوں کی کمی کو نہ صرف پورا کرتا تھا بلکہ آپ کو حضرت عمر فاروق کا سردار بنائے ہوئے تھا کہ آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ سیدنا بلال!
کامل تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ حضرت بلال کے تلفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر امتی اپنے عمل میں اگر کسی ایک چیز کو پورا کرنے سے قاصر ہے تو محبت، عشق اور اخلاص سے اسے بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔ تاہم جو دونوں کو جمع کرسکے تو یہ اس کی خوش نصیبی نہیں تو اور کیا ہے۔
خوبصورت آواز بھی اللہ کا ایک حسین تحفہ ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ یعنی اور (اللہ اپنی) تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے۔ آیت مبارکہ کے اس حصے کی ایک تفسیر خوبصورت آواز اور عمدہ قراءت بھی ہے۔
بہترین تلفظ کی ادائیگی عمل کیلئے ایک بہترین عمل انگیز ہے۔
4.   عمل کا دوام اور ہمیشگی:
ایک بار عمل سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ اوراد و وظائف کو بار بار کیا جاتا ہے تب کہیں جا کر بندہ اس کی لطافت، نورانیت اور روحانیت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ حدیث پاک میں بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ کو دائمی عمل پسند ہے، چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
ایک دن حد سے زیادہ عمل کر لینا اور باقی دنوں میں بالکل ناغہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسے ایک دن تو پانسو واٹ کی روشنی میں رہے اور باقی ایام بلیک آؤٹ رہا۔ بلیک آؤٹ سے گرین آؤٹ بہت بہتر ہے۔ یہ دونوں جنگی اصطلاحیں ہیں۔ دھیمی دھیمی روشنی کا موجود رہنا گرین آؤٹ کہلاتا ہے۔ اس روشنی میں بندہ اپنے سارے کام کرسکتا ہے جبکہ بلیک آؤٹ میں کچھ نہیں ہو سکتا۔
5.   ٹائم اور اسپیس:
عمل کیلئے ایک جگہ اور ایک وقت کا ہونا بھی بہت بہترین ہے۔ اس سے عمل میں بے پناہ طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی لئے مسجد البیت کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے۔ یعنی گھر میں ایک جگہ مخصوص ہو جہاں آپ یا آپ کے سب گھر والے اللہ کا ذکر کر سکیں۔ اس سے نہ صرف آپ کو نفع ہوتا ہے بلکہ وہ جگہ بھی نورانی ہو جاتی ہے۔ حضرت امام علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد میں روزانہ سوا لاکھ مرتبہ درود شریف کا ختم ہوتا تھا۔ اہل نظر بتاتے ہیں کہ اس مسجد کے درو دیوار سے وہ نورانیت پھوٹتی تھی کہ کسی کے قلب سے بھی کیا پھوٹے گی۔ حضرت مظہر صاحب نے اپنے مکان شریف میں ایک حجرہ مخصوص فرمایا تھا اور سب کو حکم تھا کہ جو اس حجرے شریف میں داخل ہو وہ محبوب خدا پر درود بھیجے۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ عالم تھا کہ جو اس حجرے میں داخل ہو کر سو جاتا تھا، اسے اللہ کے محبوب کی زیارت ہو جاتی تھی۔ یہ ہیں برکتیں اللہ کے ذکر کیلئے جگہ مخصوص کرنے کی۔
اسی طرح جس سے ہو سکے وہ اپنے عمل اور اوراد و وظائف کو روزانہ ایک ہی وقت پر ادا کرے تو یہ عمل کو بہت طاقتور کر دیتا ہے۔ آپ نے اکثر ملاحظہ کیا ہوگا کہ صوفیائے کرام جب کسی کو عمل بتاتے ہیں تو اکثر فرماتے ہیں کہ یہ عمل فجر کی نماز کے بعد کریں، یہ عشاء کے بعد وغیرہ وغیرہ۔ نمازوں کے بعد کسی عمل کا کہنا دراصل کئی حکمتیں اپنے اندر رکھتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کو روزانہ ایک ہی وقت پر عمل کی عادت ہو جاتی ہے اور عمل کا نفع کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ روزانہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت پر ایک ہی عمل، یہ تین چیزیں عمل کی رفتار کو تین ہزار گنا بڑھا دیتی ہیں۔ اور رب تعالی کی طرف سے روحانیت اور نورانیت جلدی کرکے بندے تک پہنچتی ہے۔
مچھلیاں اور روحانیت:
دریا میں آٹے کی گولیاں بنا کر ڈالنا ایک عمل ہے۔ لیکن جب آپ پہلی بار یہ عمل کریں گے تو شاید ہی کوئی مچھلی آپ کے آٹے کی گولیوں کی طرف آئے۔ لیکن اگر آپ یہ کریں کہ دریا میں ایک مخصوص جگہ چن لیں اور روزانہ بلا ناغہ ایک ہی وقت (جیسے ظہر کے بعد) ایک ہی جیسی خوراک لے کر جائیں اور دریا میں ڈالنا شروع کردیں۔ کچھ ہی دن میں آپ دیکھیں گے کہ اکا دکا مجھیلیاں وہاں آنے لگی ہیں۔ اگر آپ تواتر کے ساتھ اس عمل کو جاری رکھیں تو چند ہفتوں میں آپ دیکھیں گے کہ مچھلیاں کثیر تعداد میں وہاں آنے لگی ہیں۔ اور چند مہینوں کے بعد یہ ہوگا کہ آپ کے دریا میں پہنچنے سے پہلے ہی مچھلیاں وہاں کثیر تعداد میں موجود ہوں گی۔ اگر آپ اسے کئی مہینوں تک سر انجام دیتے رہیں تو بہت ساری مچھلیاں وہاں سارا دن منڈلاتی رہیں گی۔
دریا میں آٹے کی گولیاں بنا کر ڈالنا آپ کے عمل کی مثال ہے، ایک دریا، ایک جگہ اور ایک وقت اس کے عمل انگیز ہیں اور مچھلیاں روحانیت کی مثال ہیں۔
جن دنوں میں جامع المطلوب کا وظیفہ میں اپنے بستر پر رات کو سونے سے پہلے صرف گیارہ بار پڑھتا تھا ان دنوں میں نے مشاہدہ کیا کہ چند ہی دن بعد مجھ پر لطافت غالب آگئی۔ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا پاتا تھا۔ چند دن کے بعد وزن گویا کہ بالکل ہی غائب ہوگیا۔ سڑک پر چلتے وقت ہوا چلتی تو ایسا لگتا کہ اس کے ساتھ ہی اڑ جاؤں گا۔ ابھی اکتالیس دن پورے بھی نہ ہوئے تھے کہ میں اپنے سارے کمرے کو نور سے بھرا ہوا پاتا تھا۔ پھر یہ ہونے لگا کہ اس نور میں چاروں طرف چھوٹی بڑی مچھلیوں کو تیرتا ہوا دیکھتا، ہر رنگ اور ہر قسم کی مچھلیاں۔ بعض چھوٹی مچھلیاں مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرتی تھیں اور میرے چاروں طرف گھومتی تھیں اور میرے گالوں کے بوسے لیتی تھیں۔
یاد رکھیں کہ مچھلیاں روحانیت کی علامت ہوتی ہیں۔ تیرنا جس طور سے مچھلیوں کی خصوصیت ہے، اسی طرح اللہ پاک نے اپنی معصوم نوری مخلوق کیلئے بھی تیرنے کا لفظ استعمال فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے؛
وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا
اور ان (فرشتوں) کی قَسم جو (زمین و آسمان کے درمیان) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں۔
مچھلیاں روحانیت اور نورانیت کی، سورج علم کی اور عالم دین ہونے کی اور شیر دین کا مرد مجاہد ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر آپ خواب دیکھیں یا مراقبہ میں آپ کو ان اشیاء کا مشاہدہ ہو تو ان کی یہی تعبیر ہوگی۔
6.   عمل کی رغبت رکھیں:
عمل خوش دلی کے ساتھ کریں۔ عمل میں آپ کی رغبت اور آپ کا شوق عمل کا حسن ہے۔ اپنے عمل کو ہمیشہ خوبصورت اور حسین بنائے رکھیں۔ بے دلی سے کیا جانے والا ہر عمل بندے کے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔ فرائض و واجبات میں ریاکاری کا خوف اور بے دلی کا ڈر قابل قبول عذر نہیں۔ یعنی ان کے ڈر سے فرض کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ رغبت و شوق سے کیا جانے والا عمل دس گنا نتائج پیدا کرتا ہے۔ بلکہ اس کے بغیر کوئی اچھا نتیجہ گویا کہ ناممکن ہے۔
ہاں ایک بات ضرور دھیان میں رکھیں۔ کسی بھی نئے عمل میں انسان کو کامل رغبت عموماً نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں اپنے عمل کو عمل نہ سمجھیں بلکہ اپنی روحانی ٹریننگ کا ایک حصہ سمجھیں اور بے رغبتی کے باوجود اپنے عمل کو جاری رکھیں۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ جب آپ کسی عمل کو سر انجام دیتے رہتے ہیں تو اللہ پاک اسے آسان فرما دیتے ہیں۔ اور جب عمل آسان ہوجائے تو رغبت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔
حضرت صاحب قبلۂ عالم میاں محمد مظہر احسان ڈاہر رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ابتداء میں اللہ اللہ کرنا ایسا ہے جیسے پتھر کی بے ذائقہ سل کو چاٹنا۔ لیکن بندہ جب اس سل کو چاٹ چاٹ کر ختم کر دیتا ہے اور روحانیت کی نئی دنیا کا دروازہ اس کیلئے وا ہو جاتا ہے تو اس اللہ اللہ میں بہت مزہ اور لذت ہے۔
چونکہ ہمارے دل دنیا اور اس کے عشق مجازی میں مگن رہتے ہیں اس لئے عشق حقیقی میں لذت نہیں پاتے۔ حضرت ظفر صاحب نے ایک بار مجھ سے فرمایا کہ سلیم صاحب۔ بندے کو عشق مجازی میں جو لذت حاصل ہوتی ہے، عشق حقیقی کی لذت اس سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ بندے کو چاہیئے کہ عشق مجازی کے پھندوں سے نکلے اور عشق حقیقی کی طرف مائل ہو۔  ا ور صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ مرشد کامل کا عشق ہے تو مجازی ہی، لیکن عشق حقیقی تک پہنچانے کا سبب ہے۔
7.   تصور شیخ:
جب بھی کوئی عمل، کوئی ورد و وظائف کریں، اپنے شیخ کے تصور کے ساتھ کریں۔ میں سب سے بہتر جو عمل انگیز جانتا ہوں وہ تصور شیخ ہے۔ اللہ کا ذکر کرنا ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھنا ہو یا سورت یاسین شریف کا وظیفہ کرنا ہو، پہلے آنکھیں بند کرکے اپنے شیخ کا تصور کریں اور ان کی صورت کو اپنے حافظے میں حاضر کری۔ تصور شیخ بہترین مراقبہ ہے۔ یہ اگرچہ خود ایک بہترین عمل ہے لیکن اعمال کیلئے تو گویا جان ہے۔ ہر آن اپنے شیخ کے تصور میں رہنا سیکھیں کیونکہ روحانیت کے سارے ہی اعمال میں اجازت شرط ہوتی ہے اور اجازت عطا فرمانے والا بندے کا اپنا شیخ ہی ہوتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اگر ممکن ہو تو اللہ کے اسم ذات مبارک کو اپنے شیخ کی پیشانی پر چمکتا ہوا دیکھے۔ یہ عمل کثیر عمل انگیزوں کا مجموعہ ہے جن میں تصور شیخ، محبت شیخ، مراقبہ، معیت شیخ، اللہ کا ذکر، اسم ذات کا تصور، توجہ اور انہماک، یاد (گیارہ کلمات نقشبندیہ میں سے ایک "یاد کرو" بھی ہے۔)، یک سوئی اور عظمت شیخ کا ادراک شامل ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک نہ صرف مستقل عمل ہے بلکہ نہایت سریع الاثر عمل انگیز بھی ہے۔
تصور شیخ کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب بندہ اپنے شیخ کا تصور کرتا ہے تو شیخ پر اللہ کی جو تجلیات ہو رہی ہوتی ہیں، ان کا ایک پرتو آپ کی لیاقت و استعداد کی مناسبت سے آپ کے اوپر بھی پڑتا ہے۔ یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ شیخ پر اللہ پاک کی جو تجلی ہوتی ہے وہ نہایت مبارک اور عظیم ہوتی ہے۔ اس بارش کا ایک چھینٹا ہی ہمیں حاصل ہوجائے تو کیا کہنے۔
واللہ جو مل جائے میرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پُھول
پاکیزگی اور لطافت:
روحانیت تمام تر پاکیزگی اور لطافت ہے۔ ظاہری طور پر صاف ستھرا رہنا اور ہر وقت باوضو رہنا ایک شاندار عمل انگیز ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ بے وضو ہو تو اپنے سوا کسی کو ملامت نہ کرے۔ کیا خوب فرمان ہے۔
ہر وقت غسل اور وضو سے رہنا اور اپنی جگہ اور کپڑوں کو صاف رکھنا ظاہری پاکیزگی ہے۔ اور اچھے عقائد و نظریات اور لطیف خیالات اور اچھی نیتیں اور عمل میں اخلاص باطنی پاکیزگی ہے۔ گندے اور برے خیالات اور سوچ رکھنے والے کو روحانیت کیسے حاصل ہو سکتی ہے جبکہ روحانیت تو نام ہی لطافت اور پاکیزگی کی معراج کا ہے۔
سفلی جذبات اور نچلے درجے کے خیالات سے جتنا ممکن ہو، اپنا پیچھا چھڑائیں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آپ نیچے کی طرف دیکھیں گے تو خود پر تعجب کریں گے کہ میں کس اسفل سافلین میں پڑا ہوا تھا، اللہ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے کس مقام پر لا کھڑا کیا۔ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کریں، کم ہے۔
بات لطافت کی ہو تو خوشبو کا ذکر کیسے نہ چلے۔ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی۔ کبھی خوشبو کے تحفے کو رد نہ فرمایا۔ ہمیشہ خوشبو میں بسے رہیں۔ خواتین بھی حسب ضرورت خوشبو کا استعمال کرسکتی ہیں۔ لیکن گھر کے باہر اس کے استعمال کی ممانعت آئی ہے۔ اور اگر ممکن ہو تو عمل کے وقت خوشبو ضرور لگائیں۔ عامل حضرات عموما بخورات (لوبان یا عود وغیرہ کی دھونی) کا استعمال کرتے ہیں۔ ذاکرین کو اس تکلف کی ضرورت نہیں، لیکن خوشبو ضرور استعمال کریں کہ یہ اللہ کے پیارے رسول کی حسین سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔
8.   عمل کی زکوٰۃ:
فقہ میں جس طرح مال کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے اسی طرح روحانیت میں اعمال کی بھی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ جس مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی جاتی، صاحب مال اس کا اصل نفع حاصل نہیں کرسکتا۔ مال لٹ جاتا ہے، چوری ہو جاتا ہے، پانی میں ڈوب جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح اعمال کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب ان کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ زکوٰۃ مخصوص تعداد میں عمل کو پڑھنے کو کہتے ہیں۔ بزرگان دین نے زکوٰۃ کے کئی طریقے بیان کئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر طریقے بہت مشکل اور عوام الناس کیلئے تقریباً ناممکن ہیں۔ آستانۂ نوری نے اس کیلئے نوری زکوٰۃ کا طریقہ متعارف کیا ہے۔ یہ ایک ماہ میں عمل کی تعداد ہے۔
کسی عمل کی نوری زکوٰۃ معلوم کیسے کی جائے؟ اس کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ جس عمل کے کلمات (الفاظ) کی تعداد دس ہو، اسے ایک ماہ تک 300 بار پڑھا جائے، تو اس عمل کی نوری زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
Noori Zakat = 3000/Words
جیسے سورت اخلاص میں کل پندرہ کلمات ہیں۔ اس کی نوری زکوٰۃ سورت اخلاص کو روزانہ دو سو بار ایک ماہ تک پڑھنا ہے۔ اور جو اسے بسم اللہ شریف کے ساتھ پڑھتا ہے، جو کہ ضروری ہے، تو اس کی نوری زکوٰۃ انیس کلمات کی ہوگی یعنی تقریباً ڈیڑھ سو بار روزانہ ایک مہینے تک پڑھنے سے اس کی نوری زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ جو زیادہ محتاط ہو اور ایک ماہ کے بجائے کم یا زیادہ دنوں میں کوئی عمل کرنا چاہتا ہو تو وہ مندرجہ بالا فارمو لے میں تھوڑی سی تبدیلی کے بعد اس سے نوری زکوٰۃ معلوم کرسکتا ہے۔ جیسے
Noori Zakat = 90,000 / (Words*days)
اس فارمو لے سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر سورت اخلاص (15 کلمات) کی نوری زکوٰۃ چھ دن میں ادا کرنا ہو تو اس سورت مقدسہ کو ہر روز ایک ہزار بار پڑھیں تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر سمجھدار کو عمل کی کم سے کم ایک بار زکوٰۃ ضرور ادا کرنا چاہیئے۔ آگے آپ کا نصیب۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
یہاں ایک غلط فہمی کا ضرور ازالہ کرنا چاہوں گا۔ بہت سے لوگ زکوٰۃ کو عاملوں کا طریقہ سمجھتے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ اولیائے کاملین کا طریقہ ہے۔ خود حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ درود شریف کو 28 دن میں سوا لاکھ پڑھنے سے اس کی زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔ اور حدیث پاک میں بھی فرمایا گیا ہے کہ سورت اخلاص کو دو سو بار پڑھنے سے اسی برس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں اور اخلاص کے ساتھ زکوٰۃ ادا کریں تاکہ روحانیت کی راہیں آپ کیلئے کشادہ ہو جائیں۔
آج کل جو عام طور پر عامل کا لفظ بولا جاتا ہے، عوام الناس کے نزدیک اس سے مراد اپنے عمل پر اجرت لینے والا شخص مراد ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی کاریگر کی، جیسے موٹر مکینک، الکٹریشین وغیرہ۔ جو ذاکر بن سکتا ہو، وہ عامل کیوں بنے؟ جس کی روحانی ترقی رک جائے یا اس کا مقصود دنیا ہو وہ عامل ہوتا ہے۔ جو اپنے عمل سے اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہے، وہ ذاکر ہوتا ہے۔ اور اسی کے پاس روحانیت ہوتی ہے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
9.   نئے عمل کا صدقہ:
جب بھی کوئی نیا عمل شروع کریں تو پہلے کچھ نہ کچھ صدقہ ضرور کردیں۔ صدقات کی حدیث پاک میں ترغیب دلائی گئی ہے۔ صدقہ نہ صرف بلاؤں کو ٹالتا ہے بلکہ عمل میں بھی آسانی کا باعث ہوتا ہے اور آپ بغیر زیادہ خوف کے اپنا عمل پورا کر سکتے ہیں۔ اور اگر ممکن ہو تو نئے عمل کے شروع کرنے سے پہلے مٹھائی وغیرہ پر فاتحہ دلائیں اور معصوم بچوں میں بانٹ دیں۔
10.         فرائض و واجبات میں سستی نہ کریں:
یاد رکھیں کہ اوراد و وظائف اور دیگر اذکار اعمال مستحبہ ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے فرائض و واجبات میں ہرگز سستی نہ کریں۔ کون ایسا بیوقوف ہوگا جو نفل ادا کرنے کے چکر میں فرضوں کو چھوڑ بیٹھے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی سونے کی اشرفیاں تو فضول میں لٹا دے اور کوئلوں اور بیکار چیزوں کو سینت سینت کر رکھے۔ جو فرائض سے غفلت برتے، اس کے نوافل کا فائدہ غیر یقینی ہے۔ اللہ پاک سمجھ عطا کرے۔
11.         یقین کے ساتھ اللہ کو یاد کریں:
بے یقینی کے ساتھ کسی عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ حدیث پاک میں ہے کہ یقین سارے کا سارا ایمان ہے۔
خارجیوں کے ساتھ جنگ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی ساتھی کو خارجیوں کا احوال معلوم کرنے کیلئے جاسوسی کرنے کو بھیجا۔ وہ وہاں پہنچے تو ہر خیمے سے اللہ کے ذکر کی آوازیں اور تلاوت کلام پاک سنائی دے رہی تھی۔ ان کے دل پر بہت اثر ہوا اور واپس آکر کہنے لگے کہ اے علی! تمہیں پتا بھی ہے کہ تم کن لوگوں سے جنگ کر رہے ہو؟ وہ ساری رات اللہ کے ذکر میں جاگتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا پیارا جواب عنایت فرمایا کہ سنہری حروف سے لکھا جانے کے لائق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یقین کے ساتھ سو جانا، بے یقینی کے ساتھ رات بھر عبادت کرنے سے افضل ہے۔ واقعی، جسے مخبر صادق نے حق پر ہونے کی بشارت دی ہو، اس کے خلاف تلوار سونت کر آنے والا کیسے یقین کے ساتھ عبادت کر سکتا ہے؟ اور یقین ہی تو ایمان ہے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ جن کسی عمل یا کسی ذکر سے خوف نہیں کھاتا۔ یہ اللہ کے بندے کے اندر پوشیدہ یقین کی طاقت ہے جس سے جنات سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ قربان جائیے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی پیاری بات ارشاد فرمائی ہے؛
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا
اور سچ پوچھو تو علامہ کی ساری شاعری مسلمانوں کو خدا پرستی اور خود پر یقین کا درس دیتی ہے۔
عمل یقین کے ساتھ کریں۔ اپنے بزرگوں کے فرمودات اور اذکار کو حق جانیں اور اعتماد کے ساتھ اللہ کو یاد کریں۔ بے یقینی دعا کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے۔ تو عمل کیسے اثر لائے۔
ضد عمل انگیز (Anti-Catalyst)
جس طرح عمل انگیز کسی عمل کی رفتار کو بنا کسی اور تبدیلی کے بڑھانے میں مدد دیتا ہے، اسی طرح بہت سی چیزیں وہ بھی ہوتی ہیں جن کی موجودگی کسی عمل کی رفتار کو سست کردیتی ہیں یا کسی عمل انگیز کی ایکٹیویٹی کو ختم کردیتی ہیں۔ ان سے ہر صورت بچا جائے۔ جیسے؛
  1. بے یقینی، لالچ یا کسی سفلی جذبے کے ساتھ عمل کرنا۔
  2. صرف گنتی پوری کرنے کیلئے ذکر کرنا۔
  3. بے توجہی کے ساتھ عمل کرنا۔
  4. ہر وقت گناہوں میں ڈوبے رہنا۔
  5. کسی دنیاوی غرض سے عمل کرنا۔
  6. عمل کی شرائط اور زکوٰۃ وغیرہ کا خیال نہ رکھنا۔
  7. خوراک میں بے احتیاطی برتنا اور حرام حلال کا خیال نہ رکھنا۔
  8. کمزور عقیدے کے ساتھ عمل کرنا۔
خلاصۂ کلام:
میری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ اعمال میں اخلاص کو مد نظر رکھا جائے، اوراد کی ادائیگی کی صحت اور مفہوم پیش نظر رہے۔ عمل مستقل کریں اور ان میں گیپ نہ آنے دیں۔ چھٹی کو خیر باد کہیں، عمل کیلئے ممکن ہو تو ہر روز ایک ہی جگہ منتخب کریں اور ایک ہی مخصوص وقت میں اپنا وظیفہ پڑھیں۔ کوئی بھی عمل ہو، خوش دلی کے ساتھ کریں، اور اپنے شیخ کا تصور کرتے ہوئے ذکر کریں اور اپنے شیخ کی پیشانی پر اسم ذات کو چمکتا ہوا لکھا دیکھنے کی پوری پوری کوشش کریں۔ پاکیزگی اور نظافت کا خیال رکھیں اور ہر وقت با وضو رہیں۔ خوشبو کا بھی استعمال کریں اور اپنے ورد وظائف کی کم از کم ایک بار تو زکوۃ ضرور ادا کریں۔ کوئی نیا عمل شروع کریں تو صدقہ و خیرات ضرور دیں اور مٹھائی وغیرہ پر فاتحہ دلائیں اور اس کا ثواب فرشتوں اور مؤکلات کو بھی پیش کریں۔ عمل کی وجہ سے کسی فرض کے تارک ہرگز مت بنیں اور یقین کے ساتھ عمل شروع کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ آپ حصول روحانیت میں کامیاب نہ ہوں۔
میرا پانچ ہزار سے زائد الفاظ کا یہ رسالہ پڑھنے کا بہت شکریہ۔ جو چاہے، اسے شائع کرسکتا ہے۔ میری طرف سے اجازت ہے۔

تبصرے

  1. بہت شاندار رسالہ ہے آپ کا ، پڑھ کر بہت لطف آیا اور انتہائی کام کی باتیں، نقطہ بنقطہ آپ نے سمجھائیں۔ آپ کا بے حد شکریہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی بہت شکریہ پیاری اس پڑھنے کا۔ جو پڑھتا رہے گا، جڑتا رہے گا۔

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں