Travelling to Layya Shareef

لیّہ کا سفر نامہ
1.            عرس شریف کا سفر:
ہر سال ۳ ،ربیع الاول شریف کو حضرت میاں محمد صدیق ڈاہر ؒاور حضرت بہاؤ الدین نقشبند ؒ کا عرس شریف ڈیرہ محمدی، چک نمبر ۳۳۵، ٹی ڈی اے (تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی)کالونی پر بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے ساتھی ہر سال ہی حاضری دیتے ہیں اور ہر بار ہی کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے اس لئے میں نے چاہا کہ اس سفر کی ایک مکمل روداد لکھ دی جائے تاکہ جو ساتھی عرس شریف پر حاضری دیں وہ اسے پہلے ایک بار پڑھ لیں اور اگر کوئی چیز مس کر رہے ہوں تو وہ یاد آجائے اور اس طرح وہ تکلیف اٹھانے سے بچ جائیں۔ اﷲ پاک میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمارے ساتھیوں کو اس سے نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ اس بار کے سفر میں کافی ساری چیزیں جمع ہو گئی ہیں جو بہت کام آئیں گی۔ [اس پوسٹ کا حق یہ ہے کہ اسے ہر سال شیئر کریں تاکہ ہر ساتھی اس سے نفع حاصل کرسکے۔]
2.            حاضری کا مضبوط ارادہ:
عرس شریف پر حاضر ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کیلئے سب سے پہلے جو چیز درکار ہے وہ مضبوط ارادہ ہے۔ عرس پر جانے کا پکّا ارادہ رکھیں تاکہ شیطان آپ کی راہ میں روڑے نہ اٹکا سکے۔  بلکہ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ صفر کی گیارہویں شریف میں ہی اپنے ارادے سے آگاہ کردیں تاکہ بہتر تیاری ہو سکے۔ اور اسی وقت ہی ذمّہ دار حضرات کو اپنے ٹکٹ کے پیسے دے دیں۔
ایک بات ضرور یاد رکھیں۔ کسی کو دھوکے میں نہ رکھیں، نہ خود کو اور نہ کسی اور کو۔ آپ کا جانا یا نہ جانا بالکل واضح ہو۔ جسے  ٹکٹ وغیرہ کا ذمہ دار بنایا جائے، اسے بالکل کھل کر اپنے جانے کے بارے میں بتا دیں۔
3.            زائر نہ جا سکے تو خرچہ دے (عُرسِ بَدَل):
جو زائر اپنی کسی وجہ سے نہ جا سکے تو وہ اپنے ٹکٹ پر کسی اور کو بھیج دے۔ یہ بھی اس کی طرف سے حاضری کے مترادف ہے۔ جو کسی کا پورا خرچ نہ اٹھا سکے وہ کم سے کم یک طرفہ خرچ تو ضرور اٹھائے۔ یہ بھی ایک بڑا کام ہے۔ بہت سے زائر وہ ہوتے ہیں جو جا تو سکتے ہیں لیکن خرچ نہ ہونے کی وجہ سے رہ جاتے ہیں۔  اپنے آفس کی وجہ سے چند بار میں عرس پر حاضر  نہ ہو سکا تو ہمیشہ کسی جانے والے کی مدد کردی۔ یہ جانے والے کا احسان ہوتا ہے کہ وہ ہماری حاضری  لگوا دیتا ہے۔ خود نہ جا سکیں تو اپنی جگہ کسی اور کو بھیج دیں۔ یہ "عرسِ بدل " کی مانند ہوجائے گا۔
4.تین مہا سُست:
اسد بھائی، شاہد بھائی اور وجاہت بھائی سے اس بار شدید بھول ہوئی ہے کہ نہ تو وہ خود عرس پر حاضر ہوئے اور نہ ہی انہوں نے کسی زائر کا خرچ اپنے ذمّے لیا۔  اور شاہد صاحب تو کئی سال سے غیر حاضر ہیں۔ یہ اچھی علامات نہیں۔ عرس تو گزر چکا، وہ اب آستانے میں حصہ ملا سکتے ہیں۔ بڑی گیارہویں شریف کو غوث پاک کے نام کا جانور آستانے پر ذبح کیا جاتا ہے۔سمجھدار کو اشارہ کافی ہے۔
5.            ٹکٹ اور ریٹرن ٹکٹ (۲۲ صفر تک):
اگر سفر ٹرین سے کرنا ہو تو ملتان کی ٹرین کے ٹکٹ لازمی طور پر دس دن پہلے بک کرا لیں۔ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ ٹکٹ کے ساتھ ہی ریٹرن ٹکٹ بھی حاصل کر لیں۔ ۲۲ صفر تک ٹکٹ بک کرا لیں تو آسانی رہے گی۔
6.            کونسی ٹرین ہو؟
کوئی سی ٹرین جو شام ۴ سے ۶ کے دوران کینٹ اسٹیشن سے روانہ ہو اس میں ٹکٹ بک کرائے  جا سکتے ہیں۔  اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ ملتان اسٹیشن پر صبح کے وقت پہنچائیں گی اور ملتان سے لیّہ تک کا سفر دن کے وقت میں ممکن ہو سکے گا۔ اور ملتان شریف کے مزارات کی زیارت بھی ممکن ہو سکے گی۔ جیسے بہاؤ الدین زکریا ایکسپریس، کراچی ایکسپریس، تیز گام ایکسپریس۔ 
مجھے کراچی ایکسپریس زیادہ پسند ہے۔

7.            ٹرین کی بکنگ کس تاریخ کی ہو؟ (یکم ربیع الاول):
صفر کے مہینے کو ۳۰ کا شمار کریں اور یکم ربیع الاول کی ٹکٹ بک کرائیں۔ [یعنی صفرکا چاند ۲۹ کا ہو تو ۲ ربیع الاول کا ٹکٹ ہوگا۔] اور آج کل تو آن لائن بکنگ بھی ممکن ہے۔
8.            ٹکٹ کا خرچ:
۲۰۱۹ میں ملتان کا یکطرفہ  اکانمی کلاس کا ٹکٹ ۱۶۰۰ روپے کا، لوئر اے سی کا ۲۶۵۰ روپے کا اور لوئر اے سی کا ارجنٹ ٹکٹ ۲۸۵۰ روپے کا تھا۔
9.            شاہ فیصل کالونی سے کینٹ  اسٹیشن تک:
کوشش کرکے سب زائرین ساتھ ہی نکلیں تو بہتر ہے۔ اسٹیشن تک جانے کیلئے ایک دن پہلے ہی کسی سواری کا بند و بست کر لیں تو بہتر ہے۔ ٹرین کا جو بھی وقت ہو، اس سے دو گھنٹے پہلے ہی آستانے پر ضرور حاضر ہو جائیں تاکہ نوافل اور دعا کے بعد  سفر کیلئے روانہ ہوں۔
جو مرکزی امیر ہو وہ سواری کیلئے کسی کو ذمہ داری سونپ سکتا ہے۔ اس بار ۶ افراد کیلئے ہائی روف کی گئی تھی جسے ۱۱۰۰ روپے کی ادائیگی کی گئی۔
10.    امیر سفر کا تقرر:
کسی ایک ساتھی کو اپنے سفر کا امیر ضرور مقرر کر لیں۔ یہ سنّت مبارکہ ہے۔ سب لوگ اپنے امیر کے پاس ٹکٹ کے علاوہ بھی کچھ رقم (۳ سے ۵ ہزار روپے تک) جمع کرا دیں تاکہ  برکت رہے۔ کسی کو کچھ بھی ضرورت ہو یا کہیں جانا ہو تو امیر کو بتائے بغیر کہیں نہ جائے۔
امیر بھی سارے خرچ کسی کو لکھواتا رہے تاکہ بعد میں کسی کو دقت نہ ہو۔
11.    ملتان ریزرویشن آفس اور سرکاری واش رومز:
ملتان پہنچ کر ٹرین سے اتر کر ریلوے پل کراس کریں اور ملتان اسٹیشن آفس کی عمارت سے گزر کر فوری طور پر عرس سے اگلے دن کی بکنگ کرا لیں (اگر پہلے سے ریٹرن ٹکٹ نہ کیا ہو تو)۔ اترنے سے پہلے اچھی طرح دیکھ لیں کہ کسی ساتھی کا کوئی سامان وغیرہ تو  ٹرین  میں نہیں رہ گیا؟ فریش ہونا ہو تو ہو لیں، پاس ہی ریستوران بھی ہیں، ناشتہ وغیرہ بھی کر سکتے ہیں۔
12.    دوران سفر کھانے پینے میں احتیاط برتیں:
ٹرین یا بس کے سفر کے دوران کھانے پینے میں سخت احتیاط برتیں۔ کھانا پینا بالکل آدھا کردیں تو بہتر ہے۔  اس بار ہمارے ایک ساتھی عماد کو کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔  الٹیوں اور سر درد نے  سارے عرس  میں اسے تنگ کئے رکھا۔ واپسی تک اس کی یہی کیفیت رہی۔ عرس کی تقریب بھی ٹھیک سے اٹینڈ نہیں کر پایا۔

طبیعت میں کوئی غیر معمولی بات محسوس کریں تو فوراً اپنے امیر سے اس کا تذکرہ کریں۔
13.    غازی آباد (افتخار صاحب کے ہاں):
غازی آباد (ملتان شریف کا ایک علاقہ) میں ہمارے ایک ساتھی افتخار صاحب کے صاحبزادے کاشف رہتے ہیں۔ ساتھیوں کی محبت میں افتخار صاحب بھی اکثر ان کے پاس ہی آ جاتے ہیں، اور ہمیں بھی وہیں بلا لیتے ہیں۔  ادھر جانا ہو تو ملتان اسٹیشن سے ہی رکشہ کریں اور غازی آباد کا کہہ کر بیٹھ جائیں۔ زیادہ سے زیادہ  ۲۵۰ روپے لگیں گے۔

14.    ملتان شریف کے مزارات کی زیارت:
اجازت ہو تو ملتان شریف کے مزارات کی زیارت ضرور کریں۔  لیکن اتنا ضرور یاد رکھیں کہ زیارات ظہر سے پہلے  مکمل کر لیں تاکہ وقت پر لیّہ شریف پہنچ سکیں۔

15.    نیو خان (ملتان بس اڈا):
غازی آباد سے ملتان لاری اڈے کیلئے رکشہ کریں تو ۲۰۰ روپے لگتے ہیں۔ نیو خان کی بڑی بسوں کی سروس ہے۔ ہر آدھے گھنٹے میں بسیں جاتی ہیں۔ چوک اعظم تک کے ۳۰۰ روپے لگتے ہیں اور ۳ گھنٹے میں بس چوک اعظم پہنچا دیتی ہے۔
نیو خان والوں سے اگر پہلے بات کر لی جائے تو شام ۷ بجے سے پہلے ان کی بسیں آپ کو براہ راست اقبال چوک (دربار شریف ) پر بھی اتار سکتی ہیں، لیکن ٹکٹ خریدنے سے پہلے بات کر لیں تو زیادہ بہتر ہے۔  شام ۷ بجے کے بعد کوئی بس یہاں سے نہیں گزرتی۔

16.    چوک اعظم سے چک ۳۳۵:
بسیں چوک اعظم پر اتاریں تو سب لوگ مل کر ۲۵۰ روپے میں کوئی رکشہ کر لیں۔   چوک اعظم سے دربار شریف تک ۵ یا ۶ میل کا سفر بنتا ہے۔   بہتر ہے کہ چوک اعظم سے حضرت صاحب کیلئے پھل وغیرہ خرید لیں۔

17.    عرس شریف میں حاضری:
پہلے حضرت صاحب سے ملاقات کریں اور اپنی عرضیاں، نذرانے اور تحفے تحائف حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کریں، پھر ممکن ہو تو دربار شریف (مزار اقدس) پر بھی حاضری دیں۔  اور مختصر سی محفل کریں۔

1.   لنگر شریف کے وقت ضرور حاضر رہیں۔  دو پہر کو چادر پوشی سے پہلے۱۲ بجے، شام کو عصر یا مغرب کے بعد، صبح فجر کے بعد لنگر شریف ہوتا ہے۔
2.    کم سے کم ۲۰۰ روپے کھلّے (دس دس کے بیس نوٹ) آپ کے پاس موجود ہوں تاکہ نعت خوانوں اور مقررین کی داد و تحسین کے وقت انہیں پیش کر سکیں۔
3.   شدید تھکن یا طبیعت کی خرابی کے باعث حضرت صاحب سے اجازت لیکر مہمان خانے میں جا سکتے ہیں۔ ورنہ ہمہ وقت عرس کی محفل میں حاضر رہیں۔
4.    ممکن ہو تو دربار شریف کی طرف کبھی پیٹھ نہ کریں۔
5.   دربار شریف پر  آنے والے  اکثر معمّر اور سفید ریش حضرات پیر ہوتے ہیں۔ بیشک اِتِّباع تو اپنے شیخ کی ہی کی جاتی ہے لیکن ادب تمام پیرانِ عُظّام کا کیا جائے گا۔

6.    دربار شریف پر ہر وقت با وُضو رہیں۔ اور جتنا ممکن ہو سکے، ادب کے ساتھ حضرت صاحب کے چہرے کے سامنے رہیں کہ یہ حصولِ فیض  کا بہترین ذریعہ ہے۔
7.    عُرس شریف آدھی رات کو ذِکر کے بعد ختم ہوتا ہے۔  یہ رات بھی دربار شریف پر ہی گزاریں۔  صبح فجر کے بعد اطمینان سے ناشتہ کریں اور پھر واپسی کی اجازت لیں۔
18.    ہیرا مائنر (اعظم صاحِب کے گھر):
ہیرا مائنر ایک نہر کا نام ہے جو چوک اعظم  سے سمتِ قِبلہ تقریباً ۱۶ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں اعظم صاحب کی آبائی رہائش گاہ واقع ہے۔ دربار شریف کے اقبال چوک سے رکشہ کریں تو ۵۰۰ روپے لگتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہی ہمارا آستانہ ہے۔ مجھے قطب وقت حضرت میاں محمد  مظہر احسان ؒ سے اعظم صاحب نے ہی پہلی بار روشناس کرایا تھا۔ میرے دل میں آپ کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ کوشش کرکے یہاں حاضر ہوں اور انتہائی ادب کا مظاہرہ کریں۔  آپ کے گھر والے نہایت شریف النّفس اور مہمان نواز ہیں۔ جب بھی یہاں حاضر ہوں تو  کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور پیش کریں۔

19.    عادل شاہ کوچ (لیّہ سے کراچی):
لیّہ سے کراچی بذریعہ بس آنا ہو تو لیّہ شہر بس اڈے سے عادل شاہ کوچ ایک بہترین انتخاب ہے۔ ۲۰۰۰ روپے فی کس کے حساب سے ٹکٹ ملتا ہے۔ اور کراچی میں سہراب گوٹھ پر یہ بسیں ۱۲ سے ۱۴ گھنٹے میں اتارتی ہیں۔  درمیان میں دو مختصر سے اسٹاپ کرتی ہیں جس میں آپ کھانا یا نماز ادا کر سکتے ہیں۔  لیکن اپنے سامان وغیرہ کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں۔ یا کسی ایک فرد کی ڈیوٹی لگا دیں۔ بلوچ کوچ سروس بھی عادل شاہ کوچ کا ایک متبادل ہے۔ عادل شاہ اور بلوچ کوچ کے دفاتر بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔
لیّہ سے کراچی کیلئے شام ۷ بجے کی ڈائیوو بس کا اگلی سیٹوں (مثلاً ۱۱ سے ۲۰ نمبر سیٹ ) کا ٹکٹ  روانگی سے دو دن پہلے حاصل کر لیں۔ جو بس ۵ بجے روانہ ہوتی ہے اگرچہ کہ وہ جلدی چلتی ہے لیکن اس کے اسٹاپ کثیر ہیں اور دیر لگاتی ہے۔
20.    شاہ فیصل ٹاؤن واپسی:
گھر واپسی کیلئے سہراب گوٹھ سے کوئی ٹیکسی کر لیں۔ یہاں کے ڈرائیور بہت کرایہ بتاتے ہیں اور ہر آنے والے کو کراچی میں اجنبی سمجھ کر منہ مانگے دام وصول کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ان سے سمجھداری کے ساتھ ڈیلنگ کریں تو بہتر ہے۔
21.    خالی ہاتھ گھر جایا نہیں کرتے:
اگر ملتان یا چوک اعظم سے گھر والوں کیلئے کچھ نہ لیا ہو تو ٹیکسی کہیں رکوا کر گھر والوں کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور خرید لیں۔
22.    حساب بالکل صاف رکھیں:
بہتر تو یہ ہے کہ گھر پہنچنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کا حساب چُکتا کردیں۔ اور اگر کسی وجہ سے نہ کر سکیں تو اسی دن آستانے میں حاضری دیں اور تمام حساب کتاب اور معاملات صاف کر لیں۔ ایک ہفتہ گزرنے پر بھی حساب کلیئر نہ کیا تو اپنا کڑا احتساب کریں۔
23.    ٹرین کا کل خرچ (۶۵۰۰ روپے) اور اضافی رقم:
عرس شریف پر ٹرین سے جانا مقصود ہو تو درج ذیل خرچوں کو مدِّ نظر رکھیں۔ یاد رکھیں کہ ٹرین سے جانے میں کافی سہولت رہتی ہے۔
23.1.             گھر سے کینٹ اسٹیشن فی کس 200 روپے
23.2.             کینٹ اسٹیشن تا ملتان اسٹیشن فی کس ۱۶۵۰ روپے
23.3.             ملتان اسٹیشن تا ملتان بس (لاری) اڈّا فی کس ۱۰۰ روپے
23.4.             بس اڈا (نیو خان سروس) تا چوک اعظم فی کس ۳۰۰ روپے
23.5.             چوک اعظم تا اقبال چوک (دربار شریف) فی کس ۵۰ روپے
23.6.             نذرانہ (حسبِ توفیق) فی کس ۱۰۰۰ روپے
23.7.             نعت خوانوں کو نذر (حسبِ توفیق) ۲۰۰ روپے (دس کے نوٹ)
23.8.             اقبال چوک تا چوک اعظم (فی کس ۵۰ روپے
23.9.             چوک اعظم تا ملتان  بس اڈا فی کس ۳۰۰ روپے
23.10.       بس اڈا تا ملتان اسٹیشن فی کس ۱۰۰ روپے
23.11.       ملتان اسٹیشن تا کینٹ اسٹیشن کراچی ۱۶۵۰ روپے
23.12.       کینٹ اسٹیشن  تا شاہ فیصل ٹاؤن فی کس ۲۰۰ روپے
یہ ۱۲ خرچے ہیں جو کم سے کم ہیں یعنی  لازمی ہیں۔ یہ تقریباً ۶۰۰۰ روپے بنتے ہیں۔ اگر افتخار صاحب کے ہاں بھی جانا ہو  تو اس میں ۳۰۰ روپے اور جوڑ لیں۔  اور ریفریشمنٹ کے بھی ۲۰۰ روپے رکھ لیں تو کم سے کم خرچ کی مقدار ۶۵۰۰ روپے ہو جاتی ہے۔ 
یہ بھی یاد رکھیں کہ ٹرین کا ٹکٹ سہولت کے اعتبار سے مہنگا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ اکانمی کلاس کا خرچ ہے۔
24.     سالانہ دس فیصد  مہنگائی بھی ذہن میں رکھیں:
۲۰۱۹ میں ٹرین سے جانے کا کل خرچ ۶۵۰۰ ہے۔ اگلے سال کیلئے اس میں اسی کا دس فیصد اور جوڑ لیں یعنی ۲۰۲۰ میں ٹرین سے جانے کا کل خرچ ۶۵۰۰ + ۶۵۰ یعنی ۷۱۵۰ روپے ہوگا۔  اور اس سے اگلے سال یعنی ۲۰۲۱ میں (۷۱۵۰ + ۷۱۵) یعنی ۷۸۶۵ روپے ہوگا۔ یہ ٹرین سے جانے کی صورت میں ہے۔
جانے کو تو آپ ۶۵۰۰ روپے رکھ کر بھی جا سکتے ہیں لیکن  عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ آپ کل خرچ کا کم از کم ڈیڑھ یا دو گنا رکھ کر سفر کریں۔ یعنی دس سے ۱۲ ہزار روپے۔  میرے والد صاحب فرماتے تھے کہ گیدڑ کے شکار کو نکلو تو شیر کے شکار کا سامان لے کر نکلو۔ کیونکہ جنگل میں کسی بھی وقت شیر کا سامنا ہو سکتا ہے۔
25.    عادل شاہ کوچ سے کل خرچ (۵۸۰۰ روپے):
عادل شاہ کوچ سے جانا ہو تو
25.1.             شاہ فیصل ٹاؤن سے سہراب گوٹھ  فی کس ۱۰۰ روپے
25.2.             کراچی تا لیّہ فی کس ۲۰۰۰ روپے
25.3.             لیّہ بس اڈا تا چوک اعظم فی کس ۱۰۰ روپے
25.4.             چوک اعظم تا اقبال چوک (دربار شریف) فی کس ۵۰ روپے
25.5.             نذرانہ (حسبِ توفیق) فی کس ۱۰۰۰ روپے
25.6.             نعت خوانوں کو نذر (حسبِ توفیق) ۲۰۰ روپے (دس کے نوٹ)
25.7.             اقبال چوک تا چوک اعظم  فی کس ۵۰ روپے
25.8.             چوک اعظم تا لیّہ بس اڈا فی کس ۱۰۰ روپے
25.9.             لیّہ تا کراچی ٹکٹ فی کس ۲۰۰۰ روپے
25.10.       سہراب گوٹھ تا شاہ فیصل ٹاؤن فی کس ۱۰۰ روپے
25.11.       ریفریشمنٹ ۱۰۰ روپے (حسبِ ضرورت)
یہ کل ۵۸۰۰ روپے بنتے ہیں۔ یعنی ٹرین کی بنسبت ۱۰۰۰ روپے کا فرق آجاتا ہے۔یہاں بھی ڈیڑھ گنا والا فارمولہ لگائیں اور کم از کم دس ہزار روپے لیکر گھر سے سفر کو روانہ ہوں۔ دس فیصد مہنگائی کا فارمولہ بھی یہاں لگے گا۔

ایک بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ ٹرین سے سفر کم و بیش ۲۴ گھنٹے (۶۵۰۰ روپے) کا بنتا ہے اور عادل شاہ کوچ سے تقریباً ۱۴ گھنٹے (۵۸۰۰ روپے) کا۔ لیکن ٹرین کے سفر میں دیگر آسانیاں بہت ہیں۔ اس لئے ممکن ہو تو ٹرین سے ہی سفر کیا  جائے تو بہتر ہے۔
26.    سفر کا ضروری سامان:
کسی بھی آؤٹ اسٹیشن (دوسرے شہر) کے سفر میں مندرجہ ذیل چیزوں کا خیال ضرور رکھیں۔
26.1.             قومی شناختی کارڈ، سفر کے ٹکٹس، ضروری رقوم
26.2.             سردی گرمی کے جوڑے (کپڑے)، کندھے کا رومال، دستی رومال
26.3.             ضروری ادویات اور ٹیبلیٹس (سر درد، بخار، دانت کا درد  وغیرہ)
26.4.             سفری بیگ، پانی کی بوتل، ہلکی سفری خوراک
26.5.             قلم، خوشبو(عطر)، تیل، کنگھی، ٹوتھ پیسٹ اور برش، ماؤتھ واش، سرمہ، اور دیگر ضروری سامان
میرے ۲۶۵۰ الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ 

تبصرے

  1. Thank you very much for the loving and informative post in regards to go to Urs. It will surely be done accordingly. Insha Allah

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہت ہی تفصیل سے اپنے سفر کا ایک ایک پہلو بتایا آپ کی پوسٹ پڑھتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے میں لیہ سے ہو کر واپس آ چکا ہوں بہت ہی پیارے انداز میں آپ نے سمجھایا اللہ پاک مجھے بھی اس سال جانے کی توفیق عطا فرمائے اور انشاءاللہ میرا ارادہ بھی ہے

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Dua-e-Jame-ul-Matloob

اردو شاعری کی بیس بحریں