A Swift Dive

وقت اور فاصلہ
&                  ضروری بات
ستائیس ہزار الفاظ پر مشتمل یہ ایک دلچسپ مضمون ہے جسے گیارہ ہزار کتابوں کی عرق ریزی کے بعد تیار کیا گیا ہے، اور اپنے اندر اپنے موضوع کی کافی بلکہ مکمل معلومات سمیٹے ہوئے ہے۔ لیکن اس کیلئے آپ کو 15 ہندسوں والے ایک سائنٹیفک کیلکولیٹر کی ضرورت ہو گی اور ثانوی کلاسز کی فزکس کے چند بنیادی فارمولوں پر آپ کو عبور ہو تو آپ اسے آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔
بہتر تو یہ ہے کہ آپ یہ کتاب موبائل کے بجائے کمپیوٹر پر دیکھیں تاکہ آپ اس کے مفہوم کی درستگی کے ساتھ ساتھ اس کی خوبصورتی کو بھی ملاحظہ کر سکیں۔
نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ احادیثِ مبارکہ میں جہاں کہیں " مَسِيرَةُ " کا لفظ وارد ہوا ہے علمائے کرام اس سے مراد تیز رفتار گھوڑے کی مسافت لیتے ہیں۔ اس پورے مضمون میں اسی کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اور آسانی کی خاطر فاصلوں کو صرف میلوں میں بیان کیا گیا ہے تاکہ کسی قسم کا کوئی اشتباہ اور ابہام نہ رہے۔
یہ پوسٹ ۱۱۰ دن میں تیار ہوئی ہے۔ اگر آپ اسے ۱۱۰ منٹ نہیں دے سکتے تو اس پر کسی قسم کا تبصرہ نہ کریں۔ حسنِ ظن رکھتے ہوئے اسے پڑھیں کیونکہ مصنف خود بھی علمائے کرام سے حسنِ ظن رکھتا ہے اور نبی کریم کے ہر فرمان پر مصنف کو کامل یقین ہے۔
تمام احادیثِ مبارکہ دعوتِ اسلامی کے اردو سافٹویئر " المدینہ لائبریری" اور عربی سافٹویئر "المکتبۃ الشاملہ" سے پیش کی گئی ہیں۔ اور دیگر سائنسی مواد انٹرنیٹ بالخصوص وکی پیڈیا سے لیا گیا ہے۔


&                  مَسِيرَةُ ۔۔۔ احادیث کا ایک پراسرار لفظ
اللہ کے حبیب نے بارہا زمین و آسمان کے طویل فاصلوں کا ذکر فرمایا ہے۔ زمینی فاصلے بہت کم ہوتے ہیں لیکن بات جب آسمان کی ہو تو زمینی مروجہ نظامِ اکائی کچھ کام نہیں آتا۔ سائنس کے ایک ادنیٰ طالبعلم ہونے کے ناطے ہم جانتے ہیں کہ آسمانی فاصلے زمینی فاصلوں کی بہ نسبت نہ صرف یہ کہ بہت ہی طویل ہوتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہیں زمینی حوالوں سے کبھی جانا ہی نہیں جا سکتا۔ اسی لئے اللہ کے پیارے حبیب نے جب آسمانی فاصلوں کی بات کی تو ایک ایسا سادہ لیکن کارآمد سسٹم متعارف کرایا جو کہ آج بھی ساری دنیا کے سائنسدان استعمال کرتے ہیں یعنی فاصلوں کو وقت کی اکائی کے ساتھ بیان کرنا۔ اور اس کیلئے آپ نے "مسیرۃ" کا لفظ استعمال فرمایا۔ یہ بہت پراسرار لفظ ہے اور یہ تحریر اسی لفظ کی تشریح کی ایک عاجزانہ کوشش ہے۔
&                  اللہ کے حبیب کا طریقہ
رسول اللہ جب آسمانی فاصلوں کا تذکرہ فرماتے تو اکثر "اتنے برس کی راہ " کا کلمہ ارشاد فرماتے جیسے کہ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں مثالیں ملتی ہیں:
1.    زمین و آسمان کے درمیان پانسو برس کی راہ ہے۔
2.    پلِ صراط 15 ہزار برس کی راہ ہے۔
3.    جہنم میں ایک چٹان 70 برس تک گرتی رہے پھر بھی تہ تک نہ پہنچے گی۔
4.    معراج میں آپ نے 70 ہزار پردے نور کے طے فرمائے اور ہر پردے کے مابین پانسو برس کی راہ ہے۔
5.    جو مسلمان بھائی کو کھانا کھلائے اسے جہنم سے سات کھائیاں دور کردیا جائے گا جن میں سے ہر ایک دوسری سے پانسو برس کی راہ پر ہے۔
6.    جنتی دروازے کی چوڑائی 70 برس کی راہ ہے۔
7.    جنت کی خوشبو 40 برس کی راہ سے پہنچتی ہے۔
8.    جنت کی خوشبو پانسو برس کی راہ سے پہنچتی ہے۔
9.    جنت کی خوشبو ہزار برس کی راہ سے پہنچتی ہے۔
10.           جنتی ایک ہزار برس کی راہ تک اپنے ملک کو قریب کی طرح دیکھے گا۔
11.           جنت کے سو درجے ہیں اور ہر دو کے درمیان سو برس کی راہ ہے۔
12.           سدرۃُ المنتہیٰ یا مقامِ جبریل پچاس ہزار برس کی راہ ہے۔
13.           جہنم ایک برس (اور بعض مفسرین کے نزدیک سو برس) کی راہ سے کافروں کو دیکھے گی تو اس قدر جوش مارے گی کہ کافر اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا سنیں گے۔
&                  پانسو برس کی راہ (مسیرۃ)سے کیا مراد ہے؟
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے حبیب نے جب اس طرح فاصلوں کو بیان فرمایا ہے تو وہاں اس سے مراد وہ فاصلہ ہوتا ہے جو ایک تیز رفتار گھڑ سوار بتائی گئی مدت میں طے کر لے اور اس دوران نہ تو اس پر تھکن لاحق ہو اور نہ وہ کہیں درمیان میں رکے۔
&                  گھوڑے کی تیز ترین رفتار کا عالمی ریکارڈ
ایک گھوڑے کی تیز ترین رفتار 54.68  میل فی گھنٹہ ناپی گئی ہے جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ چونکہ یہ رفتار تیز ترین گھوڑے کی رفتار ہے اس لئے ہم اسی گھوڑے کی رفتار کو آئیڈیل مانتے ہوئے اپنے مضمون کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔
آپ ذیل کے لنک سے نہ صرف گھوڑے بلکہ دیگر جانوروں کی رفتاریں معلوم کر سکتے ہیں
&                  زمینی مسافت کی رفتار
زمینی مسافتیں آسمانی مسافتوں کی مانند نظری نہیں عملی ہیں۔ ایک گھڑ سوار ہر وقت سفر نہیں کرسکتا، اسے اپنی اور اپنی سواری کی مختلف ضروریات کے تحت رکنا پڑتا ہے۔ دن بھر میں صرف ایک دو منزل ہی سفر ہوتا ہے اور باقی وقت پڑاؤ ڈالا جاتا ہے۔
مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک کا فاصلہ محض 914 میل ہے، لیکن یہ فاصلہ اس دور میں ایک ماہ میں طے ہوتا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ شبِ معراج سرکار دو عالم نے مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا سفر طے فرمایا۔ یہ فاصلہ جانے اور واپس آنے کے اعتبار سے دو ماہ کی مسافت ہے جیسا کہ تفسیر طبری میں ہے:
تفسير الطبري : عن الحسن، في قوله (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ) قال: قال كفار أهل مكة: أليس من كذب ابن أبي كبشة أنه يزعم أنه سار مسيرة شهرين في ليلة.
یعنی امام حسن رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ کفار مکہ نے یہ کہا کہ ابنِ ابی کبشہ (نبی اکرم ) کا یہ فرمانا کہ میں نے ایک ہی رات میں دو ماہ کی مسافت طے کی (معاذ اللہ )جھوٹ پر مبنی ہے۔
یعنی اس زمانے میں لوگ جانتے تھے کہ مکہ سے بیت المقدس تک کا فاصلہ تیز رفتار گھوڑے پر ایک ماہ میں طے ہوتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ مکہ سے بیت المقدس تک کا یہ فاصلہ 914 میل سے زیادہ نہیں۔ اور 914 میل ایک ماہ میں طے کریں تو یہ اوسطاً 30 میل روزانہ کے بنتے ہیں۔ اور ایک منزل میں عموماً چوتھائی حصہ دن سفر ہوتا ہے اس لئے یہ تقریباً پیدل ہی کی رفتار رہ جاتی ہے، یعنی تین چار میل فی گھنٹہ۔ یہ ایک عام انسان کے چلنے کی رفتار کے برابر ہے۔
&                  نوٹ
زمینی فاصلوں اور شرعی سفر میں بھی پیدل کی رفتار کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اسی لئے تین دن کے سفر کو علمائے کرام نے 57 میل بتایا ہے جس کے بعد نمازوں کے قصر یا روزوں کے افطار کا حکم دیا جاتا ہے۔ اور احادیثِ مبارکہ میں جہاں کہیں زمینی فاصلے بیان کئے گئے ہیں ان میں اکثر پیدل ہی کا خیال کیا گیا ہے۔ یہ تین میل فی گھنٹہ ہی بنتا ہے۔
فرسخ اکثر اسلامی اصطلاحات میں استعمال ہوتا ہے ایک فرسخ تین میل یا موجودہ 5544 میٹر یا 12000 قدم یا اٹھارہ ہزار فٹ کے فاصلے پر مشتمل ہوتا ہے۔ حنفیہ اور مالكیہ کے نزدیک ایک فرسخ 5565 میٹر ہے جبکہ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک 11130 میٹر ہے۔
سست رفتار گھوڑے کی رفتار(1.27میل فی گھنٹہ) سے زمینی مسافتیں
شمار
مدتِ مسافت
فاصلہ میل
1
ایک منٹ کی راہ
0.02 میل
2
ایک گھنٹہ کی راہ
1.27 میل
3
ایک دن کی راہ
30.4 میل
4
تین دن کی راہ
91.4 میل
5
ایک ہفتہ کی راہ
213.2 میل
6
ایک مہینہ کی راہ
914 میل
7
دو مہینے کی راہ
1828 میل
8
ایک برس (اسلامی) کی راہ
10815 میل
9
818 دن کی راہ
24872 میل (محیطِ ارض)

اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ گھوڑے کی تیز ترین رفتار کو ہم نے کیوں آئیڈیل رکھا ہے۔ کیونکہ آسمانی فاصلے نظری ہیں جس میں ایک گھڑ سوار بنا رکے اور بنا تھکے سفر جاری رکھتا ہے۔ اور یہی علمائے کرام نے فرمایا ہے۔ اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ فاصلہ اس مقدار سے زیادہ نہیں ہوگا۔
&                  آئیڈیل گھوڑے کا طے کردہ فاصلہ
گھوڑے کی اسی تیز ترین رفتار یعنی 54.6 میل فی گھنٹہ کو معیار بناتے ہوئے آئیے کچھ حساب کرتے ہیں کہ یہ گھوڑا یا اس کا ماہر گھڑ سوار کتنا فاصلہ کتنے عرصے میں طے کرے گا۔ یہ چارٹ حوالے کیلئے ہے، اس پوسٹ میں آپ کو اس کی بار بار ضرورت پڑے گی۔
آئیڈیل گھوڑے کی رفتار(54.6 میل فی گھنٹہ) سے مسافتیں آسمانی مسافتوں کیلئے
شمار
مدت
فاصلہ میل
فاصلہ الفاظ میں
روشنی کی رفتار سے
1
ایک منٹ
0.91
تقریباً ایک میل

2
ایک گھنٹہ
54.6
پچپن میل
0.00029 سیکنڈ
3
ایک دن
1310.4
تیرہ سو میل
0.007 سیکنڈ
4
تین دن
3931.2
چار ہزار میل
0.021 سیکنڈ
5
ایک ہفتہ
9172.8
نو ہزار میل
0.049 سیکنڈ
6
ایک مہینہ
39312
چالیس ہزار میل
0.21 سیکنڈ
7
4 مہینے 22 دن
186411
ایک لاکھ چھیالیس ہزار میل
ایک سیکنڈ
8
ایک اسلامی سال
465192
چار لاکھ پینسٹھ ہزار میل
2.49 سیکنڈ
9
40 سال
18607680
ایک کروڑ 86 لاکھ میل
ایک منٹ 40 سیکنڈ
10
60 سال
27911520
دو کروڑ 79 لاکھ میل
2 منٹ 29 سیکنڈ
11
70 سال
32563440
سوا تین کروڑ میل
2 منٹ 55 سیکنڈ
12
71 سال
33028632
تین کروڑ 30 لاکھ میل
2 منٹ 57 سیکنڈ
13
72 سال
33493824
تین کروڑ 34 لاکھ میل
2 منٹ 59 سیکنڈ
14
73 سال
33959016
تین کروڑ 39 لاکھ میل
3 منٹ 2 سیکنڈ
15
80 سال
37215360
تین کروڑ 72 لاکھ میل
3 منٹ 19 سیکنڈ
16
100 سال
46519200
چار کروڑ 65 لاکھ میل
4 منٹ 9 سیکنڈ
17
500 سال
232596000
سوا تئیس کروڑ میل
20 منٹ 47 سیکنڈ
18
ہزار سال
465192000
چھیالیس کروڑ 65 لاکھ میل
41 منٹ 35 سیکنڈ
19
2 ہزار سال
930384000
93 کروڑ میل
1.3 گھنٹے
20
4 ہزار سال
1860768000
ایک ارب 86 کروڑ میل
2.7 گھنٹے
21
5 ہزار سال
2325960000
دو ارب 32 کروڑ میل
3.4 گھنٹے
22
7 ہزار سال
3256344000
سوا تین ارب میل
4.8 گھنٹے
23
15 ہزار سال
6977880000
6 ارب 97 کروڑ میل
10.3 گھنٹے
50 ہزار سال
23259600000
سوا تئیس ارب میل
1.44 دن
25
ساڑھے تین کروڑ سال
16281720000000
162 کھرب میل
2.84 سال
26
7 کروڑ سال
32563440000000
325 کھرب میل
5.69 سال
27
63 کروڑ سال
293070960000000
2930 کھرب میل
51.25 سال
Distances Reference Chart

&                  روشنی کا ایک سیکنڈ آئیڈیل گھوڑے کے 142 دن
آپ اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ایک قمری اسلامی سال میں ایک تیز رفتار گھوڑا چار لاکھ پینسٹھ ہزار میل کا فاصلہ طے کرے گا۔ کیلکولیشنز میں آسانی کیلئے اسے "روشنی کا ایک سیکنڈ گھوڑے کے 142 دن کے برابر ہوتا ہے۔" سے یاد رکھ سکتے ہیں۔ یا یہ کہ روشنی کا ایک سیکنڈ تیز رفتار آئیڈیل گھوڑے کے چار مہینے اور بائیس دن سفر کے برابر ہوتا ہے۔
&                  گیارہ ہزار کتابوں کا خلاصہ
اب ہم ان مسافتوں کی بات کریں گے جن کا قرآن و حدیث میں تذکرہ ہے۔ ہم نے اس کتاب میں ان کو جمع کرنے کی اپنی سی ایک کوشش کی ہے اور کم و بیش گیارہ ہزار کتابوں سے (جن میں میری اپنی چھوٹی سی ذاتی لائبریری بھی شامل ہے) مدد لی گئی ہے۔ اس اعتبار سے اپنی نوعیت کی یہ واحد کتاب ہو گی کہ اپنے موضوع پر گیارہ ہزار کتابوں کا خلاصہ ہو۔
جو مسافتیں کثرت سے احادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی ہیں ان کا ایک چارٹ اوپر دیا گیا ہے۔ باقی مسافتیں آسان ضرب تقسیم سے معلوم کی جا سکتی ہیں۔
&                  اس کتاب کے موضوعات
اس کتاب میں آسمان و زمین، جنت و دوزخ، عرش و کرسی، لوح و قلم، اعمالِ مسلم، معراج شریف اور اسی طرح دیگر مسافتوں کے موضوعات رکھ کر ابواب میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے اور آخر میں مسافتوں کے حوالے سے چند اشکالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اللہ سے امید ہے کہ ہماری فکر کو خطا سے محفوظ فرمائے اور ہماری اس کاوش کو اپنے فضل و کرم سے اپنی بلند بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین!
أ‌.                      آسمان و زمین
&                  آسمان کیا ہے؟
آسمان ایک چھت کی مانند ہے۔ سائنسدانوں کے نزدیک آسمان صرف لا متناہی فاصلے کا نام ہے لیکن در حقیقت یہ ایک وجود رکھتا ہے، اس میں دروازے ہیں جن کے بارے میں سرکار دو عالم نے اپنے مبارک سفرِ معراج سے واپسی پر اطلاع عطا فرمائی، ہم سے اور ہماری زمین سے اس کا معینہ ایک فاصلہ ہے اور چھت ہی کی طرح اس کی ایک موٹائی بھی ہے۔ اور ہر آسمان پر کثیر فرشتوں کی رہائش ہے۔ قرآنِ مقدس میں کئی چیزوں کیلئے سماء کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے بادل، چھت، کششِ ارضی کی مخالف سمت یعنی اوپر کی سمت۔ آسمان اگر صرف ایک لا متناہی فاصلہ ہوتا جیسا کہ سائنسدانوں کا مزعوم ہے تو اس کیلئے سات کا لفظ بے معنی ہوتا۔ کیونکہ لا متناہی فاصلے کیلئے صرف ایک آسمان ہی کافی ہوتا۔
&                  سات آسمانوں کے نام اور ان کے رنگ
مکاشفۃ القلوب میں ہے کہ ہر آسمان کا اپنا اپنا حجم ہے، کہتے ہیں کہ
1.    پہلا آسمان دودھ سے بھی زیادہ سفید ہے مگر کوہ قاف کی سبزی کی وجہ سے یہ ہرا نظر آتا ہے، اس آسمان کا نام رقیعہ ہے۔
2.    دوسرے آسمان کا نام فیدوم یا ماعون ہے اور وہ ایسے لوہے کا ہے جس سے روشنی کی شعاعیں پھوٹی پڑتی ہیں ۔
3.    تیسرے آسمان کا نام ملکوت یا ہاریون ہے اور وہ تانبے کا ہے۔
4.    چوتھے آسمان کا نام زَاہرہ ہے اور وہ آنکھوں میں خیرگی پیدا کرنے والی سفید چاندی سے بنا ہے۔
5.    پانچویں آسمان کا نام مزینہ یا مسہرہ ہے اور وہ سرخ سونے کا ہے۔
6.    چھٹے آسمان کا نام خالصہ ہے اور وہ چمکدار موتیوں سے بنایا گیا ہے۔
7.    ساتویں آسمان کا نام لابیہ یا دامعہ ہے، وہ سرخ یاقوت کا ہے اور اسی میں بیت المعمور ہے۔
&                  باتیں بیت المعمور کی
بیت المعمور کے چار ستون ہیں : ایک سرخ یاقوت کا ، دوسرا سبز زبرجد کا تیسرا سفید چاندی کا اور چوتھا سرخ سونے کا ہے۔ بیت المعمور کی عمارت سرخ عقیق کی ہے ہر روز وہاں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور ایک مرتبہ داخل ہو جاتے ہیں پھر قیامت تک انہیں دوبارہ داخلے کا موقع نہیں ملے گا۔
&                  آسمان افضل ہے یا زمین
             قولِ معتبر یہ ہے کہ زمین آسمان سے افضل ہے کیونکہ یہ انبیاء کا مولد و مدفن ہے اور زمین کے سب طبقات میں بہتر اوپر والا طبق ہے جس پر خلقِ خدا آباد اور نفع اندوز ہوتی ہے۔
خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا
&                  آسمان و زمین (کائنات) سے پچاس ہزار برس پہلے
 مواہب لدنیہ و مطالع المسرات میں ہے:
اخرج مسلم فی صحیحہ من حدیث عبداﷲ بن عمر وبن العاص عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلّم انہ قال ان اﷲ عزوجل کتب مقادیر الخلق قبل ان یخلق السمٰوٰت والارض بخمسین الف سنۃ فکان عرشہ علی الماء، ومن جملۃ ماکتب فی الذکر وھوام الکتاب ان محمدا خاتم النبیین۔
یعنی صحیح مسلم شریف میں حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے ہے رسول اﷲ فرماتے ہیں عزوجل نے زمین و آسمان کی آفرینش سے پچاس ہزار برس پہلے خلق کی تقدیر لکھی اور اس کا عرش پانی پر تھا من جملہ ان تحریرات کے لوح محفوظ میں لکھا بیشک محمد خاتم النبیین ہیں ۔
سبحان اللہ! اس پیاری حدیث شریف سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے ختمِ نبوت کا عقیدہ کتنا اہم ہے۔ اور کیوں اہم نہ ہوگا کہ یہ عقیدہ اللہ کے محبوب کی عظمت کے بارے میں ہے۔ وہی عظمت والا پیارا حبیب جس کے بارے میں کائناتوں کے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ
لولاك لما خلقت الافلاك ولما أظهرت الربوبية یعنی اے محمد ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ فرماتا اور نہ ہی اپنی ربوبیت کو ظاہر فرماتا۔
جس محبوب کیلئے دنیا کی محفل سجی اور جس کو ختمِ نبوت کا تاج پہنایا گیا دنیا بنانے والے پروردگار نے اسی محبوب کی شان دنیا بنانے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی لوحِ محفوظ پر تحریر فرما دی۔ اور کیا ہوتی ہے محبت؟
&                  جوہر۔۔۔ اولین تخلیق
تفسیر نسفی اور تفسیر روح البیان میں حضرت ابن عباس کا یہ قول موجود ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے جوہر کو پیدا فرمایا جس کی لمبائی چوڑائی ایک ہزار اور دس ہزار سال کی مسافت ہے۔
تفسیر نسفی و روح البیان: قال ابن عباس رضى الله عنهما وعنه أنه قال أول ما خلق الله تعالى جوهرة طولها وعرضها مسيرة ألف سنة في مسيرة عشرة آلاف سنة
ہزار سال میں آئیڈیل گھوڑا چھیالیس کروڑ پینسٹھ لاکھ میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ اور دس ہزار سال میں ساڑھے چار ارب میل۔
ہم نہیں جانتے کہ یہ جوہر کیا ہے۔ سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ دنیا کی ابتداء ایک عظیم دھماکے سے ہوئی۔ لیکن یہ دھماکا کس چیز میں ہوا ؟ اس کے بارے میں وہ کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ جوہر جس کا حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے تذکرہ کیا یہی کائنات کا عنصرِ اعظم (Real Building Block) ہو۔
&                  آسمان کیا ہے اور کتنی بلندی پر ہے؟
روایت ہے حضرت ابو ذر غفاریؓ سے، آپ فرماتے ہیں جب کہ نبی اور آپ کے صحابہ بیٹھے تھے کہ اچانک ان پر بادل آیا تو نبی نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ رسول ہی خوب جانتے ہیں۔ فرمایا یہ بادل ہے یہ زمین کے ساقی ہیں اللہ اسے اس قوم کی طرف لے جاتا ہے جو نہ اس کا شکر کریں نہ اس سے دعا مانگیں۔
 پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے، صحابہ نے عرض کیا اللہ رسول خوب جانتے ہیں، فرمایا آسمان ہے، محفوظ چھت ہے اور روکی ہوئی موج ۔
پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ عرض کیا اللہ رسول ہی جانیں، فرمایا تمہارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے ۔
پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے، انہوں نے عرض کیا اللہ رسول ہی خوب جانیں، فرمایا دو آسمان ان کے درمیان فاصلہ پانچ سو سال ہے۔
پھر فرمایا اسی طرح حتیٰ کہ سات آسمان گنوائے، ہر دو آسمانوں کے درمیان وہ فاصلہ ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے ۔
پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ ان سب کے اوپر کیا ہے، عرض کیا کہ اللہ رسول ہی خوب جانیں، فرمایا ان کے اوپر عرش ہے اس کے اور آسمان کے درمیان وہ فاصلہ ہے جو دو آسمانوں کے درمیان ہے ۔
پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ وہ کیا ہے جو تمہارے نیچے ہے؟ صحابہ نے عرض کی اللہ رسول ہی خوب جانیں، فرمایا وہ زمین ہے ۔
پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس کے نیچے کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ رسول ہی خوب جانیں، فرمایا کہ اس کے نیچے دوسری زمین ہے جن دونوں کے درمیان پانچ سو سال ہیں حتیٰ کہ سات زمینیں شمار فرمائیں ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے،
پھر فرمایا اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم ایک رسی نیچی زمین کی طرف لٹکاؤ تو اللہ پر ہی گرے گی۔ پھر قرأت فرمائی: وہ اول ہے اور آخر ظاہر ہے اور باطن اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
&                  دوسری زمین کتنی دور ہے؟
نور کے پیکر، تمام نبیوں کے کا فرمانِ عالیشان ہے: " 7 زمینوں میں سے ہر زمین کے درمیان اور جو اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے 500 سال کی مسافت ہے۔"
&                  دوسری زمین کونسی ہے اور اس سے کیا مراد ہے؟
اپنی زمین سے ہم کچھ واقف ہیں لیکن یہ دوسری زمین سے کیا مراد ہے؟ اس سوال کے کئی ممکنہ جوابات ہو سکتے ہیں۔
1.    ہماری زمین کا چاند
2.    نظامِ شمسی کے دیگر سیارے جیسے عطارد اور مریخ وغیرہ
3.    ہمارے سولر سسٹم کے کسی دوسرے سیارے کے چاند جیسے مشتری وغیرہ کے۔
4.    کسی دوسرے ستارے کے گرد گھومنے والے سیارے۔
5.    کسی دوسرے کہکشانی نظام میں گھومنے والے ستاروں کے سیارے۔
اصلی علم تو اللہ ﷻ کے پاس ہی ہے اور وہی غیبوں کا بہت جاننے والا ہے۔ دوسری زمین کیسی ہو تو بعد میں ہے پہلے تو ہماری زمین کیسی ہے اس کا ٹھیک سے علم ہو۔ میں نے جب قرآنِ مجید میں "الارض " کا لفظ تلاش کیا تو 444 آیات میں 466 بار اس لفظ کو پایا اور میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ہمارے پروردگار نے کتنی تفصیل سے ہمیں یہ بتایا ہے کہ زمین کیسی ہے۔ مجھے 65 آیات وہ ملیں جس میں زمین کی بحیثیت زمین وضاحت کی گئی ہے۔ تمام آیات پیش کروں تو بلا شبہ اس کتاب کا مضمون بہت طویل ہو جائے گا اور نہ ہی زمین کے بارے میں یہ معلومات پیش کرنا اس کتاب کا مقصد ہے۔ یہ تو صرف مسافتوں سے متعلق ہے۔ لیکن ان تمام آیات میں زمین کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے اس کا ایک مختصر سا خلاصہ ضرور پیش کرنا چاہوں گا۔
&                  پہلی زمین کیسی ہے؟
زمین بچھونے اور فرش کی مانند ہے، اس پر سب کچھ ہمارے لئے تخلیق کیا گیا ہے، یہ ایک مختصر مدت کا پرسکون اور قرار والا ٹھکانہ ہے، اس پر دن رات بدلتے ہیں، پانی ہے جس میں کشتیاں چلتی ہیں، زمین و آسمان کے درمیان بادل ہیں جن سے پانی برستا ہے، اس میں ری سائیکلنگ کی اتنی زبردست صلاحیت ہے جیسے پہلے کوئی مردہ ہو پھر زندہ ہوجائے، اس میں جاندار چل پھر رہے ہیں، ہوائیں چلتی ہیں، زمین و آسمان کے درمیان بادل ہیں، ہم اسی میں پیدا ہوئے ہیں، کہیں باہر پیدا ہوکر یہاں نہیں آتے، مٹی اتنی نرم ہے کہ کوا اپنی چونچ سے کھود سکے، دن رات کا آنا جانا ہے، ہمارے رہنے کا ٹھکانہ ہے، اس میں ایک نہیں بے شمار مخلوقات ہیں، زمین ہی کی نہیں، آسمان کی بہت سی برکتیں بھی اس میں ہیں، اس کے اپنے مشارق و مغارب ہیں، سبزے سے لہلہا جاتی ہے، پانی جذب کر لیتی ہے، ساری عمر اس میں رہ سکتے ہیں، نباتات اتنی جیسے خزانہ، گول ہونے کے باوجود پھیلی ہوئی، نہروں اور پہاڑوں والی، ہر قسم کے پھلوں والی، ایک ہونے کے باوجود مختلف خطّوں میں مختلف اثر والی، قطبین یعنی اطراف سے دبائی ہوئی، ہر موزون شئے کی حاملہ، قرار و سکون دینے والی، نہروں اور اندرونی راستوں والی، مختلف نباتات والی، اپنے دو دریاؤں کے بیچ آڑ رکھنے والی، مرنے کے بعد جی اٹھنے والی، بارش اور بجلی والی، اللہ کی رحمت کے آثار رکھنے والی، خلاء میں لڑھک کر بھٹک جانے سے محفوظ بنائی ہوئی، بہتے دریاؤں والی، بہت سی چیزوں کے دخول اور خروج والی، قابلِ کاشت، سورج اور چاند والی، پاکیزہ رزق کی حاملہ، مخلوقات کے لائق، میووں کے لائق، گولائی کے باوجود کسی بساط کی طرح پھیلی ہوئی، ماں کی آغوش کی طرح اپنے اندر سمیٹ لینے والی (کفاتا)، پودوں کیلئے کھل اور پھٹ جانے والی، بہترین سطح والی۔
زمین کی مندرجہ بالا صفات قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔
&                  دوسری زمینوں کی مخلوقات
در منثور میں علامہ سیوطیؒ ایک حدیث شریف بیان کرتے ہیں نبی کریم اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے تو وہ خاموش ہوگئے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے سورج کو دیکھا تو سوچنے لگے کہ یہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے اور ہم خلقِ خدا کے بارے میں غور کر رہے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایسا ہی کیا کرو کہ اللہ کی مخلوق میں تفکر کرو لیکن اللہ ﷻ کی ذات میں غور و فکر مت کیا کرو۔ بیشک مغرب سے پرے اللہ کی ایک زمین ہے، اس کی سفیدی اور نور سورج کی مسافت سے چالیس دن ہے۔ اس میں ایسی مخلوق ہے جنہوں نے ایک لمحہ بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ کیا وہ اولادِ آدم سے ہیں۔ فرمایا کہ انہیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ آدم پیدا بھی ہوئے ہیں یا نہیں۔ پوچھا گیا کہ پھر ابلیس ان سے کہاں ہے؟ فرمایا کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ابلیس پیدا بھی ہوا ہے یا نہیں۔
الدر المنثور في التفسير بالمأثور: وَأخرج أَبُو الشَّيْخ عَن أبي أُميَّة مولى شبْرمَة واسْمه الحكم عَن بعض أَئِمَّة الْكُوفَة قَالَ: قَالَ نَاس من أَصْحَاب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقصد نحوهم فَسَكَتُوا فَقَالَ: مَا كُنْتُم تَقولُونَ قَالُوا: نَظرنَا إِلَى الشَّمْس فتفكرنا فِيهَا من أَيْن تَجِيء وَمن أَيْن تذْهب وتفكرنا فِي خلق الله فَقَالَ: كَذَلِك فافعلوا تَفَكَّرُوا فِي خلق الله وَلَا تَفَكَّرُوا فِي الله
فَإِن لله تَعَالَى وَرَاء الْمغرب أَرضًا بَيْضَاء بياضها ونورها مسيرَة الشَّمْس أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِيهَا خلق من خلق الله لم يعصوا الله طرفَة عين قيل: يَا رَسُول الله من ولد آدم هم قَالَ: مَا يَدْرُونَ خلق آدم أم لم يخلق قيل: يَا نَبِي الله فَأَيْنَ إِبْلِيس عَنْهُم قَالَ: لَا يَدْرُونَ خلق إِبْلِيس أم لم يخلق
جمع الجوامع میں بھی یہی مفہوم حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک حدیث شریف کا بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اس کے مکین روحانیین ہیں۔
جمع الجوامع: "إِنَّ للَّه أرْضًا مِنْ وَرَاءِ أَرْضِكمْ هذه، بيضاءَ، نُورُهَا وَبَيَاضُها مسيرةُ شَمْسِكُمْ هذه أربعين يومًا، فيها عبادٌ للَّه لم يَعْصُوه طرفةَ عَيْنِ، مَا يَعْلَمُونَ أنَّ اللَّه خَلَقَ المَلَائِكَةَ وَلَا آدَمَ وَلَا إِبليسَ، هم قَوْمٌ يُقَالُ لَهُمْ الرُّوحَانِيونَ، خَلَقَهُمْ اللَّه مِنْ ضَوْءِ نُورِهِ"
الدر المنثور في التفسير بالمأثور میں حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے منقول ہے کہ ہم مسجد میں حلقہ در حلقہ تھے کہ رسول اللہ تشریف لائے اور ہمارا حال دریافت فرمایا۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم یہ غور و فکر کر رہے ہیں کہ سورج کیسے طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ فرمایا بہت خوب۔ مخلوقات میں یہ غور و فکر کیا کرو اور خالق کی ذات میں تفکر نہ کیا کرو۔ بیشک اللہ جو چاہتا ہے، جیسا چاہتا ہے، پیدا فرماتا ہے۔ اور تم اس پر تعجب کرتے ہو۔ بیشک قاف سے پرے سات سمندر ہیں، ہر سمندر پان صد برس کی مسافت ہے، اس سے پرے سات زمینیں ہیں جس کا نور اس کے لوگوں پر چمکتا ہے۔ اس سے پرے ستر ہزار امتیں ہیں جو پرندوں کی مثل ہیں، ہوا میں اڑتی ہیں اور ہمیشہ تسبیح میں مشغول ہیں۔ ان سے پرے ستر ہزار امتیں ہیں جو ہوا سے بنی ہیں۔ پس ان کا کھانا اور پینا سب ہوا ہے۔ ان کے کپڑے ہوا سے بنے ہیں، ان کے برتن ہوا سے بنے ہیں، اور ان کے مویشی بھی ہوائی ہیں۔ بالکل آرام نہیں کرتے، وہ انہیں پھر زمین کی طرف دھکیل دیتے ہیں قیامت تک۔ ان کی آنکھیں ان کے سینوں پر ہیں اور ایک سوتی اور دوسری جاگتی ہے۔ ان کا رزق ان کے سروں پر ہوتا ہے۔ اس سے پرے عرش کا سایہ ہے۔ اس سائے میں ستر ہزار امتیں ہیں جو نہیں جانتی کہ اللہ نے آدم اور ان کی اولاد کو پیدا کیا ہے۔ اور یہ کہ ابلیس اور اس کی ذریت پیدا ہوئے ہیں یا نہیں، اور یہی اللہ پاک کے اس فرمان کا مفہوم ہے کہ وہ پیدا فرماتا ہے جسے تم نہیں جانتے۔
وَأخرج أَبُو الشَّيْخ عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: دخل علينا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَنحن فِي الْمَسْجِد حلق حلق فَقَالَ لنا: فيمَ أَنْتُم قُلْنَا: نتفكر فِي الشَّمْس كَيفَ طلعت وَكَيف غربت قَالَ: أَحْسَنْتُم كونُوا هَكَذَا تَفَكَّرُوا فِي الْمَخْلُوق وَلَا تَفَكَّرُوا فِي الْخَالِق فَإِن الله خلق مَا شَاءَ لما شَاءَ وتعجبون من ذَلِك إِن من وَرَاء (ق) سبع بحار كل بَحر خَمْسمِائَة عَام وَمن وَرَاء ذَلِك سبع أَرضين يضيء نورها لأَهْلهَا وَمن وَرَاء ذَلِك سبعين ألف أمة خلقُوا على أَمْثَال الطير هُوَ وفرخه فِي الْهَوَاء لَا يفترون عَن تَسْبِيحَة وَاحِدَة وَمن وَرَاء ذَلِك سبعين ألف أمة خلقُوا من ريح فطعامهم ريح وشرابهم ريح وثيابهم من ريح وآنيتهم من ريح ودوابهم من ريح لَا تستقرحوا فَردُّوا بهم إِلَى الأَرْض إِلَى قيام السَّاعَة أَعينهم فِي صدروهم ينَام أحدهم نومَة وَاحِدَة ينتبه وَعند رَأسه رزقه وَمن وَرَاء ذَلِك ظلّ الْعَرْش وَفِي ظلّ الْعَرْش سَبْعُونَ ألف أمة مَا يعلمُونَ أَن الله خلق آدم وَلَا ولد آدم وَلَا إِبْلِيس وَلَا ولد إِبْلِيس وَهُوَ قَوْله تَعَالَى (ويخلق مَا لَا تعلمُونَ) (سُورَة النَّحْل 8)
معترك الأقران في إعجاز القرآن میں علامہ سیوطی حضرت عبد اللہ بن سلام سے ایک حدیث شریف لائے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:
زمین کو جھاگ سے پیدا کیا گیا ہے، جھاگ کو موج سے، موج کو سمندر سے، سمندر کو تاریکی سے۔ زمین کا ٹہراؤ پہاڑوں سے ہے، پہاڑوں کا کوہ قاف سے، جو سبز زمرّد سے ہے اور آسمان بھی اس وجہ سے سبز ہیں۔ اس پہاڑ کی بلندی پانسو سال ہے اور گھیر ایک ہزار سال۔ اس کے پیچھے مشک کی بنی ستر زمینیں ہیں۔ اس کے پیچھے سونے کی بنی ستر زمینیں ہیں، ان کے پیچھے لوہے کی بنی ستر زمینیں ہیں۔ ان زمینوں کے پیچھے ستر ہزار عالم (دنیائیں) ہیں۔ ہر عالم میں اس قدر فرشتے ہیں کہ ان کی تعداد سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ فرشتے نہ آدم کو جانتے ہیں، نہ اس کی اولاد (انسانوں) کو اور نہ ہی وہ ابلیس سے واقف ہیں۔ ان کی تسبیح سات الفاظ ہیں : لا إله إلا الله، محمد رسول الله۔ ان کائناتوں کے پیچھے ایک سانپ (حیّۃ) ہے جس کی دم ان عالموں کا انتظام کرتی ہے۔ ساتویں زمین میں ملائکہ ہیں، چھٹی میں ابلیس اور اس کے مدد گار، پانچویں میں شیاطین، چوتھی میں سانپ، تیسری میں بچھو، دوسری میں جنّات اور پہلی میں انسان۔ یہ زمینیں ایک بیل پر ہیں۔ اس بیل کے چالیس ہزار سر ہیں اور اس کے دوسروں کا فاصلہ پانسو سال ہے۔ چٹان مچھلی کی پشت پر ہے اور مچھلی سمندر پر ہے جس کی گہرائی ہزار سال ہے۔ پانی ہوا پر ہے اور ہوا تاریکی پر، تاریکی جہنّم کی آگ پر اور آگ گیلی مٹی پر۔ اور گیلی مٹی کے نیچے کیا ہے، یہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
وفي الخبر أن عبد الله بن سلام أتى رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: يا محمد: مِنْ أي شيء خَلَق اللَهُ الأرض؟ قال: مِنْ زَبَد. قال: فمن أي شيء خلق الزبد؟ قال: من الْمَوْج. قال: فمن أي شيء خلق الموج؟ قال: خلق من البحر. قال: فمن أيِّ شيء خلق البحر؟ قال: من الظلمة. قال: يا محمد، فقرار الأرض من أي شيء؟ قال: بالجبال. قال: وقرار الجبال بأى شيء؟ قال: بجبل قاف. قال: وجبل قاف من أي شيء؟ قال: من زمردة خضراء وخضرة السماوات منه. قال: صدقت، فكم مسيرة علوه؟ قال: خمسمائة سنة. قال: صدقت فكم مسيره حواليه؟ قال: مسيرة ألف سنة. قال: صدقت. فهل وراء جَبل قاف شيء؟ قال: وراءه سبعون أرضاً من المسك. قال: فما وراءها؟ قال: سبعون أرضا من الذهب. قال: وما وراءها؟ قال سبعون أرضاً من الحديد. قال: فهل وراء هذه الأرضين شيء؟ قال عليه السلام: ومِنْ وراء هذه الأرضين سبعون ألف عالم، في كل عالم ملائكةٌ لا يَعْلَم عددَهم إلا الله، وهذه الملائكة لا يعلمهم آدم وبنوه ولا إبليس، وتسبيحهم سبْعُ كلمات: لا إله إلا الله، محمد رسول الله. قال: صدقت، هل وراء هؤلاء شيء؟ قال: نعم، حية أدارت ذَنبها على هذه العوالم. قال: صدقت. ثم قال: أخبرني عن سكان الأرضين. قال عليه السلام: في الأرض السابعة ملائكة، وفي السادسة إبليس وأعوانُه، وفي الخامسة الشياطين، وفي الرابعة الحيات، وفي الثالثة العقارب، وفي الثانية الجنّ، وفي الأولى الإنس قال: صدقت. فهذه الأرضون على أي شيء؟ قال: على الثور. قال: وكيف صفة الثور؟ قال: له أربعة آلاف رأس ما بين الرأسين مسيرة خمسمائة عام. قال: صدقتَ. أخبرني عن الصخرة على أي شيء هي؟ قال: على ظهر الحوت. قال: والحوت على أي شيء؟ قال: على بحر، والبحر قَعْره مسيرة ألف سنة. قال: صدقت. أخبرني عن ماء البحر على أي شيء؟ قال: على الريح. قال: والريح على أي شيء؟ قال: على الظلمة. قال: والظلمة على أي شيء؟ قال: على نار جهنم. قال: صدقت، ونار جهنم على أي شيء؟ قال: على الثرى. قال: صدقت. قال: فهل تحت الثرى شيء، قال عليه السلام: سؤالك هذا خطأ لا يعلم ما تحت الثرى إلا الله.

&                  پہلا آسمان کتنی بلندی پر ہے؟
تاجدارِ رِسالت نے ایک کھوپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''اگر اس کی مثل سیسے کا گولہ آسمان سے زمین کی طرف گرایا جائے، جو کہ 500 سال کی مسافت ہے، تو رات سے پہلے زمین پر پہنچ جائے، لیکن اگر جہنم کے سرے سے ایک زنجیر لٹکا کر گرائی جائے تو40 دن رات میں بھی اس کی تہہ تک نہ پہنچ سکے گا۔''
&                  نوٹ
1.    اگر کوئی جسم آسمان سے زمین کی طرف آزادی کے ساتھ فری فال کی صورت میں گرے تو 24 گھنٹوں میں وہ 22728704  یعنی دو کروڑ ستائیس لاکھ میل کا فاصلہ طے کر لے گا ۔ اور آدھے دن یا 12 گھنٹوں میں تقریباً 56 لاکھ میل کا فاصلہ طے کرے گا۔
2.    اگر کوئی جسم ہماری زمین پر ایک اسلامی سال یعنی 355 دن تک گرتا رہے تو زمین سے ٹکراتے وقت اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہو گی۔
اوپر کی ان دونوں مثالوں میں ثقلی اسراع کی قیمت 9.8 میٹر فی سیکنڈ فی سیکنڈ لی گئی ہے۔ اور اسے ان فاصلوں کیلئے مستقل فرض کیا گیا ہے۔
&                  پلِ صراط کی لمبائی سات ارب میل
حضرتِ سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃٌ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے : "پُل صراط کا سفر پندرہ ہزار سال کی راہ ہے ، پانچ ہزار سال اوپر چڑھنے کے ، پانچ ہزار سال نیچے اُترنے کے اور پانچ ہزار سال برابر کے ۔ پُل صراط بال سے زِیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے اور وہ جہنّم کی پشت پر بنا ہوا ہے اس پر سے وہ گزر سکے گا جو خوفِ خدا کے باعث کم زور ہوگا۔"
كوثر المعاني الدراري في كشف خبايا صحيح البخاري : قال: بلغني أن الصراط مسيرة خمسة عشر ألف سنة خمسة آلاف صعود وخمسة آلاف هبوط وخمسة آلاف مستوى
یعنی پل صراط کی کل لمبائی پندرہ ہزار برس کی ہے ۔ یہ تقریباً سات ارب میل بنتے ہیں۔ اوپر بنائے ہوئے ٹیبل کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ روشنی یہ فاصلہ 10.3 گھنٹوں یا 37,432 سیکنڈز میں طے کرے گی۔
تفسیر مظہری، تفسیر خازن اور تفسیر بغوی میں پلِ صراط کی لمبائی تین ہزار سال کی مسافت بھی بیان کی گئی ہے۔ اور اس پر چڑھنا، طے کرنا اور اترنا سب ایک ایک ہزار سال کا بیان کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔

&                  پلوٹو کا فاصلہ
آپ یقیناً حیران ہوں گے کہ اس تمام حساب کتاب سے کیا غرض ہے۔ ذرا وکیپیڈیا میں پلوٹو سیارے کے ضمن میں درج اس اقتباس کو پڑھیں تو شاید آپ کو کچھ اندازہ ہوگا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔
Light from the Sun takes about 5.5 hours to reach Pluto at its average distance (39.5 AU)
اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ پلوٹو سیارہ ہم سے چالیس سورجوں جتنا دور ہے۔ یعنی جتنا سورج ہم سے دور ہے، اس کا چالیس گنا۔ اور روشنی ساڑھے پانچ گھنٹوں میں سورج سے پلوٹو سیارے پر پہنچتی ہے۔
&                  ایک حیرت انگیز اتفاق
یہ واقعی ایک حیرت انگیز اتفاق ہے کہ اوپر کے حساب کے مطابق روشنی ساتوں آسمانوں کو جتنی دیر میں طے کرتی ہے، اتنا ہی وقت سائنس دانوں کے مطابق اسے سورج سے پلوٹو کا سفر طے کرنے میں لگتا ہے۔ اور اگر اسی فاصلے کو دگنا کردیا جائے تو پلِ صراط کا فاصلہ بن جاتا ہے، یعنی پندرہ ہزار برس یا سات ارب میل یا روشنی کے دس گھنٹے۔
پلوٹو ہمارے نظامِ شمسی کا آخری سیارہ ہے۔ اس کے بعد کوئی سیارہ نہیں۔ جس طرح ساتویں آسمان کے بعد کوئی آسمان نہیں۔ اور پلوٹو کے مدار کا رداس دو ارب اسّی کروڑ میل سے ساڑھے چار ارب میل رہتا ہے۔ یعنی 30 سے 50 سورجوں جتنا فاصلہ۔ اور قطر کی صورت میں یہ ساڑھے پانچ ارب میل سے نو ارب میل بنتا ہے۔ آپ یہ فاصلہ مشہور امریکی ادارے ناسا (NASA) کی اس ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ فرما سکتے ہیں:
یعنی پلِ صراط کی لمبائی کو چشمِ تصور سے اگر دیکھنا چاہیں تو پلوٹو کے مدار کو اپنے ذہن میں حاضر کر لیں۔ یہ فاصلہ ایک تیز رفتار آئیڈیل گھوڑا پندرہ ہزار برس میں طے کرے گا جو ہماری تعلیمات کے مطابق پلِ صراط کی لمبائی جتنا ہے۔
&                  سات آسمان، سوا تین ارب میل
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سات آسمانوں کا کل فاصلہ صرف سوا تین ارب میل بنتا ہے۔ اور پل صراط کی کل لمبائی اس اعتبار سے صرف سات ارب میل بنتی ہے۔ یعنی ایک ماہر گھڑ سوار کے حساب سے سات ہزار برس کا اتنا فاصلہ بنتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے شاعر نے
؎ یہ نیل گوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں
ہمت ہو پَر کُشا تو حقیقت میں کچھ نہیں
بلا شبہ ہمت اپنے پَر کھول لے تو بڑے سے بڑا فاصلہ اور مسافت طے کی جا سکتی ہے۔
&                  تختِ سلیمانؑ کی رفتار
قرآنِ پاک میں ہے
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ
"اور سلیمان کے بس میں ہوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ"
ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک کا فاصلہ ایک ماہ کی مسافت ہے۔ یہ کل 914 میل بنتا ہے۔ اور ایک منزل عموماً دن کا چھٹا یا چوتھائی حصہ ہوتا ہے۔
یعنی تختِ سلیمانؑ 914 میل کا فاصلہ 6 گھنٹے میں طے کیا کرتا تھا۔ اس حساب سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کی رفتار 152 میل فی گھنٹہ تھی۔ یعنی 245 کلومیٹر فی گھنٹہ۔ یہ عام کار سے تین چار گنا زیادہ رفتار ہے اور عام ہوائی جہاز کی رفتار کا تقریباً نصف ہے۔
سادہ الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کا تخت دن کی روشنی میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جا کر واپس آ سکتا ہے۔ یہ آپ کی کرامتِ رفتار نہیں تھی بلکہ نبوی شاہی شان کا ایک اظہار تھا۔
اور اگر ایک ماہ کی مسافت آئیڈیل گھوڑے کے سفر سے لگائیں جو ایک ماہ میں چالیس ہزار میل دوڑ لیتا ہے تو تختِ سلیمانؑ کی رفتار ساڑھے چھے ہزار میل فی گھنٹہ بنتی ہے، جو دنیا کے تیز ترین جنگی جہاز کی رفتار سے بھی زیادہ ہو گی۔ لیکن یہ بظاہر قرینِ قیاس دکھائی نہیں دیتا۔
&                  ہوائی جہاز اور جنگی جہاز
ایک مسافر بردار طیارے کی اوسط رفتار 500 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اور ایکس-15 جنگی طیارے کی زیادہ سے زیادہ رفتار 4473 میل فی گھنٹہ تو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
&                  ولی اللہ کی کرامتِ رفتار
حضرت سلیمانؑ نے بلقیس کا تخت لانے کا سوال دربار میں کیا کہ کون اس کا تخت جلد سے جلد میرے پاس لا سکتا ہے تو ایک جن نے کہا کہ میں آپ کا دربار برخاست ہونے سے پہلے لا سکتا ہوں۔ آپ نے اس سے بھی زیادہ جلدی لانے کیلئے فرمایا تو
قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
"اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کر دوں گا ایک پل مارنے سے پہلے ۔پھر جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا دیکھا، کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا۔"
تفسیر بغوی میں ہے کہ اس جن کا نام ذکوان تھا، اور تختِ بلقیس دو مہینے کی مسافت پر تھا۔ اسی میں ہے کہ تخت پلک جھپکنے سے پہلے لانے والے امتی سلیمان کا نام آصف بن برخیا تھا۔ اور یہ کہ حضرت سلیمانؑ نصف النہار تک اپنا دربار لگاتے تھے، (یعنی 6 گھنٹے)۔ اور تفسیرِ رازی میں ہے کہ ہدہد کیلئے یہ تین دن اور دن کے چوتھائی حصے کی مسافت تھی۔
زمینی سست رفتار گھوڑے کے حساب سے یہ فاصلہ 1828 میل بنتا ہے۔ یعنی ذکوان نامی عفریت جنّ کی تخت لانے کی رفتار 304 میل فی گھنٹہ ہوتی۔ اور حضرت آصف بن برخیا ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اسے لے آئے، یعنی ان کی رفتار 64 لاکھ 80 ہزار میل فی گھنٹہ تھی۔ جو کہ ذکوان جن کی رفتار سے 21 ہزار گنا زیادہ تھی۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ آصف بن برخیا نے 9 ملی سیکنڈ تخت لانے میں لگائے تو یہ روشنی کی رفتار کے برابر ہو جاتی ہے۔
اور سچ پوچھیں تو یہی روشنی کی رفتار زیادہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ عفریت نے قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ کہا تھا یعنی قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور اٹھنا پیروں سے ہوتا ہے۔ جبکہ آصف بن برخیا نے فرمایا تھا کہ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلےاور دیکھنا آنکھ سے ہوتا ہے جس کا تعلق روشنی اور نور سے ہے۔ یعنی ایک نے طاقت اور دوسرے نے نورِ عقل سے رہنمائی لی۔
&                  عفریت جن سے پچاس ہزار گنا زیادہ رفتار
اور اگر ہم 2 مہینے کی مسافت کو آئیڈیل گھوڑے کی مسافت مانیں تو یہ 78624 میل بنتی ہے۔ اب اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ آصف بن برخیا یہ تخت 421 ملی سیکنڈ میں لے آئے جو تقریباً آدھ سیکنڈ ہوتا ہے تو یہ ٹھیک روشنی کی رفتار بنتی ہے۔ یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار چار سو گیارہ میل فی سیکنڈ۔ اور اس صورت میں آپ کی رفتار ذکوان نامی جن سے پچاس ہزار گنا زیادہ تیز ہو گی۔
&                  مقامِ حضرت جبریل ؑ
قرآنِ پاک میں ہے کہ
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
ملائکہ اور جبریل اس کی بارگاہ کی طرف عروج کرتے ہیں وہ عذاب اس دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔ (کنز الایمان شریف)
اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے۔ (عرفان القرآن)
 ڈاکٹر طاہر القادری فرماتے ہیں کہ فِی یَومٍ اگر وَاقِعٍ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ جس دن (یومِ قیامت) کو عذاب واقع ہوگا اس کا دورانیہ ٥٠ ہزار برس کے قریب ہے۔ اور اگر یہ تَعرُجُ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ ملائکہ اور اَرواحِ مومنین جو عرشِ الٰہی کی طرف عروج کرتی ہیں ان کے عروج کی رفتار ٥٠ ہزار برس یومیہ ہے، وہ پھر بھی کتنی مدت میں منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔ واﷲ أعلم بالصواب۔ یہاں سے نوری سال (لائٹ ائیر) کے تصور کا اِستنباط ہوتا ہے۔
جبکہ تفسیر مظہری میں اس آیت کی بابت لکھا ہے کہ
بالنهار كانَ مِقْدارُهُ حال بتقدير قد اى وقد كان مقدار عروجه ونزوله أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ يعنى لو سار أحد من بنى آدم لم يقطعه الا فى الف سنة لكن الله بكمال قدرته جعل نزوله وعروجه فى طرفة عين-
قال البغوي هذا وصف عروج الملائكة ونزولها من السماء الى الأرض واما قوله تعالى تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مدة المسافة من الأرض الى سدرة المنتهى التي هى مقام جبرئيل يقول يسير جبرئيل والملائكة الذين معه من اهل مقامه مسيرة خمسين الف سنة فى يوم من ايام الدنيا اى برهة من الزمان هذا كله معنى قول مجاهد والضحاك-
یعنی علامہ بغوی فرماتے ہیں کہ یہ وصف عروج و نزولِ ملائکہ کا ہے اور پچاس ہزار سال سے مراد مدتِ مسافت ہے زمین سے سدرۃُ المنتہیٰ تک کی جو کہ مقامِ جبریلؑ ہے۔ یہ تقریباً سوا تئیس ارب میل کا فاصلہ بنتا ہے جسے روشنی جو کہ مادّی نور ہے، 34.65 گھنٹوں میں طے کرتی ہے۔ اور جبریلِ امین اور اس مقام کے دیگر نوری فرشتے اسے ایک دن یا اس کے کچھ حصے میں طے کر لیتے ہیں۔
&                  سدرۃُ المنتہیٰ کے فرشتوں کی رفتار
علامہ بغوی کے اس قول کے مطابق اگر پچاس ہزار سال کو وقت کے بجائے آئیڈیل گھوڑے کی مدتِ مسافت مان لیا جائے تو سدرۃُ المنتہیٰ کے دیگر فرشتوں کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ کیونکہ روشنی جس فاصلے کو ڈیڑھ دن میں طے کرتی ہے، یہ فرشتے اسے ایک دن یا اس کے کچھ حصے میں طے کر لیتے ہیں۔ روشنی کی رفتار کا ڈیڑھ گنا تقریباً دو لاکھ ستر ہزار میل فی سیکنڈ بنتا ہے ۔ واللہ اعلم!
&                  نزول و عروج پانسو سال
قرآنِ پاک میں ہے
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
"کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف رجوع کرے گا اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں۔"
اس آیت کے بارے میں تفسیرِ طبری میں حضرت قتادہ کا یہ قول موجود ہے کہ پانسو سال میں اترنا اور پانسو سال میں چڑھنا، اس طرح یہ کل ہزار سال بنتے ہیں جس کا اس آیتِ مبارکہ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔
&                  ''ہاں نہیں'' میں500سال کی مسافت:
            ایک مرتبہ حضور نے حضرت سیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا: ''کیا سورج ڈھل گیا؟'' عرض کی :''نہیں، ہاں!'' حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: ''تم نے یہ کیا کہا کہ نہیں ہاں۔'' عرض کی:'' میرے نہیں اور ہاں کہنے کے درمیان سورج500سال کی مسافت چلا ہے۔"
&                  سورج کی رفتار (جریانِ الشمس)
نہیں اور ہاں کہنے میں بس ایک سیکنڈ لگتا ہے کیونکہ ایک سیکنڈ میں تین الفاظ آرام سے ادا کئے جا سکتے ہیں۔ اور اس دوران سورج نے آئیڈیل گھوڑے کے پانسو سال کے مطابق سوا تئیس کروڑ میل کا فاصلہ طے کیا۔ یہی سورج کی رفتار ہے۔
ہئیت دان کہتے ہیں کہ کہکشاں کے گرد سورج کی رفتار ساڑھے چار لاکھ میل فی گھنٹہ ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں سوا سو میل بنتی ہے۔ سوا تئیس کروڑ میل اور 125 میل میں ایک اور 18 لاکھ کی نسبت ہے۔
ب‌.            جنّت اور جہنم
&                  جنت کی وسعت
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَٰوَٰتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
&                  جنت کی خوشبو
جنت کی خوشبو کے بارے میں ایک سے زائد احادیث موجود ہیں کہ جنت کی خوشبو کتنے فاصلے سے آتی ہے۔ چنانچہ احادیث کے مطابق یہ مسافت چالیس برس، پانسو برس، اور ہزار برس کی ہے۔
امام بخاریؒ اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے فرمایا کہ ''جس نے کسی معاہد (ذمی)کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بے شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ ''
ایک دوسری حدیث میں یہی بات 70 سال کی مسافت کے ساتھ فرمائی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے رسول نے فرمایا کہ جو شخص اپنے باپ کے غیر کو اپنا باپ بنانے کا دعوٰی کرے۔ وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی راہ سے پائی جائے گی ۔
سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن کا فرمانِ عالیشان ہے :''جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت سے سونگھی جا سکتی ہے مگر آخرت کے عمل سے دنیا طلب کرنے والا اسے نہ پاسکے گا۔''
حدیث میں ہے حضور انور نے فرمایا: والدین کی نافرمانی سے بچو اس لئے کہ جنّت کی خوشبو ہزار برس کی راہ تک آتی ہے اور نافرمان وہ خوشبو نہ پائے گا ،نہ قاطع رحم، نہ بوڑھا زنا کار، نہ تکبّر سے اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا''
آئیڈیل گھوڑا ایک ہزار سال میں چھیالیس کروڑ پینسٹھ لاکھ میل طے کرتا ہے۔
&                  نوٹ:
 40، 70 اور 500 اور ہزار سال کی مسافت کی روایات میں تطبیق یہ ہے کہ یہ فرق خو شبو سونگھنے والے مختلف لوگوں اور ان کے مراتب کے اعتبار سے ہو گی۔
&                  حور کے جسم کی خوشبو
حدیث شریف میں ہے کہ حوروں کی تخلیق زعفران سے ہوئی ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے : حضرت مُجَاهِدؓ فرماتے ہیں کہ جنتی حور کے بدن کی خوشبو پانسو برس کی راہ سے آتی ہے۔ یہ تقریباً سوا تئیس کروڑ میل کا فاصلہ بنتا ہے۔
&                  جنتی کی حدِّ نظر دو ہزار برس کی راہ ہو گی
ادنیٰ مرتبے کا جنتی جب اپنے ملک کو دیکھے گا تو ایک ہزار برس کی راہ تک ایسے ہی دیکھے گا جیسے اپنے قریب کی جگہ دیکھتا ہو اور قوت ودبدبے کا یہ حال ہوگا کہ فرشتے بھی اجازت کے بغیر نہیں آئیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسولِ کریم نے ارشاد فرمایا: ''ادنیٰ درجے کا جنتی اپنے باغات، بیویوں، خادموں اور تختوں کو ہزار برس کی مسافت تک دیکھے گا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہو گا جو صبح و شام اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مُشَرَّف ہوگا۔ اس کے بعد نبی کریم نے پڑھا:
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ۝ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۝
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اَنور، شافِعِ محشر نے ارشاد فرمایا: جنتیوں میں ادنیٰ درجے والا وہ ہوگا جو دو ہزار سال کی مسافت تک پھیلی ہوئی اپنی ملکیت میں اپنے تخت، اپنی بیویوں اور اپنے خدام کو دور سے بھی اس طرح دیکھے گا جیسے اپنے قریب والے کو دیکھتا ہے اور افضل جنتی وہ ہوگا جو روزانہ دوبار دیدارِ الٰہی سے مُشَرَّف ہوگا۔
دو ہزار سال میں آئیڈیل گھوڑا 93 کروڑ میل دوڑتا ہے۔ یعنی جنتی اتنی دور کی چیزیں اس طرح دیکھے گا جیسے پاس کی چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ دوسری احادیث میں جنتی کی حدِّ نظر سو سال کی مسافت بھی بیان کی گئی ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ جنتی کے درجات کے مطابق ہو۔
&                  جنت کی وسعت اور دروازے
جنّت کی وُسعت یعنی کشادگی کا یہ بیان ہے کہ اس میں سو درجے ہیں ہر درجے سے دوسرے درجہ تک اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان۔ اگر تمام جہاں ایک درجہ میں جمع ہو تو ایک درجہ سب کیلئے کفایت کرے۔ دروازے اتنے وسیع کہ ایک بازو سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستّر کی راہ ہے۔
زمین و آسمان کے درمیان پانسو برس کی راہ ہے۔ اس طرح یہ چوڑائی پچاس ہزار برس یا سوا تئیس ارب میل بنتی ہے۔ یہ تو صرف جنت کی چوڑان کا تذکرہ ہے، خود جنت کتنی بڑی ہو گی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
&                  جنتی دروازے کی چوڑائی
 حضرت سیدنا عتبہ بن غَزَوان رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرور ِ کونین نے ارشاد فرمایا: ''جنت (کے دروازوں)کی چوکھٹوں میں سے ہر دو چوکھٹ کے درمیان چالیس برس کا فاصلہ ہے ۔''
چالیس برس میں ایک آئیڈیل گھوڑا ایک کروڑ 86 لاکھ میل طے کرتا ہے۔ یہ تو صرف ایک جنتی دروازے کی چوڑائی ہے۔ باقی دروازے کس قدر وسعت رکھتے ہوں گے اور پھر ساری جنت کی وسعت، اللہ اکبر!
&                  باب التوبہ کی چوڑائی
ترمذی شریف میں ہے کہ حضرتِ سیدنا زِر بن حُبَیْش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا صَفْوَان بن عَسَّال رضی اللہ عنہ کے پاس موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کرنے کے لئے گیا ( پھر ایک حدیث مبارکہ ذکر کی، اس کے بعد فرماتے ہیں) ،میں نے پوچھا،'' کیا آپ نے رسول اللہ سے خواہشات کے بارے میں کچھ سنا ہے؟'' انہوں نے فرمایا،'' ہاں! ہم رسول اللہ کے ساتھ تھے کہ ایک اعرابی نے بآواز بلند ندا کی ،''یا محمد ! ''تو رسول اللہ نے اتنی ہی آواز میں جواب دیا کہ'' پکڑ لو۔'' تو میں نے اس شخص سے کہا، ''تجھ پر افسوس ہے اپنی آواز کو آہستہ کر، تُو اس وقت رسول اللہ کی بارگاہ میں ہے اور تجھے ان کی بارگاہ میں آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔''تو اس نے کہا، ''خدا کی قسم! میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا۔'' پھر اس اعرابی نے عرض کیا ، ''ایک شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے مگر ابھی تک اس قوم سے مل نہیں سکا ۔''تو رسول اللہ نے فرمایا کہ'' آدمی قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔'' رسول ہمیں یہ حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے مغرب کی طرف کے ایک دروازے کا ذکر فرمایا جس کی چوڑائی کی مسافت ۴۰ یا ۷۰ سال ہے۔(اس حدیث مبارک کے ایک راوی سفیان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں وہ دروازہ ملک شام کی طرف ہے۔)اللہ عزوجل نے اسے اسی دن پیدا فرمایا تھا جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا اور جب تک سورج اس دروازے سے طلوع نہ ہوجائے ،یہ توبہ کے لئے کھلا رہے گا۔ ''
&                  چاند بھی مغرب سے طلوع ہوگا
درمنثور کی ایک حدیث شریف میں درج ہے کہ جب تک سورج اور چاند اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع نہ ہو جائیں۔ یعنی صرف سورج ہی مغرب سے نہ ابھرے گا بلکہ چاند بھی مغرب سے طلوع ہوگا۔
الدر المنثور في التفسير بالمأثور : قَالَ عمر بن الْخطاب للنَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَمَا بَاب التَّوْبَة فَقَالَ: يَا عمر خلق الله بَابا للتَّوْبَة خلف الْمغرب وَهُوَ من أَبْوَاب الْجنَّة لَهُ مصراعان من ذهب مكللان بالبدر والياقوت والجوهر مَا بَين المصراع إِلَى المصراع مسيرَة أَرْبَعِينَ عَاما للراكب المسرع فَذَلِك الْبَاب المفتوح مُنْذُ خلق الله خلقه إِلَى صَبِيحَة تِلْكَ اللَّيْلَة عِنْد طُلُوع الشَّمْس وَالْقَمَر من مغاربها وَلم يتب عبد من عباد الله تَوْبَة نصُوحًا من لدن آدم إِلَى ذَلِك الْيَوْم إِلَّا ولجت تِلْكَ التَّوْبَة فِي ذَلِك الْبَاب
&                  باب التوبہ کی آیت
 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ہمیں بیان فرماتے رہے یہاں تک آپ نے فرمایا کہ'' اللہ عزوجل نے مغرب کی طرف ایک دروازہ بنایا ہے جس کی چوڑائی کی مسافت ۷۰ سال ہے وہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک سورج اس کی طرف سے طلوع نہ ہوجائے اور اس کا ذکر اللہ عزوجل کے اس فرمان میں ہے ،
 یَوْمَ یَاتِی بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنفَعُ نَفْسًا اِیمَانُہَا
ترجمۂ کنز الایمان :جس دن تمہارے رب کی وہ ایک نشانی آئے گی کسی جان کو ایمان لانا کام نہ دے گا۔''
ستر سال میں آئیڈیل گھوڑا سوا تین کروڑ میل دوڑ جاتا ہے۔
&                  جنتی باب التوبہ
رحمت ِ عالم ،نُورِمجسَّم نے اِرشاد فرمایا: ''جنت کے 8 دروازے ہیں ، 7 بند ہیں اور ایک دروازہ توبہ کے لئے کھلا ہوا ہے یہاں تک کہ سورج اس کی طرف سے طلوع ہو۔''
&                  حوضِ کوثر کا عرض
تفسیر بغوی اور تفسیر خازن میں ہے کہ سرکارِ دو عالم نے فرمایا کہ : میرے حوض کی لمبائی چوڑائی ایک مہینے کی مسافت ہے۔
ایک مہینے میں ایک آئیڈیل گھوڑا چالیس ہزار میل دوڑتا ہے۔
؎اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر، ساری کثرت پاتے یہ ہیں
ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا، پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں
&                  جنت میں علماء امت کی بلندمقامی
علمائے امت کی جنت میں بھی خاص شان ہو گی، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
ترجمۂ کنز الایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ 28، المجادلہ: 11)
 حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :''علماء کرام ،عام مؤمنین سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور ہر دو درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہو گی۔''
سبحان اللہ! کیا بلندی ہے علماء کی۔ یہ ساڑھے تین لاکھ برس کی بلندی ہے جو ڈیڑھ ارب میل سے زیادہ بنتی ہے۔ اللہ ان کے درجات میں بلندی پر بلندی عطا فرمائے۔
&                  جنتی درخت کا سایہ
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ ﴿ۙ۳۰﴾ (پ۲۷،الواقعة:۳۰)     
ترجمۂ کنز الایمان: اور ہمیشہ کے سائے میں۔
حضرتِ سیِّدُنا عمرو بن میمون رَحْمَۃٌ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یہ سایہ70 ہزار سال کی مسافت جتنا ہو گا۔
ایک آئیڈیل گھوڑا ستر ہزار برس میں 325 کھرب میل طے کرتا ہے۔ اللہ اکبر! یہ کس قدر طویل سایہ ہے۔ اور اللہ کی کس قدر رحمت ہو گی اس سائے میں آرام پانے والوں پر، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
&                  سدرۃُ المنتہیٰ کا سایہ
حضرت اسماء بنت ابوبکر فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا کہ سدرۃُ المنتہیٰ کی شاخوں کے سائے میں ایک تیز گھڑ سوار ایک سو برس تک چلتا رہے گا۔
 صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني : عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، فَقَالَ: " يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّ الْفَنَنِ مِنْهَا مِائَةَ سَنَةٍ، أَوْ قَالَ: يَسْتَظِلُّ فِي الْفَنَنِ مِنْهَا مِائَةُ رَاكِبٍ، شَكَّ يَحْيَى، فِيهَا فِرَاشُ الذَّهَبِ كَأَنَّ ثَمَرَهَا الْقِلَالُ
&                  شجرِ طوبیٰ کا سایہ
تفسیر مظہری میں ہے کہ سرکارِ دو عالم سے شجر طوبیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس کی مسافت ایک سو سال ہے۔
ایک آئیڈیل گھوڑا سو سال میں چار کروڑ پینسٹھ لاکھ میل طے کرتا ہے۔ یہ شجر طوبیٰ کا سایہ ہے۔ اتنے میل کے باوجود اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا۔
&                  اخروٹ کا درخت اور شجرِ طوبیٰ
 حضرتِ سیدنا عتبہ بن عبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی بارگاہ میں ایک اعرابی نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ'' جس حوض کے بارے میں آپ بتاتے ہیں وہ کیسا ہے ؟'' ( پھر ایک حدیث بیان کی یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچے کہ) اعرابی نے عرض کیا ،''یا رسول اللہ ! کیا اس میں پھل بھی ہیں؟'' فرمایا، ''ہاں! او راس میں ایک درخت ہے جسے طوبیٰ کہا جاتا ہے وہ فردو س کو ڈھانپے ہوئے ہے۔''عرض کیا، ''وہ ہماری زمین کے کس درخت سے مشابہت رکھتا ہے ؟'' فرمایا، ''وہ تمہاری زمین کے کسی درخت سے مشابہت نہیں رکھتا مگر 'کیا تم کبھی ملکِ شام گئے ہو؟'' عرض کیا،'' نہیں! یا رسول اللہ !'' فرمایا'' وہ ملک ِشام کے ایک درخت کی طرح کا درخت ہے جسے جو زہ یعنی اخروٹ کا درخت کہا جاتا ہے، وہ ایک ہی تنے پر اُگتا ہے پھر اس کی شاخیں پھیل جاتی ہیں۔'' عرض کیا،'' اس کی جڑ کی لمبائی کتنی ہے؟'' فرمایا،'' اگر تمہارے پالتو اونٹوں میں سے چار سال کی عمر کا اونٹ سفر کرے تو اس وقت تک اس کی مسافت قطع نہ کر سکے گا جب تک بڑھاپے کی وجہ سے اس کے سینے کی ہڈیاں نہ ٹوٹ جائیں۔''
 اس نے عرض کیا ،''کیا اس میں انگور ہیں؟'' فرمایا،'' ہاں!'' عرض کیا، '' اس کے خوشے کی لمبائی کتنی ہے؟'' فرمایا،'' سیاہ و سفید کوے کے مسلسل ایک ماہ اس طرح اُڑنے کی مسافت کہ نہ وہ گر ے نہ رکے اور نہ ہی سستی کرے ۔''عرض کیا،'' جنت کے انگور کے ایک دانے کا حجم کتنا ہے؟'' فرمایا، ''کیا تمہارے باپ نے کبھی اپنے ریوڑ میں سے کوئی بڑا جنگلی بکرا ذبح کرکے اس کی کھال اتار کر تمہاری ماں کو دی ہے اور کہا ہے کہ اس کی صفائی کرکے رنگ لو پھر اسے پھاڑ کر ایک بڑا سا ڈول بناؤ جس کے ذریعے ہم اپنے مویشیوں کو اپنی مرضی کے مطابق سیراب کر سکیں ؟''اس نے عرض کیا،'' ہاں!'' پھر عرض کیا ،''وہ دانہ تو مجھے اور میرے اہل خانہ کو شکم سیر کردے گا۔'' نبی کریم نے فرمایا'' بلکہ تمام رشتہ داروں کو بھی ۔''
&                  علماء مسافت (مسیرۃ) کو گھوڑے کی رفتار کیوں کہتے ہیں؟
پہلے میں بہت حیران ہوتا تھا اور یہ بات مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ جب احادیثِ مبارکہ میں طویل فاصلوں کی بابت کسی سواری کا ذکر نہیں فرمایا جاتا تو علمائے کرام ہمیشہ وہاں تیز رفتار گھوڑے کی مسافت کیوں بیان فرماتے ہیں۔ احادیث میں تقریباً ہر جگہ ہی صرف مسافت کا تذکرہ ہے، لیکن یہ مسافت کس سواری پر کس طرح اور کس رفتار سے طے کی جائے گی، اکثر اس کا تذکرہ احادیث مبارکہ میں موجود نہیں۔ اس وقت میرے اندر کہیں یہ موجود تھا کہ ہم گھوڑے کی رفتار کے بجائے راشنی کی رفتار کیوں نہ سمجھیں۔
تاہم جنتی درخت اور اس کے سائے کا حدیث میں ذکر موجود ہے اور جنتی درخت کا ذکر غالباً وہ واحد جگہ ہے جہاں سرکارِ دو عالم نے يَسِيرُ الرَّاكِبُ الْجَوَادَ الْمُضَمَّرَ السَّرِيعَ کے واضح الفاظ ارشاد فرمائے ہیں۔ یعنی بہت تیز رفتار گھوڑے پر سوار شخص، جَوَاد بہت سبک رفتار گھوڑے کو کہتے ہیں۔ باقی جگہوں پر صرف "مسیرۃ" کا لفظ آیا ہے، بنا کسی سواری کے تعین کے۔
کلام الٰہی میں بھی حضرت سلیمانؑ کے گھوڑوں کیلئے یہ لفظ (جواد بصورت جیاد)وارد ہوا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ
"جب اُن کے سامنے شام کے وقت نہایت سُبک رفتار عمدہ گھوڑے پیش کئے گئے۔"
جیاد اور جواد دونوں کا روٹ لفظ "جود" ہے۔ شاید اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے علمائے کرام نے ہر جگہ جہاں احادیث میں مسافت کا لفظ آیا ہے وہاں تیز رفتار گھوڑے کی مسافت ہی مراد لی ہے۔ چاہے اس حدیث شریف میں یہ نہ بھی آیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث میں جہاں کسی بھی سواری کی تصریح اور تعین موجود نہیں تو وہاں کون سی سواری مراد لیں؟ کوئی ایک سفر کرنے والا تو ضرور فرض کرنا پڑے گا ورنہ فاصلہ کیسے طے ہوگا؟ اور مسافت (مسیرۃ) کیسے کٹے گی؟ اب اپنی طرف سے کسی سفر کرنے والے کو فرض کریں تو اس سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ کسی دوسری حدیث شریف میں دیکھ لیا جائے۔ اور جب انہوں نے دیکھا تو شجرِ جنت کے سائے کی مسافت والی احادیث میں گھوڑے کو پایا تو قیاس کرتے ہوئے گھوڑے کو ہی ہر جگہ مان لیا۔ ان تمام احادیث میں بھی جہاں گھوڑے کا صراحتاً تو کجا، اشارتاً بھی تذکرہ موجود نہیں۔
&                  احادیث کے الفاظ واردہ
علماء کا طریقہ بہت پیارا اور یقینی ہے۔ تاہم دوسری مسافتوں کی گنجائش پھر بھی موجود رہتی ہے۔ احادیث میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں وہ ہم نے ذیل میں جمع کر دئیے ہیں۔ ان الفاظ میں کہیں بھی (راکب الفرس یا راکب الجواد) براہِ راست گھوڑے کا ذکر موجود نہیں صرف مسافت کا ذکر موجود ہے۔
سبعين خريفا    | مَسِيرُهَا سَبْعُونَ سَنَةً | مسيرة أربع مائة سَنَةً | مَسِيرَةُ أَرْبَعِينَ سَنَةً  | مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ | مَسِيرَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ | مَسِيرَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ لِلرَّاكِبِ الْمُسْرِعِ | مَسِيرَةَ ثَلَاثَةِ آلَافِ سَنَةٍ | مَسِيرَةُ ثَمَانِينَ سَنَةً | مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ | مسيرة خمسة عشر ألف سنة | مسيرة سبع ليال | مسيرة سبعين ألفَ سنة | مسيرة سبعين سنة | مسيرَة سِتَّة وَثَلَاثِينَ ألف عَام | مَسِيرَةِ عَامٍ | مَسِيرَةُ مِائَةِ عَامٍ | مِقْدَارَ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَ            
&                  خوش نصیب حبشی
حضرتِ سیِّدُنا ابن عُمَرؓ بیان کرتے ہیں کہ حبشہ سے ایک شخص بارگاہِ رسالت میں کچھ پوچھنے کے لئے حاضر ہوا، مکی مدنی آ نے اس سے ارشاد فرمایا: سوال کرو اور سمجھو۔ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! آپ کو شکل و صورت، رنگت اور نبوت میں ہم پر فضیلت دی گئی، آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں اس پر ایمان لے آؤں جس پر آپ ایمان لائے ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہو جاؤں جن پر آپ عمل پیرا ہیں تو کیا میں جنت میں آپ کے ساتھ رہوں گا؟ ارشاد فرمایا: ہاں۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! سیاہ آدمی کی سفیدی جنت میں ایک ہزار سال کی مسافت سے دکھائی دے گی۔
&                  تئیس کروڑ میل چوڑا موتی کا ایوان
سرکارِ دو عالم فرمانِ عالیشان کا مفہوم ہے کہ جب موت کو ذبح کردیا جائے گا اور جنتی اپنے محلات کی طرف لوٹیں گے تو اللہ عزوجل جنتیوں کے لئے گانے والی حور عین بھیجے گا اور وہ جنت کے باغات میں سفید چمکدار موتی کے ایوانوں میں بیٹھے ہوں گے جس کا طول یعنی لمبائی سو سال کی مسافت ہو گی اور اس کی چوڑائی پانچ سو سال کی مسافت ہو گی اور سب عورتیں (حضرت) فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بیٹھی ہوں گی اور ایک دوسرے ایوان میں تمام مرد نبی (کریم )کے حضور بیٹھے ہوں گے ۔
یہ مفہوم "نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں" سے پیش کیا گیا ہے جو المدینہ لائبریری میں شامل ہے۔ سو سال کی مسافت چار لاکھ پینسٹھ لاکھ میل اور پانسو برس کی مسافت تئیس کروڑ میل بنتی ہے۔ یعنی موتی کا یہ ایوان آسمان جتنا چوڑا ہوگا۔
نیز اسی کتاب میں ہے کہ " جنت الفردوس کے گھوڑے سرخ یاقوت کے ہوں گے، ان کی زینیں سبز زمرد کی، پَر سونے کے اور رانیں چاندی کی ہوں گی اور جنتی گھوڑے کے دو ہاتھ اور دو پاؤں ہوں گے وہ کہے گا:'' اے اللہ عزوجل کے ولی !مجھ پر سوار ہو جائیے۔'' اگر جنتی چلنے کا ارادہ کریگا تو وہ چلے گا اور اُڑنے کا ارادہ کریگا تو وہ اُڑنے لگے گا۔ جب مؤمن ان گھوڑوں میں سے کسی پر سوار ہوگا وہ باقی گھوڑوں پر فخر کریگا اور مومن اپنی بیویوں اور خادماؤں میں سے جسے چاہے گا اپنے ساتھ سوار کرے گا، وہ گھوڑا انہیں سیر کراتے ہوئے ایک ساعت میں ستر(70) سال کی مسافت طے کرکے جنت کے وسط میں پہنچ جائے گا۔
&                  جنتی گھوڑے کی رفتار
ایک تیز رفتار گھوڑا ستر سال میں سوا تین کروڑ میل طے کرتا ہے۔ جنتی گھوڑا یہ فاصلہ ایک ساعت میں طے کر لے گا۔ اگر ساعت کو ہم ایک سیکنڈ سمجھیں تو یہ روشنی سے ایک لاکھ پچھتر ہزار گنا زیادہ تیز رفتار ہے اور اگر ساعت کو ایک گھنٹہ سمجھیں تو بھی یہ روشنی کی رفتار سے پچاس گنا زیادہ رفتار ہے۔ (معجم کبیر )
&                  جنتی مسہری کی بلندی
قرآن مجید میں ہے
وَفُرُشٍ مَّرْفُوعَةٍ
اور (وہ) اونچے (پر شکوہ) فرشوں پر (قیام پذیر) ہوں گے۔
عن أبي سعيد الخدري عن النبي صلّى الله عليه وسلّم «في قوله: وفرش مرفوعة قال ارتفاعها كما بين السماء والأرض ومسيرة ما بينهما خمسمائة عام» أخرجه الترمذي
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے حبیب نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ان جنتی بچھونوں کی بلندی زمین سے آسمان تک کی بلندی کے برابر ہو گی اور یہ مسافت پانسو سال کی ہے۔
پانسو سال میں آئیڈیل گھوڑا سوا تئیس کروڑ میل چلتا ہے۔ سبحان اللہ! جس کی مسہری اتنی بلند ہو گی، اس کے مزے کے کیا ٹھکانے۔ اللہ ہمیں بھی اس مسہری پر آرام کرنے والا بنائے۔ آمین! اس کی بلندی کے بارے میں ایک قول اسّی برس کی مسافت کا بھی ہے۔ اس صورت میں اس کی بلندی آئیڈیل گھوڑے کی رفتار کے اعتبار سے تین کروڑ بہتر لاکھ میل ہو گی۔
&                  دوزخ کی گہرائی اور آسمان کی بلندی
حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم مصطفیٰ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ہم نے ایک گڑگڑاہٹ کی آواز سنی تو آپ نے استفسار فرمایا: ''کیا تم جانتے ہو یہ کیا تھا؟'' ہم نے عرض کی :''اللہ عَزَّوَجَلَّ اور ا س کا رسول بہتر جانتے ہیں۔'' آپ نے ارشاد فرمایا:'' یہ پتھر ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جہنم میں 70 سال پہلے پھینکا تھا لیکن اس کی گہرائی تک اب پہنچا ہے۔''
 حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ نے ایک ہولناک آواز سنی، حضرت سیِّدُنا جبریل ؑ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ نے استفسار فرمایا: ''اے جبریل ! یہ آواز کیسی تھی؟'' تو انہوں نے جواب دیا: ''یہ ایک پتھر ہے جو جہنم کے کنارے سے 70 سال پہلے گرا لیکن اب اس کی تہہ تک پہنچا، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پسند فرمایا کہ آپ کو اس کی آواز سنائے۔'' (اس کے بعد)آپ کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا گیا یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کی روح قبض فرما لی۔''
&                  جہنمیوں کے دو شانوں کا فاصلہ
بخاری شریف میں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ مَنْكِبَيِ الكَافِرِ مَسِيرَةُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ للرَّاكِبِ المُسْرِعِ»
یعنی جہنمیوں کا جسم ایسا بڑا کر دیا جائے گا کہ ایک شانہ سے دوسرے تک تیز سوار کے لیے تین ۳دن کی راہ ہے۔
 اور ایسا ہی کچھ جہنمی لوگوں کی کھالوں کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے کہ ان کی کھالوں کی موٹائی تین دن کی مسافت کے برابر ہو گی۔ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور اس پر ایمان ضروری ہے۔
یہ تقریباً چار ہزار میل کا فاصلہ بنتا ہے۔ یعنی ایسے چھے جہنمی کافر پوری زمین کو گھیر لیں۔
&                  جہنمی شخص کی موٹائی
مسند أحمد کی حدیث پاک ہے:
4800 - حدثنا وكيع حدثني أَبو يحيى الطويل عن أبي يحيى القَتَّات عن مجاهد عن ابن عمر عن النبي -صلي الله عليه وسلم - قال: "يَعْظُم أهلُ النار في النار، حتى إِن بين شحمة أُذُن أَحدهم إلي عاتقه مسيرةَ سبعمائة عام، وِإن غِلَظَ جلده سبعون ذراعاً، وإن ضِرْسَه مثلُ أُحُد".
حضور نبی ٔکریم کا فرمانِ عالیشان ہے: ''جہنمیوں کے جسم بڑے ہو جائیں گے یہاں تک کہ ان کے کانوں کی لَو سے کندھے کا درمیانی فاصلہ 700 سال کی مسافت ہو گا اور ان کی کھال کی موٹائی 70 گز ہو گی او ران کی داڑھ اُحد پہاڑ کی مثل ہو گی۔''
بیہقی وغیرہ کی روایت ہے کہ جہنمیوں کے جسم جہنم میں بہت بڑے کر دئیے جائیں گے یہاں تک کہ اس کے کان کی لَو سے اس کے کندھے تک سات سو سال کے سفر کا فاصلہ ہوگا، اس کی کھال کی موٹائی ستّر ہاتھ اور اس کی داڑھ جبلِ احد کے برابر ہو گی۔
            احمد اور حاکم نے بسند صحیح مجاہد سے روایت کیا ہے کہ حضرتِ ابن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا نے فرمایا: جانتے ہو جہنمیوں کے جسم کتنے عظیم (بڑے اور موٹے) ہوں گے؟ میں نے کہا: نہیں ! تب انہوں نے کہا: ہاں ، بخدا! تم نہیں جانتے کہ ان کے کان کی لَو اور ان کے کندھے کے درمیان ستّر سال کے سفر کا فاصلہ ہوگا، اس کی وادیوں میں خون اور پیپ رواں ہو گی، میں نے کہا: کیا نہریں ہوں گی؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں بلکہ وادیاں ہوں گی۔
&                  مکانِ بعید سےجہنم کا چنگھاڑنا
قرآنِ مقدس میں ہے کہ
إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا
" جب وہ انہیں دور جگہ سے دیکھے گی تو سنیں گے اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا"
تفسیر بغوی میں ہے کہ دور جگہ سے مراد پانسو سال کی راہ ہے۔ اور تفسیر ابن کثیر میں اسے چار سو سال لکھا ہے اور دیگر جگہوں پر چالیس سال کی مسافت کا تذکرہ بھی موجود ہے جو احوال کے فرق کی بنا پر ہے۔
 اللہ اکبر، آئیڈیل گھوڑا پانسو سال میں سوا تئیس کروڑ میل پہنچتا ہے، یہ زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے۔ یعنی جب میدانِ محشر سے زمین اتنے فاصلے پر ہو گی جتنی دوسری زمین ہماری زمین سے نیچے ہے تو زور دار آواز میں چنگھاڑے گی۔ اور کافر سمجھے گا کہ بس وہ اس میں گرنے والا ہے۔ بس اب وہ کام سے گیا۔
&                  جب امتیں گھٹنوں کے بل (جاثیۃ) ہوں گی
اللہ پاک فرماتا ہے:
وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً
" اور تم ہر گرو ه کو دیکھو گے زانو (گھٹنے) کے بل گرے ہوئے "
حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہ فرماتے ہیں :
''جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اولین وآخرین کو ایک ٹیلے پر جمع فرمائے گا، پھر فرشتے نازل ہو کر صفیں بنائیں گے۔'' اس کے بعد اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ''اے جبرائیل (عَلَیْہِ السَّلَام)! جہنم کو لے آؤ۔'' تو حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام جہنم کو اس طرح لے کر آئیں گے کہ اس کی ستر ہزار لگاموں کو کھینچا جا رہا ہو گا، پھر جب جہنم مخلوق سے سو برس کی راہ پر پہنچے گی تو اس میں اتنی شدید بھڑک پیدا ہو گی کہ جس سے مخلوق کے دل دہل جائیں گے، پھر جب دوبارہ بھڑک پیدا ہو گی تو ہر مقرب فرشتہ اور نبی مرسل گھٹنوں کے بل گر جائے گا، پھر جب تیسری مرتبہ بھڑکے گی تو لوگوں کے دل گلے تک پہنچ جائیں گے اور عقلیں گھبرا جائیں گی، یہاں تک کہ حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عرض کریں گے :'' میں تیرے خلیل ہونے کے صدقے سے صرف اپنے لئے سوال کرتا ہوں ۔'' حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عرض گزار ہوں گے: ''یا الٰہی عَزَّ وَجَلَّ ! میں اپنی مناجات کے صدقے صرف اپنے لئے سوال کرتا ہوں ۔'' حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عرض کریں گے: ''یا الٰہی عَزَّ وَجَلَّ! تُو نے مجھے جو عزت دی ہے اس کے صدقے میں صرف اپنے لئے سوال کرتا ہوں اس مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہا کے لیے سوال نہیں کرتا جس نے مجھے جنا ہے۔''
سو برس کی راہ چار کروڑ پینسٹھ لاکھ میل بنتی ہے۔ اللہ اکبر! دوزخ اتنی دور سے دیکھے گی اور جوش مارے گی تو کافر یہ سمجھے گا کہ جہنم اسے پکڑ لے گی۔ اللہ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔
تفسیر مظہری میں جہنم کی ایک ہزار لگامیں بیان کی گئی ہیں اور ہر لگا م کو ستر ہزار فرشتے کھینچتے ہوں گے۔ یہ سات کروڑ فرشتے بنتے ہیں۔ اور اگر اوپر بیان کردہ حدیث سے فرشتوں کی تعداد نکالیں تو چار ارب نوے کروڑ فرشتے بنتے ہیں۔ فرشتوں کی اس قدر کثیر تعداد کے گرفت کرنے کے باوجود جہنم اس قدر جوش میں بپھرا ہوا ہوگا کہ کافر خوفزدہ ہوگا کہ اب جہنم اسے لپک لے گی۔
&                  صعود کا بھیانک عذاب کیا ہے؟
قرآن شریف میں سورت المدثر میں ہے کہ
سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا
"قریب ہے کہ میں اسے آگ کے پہاڑ صعود پر چڑھاؤں"
روض الانف میں لکھا ہے کہ "صعود ایک پہاڑ ہے جس کی مسافت ستر سال ہے۔ کافر سے کہا جائے گا کہ خبیث، آگ کے اس پہاڑ پر چڑھ، جب وہ شدید مشقت اور لمبے اور طویل عذاب کے بعد اس پر چڑھنے میں کامیاب ہو پائے گا تو اسے اس بلندی سے نیچے پھینک دیا جائے گا۔ اور یہ عذاب اسے ابد تک ہمیشہ ہوتا رہے گا۔"
اللہ اکبر! صعود کا عذاب کس قدر خوفناک ہوگا کہ ستر سال تک وہ آگ کے پہاڑ پر چڑھے گا یعنی سوا تین کروڑ میل آگ پر چڑھنا، تھکے گا تو عذاب، چڑھے گا تو عذاب، گرے گا تو عذاب، رکے گا تو عذاب۔ اور جب "مرتا کیا نہ کرتا "کے مصداق سوا تین کروڑ میل چڑھ کر آگ کی بلندی پر پہنچے گا تو واپس نیچے سوا تین کروڑ میل دھکیل کر گرا دیا جائے گا کہ پھر چڑھ۔ اللہ اکبر! اللہ ہم سب کو اس عذاب اور جہنم کے ہر عذاب سے محفوظ رکھے اور اپنی محبت اور پیار کی پناہ میں رکھے۔ آمین!
&                  ویل کیا ہے؟
مقاتل فرماتے ہیں کہ ویل جہنم کی ایک وادی ہے جس کی مسافت (گہرائی) ستر سال ہے۔ یعنی آئیڈیل گھوڑے کے اعتبار سے سوا تین کروڑ میل۔
&                  جہنم کی گہرائی کتنی ہے؟
کتاب " الإفصاح عن معاني الصحاح" میں حضرت ابو ہریرۃ ؓ کا قول موجود ہے کہ جہنم کی گہرائی ستر سال کی ہے۔ لیکن یہ تیز رفتار آئیڈیل گھوڑے کے اعتبار سے نہیں بلکہ جہنم میں گرنے والی چٹان کے اعتبار سے ہے جو اس کے کنارے سے گرے گی تو ستر سال کے بعد اس کے پیندے تک پہنچے گی۔ یہ اتنا فاصلہ ہے کہ روشنی اسے ڈھائی برس میں بھی قطع نہ کر پائے گی۔
سنن الترمذي میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الجُعْفِيُّ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عِيَاضٍ، عَنْ هِشَامٍ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ الحَسَنِ، قَالَ: قَالَ عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ - عَلَى مِنْبَرِنَا هَذَا مِنْبَرِ البَصْرَةِ -، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ الصَّخْرَةَ العَظِيمَةَ لَتُلْقَى مِنْ شَفِيرِ جَهَنَّمَ فَتَهْوِي فِيهَا سَبْعِينَ عَامًا وَمَا تُفْضِي إِلَى قَرَارِهَا»
اگر ثقلی اسراع کی قیمت 9.8 میٹر فی سیکنڈ فی سیکنڈ رکھیں تو روشنی اس فاصلے کو جو جہنم کے سرے سے اس کے پیندے تک ہے، ڈھائی ہزار سال میں بھی طے نہ کر پائے گی۔
&                  سرادقاتِ جہنم (دوزخ کی چار دیواری)
ترمذی میں روایت ہے حضرت ابو سعید خدری سے، وہ نبی سے راوی، فرمایا: دوزخ کی دیواریں چار ہیں ہر دیوار کی موٹائی چالیس سال کی راہ ہے ۔
اللہ اکبر! ایک دیوار کی موٹائی چالیس برس کی راہ ہے۔ آئیڈیل گھوڑا چالیس برس میں ایک کروڑ چھیالیس لاکھ میل طے کرتا ہے۔ یعنی جہنم کی چار دیواری ساڑھے سات کروڑ میل موٹائی پر مبنی ہوگی۔ اتنی موٹی دواروں نے جہنم کو چاروں طرف سے ایک کے بعد ایک نے گھیرا ہوا ہوگا، نکل بھاگنے کی ہر راہ مسدود، تمام امیدیں دم توڑ جائیں۔
 سرادق سین کے فتحہ سے ہے پردہ کی دیوار، اس کی جمع ہے سرادقات جیسے فارسی میں کہتے ہیں سرا پردہ۔ جدر جمع ہے جدار کی بمعنی دیوار، قرآن کریم فرماتا ہے:
" إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا"۔
"بیشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی۔"
مرقات نے فرمایا کہ سرادق اس دیوار کو کہتے ہیں جو اکیلی سارے گھر کو گھیرے ہو۔ دوزخ کی یہ چار دیواریں آگے پیچھے ہیں ہر دیوار پورے دوزخ کو گھیرے ہوئے ہے۔
&                  چالیس ہزار میل لمبا اژدھا
سرکارِ دو عالم کا فرمان عبرت نشان ہے:'' جہنم میں ایک وادی ہے اس کا نام ''لَمْلَم'' ہے ۔اس میں اژدھے ہیں، ہر اژدھے کی موٹائی اونٹ کی گردن کی مانند ہے، اس کی لمبائی ایک مہینے کی مسافت جتنی ہے، اس وادی میں جب وہ سانپ بے نمازی کو ڈسے گا تو اس کا زہر اس کے جسم میں ستر(70)سال تک جوش مارتا رہے گا پھر اس (بے نمازی) کا گوشت گل جائے گا اور ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی اور وہ تمام کے تمام اژدھے اس وادی میں اس کو عذاب دیتے رہیں گے۔ اور جہنم میں ایک وادی کا نام ''جُبُّ الْحُزْن'' ہے ،جس میں بچھو ہیں، ہر بچھو سیاہ خچر کی مانند ہے اس کے ستر(70) ڈنک ہیں اور ہر ڈنک میں زہر کی تھیلی ہے ،جب وہ بے نمازی کو ڈنک مارے گا تو اس کا زہر سارے جسم میں سرایت کر جائے گا تو وہ اس کے زہر کی حرارت ہزار سال تک محسوس کرے گا پھر اس کا گوشت ہڈیوں سے جھڑ جائے گا، اس کی شرمگاہ سے پیپ بہے گی اور تمام جہنمی اس پر لعنت بھیجتے ہو ں گے۔''
زمین کا کل محیط 24 ہزار میل ہے۔ ہم جہنم سے اور چالیس ہزار میل لمبے اژدھے سے اللہ عزوجل کی پناہ مانگتے ہیں ۔
&                  ستر ہزار سال کی گہرائی
حضرتِ سیِّدُناکعب الاحبارؒ سورت مدثر میں اس فرمانِ باری تعالیٰ:
عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ۝     
ترجمۂ کنز الایمان: اس پر اُنِّیْس داروغہ ہیں۔
کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ان میں سے ہر فرشتے کے ہاتھ میں دو منہ والا لوہے کا ہتھوڑا ہو گا جب وہ اس سے کسی جہنمی کو مارے گا تو وہ70ہزار سال کی مسافت جہنم کی گہرائی میں چلا جائے گا۔
آئیڈیل گھوڑے کے اعتبار سے یہ ساڑھے بتیس ارب میل کی گہرائی ہے۔
ت‌.            لوح و قلم اور فرشتے اور دیگر
&                  لوح و قلم
تفسیر بحر المدید میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو نور سے پیدا فرمایا پانسو برس کی مسافت، اور لوح کو نور سے پیدا فرمایا پانسو برس کی راہ۔ پھر قلم سے فرمایا کہ جاری ہو جا تو وہ وہ جو ہو چکا تھا اور جو قیامت تک ہوگا کے ساتھ چلا، جس نے عمل کیا نیک یا بد، خشک یا تر۔ پھر آپ ﷺ نے آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی کی یہ ہماری کتاب ہے جو بالکل ٹھیک بتاتی ہے۔
البحر المديد في تفسير القرآن المجيد : قال صلّى الله عليه وسلم: «أول ما خلق اللهُ القلم من نور مسيرة خمسمائة عام، واللوح من نور مسيرة خمسمائة عام، فقال للقلم: اجر، فجرى بما هو كائن إلى يوم القيامة مَن عمل، برها وفاجرها، ورطبها ويابسها، ثم قرأ: هذا كِتابُنا يَنْطِقُ.. الآية»
کتاب العظمت میں ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: اللہ عزوجل نے لوح محفوظ کو پیدا فرمایا ، اس کی لمبائی ایک سو سال کی مسافت تھی پھر اس نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے قلم کو فرمایا تُو میری مخلوق کے بارے میں میرا عِلم لکھ دے پس اُس نے قِیامت تک ہونے والا سب کچھ لکھ دیا۔
اور التيسير بشرح الجامع الصغير میں ہے کہ قلم کی لمبائی سات سو سال ہے۔
التيسير بشرح الجامع الصغير: الْكُرْسِيّ لؤلؤة والقلم لُؤْلُؤ وَطول الْقَلَم سَبْعمِائة سنة وَطول الْكُرْسِيّ حَيْثُ لَا يُعلمهُ الْعَالمُونَ
فتح القدیر میں حضرت انسؓ سے حدیث منقول ہے کہ لوح محفوظ جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے کہ
بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ- فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ یہ لوح حضرت اسرافیلؑ کی پیشانی میں ہے۔

&                  عظیم القامت فرشتہ
حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار تاجدارِ رِسالت، تشریف لائے تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق میں غور و فکر کر رہے تھے۔ سرکارِ مدینہ، نے پوچھا: کس چیز میں غور و فکر کر رہے ہو؟ سب نے عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عظمت کے بارے میں غور و فکر کر رہے ہیں ۔
آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بارے میں غور و فکر نہ کرو بلکہ اس کی مخلوق کے بارے میں غور و فکر کرو کہ ہمارے ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے ایک ایسا فرشتہ پیدا فرمایا ہے جس کے دونوں قدم ساتویں زمین میں جبکہ اس کا سر ساتویں آسمان سے بھی اوپر ہے۔ اس کے قدم اور گھٹنوں کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ ہے جبکہ ٹخنوں اور تلووں کے درمیان بھی چھ سو سال کا فاصلہ ہے اور خالق کی شان تو مخلوق سے بہت عظیم تر ہے۔
&                  عرشی فرشتہ
ابو داؤد شریف میں روایت ہے حضرت جابر ابن عبداللہ سے وہ رسول اللہ سے راوی ہیں، فرمایا مجھے اجازت دی گئی ہے کہ تم کو اللہ کے فرشتوں میں ایک فرشتے کے متعلق خبر دوں عرش اٹھانے والوں سے کہ اس کے کانوں کی گدیوں سے اس کے کندھوں تک سات سو سال کا فاصلہ ہے۔
&                  عظیم فرشتے
رسولِ اکرم، شاہِ بنی آدم نے ارشاد فرمایا: "بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کی دونوں آنکھوں کے کناروں کے درمیان سو سال کی مسافت ہے۔"
&                  زُرَوْفِيل فرشتہ
تفسیر يحيىٰ بن سلام میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے اجازت دی گئی ہے کہ تم کو اللہ کے فرشتوں میں ایک فرشتے کے متعلق خبر دوں عرش اٹھانے والوں سے کہ اس کے دونوں قدم سب سے نچلی زمین میں ہیں اور اس کی سینگوں پر عرش ہے۔ اس کے کانوں کی گدیوں سے اس کے کندھوں تک سات سو سال کا فاصلہ ہے۔ اور وہ یوں تسبیح کرتا ہے کہ تو پاک ہے، جہاں کہیں بھی تو ہے۔
&                  کروبین فرشتے
الحبائك في أخبار الملائك میں علامہ سیوطی ابن عساکر کے حوالے سے ایک حدیث شریف بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کروبین میں اللہ پاک کے کچھ فرشتے وہ ہیں جن کی کانوں کی گدیوں سے ان کے کندھوں تک کی مسافت تیز رفتاری سے غوطہ لگاتے ہوئے سریع الطیران پرندے کیلئے پانسو برس کی راہ ہے۔
أخرج ابن عساكر عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن لله ملائكة وهم الكروبيون من شحمة أذن أحدهم إلى ترقوته مسيرة خمسمائة عام للطائر السريع في انحطاط
پرندے کی سب سے زیادہ رفتار غوطہ لگاتے وقت ہوتی ہے۔
&                  اللہ سے سب سے زیادہ قریب
در منثور میں حضرت جابرؓ سے حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ مخلوقات میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ قریب جبْرِيلُ، وَمِيكَائِيلُ، وَإِسْرَافِيلُ علیہم السلام ہیں۔ اور یہ بھی اس سے پچاس ہزار برس کی راہ پر ہیں، یوں کہ جبریل دائیں طرف، میکائیل بائیں طرف او اسرافیل دونوں کے درمیان میں ہیں۔
الحبائك في أخبار الملائك میں ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جبریل کے شانوں کے درمیان تیز اڑنے والے پرندے کے اعتبار سے پانسو برس کی مسافت ہے۔
&    Fastest Bird
The fastest bird is representative by the peregrine falcon. During the dive flight the peregrine falcon can reach the speed of up to 350 km / hour! Record speed of the falcon, which was able to measure was 389 km/h (242 mph).
یعنی اگر تیز رفتار پرندے کی رفتار سے حساب کیا جائے تو حضرت جبریلؑ کے شانے ایک ارب میل کی چوڑائی رکھتے ہیں۔ یہ چار آسمانوں کی مسافت بنتی ہے۔ اللہ اکبر!
&                  جبریل امین کرسی پر
مسلم و بخاری شریف کی متفقہ روایت ہے حضرت جابر سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ و سلم کو فرماتے سنا آپ وحی بند ہو جانے کے متعلق خبر دیتے تھے فرمایا جب کہ ہم چل رہے تھے کہ ہم نے آسمان سے ایک آواز سنی میں نے اپنی نگاہ اٹھائی تو وہ ہی فرشتہ جو میرے پاس حراء میں آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ تو میں رعب کی وجہ سے اس سے ڈرا دیا گیا حتی کہ زمین کی طرف مائل ہو گیا پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا میں نے کہا مجھے چادر اوڑھاؤ، مجھے چادر اوڑھاؤ انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی تب الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اے چادر اوڑھنے والے اٹھو ڈراؤ، اپنے رب کی بڑائی بولو، اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی دور رکھو پھر وحی گرم ہو گئی اور لگاتار جاری ہو گئی ۔
&                  رکاب چھوٹی، امید ٹوٹی
کیا شان تھی حضرت جبریل کی، کہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر اس طرح تشریف فرما ہیں کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کے قلبِ اطہر پر بھی رعب طاری کردیا گیا اور آپ ﷺ اپنے گھر والوں سے چادر اوڑھانے کی بابت فرماتے رہے۔ اور پھر ایک یہ وقت بھی آیا کہ ۔۔۔
حضرت سیِّدُناجبرائیل امین علیہ السلام آپ کے ساتھ''سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی''پر پہنچے تو پیچھے ہٹ گئے۔ حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ و نے ارشاد فرمایا:''اے جبریل!کیا یہاں پر دوست دوست کو چھوڑ دے گا؟'' جبرائیل امین علیہ السلام نے عرض کی: ''اے تمام رسولوں کے سردار اور ربُّ العالمین کے حبیب ()! آپ تو پوشیدہ رازوں اور لکھے ہوئے علم کو جانتے ہیں کہ اس مقام پر حدود ختم ہو جاتی اور علوم مٹ جاتے ہیں۔ میرا یہی مقام ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا مخصوص مقام ہے۔ لہٰذا آپ آگے تشریف لے چلئے اور اپنے عزت و وقار کے انوارمیں مزیداضافہ فرمائیے۔''
؎شانِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اِک اُڑان ہے
حال یہ تھا کہ جبریلِ امین بال برابر بھی اپنے مقام سے آگے قدم رکھتے تو جل جاتے۔ شاید اسی لئے علامہ اقبالؒ یوں ارشاد فرماتے ہیں
اگر یک سرِ موئے برتر پرم
فروغِ تجلی بسوزد پرم
&                  عرشی فرشتے کی عاجزی
تفسیر قرطبی میں حدیث پاک منقول ہے کہ جعفر ابن محمد اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ ﷻ کا ایک فرشتہ حزقیائیل ہے۔ اس کے آٹھ ہزار پر ہیں جن میں سے ہر دو کے درمیان پانسو برس کی راہ ہے۔اس کے دل میں خیال آیا کیا سارے عرش کو دیکھنا ممکن ہے؟ تو اللہ نے اس کے پروں کی تعداد بڑھا دی تو 36 ہزار پر ہوگئے جن میں ہر ایک کے درمیان پانسو برس کی مسافت ہے۔ پھر اسے وحی فرمائی کہ اے فرشتے، اڑ۔ وہ فرشتہ بیس ہزار برس اڑا تو عرش کے پائے کے سرے تک بھی نہ پہنچ سکا۔پھر اللہ ﷻ نے اس کے پروں اور طاقت کو دوگنا کردیا اور اڑنے کا حکم فرمایا۔ وہ تیس ہزار برس تک اڑا اور اب بھی عرش کے پائے کے سرے تک نہ پہنچ سکا۔ تو اللہ ﷻ نے فرشتے سے فرمایا لہ اے فرشتے! اگر تو صور پھونکے جانے تک اپنی ساری قوت اور پروں سے اڑے تب بھی عرش کے پائے کو نہ پہنچ سکے گا۔ تب فرشتے نے کہا " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى " پس اللہ نے سورتِ اعلیٰ نازل فرمائی اور نبی کریم نے فرمایا کہ اسے اپنے سجدوں میں پڑھا کرو۔
وروى جعفر ابن مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: إِنَّ لله تعالى ملكا يقال له حزقيائيل، لَهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ أَلْفَ جَنَاحٍ، مَا بَيْنَ الْجَنَاحِ إِلَى الْجَنَاحِ مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍّ، فَخَطَرَ لَهُ خَاطِرٌ: هَلْ تَقْدِرُ أَنْ تُبْصِرَ الْعَرْشَ جَمِيعَهُ؟ فَزَادَهُ اللَّهُ أَجْنِحَةً مِثْلَهَا، فَكَانَ لَهُ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ أَلْفَ جَنَاحٍ، مَا بَيْنَ الْجَنَاحِ إِلَى الْجَنَاحِ خَمْسُمِائَةِ عَامٍّ. ثُمَّ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: أَيُّهَا الْمَلَكُ، أَنْ طِرْ، فَطَارَ مِقْدَارَ عِشْرِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، فَلَمْ يَبْلُغْ رَأْسَ قَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ. ثُمَّ ضَاعَفَ اللَّهُ لَهُ فِي الْأَجْنِحَةِ وَالْقُوَّةِ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَطِيرَ، فَطَارَ مِقْدَارَ ثَلَاثِينَ أَلْفَ سَنَةٍ أُخْرَى، فَلَمْ يَصِلْ أَيْضًا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: أَيُّهَا الْمَلَكُ، لَوْ طِرْتَ إِلَى نَفْخِ الصُّوَرِ مَعَ أَجْنِحَتِكَ وَقُوَّتِكَ لَمْ تَبْلُغْ سَاقَ عَرْشِي. فَقَالَ الْمَلَكُ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْعَلُوهَا فِي سُجُودِكُمْ
&                  آٹھ آسمانی بکرے (ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ)
آسمان پر آٹھ بکرے موجود ہیں جن کا تذکرہ ذیل کی حدیث شریف میں موجود ہے۔ یہ مسند امام احمد سے پیش کی گئی ہے۔ اور اسے حدیثِ اوعال کہا جاتا ہے۔
1770 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ الْعَلاءِ، عَنْ عَمِّهِ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَطْحَاءِ، فَمَرَّتْ سَحَابَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَدْرُونَ مَا هَذَا؟» قَالَ: قُلْنَا: السَّحَابُ، قَالَ: «وَالْمُزْنُ» قُلْنَا: وَالْمُزْنُ، قَالَ: «وَالْعَنَانُ» ، قَالَ: فَسَكَتْنَا، فَقَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ؟» قَالَ: قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَمِنْ كُلِّ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَكِثَفُ كُلِّ سَمَاءٍ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَفَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاهُ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ رُكَبِهِنَّ وَأَظْلافِهِنَّ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاهُ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ ذَلِكَ وَلَيْسَ يَخْفَى عَلَيْهِ مِنْ أَعْمَالِ بَنِي آدَمَ شَيْءٌ»
روایت ہے حضرت عباس ابن عبدالمطلب سے فرماتے ہیں کہ وہ بطحاء میں ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ ان میں بیٹھے تھے کہ ایک بادل گزرا ، لوگوں نے اس کی طرف دیکھا تو رسول اللہ نے فرمایا تم اس کا نام کیا رکھتے ہو؟
 لوگوں نے عرض کیا سحاب، فرمایا اور مزن بھی ؟ عرض کیا مزن بھی ، فرمایا اور عنان بھی؟ عرض کیا اور عنان بھی۔
 فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ آسمان و ز مین کے درمیان فاصلہ کتنا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ہم نہیں جانتے، فرمایا ان کے درمیان فاصلہ اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کا (یہ شک راوی کا ہے)اور جو آسمان اس کے اوپر ہے وہ بھی ایسا ہی ہے حتی کہ آپ نے سات آسمان گنوائے۔
پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک دریا ہے جس کے اوپر اور نیچے حصے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک ،
پھر اس کے اوپر آٹھ بکرے ہیں جن کے کھروں اور سرین کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پھر ان کی پیٹھوں پر عرش ہے جس کے نیچے اور اوپر کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک ہے پھر اللہ اس کے اوپر ہے۔ (ترمذی، ابو داؤد)
خیال رہے کہ ایسے موقعہ پر ستر وغیرہ کے معنی ہوتے ہیں بے شمار یا بہت زیادہ لہذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے کہ یہاں کا یہ فرمان بمعنی تکثیر ہے نہ کہ حد بندی کے لیے۔
یہ حدیث شریف ان کتابوں میں موجود ہے
1.    سنن ابی داؤد
2.    سنن ابن ماجہ
3.    مسند امام احمد
4.    المستدرک حاکم
5.    مسند ابی یعلیٰ موصلی
6.    مسند البزار
7.    الأسماء والصفات للبيهقي
8.    العرش وما روي فيه
9.     مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
فلاسفہ نو آسمان مانتے ہیں وہ کرسی اور عرش کو آسمان ہی کہتے ہیں مگر جھوٹے ہیں، قرآن کریم نے بھی آسمان سات ہی ارشاد فرمائے ہیں۔ موجودہ سائنس آسمان کے وجود ہی کا انکار کرتی ہے مگر جھوٹی ہے۔ آسمان ہیں اور سات ، ہیں انہیں نظر آئیں یا نہ آئیں، انہیں ملیں یا نہ ملیں۔
ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ میں ثمانیہ کے معنی آٹھ اور اوعال کے معنی جنگلی بکرے ہیں۔
اس حدیث کو میں نے بہت جگہ پایا ہے۔ لیکن دوسری جگہوں پر زمین و آسمان کا فاصلہ پانسو برس فرمایا گیا ہے اور اس حدیث شریف میں اکہتر فرمایا گیا جو کہ اُس فاصلے کا ساتواں حصہ بنتا ہے۔ اس حدیث کو بعضوں نے ضعیف بھی کہا ہے لیکن امام احمد، ترمذی اور ابو داؤد شریف جیسے حوالے بہت مضبوط ہیں۔ اتنے بڑے امام اسے نقل فرما رہے ہیں تو کوئی وجہ ضرور رہی ہو گی۔ ہم نے اپنے اماموں سے نقل کردیا، آگے آپ جو سمجھیں۔
علماء نے یہاں بکروں سے مراد فرشتے لئے ہیں۔ بلکہ کتاب العرش وما روي فيه میں تو واضح طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں ثم فوق ذلك ثمانية أملاك أوعال یعنی اس کے اوپر آٹھ فرشتے ہیں بکروں کی صورت۔ تو بکروں کے ذکر سے کوئی جھجکنے کی ضرورت نہیں، یہ اللہ کے نبی کے مبارک الفاظ ہیں۔ ہاں اس کی تشریح ضرور بتا دے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔
اہلِ حدیث حضرات اس حدیث مبارکہ کو نہیں مانتے اور اسے اہلِ سنت کی خرافات کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اگر ان بکروں سے فرشتے بھی مراد لئے جائیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حاملینِ عرش کا تذکرہ نہیں، کیونکہ عرش کو چار فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے، اور یہاں فرمایا کہ عرشِ الٰہی ان کی پشت پر رکھا ہوا ہے۔ ہاں قیامت والے دن اسے آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔
&                  جہنم کے انّیس فرشتے
قرآنِ پاک میں ہے کہ
عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ اس پر اُنیس داروغہ ہیں۔
انیس فرشتوں سے مراد فرشتے حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے اٹھارہ ساتھی ہیں جو داروغہ کے طور پر مقرر ہیں ۔
&                  فرشتے افضل ہیں یا آدمی؟
یہ ضرور یاد رہے کہ انسانوں میں سے جو حضرات نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہوئے وہ تمام فرشتوں سے افضل ہیں جبکہ فرشتوں میں جو رسول ہیں وہ اولیاء اور علماء سے افضل ہیں اور اولیاء و علماء عام فرشتوں سے افضل ہیں جبکہ عام فرشتے گناہگار مومنین سے افضل ہیں کیونکہ فرشتے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں ۔
&                  زمین پر ہر جگہ فرشتے مؤکل ہیں
علامہ سیوطی حضرت کعب سے روایت بیان کرتے ہیں کہ زمین پر سوئی کے ناکے کے برابر بھی کوئی جگہ ایسی نہیں جس پر کوئی فرشتہ مؤکل نہ ہو۔ ان کا علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ ان کی تعداد ریت کے ذروں سے بھی زیادہ ہے۔
حدیث شریف میں جہنم کے ان انیس فرشتوں کی صفات یہ بیان ہوئی ہے کہ ان کی آنکھیں برق ہوں گی، اور ہیبت ناک بال لٹک رہے ہوں گے، ہر ایک کو دو جہان کی قوت دی گئی ہو گئی، ہر ایک، ایک امت (گروہ) کو ہانک رہا ہوگا، اس کی گردن پر پہاڑ ہوگا، وہ انہیں جہنم میں پھینک دے گا اور پہاڑ ان کے اوپر گرا دے گا۔
حضرت کعب ؓ سے روایت میں یوں ہے کہ ہر ایک کے پاس گرز ہوں گے جس سے وہ جہنمی کو ماریں گے تو وہ سات لاکھ سال کی مسافت جہنم میں دھنس جائے گا۔ اور ہر داروغہ کی چھاتی پانسو برس کی مسافت ہو گی۔
جس کی چھاتی تئیس کروڑ میل چوڑی ہو، وہ کسی کو مارے تو وہ کیوں نہ 325 کھرب میل جہنم میں دھنس جائے۔ اللہ اکبر! ہم جہنم اور اس کے زبانیہ فرشتوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
ایک حدیثِ پاک میں ان فرشتوں کے دونوں کاندھوں کے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
&                  روحیں کب پیدا ہوئیں؟
رُوحیں ازل میں پیدا نہ ہوئیں، ہاں جسم سے دو ہزار برس پہلے بنیں۔
&                  روحوں کی ملاقات
شرح الصدور بشرح حال الموتىٰ والقبور میں ایک حدیث شریف موجود ہے کہ مؤمنین کی ارواح ایک دن کی مسافت پر ایک دوسرے سے ملتی ہیں حالانکہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہوتا۔
 وَأخرج أَحْمد والحكيم التِّرْمِذِيّ فِي نَوَادِر الْأُصُول عَن عبد الله بن عَمْرو قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِن روحي الْمُؤمنِينَ ليلتقيان على مسيرَة يَوْم وَمَا رأى أَحدهمَا صَاحبه قطّ
امام بخاریؒ الادب المفرد میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا: "بلاشبہ دو مومنوں کی روحیں ایک دن کی مسافت پر ایک دوسرے سے ملتی ہیں حالانکہ ان میں سے کسی ایک نے اپنے ساتھی کو دیکھا تک نہیں۔"
سبحان اللہ! یہ ان مؤمنین کی قوتِ پرواز ہے جو ایک دوسرے سے انجان اور اجنبی ہیں۔ اور جن دو مؤمنین کے درمیان محبت و اخوت کا رشتہ ہو ان کی روحانی ملاقات کے تو کیا ہی کہنے!
&                   کوہِ قاف کی مسافت
القرآن ونقض مطاعن الرهبان میں حدیث شریف ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے رسول اللہ سے سب سے اعلیٰ پہاڑ کا دریافت فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ کوہِ قاف ہے، جس کی بلندی پانسو سال اور جس کی لمبائی ایک ہزار سال کی ہے۔
میرے پیر و مرشد حضرت میاں مظہر احسان نقشبندیؒ نے کوہِ قاف کی سیر فرمائی ہے اور اپنے روحانی سفرنامے میں اس کا کچھ احوال بیان فرمایا ہے۔ اور اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلویؒ نے فرمایا ہے کہ زلزلے کوہِ قاف کی لرزش سے آتے ہیں۔ اور اپنے رسالے میں اس سے متعلق احادیث بھی جمع فرمائی ہیں۔
 اللہ ﷻ نے توفیق عنایت فرمائی تو اس پر کبھی الگ سے لکھوں گا۔
&                  خوشبوئے یوسف ؑ
حضرت یوسفؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کی طرف جب مصر سے اپنا کرتا روانہ فرمایا تو انہوں نے کنعان میں یوسفؑ کی خوشبو کو محسوس فرما لیا اور اپنے بیٹوں سے اس کا تذکرہ بھی فرمایا۔ یہ مسافت کتنی تھی؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔
چھے دن، سات دن، آٹھ دن، دس دن، آٹھ فرسخ اور ایک ماہ کی مسافت۔ آٹھ فرسخ تو 24 میل بنتے ہیں، چھے دن کی مسافت 182 میل اور ایک ماہ کی مسافت 914 میل۔ یعنی ان میں ۲۴ میل سے ۹۱۴ میل تک اقوال ملتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جو ۹۱۴ میل دور سے اپنے حسین بیٹے کی خوشبو محسوس کرسکتا ہے اس کیلئے ۲۴ میل تو کوئی معنیٰ ہی نہیں رکھتے۔ یعنی یہ سب بیک وقت درست ہو سکتے ہیں۔
&                  عورتوں کا سفر اور اس کی مسافت
حدیث پاک میں ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت پر یہ حلال نہیں کہ تین راتوں کا سفر بغیر محرم کے طے کرے۔
&                  یا ساریہ! الجبل، الجبل
حضرتِ عمرؓ نے خطبے کے دوران "اے ساریہ! پہاڑ" فرمایا تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب قافلہ واپس آیا تو حضرت عمرؓ نے احوال دریافت کیا تو اس نے عرض کیا کہ یا امیر المؤمنین! ہم تو شکست ہی کھا چکے تھے کہ ہم نے تین بار سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ "اے ساریہ! پہاڑ"، تو ہم نے پہاڑ کو اپنا پشتی بان بنا لیا۔ تو اللہ نے دشمنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اور یہ لشکر مدینہ سے ایک مہینے کی مسافت پر تھا۔
ایک مہینے کی مسافت ہزار میل بنتی ہے۔ سبحان اللہ! ؏
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام
&                  کشادگئ قبرِ مسلم
کتاب فضائل القرآن لابن الضريس میں ہے کہ جب بندۂ مؤمن فرشتوں کے سوالات کے جوابات دے چکتا ہے تو اس کی قبر کی دیواروں کو دونوں جانب سے دھکیل کر دور کردیا جاتا ہے اور اس کی قبر چار سو سال کی مسافت فراخ کردی جاتی ہے۔
 چار سو سال کی مسافت اٹھارہ کروڑ میل بنتی ہے۔ اے بندے، اپنی خوش نصیبی پر اب ناز کر۔ جو قبر کی اس پہلی منزل میں کامیاب ہوگیا، اصلی کامیاب وہی ہے۔
یہاں یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ کل زمین کی مسافت تو 25 ہزار میں کی ہے، یہ اٹھارہ کروڑ میل کیسے وسیع کردی گئی کیونکہ قبر عالم دنیا سے نہیں بلکہ عالمِ آخرت سے ہے۔ اور عالم آخرت کی مسافت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔
قَالَ: فَيُدْفَعُ فِي قَبْرِهِ مِنْ قِبَلِ لَحْدِهِ، ثُمَّ يُدْفَعُ مِنْ جَانِبٍ الْآخَرِ فَيَتَّسِعُ عَلَيْهِ مَسِيرَةَ أَرْبَعِ مِائَةِ عَامٍ فَيُوضَعُ لَهُ فِرَاشٌ بَطَائِنُهُ مِنْ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ
&                  حوت اور صاحبِ حوت
تفسیرِ بغوی اور تفسیرِ سمعانی میں ہے کہ جب حضرت یونسؑ کو مچھلی نے نگل لیا تو وہ آپ کو سمندر میں سات ہزار برس کی گہرائی تک لے گئی۔
وَقِيلَ: إِنَّ الْحُوتَ ذَهَبَ بِهِ مَسِيرَةَ سِتَّةِ آلَافِ سَنَةٍ.
یہ بات زمینی حوالے سے قطعاً درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ سات ہزار سال آئیڈیل گھوڑے کی رفتار سے سوا تین ارب میل بنتے ہیں۔ اور زمین کا کوئی سمندر چار ہزار میل سے نظری طور پر بھی زیادہ گہرا نہیں ہوسکتا۔ اور دنیا کا سب سے گہرا سمندر پیسی فک بھی سات میل سے زیادہ گہرا نہیں۔
یہ قول صرف اسی صورت درست ہو سکتا ہے جب وہ مچھلی آپؑ کو ساتویں زمین پر لے جائے۔ واللہ اعلم!
&                  لواءُ الحمد کی لمبائی
کتاب "المواہب اللدنیہ" میں ہے کہ"اے علیؓ!قیامت میں سب سے پہلے مجھے بلایا جائے گا۔ میں عرش کے سائے میں عرش کی دہنی طرف کھڑا ہوں گا۔ پھر مجھے سبز حُلّہ پہنایا جائے گا۔ پھر یکے بعد دیگرے انبیاء کو پکارا جائے گا۔ وہ عرش کی داہنی جانب آئیں گے اور انہیں جنتی سبز حُلّے پہنائے جائیں گے۔ آگاہ رہو کہ سب سے پہلے میری امت کا حساب ہوگا۔ پھر اے علیؓ! تجھے مبارک ہو، سب سے پہلے تجھے پکارا جائے گا، تجھے میرا جھنڈا دیا جائے گا جو کہ تعریف کا جھنڈا ہے، تم اسے لئے ہر جانب جاؤ گے، آدم اور اللہ کی ساری مخلوق قیامت کے دن میرے جھنڈے تلے ہوں گے۔ جس کی طوالت ایک ہزار اور چھے سو برس ہوگی۔
المواهب اللدنية بالمنح المحمدية : عن محدوج بن زيد الهذلى أن النبى- صلى الله عليه وسلم- قال لعلى: «أما علمت يا على أنه أول من يدعى به يوم القيامة بى، فأقوم عن يمين العرش فى ظله، فأكسى حلة خضراء من حلل الجنة، ثم يدعى بالنبيين بعضهم على أثر بعض، فيقومون سماطين عن يمين العرش ويكسون حللا خضرا من حلل الجنة، ألا وإن أمتى أول الأمم يحاسبون يوم القيامة، ثم أبشر، فأول من يدعى بك، فيدفع لك لوائى وهو لواء الحمد، فتسير به بين السماطين، آدم وجميع خلق الله تعالى يستظلون بظل لوائى يوم القيامة، وطوله مسيرة ألف سنة وستمائة سنة،
یاد رہے کہ 16 سو برس کی مسافت 75 کروڑ میل بنتی ہے۔
ث‌.            اعمال اور ان کی جزائیں
&                  اعمال کی جزا و سزا کا تصور
دین اسلام اعمال کی جزا و سزا کا قائل ہے۔ اسلام میں علم والا اور بے علم، نیکو کار اور بد کار برابر نہیں۔ جو اچھے کام کرے گا، عمدہ پھل اور نتیجہ پائے گا، جو برے کام کرے گا، اسے اپنی کرنی کا پھل ضرور بھگتنا ہو گا۔ اسی لئے دنیا میں بھی عدالتی نظام ہوتا ہے۔ عدالتی نظام دین فطرت ہے جو تمام انسانوں میں یکساں طور پر رائج ہے۔ اگرچہ طریقۂ کار ہر قوم کا مختلف ہے۔
دنیا میں نہ تو عدالت ہمیشہ درست ہوتی ہے اور نہ ہی مجرم ہمیشہ پکڑا ہی جاتا ہے۔ نیز بہت سے مجرم وہ ہوتے ہیں جن کی دنیا میں سزا ناممکن ہوتی ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو اس کی سزا اکثر قوانین میں موت ہوتی ہے۔ لیکن جو شخص ایک پورے ہنستے بستے شہر کو اجاڑ دے اور آن کی آن میں کھنڈر بنا دے اور اس میں موجود ہر شخص اور ذی روح کو موت کے گھاٹ اتار دے تو اس کی کیا سزا ہو گی۔ ایک شخص کو مارتا تو اسے مار دیا جاتا، اس نے تو پورے شہر کو مار دیا۔ صاف ظاہر ہے کہ دنیا میں اسے اس کے جرم کے برابر سزا دینا ناممکن ہے۔ انہی لوگوں کیلئے آخرت میں جہنم رکھی گئی ہے۔ اور اسی طرح اگر کوئی آدمی بہت بڑا احسان یا بہت بڑی نیکی کرے تو اسے اس کے کام کے مطابق اجرت نہیں دی جا سکتی، ایسے لوگوں کیلئے جنت تیار کی گئی ہے۔
جزا و سزا اگر بہت زیادہ ہو تو اسے بھی اعداد میں بیان کرنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا اس لئے اعمال کی جزا میں بھی مسافت کا اسلامی تصور ملتا ہے جس کی کچھ تفصیل ذیل میں آ رہی ہے۔ اللہ پاک ہماری نیکیوں کا بہترین اجر ہمیں عطا فرمائے اور ہماری خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
؎گنہِ رضاؔ کا حساب کیا وہ اگرچہ لاکھوں سے ہیں سِوا
مگر اے عَفُوّ ترے عَفْو کا نہ حساب ہے نہ شمار ہے
&                  خوفِ خدا میں بہنے والے آنسو
مکاشفۃ القلوب میں ہے کہ جب لوگ جہنم کے قریب آئیں گے تو اس سے سخت گرمی اور خوفناک آوازیں سنیں گے جو پانچ سو سال کے سفر کی دوری سے سنائی دیتی ہوں گی، جب ہر نبی نفسی نفسی اور حضور امتی امتی کہہ رہے ہوں گے اس وقت جہنم سے ایک نہایت ہی بلند آگ باہر نکلے گی اور حضور کی اُمت کی طرف بڑھے گی، آپ کی اُمت اس کی مدافعت میں کہے گی: ''اے آگ! تجھے نمازیوں ، صدقہ دینے والوں ، روزہ داروں اور خوفِ خدا رکھنے والوں کا واسطہ، واپس چلی جا!'' مگر آگ برابر بڑھتی چلی جائے گی، تب حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام یہ کہتے ہوئے کہ جہنم کی آگ امت محمد کی طرف بڑھ رہی ہے، آپ کی خدمت میں پانی کا ایک پیالہ پیش کریں گے اور عرض کریں گے: اے اللہ کے نبی! اس سے آگ پر چھینٹے مارئیے۔ آپ آگ پر پانی کے چھینٹے ماریں گے تو وہ آگ فوراً بجھ جائے گی، اس وقت آپ جبریل سے اس پانی کے متعلق پوچھیں گے، جبرائیل کہیں گے: حضور! یہ خوفِ خدا سے رونے والے آپ کے گناہگار امتیوں کے آنسو تھے، مجھے حکم دیا گیا کہ میں یہ پانی آپ کی خدمت میں پیش کروں اور آپ اس سے جہنم کی آگ کو بجھا دیں ۔
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
روزہ رکھنے والے کا انعام
مسلم اور بخاری میں روایت ہے حضرت ابو سعید خدری سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ نے کہ جو اﷲ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے تو اﷲ اسے آگ سے ستر سال کی راہ دور رکھے گا ۔
ستر سال سوا تین کروڑ میل بنتے ہیں۔
ابو یعلیٰ کی روایت معاذ بن انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ ''غیر رمضان میں اﷲ عزوجل کی راہ میں روزہ رکھا تو تیز گھوڑے کی رفتار سے سو برس کی مسافت پر جہنم سے دور ہوگا۔''
یہ دوری آئیڈیل گھوڑے کی رفتار سے چار کروڑ پینسٹھ لاکھ میل بنتی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری فضائل رمضان المبارک میں ایک طویل حدیث شریف بیان کرتے ہیں جس کے آخر میں یہ ہے کہ ۔۔۔۔ روزے دار رات اور دِن میں جب بھی سجدہ کرتا ہے اُس کے ہر سجدہ کے عوض اُسے جنّت میں ایک ایک ایسا درخت عطا کیا جاتا ہے کہ اُس کے سائے میں گھوڑے سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے۔
پانسو برس میں آئیڈیل گھوڑے سوار سوا تئیس کروڑ میل چلتا ہے۔ یہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے کے برابر ہے۔ سبحان اللہ!
&                  دو جنتی باغ
در منثور میں علامہ سیوطیؒ نے ایک حدیث پاک پیش کی ہے کہ عیاض بن تمیمؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکارِ دو عالم کو یہ آیت تلاوت کرتے سنا:
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ یعنی جو اپنے رب کے مقام سے ڈرا اس کیلئے دو جنتیں ہیں۔
آپ نے اس بارے میں فرمایا کہ یہ دو جنتیں دو بستان (باغ) ہیں جن میں سے ہر ایک کا عرض (چوڑائی) سو برس کی مسافت ہے۔
&                  مکہ مکرمہ کی گرمی پر صبر
حضرتِ سیِّدُنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت، محسنِ انسانیت نے ارشاد فرمایا: '' جو مکہ کی گرمی پر ایک گھڑی صبر کریگا جہنم اس سے ایک سو سال کی مسافت دور ہو جائے گی۔''
سو برس کی راہ آئیڈیل گھوڑے کے اعتبار سے چار کروڑ پینسٹھ لاکھ میل بنتی ہے۔ اے حاجیو! اے زائرو، اے عاشقو! تمہیں مبارک ہو۔تم نے گرمی پر صبر کرنا تو کجا، اسے محسوس تک نہ کیا، محسوس کرتے بھی تو کیسے کرتے کہ
چھاؤں مہکی مہکی ہے، دھوپ ٹھنڈی ٹھنڈی ہے
شہرِ مصطفیٰ تیری بات ہی نرالی ہے
مسلمان کی عیادت کرنے والے کا اجر
ابو داؤد نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی حضور فرماتے ہیں: ''جو اچھی طرح وضو کر کے بغرض ثواب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو جائے جہنم سے ساٹھ برس کی راہ دور کر دیا گیا۔''
المستدرك على الصحيحين للحاكم
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِوِ بْنِ الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَطْعَمَ أَخَاهُ خُبْزًا حَتَّى يُشْبِعَهُ وَسَقَاهُ مَاءً حَتَّى يَرْوِيَهُ بَعَدَهُ اللَّهُ عَنِ النَّارِ سَبْعَ خَنَادِقَ بُعْدُ مَا بَيْنَ خَنْدَقَيْنِ مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ سَنَةٍ»
&                  دنیا پر افسوس
آپ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص دنیا کی کسی چیز کے چلے جانے پر افسوس کرتا ہے وہ ایک ماہ کی مسافت جہنم کے قریب ہو جاتا ہے۔"
اور ایک روایت میں ایک سال کا بھی ذکر ہے۔
امام فخر الدین رازی، ابو عَمرو سے روایت کرتے ہیں کہ '' جس نے اپنی دنیاوی چیز فوت ہونے پر افسوس کیا وہ جہنم سے ایک ہزار سال کی مسافت قریب ہو گیا اور جس نے اپنی آخرت میں سے کسی چیز کے فوت ہونے پر افسوس کیا تو وہ جنت سے ایک ہزار سال کی مسافت قریب ہو گیا۔ ''
ایک ہزار سال میں آئیڈیل گھوڑا چھیالیس کروڑ 65 لاکھ میل دوڑ جاتا ہے۔ یہ فاصلہ ایک آسمانی طبق کا ہے۔ یعنی جہنم اتنا قریب ہو جاتا ہے جتنا آسمان اور اس دَل کا فاصلہ ہے۔ اللہ اکبر! ؎
&                  شیخ الشیوخؒ کا اعلی درجے کا تقویٰ
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کو کسی مرید نے اطلاع دی کہ آپ کا سامانِ تجارت سے لدا ہوا جہاز سمندر میں طوفانی ہواؤں میں گھر کر غرق ہوگیا۔ آپؒ نے گردن جھکائی اور پھر الحمدُ للہ کہا اور بیان میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور اطلاع آئی کہ یا شیخ! طوفان میں جو جہاز غرق ہوا تھا وہ آپ کا نہیں کسی اور تاجر کا تھا۔ آپؒ کا جہاز تو خیریت سے نگر انداز ہوگیا ہے۔ آپؒ نے پھر گردن جھکائی اور فرمایا الحمدُ للہ! لوگوں نے دریافت کیا کہ آپؒ نے دونوں خبروں پر الحمدُ للہ کہا اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا کہ نقصان کی خبر پر میں نے اپنے دل کو دیکھا کہ اس میں دنیا کے فوت ہوجانے پر کوئی افسوس تو نہیں، جب اسے افسوس سے خالی پایا تو اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور جب دوسری خبر آئی کہ آپؒ کا جہاز محفوظ ہے تو میں نے پھر اپنے دل کی طرف دیکھا کہ اس میں دنیا آجانے پر کوئی خوشی تو نہیں ہے، پھر جب حصولِ دنیا پر اسے کسی خوشی سے خالی پایا تو اس پر اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا۔
سبحان اللہ! کیا ہی خوب تقویٰ ہے پیروں کے پیر کا۔ اس سے وہ پیر عبرت پکڑیں جن کی نظریں ہر وقت دروازے کی طرف لگی رہتی ہیں کہ اب ان کا کوئی مرید ان کی خدمت میں بڑے بڑے نذرانے لانے والا ہے۔ اللہ سمجھ عطا کرے۔
&                  تہائی دین جاتا رہا
تفسیر بحر مدید میں ہے کہ جس نے کسی مالدار کی عزت اس کے مال کی وجہ سے کی وہ آگ سے ایک برس کی مسافت قریب ہوگیا اور اس کا تہائی دین جاتا رہا۔
ایک اسلامی سال میں آئیڈیل گھوڑا چار لاکھ پینسٹھ ہزار میل طے کرتا ہے۔
شیخ عبد القدر جیلانیؒ نے فرمایا کہ امیروں اور اغنیاء کے ساتھ تکبر کے ساتھ ملنا عبادت ہے۔ یا عبادت کے سوا کوئی اور لفظ (نیکی یا عاجزی)ارشاد فرمایا، لیکن بہرحال آپ کا یہ قول غنیۃ الطالبین میں موجود ہے۔ جو چاہے وہاں ملاحظہ کرسکتا ہے۔
&                  پیراہن میں ملبوس ننگی عورتیں
علامہ بغوی شرح السنہ میں یہ حدیث نقل فرماتے ہیں
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: «نِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مَائِلاتٌ مُمِيلاتٌ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَرِيحُهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ خَمْسِ مائَةِ سَنَةٍ».
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کپڑوں میں ملبوس ننگی عورتیں کہ خود مائل ہوں اور دوسروں کو مائل کریں، کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی جس کی خوشبو سونگھ سکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو سو سال کی مسافت سے آتی ہے۔
آئیڈیل گھوڑا سو سال میں چار کروڑ پینسٹھ لاکھ میل طے کرتا ہے۔ یہ کپڑوں اور اشاروں میں جنسی بے راہ روی اختیار کرنے کی سزا ہے کہ جنت تو کجا، اس کی خوشبو سے بھی محروم رہیں گی۔ ہم ایسی مائل کرنے والی عورتوں پر مائل ہونے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ فی زمانہ فیشن کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں ہم اس کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ ہماری عورتوں کو ایسی منحوس فیشن پرستی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
وہ وعورتیں جو چست لباس پہنتی ہیں اور نیفے میں ازار بند کی جگہ الاسٹک استعمال کرتی ہیں وہ اس حدیث سے عبرت حاصل کریں۔
&                  جہنّم میں پھینک دیا جائے گا
 حضرتِ سَیِّدُنا عبداﷲ ابنِ عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے ، اللہ کے محبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب کافرمانِ عالی شان ہے: جو شخص دس افراد کا حاکم بنا پھر ان کے درمِیان فیصلے کرتا رہا، لوگوں نے اس کے فیصلے پسند کئے ہوں یا ناپسند۔ قِیامت کے دن اُسے اِس حال میں پیش کیا جائے گا کہ اُس کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوں گے۔ اب اگر (دنیا میں)اللہ عزوجل کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ کیا ہو گا اور رشو ت بھی نہ لی ہو گی اور نہ ہی ظُلم کیا ہوگا تو اﷲ تعالیٰ اس کو آزاد فرما دے گا اور اگر اللہ عزوجل کے نازل فرمودہ احکام کے خلاف فیصلہ کیا ہو گا، رشوت بھی لی ہو گی اور نا انصافی کی ہو گی تو اس کا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ کے ساتھ باندھا جائے گا پھر اسے جہنّم میں پھینک دیا جائے گا تو یہ جہنّم کی تہہ تک پانچ سو سال میں بھی نہ پہنچ سکے گا۔
اگر کوئی جسم 500 سال تک گرتا رہے تو یہ اتنا فاصلہ بن جاتا ہے جسے روشنی سوا لاکھ سال چلنے کے باوجود بھی طے نہ کر پائے۔
جو اپنے خالق کی نظروں سے گر جائے، اس کی پستی کا کون اندازہ لگا سکتا ہے؟ ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ایسی پستی میں گرنے سے اور دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اس خوبصورت خوشبو دار اور نرم و گداز اور لذت بخش اور آرام دہ مسہری پر آرام کی توفیق بخشے جس کی اونچائی آسمان کی اونچائی کے برابر ہے۔
ج‌.                 عرش و کرسی
&                  عظیم نورانی مخلوق
کرسی بھی (اللہ پاک) کی عظیم نورانی مخلوق ہے۔ یہ عرش کے نیچے عرش سے ملی ہوئی ہے اور ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ کرسی عرش سے جداگانہ اللہ پاک کی مخلوق ہے۔ اللہ پاک کی ہر تخلیق میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو ان چیزوں کی محتاجی نہیں لہٰذا اس نے عرش کو نہ بلندی چاہنے کے لئے پیدا فرمایا نہ کرسی کو بیٹھنے کے لئے تخلیق فرمایا۔
&                  خاموشی بہتر ہے
ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور اس (مسافت کے) بارے میں بھی کوئی یقینی رائے قائم کرنے سے خاموشی بہتر ہے۔
&                   کرسی کیسی ہے؟
ہمارے پیارے نبی نے ارشاد فرمایا: کرسی بھی موتی کی اور قلم بھی موتی کا ہے، قلم کی لمبائی 700سال کی مسافت ہے اور کرسی کی لمبائی جاننے والے بھی نہیں جانتے۔
&                   کرسی کی وسعت
 نبی پاک نے فرمایا: ساتوں آسمان کرسی کے آگے ایسے ہیں جیسے صحرا میں ایک چھلا پڑا ہو اور عرش کرسی کے مقابلے میں اتنا بڑا ہے جیسے چھلے کے مقابلے میں صحرا۔
 حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: کرسی کے چار پائے ہیں، جن میں سے ہر ایک آسمان و زمین سے زیادہ لمبا ہے، ساری دنیا کرسی کے سامنے ایسے ہے جیسے تم میں سے کسی کی ہتھیلی پر رائی کا دانہ۔
&                  کرسی موتی کی ہے
اللہ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے:
وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ                           
اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔
کرسی سے مراد علمِ الٰہی ہے یا مُلکِ خداوندی یا پھر مشہور آسمان کا نام ہے۔
حضرتِ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی ہے کہ کرسی ایک موتی ہے جس کی لمبائی اللہ تَعَالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا، حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے وسیع صحرا میں ایک حلقہ پڑا ہو۔
مزید فرمایا کہ آسمان کرسی میں ہیں اور کرسی عرشِ الٰہی کے سامنے ہے۔
 حضرتِ عکرمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی ہے، سورج کرسی کے نور کا ستّرواں حصہ ہے اور عرشِ الٰہی حجاباتِ الٰہی کے نور کا سترواں حصہ ہے۔
مروی ہے کہ عرش اور کرسی کے اٹھانے والے فرشتوں کے مابین ستر ہزار نور کے اور ستر ہزار ظلمت کے پردے حائل ہیں ، ہر پردہ پانچ سو سال کا سفر ہے، اگر یہ پردے نہ ہوتے تو حاملین کرسی حاملین عرش کے نور سے جل جاتے۔
&                   عرشِ الٰہی
عرشِ الٰہی مخلوقات کی چھت ہے، کوئی چیز اس کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتی، وہ بندوں کے علم و ادراک اور مطلوب کی انتہا ہے، اللہ تَعَالٰی نے اسے ''عظیم'' قرار دیا ہے چنانچہ
            فرمانِ الٰہی ہے:
فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
عرش ایک نورانی شے ہے جو کرسی سے اوپر ہے اور ایک علیحدہ وجود رکھتا ہے۔ عرشِ الٰہی کی بناوٹ کے متعلق مختلف روایتیں ہیں بعض کہتے ہیں : سرخ یاقوت کا ہے یا سبز موتی کا ہے بعض کی رائے ہے کہ سفید موتی سے بنایا گیا ہے، اللہ تَعَالٰی ہی اس کی حقیقت کو بہتر جانتا ہے۔
حضرت ضحاک حضرت ابن عباس سے نقل فرماتے ہیں کہ عرش کو اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات تقابل کیلئے بہترین ہے کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ آسمان صرف بلندی کا نام ہے، کسی ٹھوس چیز کا نام نہیں۔ جبکہ عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ عرش کو اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہتے ہیں۔ سبحان اللہ!
تفسیرِ ابن کثیر میں ہے کہ چوتھی زمین سے اس (عرش) کی بلندی پچاس ہزار سال ہے۔
&                  حاملینِ عرش و کرسی
تفسیرِ خازن میں ہے کہ حاملینِ عرش اور حاملینِ کرسی کے مابین ستر، ستر حجابات نور اور ظلمت کے ہیں، اور ہر حجاب کا دوسرے حجاب سے فاصلہ پانسو سال کی راہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حاملینِ کرسی حاملینِ عرش کے انوار سے جل جاتے۔
تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل: وفي بعض الأخبار أن بين حملة العرش وحملة الكرسي سبعين حجابا من ظلمة وسبعين حجابا من نور غلظ كل حجاب مسيرة خمسمائة عام لولا ذلك لاحترقت حملة الكرسي من نور حملة العرش.
یہ ۱۴۰ حجابات ستر ہزار سال کی مسافت بنتی ہے۔ یعنی حاملینِ کرسی، عرش کے حاملین سے ۳۲ ارب (32563440000) میل کی دوری پر نہ ہوں تو جل جائیں۔
اسرار الکون میں علامہ سیوطی حضرتِ وہب بن منبہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حاملینِ عرش و کرسی کے مابین ستر حجابات ظلمت کے، ستر ٹھنڈک کے، ستر برف کے اور ستر نور کے حجابات ہیں۔ ہر حجاب کی موٹائی پانسو برس کی راہ ہے اور ایک حجاب سے دوسرے حجاب کی مسافت بھی پانسو برس کی راہ ہے۔
أسرار الكون: وأخرج عن وهب بن منبه قال: (بين ملائكة حملة الكرسي، وبين ملائكة العرش، سبعون حجابا من الظلمة وسبعون حجابا من البرد، وسبعون حجابا من الثلج، وسبعون حجابا من النور، غلظ كل حجاب منها مسيرة خمسمائة عام، ومن الحجاب إلى الحجاب مسيرة خمسمائة عام) .
یہ 280 حجابات بنتے ہیں۔ اور کل مسافت 280000 برس کی بنتی ہے۔ اور یہ 130 کھرب میل کی مسافت ہے۔ اس مسافت کے مقابلے میں زمین و آسمان کی مسافت کچھ بھی نہیں۔ یہ مسافت 26 کروڑ آسمانوں سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ہے حاملینِ عرش اور حاملینِ کرسی کا آپس میں فاصلہ!
&                  ہئیت دان کیا کہتے ہیں
 فلکیات کے ماہرین اسے نواں آسمان، فلکِ اعلیٰ، فلکُ الا َفلاک اور فلکِ اَطلس کہتے ہیں۔ اس میں کوئی ستارہ وغیرہ نہیں ہے، قدیم ہئیت دانوں کے بقول تمام ستارے آٹھویں آسمان میں ہیں جس کو وہ فلک البروج اور اہلِ شرع کرسی کہتے ہیں۔
&                  عرش اٹھانے والا فرشتہ
روایت ہے حضرت جابر ابن عبداللہ سے وہ رسول اللہ سے راوی ہیں، فرمایا مجھے اجازت دی گئی ہے کہ تم کو اللہ کے فرشتوں میں ایک فرشتے کے متعلق خبر دوں عرش اٹھانے والوں سے کہ اس کے کانوں کی گدیوں سے اس کے کندھوں تک سات سو سال کا فاصلہ ہے (ابوداؤد)
&                  جب پروردگار تشریف لائے گا
در منثور میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاصؓ سے ایک حدیث منقول ہے کہ سرکارِ دو عالم نے ارشاد فرمایا کہ: جب قیامت کا دن ہوگا تو پروردگار بادل کے سائے میں نزول فرمائے گا۔ اور ہر امت اپنے گھٹنوں کے بل گری ہو گی۔ تین حجابوں میں، اور ہر حجاب کی مسافت پچاس ہزار برس ہو گی۔ نور، ظلمت اور پانی کے حجابات۔
وَأخرج ابْن مرْدَوَيْه عَن عبد الله بن الصَّامِت قَالَ: قلت لعبد الله بن عَمْرو بن الْعَاصِ أَرَأَيْت قَول الله: {هَذَا يَوْم لَا ينطقون وَلَا يُؤذن لَهُم فيعتذرون} قَالَ: إِن يَوْم الْقِيَامَة يَوْم لَهُ حالات وتارات فِي حَال لَا ينطقون وَفِي حَال ينطقون وَفِي حَال يَعْتَذِرُونَ لَا أحدثكُم إِلَّا مَا حَدثنَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: إِذا كَانَ يَوْم الْقِيَامَة ينزل الْجَبَّار فِي ظلل من الْغَمَام وكل أمة جاثية فِي ثَلَاثَة حجب مسيرَة كل حجاب خَمْسُونَ ألف سنة حجاب من نور وحجاب من ظلمَة وحجاب من مَاء لَا يرى لذَلِك فيأمر بذلك المَاء فَيَعُود فِي تِلْكَ الظلمَة وَلَا تسمع نفس ذَلِك القَوْل إِلَّا ذهبت فَعِنْدَ ذَلِك لَا ينطقون
ڈیڑھ لاکھ برس کی مسافت ستر ارب (69778800000) میل ہوتی ہے۔ اللہ اکبر!
&                  عرش کا سایہ ستر ہزار برس
قیامت کے دن عرشِ الٰہی کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ یہ سایہ درختوں کے سائے کی مانند نہ ہوگا بلکہ اسے اللہ پاک پیدا فرمائے گا اور ستر ہزار برس کی راہ تک پھیلا ہوا ہوگا۔ جیسا کہ سراج المنیر کی اس روایت میں موجود ہے۔
السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير: وقيل: الظل ليس ظلّ أشجار بل ظلّ يخلقه الله تعالى، قال الربيع بن أنس رضى الله عنه: يعني ظلّ العرش؛ وقال عمرو بن ميمون رضى الله عنه: مسيرة سبعين ألف سنة
ستر ہزار سال کی مسافت 32 ارب میل بنتی ہے۔

&                  اسلامی سال کے فاصلے
آئیے اب مزید آگے بڑھتے ہیں اور اسلامی سال یعنی 355 دن کے اعتبار سے ان میں سے کچھ فاصلوں کا شمار کرتے ہیں۔
&                  مسافت میلوں میں
چونکہ احادیثِ مبارکہ اور قرآنِ پاک میں اکثر یہ فاصلے برسوں میں یا مہینوں میں بیان ہوئے ہیں اس لئے میلوں اور اعداد میں ان فاصلوں کو آسانی سے یاد رکھنے کیلئے ایک چارٹ اور دیکھتے ہیں۔ اس چارٹ میں دنوں کے فاصلے کو الگ رنگ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ باقی تمام فاصلے اور ان کی مدت سالوں میں بیان کی گئی ہے۔ اور یہ تمام فاصلے آئیڈیل گھوڑے کی رفتار سے شمار کئے گئے ہیں۔
&                  گیارہ ہزار کتابوں کا خلاصہ
یہ فہرست گیارہ ہزار کتابوں سے اس موضوع پر تلاش کے بعد پیش کی جا رہی ہے اور اس ایک فہرست کیلئے میں نے ہزاروں احادیث کو پڑھا ہے اور ان میں سے یہ فاصلے چنے ہیں۔ اللہ پاک میری اس محبت اور محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور میرے گناہوں کا کفارہ اور اپنے قرب کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔ پڑھنے والوں سے بھی توجہ کی درخواست ہے۔
تفصیل
مدت
فاصلہ (میل)
نوری سیکنڈ
انجان مؤمنین کی ارواح کا ملنا
1 دن
1310
2
جہنمی شخص کی کھال کی موٹائی
3 دن
3931
7
جہنمی اژدہے کی لمبائی
30 دن
39310
75
حضرت یعقوبؑ کا بوئے یوسف محسوس کرنا
30 دن
39310
75
تختِ سلیمان کا صبح کا سفر
30 دن
39310

حوضِ کوثر کی لمبائی چوڑائی
30 دن
39310
75
دشمن کا رعب نبی ﷺ سے کانپنا
30 دن
39310
75
ساریہ سے خطابِ عمرؓ
30 دن
39310
75
ایک زمین کا فاصلہ
40 دن
52416
100
مالدار کی عزت سے جہنم سے قربت
1 سال
465192
2
دوزخ کی دیوار(سردق) کی موٹائی
40 سال
18607680
100
عیادتِ مسلم سے جہنم سے دوری
60
27911520
150
باب التوبہ کی چوڑان
70
32563440
175
جنتی دروازے کی وسعت
70
32563440
175
جنتی گھوڑے کی ایک آن میں مسافت
70
32563440
175
جہنم کی گہرائی
70
32563440
175
صعود پہاڑ کی بلندی
70
32563440
175
ویل جہنمی وادی کی گہرائی
70
32563440
175
ایک روزے سے جہنم سے دوری
100
46519200
250
جنتان میں سے ہر ایک کی چوڑائی
100
46519200
250
جنتی موتی محل کی لمبائی
100
46519200
250
درود پڑھنے والے سے جہنم کا دور جانا
100
46519200
250
سدرۃُ المتہیٰ کی شاخوں کا سایہ
100
46519200
250
شجر طوبیٰ کا سایہ
100
46519200
250
کچھ فرشتوں کی آنکھوں کا فاصلہ
100
46519200
250
گرمئ مکہ پر ایک گھڑی صبر سے جہنم سے دوری
100
46519200
250
جہنم کی چار دیواریں
160
74430720
399
نیکوکار کی قبر کی فراخی
400
186076800
998
آسمان کی موٹائی
500
232596000
1,248
پہلا آسمان
500
232596000
1,248
جبریل کے شانوں کی چوڑائی
500
232596000
1,248
جنت کے دو درجات میں فاصلہ
500
232596000
1,248
جنتی مسہری کی بلندی
500
232596000
1,248
جنتی موتی محل کی چوڑائی
500
232596000
1,248
جہنم کی بھڑک
500
232596000
1,248
جہنمی حاکم کا جہنم میں گرنا
500
232596000
1,248
حاملینِ عرش و کرسی کے مابین حجاب کی موٹائی
500
232596000
1,248
حاملینِ عرش و کرسی کے مابین دو حجابات کا فاصلہ
500
232596000
1,248
حور کے بدن کی خوشبو
500
232596000
1,248
دوزخ کی ایک خندق کی مسافت
500
232596000
1,248
دوسری زمین کا زمین سے فاصلہ
500
232596000
1,248
روزے دار کے درخت کا سایہ
500
232596000
1,248
زبانیہ فرشتوں کے کندھوں کی چوڑائی
500
232596000
1,248
ساتوں زمینوں کا ایک دوسری سے فاصلہ
500
232596000
1,248
سماعتِ مصطفیٰ ﷺ
500
232596000
1,248
قاف سے پر پہلا سمندر
500
232596000
1,248
قلم کا تخلیقی طول
500
232596000
1,248
کروبین کی کان کی پشت اور گردن کا فاصلہ
500
232596000
1,248
کوہِ قاف کی بلندی
500
232596000
1,248
لوح محفوظ کی تخلیقی مسافت
500
232596000
1,248
مشرق و مغرب کا فاصلہ
500
232596000
1,248
ایک فرشتے کے پیروں اور ٹخنوں کا فاصلہ
600
279115200
1,497
جہنمی کے کانوں کی لَو سے کندھے کا فاصلہ
700
325634400
1,747
زروفیل فرشتے کے کانوں سے کندھوں کا فاصلہ
700
325634400
1,747
قلم کی لمبائی
700
325634400
1,747
ایک آسمان مع دَل (موٹائی)
1,000
465192000
2,496
آخرت جانے سے افسوس پر جنت سے نزدیکی
1,000
465192000
2,496
آسمان سے اترنا اور چڑھنا
1,000
465192000
2,496
جنت کی خوشبو
1,000
465192000
2,496
جوہر کی چوڑائی
1,000
465192000
2,496
دنیا جانے پر افسوس کرنے سے جہنم سے نزدیکی
1,000
465192000
2,496
سیاہ آدمی کی سفیدی جنت میں دکھائی دے گی
1,000
465192000
2,496
کوہِ قاف کا گھیر
1,000
465192000
2,496
لواء الحمد کی طوالت
1,600
744307200
3,993
جنتی کی حد نظر
2,000
930384000
4,991
کھانا کھلانے والے کی جہنم سے دوری
3,500
1628172000
8,734
سورج کا زمین سے فاصلہ
4,000
1860768000
9,982
سات آسمان مع دل
7,000
3256344000
17,469
جوہر کی لمبائی
10,000
4651920000
24,955
چودہ طبق
14,000
6512688000
34,937
پل صراط
15,000
6977880000
37,433
ساتویں آسمان تا عرش
36,000
16746912000
89,839
تقدیر
50,000
23259600000
124,776
جبریلؑ کی خالق سے دوری کا ایک اندازہ
50,000
23259600000
124,776
جنت کی وسعت
50,000
23259600000
124,776
زمین تا سدرۃُ المنتہیٰ
50,000
23259600000
124,776
ساتویں زمین تا عرش
50,000
23259600000
124,776
جہنم میں گرز سے دھنسنا
70,000
32563440000
174,686
ظلٍّ ممدود
70,000
32563440000
174,686
عرش کا سایہ
70,000
32563440000
174,686
رب العزت سے حجاب بروزِ قیامت
150,000
69778800000
374,328
حاملینِ عرش و کرسی کے مابین حجابات
280,000
1.30254E+11
698,745
جنت میں علما کی بلندی
350,000
1.62817E+11
873,431
فرشتوں کے گرز سے جہنمی کا دھنسنا
700,000
3.25634E+11
1,746,863
نور کے ستر ہزار پردے
35,000,000
1.62817E+13
87,343,129
نور کے ستر ہزار پردے آنا جانا
70,000,000
3.25634E+13
174,686,258
نو بار ستر ہزار پردے طے فرمانا
630,000,000
2.93071E+14
1,572,176,320

&                  جولین نوری سال (58 کھرب میل)
نوری سال وہ فاصلہ ہے جسے روشنی ایک جولین سال (Julian Year) یعنی 365.25 دن میں طے کرتی ہے۔ روشنی ایک نوری سال میں 9،460،730،472،580،800 میٹر کا فاصلہ طے کر لیتی ہے یعنی 94 کھرب کلومیٹر یا 58 کھرب میل۔ یہ ایک نوری سال کہلاتا ہے۔
&                  اسلامی نوری سال (57 کھرب میل)
چونکہ ایک اسلامی سال 355 دن سے زیادہ کا نہیں ہوتا اور احادیثِ مبارکہ میں ہمیشہ اسلامی سال ہی مراد ہوتا ہے اور ہم نے بھی اس مضمون میں اسلامی سال ہی لیا ہے، اس لئے دونوں سالوں کا تقابل ذیل میں پیش کیا گیا ہے۔
دورانیہ
اسلامی سال
جولین سال
دن
355
365.25
گھنٹے
8520
8766
منٹ
511200
525960
سیکنڈ
30672000
31557600
تین کروڑ چھے لاکھ سیکنڈ
تین کروڑ پندرہ لاکھ سیکنڈ
نوری سال میل
5717598192000
5882683773600
ستاون کھرب میل
اٹھاون کھرب میل
نوری سال کلومیٹر
9201600000000
9467280000000
بانوے کھرب کلومیٹر
چورانوے کھرب کلومیٹر
Table-3

ح‌.                 فضائلِ مصطفیٰ ﷺ
&                  رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی
نبی کریم ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ آپ کی افضلیت کی بہت وجوہ ہیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ
صحيح البخاري: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الأَنْبِيَاءِ قَبْلِي: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِي الغَنَائِمُ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ "
رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے وہ شانیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئیں۔ میری مدد ایک مہینے کی راہ کے رعب سے کی گئی ہے۔۔۔۔ الخ
کتاب عقود الزبرجد على مسند الإمام أحمد میں ہے
حديث: "ونصرت بالرعب، فيرعب العدو، وهو مني مسيرة شهر".
اور قرآنِ پاک میں ہے
سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ
"کوئی دم جاتا ہے کہ ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈالیں گے۔"
سبحان اللہ! کیا شان ہے میرے آقا کی۔ دشمن ایک مہینے کی مسافت پر ہوتا ہے کہ سید المجاہدین کے رعب سے کانپ جاتا ہے۔
آئیڈیل گھوڑا ایک ماہ میں چالیس ہزار میل کا سفر طے کرتا ہے۔ جبکہ کرۂ ارض کا کل محیط ہی پچیس ہزار میل سے کم ہے۔ زمین کا وہ کونسا گوشہ ہے جہاں دشمنِ رسول چین سے رہ سکے؟ اور کیسے رہ سکے؟ زمین کی ساری راج دھانی تو میرے نبی کی ہے۔
مکاں عرش اُن کا، فلک فرش اُن کا
مَلَک خادمانِ سَرائے مُحَمَّد
تاہم "تبسيط العقائد الإسلامية " میں لکھا ہے کہ یہ مسافت اِبِل یعنی اونٹ کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ دور دراز کی مسافتوں کیلئے یہی ذریعہ تھا۔
نصره الله بالرعب وبينه وبين عدوه مسيرة شهر: ... بسير الإبل، لأنها كانت وسيلة للمواصلات البعيدة يومئذ، وسيرة الرسول صلى الله عليه وسلم شاهدة على ذلك.
آئیڈیل اونٹ کی تیز ترین رفتار 40 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یہ بھی مستقل چلے تو ایک ماہ میں پوری زمین کو طے کر لے گا۔
&                  اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں
"سمع والا (نبی کریم کی سماعت) کے نزدیک پانچ سو برس راہ کی صدا جیسے کان پڑی آواز ہے۔" یعنی نبی کریم کی سماعتِ مبارکہ کے نزدیک پانچ سو برس کی راہ کی صدا ایسی ہے جیسے کان پڑی آواز۔ یعنی آپ دور کی آواز کو بھی قریب ہی کی طرح سماعت فرماتے ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ)
پانسو سال کی راہ ایسی ہے جیسے دو گام
آس ہم کو بھی لگی ہے تِری شنوائی کی
سنن الترمذي: عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي أَرَى مَا لاَ تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُونَ أَطَّتِ السَّمَاءُ، وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلاَّ وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الفُرُشِ وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللهِ، لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ.
&                  میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے
 اللہ تعالیٰ نے آپ کو اِس اعلیٰ درجہ کی سماعت عطا فرمائی ہے کہ پانچ سو سال دُور کی آواز بھی آپ کو ایسی معلوم ہوتی جیسے کان میں کہی ہوئی بات جیسا کہ حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ نے فرمایا: میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے، میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے، آسمان چَرچَراہٹ کرتا ہے، اور لازم ہے کہ چَرچَراہٹ کرے۔ الخ۔
(ترمذی، کتاب الزھد، باب فی قول النبی الخ، ۴/۱۴۰، حدیث:۲۳۱۹)
اور آسمان و زمین کے درمیان کا فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت ہے۔
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام

&                  نبی پر درود بھیجنا
حضور نبئ رحمت، شفیعِ امّت کا فرمانِ رحمت نشان ہے : ''جس نے مجھ پر سو بار درود پاک بھیجا تو آگ اس سے سو سال کی دوری پر ہٹ جائے گی ۔''
سبحان اللہ! ایک تسبیح پڑھ لیں تو جہنم کی آگ ایک سو سال دور ہوجائے، یعنی تیز رفتار گھوڑا سو سال چلے تو اتنا فاصلہ طے کرے۔ اب بھی اگر کوئی درود پاک میں سستی کرے تو اس سے بڑھ کر اور کیا محرومی ہوگی۔
&                  معراج النبی
اور معراج النبی میں جو ستر ہزار نور کے پردے طے فرمائے، یہ تقریباً 163 کھرب میل کا فاصلہ بنتا ہے۔ اور اگر آنا جانا دیکھا جائے تو در حقیقت یہ فاصلہ دوبار طے ہوا اور آپ نے نو بار یہ آنا جانا کیا جو تین ہزار کھرب میل بنتا ہے۔ روشنی اس فاصلے کو 18,196 دنوں میں یا سوا اکیاون سال قمری سال میں طے کرتی ہے۔
&                  رفتارِ نور سے بھی ڈیڑھ ارب گنا زیادہ رفتار
سرکارِ دو عالم کے بارے میں تو کوئی کیا لب کشائی کرسکتا ہے، لیکن اگر اتنا فاصلہ اگر ایک آن میں طے کیا جائے تو یہ سفر روشنی کی رفتار سے بھی ڈیڑھ ارب گنا زیادہ رفتار سے ہی ممکن ہو سکے گا کیونکہ روشنی اس فاصلے کو 1,572,176,320 سیکنڈز میں طے کرتی ہے۔ یعنی عملی طور پر تو کجا، عقلی طور پر بھی ابھی تک ممکن نہیں۔ اور کیا ہوتا ہے معجزہ؟ وہی جو عقل کو عاجز کرکے رکھ دے۔
یونہی تو نہیں فرمایا اس پاک پروردگار نے
"پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو، راتوں رات لے گیا"
سبحان اللہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ ! کیا شان ہے لے جائے جانے والے کی، اور کیا ہی شان ہے اپنے محبوب کو یوں لے جانے والے کی۔
اتار کر اُن کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
یہ جوشِشِ نور کا اثر تھا کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا
صفائے رہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحر وحدت کہ دُھل گیا نامِ ریگ کثرت
فلک کے ٹِیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بُلبُلے تھے
چلا وہ سروِ چَمَاں خراماں نہ رُک سکا سدرہ سے بھی داماں
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب اِین و آں سے گزر چکے تھے
تھکے تھے رُ وْح ُ الا َ مِیں کے بازو، چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رِکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
خرد سے کہہ دو کہ سر جھکا لے، گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پر دے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آ لئے تھے
&                  نور کے ستر ہزار پردے
جب حضور آسمان ہفتم سے گزرے، سدرہ حضور کے سامنے بلند کی گئی، اس سے گزر کر مقام مستوٰی پر پہنچے ، پھر حضور عالم نور میں ڈالے گئے، وہاں ستر ہزار پردے نور کے طے فرمائے ، ہر پردے کی مسافت پانسو برس کی راہ۔ پھر ایک سبز بچھونا حضور کے لئے لٹکایا گیا ، حضور اقدس اس پر ترقی فرما کر عرش تک پہنچے ، اور عرش سے ادھر گزر نہ فرمایا وہاں اپنے رب سے قاب قوسین او ادنیٰ پایا۔
&                  ادنیٰ مسافت سات ہزار برس
شرح ہمزیہ امام مکی میں ہے :
لما اعطی سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام الریح التی غدوھا شھر ورواحھا شھر اعطی نبینا البراق فحملہ من الفرش الی العرش فی لحظۃ واحدۃ واقل مسافۃ فی ذٰلک سبعۃ اٰلاف سنۃ ۔ وما فوق العرش الی المستوی والرفرف لایعلمہ الا اللہ تعالٰی
جب سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہوا دی گئی کہ صبح شام ایک ایک مہینے کی راہ پر لے جاتی۔ ہمارے نبی کو براق عطا ہوا کہ حضور کو فرش سے عرش تک ایک لمحہ میں لے گیا اور اس میں ادنیٰ مسافت (یعنی آسمان ہفتم سے زمین تک ) سات ہزار برس کی راہ ہے۔ اور وہ جو فوق العرش سے مستوٰی اور رفرف تک رہی اسے تو خدا ہی جانے۔
&                  جسم کے ساتھ معراج
جو بات نہایت عجیب ہوتی ہے اس پر تسبیح کی جاتی ہے، سبحان اﷲ الذی کیسی عمدہ چیز ہے۔ سبحٰن کیسی عجیب بات ہے، جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے جانا کوئے زمہریر طے فرمانا، کرۂ نار طے فرمانا، کروڑوں برس کی راہ کو چند ساعت میں طے فرمانا۔ تمام ملک و ملکوت کی سیر فرمانا۔ یہ تو انتہائی عجیب آیاتِ بینات ہی ہیں۔
&                  معراج۔۔۔ کفار پر حجت
اور اتنی بات کفارِ مکہ پر حجت قائم فرمانے کے لیے ارشاد ہوئی کہ شب کو مکہ معظمہ میں آرام فرمائیں صبح بھی مکہ معظمہ میں تشریف فرما ہوں، اور رات ہی رات بیت المقدس تشریف لے جائیں اور واپس تشریف لائیں۔
&                  اختصار کا کمال عطا کیا گیا
سنن الدارمی کی حدیثِ پاک ہے کہ
عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ أَدْرَكَ بِيَ الْأَجَلَ الْمَرْحُومَ وَاخْتَصَرَ لِيَ اخْتِصَارًا فَنَحْنُ الْآخِرُونَ، وَنَحْنُ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ: إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ اللَّهِ، وَمُوسَى صَفِيُّ اللَّهِ، وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ، وَمَعِي لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "
یعنی جب رحمت خاص کا زمانہ آیا، اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا فرمایا اور میرے لئے کمال اختصار کیا ۔ہم ظہور میں پچھلے اور روز قیامت رتبے میں اگلے ہیں اور میں ایک بات فرماتا ہوں جس میں فخر و ناز کو دخل نہیں ۔ابراہیم اللہ کے خلیل اور موسی اللہ کے صفی اور میں اللہ کا حبیب ہوں ،اور میرے ساتھ روز قیامت لواء الحمد ہو گا ۔
&                  وَاخْتَصَرَ لِيَ اخْتِصَارًا کا مفہوم
اوپر کی حدیث جو سننِ دارمی کی ہے اس کے یہ الفاظ خاص توجہ چاہتے ہیں۔ یعنی "اللہ نے میرے لئے کمالِ اختصار کیا" کے بارے میں علمائے کرام ارشاد فرماتے ہیں کہ اس فقرے کے کثیر معنیٰ ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
1.    مجھے اختصار کلام بخشا کہ تھوڑے لفظ ہوں اور معنی کثیر۔
2.    میرے لئے زمانہ مختصر کیا کہ میری امت کو قبروں میں کم دن رہنا پڑے ۔
3.    میرے لئے امت کی عمریں کم کیں کہ مکارہ دنیا سے جلد خلاص پائیں ،گناہ کم ہوں ۔نعمت باقی تک جلد پہنچیں۔
4.    میری امت کے لیے طول حساب کو اتنا مختصر فرما دیا کہ اے امت محمد ! میں نے تمھیں اپنے حقوق معاف کیے ۔آپس میں ایک دوسرے کے حق معاف کرو اور جنت کو چلے جاؤ۔
5.    میرے غلاموں کے لئے پل صراط کی راہ کہ پندرہ ہزار برس کی ہے اتنی مختصر کردے گا کہ چشم زدن میں گزر جائیں گے یا جیسے بجلی کوند گئی ۔
6.    قیامت کا دن کہ پچاس ہزار برس کا ہے میرے غلاموں کے لیے اس سے کم دیر میں گزر جائے گا جتنی دیر میں دو رکعت فرض پڑھتے ہیں۔
7.    علوم و معارف جو ہزار سال کی محنت و ریاضت میں نہ حاصل ہو سکیں میری چند روزہ خدمت گاری میں میرے اصحاب پر منکشف فرما دے۔
8.    زمین سے عرش تک لاکھوں برس کی راہ میرے لئے ایسی مختصر کر دی کہ آنا اور جانا اور تمام مقامات کو تفصیلاً ملاحظہ فرمانا سب تین ساعت میں ہو لیا ۔
9.    یہ کہ مجھ پر کتاب اتاری جس کے معدود ورقوں میں تمام اشیاء گزشتہ و آئندہ کا روشن مفصل بیان جس کی ہر آیت کے نیچے ساٹھ ساٹھ ہزار علم جس کی ایک آیت کی تفسیر سے ستر ستر اونٹ بھر جائیں ۔اس زیادہ اور کیا اختصار متصور؟
10.           شرق تا غرب اتنی وسیع دنیا کو میرے سامنے ایسا مختصر فرما دیا کہ میں اسے او ر جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے ولاہے سب کو ایسے دیکھ رہا ہوں کانما انظر الی کفی ھذہ جیسا کہ میں اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔
11.           میری امت کے تھوڑے عمل پر اجر زیادہ دیا۔
12.           اگلی امتوں پر جو اعمالِ شاقہ طویلہ تھے ان سے اٹھا لئے ، پچاس نمازوں کی پانچ رہیں اور حساب میں پوری پچاس ۔ زکوٰۃ میں چہارم مال کا چالیسواں حصہ رہا اور کتاب فضل میں وہی ربع کا ربع، وعلی ھذا لقیاس ،ولحمد للہ رب العلمین
13.           یہ بھی حضور کے اختصار کلام سے ہے کہ ایک فقرے (وَاخْتَصَرَ لِيَ اخْتِصَارًا) کے اتنے کثیر معنی ۔
&                  زمان و مکان کا اختصار
اوپر بتائے ہوئے فضائل میں دسویں نمبر پر جو وجہ اختصار بیان کی گئی ہے اس بارے میں طبرانی کی حدیثِ پاک ہے
المعجم الكبير للطبراني:
عن ابن عمر، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: «إِنَّ اللهَ عَزَّ وجَلَّ قَدْ رَفَعَ لِيَ الدُّنْيَا، فَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهَا وإِلى مَا هُوَ كَائِنٌ فِيهَا إِلى يَوْمِ القِيَامَةِ، كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلى كَفِّي هَذِهِ؛ جِلِّيَانٌ مِنَ اللهِ جَلاَهُ لِنَبِيِّهِ كَمَا جَلاَ لِلنَّبِيِّينَ مِنْ قَبْلِهِ»
یعنی یہ کہ اللہ نے میرے لئے دنیا مختصر فرما دی۔ میں دنیا کو اور جو اس میں قیامت تک ہونے والا ہے اس کو اس طرح ملاحظہ فرماتا ہوں جیسے اپنے ہتھیلی کو۔
دنیا اسپیس ہے اور واقعات زمان یا ٹائم۔ زمان و مکان آپ کے سامنے سے اٹھا دئیے گئے۔ اگر اس اختصار میں کوئی شرف نہ ہوتا تو کیا آپ اسے یوں بیان فرماتے؟
غوثِ پاک حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ "میں اللہ ﷻ کے تمام بلاد کو اپنی ہتھیلی پر رائی کے دانے کی مانند دیکھتا ہوں۔" آپ کا یہ قول کمال درجے کا ادب ہے جو آپؒ نے سرکارِ دو عالم کی بارگاہ میں کیا۔ آپ اپنے مشہورِ عالم قصیدے میں ارشاد فرماتے ہیں:
نَظَرْتُ اِلٰی بِلَادِ اللّہِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَۃٍ عَلٰی حُکْمِ اتّصَالِ
یعنی میں نے خدائے تعالیٰ کے تمام شہروں کی طرف دیکھا، تو وہ سب مل کر رائی کے دانہ کے برابر تھے۔
اگر زمان و مکان کا یہ اختصار کمال نہ ہوتا تو کیا غوثِ پاک اسے یوں فخر سے اپنے اس قصیدے میں بیان فرماتے جس میں آپؒ نے اپنی شان بیان فرمائی ہے۔
&                  احوالِ قیامت
عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور پُرنور سیّد عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امّت میں دجّال نکل کر چالیس(راوی کا شک) تک ٹھہرے گا پھر اﷲ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھیجے گا وُہ اُس کو ہلاک کریں گے پھر سات برس تک لوگوں میں اس طرح تشریف رکھیں گے کہ کوئی دو دل آپس میں عداوت نہ رکھتے ہوں گے اس کے بعد اﷲ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا کہ روئے زمین پر جس دل میں ذرّہ برابر بھی ایمان ہوگا اس کی روح قبض کر لے گی یہاں تک کہ اگر تم میں کوئی پہاڑ کے جگر میں چلا جائے گا تو وہ ہوا وہاں جا کر بھی اُس کی جان نکال لے گی۔ اب بد ترین خلق باقی رہ جائیں گے فسق و شہوت میں پرندوں کی طرح ہلکے سُبک اور ظلم و شدّت میں درندوں کی طرح گراں و سخت جو اصلاً نہ کبھی بھلائی سے آگاہ ہوں گے نہ کسی بدی پر انکار کریں گے شیطان ان کے پاس آدمی کی شکل بن کر آئے گا اور کہے گا تمہیں شرم نہیں آتی یہ کہیں گے تم ہمیں کیا حکم کرتا ہے وہ اُنہیں بُت پرستی کا حکم دے گا اس کے بعد نفخ صور ہو گا۔
&                  مسلمان کو کھلانے پلانے والا جہنم سے سات خندقیں دور
جو اپنے مسلمان بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے پیاس بھر پانی پلائے اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے سات کھائیاں دور کردے ہر کھائی سے دوسری تک پانسو برس کی راہ ۔
&                  صائم کی جہنم سے دوری
اور ابو یعلیٰ کی روایت معاذ بن انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ ''غیر رمضان میں اﷲ (عزوجل) کی راہ میں روزہ رکھا تو تیز گھوڑے کی رفتار سے سو برس کی مسافت پر جہنم سے دور ہوگا۔''
&                  اچھا وضو اور بیمار پرسی جہنم سے ساٹھ برس دور کر دیتے ہیں
حضرت اَنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور اپنے مسلمان بھائی کی بیمار پُرسی کو ثواب طلب کرنے کی نیت سے جائے تو وہ ساٹھ برس کی مسافت کی مقدار کے برابر جہنم سے دور کردیا جائے گا۔
اس حدیث کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ (مشکوٰۃ، ج۱،ص۱۳۵)
اور طبرانی کی روایت عمرو بن عبسہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ ''دوزخ اس سے سو برس کی راہ دُور ہو گی۔''

سائنسدانوں کے مطابق چند فاصلے
قسم
کلومیٹر
میل
گھڑ سوار کی مسافت
روشنی کا وقت
زمینی فاصلے
زمین کا قطر
12742
7917
6 دن
42 ملی سیکنڈ
زمین کا محیط
40075
24873
19 دن
133 ملی سیکنڈ
مداری رفتار فی گھنٹہ
107208
66616


حلقۂ کشش
1500000
932056.8
2 سال
5 سیکنڈ
طولِ مدار
940000000
584000000
1255 سال
52.2 منٹ
چاند کے فاصلے
چاند کا قطر
3474.2
2158.8
40 گھنٹے
11 ملی سیکنڈ
چاند کا محیط
10914.5
6782
5 دن
36 ملی سیکنڈ
حلقۂ کشش
60000
37282.2
28 دن
0.2 سیکنڈ
زمین سے فاصلہ
384400
238900
182 دن
1.2 سیکنڈ
سورج کے فاصلے
سورج کا قطر
1391000
864938
1.8 سال
4.6 سیکنڈ
سورج کا محیط
4,369,955.3
2717282.8
5.8 سال
14.5 سیکنڈ
زمین سے فاصلہ
149,600,000
92960000
200 سال
500 سیکنڈ
مریخی فاصلے
زمین سے کم سے کم فاصلہ
54600000
‪‪‪33926867
72 سال
3 منٹ
زمین سے اوسط فاصلہ
225000000
139808518
300 سال
12.5 منٹ
زمین سے زیادہ سے زیادہ فاصلہ
401000000
249169848
535.6 سال
22.2 منٹ
پلوٹو فاصلے
پلوٹو کا قطر
2376.6
1476
27 دن
0.007 سیکنڈ
پلوٹو کا محیط
7466
4636
3.5 دن
24 ملی سیکنڈ
زمین سے فاصلہ کم سے کم
4280000000
2660000000
5718 سال
3.9 گھنٹے
زمین سے فاصلہ زیادہ سے زیادہ
7500000000
4670000000
10 ہزار سال
6.9 گھنٹے
خ‌.                 چند اشکالات اور ان کا ممکنہ حل
&                  سورج کتنا دور ہے؟
حدیث شریف میں ہے کہ سورج چوتھے آسمان پر ہے۔ اور بہارِ شریعت میں ہے: سورج چار ہزار برس کی راہ پر ہے۔ یہ بالکل قرینِ قیاس ہے کیونکہ ہر آسمان کا فاصلہ اور اس کا دل ایک ہزار برس کی راہ ہے ۔
چار ہزار برس میں ایک آئیڈیل گھڑ سوار 1860768000میل یعنی ایک ارب چھیاسی کروڑ میل کا فاصلہ طے کرے گا۔ اور روشنی اس فاصلے کو 166 منٹ یا دو گھنٹے اور چھیالیس منٹ میں طے کر لے گی۔
&                  سات آسمان، روشنی کے پانچ گھنٹے
بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ ہم مزید آگے بڑھتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار چار سو گیارہ میل یا تین لاکھ کلومیٹر طے کرتی ہے۔ ساتوں آسمان اور ان کے ساتوں دَل کا کل فاصلہ آئیڈیل گھوڑے کی رفتار سے 3256344000 یعنی کوئی سوا تین ارب میل بنتا ہے۔ روشنی اس سوا تین ارب میل کے فاصلے کو صرف پانچ گھنٹوں یا 17,468 سیکنڈز میں طے کر لے گی۔

&                  زمین کی موٹائی؟؟
تفسیر يحيىٰ بن سلام میں ہے
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " بَيْنَ هَذِهِ السَّمَاءِ وَبَيْنَ الَّتِي فَوْقَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَغِلَظُهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَبَيْنَ السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَغِلَظُهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ هَكَذَا، قَالَ: وَبَيْنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ وَبَيْنَ الْعَرْشِ كَمَا بَيْنَ سَمَاءَيْنِ، وَغِلَظُ هَذِهِ الأَرْضِ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ وَبَيْنَهَا وَبَيْنَ الأَرْضِ الَّتِي تَحْتَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَغِلَظُهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ أَرَضِينَ هَكَذَا ".
اوپر کی حدیث میں (وَغِلَظُ هَذِهِ الأَرْضِ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ) کے الفاظ دیکھیں کہ جس میں واضح طور پر موجود ہے کہ زمین کی موٹائی پانسو سال ہے۔ اور اس میں بیان کردہ زمین کی موٹائی کسی بھی طریقے سے درست معلوم نہیں ہوتی۔ اگر اس میں بیان کردہ زمین کی موٹائی کو درست مان لیں تو ہماری زمین اتنی بڑی ٹھہرے گی جتنا زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے۔
اور اسی حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ ہماری زمین سے دوسری زمین تک کا فاصلہ بھی پانسو سال ہے۔ الغرض آسمانوں کی طرح زمین کی موٹائی بھی پانسو برس ہے اور فاصلہ بھی پانسو برس۔
&                  36 ہزار سال اور 14 ہزار سال
علامہ سیوطی بھی زمین کی موٹائی کے بارے میں اپنی تفسیر در منثور میں ابن عباسؓ کا قول پیش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کی کل موٹائی پانسو برس کی راہ ہے۔ اس طرح سات زمینوں اور سات آسمانوں کے چودہ طبق بنتے ہیں جن کی کل مسافت چودہ ہزار سال بنتی ہے۔ ساتویں آسمان سے 36 ہزار برس کی مسافت پر سدرۃُ المنتہیٰ ہے۔ اس طرح ساتویں زمین سے عرش الٰہی تک یا سدرہ تک پچاس ہزار برس کی راہ ہے۔
الدر المنثور في التفسير بالمأثور: وَأخرج ابْن أبي حَاتِم عَن ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَ: غلظ كل أَرض خَمْسمِائَة عَام فَذَلِك أَرْبَعَة عشر ألف عَام وَبَين السَّمَاء السَّابِعَة وَبَين الْعَرْش مسيرَة سِتَّة وَثَلَاثِينَ ألف عَام فَذَلِك قَوْله: {فِي يَوْم كَانَ مِقْدَاره خمسين ألف سنة}
اتنی ہی مسافت التعلیق علیٰ فتح الباری اور تفسیر ابن أبي حاتم اور تفسیرِ بغوی میں بھی بیان کی گئی ہے لیکن وہ سب اقوالِ سلف ہیں، رسول اللہ کا قول صرف تفسیر يحيىٰ بن سلام میں ہے۔
تفسير مجاهد (ص: 647)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذِهِ الَّتِي فَوْقَكُمْ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا الرَّقِيعُ: سَقْفٌ مَحْفُوظٌ، وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ، هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ، وَبَيْنَهَا وَبَيْنَ السَّمَاءِ الْأُخْرَى مِثْلُ ذَلِكَ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ، وَغِلَظُ كُلِّ سَمَاءٍ مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ» ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشُ، وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ سَنَةٍ» ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذِهِ الَّتِي تَحْتَكُمْ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهَا الْأَرْضُ، وَبَيْنَهَا وَبَيْنَ الْأَرْضِ الَّتِي تَحْتَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ أَرَضِينَ، وَغِلَظُ كُلِّ أَرْضٍ مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ» ثُمَّ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّكُمْ دَلَّيْتُمْ أَحَدَكُمْ بِحَبْلٍ إِلَى الْأَرْضِ السَّابِعَةِ لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ} [الحديد: 3]

غالباً تفسیر يحيىٰ بن سلام میں موجود حدیث شریف ہی کی بنا پر ہی اکثر اکابرین امت اور علمائے کرام نے زمین کی مسافت پانسو برس مانی ہے۔ ایسے میں نے کئی اقوال پائے جن کو تحریر کروں تو ایک الگ کتاب تیار ہوجائے جن کے مطابق زمین کی مسافت پانچ سو سال ہے۔ زمین کی کل گولائی ہم جانتے ہیں کہ 25 ہزار میل ہے۔ اس حساب سے تیز رفتار گھوڑا ایک سال میں صرف 50 میل چلے گا تو زمین کو پانسو سال میں طے کرے گا۔ یہ اس لئے قرینِ قیاس نہیں کیونکہ اتنا تو ایک تیز رفتار گھوڑا ایک گھنٹے میں دوڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علمائے کرام اگر توجہ فرمائیں تو اس کا کوئی بہترین حل پیش کر سکتے ہیں۔
&                  زمینی مسافت میں اشکال
مشکل یہ ہے کہ اگر ہم مکہ تا بیت المقدس کے سفر کو بھی معیار بنائیں اور اسے ایک ماہ کا سمجھیں اور اپنے گھوڑے کی رفتار اس طرح سیٹ کریں کہ وہ ایک ماہ میں مکہ سے بیت المقدس پہنچ جائے تو چونکہ یہ فاصلہ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر آئے ہیں، 914 میل بنتا ہے۔ اور گھوڑے کی رفتار 30 میل یومیہ بنتی ہے یا 1.26 میل فی گھنٹہ۔ ہم آسمانی فاصلوں کے آئیڈیل گھوڑے کو چھوڑ کر اس سست رفتار زمینی گھوڑے پر بھی سفر کریں تو بھی 500 برس میں ہم 53 لاکھ 25 ہزار میل طے کر سکتے ہیں۔ جو کہ زمین کے موجودہ محیط (مسافت) سے 213 گنا زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ زمین کی کل گولائی 25 ہزار میل سے کم ہے۔
کتاب لوامع الانوار البھیۃ میں حضرت مکحول کا قول موجود ہے کہ زمین سو سال کی مسافت ہے جن میں سے اسّی یاجوج و ماجوج ہیں۔
سو سال میں سست رفتار زمینی گھوڑا دس لاکھ میل طے کرے گا۔ یہ بھی زمین کی کل گولائی سے 40 گنا زیادہ ہے۔
الدر المنثور في التفسير بالمأثور میں یہ دو اقوال موجود ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ مشرق و مغرب کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اور حضرت خالد بن مضربؓ فرماتے ہیں کہ زمین کی مسافت پانچ سو برس کی ہے۔ مشرق و مغرب کا فاصلہ پانسو برس کا شمار کریں تو زمین کی کل گولائی ایک ہزار برس کی مسافت بنے گی جو اور زیادہ خلافِ حقیقت ہے۔ یا اللہ! ہمیں اشیاء کی حقیقتوں کا صحیح علم عطا فرما۔ آمین!
أَن كَعْبًا قَالَ لعمر بن الْخطاب: إِن الله جعل مسيرَة مَا بَين الْمشرق وَالْمغْرب خَمْسمِائَة سنة
وَأخرج ابْن أبي حَاتِم عَن خَالِد بن مضرب - رَضِي الله عَنهُ - قَالَ: الأَرْض مسيرَة خَمْسمِائَة سنة
&                  زمین کی مسافت گھوڑے کی رفتار سے
سست رفتار گھوڑا جو صرف 30 میل یومیہ چلے، وہ بھی 27 مہینے 20 دن میں زمین کی ساری گولائی طے کر لے گا۔ اور 54.6 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے والا آئیڈیل گھوڑا تو صرف 19 دن میں زمین کے گرد ایک چکر لگا لے گا۔ اور صرف 3.1 میل فی گھنٹہ کی (پائی کی ویلیو) رفتار سے پیدل چلنے والا شخص بھی 11 مہینوں میں زمین کے گرد گھوم کر واپس اپنی جگہ پہنچ جائے گا۔
سائنسدانوں کے مطابق زمین کا قطر 12742 کلومیٹر ہے جو تقریباً آٹھ ہزار میل بنتا ہے۔ یعنی تفسیر یحییٰ بن سلام کی حدیثِ پاک میں زمین کی جو موٹائی (پانسو برس یا سوا تئیس کروڑ میل) بیان کی گئی ہے وہ سائنسدانوں کے مطابق 29 ہزار زمینوں کی موٹائی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سورج کا قطر بھی 432,450 میل بنتا ہے، یعنی سوا چار لاکھ میل اور اس کا محیط ساڑھے ۱۳ لاکھ میل


مسافت
سست رفتار گھوڑا
آئیڈیل گھوڑا
1.26 میل فی گھنٹہ
54.6 میل فی گھنٹہ
زمین کی موٹائی یا قطر
پانسو برس
5407500
232596000
چوّن لاکھ میل
سوا تئیس کروڑ میل
29 سیکنڈ
21 منٹ
زمین کا محیط

16988162
730721884
ایک کروڑ ستر لاکھ میل
تہتر کروڑ میل
ڈیڑھ منٹ
65 منٹ
زمین کی معلوم گولائی 25 ہزار میل سے کچھ کم ہے

&                  کائنات کا سب سے بڑا معلوم ستارہ
سائنسدانوں کے مطابق کائنات کے سب سے بڑے معلوم ستارے کا قطر 1739839338 میل ہے، یعنی ایک ارب تہتر کروڑ میل اور سائنسدانوں کے مطابق اس ستارے کا قطر زمین کے قطر سے سوا دو لاکھ گنا (219745) زیادہ ہے۔ بلکہ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ ساتوں آسمانوں کا کل فاصلہ سوا تین ارب میل بنتا ہے، یعنی ایسے دو ستارے سات آسمانوں سے بڑے ہو جائیں گے جو بلا شبہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔
 
اور حدیث شریف میں زمین کا جو قطر بیان کیا گیا ہے یعنی پانسو برس کی راہ، اس حساب سے کائنات کا سب سے بڑا ستارہ جس کے حجم کا یہ عالم ہے کہ ایسے دو ستارے سات آسمانوں کی جگہ کو بھر دیں، وہ دہ زمینی قطر سے صرف ساڑھے سات گنا زیادہ ہے ۔
آپ کی آسانی کیلئے ہم ایک اور چارٹ پیش کرتے ہیں جس میں سائنسدانوں کے حساب کردہ فاصلے اور حدیثِ پاک میں بیان کردہ فاصلے کو جمع کیا گیا ہے۔
حدیثِ پاک سے اخذ کردہ
سائنسدانوں کے مطابق

گھڑ سوار کی مسافت
میل
روشنی کا وقت
میل
گھڑ سوار کی مسافت
زمین کا قطر
پانسو برس
232596000
21 منٹ
7,917
6 دن
زمین کا محیط
1570 برس
730721884
65 منٹ
24873
19 دن
چاند کا زمین سے اوسط فاصلہ 238,900 میل بنتا ہے۔ یہ فاصلہ ایک گھڑ سوار 182 دن میں طے کرسکتا ہے۔
سب سے بڑے ستارے کے بارے میں آپ اس ویڈیو کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
&                  ہئیت دان کیا کہتے ہیں؟
سائنسدانوں کے مطابق روشنی پانسو سیکنڈ میں سورج سے زمین تک کا یہ فاصلہ طے کرتی ہے۔ اور آئیڈیل گھوڑا یہ فاصلہ طے کرے تو اسے 200 سال لگیں گے۔ چار ہزار برس اور دو سو برس میں ایک اور بیس کا تناسب ہے۔
&                  فلک اور آسمان میں فرق
اردو میں تو فلک اور آسمان ایک ہی شئے کو کہا جاتا ہے لیکن عربی زبان میں یہ دونوں مختلف ہیں۔ آسمان تو آسمان ہی ہے لیکن فلک عربی میں مدار (Orbit) کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایا ہے:
لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
"نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں۔"
یعنی فلک یا مدار تو صرف ایک راستہ (خلاء یا فیلڈ) ہے لیکن آسمان ایسا نہیں بلکہ وہ ایک حسی اور دکھائی دینے والی شئے ہے جیسا کہ درج ذیل آیات میں ہے:
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ
"پھر وہ سماوی کائنات کی طرف متوجہ ہوا تو وہ (سب) دھواں تھا، سو اس نے اُسے (یعنی آسمانی کرّوں سے) اور زمین سے فرمایا: خواہ باہم کشش و رغبت سے یا گریزی و ناگواری سے (ہمارے نظام کے تابع) آجاؤ، دونوں نے کہا: ہم خوشی سے حاضر ہیں۔"
نیز فرمایا کہ
فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ
"سو آپ اُس دن کا انتظار کریں جب آسمان واضح دھواں ظاہر کر دے گا۔"
&                  ہم کیا عقیدہ رکھیں؟
قرآن و حدیث میں جو فاصلے طورِ مسافت بیان کئے گئے ہیں ہم ان کے بارے میں کیا عقیدہ رکھیں ؟ یہ ایک مشکل سوال ہے جو اکثر سائنس کے طالبعلموں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ علمائے کرام نے مسافت کیلئے تیز ترین گھوڑے کو چنا ہے اور اس اعتبار سے ہمیں پہلا آسمان جو پانسو برس کی راہ ہے مریخ کو ماننا پڑے گا اور چودہ طبق کا کل فاصلہ پلوٹو کے مدار کے قطر سے بھی کم بنتا ہے اور اس اعتبار سے عرشِ الٰہی پلوٹو کے پاس ہی کہیں ہونا چاہیئے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی عقلِ سلیم پلوٹو سیارے کے پاس عرشِ الٰہی کی موجودگی کو تسلیم کرتی ہے۔ نیز اب تک کا سب سے بڑا ستارہ ایسا ہوجائے گا کہ ایسے دو ستارے سارے آسمانوں اور زمین کو بھر دیں گے تو باقی ستارے اور کائنات تو اس اعتبار سے موجود ہی نہ ہو گی۔ جب کہ ایسا نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے بڑا ستارہ بھی ایک چھوٹا سا نقطہ ہی دکھائی دیتا ہے، اس جیسے نامعلوم اور کتنے ستارے ہوں گے۔ روشنی کی رفتار سے بھی سفر کریں تو بھی سائنسدانوں نے جو فاصلے بیان کئے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے اس کے مساوی نہیں جو احادیث مبارکہ میں بیان کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں پہلے آسمان کا فاصلہ پانسو برس کی راہ بتایا گیا ہے، تو چلیں گھوڑا نہ سہی، لیکن روشنی پر بیٹھ کر تو پانسو سال میں پہلے آسمان پر پہنچ جانا چاہیئے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روشنی بھی پانسو سال میں پہلے آسمان پر نہیں پہنچ سکتی۔ پہلی کہکشاں اینڈرومیڈا سے روشنی ۲۵ لاکھ سال میں آتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم روشنی کی رفتار سے بھی پانچ ہزار گنا زیادہ تیزی سے سفر کریں تو پانسو سال میں اینڈرومیڈا کہکشاں تک پہنچ پائیں گے۔
قرآنِ پاک میں سورت صافات میں ہے کہ
إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ
یعنی ہم نے نیچے کے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا
ستارے نیچے کے آسمان پر ہیں۔ اور کہکشائیں ستاروں ہی کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کہکشائیں نیچے کے آسمان پر ہیں۔ جب پہلی کہکشاں سے روشنی ۲۵ لاکھ سال تک سفر کرنے کے بعد ہم تک پہنچتی ہے تو باقی دور کی کہکشاؤں کا فاصلہ تو اس سے اربوں کھربوں گنا زیادہ ہوگا۔ جسے روشنی بھی کھربوں برس تک طے نہ کرپائے۔ جبکہ کائنات کی کل عمر ہی ۱۴ ارب سال سے زیادہ نہیں۔ تو سائنس کا طالبعلم ورطۂ حیرت میں پڑجاتا ہے کہ اب کیا کرے۔ اور یہ تو بالک ظاہر سی بات ہے کہ ہم کسی کہکشاں کو عرشِ الٰہی نہیں کہہ سکتے۔ تو جب کہکشائیں اتنی بلندی پر ہیں تو عرشِ الٰہی جو کہتے ہی بلندی کو ہیں وہ کس قدر بلند ہوگا؟ یہ ہمارے قیاس سے باہر ہے۔
ایک بات کچھ قرینِ قیاس لگتی ہے کہ ہم ان فاصلوں کو آئیڈیل گھوڑے کے بجائے جنتی گھوڑے کی رفتار سے ناپیں۔ ہم اوپر کہیں تذکرہ کرچکے ہیں کہ جنتی گھوڑے کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی دو لاکھ گنا زیادہ ہوگی۔
&                  جنت میں کوئی چیز ناممکن نہیں
میں نے اب تک جنت کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق جنت میں کوئی چیز ایسی نہیں جو دنیا میں عقلی طور پر ناممکن ہو۔ ہاں عملی طور پر ضرور ناممکن ہے یعنی ہم دنیا میں اسے اپنے موجودہ وسائل سے حاصل نہیں کر سکتے لیکن بہرحال عقلی اور نظری طور پر ممکن ہے۔ جیسے رب تعالیٰ کا دیدار دنیا میں نظری طور پر ممکن تو ہے لیکن کسی کو ہوا نہیں اور نہ ہوگا، لیکن ہم اسے عقلی طور پر ناممکن نہیں ممکن ہی کہیں گے خواہ عملی طور پر ناممکن ہو۔ تو جنتی گھوڑا اگر روشنی کی رفتار سے دو لاکھ گنا زیادہ رفتار سے دوڑ سکتا ہے تو اس کا صریح مطلب یہ ہوا کہ روشنی کی رفتار سے کئی گنا زیادہ رفتار ممکن ہے۔ چاہے عملی طور پر ہم اسے حاصل کرپائیں یا نہ کرپائیں۔
یہاں میں سائنس کے طالبعلموں سے درخواست کروں گا کہ اپنا عقیدہ یہی رکھیں کہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ رفتار عقلی طور پر ممکن ہے خواہ اس کا حصول ابھی ہمارے لئے ناممکن ہی کیوں نہ ہو۔ جو ہمت کرتا ہے، پالیتا ہے۔
میں نے جنتی گھوڑے کی رفتار کے اعتبار سے فاصلوں کا تعین نہیں کیا اور نہ ہی یہ اس کتاب کا مقصد ہے۔ صرف ایک ہی حساب پیش کرتا ہوں کہ ہماری پڑوسی کہکشاں سے روشنی ۲۵ لاکھ سال میں آتی ہے لیکن جنتی گھوڑے کیلئے یہ فاصلہ صرف ۱۲ سال کا ہوگا۔ اب آپ پانسو سال کا اندازہ لگا سکتے ہیں جسے سائنس کے طالبعلم کا ذہن بھی آسانی سے قبول کرلے گا۔ تو اگر ہم زمینی گھوڑے کے بجائے جنتی گھوڑے کی رفتار کو معیار بنالیں تو آسمانی فاصلوں کی مسافت کا کام بہت آسان ہوجائے گا اور دینی اور سائنسی ذہن رکھنے والے دونوں فریقوں کیلئے قابلِ قبول ہوگا، لیکن اس کیلئے علمائے کرام کی اجازت ضروری ہے اور سائنسدانوں کا روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار کا حصول پر متفق ہونا ضروری ہوگا۔
ایک آسان حل یہ بھی ہے کہ ہم حدیث شریف میں موجود فاصلوں کو اصل مسافت کے بجائے صرف یہ مان لیں کہ یہ فاصلے ہمارے اندر ان طویل فاصلوں کا ایک تصور پیدا کرنے کیلئے بیان کئے گئے ہیں جو آسمانی اشیاء کیلئے ہیں۔ یہ قول علماء میں عام ہے۔ اگرچہ اس کی صراحت تو نہیں لیکن ڈھکے چھپے لفظوں میں اس کا اکثر اظہار کیا جاتا ہے۔
حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن کہیں سے تو ابتداء کی جائے گی۔ میری اس تحریر کو ایک ابتداء ہی سمجھ لیں کیونکہ اب سائنس لوگوں سے بہت قریب ہوتی جا رہی ہے اور ہم نے ان چیزوں کے بارے میں کوئی واضح اور ٹھوس مؤقف اختیار نہ کیا تو ہم اپنے کئی بہترین طالبعلم کھو بیٹھیں گے۔
؎ اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات
میرے 27 ہزار الفاظ پڑھنے کا بہت شکریہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع