شادیات
&
شادی کب کریں؟
(7 منٹ کی ریڈنگ ، نوری انڈیکس ویلیو 20.886)
فہیم شخص / کس دن شادی نہ کریں؟ / شادی کب
کریں؟ / پہلے رشتے کا انکار نہ کریں
&
1. فہیم
شخص
ایک صاحب جس شاخ پر بیٹھے تھے، اسی کو کاٹ
رہے تھے۔ وہاں سے ایک بزرگ کا گزر ہوا۔ انہوں نے اس کی یہ حماقت دیکھی تو پکار کر خبردار کیا کہ اے شخص! تو یہ
کونسی شاخ کاٹ رہا ہے، اسے مت کاٹ ورنہ اوندھے منہ نیچے گرے گا۔ وہ صاحب بھی پورے نیم ملا تھے، کہنے لگے کہ شریعت
میں اس شاخ کو کاٹنے کی کوئی ممانعت اور دلیل موجود نہیں۔ آپ کو کس نے حق دیا ہے
کہ مجھے اس کام سے روکیں؟ یہ کام بالکل
جائز ہے اور میں اسے ہر صورت میں کروں گا۔ آپ اپنا راستہ ناپیں۔
بزرگ اس کی بات پر خاموش ہو کر آگے بڑھ گئے۔
ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ شاخ زور دار آواز کے ساتھ ٹوٹی اور وہ شخص دھڑام سے
اوندھے منہ زمین پر گر گیا۔
واقعہ میں نے سنا دیا، نتیجہ آپ خود نکال لیں۔ پڑھے لکھے ہیں، یقیناً درست نتیجہ ہی نکالیں گے۔
&
2. تجربے
کا کوئی مول نہیں
عقلمند وہی ہے جو عقل کی باتوں کو قبول کرے اور ان میں مین میخ نہ نکالے۔ جو بزرگوں کی باتوں کا منکر ہوتا ہے اس پر کم سے عتاب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس فیض سے محروم ہو جاتا ہے جو عمل کی صورت میں اسے حاصل ہو جاتا۔
دنیا کی ہر قوم اپنے اساتذہ کی عزت کرتی ہے
کہ وہ انہیں اپنے علم اور تجربے سے نوازتے
ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے ماں باپ کا
دن منایا جاتا ہے جو ہمارے یہاں بھی منایا جاتا ہے۔ کیا ماں باپ کی بات اور مشورے تجربے اور عقل سے خالی ہوتے ہیں؟
والدین ہوں یا دینی بزرگ ہستیاں، وہ اپنی اولادوں اور اپنے ماننے والوں کو بہترین
مشوروں سے ہی نوازتے ہیں۔ اب اگر کوئی والدین کی بات پر بھی یہ کہنے لگ جائے کہ شریعت
میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور میں تو خدا کی قسم اس کام کو ہر صورت میں کر کے
ہی چھوڑوں گا۔ والدین کوئی شارع تھوڑا ہیں
تو ایسے شخص کی حالتِ زار پر سوائے ہمدردی اور ترس کھانے کے اور کوئی کیا کر سکتا
ہے۔
&
3. عقل بڑی
دولت ہے عقل والو!
قرآنِ پاک میں کلمہ ﴿عقل﴾ کے کل پانچ مشتقات
۴۹ بار
وارد ہوئے ہیں اور پورے چوبیس جگہ ﴿ تَعْقِلُونَ﴾ کا مشتق آیا ہے
جن میں سے چند جگہیں یہ ہیں:
﷽
1. {
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ } [البقرة:242].
﷽
2. { إِنَّا
أَنزَلْنَٰهُ قُرْءَٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ } [يوسف:2].
﷽
3. { لَقَدْ
أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَٰبًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ } [الأنبياء:10].
﷽
4. { وَلَقَد
تَّرَكْنَا مِنْهَا ءَايَةً بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ } [العنكبوت:35].
﷽
5. { وَمَن
نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعْقِلُونَ } [يس:68].
﷽
6. {
وَبِالَّيْلِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ }
[الصافات:138].
﷽
7. { إِنَّا
جَعَلْنَٰهُ قُرْءَٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ } [الزخرف:3].
ذرا سوچیئے کہ چوبیس جگہ کیوں؟ اتنی بار ایک کلمے کی
تکرار؟ تاکہ یہ یاد رہے کہ چوبیس کے چوبیس
گھنٹے ہمیں عقل سے کام لینا ہے۔ اور جہاں
ہماری عقلیں رک جائیں تو ہم بڑے عقلمندوں کی عقلوں کو اپنا راہنما بنا لیں۔
&
4. عقل
قرباں کن بہ پیشِ مصطفیٰ ﷺ
بات جب حلال و حرام کی ہو، بات جب جائز اور
نا جائز کی ہو، بات جب فرض و واجب کی ہو تو عقل کو نبی ﷺ کے فرمان پر قربان کردو!
کیونکہ کسی نبی کی عقل کو دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا فلاسفر اور بڑے سے بڑا افلاطون
نہیں پہنچ سکتا۔ کسی نبی کے سامنے سب سے بڑی عقلمندی یہی ہے کہ نبی کے پیار
کی پٹی اپنی آنکھوں پر باندھ لو اور چون و چرا کئے بغیر، ہر قسم کے اگر مگر سے بے
نیاز ہو کر یقین کے ساتھ ان کی بات مان لو۔ یہی سب سے بڑی عقلمندی ہے۔
&
5. بات جب
دو جائزوں کی ہو
دینِ اسلام دینِ کامل ہے۔ یہ ایک مکمل
ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں ہر چیز کا تفصیلی بیان موجود ہے۔ ہر چیز کا آٹھ حکموں میں سے ایک حکم ضرور ہے۔ فرض، واجب، سنت، مستحب، جائز، مکروہ، مکروہِ
تحریمی یا حرام۔
لیکن اگر آپ غور کریں تو فرض و واجب یا حرام
اور مکروہِ تحریمی کی لسٹ بہت مختصر سی ہے اور جائز کی فہرست اتنی طویل ہے کہ آج
تک علمائے کرام بھی جائز کی مکمل لسٹ تیار کرنے سے قاصر ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ
ہر وہ چیز جو چیز آٹھ میں سے سات لسٹوں میں مندرج نہ ہو، وہ ضرور آٹھویں لسٹ میں
ہوتی ہے یعنی جائز کی لسٹ میں۔
یہ جائز کی لسٹ ہے جس میں مکلف کو اختیار
ہوتا ہے کہ وہ دو (یا زائد) میں سے کسی بھی
جائز کو اختیار کر سکتا ہے۔ تاہم یہ جائز
ہی کی لسٹ ہوتی ہے جس میں بزرگانِ دین اپنی دینی عقل اور تجربے سے کسی ایک کو اختیار
کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے مشوروں سے
منہ موڑنا اور من مانی کرنا کسی بھی سنجیدہ شخص کو زیب نہیں دیتا۔ انہی جائزوں میں
سے ایک جائز شادی کا دن بھی ہے۔
&
6. شادی کسی
بھی دن جائز ہے
سال کے کسی بھی دن شادی جائز ہے۔ یعنی شریعت
کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں۔ جب شریعت کسی بھی دن شادی کو جائز قرار دیتی ہے تو
کوئی بھی شخص اسے ناجائز نہیں کہہ سکتا۔ لیکن
شریعت کے بعد عقل کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، بند نہیں ہو جاتا۔
جس طرح فقہ میں ہم امامِ اعظم کی تقلید کرتے
ہیں، روحانیت اور تصوف میں ہم غوثِ پاک کی اتباع کرتے ہیں اسی طرح زندگی کے عام
معاملات میں بھی ہم کسی نہ کسی کو ضرور فالو کر رہے ہوتے ہیں۔
شادی چونکہ زندگی کا ایک اہم موڑ ہے اس لئے
بزرگوں نے اس کیلئے دنوں کے بارے میں بھی ہمیں آگاہی فراہم کی ہے۔ ذیل میں اسی کا
ایک مختصر سا خاکہ پیش کرتا ہوں۔
&
7. کس دن
شادی نہ کریں؟
ذیل میں چند وہ موقعے پیش کئے گئے ہیں جن میں
شادی کرنا بہتر نہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو نا پسندیدہ ہے۔
&
8. محرم
الحرام میں شادی نہ کریں
محرم الحرام میں شادی نہ کریں۔ ہر شخص آلِ
رسول ﷺ سے پیار کرتا ہے اور عاشورہ کے دنوں میں ان پر جو قیامتیں توڑی گئی ہیں، ان
سے امت کے دل دکھے ہوئے ہیں۔ اس مہینے
بالخصوص ایام عاشورہ میں شادی کرنا گویا کہ آڈ مین (Odd Man) بننا ہے۔ فائنڈ دا آڈ مین آؤٹ کا آپ نے بھی سن رکھا
ہوگا۔ آڈ مین نہ بنیں۔ یہ مسلمانوں کی اکثریت
کے ساتھ مس میچنگ ہے۔ سمجھدار کو اشارہ کافی ہے۔ مسلمانوں کے جذبات کا خیال کریں۔
اور اس شعر کا ہر گز مصداق نہ بنیں؎
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
بہت سے لوگ محرم میں شادی کو زبردست ایڈونچر
سمجھتے ہیں اور سب مہینوں کو چھوڑ کر جان بوجھ کر اسی مہینے اور بعض من چلے تو عین
دس محرم کو شادی کرنے کو ایسا سمجھتے ہیں جیسے خیبر کی طرح کا کوئی بہت بڑا معرکہ
فتح کر لیا ہو۔ ایسے تمام ایڈونچر پسند
لوگوں سے میری گزارش ہے کہ خدارا! ہوش کے ناخن لیں، اور ان معاملات میں توازن اختیار
کریں، کہیں آپ کا یہ ایڈونچر ازم ہی آپ کو نہ لے ڈوبے۔ ؎
شاخ پر بیٹھ کر جڑ کاٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
لیکن یہ ضرور دھیان میں رہے کہ اگر کوئی شخص
کسی ذاتی مجبوری کی وجہ سے محرم میں شادی کر بیٹھے تو اگرچہ اس نے ایک غلط قدم
اٹھایا اور مسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ اپنے آپ کو مس میچ کیا لیکن ہم اس وجہ سے
اسے یا اس کی اولاد کو کسی قسم کا طعنہ نہیں
دے سکتے۔ اور عزت کے طعنے دینا تو بہت بڑی جسارت ہے۔
&
9. صفر کے
مہینے میں شادی نہ کریں
بابا فرید ہشت بہشت میں ایک حدیث نقل فرماتے
ہیں کہ صفر کے مہینے میں آسمان سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ تاہم اسے منحوس سمجھنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔ لیکن اسے عام مہینوں کی طرح بھی نہ سمجھیں۔ اسی
مہینے میں آنحضرت ﷺ کو مرضِ وفات ہوا تھا اور اسی کے آخری چہار شنبے کو اس میں بیحد
اضافہ ہو گیا تھا۔ پاک و ہند کے مسلمان اس مہینے میں خوب صدقہ و خیرات کرتے ہیں کہ
حدیث شریف میں آتا ہے کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔ صفر کے مہینے میں شادی کرنے
والوں کو اکثر ازدواجی زندگی میں شدت کا سامنا رہتا ہے۔
&
10. عیدِ میلاد
رسول ﷺ کے دن شادی نہ کریں
بارہ ربیع الاول کے دن شادی نہ کریں۔ اس دن سب مسلمان نبی ﷺ کی پیدائش کی خوشی مناتے
ہیں، جلسے جلوس ہوتے ہیں، لنگر اور مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، مسلمان اس دن بہت
مصروف ہوتے ہیں۔ کئی ایک کا اس دن روزہ بھی
ہوتا ہے۔ ایک بڑی مصروفیت میں آپ شادی کی
ایک اور مصروفیت رکھ دیں، یہ کسی طرح مناسب نہیں۔
میرے آفس کے ایک ساتھی دعوتِ اسلامی ناظم
آباد کے علاقہ نگران تھے۔ ایک بار مجھ سے کہنے لگے کہ آپ میری بیٹی کی شادی میں
ضرور شرکت کرنا۔ اگلے مہینے میں ہے۔ اگلا
مہینہ ربیع الاول کا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ ربیع الاول شادی کیلئے مناسب
ترین مہینہ ہے۔ لیکن اچانک مجھے کچھ خیال آیا اور میں نے ان سے تاریخ کا پوچھا تو
دبی آواز سے کہنے لگے کہ بارہ ربیع الاول کے دن رکھی ہے۔
میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ دن شادی کیلئے
مناسب نہیں، کسی اور دن رکھ لیں، لیکن انہوں نے عذر پیش کیا کہ اب تو ہال بھی بک
ہو گیا ہے اور کارڈ بھی تقسیم ہو گئے ہیں۔
اب نا ممکن ہے۔ میں نے خاموشی اختیار
کر لی۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ بھائی صاحب کو اچانک کومہ لاحق ہو گیا اور
وہ دنیا وما فیہا سے غافل ہوگئے۔ دو ڈھائی سال تک کومہ میں رہے، اور اس کے بعد
کومہ کی حالت میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
اللہ ان کی مغفرت فرمائے، بیٹی کی شادی دیکھنے کی حسرت دل میں لئے ہی دنیا
سے گزر گئے۔
&
11. رمضان
میں شادی نہ کریں
رمضان کا مہینہ کڑے مجاہدے کا مہینہ ہوتا
ہے۔ ہر ایک مصروف ہوتا ہے نیکیاں کمانے میں۔ افطار کے بعد تراویح کا اہتمام ہوتا
ہے اور دن میں روزہ۔ کئی لوگ وہ ہوتے ہیں
جو رمضان کی ہر رات کو لیلۃ القدر کی مانند گزارتے ہیں۔ ایسے میں ان کے مجاہدات میں شادی کے ذریعے ایک
عارضی تعطل پیدا کرنا کسی صورت مناسب نہیں۔
&
12. عیدین
جمعے کی ہوں تو اس دن شادی نہ کریں
جمعہ کا دن بھی عید ہوتا ہے، اور عید کا بھی
اہتمام ہوتا ہے۔ عید جمعے کو آجائے تو ویسے ہی مصروفیات بہت بڑھ جاتی ہیں۔ اس لئے جس جمعے کو عید بھی آجائے، اس جمعے کو
شادی نہ کریں۔ ویسے عام طور پر جمعہ کا دن شادی کیلئے مبارک ترین دن ہوتا ہے۔
&
13. ایک
چاند میں شادی نہ کریں
شادی ایک چاند میں نہ کریں، یعنی ایسا نہ کریں
کہ ایک ہی چاند میں شادی بیاہ کی بات ہو، اسی چاند میں منگنی اور دیگر رسومات ہوں
اور اسی میں نکاح اور رخصتی بھی ہو۔ شادی
کیلئے دو تین چاندوں کا وقفہ ضرور رکھیں۔
اور آج کے دور میں تو اس کی از حد ضرورت ہے۔
&
14. انتقال
والے گھر میں شادی
اگر فریقین میں سے کسی کے ہاں کوئی فوتگی
ہوجائے تو وہاں فوراً شادی نہ کریں۔ میت کا غم تازہ ہوتا ہے۔ شادی بھی اسی کی نذر
ہو جائے گی۔
&
15. شادی
کب کریں؟
اولاد بالغ ہوجائے تو والدین بس ان کی شادی
کی فکر شروع کر دیں اور اس سلسلے میں سنجیدہ کوششیں شروع کردیں۔ نبی کریم ﷺ کا
پہلا نکاح پچیس برس کی عمر میں ہوا تھا۔ یہ بہترین عمر ہے شادی کی۔ شادی کے بہترین مہینے عیدین کے مہینے ہیں، بڑی بارہویں، بڑی گیارہویں، رجب، شعبان اور وہ
مہینے جس میں موسم خوشگوار ہو اور سردی
گرمی میں شدت نہ ہو، جیسے ہمارے ہاں بہار
کے مہینے۔ جب جوان ہو شادی کر دے، شادی میں
رعایتِ قوم و دین و سیرت و صورت ملحوظ رکھے۔
&
16. پہلے
رشتے کا انکار نہ کریں
اولاد کیلئے آئے ہوئے پہلے رشتے سے انکار نہ
کریں۔ میرے پیر و مرشد حضرت میاں مظہر احسانؒ فرماتے تھے کہ پہلا رشتہ اللہ کی طرف
سے آتا ہے۔ اس پہلے رشتے کو نہ ٹھکرائیں۔ لڑکیوں کی شادیوں میں اسی لئے دشواریاں بڑھ جاتی
ہیں کہ پہلے رشتے کو بعض اوقات بے دردی سے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔
&
17. شادی
سے پہلے کتاب النکاح لازمی پڑھ لیں
مولانا امجد علی اعظمیؒ اعلیٰ حضرت کے خلیفہ ہیں۔ آپ نے امت پر احسان کیا ہے کہ
اسے اردو میں بہارِ شریعت کا تحفہ عطا فرمایا ہے۔
شادی کرنے والے ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی سے میری درخواست ہے کہ خدارا! شادی سے پہلے ایک بار بہارِ شریعت میں موجود "کتاب النکاح" کا اچھی طرح سے مطالعہ فرما لیں۔ اس کے بغیر شادی کا سوچیں بھی مت۔ بلکہ جن کی شادیوں میں ابھی کافی تاخیر ہے، وہ بھی اس کا مطالعہ فرما لیں۔ ان شاء اللہ بہت نفع ہوگا اور بہت سے تصورات اس بابت درست ہو کر چمکنے لگیں گے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔