طریقۂ محمدی
نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریقے کا ایک جامع بیان
میاں محمد اصغر ڈاہرؒ
فہرست
پیش لفظ
ضروری بات
تعارف
صراط مستقیم
طریقۂ نقشبندیہ
آسان طریقہ
اتباع سنَّت نبوی
اسوۂ حسنہ از مقاصد السالکین
اسوۂ حسنہ کو اپنانے کا حکم
نبی کریم ﷺ کا طریقہ اور آپ ﷺ کی سنتیں
ذِکر قلبی
طریقۂ ذِکر قلبی (از مکتوبات جلد اول مکتوب ۳۱۳)
پِیر کون شخص ہے
کونسا عمل بہتر ہے؟
یاد داشت کے معنی (مکتوب نمبر 12 جلد دوم)
رابطۂ شیخ
ذِکر بے رابطہ موصول نیست
فنا کیسی بقا کیسی؟
فنا فی الرسول ﷺ
فنا فی الرسول ﷺ اور بقا باللہ ﷻ
ما سوا کی نفی (مکتوب 16 جلد دوم )
طریقت و حقیقت کا جامع (مکتوب 52 جلد سوم)
بیٹے کو نصیحت
اشعار از شمشیر طریقت
فضائل کلمہ شریف
کلمۂ طیّبہ اُمُّ الْعُلُوم ہے
فرموداتِ میاں صاحب ؒ
فضائل درود شریف
شجرہ طَيِّبَة شریف اردو منظوم
دعا حضرت مولانا نوراحمد چنیوٹی
شجرہ منثورہ
شجرہ شریف در فارسی
پیش لفظ
ضروری بات
رہنمائے طریقت، پیرِ شریعت جناب میاں محمد اصغر ڈاہرؒ کی شخصیت اپنی ذات میں ایک کائنات تھی۔ آپؒ نے نہ صرف مریدین کی تربیت اور رہنمائی کی بلکہ آپ نے تحریر کے میدان میں بھی اپنے جھنڈے گاڑے ہیں۔ آپ نہ صرف ایک بہترین نعت خوان تھے بلکہ آپ ایک نعت گو شاعر بھی تھے۔ آپ نے سالکین کیلئے قدم قدم پر وہ چراغ روشن کئے ہیں جن کی مدد سے راہِ سلوک کو طے کرنا ایک مبتدی کیلئے بھی کافی آسان ہو جاتا ہے۔
زیرِ نظر کتابچہ آپ ہی کا تالیف کردہ ہے۔ یہ اپنی ضخامت کے اعتبار سے جتنا مختصر ہے، نفع کے اعتبار سے اتنا ہی جامع ہے۔ صراطِ مستقیم المعروف طریقۂ محمدی درحقیقت کوزے میں دریا ہے۔ مجھے اس کے بارے میں اور کچھ نہیں کہنا؛ جو پڑھے گا وہ اس کی افادیت خود جان لے گا۔
سیّد محمد سلیم قادری نوری نقشبندی
تعارف
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
نحمده ونصلّی علی رسوله الکریم
صراط مستقیم المعروف بہ طریقۂ محمدی ضخامت کے اعتبار سے جس قدر مختصر ہے، اہمیت کے لحاظ سے اتنا ہی جامع ہے۔ اس میں انتہائی اختصار کے ساتھ طریقۂ عالیہ نقشبندیہ کی فضیلت، حضرت مجدد الف ثانی کے ارشادات، سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور کلمۂ طیبہ اور درود پاک کے فضائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ہادئ نا، مرشدنا، شمس السالکین، زبدۃ العارفین، نائب رسول مقبول جناب حضرت میاں صاحب کا معمول ہے کہ وہ بعد از نماز فجر مسجد میں دیگر شمع طریقت کے پروانوں کے ہمراہ گٹھلیوں پر درود پاک پڑھتے ہیں۔ اور صاحبزادہ صاحب میاں اصغر خاں صاحب کے ذمے یہ فرض ہوتا ہے کہ اس درود پاک کی محفل میں پہلے قرآن پاک کی چند آیات کی تلاوت فرماتے ہیں پھر ان کا ترجمہ و تفسیر بیان کرتے ہیں۔ اور بعد ازاں بلند پایہ دینی کتب مثلا حدیث شریف، مکتوبات شریف، مقاصد السالکین، اس قسم کی ایمان افروز کتب میں سے اقتباسات پڑھ کر سناتے ہیں۔ بعض جگہوں پر حضرت میاں صاحب بعض بیانات کی خود وضاحت فرماتے اور ان کی اہمیت کی طرف اشارہ فرماتے۔ ایسے ہی اہم اقتباسات کو صاحبزادہ صاحب نے ایک رسالے کی صورت میں مرتب فرمایا تاکہ تھوڑے سے وقت میں ان جامع اور بسیط خیالات سے استفادہ کیا جاسکے۔ اور کمال لطف و عنایت سے بندے کو اسے شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
طریقۂ عالیہ نقشبندیہ کی کلیدی اور اساسی باتیں اس رسالے میں اشاروں میں درج ہیں۔ اور راہروانِ رہِ سلوک اس کو اپنے لئے ایک عمدہ زادِ راہ پائیں گے۔ ؏
گر قبول افتد زہے عز و شرف
گدائے آستاں میاں صاحب
محمد منظور (لیکچرار گورنمنٹ اسلامیہ کالج، لائل پور)
صراط مستقیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۞ وَ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ۞
وَعَلٰی آلِہٖ وَاصحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۞ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّٰاحِمِیْن۞
طریقۂ نقشبندیہ
قرآنِ پاک میں ارشاد ربانی ہے: { وَ الَّذِينَ جَٰهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۔۔۔ } [العنكبوت: 69]. یعنی جس نے ہمارے راستے میں جہاد کیا، ہم اس کو اپنا راستہ بتا دیں گے۔ اور ارشاد ہوتا ہے کہ { ۔۔۔ وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَ يُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۔۔۔ } [البقرة: 282]. یعنی اور اللہ سے ڈرو، وہ تم کو علم دے گا۔
آسان طریقہ
حضرت خواجہ بہاؤ الدین قدس سرہ کے ارشاد کا جب زمانہ آیا اور جب آپ نے مولیٰ کے طالبوں کو دیکھا کہ کسی نے سالہاسال سے سونا ترک کردیا ہے کسی نے رات کو جاگنا اور دن کو روزہ رکھنا، کسی نے دو ختم روزانہ اور کسی نے ہزار رکعت معمول بنا لیا ہے۔ اور کوئی بوجہ ضعف پیری یا بیماری کے اپنا وقت غفلت میں گزار رہا ہے، اور اللہ کے ذِکر فَاذْكُرُوا اللَّهَ سے قاصر ہے، آپ سربسجود ہوئے اور باری تعالیٰ سے درخواست کرنے لگے کہ الٰہی، اُمَّت کے قویٰ کمزور ہوگئے ہیں، اور زمانہ حضور پُرنور ﷺ سے دور ہوتا جاتا ہے، الٰہی اپنے تک پہنچنے کا آسان طریقہ عنایت فرما۔
پندرہ روز تک آپ ایک حجرے کے اندر سجدے میں گریہ و زاری کرتے رہے۔ پندرہویں روز رحمت الٰہی کا دریا جوش میں آیا، آپ کو الہام ہوا کہ ہم آپ کو آسان طریقہ یعنی جو میرے پیارے حبیب ﷺ اور صحابہ کا ہے، عنایت فرماتے ہیں۔ جو کہ نہایت آسان اور اقرب ہے۔ وہ ہے اتباع سنَّت نبوی اور وقوف قلبی۔ آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سجدے سے سر اٹھایا۔ اور طریقے کو رواج دیا۔
اسی واسطے امام ربانی، مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ اگر کسی طالِب کو ہمارے یہاں سے باطن میں حصہ نہ ملے تو بد دِل نہ ہو، کیونکہ مقصد بخشش ہے اور بخشش کا انحصار اتباعِ سنَّت پر ہے۔ اور اتباعِ سنَّت طریقۂ عالیہ میں لازمی ہے۔
اتباع سنَّت نبوی
{ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ۔۔۔ } [آل عمران: 31]. آپ فرمادیجے یا رسول اللہ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت چاہتے ہو تو پھر میری پیروی کرو۔
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا؟ لوح و قلم تیرے ہیں
اسی واسطے مجدد الف ثانی نے مکتوب ۳۰، جلد دوم میں فرمایا ہے کہ "اگر دو چیزوں میں فتور نہیں آیا تو کچھ غم نہیں، آخر اس کو ضائع نہ چھوڑیں گے، ایک صاحب شریعت علیہ الصلوۃ والسلام کی تابعداری اور دوسرا اپنے شیخ مقتدا کی محبت میں اخلاص۔اگر ان دو چیزوں کے ہوتے ہوئے ہزاروں ظلمتیں طاری ہوجائیں تو کچھ غم نہیں، آخر اس کو ضائع نہ چھوڑیں گے۔ اگر نعوذ باللہ ان میں سے ایک میں بھی نقصان پیدا ہوگیا تو پھر خرابی ہی خرابی ہے اگرچہ حضور جمعیت سے رہیں، کیونکہ یہ استدراج ہے، جس کا انجام خراب ہے۔ بڑی عاجزی سے اللہ کے آگے دعا فرمادیں کہ اللہ تعالیٰ ان مرادوں پر استقامت عطا فرمادے۔"
ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں کہ:
میرے مخدوم و مکرم !طریقۂ عالیہ نقشبندیہ میں پیری مریدی، طریقے (سلسلے) کے سیکھنے سکھانے پر موقوف ہے، نہ کہ کلاہ و شجرہ پر، جیسے کہ دوسرے سلسلوں میں متعارف ہے۔ ان بزرگواروں کا طریقہ محبت ہی محبت ہے۔ ان کی تربیت انعکاسی، ان کی ابتداء میں دوسروں کی نہایت مندرج ہے۔ اور یہ راستہ سب راستوں سے اقرب ہے۔
اسوۂ حسنہ از مقاصد السالکین
اسوۂ حسنہ کو اپنانے کا حکم
ارشاد ربانی ہے:
﷽
{ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْءَاخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا } [الأحزاب: 21].
ترجمہ: بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے
نبی کریم ﷺ کا طریقہ اور آپ ﷺ کی سنتیں
یہ باتیں کتاب مقاصد السالکین سے یہاں درج کی گئی ہیں۔آنحضرت ﷺ کی پیاری پیاری سنَّتوں کا مختصر لیکن بے حد کار آمد بیان ہے۔ اور بار بار پڑھنے کے لائق ہے اور کئی کتابوں کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ (سلیم نوری)
خاص و عام کو السلام علیکم کہنا آنحضرت ﷺ کی عادت مُبارک میں تھا۔ آپ ﷺ کے نزدیک مالدار اور بے زر میں کچھ فرق نہ تھا۔ ہمیشہ تازہ روئی سے شیریں اور نرم باتیں فرماتے۔ برا کہنا اور کسی کا عیب نکالنا آپ ﷺ کی عادت مُبارک طبع میں نہ تھا۔ اگر کسی سے کوئی ناشائستہ حرکت دیکھتے تو پوشیدہ طور پر اشارہ فرماتے۔ تاکہ اس کا دِل نہ ٹوٹے۔
آنحضرت ﷺ فروتن، بردبار، خُدا پر بھروسہ کرنے والے، عہد کے پکے اور وعدوں کے سچے تھے۔ آپ ﷺ میں کرم، سخاوت اور احسان اس حد تک تھے کہ کوئی شخص جو چیز آپ ﷺ سے مانگتا، بلا توقف دے دیتے۔ ہر ایک مجلس کو اپنی عنایتوں اور مہربانیوں سے حصہ دیتے۔ ان ﷺ کی مُبارک مجلس میں ہر ایک رکن کو یقین تھا کہ مجھ سے زیادہ عزیز آپ ﷺ کو اور کوئی نہیں۔ ہر ایک کے ساتھ اس کی لیاقت کی استعداد پر کلام فرماتے۔ یہاں تک کہ ہر ایک راضی اور خوش ہوجاتا۔
آپ ﷺ کے اخلاق مُبارک ایسے وسیع اور عظیم الشان تھے کہ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ میں عرصہ ۱۸ برس حضور ﷺ کا خادم رہا، اس عرصے میں مجھے کبھی نہ فرمایا کہ تونے فلاں کام اچھا نہ کیا، یا کس لئے ایسا کیا۔اگر میں اچھا کام کرتا تو میرے حق میں دعائے خیر فرماتے، اگر کوئی کام آپ ﷺ کے خلاف طبع ہوجاتا یا بگڑ جاتا تو فرماتے کَانَ اَمْرُ اللہِ قَدرًا مَقْدُوْرًا یعنی اللہ نے ایسا ہی مقدر فرمایا تھا۔
نبی ﷺ جب بات فرماتے تو اس کو تمام و کمال کے ساتھ ختم فرماتے۔
کسی فرد بشر پر خلاف حق غصہ نہ فرماتے۔ اور نفس کے حق کیلئے جس کا تعلق دنیا سے ہو، بدلہ نہ لیتے۔ ہنسی کھلی، اور قہقہہ نہ لگاتے۔ لیکن ہونٹوں تلے مسکراتے۔ بلا حاجت و ضرورت کے کسی کے ساتھ بات نہ فرماتے۔ آپ ﷺ کی خاموشی بہت طویل تھی۔ جب بات فرماتے تو اس کو تمام و کمال ختم فرماتے۔ یعنی بالکل درست اور صحیح فرماتے۔ اس میں کسی قسم کا ادھورا پن نہ ہوتا۔ الفاظ تو بہت مختصر ہوتے، مگر ان کے معنی بہت حاوی اور بسیط۔ اور جب بات فرماتے تو دائیں ہاتھ کے مُبارک انگوٹھے کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر لگاتے۔ اور اگر اشارت فرماتے تو صرف انگلی کو ہتھیلی کی طرف کرتے۔
جو کچھ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوتا، اسے حاضرین، غیر حاضرین، فقیروں مستحقوں میں بانٹ دیتے۔ جس کو دیتے اس پر کسی قسم کا احسان نہ جتاتے۔ غریبوں کے حق میں دعائے خیر فرماتے۔ بیمار پرسی کیلئے ضرور تشریف لے جاتے۔ اس بارے میں کوئی عذر نہ فرماتے کہ فاصلہ دور دراز ہے، کون جائے۔
دوستوں، بچوں اور عیال کے ساتھ محبت کرتے۔ پڑوسی کی بہت نگہبانی کرتے۔ مہمانوں کو بہت ہی بزرگ سمجھتے۔ کبھی کبھی اپنی چادر مُبارک ان کیلئے زمین پر بچھا دیتے اور مہمانوں کو اس پر بٹھاتے۔ اور سچی اور ٹھیک بات فرماتے۔ نہایت شرم اور کمال حیا سے پوری نگاہ کسی کے چہرے پر نہ ڈالتے۔ جو شخص احسان سے پیش آتا اس کا بدلہ اتارتے۔ اور اکثر اوقات قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھتے۔ اور اپنی نشست و برخاست سوائے یاد خُدا کے نہ کرتے۔ مسواک اس قدر زیادہ کرتے کہ مُبارک دانتوں کی جڑیں گھستی تھیں۔ اور خاع خاع کی آواز مُبارک گلے سے نکلتی تھی۔ اور قاطر یا کچر یا خچر پر سوار ہوتے، کبھی کسی کو اپنے ساتھ بھی بٹھا لیتے۔
نبی ﷺ اپنے گھر کے لوگوں کی خدمت فرماتے، اپنی جوتی خود گانٹھ لیتے، مجلس میں اونچی جگہ بیٹھنے کا لالچ نہ کرتے۔ (سلیم نوری)
جو کوئی دعوت کرتا، منظور فرماتے۔ اور تعظیم دیتے اگرچہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہوتی، اس کی مذمت نہ کرتے۔ اگر دِل چاہتا تو نوش جاں فرماتے، اگر رغبت نہ ہوتی، واپس کردیتے۔ اور خالی زمین پر بیٹھ جاتے اور وہاں کھانا کھاتے اور سوتے۔ اپنے گھر کے لوگوں کی خدمت کرتے، اپنی بکریوں کا دُودھ دوہ لیتے، اونٹ کا گھٹنا باندھ لیتے، اس کے آگے گھاس ڈال لیتے، خادم دسترخوان پر شامل کرلیتے، خمیر گوندھ لیتے، بازار جاتے اور اشیاء خرید لاتے۔ اپنی جوتی خود گانٹھ لیتے، کپڑا سی لیتے، اور مجلس میں جاتے تو جہاں پہنچتے وہیں بیٹھ جاتے اور اونچی جگہ پر بیٹھنے کا لالچ نہ کرتے۔ اور اپنی خاص نشست کیلئے کوئی جگہ مقرر نہ فرماتے۔ اور اپنی اُمَّت کو بالا نشینی سے منع فرماتے۔
تری سادگی پہ لاکھوں، تری عاجزی پہ لاکھوں
ہوں سلامِ عاجزانہ مدَنی مدینے والے
عالم، فاضل، صالح، متقی، خُدا ترس، زاہد، عابد، دین میں زیادہ معلومات رکھنے والا آپ ﷺ کا مقرب عزیز ہوتا۔ اور لوگوں سے اس کا حصہ آپ ﷺ کی عنایتوں اور مہربانیوں کا زیادہ تر ہوتا۔ دوستوں کی ضروریات اور مقاصد کو پورا فرماتے، ان کو ایسے کاموں میں مشغول رکھتے جو ان کے احوال اور بھلائی کے مناسب ہو۔ اپنے طالبین کے دلوں پر ہدایت اور رحمت چمکاتے اور لوگوں سے نصیحتوں کے فائدے اور دلی توجہ اٹھا نہ رکھتے۔
آپ ﷺ کی مجلس مُبارک میں بے قاعدہ باتوں کا ذِکر نہ ہوتا۔ خیر و برکت کے طلبگار اور نیک بختی کے خواستگار گروہ در گروہ آتے اور دینی روحانی برکتوں سے اپنا حصہ پاتے۔ قرآن مجید سننے سے اکثر رویا کرتے تھے۔ یا رات کی نمازوں میں گریہ و زاری کرتے۔ اُمَّت پر شفقت کرنے سے یا میت پر رحمت کے سبب سے بھی۔
انگڑائی اور جماہی شیطان کی طرف سے ہے اور چھینک رحمٰن سے۔
انگڑائی نہ لیتے، فرماتے انگڑائی شیطان سے ہے، چھینک رحمان سے۔ جب جماہی غلبہ کرے تو یا تو منہ کو بائیں ہاتھ سے ڈھانپتے، یا نیچے کے ہونٹوں کو دانتوں سے پکڑتے۔ جب چھینک آتی تو اپنے منہ مُبارک کو ہاتھ سے ڈھانپتے یا کپڑے سے۔ بہت کھانے سے جو ڈکار آتی، اس کو مکروہ جانتے۔
اپنے دوستوں کے ہمراہ جب چلتے تو پیچھے چلتے اور فرماتے کہ میری پیٹھ کو فرشتوں کیلئے خالی چھوڑ دو۔ ضعیفوں کو تقویت دیتے، تھکے ہوئے لوگوں کو سوار کرلیتے، نہ کسی کو رنجیدہ کرتے، اور نہ ہی کسی سے رنجیدہ ہوتے، ہمیشہ غمگین اور فکر مند رہتے۔ کبھی سیر ہوکر کھانا نہ کھاتے، رات کو آرام نہ کرتے، باوجود پارسائی اور پاکدامنی اور خُدا کا محبوب ہونے کے پھر بھی وصال کے روزوں، راتوں کو جاگنے اور بہت سی نمازوں کے پڑھنے سے ایک دم بھی آرام نہ پاتے۔ سلام اور درود ہو ان پر اور آپ کی آل و اصحاب پر۔
حضور ﷺ کے گھر متواتر کبھی تین دن چولہا گرم نہیں ہوا۔ اور نہ ہی آل محمد ﷺ نے کبھی متواتر تین دن جو کی روٹی کھائی، چھلنی حضور ﷺ کے مُبارک زمانے میں نہ تھی، اور نہ ہی کسی صحابی نے آٹا چھان کر روٹی پکائی، کبھی متواتر دو دو مہینے خشک کھجور اور دُودھ پر گزارا کرتے۔؎
کھانا تو دیکھو، جو کی روٹی، اَن چھنا آٹا، روٹی بھی موٹی
وہ بھی شکم بھر روز نہ کھانا صلی اللہ علیہ وسلم
کبھی دو چار کھجوریں کھانا، پانی پی کر پھر سو جانا
اور کئی کئی مہینے یونہی گزارا، صلی اللہ علیہ وسلم
حضور ﷺ نے کبھی میدہ نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے کبھی خوانچوں اور چینی کی رکابیوں میں نہ کھایا، حضور ﷺ کے مٹی کے برتن تھے، ہمیشہ دسترخوان بچھا کر کھانا کھاتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے: حضرت عائشہ نے ہمارے کھانے کو ایک چادر، ایک تہہ بند ٹانکیوں والا نکالا اور فرمایا کہ حضور ﷺ نے ان دو کپڑوں میں انتقال فرمایا تھا۔
بستر آپ ﷺ کا کمبل کا تھا۔ کبھی چمڑے کا گدا ڈال لیتے، جس میں کھجور کی چھال بھری تھی۔ کبھی معمولی کپڑا دوہرا کرکے بچھالیتے۔ محلات کا یہ حال تھا کہ ازواج کے نو حجرے تھے۔ بعض کی دیواریں کچی تھیں، اوپر کھجور کی شاخوں کی چھتیں تھیں، بعض کی یہ کیفیت تھی کہ کھجور کی ٹہنیاں کھڑی کرکے لیپ دی گئی تھیں۔
شروع میں مسجد نبوی کی جو شان تھی، اس پر غور کرو، ایک چبوترا بنایا گیا تھا، اور قد آدم کے برابر کچی اینٹوں کی ایک دیوار بنی ہوئی تھی۔ دھوپ سے بچنے کیلئے ستونوں کی جگہ کھجوروں کی لکڑیاں گاڑ کر پتوں اور گھاس پھونس کا ایک چھپر سا بنا لیا گیا تھا، جس سے دھوپ کا آرام تھا۔ مگر بارش کا بچاؤ نہ تھا۔ فتوحات کے زمانے میں ایک دفعہ ازواج مطہرات نے عمدہ لباس و زیورات کی خواہش کی۔ حضور ﷺ ان سے جدائی اختیار کرنے پر آمادہ ہوگئے۔
تعظیم کیلئے لوگوں کا اٹھ کھڑا ہونا گوارا نہ فرماتے۔ فجر کی سنتیں گھر پر ادا فرماتے، اور پھر مسجد میں جا کر فجر کی نماز پڑھاتے۔ جب سفر سے واپس آتے، تو پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، اور دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ سفر میں آئینہ، کنگھی، سرمہ دانی، سوئی وغیرہ ساتھ رکھتے۔ سر اور داڑھی میں کنگھی کرتے، ٹوپی اور پگڑی سر پر باندھتے، اور شملہ دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکاتے۔ تہہ بند اور سادہ قمیص زیب تن فرماتے اور قمیص کو بہت پسند فرماتے۔ عام طور پر فجر اور ظہر کی نماز میں حجرات سے لیکر بروج تک اور عشاء اور عصر کی نماز میں بروج سے لیکر سورۂ قدر تک اور شام کی نماز میں سورۂ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ یا سورت بینہ سے لیکر وَالنَّاس کی سورتوں میں سے پڑھتے۔
ذِکر قلبی
{ ۔۔۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَٰمًا وَ قُعُودًا وَ عَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۔۔۔۔ } [النساء: 103].
اور { ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَ خُفْيَةً ۔۔۔۔ } [الأعراف: 55].
ترجمہ: اللہ کا ذِکر کرو کھڑے، بیٹھے اور کروٹ کے بل۔
ترجمہ: اور اپنے رب کو دلوں میں یاد کرو۔
ذِکر زبانی میں سلوک طے ہوتا ہے۔ یعنی وہ باری تعالیٰ کی طرف خود چل کر جارہا ہے اور پیدل اور کوشش کرکے جارہا ہے۔ اور ذِکر قلبی والا گویا ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے۔ اور باری تعالیٰ خود اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ اور سات کروڑ انسان کے بال سب ذِکر کرتے ہیں۔ حضرت سلطان العارفین فرماتے ہیں کہ زبانی ستر ہزار پڑھنے سے دِل کا ایک بار پڑھنا بہتر ہے۔
وقوف قلبی کا مطلب یہ ہے کہ دِل ہر وقت ہر لحظہ بالی تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے۔ اور کوئی خیال دِل میں نہ آئے۔
طریقۂ ذِکر قلبی (از مکتوبات جلد اول مکتوب ۳۱۳)
آپ فرماتے ہیں کہ لَا کو اوپر کی طرف یعنی ناف سے نکالے، اور الٰہ کو دائیں طرف لے جائے اور الَّا اللہ کو دِل پر ضرب مارے۔ یہ سب تخیل میں ادا کرے اور کام و زبان سے کچھ تعلق نہ ہو، تاکہ کچھ کہیں دِل اس کی موافقت کرے۔ اور بخوبی قبول کرے۔
مکتوب ۱۳ جلد دوم میں فرماتے ہیں کہ جب دِل ذِکر کرنے سے تھک جائے تو زبان سے پوشیدہ طور پر کرے۔ کیونکہ زبانی ذِکر اس طریقے میں منع ہے۔
مکتوب ۱۹۰ جلد اول میں فرماتے ہیں کہ ابتداء میں ذِکر کرنے سے چارہ نہیں۔ تو چاہیئے کہ قلبِ صنوبری کی طرف متوجہ ہو کہ وہ مضغۂ گوشت قلب ِحقیقی کیلئے حجرہ ہے۔ اور اسم مُبارک اللہ کو اس پر گزارے، اس وقت قصداً کسی عضو کو حرکت نہ دے، اور ہمہ تن قلب کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اور قوت متخیلہ میں قلب کی صورت کو جگہ نہ دے۔ اور اس کی طرف التفات نہ کرے۔ کیونکہ مقصود قلب کی طرف توجہ کرنا ہے نہ کہ اس کی صورت کا تصور، اور لفظ مُبارک اللہ کو بیچونی اور بیچگونی کے ساتھ ملاحظہ کرے۔ اور کسی صفت کو اس کے ساتھ شامل نہ کرے۔ اور حاضر ناظر بھی ملحوظ نہ ہو، تاکہ حق تعالیٰ کی ذات بلندی سے صفات پستی میں نہ آجائے۔
پِیر کون شخص ہے
اگر ذِکر کرتے وقت پیر کی صورت بے تکلف ظاہر ہو تو اس کو بھی قلب کی طرف لے جانا چاہیئے، اور قلب میں نگاہ رکھ کر ذِکر کرنا چاہیئے۔ تو جانتا ہے کہ پیر کون شخص ہے؟ پیر وہ شخص ہے جس سے خُدا تعالیٰ کی جنابِ پاک کی طرف پہنچنے کا راستہ سیکھے، اور اس راستے میں تو اس سے مدد اور استعانت حاصل کرے۔
ذِکر اس قدر غالب ہوجائے کہ مذکور کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے
عقائد کے درست کرنے اور فرائض کو بجا لانے اور سنَّت مؤکدہ کے بعد اپنے آپ کو ہمیشہ ذِکر الٰہی میں مشغول رکھے۔ ذِکر اس قدر غالب ہوجائے کہ مذکور کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے۔ اس وقت دِل کو ما سوا سے نسیان ہوجاتا ہے۔ اور غیر کی دید و دانش سے فارغ ہوجاتا ہے۔ اگر تکلف و بناوٹ سے بھی اشیاء یاد دلائیں تو بھی یاد نہیں آتیں۔ اور ان کو پہچان بھی نہیں سکتا۔ یہ سالک کا اللہ کی طرف پہلا قدم ہے۔
ذِکر قلبی سے اصلی مقصود یہ ہے کہ ماسوا اللہ کی گرفتاری اور تعلق جو دِلی بیماری ہے، دِل سے دور ہوجائے۔ جب تک یہ گرفتاری دور نہ ہوجائے، حقیقت کا پتا نہیں لگتا۔ اور شریعت کے اوامر و نواہی ادا کرنے میں سہولت اور آسانی نہیں ہوتی۔
ذِکر کر جب تلک کہ جان ہے
دل کی پاکی یہ ذِکر رحمان ہے
کونسا عمل بہتر ہے؟
ایک طالِب نے مجدد الف ثانی سے پوچھا کہ ذِکر نفی اثبات، تلاوت قرآن مجید اور طولِ قرأت کے ساتھ نماز ادا کرنا۔۔۔ ان تینوں میں سے کونسا عمل بہتر ہے۔ سو آپ نے فرمایا کہ نفی اثبات کا ذِکر وضو کی طرح ہے جو نماز کی شرط ہے۔ جب تک طہارت درست نہ ہو، نماز شروع کرنا منع ہے۔ اسی طرح جب تک نفی کا معاملہ انجام تک نہ پہنچ جائے تب تک فرائض و واجبات اور سنَّتوں کے سوا عبادات فاضلہ جس قدر ہیں، سب وبال ہے۔ پہلے مرض کو دور کرنا چاہیئے جو نفی اثبات کے ذِکر پر وابستہ ہے، بعد ازاں دوسری عبادات جو بدن کیلئے اچھی غذا کی طرح ہیں، مشغول ہونا چاہیئے۔ مرض کے دور ہونے سے پہلے جو غذا کھائے، فاسد ہے۔
یہ کچھ ضروری نہیں کہ ذِکر میں لذت تمام پیدا ہو یا چیزیں دکھائی دیں۔
یہ کچھ ضروری نہیں کہ ذِکر میں لذت تمام پیدا ہو۔ اور چیزیں دکھائی دیں۔ یہ سب کچھ لعب و لہو اور کھیل کود میں داخل ہے۔ ذِکر میں جس قدر مشقت ہو، بہتر ہے۔ نماز پنج وقتی کو ادا کرکے اوقات کو ذِکر الٰہی سے آباد رکھے۔ اور ذِکر کے التزام سے بیکار نہ رہے۔
یاد داشت کے معنی (مکتوب نمبر 12 جلد دوم)
خدا کا ذِکر ہر لحظہ ہر آن کر۔ پروردگار کا نام لب و تالو ہلانے کے سوا جَپ، تاکہ یاد داشت کو پالے۔ اور یاد داشت کے یہ معنی ہیں کہ لب و زبان کو حرکت دیئے بغیر حق تعالیٰ کے حضور حاضر ہو۔ ایسی زبان سے یاد کر جس کی زبان ہی نہیں۔
ایسی زبان سے یاد کر جس کی زبان ہی نہیں
مقاصد السالکین ۱۶۶ مکتوب نمبر ۱۰۳ جلد سوم میں مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ چاہیئے کہ اپنے اوقات کو ذِکر الٰہی سے آباد رکھے اور ظاہر باطن شریعت طریقت سے آراستہ رہے۔ اور دوسرے کی تکمیل اپنے کمال کی شاخ ہے۔ جو ولایت کا خاصہ کار درجہ ہے۔ لیکن جب طالبوں میں رشد و ہدایت پیدا ہو اور احوال مواجید ظاہر ہوں اگرچہ فنا و بقا کی حد تک نہ پہنچ سکیں تو یہ بھی غنیمت ہے۔ اور سرخ گندھک کا حکم اس زمانے میں رکھتے ہیں۔ لیکن استخاروں اور توجہ کے بعد جس کسی کو طریقے کی تعلیم دینی مناسب بلکہ لازم ہو اور اس امر سے ڈرتے رہیں کہ اس راستے سے شیطان نہ آپ پر ظاہر ہو۔ باقی جو تعداد آپ نے لکھی تھی تو اس سے دوگنی تعداد شمار پر عمل کریں، پھر خبر کریں تاکہ حال کے مناسب اطلاع دیویں۔
رابطۂ شیخ
رابطۂ شیخ کا حصول محبتِ شیخ ہے۔ رابطۂ شیخ ایسا ہے جیسے شریعت میں خانۂ کعبہ۔ خالق و مخلوق کے درمیان عبادت کے واسطے رابطہ ہے۔ کیونکہ نُور خُدا کا نزول دو جگہ ہی ثابت ہوا ہے، یا تو بیت اللہ یا قلب عبد اللہ۔
جب تک مُرید شیخ کے تَصَوُّر میں اپنے آپ کو گم نہ کرے، کوئی فائدہ نہیں دیکھ سکتا۔
بعض مشائخ اس طریقے کے اپنے مُرید کو اپنی صورت کے حاضر کرنے کا امر دیتے ہیں کہ مراقبے میں شیخ کی صورت کا تَصَوُّر باندھو، یہاں تک مُرید شیخ کے تَصَوُّر میں اپنے آپ کو گم نہ کرے، کوئی فائدہ نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن پیرانِ مکمل اس طریقے کے مُرید کو یک دَم خُدا کی ذات میں گم کردیتے ہیں۔ اور ماسِوَا اللہ کے نقوش دِل سے دھو کر ذات ِاحدیت میں غرق کردیتے ہیں۔
رابطۂ شیخ سب راستوں سے افضل راستہ ہے خُدا کے ملنے کا۔ خُدا کے ملنے واسطے تین راستے تو بہت آسان ہیں۔ اول ذِکر، دوسرا فِکر تیسرا رابطۂ شیخ۔ اگر یہ تینوں راستے کسی طالِب کو ایک ہی وقت میسر آجائیں تو نُورٌ عَلیٰ نور۔ ورنہ ان تینوں میں سے جو ایک بھی پکڑے گا، خُدا تک پہنچ جائے گا۔
ذِکر بے رابطہ موصول نیست
خواجہ محمد معصوم فرماتے ہیں کہ ذِکر بے رابطہ موصول نیست، و رابطہ بے ذِکر موصول است۔ یعنی رابطہ ذِکر کے بغیر خُدا تک پہنچادیتا ہے۔ البتہ ذِکر بغیر رابطہ کے خُدا تک نہیں پہنچاتا۔ شاہ عبد العزیزؒ اپنے والد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب قوالی الجمیل کی شرح میں فرماتے ہیں کہ فقیر کے نزدیک سب راہوں سے افضل راستہ رابطۂ شیخ ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر بلا تکلف بلا بناوٹ کے مُرید کو پیر کا رابطہ حاصل ہوجائے تو پِیر و مُرید کے درمیا کامل نسبت کی علامت ہے۔ چونکہ امیر ُالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق ؓ، نبی اکرم ﷺ سے زیادہ رابطہ رکھتے تھے اسی وجہ سے تمام صحابہ سے افضل ہوگئے۔
فنا کیسی بقا کیسی؟
تُو نہ ہو، یہ کمال ہے، تُو اس میں گم ہو، یہ وصال ہے
ایک درویشوں کی جماعت خُراسان میں ابو بکر قِبطی کے پاس آئی۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا شیخ تمہیں کیا ارشاد فرماتا ہے؟ ابو عثمان جری نے کہا کہ ہم کو فرماتا ہے کہ ہم طاعت بہت کریں اور اپنے تئیں قصور وار جانیں۔ ابو بکر قبطی نے کہا کہ ویح ویح (پھٹے سے منہ) تم کو یہ کیوں نہیں فرماتا کہ اس شخص میں اپنے وجود کو غائب کرو جو تم کو طاعت کی بہت توفیق دیتا ہے۔ تو نہ ہو، یہ کمال ہے۔ تو اس میں گم ہو، یہ وصال ہے۔
حضرت مولانا نُور محمد صاحب چنیوٹی خلیفۂ اعظم حضرت امام علی شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں: ؎
نظر محبت پیر دی جتول جا پئی
وانگوں مینہ برسات دے سب نوں تار گئی
جیہڑے پیر دی نظر منظور ہوگئے
گھر انہاندے پیریاں امیریاں نے
جان تَصَوُّر پیر ہر دم کیا پکا
سے ور ہیاں دی بندگی مرشد دا لقا
ہک تَصَوُّر پیر دا جی کر محکم ہو
دین دنیا وچ اس نوں ہور نہ حاجت کو
فنا کیسی بقا کیسی جب اس کے آشنا ٹہرے
کبھی اس گھر میں جا نکلے، کبھی اس گھر میں آ ٹہرے
فنا فی الرسول ﷺ
فنا فی الرسول ﷺ کے کئی اقسام ہیں۔ آپ ﷺ کی محبت میں فنا ہونا، آپ ﷺ کی اتباع میں فنا ہونا وغیرہما۔ جس طالِب کی ولایت قوی ہوتی ہے، وہ حضور پُر نُور ﷺ کو چشم ِظاہر سے دیکھتا ہے، اور پرورش آپ ﷺ کی ذات مُبارک سے، اور التفات اور انعام اپنے پر پاتا ہے اور جس کی قوت ِولایت بدرجہ اوسط ہوتی ہے وہ جناب ﷺ کو دِل کی آنکھوں سے بحالت مراقبہ دیکھتا ہے۔
اور جس طالِب کی استعداد ضعیف ہوتی ہے وہ اکثر حضور ﷺ کی پرورش اور التفات بحالت خواب دیکھتا ہے۔ بعض خاصان خُدا پر حضورِ اَنور ﷺ کی اس قدر عنایت ہوتی ہے کہ اتّصالِ رُوحانی ہوتا ہے۔
فنا فی الرسول ﷺ اور بقا باللہ ﷻ
حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے اس بارے میں بہت سی باتیں کہیں جو سب کی سب رمز اور اشارے کے طور پر ہیں۔ کوئی شخص اپنی نسبت کیا معلوم کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو احوال کا علم نہیں دیتے۔ اور بعض کو احوال کا علم عطا فرما کر پیشوا بنا دیتے ہیں۔ اور بعض کو ان کے حوالے کرکے کمال و تکمیل کے مرتبے تک پہنچا دیتے ہیں۔
ما سوا کی نفی (مکتوب 16 جلد دوم )
جب سالک اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ذِکر اور مراقبے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دَم بدم ماسوا سے مُنہ پھیرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء صفات کی عِلمیہ صُورتوں کے عکوس ہر آن قوت و غلبہ پاتے ہیں اور اپنے کریم ساتھی جو عدمات ہیں، غالب آتے ہیں اور اپنے اصول کے عکوس کے بغیر سالک کی نظر میں کچھ نہیں رہتے بلکہ وہ عکوس بھی جو اپنے اصول کے آئینے ہیں، نظر سے پوشیدہ ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس مقام میں آئینوں کا مخفی ہونا ضروری ہے تو یہ مقام فناء ہے۔ اور مقام فنا بہت بلند ہے۔ اگر سالکِ فانی کو بقا بخشیں اور عالَم کی طرف واپس لائیں تو اپنے عَدم کو باریک پوست کی طرح، جو بدن کا محافظ ہے، معلوم کرتا ہے۔
ولایت کا مقدمہ طریقت ہے، جہاں ماسوا کی نفی مطلوب ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماسوا بالکل نظر سے دور ہوجاتے ہیں اور دید و دانش میں اغیار کا نشان باقی نہیں رہتا تو فنا حاصل ہوجاتی ہے۔ اور مقامِ طریقت ختم ہوجاتا ہے۔ اور سیر اِلَی اللہ تمام ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد مقام ِاثبات میں سیر شروع ہوتی ہے جس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں۔ یہ مقام ِاثبات ہے یا مقامِ بقا۔
نوٹ: قلب سے ماسوا کے نسیان کی علامت یہ ہے کہ ماسوا کو قبول نہ کرے اور نفس عالم کے علمِ حضوری کی علامت ہے کہ عالَم بالکل متنفی معلوم ہوجائے اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے۔
طریقت و حقیقت کا جامع (مکتوب 52 جلد سوم)
کلمۂ طیبہ طریقت و حقیقت کا جامع ہے۔ جب تک سالک نفی کے مقام میں ہے، طریقت میں ہے۔ اور سالک جب نفی سے پورے طور پر فارغ ہوجاتا ہے اور تمام ماسوا اس کی نظر سے دور ہوجاتا ہے تو طریقت کا معاملہ ختم ہوجاتا ہے اور مقام فنا میں پہنچ جاتا ہے۔ اور سلوک سے جذبہ کی طرف رغبت کرتا ہے تو مرتبۂ حقیقت اور بقا سے مشرف ہوجاتا ہے۔ اس نفی اور اثبات، طریقت و حقیقت، فنا و بقا اور اس سلوک و جذبہ سے اس پر ولایت کا اسم صادق آتا ہے۔ اور نفس امارہ کو چھوڑ کر مطمئنۃ اور پاک ہوجاتا ہے۔
نوٹ: یہ فنا و بقا جسمانی فنا و بقا نہیں بلکہ سالک کے لطائف اور علم کی فنا و بقا ہے۔ فنا اس حالت کو کہتے ہیں کہ جب سالک کی نگاہ سے غیریت اٹھ کر سوائے ذات باری کے کچھ نہ رہے۔ اور بقا اس حالت کو کہتے ہیں کہ اس حالِ فنا سے اس کو افاقہ ہو اور خالق و مخلوق اور حادث و قدیم میں تمیز کرے۔ سالک کو پہلے فنائے فِعْلی، پھر فنائے صفاتی اور پھر فنائے ذاتی ہوتی ہے۔ یعنی اپنے افعال کو فعلِ خُدا میں اور پھر اپنی صفات کو صفات ِخُدا میں اور پھر اپنی ذات کو ذاتِ خُدا میں فنا پاتا ہے۔ یہ بات کثرت ذِکر اور خاصانِ حق کی صحبت سے نصیب ہوتی ہے۔ بموجب حدیث شریف قدسی (از مظاہر حق، جلد دوم، کتاب الدعوات، بابِ ذِکر، صفحہ ۲۵۶ )
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: «مَنْ آذَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ , وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَاءِ مَا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ , وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ , فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ , وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ , وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا , وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا , فَلَئِنْ سَأَلَنِي عَبْدِي أَعْطَيْتُهُ , وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأَعَذْتُهُ
ترجمہ: ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی اکرم ﷺ نے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب وصول ہوتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کی وہ سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور وہ بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو عطا کرتا ہوں، اگر مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اس کو پَناہ دیتا ہوں۔
بیٹے کو نصیحت
اپنی مُراد کا طلب کرنا گویا کہ اپنے مولا کی مُراد کو دفع کرنا ہے
حضرت امام ِربانی مجدد الف ثانیؒ حضرت خواجہ محمد معصومؒ کو دفتر سوم مکتوب ۲۰ میں ماتے ہیں کہ تین چیزوں میں سے ایک میں ضرور مشغول رہو۔ قرآن مجید کی تلاوت کرو یا لمبی قرآت سے نماز ادا کرو یا کلمۂ طیبہ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ کی تکرار کرتے رہا کرو۔ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ کے ساتھ حق تعالیٰ کے سوا تمام جھوٹے خداؤں اور اپنے نفس کی نفی کرنی چاہیئے اور اپنی تمام مرادوں اور مقصدوں کو سینے سے رفع کرنا چاہیئے کیونکہ اپنی مُراد کا طلب کرنا الوہیت کا دعوی کرنا ہے۔ بلکہ سینے میں کسی مُراد کی گنجائش نہ رہے اور متخیلہ میں کوئی ہوس باقی نہ رہے۔ اپنی مُراد کا طلب کرنا گویا کہ اپنے مولا کی مُراد کو دفع کرنا ہے اور اپنے مولا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ اس امر میں اپنے مولا کی نفی اور اپنے مولا بننے کا اثبات ہے۔ اس امر کی برائی اچھی طرح معلوم کرکے اپنے الوہیت کے دعوے کی نفی کرو۔ تاکہ تمام ہوا و ہوس سے پاک ہوجاؤ اور طلبِ مولا کے سوا تمہاری کوئی مرضی نہ رہے۔ یہ مطلب اللہ تعالیٰ کی عنایت سے بلا و ابتلاء کے زمانے میں بڑی آسانی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس زمانے کے سوا ہوا و ہوس سدِّ سکندری ہے۔ گوشے میں بیٹھ کر اس کام میں مشغول رہو۔ فتنے کے زمانے میں تھوڑے کام کو بہت اجر کے عوض قبول کرتے ہیں۔ لیکن فتنے کے زمانے کے سوا سخت ریاضتیں اور مجاہدے درکار ہیں۔ ذِکر الٰہی کے سوا کسی کام میں مشغول نہ ہو۔ اب کتابوں کے مطالعے اور طلبہ کے تقراء کا وقت نہیں۔ اب ذِکر کا وقت ہے۔
اشعار از شمشیر طریقت
ہُن لکھنا پڑھنا چھڈ محمدا، روح دا سبق پکائیں
ہر دم رہیں مشاہدے اندر دوجا ویکھے ناہیں
فانی ایہے زبان بچاری اس نوں مٹی کھانا
بعد مرن دے ذِکرِ ربانی سارا بند ہوجانا
غافل ہو قبر وچ بیٹھے ذِکر زبانی والا
جس قلبی روحی ذِکر پکایا ہو سی اوہ سکھالا
ذِکر ربانی چھڈ کے بھائی ہو مقرب جاوے
ذِکر ربانی دیو چہ ساری عمر نہ مول گنوا ویں
چاندی سونا ونڈن تھیں، گھی ذِکر ہے وڈا بھائی
حج زکاۃ ہور جو نیکی اس دے مل نہ کائی
جہاد نالوں بھی وڈا آہا، میرے جے کھا تلواراں
اوتھے ہکو واری مرسی، اتھے باہجھ شماراں
نال دِلے دے اللہ اللہ کردا رہے ہمیشہ
نال زباں نہ آکھے ہرگز نہ کروں پریشاں
باہجھ خُدا دے خبر کسے دی ہرگز مول نہ رکھے
تاں دِل دی کھڑکی باطن دے وَل کُھل سی باطن ویکھے
لوگ جاندار خواباں ویکھن جاگْدِیاں ایہیں ویکھے
فرشتے ہور ارواح پیغمبراں ویکھے باہجوں لیکھے
پیغمبراں تے فرشتیاں کولوں مداں فائدے پاوے
ملکوت زمین آسماناں سدا بھید سارا کھل جاوے
علمِ لدنی غیب جو سارے اس نوں چاں پڑھاوے
وچ عالم جبروت لیجا کے اپنا وصل کراوے
کرکے بند زبان اپنی نوں دِل دے نال دلیلے
اللہ اللہ کہوے ہمیشہ مرشد پکڑو سیلے
آگے دیکھے باطنی کعبہ دِل وچ اللہ اللہ
پھر حرف جاہن تے معنی رہن ہووے جو ما سوا اللہ
فضائل کلمہ شریف
کلمہ سب کلمیاں تھیں وڈا
کلمہ سب حکماں تھیں وڈا
کلمہ سب رکناں تھیں وڈا
لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ
عرش آسماناں تھیں بھی وڈا،
قطب قرآناں تھیں وڈا
دین ایماں تھیں بھی وڈا
لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ
روزے حج زکاتاں تھیں بھی،
فرض نماز جماعتاں تھیں بھی
وڈا لکھ رکعتاں تھیں بھی
لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے { ۔۔۔ وَ لَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَ اللَّهُ ۔۔۔۔ } [العنكبوت: 45].
یعنی اللہ کا ذِکر سب سے بڑا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان حدیث : ذِكْرُ اللَّهِ فَرْضٌ مِنْ قَبْلِ كُلِّ فَرْضٌ
کلمۂ طیّبہ اُمُّ الْعُلُوم ہے
واضح ہو کہ کلمہ شریف کے ورد سے عالم، اولیاء اور فقیر فاضل بن جاتا ہے۔ کلمۂ طیب ہر علم کی چابی ہے۔ اس سے ہر ایک تالا کھل سکتا ہے۔ اور سارے علوم منکشف ہو سکتے ہیں۔ کلمۂ طیبہ ام العلوم ہے۔ اس سے معرفت اور قرب الٰہی حاصل ہوسکتا ہے۔ جو شخص اس کا ورد کرتا ہے، اس کو ظاہری علوم کی ضرورت نہیں۔ جو شخص اس کو نہیں پڑھتا، جاہل، احمق اور نادان ہے۔ کلمۂ طیب میں 24 حروف ہیں۔ ہر حرف میں ہزار حکمت اور تصرف گنج ہیں۔ اور اسے صاحب حضور ولی بنا دیتا ہے۔ کلمۂ طیبہ اسی طرح حضور میں پہنچا دیتا ہے۔ پھر اسے جمعیت اور احتیاج کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور طالبوں کو کلمۂ طیبہ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی برکت سے ہر مطلب مل جاتا ہے۔
جس نے کلمۂ طیبہ پڑھا، دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوگئی۔ ایمان، بہشت، فضل اس پر عاشق ہوگئے۔ اس کلمۂ طیب سے جمعیت تمام تا وقت یہ کہ دِل صاف نہ ہو، ذِکر و تذِکر کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ اس واسطے فقیر عالم سے منہ موڑ کر اللہ کے ذِکر میں لگ جاتے ہیں۔ تَصَوُّرِ اسم ِذات اور لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ سے تمام جسم و قلب منور ہو جاتے ہیں۔ اور انسان صاحبِ حضور بن جاتا ہے۔ اور جو کچھ دیکھے گا، کلمۂ طیب کی برکت سے دیکھے گا۔
حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ اگر کلمۂ طیبہ ایک بار پڑھنے سے تمام مخلوقات بخش دی جائے تو بھی ہوسکتا ہے۔ لوگ اس کی برکات سے واقف نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دور کرنے کیلئے اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز فائدے مند نہیں۔ جب نظر و کسب واپس رہ جاتے ہیں، اور ہمت کے پرو بال گر جاتے ہیں اور غیب کے ساتھ معاملہ پڑتا ہے تو اس مقام میں لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کے پاؤں کے سوا کچھ نہیں چل سکتے۔ اور کلمۂ مقدسہ کی مدد کے سوا اس مسافت کو قطع نہیں کرسکتے۔ کلمۂ طیب ایک بار کہنے سے اور کلمۂ مقدسہ کی حقیقت کی مدد و اعانت سے ایک قدم طے ہوتا ہے اور وہ قدم عالم امکان کے تمام دائرے سے کئی گنا زیادہ ہے۔ آخر میں امام مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ اور کوئی آرزو نہیں رہی سوا اس کے کہ گوشے میں بیٹھ کر اس کلمے کے تکرار سے محظوظ و متلذذ ہو مگر کیا کیا جائے کہ خلقت کی غفلت اور خلط ملط سے چارہ نہیں۔
حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی طریقہ ارشاد فرمائیے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کرنے والا ہو اور بزرگ ہو، بندوں پر آسان ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے علی! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں کس چیز کے ذریعے سے نبوت تک پہنچا؟ حضرت علی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! فضیلت فی الذِکر ایسی ہے حالانکہ سب لوگ کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب تک کوئی اللہ اللہ کہنے والا زمین پر ہوگا، قیامت قائم نہ ہوگی۔ حضرت علی نے فرمایا کہ میں کیونکر ذِکر کروں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے سن، یہاں تک کہ میں اس کو متواتر تین بار کہوں، پھر تو بھی تین بار پڑھ اور میں سنوں۔ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ، لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ، لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ
اللهم لا تحرمنا من بركات هذه الكلمة الطيبة و ثبتنا عليه و علي تصديقها واحشرنا مع المصدقين لها وادخلنا الجنة بحرمتِ ها وحرمة مبلغها عليهم الصلوة والتحيات والتسليمات والبركات
فرموداتِ میاں صاحب ؒ
جناب حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل باتوں کی تاکید فرمائی ہے۔
أ. اپنے شیخ مقتداء کی محبت اور صاحب شریعت علیہ الصلوۃ والسلام کی سنَّت سنیہ پر کار بند رہ۔ اگر ان میں سے ایک میں فتور آگیا تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے۔
ب. یادِ خُدا کو اپنا کسب بنا۔
ت. جب دِل ذِکر کرنے سے تھک جائے تو پوشیدہ طور پر زبان سے ذِکر کر۔
ث. عورتوں سے سخت پرہیز کر۔
ج. ہمیشہ با جماعت نماز ادا کر۔
ح. پیر نہ بن۔
خ. اپنے لئے لوگوں میں جگہ مخصوص نہ کرو۔ اور نہ ہی مصلی یا مسند بچھوا۔
د. جاہل صوفیوں سے سخت پریہز کر۔
ذ. لوگوں کے آگے مت چل تاکہ تکبر نہ پیدا ہو۔
ر. کسی سے وضو نہ کروا۔ اور نہ ہی کسی سے کچھ لے۔
ز. ہمیشہ گمنام رہ۔
س. لوگوں سے اپنے ہاتھ نہ چمواؤ۔
ش. اپنی جوتی کسی سے مت اٹھوا۔
ص. لوگوں سے اپنی تعظیم مت کروا۔ اگر وہ ادب کیلئے کھڑے ہوں تو اس جگہ نہ جا۔
ض. زیادہ دیر آدمیوں کو اپنے پاس نہ بیٹھنے دے اور نہ ہی خود دنیا داروں کے پاس بیٹھ تاکہ غفلت نہ ہو۔
ط. دروازہ بند کرکے بیٹھ تاکہ دنیا کے خیالات سے پراگندہ نہ ہو۔
ظ. روٹی چاپائی پر بیٹھ کر نہ کھا۔
ع. بالکل تھوڑا کلام کر۔
غ. رات کو سونے سے پہلے محاسبہ کیا کر اور سُبْحَانَ اللہ، اَلْحَمْدُ لِلہ، اَللہُ اَکْبَر ۱۰۰، ۱۰۰ بار لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لہٗ تین بار اور اَسْتَغْفِرُ اللہ کم از کم تین بار ضرور پڑھا کر۔
فضائل درود شریف
صَلَّى اللهُ عَلى حَبِيبِهِ سَيَّدنَا مُحَمّدٍ وَّألِهِ وَسَلَّم
باری تعالیٰ بذات خود اور فرشتے درود پاک پڑھ رہے ہیں اور مؤمنین کو بھی ارشاد فرمایا گیا ہے، تو اس سے بڑھ کر اور کون سا بڑی فضیلت والا وظیفہ ہوسکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول شدہ وظیفہ ہے۔ اور تمام وِردوں اور وَظیفوں سے بڑھ کر ہے۔ اور اس میں کثیر دینی و دنیاوی فائدے ہوتے ہیں۔ سب مسئلوں سے جلدی قبولیت والا وظیفہ ہے اور اس کو ہمیشہ پڑھنے والا حضوری ہوجاتا ہے۔ کلمہ شریف افضل الذِکر ہے۔ لیکن وہ ذِکر افضل ہے جو شیخ مقتداء سے اخذ کیا ہو، ورنہ درود شریف افضل ہے۔
حضرت امام ربانی فرماتے ہیں کہ جاننا چاہیئے کہ ہر ذِکر یہ مرتبہ نہیں رکھتا، وہ ذِکر جو قبولیت کے لائق ہے، وہ ہی اس زیادتی کے ساتھ مخصوص ہے۔ لیکن جو ذِکر ایسا نہیں، تو درود شریف کو اس پر فضیلت ہے۔ اور باقی ذِکروں کے سوا درود شریف سے زیادہ برکت حاصل ہونے کی امید ہے۔ ہاں وہ ذِکر جو طالب، شیخ کامل سے اخذ کرتا ہے اور طریقت کے آداب کو ملحوط رکھ کر ذِکر کرتا ہے اور اس پر مداومت کرتا ہے، درود شریف سے افضل ہے۔ کیونکہ یہ ذِکر اس ذِکر کا وسیلہ ہے، جب تک یہ ذِکر نہ ہو، اس ذِکر تک نہیں پہنچ سکتے۔
حضرت میاں صاحب شیر محمد شرقپوری ؒ فرماتے ہیں کہ کم از کم ۲۰۰ (دو سو)بار اور زیادہ ۳۰۰۰ (تین ہزار) پڑھنا چاہیئے۔ حضرت امام علی شاہ صاحبؒ ہر دن سوا لاکھ بار درود شریف ورد فرماتے، یہاں تک کہ ظاہر جسم بھی نُور ہوگیا اور ہندوستان بلخ، بخارا، عرب، عجم وغیرہ تمام دنیا تک اس نُور کی کرنیں پہنچ گئیں۔
شجرہ طَيِّبَة شریف اردو منظوم
سلسلهِ عاليه نقشبنديه مجدديه مكان شريفيه
بخشدے يا رب محمد مصطفى كے واسطے
حضرتِ صديقِ اكبر با صفا كے واسطے
واسطے سلمان فارس قاسم و جعفر ولى
بايزيد و بوالحسن و بو على يوسف ولى
عبد ِ خالق خواجه عارف حضرتِ محمود پير
خواجه على بابا سماسى كے لۓهو دستگير
حضرتِ ميرِ كلال خواجه محمد نقشبند
حضرتِ يعقوب چرخى عبيد الله زاهد ارجمند
حضرتِ درويش خواجه امكنگى اولياء
باقى بالله شيخ احمد نائبِ خيرُ الورىٰ
خواجه معصُوم عبد الاحد خواجه حنيف پارسا
شاه محمد شاه زمان و حاجى احمد بے ريا
شاه حسين دستگير امام على شاه روشن ضمير
مير صادق بارك الله كے لۓ هو دستگير
واسطه يا رب تجهے دامانِ شاهِ ظفر كا
مياں صاحب محمد ڈاهر نائبِ خيرُ الورىٰ
با طفيلِ خواجگان نقشبندانِ خدا
عشق كا جامِ نشه لبريز هم سب كو پلا
واسطه آخر ميں ديتا ہوں مظہر احسان پير كا
بخشدے يا رب همارے سارے ہى جُرم و خطا
دعا حضرت مولانا نوراحمد چنیوٹی
خلیفۂ حضرت امام علی شاہ مکان شریف
میں بندہ ہوں تیرا گناہوں بھرا
میں منگتا ہوں آقا تیرے در کھڑا
بِھکیارا، دُکھیارا، ناکارہ ہوں میں
دگر نیک بد ہوں تمہارا ہوں میں
میرے پر فضل کی نگاہ کیجئے
میرا کاسۂ دِل کو بھر دیجئے
میں صدقے تیرے نام تُوں اے خُدا
مینوں نام اپنے دی لذت چکھا
بجز نام تیرے نہ ہو کجھ خبر
نہ جنت کی خواہش نہ دوزخ کا ڈر
شجرہ منثورہ
سلسلهِ عاليه نقشبنديه مجدديه مكان شريفيه
بزرگ ہستی | ماہِ مبارک | سال | مزار |
الٰہی بحرمتِ سید المرسلین حضرت محمد مصطفی ٰﷺ | 12 ربیع الاول | 11 ھ | مدینۂ منورہ |
الٰہی بحرمتِ حضرت ابو بکر صدیق ؓ | 22 ربیع الثانی | 13 ھ | مدینہ منورہ |
الٰہی بحرمتِ حضرت سلمان فارسی ؓ | 10 رجب المرجب | 23 ھ | مدائن |
الٰہی بحرمتِ حضرت امام قاسم بن محمد بن ابوبکر ؓ | 24 جمادی الاول | 101 ھ | مدائن |
الٰہی بحرمتِ حضرت امام جعفر صادق ؓ | 15 رجب المرجب | 148 ھ | جنت البقیع |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی ؓ | 15 رمضان | 425 ھ | خرقان |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ بو علی فارمدی طوسی ؒ | 4 ربیع الاول | 470 ھ | طوس |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانیؒ | 12 ربیع الاول | 575 ھ | غجدوان |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ عارف ریوگریؒ | یکم شوال | 616 ھ | ریوگر نزد بخارا |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ محمود محبوب خُدا ؒ | 17 ربیع الاول | 711 ھ | واقنی |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ علی عزیزاں رامیتنیؒ | 27 رمضان | 718 ھ | خوارزم علاقہ بخارا |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ محمد بابا سماسی ؒ | 10 جمادی الثانی | 755 ھ | سماسی قریب بخارا |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ امیر کلالؒ | 15 جمادی الثانی | 772 ھ | سوخار قریب بخارا |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ محمد بہاؤ الدین نقشبندؒ | 3 ربیع الاول | 791 ھ | بخارا |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ مولانا یعقوب چرخیؒ | 5 صفر المظفر | 851 ھ | بلغون |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ عبید الاحرار ؒ | 29 ربیع الاول | 895 ھ | سمرقند |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ مولانا محمد زاہد ؒ | یکم ربیع الاول | 936 ھ | موضع وحشی |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ درویشؒ | 19 محرم الحرام | 970 ھ | مراکش ماوراء النهر |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ امکنگیؒ | 22 شعبان المعظم | 1008 ھ | مراکش ماوراء النهر |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ باقی باللہؒ | 25 جمادی الثانی | 1012 ھ | دہلی |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ شیخ احمدؒ | 28 صفر المظفر | 1034 ھ | سر ہند شریف |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ محمد معصومؒ | 9 ربیع الاول | 1079 ھ | سر ہند شریف |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ عبد الاحدؒ | 27 ذی الحج | 1127 ھ | سر ہند شریف |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ محمد حنیف پارساؒ | یکم صفر المظفر | 1133 ھ | بامیاں کابل |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ محمد مظہریؒ |
| 1143 ھ | مکۂ معظمہ |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ محمد زمانؒ | 4 ذیقعد | 1188 ھ | لواری شریف سندھ |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ حاجیؒ |
| 1223 ھ | قاضی احمد کوٹ سندھ |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ شاہ حسین ؒ | 7 صفر المظفر | 1224 ھ | مکان شریف گرداسپور |
الٰہی بحرمتِ حضرت پیر امام علی شاہ ؒ | 13 شوال المکرم | 1282 ھ | مکان شریف، پنجاب |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ میر صادق علی شاہ ؒ | 27 صفر المظفر | 1301 ھ | مکان شریف پنجاب |
الٰہی بحرمتِ حضرت میر بارک اللہ ؒ | 20 محرم الحرام | 1323 ھ | مکان شریف |
الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ سید محمد ظفر الایمانؒ | 17 ذی الحج | 1350 ھ | حویلی شریف فیصل آباد |
الٰہی بحرمتِ حضرت میاں محمد صدیق ڈاہرؒ | 3 ربیع الاول | 1370 ھ | لیہ ڈیرہ محمد |
الٰہی بحرمتِ حضرت میاں محمد مظہر احسان ڈاہرؒ | 18 ذی الحج | 1420 ھ | لیہ ڈیرہ محمد |
الٰہی بر فقیرِ حقیر، خاکِ پائے بزرگان، لاشئے و مسکین،محمد سلیم نُوری، عُفیٰ عنہ، رحم فرما و محبت و معرفت و جمعیت ظاہری و باطنی و عافیت دارین و بہرۂ کامل از فیوض و برکات ایں بزرگان روزیٔ ما کن رَبَّنَا تَوَفَّنَا مُسلِمِینَ وَاَلحِقنَا بَالصّٰلِحِینَ۔اٰمِین |
شجرہ شریف در فارسی
خاندان عالیشان نقشبندی مجددی مکان شریفی
خُداوندا اُمیدِ ما وفا کُن
طفیلِ مصطفیٰ ﷺ حاجت روا کُن
بحرمتِ بو بکر کان یار فی الغار
نبودش جز رسول اللہ سروکار
بحرمتِ فارسی سلمان قاسم
بجعفر صادق امداد خواہم
بحرمتِ بایزید پیر بسطام
طفیل بوالحسن دیہہ معرفت جام
بحرمتِ بو علی محبوب سبحان
دِلم را محرمِ اسرار گردان
با یوسف طفیلِ عبد خالق
بعارف راہ نمائے پیرِ صادق
بحرمتِ خواجہ محمود پیرے
طفیل رامیتنی دستگیرے
نصیبم کن طریقِ حق شناسی
بحرمتِ حضرت بابا سماسی
(فارسی شجرے کے یہی اشعار میرے پاس کتاب میں تھے، کتاب کے باقی اوراق موجود نہ ہونے کے سبب صرف حصولِ برکت کیلئے یہ یہاں درج کیا گیا ہے۔ نوری)
اجازت نامہ
- یہ متن نوری آستانے کی ملکیت ہے۔ اسے یا اس کے کسی حصے کو (بعینہٖ یا تبدیلی اور خورد برد کر کے) تجارتی یا دیگر کسی بھی مادّی مقاصد و مالی منفعت کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی، اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
- اس تحریر کو جو پڑھے اور مسلمانوں کے لئے کارآمد جان کر نیک نیتی کے ساتھ اسے یا اس کے کسی باب یا حصے کو صرف اور صرف تبلیغِ اسلام کے لئے چھپوانا چاہے یا اپنی کسی تحریر میں (Verbatim) پیش کرنا چاہے، یا اس کی وربیٹم نقول (جیسے کمپیوٹر کاپی) تیار کرنا چاہے تو اسے اس کی پوری اجازت ہے۔
Updated onMar 14, 2022 An Aastana-e-Noori Document
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔