حمل کی مدتیں

شکمِ مادر میں

ایک انسان ماں کے پیٹ میں سات مختلف حالتیں اختیار کرتا ہے جس کا ذکر ان آیاتِ مباکہ میں ہے۔

{ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ (12) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (13) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (14) ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (16) وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ (17) }

[المؤمنون:12-17]

ترجمہ:

اور بیشک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی (انتخاب کی) مٹی سے بنایا۔ پھر اسے پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤ میں۔ پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بتانے والا۔ پھر اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو، پھر تم سب قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے، اور بیشک ہم نے تمہارے اوپر سات راہیں بنائیں اور ہم خلق سے بے خبر نہیں۔

حمل کی مدتیں

ہر انسان عموماً نو مہینے (چالیس ہفتے یا ۲۷۰؍ ایام) ماں کے پیٹ میں گزارتا ہے۔ لیکن یہ مدت ہر ایک کیلئے مساوی نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو اس سے مختلف عرصہ گزارتے ہیں۔

ماں کے پیٹ میں انسان کم سے کم چھے مہینے اور زیادہ سے زیادہ چار سال رہ سکتا ہے۔  اور یہ بات تاریخی حوالوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ

عبد الملك بن مروان (حاکمِ مدینہ) چھے ماہ میں شکم مادر میں رہا، شعبی[1] (راویٔ احادیث) سات ماہ رہے، اسی طرح جرير بن الخطفى[2] بھی سات ماہ میں پیدا ہوئے، اور محمد بن عجلان[3] (مولى فاطمة بنت الوليد) تین سال سے زائد شکمِ ماہ میں رہے۔

حضرت ضحاک

امام شمس الائمہ سرخسی مبسوط میں فرماتے ہیں:

یعنی منقول ہوا کہ امام مفسر محدت ضحاک[4] چار برس ماں کے پیٹ میں رہے، پیدا ہوئے تو اگلے چاروں دانت نکل چکے تھے، ہنستے معلوم ہوتے تھے اس لئے ضحاک نام رکھا گیا (یعنی بہت ہنسنے والے)، اور امام محدث عبد العزیز ماجشونی بھی چار برس حمل میں رہے، اور بنی ماجشون[5] کی عورتوں کی یہ عادت مشہور ہے کہ بچہ ان کے پیٹ میں چار برس رہتا ہے۔

امیرالمومنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے عہد مبارک میں ایک صاحب اپنی زوجہ کو وطن میں چھوڑ کر سفر کو گئے، دو برس بعد واپس آئے تو عورت کو حاملہ پایا، ایک مدت بعد بچہ ہوا (قد نبتت ثنیتاہ یشبہ اباہ) اس کے اگلے چاروں دانت پیٹ ہی سے نکل چکے تھے، صورت میں اپنے باپ سے مشابہ تھا۔

 اقول(میں کہتا ہوں کہ) حدیث کے شروع میں ہے کہ عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس عورت کو رجم کرنے کا قصد فرمایا تو ان سے حضرت معاذ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ اگرچہ آپ کو اس عورت پر قدرت ہے مگر اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس پر آپ کی قدرت نہیں، تو اس پر عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عورت کو چھوڑدیا حتی کہ اس عورت نے ایسے بچے کو جنم دیا جس کے دانت نکل چکے تھے۔

دارقطنی و بیہقی اپنے اپنے سنن میں ولید بن مسلم سے راوی، امام دار الہجرۃ و عالم المدینه سیدنا امام مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ھذہ جارتنا امرأۃ محمد بن عجلان امرأۃ صدق وزوجھا رجل صدق حملت ثلثۃ ابطن فی اثنی عشرۃ سنۃ کل بطن فی اربع سنین۔

یہ ہیں ہماری ہمسائی محمد بن عجلان کی بی بی، یہ سچی عورت اور وہ سچے مرد، ان کے تین حمل بارہ۱۲؍ برس میں ہوئے، ہر حمل چار سال میں۔

اور کہا جاتا ہے کہ حضرت روح اللہ آٹھ ماہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہے تھے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اٹھوانسا بچہ جیتا نہیں۔ اور ساتواں اور چھے ماہا بچ جاتا ہے۔

«وولد المسيح عيسى، صلى الله عليه، لثمانية أشهر، يقال لذلك لا يبقى مولودٌ لثمانية أشهرٍ، ويبقى لسبعةٍ ولستةٍ»

[«الجراثيم» (1/ 138)]

کتاب جراثیم میں حضرت عمر سے یہ قول منسوب ہے کہ جس عورت کے شوہر کی کوئی خبر نہ ملے (مفقود الخبر ہوجائے، یعنی غائب ہوجائے) تو پہلے وہ عورت (مفقود الخبر کی بیوی) چار سال تک اپنے آپ کو روکے، پھر چار مہینے دس دن گنے اس کے بعد اگر چاہے تو کسی دوسرے شخص کو شوہر بنالے۔

«قال عمر بن الخطاب: "أيّما امرأةٍ فقدت زوجها فلم تدرِ أين هو فإنها تتربص أربع سنين، ثم تعتدُّ أربعة أشهرٍ وعشراً ثم تتزوج إن شاءت"»

[«الجراثيم» (1/ 137)]

حضرت علی نے فرمایا کہ ایسا نہیں۔ اسے چاہیئے کہ صبر کرتی رہے۔ وہ اس وقت تک کسی سے نکاح نہیں کرسکتی جب تک اس کا شوہر مر نہ جائے یا اسے طلاق نہ دیدے۔ اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس (حق) حضرت علی کے ساتھ ہے۔

قال علي: "قد بليت فلتصبر ليس لها أن تتزوج أحداً حتى يصحَّ فقده أو طلاقه". قال الشافعي: القياس مع عليّ

دور سے اولاد

یاد رکھیں کہ فقہاء کرام نے ثبوت نسب میں نکاح موجود ہونے کو کافی قرار دیا اگرچہ جماع نہ پایاجائے، جیسے کوئی مغرب میں رہنے والا شخص مشرق میں رہنے والی عورت سے نکاح کرے اور دونوں کے درمیان سال بھر کی مسافت ہو اور اس عورت کے ہاں وقتِ نکاح سے چھ ۶؍ ماہ بعد بچہ پیدا ہو تو نسب نکاح والے کا ہوگا کیونکہ کرامت اور استخدام کے طور پر یہ ممکن ہے اور متصور ہے۔


[1] عامر بن شراحیل شعبی حمیری کوفی: امام شعبی صحاح ستہ کے ثقہ راوی اور عظیم محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں عامر بن شراحیل الشعبی کو ہی امام شعبی کہا جاتا ہے۔ عامر نام، ابو عمر کنیت، شعبی قبیلہ کی نسبت ہے لیکن شہرت کی وجہ سے اس نسبت نے لقب کی حیثیت اختیار کرلی ہے، یمن کے نامور حمیری خاندان میں حبان بن عمرو ایک مشہور اورتاریخی شخص گزرا ہے، یہ شخص یمن کی ایک پہاڑی ذو الشعبین میں پیدا ہوا تھا اور مرنے کے بعد یہیں دفن ہوا، اس لیے وہ خود ذو الشعبین مشہور ہو گیا، اس کے بعد اس کی نسل میں بھی یہ نسبت قائم رہی، اس کی نسل کی ایک شاخ فتوحات اسلامی سے قبل سے ہمدان میں آباد تھی، پھر اسلامی عہد میں کوفہ میں بس گئی، یہ شاخ شعبی کہلاتی تھی، عامر بن شراحیل اسی شاخ سے تھے، ان کی ولادت عمر فاروق کے دور خلافت21ھ میں کوفہ میں ہوئی۔ اس لحاظ سے آپ تابعی تھے خود فرماتے کہ ''میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی''۔ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ سے بھی روایت کی ہے۔ حافظہ اتنا قوی تھا کہ کبھی کاغذ قلم اور دوات کے شرمندۂ احسان نہیں ہوئے ،ایک مرتبہ جو حدیث سن لی وہ ہمشہ کے لیے سینہ میں محفوظ ہوگئی، ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی بیاض کو کتابت سے سیاہ نہیں کیا، یعنی کبھی لکھا نہیں، جب کسی نے کوئی حدیث سنائی تو وہ میرے سینہ میں محفوظ ہوگئی اور اس کے دوبارہ سننے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ابو مجلز کہتے تھے کہ میں سعید بن مسیب، طاؤس، عطاء، حسن بصری اور ابن سیرین کسی کو بھی شعبی سے بلند مرتبہ فقیہ نہیں پایا۔

[2] Jarir ibn Atiyah al-Khatfi Al-Tamimi (Arabic: جرير بن عطية الخطفي التميمي) (c. 650 – c. 728) was an Arab poet and satirist. He was born in the reign of the caliph Othman, and was a member of the tribe Kulaib, a part of the Banu Tamim. He was a native of al-Yamamah, but also spent time in Damascus at the court of the Umayyad caliphs.

[3] رَوَى: عَبَّاسُ بنُ نَصْرٍ البَغْدَادِيُّ، عَنْ صَفْوَانَ بنِ عِيْسَى، قَالَ: مَكَثَ ابْنُ عَجْلاَنَ فِي بَطْنِ أَمِّهِ ثَلاَثَ سِنِيْنَ، فَشُقَّ بَطْنُهَا، فَأُخرِجَ مِنْهُ، وَقَدْ نَبتَتْ أَسْنَانُه. وُلِدَ: فِي خِلاَفَةِ عَبْدِ المَلِكِ بنِ مَرْوَانَ.

[4] حافظ ابوبکر احمد بن محمد ضحاک شیبانی بصری: حضرت سيِّدُنا ضَحَّاک بصری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا لقب"نَبِيل" ہے، اس لقب کی وجہ یہ ہوئی کہ ايک دن حضرت سَیِّدُنا امام ابنِ جُرَيج رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی درس گاہ ميں (علمِ دِین دین سیکھنے کے لئے) مَوْجُود  تھے کہ اچانک وہاں سےايک ہاتھی کا گزر ہوا۔ تمام طَلَبہ دَرْس چھوڑ کر ہاتھی ديکھنے چلے گئے، مگر یہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے، حضرت سَیِّدُنا امام ابنِ جُريج رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے پوچھا: 'ضحّاک! تم ہاتھی ديکھنے کيوں نہيں گئے؟' عرض کی: ہاتھی آپ کی صُحبت سے بڑھ کر نہيں! یہ جواب سُن کر حضرت سَیِّدُنا امام ابنِ جُريج رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمايا: "اَنْتَ النَّبِيل" یعنی تم تو بہت شاندار ہو۔ (تہذيب التہذيب،حرف الضاد، من اسمہ ضحاک، الضحاک بن مَخْلَد،۴/۷۹، رقم:۳۰۵۷)

الاسم: الضحاك بن مخلد بن الضحاك بن مسلم ابن الضحاك

الكنية: أبو عاصم

اللقب: النبيل, الحافظ

تاريخ الميلاد: ١٢١ هـ،

تاريخ الوفاة: ٢١١ هـ،

[5] بنی ماجشون ایک قبیلے کا نام ہے۔ عبدالملک بن عبد العزیز بن عبداللہ بن ابی سلمۃ، ابو مروان الماجشون؛" ماجشون" سرخ وسفید رنگت والے کو کہتے ہیں، چہرے کی سرخی کی وجہ سے یہ نام پڑگیا۔ (ترتیب المدارک 3/133، الدیباج المذھب 1/153)

احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ ان کا لقب ماجشون کیسے پڑگیا تو فرمانے لگے: ایک فارسی کلمہ کی بنا پر، کیونکہ یہ جب بھی کسی آدمی کو ملتے تو کہتے "شونی شونی: تو ان کا لقب ماجشون پڑگیا۔ ابراهیم الحربی کہتے ہیں ماجشون فارسی کا لفظ ہے اور ان کا یہ لقب اس وجہ سے پڑا کہ ان کے رخسار سرخ تھے۔


تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

پوسٹ پر اپنا تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سب پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع