Heart Fields

ایل ایچ سی:
وہ دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ، ایل ایچ سی، جس کا مقصد ہی فیلڈز اور پارٹکلز کی تلاش تھا، وہ بھی محبت کی فیلڈ کا سراغ نہیں لگا سکتا۔ وہی محبت جسے ایک شیر خوار بہ آسانی محسوس کر لیتا ہے بلکہ جواب میں محبت کا رد عمل یعنی محبت پیش کرتا ہے۔ یقیناً اب کچھ اندازہ ضرور ہوا ہوگا کہ کیا نعمت ہے دل، خالق کائنات کا ہمارے لئے ایک بہترین تحفہ۔

شخصی فیلڈز:
اب تک جن فیلڈز کی پوسٹ کی تھیں، وہ کوانٹم فزکس کے مطابق یونیورسل تھیں، فطرت میں ہر طرف پھیلی ہوئیں اور پہلے سے موجود۔ لیکن اب جن فیلڈز کی بات ہو گی وہ شخصی اور ذاتی اور وجود کی فیلڈز ہیں۔ آپ انہیں لوکل فیلڈز بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور چاہیں تو آسانی کیلئے انہیں فلک (فیلڈ کا گھیرا) بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ہر موجود اپنے وجود کی فیلڈ میں ہی زندگی گزارتا اور ہاتھ پیر چلاتا ہے۔
 موجودات میں سے ہر شئے کے گرد اس کی اپنی فیلڈ (اشعاع ذاتیہ کا میدان یا وادی) موجود ہوتی ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کی اپنے وجود کی وجہ سے جو فیلڈ پیدا ہوتی ہے وہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ ذی روح اور دھڑکتے دل والے اجسام کی فیلڈ دیگر فیلڈز سے عموما طاقتور اور غالب ہوتی ہے۔
حیرت انگیز دل:
 قلب انسانی کو اللہ پاک نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ یہ ہر قسم کی فیلڈ کو نہ صرف محسوس کرسکتا ہے بلکہ دنیا کی ہر قسم کی یونیورسل فیلڈ کو مقامی طور پر پیدا کرسکتا ہے۔ مقناطیسی، برقی، تجاذبی، الیکٹرانی، کوارکسی بلکہ ہگز فیلڈ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اگر آپ کچھ دشواری محسوس کر رہے ہیں تو اسے التواء (Pending) کے خانے میں ڈال دیں، صرف پانسو سال کیلئے۔
 یہ اس برقناطیسی فیلڈ کی بات نہیں ہو رہی جو دماغی کرنٹ کی وجہ سے ویسے ہی ہر وقت قلب انسانی میں موجود ہوتی ہے۔ سائنسدان ان کو ثابت کرچکے ہیں اور اس کی وجہ سے ہونے والی کمیونیکیشن (روحانی بات چیت) کو بھی۔ یہاں ان فیلڈز کا ذکر ہے جو اس وقت تو موجود نہیں لیکن قلب انسانی جب چاہے، ضرورت کے وقت ان کو پیدا کرسکتا ہے۔
نوری الہامات کی جگہ:
 یونیورسل فیلڈز کے علاوہ قلب انسانی درجنوں قسم کی وہ فیلڈز بھی پیدا کرسکتا ہے جس کا تعلق انسان کے جذبات و احساسات اور بے شمار کمالات سے ہے۔ سائنسدان انسانی دماغ کو حیرت انگیز کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قلب انسانی شاہکار قدرت ہے اور انسانی دماغ سے کہیں زیادہ پراسرار۔ انسانی دماغ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، ریسرچ کے ذریعے اسے ایکسپلور کیا جاسکتا ہے اور لیبارٹریز میں اس کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ جبکہ بچپن شریف اور معراج شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو سینۂ اقدس سے نکال کر اسے (زمزم شریف یا جنت کے پاک پانی سے) غسل دیا گیا، جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ یہ اس کی غیر معمولی اہمیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ اسی لئے روحانی سائنسدان (صوفیائے کرام) قلب اور سینے پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یہ نوری الہامات کی جگہ ہے۔
منبع سے غیر متصل فیلڈ:
 سائنسدان کسی فیلڈ کو اس کے منبع (سورس) سے غیر متصل (جدا) نہیں کر سکتے۔ فیلڈ اپنے منبع سے شروع ہوکر دور دراز فاصلوں تک بتدریج کمزور ہوتی جاتی ہے اور درمیان میں کہیں بھی غیر متصل (ڈس کنیکٹ) نہیں ہو سکتی۔ وہ انورس اسکوائر لاء (چورس کے مربع کے معکوس کا قانون) کی مکمل پیروی کرتی ہے۔
 قلب انسانی غیر متصل فیلڈ پیدا کرسکتا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ جہاں دل ہو، وہاں اس کی پیدا شدہ فیلڈ نہ ہو، اور جہاں فیلڈ ہو وہاں انسان موجود نہ ہو۔ جیسے کسی قلب کی فیلڈ چاند پر پیدا ہو اور انسان زمین پر۔ اور درمیان میں کہیں نہ ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ کمال ہے کہ ایک تربیت یافتہ قلب کسی دوسرے غیر تربیت یافتہ قلب سے (ہزاروں میل کی دوری کے باوجود) اس کی اپنی فیلڈ پیدا کرا سکتا ہے۔ اور اسے اپنی فیلڈ پیدا کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔
قلبی فیلڈز اور پر اسرار علوم:
 ٹیلی پیتھی، تھاٹ ریڈنگ، تھاٹ ٹرانسفرینس، دور بینی (telegnosis)، ہپناٹزم، مسمر ازم، چھٹی حس، نسمہ (Aura)، ٹیلی کائینیسس (telekinesis)، مستقبل بینی (precognition)، ریکی اور دیگر پراسرار علوم اور ماورائے حواس ظاہری (E.S.P) مظاہر کے کرشمے صرف متعلقہ فیلڈ سے کامیابی کے ساتھ جڑنے کا نام ہے۔
سریانی زبان:
 حضرت عبد العزیز دباغ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اولیاء کرام سریانی زبان میں گفتگو فرماتے ہیں۔ کیونکہ اس میں سارا مضمون صرف ایک حرف سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور شیخ اکبر، امام ہمام، امام کشف و علوم حضرت محی الدین ابن عربی نے اشبیلیہ میں اپنی کچھ خاص اولیاء سے ملاقات کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں الفاظ کے بنا ہی سارا مضمون ادا ہو جاتا تھا۔ یہ سب ایک دوسرے کی فیلڈ میں ضم ہونے ہی کی اعلی مثالیں ہیں۔ یہی سریانی زبان کا سمجھنا ہے۔
منطق الطیر:
حضرت شیخ فرید الدین عطار نے ایک کتاب منطق الطیر نامی لکھی ہے جس میں پرندوں کی گفتگو کا ذکر ہے۔ انسان تو انسان، جانور بھی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ منطق الطیر ایک وہبی (عطا کردہ) علم ہے اور قرآن پاک سے ثابت ہے۔ خود مجھے اس کا کئی بار تجربہ کرایا گيا۔ میرے بچوں نے ایک چوزہ پالا، وہ بڑا ہو گیا اور ساری چھت پر گھومتا پھرتا اور گندگی پھیلاتا۔ مجھے آستانے کے قریب اس کا گندگی پھیلانا اچھا نہ لگا تو ایک دن اسے گود میں لیا اور دھیرے سے اس کی گردن پر چپت لگائی اور پیار سے کہا،" لڑکے، آستانے کے تقدس کا خیال کیا کرو۔" اس دن کے بعد سے آستانے کے پاس اس نے کبھی گندگی نہیں پھیلائی۔ ایک بار بچوں نے کہا کہ ہمارا مرغا کئی دن سے کچھ کھا نہیں رہا اور بالکل لاغر ہو گیا ہے۔ میں نے دھیان نہ دیا۔ ایک دن میں آستانے میں مطالعہ کر رہا تھا کہ وہ باہر آکر کھڑا ہو گیا اور بزبان فصیح کہنے لگا" حضرت، آپ مجھ پر کب دم کریں گے اور توجہ فرمائیں گے؟" خیر، میں نے اس پر دم کیا، شام تک وہ بھلا چنگا ہو گیا تھا اور ساری چھت پر دوڑتا پھرتا تھا۔ اسی طرح ایک بار آفس کینٹین سے باہر نکل رہا تھا کہ کسی نے میرا نام پکارا۔ میں نے دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ آواز دوبارہ سنائی دی ،"سلیم قادری، کب سے مدد کا کہہ رہا ہوں، کوئی سنتا ہی نہیں۔" غور سے دیکھا تو ایک جوان مینڈک دکھائی دیا، میں حیران تھا کہ اسے کیا ہوا۔ پتا لگا کہ کوئی صاحب بے دھیانی میں اس کی ٹانگوں پر چڑھ گئے ہیں اور وہ چھلانگ لگانے سے معذور ہوکر راستے میں پڑا ہے۔ اپنے کچلے جانے کے ڈر سے اس نے مجھے آواز لگائی تھی۔ یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ تھا۔ اس لئے اتنا حیران ہوا کہ گویا ہلنے سے قاصر، آخر اپنے ایک دوست سے کہا کہ اسے سائیڈ میں کردے۔ اسی طرح ایک بار اعظم صاحب نے فرمایا کہ کل میرے پاس ایک بلی آئی اور بھوکی ہونے کی شکایت کی۔ میں نے فورا اپنے صاحبزادے کو بازار بھیجا اور اس کیلئے گوشت منگوایا۔
 یہ واقعات نہ تو قصے کہانیاں ہیں اور نہ ہی کشف و کرامت کا اظہار۔ کرامت کا اظہار تو وہ کرے جو صاحب کرامت ہو، ہم سے فقیر تو نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ اور پھر یوں بھی آیا ہے کہ
ہر کہ او لا کشف او گویند سخن !
کشف او را کفش کن بر سر وزن
یعنی جو شخص اپنے کشف کی باتیں بتانے لگے تو اس کے کشف کو کفش (جوتا) بنا کر اس کے سر پر دے مارو۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس کا مجھے مشاہدہ کرایا گیا۔ صاحب کرامت تو وہ ہے جس نے مجھے اس مشاہدے کیلئے چنا۔ ہاں جن لوگوں کیلئے میرے مشاہدات کوئی اہمیت رکھتے ہیں، ان سے عرض کرتا ہوں کہ ہر بار جب مجھے کوئی ایسا مشاہدہ کرایا گیا، میں نے اپنے آپ اور ماحول میں ایک تبدیلی محسوس کی جسے اب میں الفاظ میں بیان کرسکتا ہوں۔ وہ ایک نئی فیلڈ میں داخلے کی مانند تھا، جس میں اپنی ذاتی فیلڈ بدستور موجود ہونے کے با وجود دوسری فیلڈ کے ادراک کرنے اور اس سے جڑنے کی صلاحیت تھی۔
وقت ایک فیلڈ ہے:
 ٹائم ایک فیلڈ ہے : سائنسدان خلا کو تو ایک فیلڈ مانتے ہیں، لیکن وقت بھی ایک فیلڈ ہے، ابھی تک انہوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ اور نہ ہی انہیں اس کا کوئی شعور و ادراک ہے۔ بلا شبہ وقت بھی اسپیس ہی کی طرح ایک فیلڈ ہے۔ لیکن اس فیلڈ کا نور دوسرا ہے اور کافی لطیف اور دھارا الگ۔ جو ٹائم اور اسپیس کی فیلڈز سے جڑنا سیکھ لے، اس کیلئے دور اور نزدیک ایک سے ہو جاتے ہیں اور ماضی و مستقبل کو حال کی طرح مشاہدہ کرتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
در راہ عشق مرحلۂ قرب و بعد نیست
می بینمت عیاں و دعا می فرستمت
 یعنی راہ عشق میں دوری اور نزدیکی (خواہ وہ زمین کی ہو یا زمان کی) کے مرحلے نہیں ہوتے۔ میں تجھے بر ملا دیکھتا اور دعا کرتا رہتا ہوں۔
روح کی فیلڈ:
 جب ہر وجود کی ایک فیلڈ ہے، تو روح بھی وجود رکھی ہے، اگرچہ ہوا کی مانند اس کا جسم نہیں ہوتا۔ اس کی بھی ایک فیلڈ ہوتی ہے۔ جو شخص اپنے گرد روحانی فیلڈ پیدا کر لیتا ہے، وہ روحوں سے رابطہ کرسکتا ہے۔ نہ صرف موجودہ، بلکہ ایسا شخص ماضی کے اولیاء اللہ کی روحوں سے بھی اخذ فیض کرسکتا ہے۔ ہمارے شاندار ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہر شخص اس کا اہل نہیں ہوتا۔
دعوت ارواح:
بڑے حضرت صاحب ایک بار حضرت عبد اللہ شاہ اصحابی (مکلی، ٹھٹھہ) کے مزار شریف پر مراقب ہوئے۔ آپ کے ہمراہ ایک دوست تھے جن کا تعلق اس وقت جماعت اسلامی سے تھا۔ میری ان سے ملاقات ہوئی ہے اور ان سے ہی میں نے یہ سارا واقعہ سنا۔ آپ کے دوست فرماتے ہیں کہ وہ شدید سردیوں کے دن تھے۔ حضرت صاحب کافی دیر مراقب رہے۔ پھر میں نے حضرت صاحب کے چہرے پر پریشانی اور کچھ خوف کے آثار دیکھے۔ پھر آپ کا سارا بدن با وجود شدید سردی کے پسینے میں شرابور ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے آپ کے چہرے پر فرحت اور سکون کے آثار دیکھے۔ پھر آپ مسکرائے اور تھوڑی دیر بعد مراقبے سے باہر تشریف لائے۔ میں نے ان سے خیریت دریافت کی اور ماجرا پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ بزرگ جو عوام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی مشہور ہیں، یہ دراصل غوث پاک کی اولاد میں سے ہیں۔ جب میں نے ان کی روح کو طلب کیا تو مجھے معلوم نہ تھا کہ ان کی روح بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کیلئے مدینۂ پاک گئی ہوئی ہے۔ میں نے انہیں طلب کیا تو انہیں شدید غصہ آیا اور وہ غصے میں بھرے ہوئے مجھ تک آئے۔ ان کے جلال کی وجہ سے میں ان کے سامنے ایسا ہوگیا جیسے کسی مہیب شہباز کے سامنے ایک ننھی سی چڑیا۔ میں سمجھا کہ آج تو گئے۔ پھر اللہ کے کرم نے رہنمائی فرمائی اور میرے دل میں گنبد خضرا کے تصور کا القا کیا۔ جب میں نے تصور کیا تو ان کا جلال کچھ کم ہوا اور تھوڑی ہی دیر بعد کیفیت بدل گئی۔ اور وہ میرے سامنے ایسے ہوگئے جیسے میں شہباز تھا اور وہ چھوٹی سی چڑیا۔ یہ سب تصور گنبد خضرا کا فیض تھا جس کا ادب ہر ولی کی روح کرتی ہے۔
نوٹ : عبد اللہ شاہ اصحابی کی ولادت 1521 میں ہوئی۔ تذکرہ اولیائے سندھ میں مرقوم ہے کہ آپ کو رسول اکرم ﷺ کی ظاہری آنکھوں سے زیارت ہوئی تھی اس لئے بھی صحابی مشہور ہوئے۔ ہر سال شعبان کی 13 تاریخ سے آپ کے مزار شریف پر سہ روزہ عرس شروع ہوتا ہے۔
فرشتوں کا نور:
اگرچہ کہ  فرشتوں کا نور بہت ہی لطیف ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب فرماتے تھے کہ میں کراما کاتبین کو دیکھا کرتا تھا اور دیکھتا تھا کہ میرے بائیں ہاتھ والا فرشتہ بے انتہا مصروف ہے اور لکھے جا رہا ہے۔ اور دائیں ہاتھ والا فرشتہ بالکل فارغ بیٹھا ہے۔ ابراہیم بن ادھم اور کئی بزرگوں (اور صحابۂ کرام) سے ان کی رویت بارہا ثابت ہے۔ جبریل امین اور دیگر فرشتے مؤمنین سے شب قدر میں مصافحہ کرتے ہیں۔ ذکر کی محفلوں میں سیاح فرشتے آتے ہیں اور ذاکرین کو مبارکباد دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں ہم جانتے ہی ہیں۔ ہماری ظاہری آنکھیں (عام طور سے) فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتیں لیکن فرشتے (بغیر اذن خصوصی کے) ہماری روح کو نہیں دیکھ سکتے۔ جو شخص نورانی فیلڈ کو محسوس نہ کر پائے، اسے مؤکّلاتی وظائف دینا ایک طرح سے اس پر ظلم ہے۔ ایسا شخص نقصان ہی اٹھائے گا۔ جنات، ہم زاد اور اپنے جسم لطیف اور نسمہ کو قابو میں کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ قرآن پاک میں ہر نادیدہ اور غیر مرئی زمینی مخلوق (فرشتوں کے علاوہ) کو جنّ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
کیسے پتا چلے کہ اس پر جادو ہے؟
 بہت سے لوگوں کو یہ جاننے کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ آخر یہ کیسے معلوم ہو کہ کسی پر جادو ہے، بندش ہے یا اسے جنات نے گھیر رکھا ہے یا یہ اس کے اپنے گناہوں کی شامت ہے یا اور کوئی وجہ ہے۔ فیلڈ کے تصور سے آگاہ ہو جانے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اب اس سوال کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لوہا کیسے جان لیتا ہے کہ سامنے مقناطیس ہے یا کچھ اور؟ جو فیلڈ کا ادراک کر لے، اسے کیا مشکل؟ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ پروردگار اپنی مخلوقات میں جس چیز کا چاہتا ہے اضافہ فرماتا ہے۔ کوئی خوبصورت آواز میں قرآن نہ پڑھ سکے تو کسی اور کا اس میں کیا دوش؟
نہر حیات:
 جسے نہر حیات کی آگاہی حاصل ہوجائے، اسے مردے زندہ کرنے میں بھلا کیا چیز مانع ہو؟ حضرت مجدد الف ثانی رحمت اللہ علیہ ایک شعر نقل فرماتے تھے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ "اگر روح القدس میری مدد فرمائے تو میں بھی اسی طرح مردے زندہ کرسکتا ہوں جیسے حضرت مسیح زندہ کیا کرتے تھے۔" جس کی لاٹھی کا تعلق اس نہر سے جوڑ دیا جائے، تو لاٹھی میں جان دوڑ جائے، اور ہاتھ سے اس جاندار کا تعلق جوڑ دیا جائے تو پھر لاٹھی ہوجائے۔ امت مسلمہ میں غوث پاک، امیر کبیر علی ہمدانی اور دیگر بزرگوں سے مردوں کا زندہ کر دینا ثابت ہے۔ موسی علیہ السلام نے یونہی تو نہیں فرما دیا کہ یا اللہ مجھے اس نبی کا امتی بنا دے۔ آخر کوئی تو شان عظیم ہو گی اس امت کی۔ جس امت کے ولی کی کھڑاؤں میں زندگی کا احساس اور ولی اور اس کے دشمن کا ادراک ہو، بلا شبہ اسے کوئی نبی بھی دیکھے گا تو وہی کہے گا جو حضرت کلیم نے حق تعالی کی بارگاہ میں عرض فرمایا۔
دل کوئی معمولی شئے نہیں۔ اس کیلئے قلب، فئد اور نفس کے الفاظ قرآن پاک میں استعمال کئے گئے ہیں۔ چنانچہ لفظ قلب کے 67 مشتقات 168 بار قرآن پاک میں آئے ہیں۔لفظ فئد کے 12 مشتقات 16 بار آئے ہیں اور نفس کے 4 مشتقات 298 بار قرآن شریف میں آئے ہیں۔ اور مجھے ایک آیت مبارکہ ایسی بھی ملی جس میں قلب اور فئد دونوں الفاظ جمع ہیں اور دونوں ہی دل کیلئے آئے ہیں:
وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِغًا إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿القصص: ١٠﴾
اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہوگیا ضرو ر قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے اس کے دل پر کہ اسے ہمارے وعدہ پر یقین رہے۔
بے شک دل کوئی معمولی شئے نہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جب وہ سدھر جاتا ہے تو سارا بدن سدھر جاتا ہے، اور جو بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔ اسی لئے ارشاد فرمایا گيا کہ علم تو بس دو ہیں، ایک زبان پر اور ایک دل میں۔ اور جو علم دل کا ہوتا ہے وہی نفع بخشتا ہے۔
قلب کی طرف آؤ:
اب قلبی نیکیوں کی طرف بھی آجاؤ کہ اسی میں ساری بھلائی پوشیدہ ہے۔جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا، اس میں سے اکثر تو میرے دل میں ہی ہے۔ بس مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بھی بہتر ہوتی ہے۔ کوئی چیز تشریح طلب ہو تو آستانہ حاضر ہے۔
بے شک ہم نے خزانے کا نقشہ تجھے دے دیا ہے، اس امید پر کہ جس خزانے تک ہم نہ پہنچ پائے، ہو سکتا ہے کہ تو اسے حاصل کر لے۔
Please see my Quantum Fields Post for more details .


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مبین والی آیات قرآنیہ

Advantages of Using Urdu Phonetic Keyboard

حدائق بخشش کی مکمل شاعرانہ تقطیع